تتمہ
حضرت صاحب کی وفات کے حالات اور ان کی وفات اور تدفین
جب حضرت صاحب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اپنے فرزندوں کو مرض موت میں فرمایا کہ جب مجھ پر مرض کی تکلیف بڑھ جائے تو بے گانے لوگ میرے نزدیک نہ رہنے دینا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسرار ربّی کے فاش کرنے سے محفوظ رکھا، مبادا کہ بیماری کی شدت کے باعث کچھ ظاہر کروں اور وہ لوگ پھر اس کو فاش کریں تو یہ اچھا نہ ہوگا۔ کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کرم سے کوئی چیز معلوم کر لے تو وہ شدنی بات ہوتی ہے اور وہ لازمی ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اور جو کچھ تقاضائے طبعی کے طور پر خواہش ہو تو وہ کبھی ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ظاہر نہیں ہوتی، چنانچہ اس مرض میں آپ کی زبان سے دو باتیں صادر ہوئی تھیں، ایک یہ کہ آپ نے فرمایا تھا: جس گاؤں میں آپ کی سکونت تھی وہ ویران ہو جائے گا، چنانچہ کہا کرتے تھے کہ اے رب العالمین! اس جگہ کو ایسا ویران کر کہ دیکھنے والوں میں سے کوئی بھی یہ نہ جان سکے کہ یہاں کوئی آبادی تھی یا نہیں۔ چنانچہ دیکھنے والوں کو اب یہ پتہ تک نہیں کہ یہاں جوان مَردوں کی آبادی بھی تھی اور وہ جوان مرد لوگ گزر چکے ہیں۔
دوسری بات بقا باللہ اور فنا فی اللہ کے بارے میں خود آپ نے ارشاد فرمایا تھا چنانچہ اس بیماری کے دوران اپنے بھائی شیخ عفان کے ساتھ بقا کی حقیقت کا بہت دفعہ ذکر کیا تھا اور ان کو یاد دلایا تھا کہ اے برادرِ عزیز شیخ عفان! کیا تم کو وہ بات یاد ہے کہ مجھے شہباز خان نے ضیافت کی خاطر اکوڑہ خٹک بلایا تھا اور جب میں تمیم کی وادی کے کنارے پہنچا تو ہمارے سامنے ایک بجلی چمک کر ظاہر ہوئی تھی اور میں نے اس میں کلمہ طیبہ کا مکمل معنیٰ سیکھ لیا تھا اور ظاہری لوگوں نے جو معنیٰ سیکھا ہے یہ اُس سے دوسری قسم کا معنیٰ تھا اور اس کے بعد نذرانے کے جانور جو دامنِ کوہ میں تھے، میں نے اس غرض سے منگوا لیے تاکہ انہیں شہباز خان کے گھر میں فقیروں پر خرچ کر سکوں۔ پھر میں نے منع کر کے کہا کہ وہ جانور نہ لائے جائیں کہ میں نے خدا کو اپنا کارساز جانا ہے، وہاں بھی اللہ تعالیٰ کوئی سبب بنائے گا۔ جب میں اکوڑہ کے گاؤں میں پہنچا تو گاؤں میں غل مچا اور شہر کے اکثر لوگ دنیاوی مال سے دستبردار ہو گئے۔ اور میں نے یہ بھی سُنا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ خدا فلان فلان کا بیڑہ غارت کرے کہ مجھے شہباز خان کی ضیافت پر بلایا کہ شہر میں ایک مصیبت آ گئی، اور جب راستے میں اس مقام پر پہنچ گئے جہاں اب حضرت صاحب کا مبارک روضہ ہے، جب اس وادی کے سِرے پر پہنچ گئے تو مریدوں میں سے ایک مرید نے افغانی وزن پر عربی کا ایک شعر پڑھا، اس شعر کے سُنتے ہی آپ پر ایسے جذبات الٰہی طاری ہوئے کہ لوگوں کے درمیان میں سے گھوڑی پر ایک لمبی دوڑ لگا دی، اور اس کے بعد اُن کے مبارک کندھے سے چادر مبارک اُتار کر اُن کے سر پر چھتری بنا کر سایہ کیا۔ لمحہ بہ لمحہ اُن کا جذبہ زیادہ ہو رہا تھا جب تمیم کے مقام پر محبت کے بالوں سے معرفت کی بجلی چمکی اور جمال ذات کے مکاشفہ کی حقیقت ظاہر ہو کر فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے کمال کو پہنچے اور کون و مکان سے گزر کر وہاں جا پہنچے جہاں نہ رات ہوتی ہے نہ دِن، نہ آسمان نہ زمین، نہ دایاں نہ بایاں، نہ اوپر اور نہ نیچے، نہ آگے نہ پیچھے، کیونکہ "لَا لَیْلَ وَ لَا نَہَارَ عِنْدَ اللہِ" یعنی نہ تو خدا کے نزدیک دن ہوتا نہ رات۔ اور سمجھنے والے سمجھ پاتے ہیں اور اس بات کو کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو سمجھایا جائے یعنی جن کو خدا سمجھائے۔
حکایت:
نقل کرتے ہیں کہ حسن نوری صاحب ایک دوسرے ولی کے ساتھ صحراء میں ملاقاتی ہوئے، اس دوسرے ولی نے حسن نوری صاحب کو سلام کیا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اے حسن نوری! حسن نوری صاحب نے سلام کا جواب دیا، پھر اس شخص نے کہا کہ اے حسن نوری! تھوڑی دیر کے لیے یہاں ٹھرے رہیے تاکہ آپ میرے جنازے اور تجہیز و تدفین کی خدمت انجام دے سکیں۔ حسن نوری اس بات سے حیران اور ششدر رہ گئے، جب وہ ولی فوت ہو گئے تو حسن نوری نے جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کرنے لگے اور اُن کا چہرہ کھلا رکھا، اس دوران ان کے حق میں دُعائے مغفرت کی اور کہا کہ اے بارِ الہا! یہ آدمی غریب اور مسافر تھا، اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما۔ اس پر وہ مردِ خدا تبسّم کر کے ہنسے، حسن نوری نے اُنہیں قسم دے کر کہا کہ اگر تم زندہ ہو تو زندہ کو دفنانا جائز نہیں اور اگر مر چکے ہو تو مُردے بات نہیں کرتے بلکہ ایک دار سے دوسرے دار کو تبدیل ہو جاتے ہیں کہ "أَوْلِیَاءُ اللہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَ لٰکِنْ یَّنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 197/5، دار الفکر، بیروت) ”اللہ تعالیٰ کے دوست مرا نہیں کرتے بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں“
اگرچہ موت کا حال علم غیب سے ہے (اور موت کی کسی کو اطلاع اور آگاہی نہیں) مگر اللہ تعالیٰ کا کرم و احسان بعض دوستوں کی رہبری کرتے ہوئے اُن کو موت سے آگاہ کر دیتا ہے اور اس کا علم اُن پر ظاہر اور منکشف کراتا ہے، چنانچہ ہمارے شیخ صاحب بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس بات کی آگاہی حاصل کر چکے تھے، اور اس بات کا علم ان کو حاصل ہو چکا تھا، بہت سے مقامات اور مواقع پر اس بات کا اظہار بھی آپ نے کیا، چنانچہ جو مریض حضرت صاحب کے پاس لائے جاتے، اللہ تعالیٰ اکثر کو شفاء عطا فرماتے اور حضرت صاحب کی دعا سے وہ اپنی مراد پاتے۔ اور اگر مریض کی موت نزدیک ہوتی تو مریض کو نذر و نیاز منع فرما دیتے اور اس کو قبول نہ کرتے، پس وہ مریض مر جاتا اور جس کسی سے نذر و نیاز قبول کرتے وہ صحتیاب ہو جاتا۔ اسی طرح حضرت اپنی موت کی بیماری کے دوران جو کہ سال بھر سے زیادہ تھی، خود تمام کی تمام نمازیں وضو، قیام اور رکوع و سجود کے ساتھ کرتے اور حال یہ تھا کہ اکثر اوقات اُن کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ دو شخص اُن کو پکڑ کر اپنے مقام پر واپس لے آتے۔ نیز دیگر سابقہ بیماریوں میں بھی شریعت کے حکم پر عمل فرماتے اور تیمم کر کے یا حسب حال بیٹھ کر، لیٹ کر یا اشارے سے نماز پڑھتے۔ جب آپ کی وفات ہونے کا آخری دن آن پہنچا تو حکم دیا کہ آج عصر کی نماز تک کوئی عزیز دوست یہاں سے نہ جائے اور کوئی غیر حاضر نہ رہے۔ چنانچہ جمعۃ المبارک کے دِن ظہر کے وقت جب امام خطبہ دینے کے لیے ممبر پر تشریف لے آئے چوبیس تاریخ، ماہ رجب 1063ھجری کے دن آپ رحلت فرما گئے اور عصر کے وقت آپ دفن کیے گئے۔ إِنَّا لِلہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اس دن گرد و نواح سے بہت زیادہ لوگ دوست و احباب جمع ہو گئے تھے، بعض نے رات گزاری اور بعض دوست اسی وقت واپس تشریف لے گئے۔
فائدہ:۔ آپ کی عمر اسی سال تھی، آپ کی رحلت 1063ھ تھی۔ تاریخ وفات "بہ فقر رفت" 1063ھ سے نکل آئی ہے۔ اس حساب سے 983ھ میں اکبر بادشاہ کے بیسویں سالِ جلوس میں پیدا ہوئے اور شاہ جہان کے چھبیسویں 26 سالِ جلوس میں وفات پائی۔ شاہ جہان کی بادشاہی 1069ھ میں ختم ہوئی، یعنی حضرت صاحب کی وفات کے بعد چھ سال تک شاہ جہان نے بادشاہی کی، اور حضرت شیخ المشائخ کے وفات کے چھ 6 سال بعد اورنگ زیب تخت نشین ہوئے۔ حضرت صاحب کی تاریخ وفات "کاکا قطب شیخ" کے کلمہ سے ابجد کے حساب سے نکل آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت فرمائے اور آپ کی برکت سے جناب مصنف صاحب اور عاجز مؤلف (اور فقیر مترجم) کو بھی مغفرت نصیب فرمائے اور نون و صاد پر ایک جگہ حشر فرمائے۔
"اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِصَاحِبَیْنِ وَ مُؤَلِّفِہٖ وَ مُتَرْجِمِہٖ"
”یا اللہ! دونوں صاحبوں اور اس کتاب کے مؤلف اور مترجم کی مغفرت فرما“ آمین
فقیر حاجی عبد الرزاق کوثؔر
92/ 9/ 6