حصہ 2 تتمہ1: جس میں حضرت صاحب کی وہ کرامات درج ہیں جو کہ شیخ عبد الحلیم کی کتاب میں نہیں

باب چہاردہم کا تتمہ

جس میں حضرت صاحب کی وہ کرامات درج ہیں جو کہ شیخ عبد الحلیم کی کتاب میں نہیں

حضرت شیخ صاحب کے بعض مناقب میں نے شمس الدین صاحب کی کتاب سے نقل کر کے تحریر کر دیئے ہیں جنہوں نے فقیر صاحب اور اخوند سمیل صاحب کی کتابوں کا حوالہ دیا ہے، اور یہ دونوں حضرت شیخ جی صاحب کے مرید تھے۔ ان مناقب کو میں نے تتمہ کے طور پر تحریر کر دیا ہے تاکہ ناظرین اس میں اور شیخ عبد الحلیم صاحب کی کتاب میں تمیز کر سکیں۔

پہلی بات:

روایت ہے کہ شیخ ابک صاحب کے زمانے میں کشمیر نام کا ایک شخص تھا جس کا بیٹا سخت بیمار تھا، وہ اس کو شیخ ابک صاحب کی خدمت میں لایا اور دُعا کی درخواست کی۔ شیخ ابک صاحب نے اس حدیث قدسی کی رو سے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ لَّمْ یَذُقْ فَنَاءَ الْوَلَدِ بِمَحَبَّتِیْ وَ فَنَاءَ الْوَالَدِ بِمُرُوْءَتِیْ لَمْ یَجِدْ لَذَّۃَ الْوَحْدَانِیَّۃِ وَ الْفَرْدَانِیَّۃِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جس نے اپنے بیٹے کو میری محبت میں اور باپ کو میری مروت میں فنا ہوتے نہیں دیکھا تو اس کو وحدانیت اور فردانیت کی لذت نصیب نہیں ہوئی“ اپنی اہلیہ محترمہ کو فرمایا کہ اپنے بیٹے کو پاک و صاف کر کے سُرمہ لگا کر پنگھوڑے میں سلا دو۔ چنانچہ بی بی صاحبہ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے شیر خوار پھول جیسے بچے کو گہوارہ میں سلا دیا۔ جب کچھ دیر گزر گئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا بچہ فوت ہو چکا ہے۔ بہت غمزدہ ہوئیں، قریب تھا کہ جزع فزع اور فریاد کریں، شیخ صاحب نے ان کو تسلی دی کہ رب العٰلمین تجھے ایک فرزند عطا کرے گا جس کا نام "کشمیر" ہوگا اور وہ سورج کی مانند میں ظاہر اور نمایاں ہوگا۔ چنانچہ بی بی صاحبہ نے یہ سُن کر صبر اختیار کیا۔ کشمیر کا بیمار بیٹا صحت یاب ہو گیا اور مرے ہوئے بیٹے کی جگہ اللہ تعالیٰ نے بی بی صاحبہ کو کاکا صاحب عطا فرمایا جو کہ قطبِ حقیقی کا مرتبہ رکھتے تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب پر تھے۔

دوسری بات:

روایت ہے کہ حضرت شیخ صاحب نے جمعہ کے دن ولادت فرمائی اور اس روز شیخ ابک صاحب نے بی بی صاحبہ کو حکم دیا کہ اس بچے کو پاک و صاف کر کے عطر اور سُرمہ لگائیں اور گہوارہ میں ڈال کر ایک بلند جگہ پر رکھ دیں۔ چنانچہ ویسا ہی کیا گیا اور شیخ صاحب نے آپ کو پنگھوڑے میں ڈال کر ایک پہاڑی پر رکھ دیا، اور ابک صاحب اور دیگر لوگ وہاں سے ہٹ کر دور بیٹھ گئے۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ قبلہ کی جانب سے پانچ سفید رنگ کے پرندے آئے، ان کے پر رنگ رنگ کے تھے، اُن پرندوں میں سے چار تو گہوارے کے چار بازؤں پر بیٹھ گئے اور ایک جو ان سب میں خوبصورت تھا، گہوارے کے اوپر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بہت سے پرندے مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کی جانب سے آ کر اکٹھے ہو گئے، بعض تو درخت پر بیٹھ گئے اور بعض ہوا میں اُڑ رہے تھے اور نماز ظہر سے عصر کی نماز تک یہی حالت رہی۔ جب سورج ڈوب گیا تو پرندوں میں جو بہت خوب صورت تھا وہ اُڑ گیا، اس کے بعد چار پرندے اُڑ گئے اور پھر سارے پرندے منتشر ہو گئے اور شام تک کوئی پرندہ باقی نہ رہا۔ اس کے بعد شیخ ابک صاحب نے اپنی بی بی صاحبہ سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنے بیٹے کو لے آؤ کہ رسول اللہ ﷺ سے ان کو کمال حاصل ہوا اور رسول اللہ ﷺ اور بڑے جلیل القدر صحابہ اور سارے دُنیا کے اولیاء کرام نے نہایت شفقت اور مہربانی سے تمہارے فرزند کی زیارت فرمائی اور واپس تشریف لے گئے۔ آپ کو کاکا صاحب کا لقب رسول اللہ ﷺ سے حاصل ہوا، ورنہ ماں باپ نے تو کشمیر نام رکھا تھا اور باقی لوگ آپ کو بابا جی، شیخ رحمکار و شیخ رامکار اور شیخ جی کہا کرتے تھے۔

تیسری بات:

روایت ہے کہ شیخ صاحب خوش خوراک نہ تھے، کبھی تو جَو کھاتے تھے اور کبھی جوار اور کبھی ایک گھاس کا دانہ جس کو پشتو زبان میں "شموخہ" کہتے ہیں، تناول فرماتے تھے، اور روٹی کو نہایت خشک کر کے کھاتے تھے جو کہ نمک سے مملو ہوتی تھی، اور کبھی سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، تمام عمر میں ایک من چار سیر غلہ کھایا تھا۔ اور آپ بازاری کھانا کبھی نہیں کھاتے تھے اور جس طعام پر نظر پڑ چکی ہو وہ بھی نہیں کھاتے تھے۔ اور بے ہودہ، لایعنی باتیں نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ ذکر میں مشغول رہا کرتے تھے اور بہت سے دوسرے اوصاف حسنہ رکھتے تھے۔

چوتھی بات:

روایت ہے کہ ایک شخص جو کہ ارادت اور دوستی رکھتا تھا، سخت بیمار ہوا۔ طبیب اس کے علاج سے لاچار ہو گئے لیکن اس کے باوجود یہ ہدایت کی کہ گوشت اور دہی کبھی بھی اکھٹے نہ کھاؤ کہ اس مرض کے لیے یہ سخت نقصان دہ ہے، اُس کے وارث اُسے حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں لے آئے، شیخ صاحب نے اس کو حکم دیا کہ دہی اور گوشت کھائے، ہر چند کہ مریض اور اس کے وارثوں نے اس کو منع کیا کہ طبیبوں نے اس کے کھانے کی اجازت نہیں دی، مگر شیخ صاحب نے فرمایا کہ جب تم اس کو میرے پاس لائے ہو تو تم پر میرے حکم کی تعمیل فرض ہے۔ مجبورًا اس نے کھا لیا، تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس کے پیٹ میں درد شروع ہوا اور وہ قے کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی قے میں ٹکڑے ٹکڑے سانپ نکل آیا، اور اُس نے شیخ جی صاحب کی برکت سے کلی صحت حاصل کی۔

دوسری روایت ہے کہ جب شیخ صاحب کی شہرت تمام دُنیا میں عام ہو گئی تو بالائی سوات کا ایک شخص جس کا نام کمال خان تھا اور لا ولد تھا، حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں آیا اور تقریبًا ایک ماہ یا کم و بیش حضرت صاحب کی خدمت میں رہا، حیا اور شرم کے مارے لوگوں کے سامنے عرض حال نہیں بیان کر سکتا تھا اور تنہائی اس کو ہاتھ نہیں آتی تھی کہ اس میں اپنا حال بیان کرے۔ جب تنگ آیا تو حضرت صاحب کے ایک فقیر کے ساتھ مشورہ کیا کہ میں کیا تدبیر کروں کہ حضرت شیخ صاحب کو تنہائی میں مل سکوں؟ اس نے کہا کہ تم کسی وقت میں شیخ صاحب کو تنہا نہیں پاؤ گے، مگر شیخ صاحب کی عادت ہے کہ صبح ہونے سے پہلے صومعہ سے نکل کر مسجد تشریف لاتے ہیں، اگر رات کو بیدار رہ کر صومعہ کے دروازے پر منتظر رہو اور صبح تک انتظار کرو، شاید کہ کامیاب ہو جاؤ اور صاحب کو تنہا پا سکو۔ کمال خان کو یہ تدبیر پسند آئی، جب وہ دن گذر گیا اور رات آئی تو آدھی رات کو اٹھ کر صومعہ کے کونے میں انتظار کرنے لگا۔ جب تھوڑی دیر گزری تو اس کو ایک حادثہ پیش آیا کہ ایک نر اور ایک مادہ چیتا بھی آ گئے اور ایک اس کے دائیں ہاتھ کو اور دوسرا اُس کے بائیں ہاتھ کو کھڑا ہو گیا، وہ اس کے اتنے قریب تھے کہ جب یہ اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا تو ان کو چھو جاتا۔ اس پر اتنا خوف طاری ہوا کہ فرزند کا سوال بھول گیا اور خاموش کھڑا رہا اور چیتے بھی چپ کھڑے رہے۔ جب صبح قریب ہوئی تو چیتوں نے فریاد شروع کر دی، جب شیخ صاحب نے نگاہ اٹھائی تو اس شخص کو چیتوں کے درمیان خوار و خستہ حالت میں خوف زدہ اور پریشان کھڑا دیکھا۔ شیخ صاحب نے اُسے فرمایا کہ تُو فرزند طلب کرنے کے لیے آیا ہے اسی طرح یہ چیتے بھی اولاد نہیں رکھتے اور فرزند کی طلب کی خاطر آئے ہیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو پانچ بیٹے عطا فرمائے گا اور ان چیتوں کو بھی اولاد عنایت کرے گا۔ اب جاؤ، تم کو رخصت دی جاتی ہے۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو چیتے بھی چلے گئے اور وہ شخص بھی رخصت ہو کر چلا گیا۔ جب گھر پہنچ گیا تو کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُسے پانچ نرینہ اولادیں عطا فرمائیں۔

ایک دوسری روایت ہے کہ فقیر جمیل بیگ صاحب نے فرمایا ہے کہ مجھے حضرت شیخ صاحب نے تین رازوں سے آ گاہ فرمایا، میں اُن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس میں میری ہلاکت ہے۔ اُن میں سے ادنیٰ بات یہ ہے کہ جب میں انگوٹھا نیچے کر لوں تو مشرق سے مغرب تک کل جہان میرے تصرف میں آ جاتا ہے۔

فائدہ:

اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق سے مغرب تک اور تحت الثریٰ سے عرش تک تمام جہان قطب مدار کے تصرف میں ہوتا ہے۔ شاید اس راز کے افشا کرنے کے وقت حضرت صاحب قطب مدار تھے اور ابھی قطب حقیقی کے مرتبے کو نہ پہنچے ہوں گے، اور یہ تصرف پر قادر کیوں نہ ہوں گے کہ اولیاء کرام رب العالمین کے خلیفہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کی حالات سے یوں باخبر رہتا ہے کہ ﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَةًؕ قَالُوْۤا أَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ قَالَ إِنِّیْۤ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ: 30) ”جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب پیدا کرتا ہوں تو فرشتوں نے عرض کی کہ کیا آپ زمین میں اُس شخص کو پیدا کرتے ہو جو کہ اس میں فساد کرے گا، ناحق خون ریزی کرے گا اور ہم آپ کی حمد کہتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو کہ تم نہیں جانتے“ خلفاء سے مراد یہی اولیاء ہیں، نہ کہ اس سے مراد خاقانِ چین، قیصرِ روم، خدیو مہر وغیرہ ظاہری بادشاہ۔

فقط ختم شد کراماتِ شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِصَاحِبَیْنِ وَ لِمُوَلِّفِہٖ

1؎: فقیر جمیل بیگ صاحب خوشحال خان خٹک کے حقیقی بھائی اور حضرت کاکا صاحب کے خلیفہ اور ماذون تھے، خدا رسیدہ بزرگ تھے، اس فقیر مترجم نے ان کی ایک کتابِ دل "تذکرۃ اولیاء" قلمی نسخہ میں ترجمہ کی ہے۔

عبد الرزاق کوثؔر لوند خوڑ