چودھواں باب
زمانۂ طفولیت سے لے کر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کی عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپ کے متفرق اعمال اور وفات
نوٹ: قبل ازیں کہ شیخ عبد الحلیم کا یہ عاجز مؤلف نواسۂ شیخ المشائخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات اور فرق عادات وغیرہ شروع کرے، ولایت کے بارے میں تمہید کے طور پر چند ضروری باتیں لکھنا چاہتا ہوں کہ جس سے ناظرین کی رہنمائی ہو اور کرامت و سحر اور طلسم کے درمیان فرق ظاہر ہو جائے۔
یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ ولایت کے تین شعبے ہیں: پہلا شعبہ سچے کام اور معاملے مثلًا الہام، غیبی تعلیم و تفہیم اور حکمت وغیرہ، ان کو معاملاتِ صادقہ کہتے ہیں۔ دوم مقاماتِ کاملہ مثلًا محبت، خشیت، توکل و رضا، تسلیم، صبر و استقامت، زہد و قناعت اور تفرید و تجرید یعنی تنہائی۔ تیسرا شعبہ اعلیٰ اخلاق مثلًا عالی ہمتی، انتہائی شفقت، حلم و حیا، محبت و وفا، صدق و صفا، سخاوت، شجاعت اور ہمیشہ بندگی کرنا اور اللہ کے آگے ہر وقت سرافگندہ رہنا، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبودیت کا زندہ نمونہ رہنا اور الوہیت کے دعوؤں کی نشانیوں تک سے اجتناب کرنا اور مٹی کی طرح خاموش، نہ کہ آگ کی طرح جوش اور خروش رکھنے والا۔ اور یہ کہ تجرید، تفرید اور تنہائی پسند ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے نفرت نہ کرے، اور حق داروں کے حقوق ضائع نہ کرے، اور ناسمجھ مستوں کی مانند توکّل کے راستے پر نہ چلے، اور ادب کے طریقہ کو جس کا مطلب اسباب تلاش کرنا ہے بالکل ترک نہ کرے، مناجات اور دُعائیں ذوق و شوق سے کرتا رہے اور ہمہ وقت اسراف سے دامن بچائے رکھے اور شجاعت کے وقت جوش اور غصہ سے بچا رہے۔
حاصل کلام یہ کہ اس کے اقوال و افعال اِس کی مرضی اور طبیعت کے موافق نہ ہوں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور عبادت و اِطاعت میں کوشاں رہے، مثلًا اگر کسی کو کوئی چیز بخشتا ہو تو محض اپنی سخاوت کے تقاضے کے مطابق نہ دیا کرے بلکہ یہ دیکھے کہ اس سے مولیٰ راضی ہو گا، تو اللہ کی رضا طلبی کرتے ہوئے وہ کام انجام دے ورنہ اس سے دامن بچائے۔ اور اسی طرح ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کرتے ہوئے انجام دے۔ ایسے حضرات گناہ سے محفوظ رہتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اقوال، افعال، عبادات، معاملات، مقامات، اخلاق اور احوال؛ نفس و شیطان کی مداخلت اور خطا و سہو و نسیان سے محفوظ رکھتا ہے اور محافظ فرشتے اِن پر مقرر فرماتا ہے تاکہ بشری اور فطری تقاضوں کی گرد و غبار ان کے دامن کو آلودہ اور داغدار نہ کرے، اور نفس بہیمی اپنی من مانی کارروائی نہ کر سکے۔ اگر کبھی کبھار کوئی ایسا کام اِن سے صادر ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے مطابق نہ ہو تو اسی وقت حافظ حقیقی اِن کو خبردار کرتا ہے اور حفاظت غیبی اُن کو کھینچ کر "طَوْعًا وَّ کَرْھًا" ”خواہی نہ خواہی“ سیدھی راہ پر لے آتا ہے۔ اور ان میں سے بعض کی نگاہ تو کیمیا کی طرح اثر کرتی ہے، آنِ واحد میں شقی اور بد بخت کو سعید اور خوش نصیب بناتی ہے، اور ان کی خرقِ عادت بات کے بارے میں یہ لکھ دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام یا اپنے اولیاء کی تصدیق کی خاطر ان سے ایسی بات ظاہر کرتا ہے کہ ان کا کرنا عوام کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ بعض کام جب متعلقہ ہاتھ آئے تو وہ سر انجام پاتے ہیں مثلًا قتل اسلحہ سے یعنی اسباب سے قتل کا عمل ہو سکتا ہے، اگر بغیر اسلحے کے قتل ہو تو خرق عادت ہے۔ اور جس جگہ کی ریل نہیں چلا کرتی اور اشیاء کی نقل و حمل کے دوسرے ذرائع موجود نہ ہوں اور وہاں کوئی موسمی میوہ موجود نظر آئے تو یہ خرق عادت ہے۔ اب یہ فرق و امتیاز کہ یہ خرق عادت کرامت کی قسم سے ہے یا کہ سحر و جادو کے بل بوتے سے، کس طرح کی جائے گی اس بارے میں قرآنی آیات نازل ہیں: ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِي الْآخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ذَالِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (یونس: 62) ”یاد رکھو! جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے اُن کے لیے اور نہ غمگین ہوں گے، جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے، اُن کے لیے خوشخبری ہے دنیا کی زندگانی میں اور آخرت میں، بدلتی نہیں اللہ تعالیٰ کی باتیں یہی بڑی کامیابی ہے“۔
ولایت کے لیے دو باتیں ضروری ہیں: ایک اللہ تعالیٰ پر (جیسا کہ کتب عقائد میں تفصیل ہے) اور دیگر ضروری باتوں پر ایمان لانا ہے۔ دوسری چیز تقویٰ ہے۔ اب تقویٰ کا جاننا ضروری ہے، صوفیائے کرام نے تقویٰ کے مختلف معنیٰ فرمائے ہیں مگر اس کے اصل معانی وہی ہیں جو قرآن مجید میں ذکر ہوئے ہیں اور وہ اس طرح ہیں کہ ﴿لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِي الرِّقَابِۚ وَ أَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عٰهَدُوْاۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 177) ”صرف یہ نیکی نہیں ہے کہ تم اپنے رُخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر دو، نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ، روز آخرت، فرشتوں، کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لائے اور اپنی محبت سے اپنا مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور مکاتب غلاموں کو دیا کرے اور نماز قائم کر کے زکوٰۃ ادا کر دیا کریں اور جب وعدہ کریں تو اس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف کے وقت صبر کریں یہ ہی وہ صادق اور سچے لوگ ہیں اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جو متقی اور خدا سے ڈرنے والے لوگ ہیں“۔ اگر کسی میں یہ اوصاف موجود ہوں اور اس سے خرقِ عادت یعنی خلاف معمول بات صادر ہو جائے تو اگر وہ پیغمبر ہو تو اس کے خلاف عادت کام کو معجزہ اور اگر ولی ہو تو کرامت کہتے ہیں، اور اگر ایسا نہیں تو پھر سحر اور جادو ہے۔ ﴿هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِیْمٍۙ یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ أَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ﴾ (الشعراء: 221-223) ”کیا ہم تجھے خبر دے کر آگاہ کریں کہ شیطان کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں، ہر جھوٹے گناہ گار پر نازل ہوتے ہیں، سنی ہوئی باتیں اُن کے گوش گزار کرتے ہیں اور اکثر وہ جھوٹے ہوتے ہیں“۔ اس کی تفسیر کی ضرورت نہیں، اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ اکثر جادوگر، کاہن اور نجومی ایک بات معلوم کر کے اس میں جھوٹ ملا کر دروغ بیانی سے کام لیتے ہیں چنانچہ علمِ سیمیا وغیرہ اور جاہل اور بے علم اس کو خرقِ عادت بلکہ کرامت تصور کرتے ہیں، یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی ہوگا اور اس وقت تک ہوگا جب تک قیامت قائم نہ ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفر، اسلام، ظلمت و نور، حق و باطل؛ سب کو ساتھ ساتھ پیدا کیا، ﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌؕ وَّ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (التغابن: 2) ”وہی ہے جس نے تم کو بنایا، کوئی تم میں سے منکر ہے اور کوئی ایماندار، اور اللہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے“۔ ہاں البتہ یہ بات جاننی چاہیے کہ خوارق یعنی خرق عادت کا ظاہر ہونا بِالذات ہدایت کے اسباب میں سے نہیں، اگرچہ استثنائی طور پر اتفاقًا بعض خوش نصیبوں کے لیے موجبِ ہدایت ہو جاتا ہے، بلکہ ان خوارق کا ظہور اتمامِ حجت کی خاطر ہوتا ہے، کیونکہ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہدایت وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ازلی خوش نصیب لوگوں کے دلوں پر بارش کی طرح برستا ہے اور ان کو محبوب حقیقی کی محبت میں اُکسا کر آمادہ کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ خرقِ عادت چیز کس طرح صادر ہوتی ہے؟ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے عالمِ تکوین میں عجیب و غریب تصرفات ودیعت فرمائے ہیں، اور یہ اپنے مقبول بندوں میں سے کسی مقبول بندے کی تصدیق کرانے کے خاطر ہوتے ہیں، اور عالم تکوین میں خرقِ عادت کے ظہور کی طاقت نہاں رکھی ہے اور اس کو ظاہر کرنے کا حکم دیتا ہے، اس میں کوئی شک و شائبہ نہیں کہ عالم تکوین میں تصرف کی طاقت اور قدرت اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خواص کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی انسان کی قدرت کے آثار کی وجہ سے، اور نہ اِس کی طاقت فرشتے میں ہوتی ہے، اور ما سویٰ اللہ کی قدرت نص قطعی و قرآنی سے ممنوع ہے: ﴿أَبْصِرْ بِهٖ وَ أَسْمِعْؕ…﴾ (الکهف: 26) ”اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ باتوں کا علم ہے وہ بینا اور شنوا ہے“ ﴿مَا لَكُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ﴾ (الشوری: 31) ”انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی مدد گار اور مالک نہیں“ اور ربِ ذو الجلال کسی دوسرے کو حکم میں شریک نہیں بناتا، ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا﴾ (الفرقان: 1-2) ”بڑی برکت ہے اس کی ذات جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر تاکہ رہے جہان والوں کے لیے ڈرانے والا۔ اسی کی سلطنت آسمان اور زمین میں ہے اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا اور نہیں کوئی اس کا ساجھی سلطنت میں۔ اور بنائی ہر چیز اور ٹھیک کیا اُن کو ماپ کر“۔ اور اس طرح قرآن مجید میں بہت سارے احکام ہیں، ﴿وَ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ وَّ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ أَنْ یَّاْتِيَ بِاٰیَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِؕ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ یَّمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ﴾ (الرعد: 38-39) ”اور بھیج چکے ہیں ہم کتنے رسول تجھ سے پہلے اور ہم نے دی تھیں اُن کو جوروئیں (بیویاں) اور اولاد، اور نہیں ہوا کسی رسول سے کہ وہ لائے کوئی نشانی مگر اللہ کے اذن سے۔ ہر ایک وعدہ ہے لکھا ہے، مٹاتا ہے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور باقی رکھتا ہے، اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب“۔
اس تمام تقریر سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خرقِ عادت ہدایت کا سبب نہیں اور نہ یہ بات لازم ہے کہ ولی بغیر کرامت کے نہیں ہوتا اور نہ یہ کہ خرق عادت ولایت کی دلیل ہے، پر اگر کوئی ولی ہونے کے اوصاف نہ رکھتا ہو مگر کچھ نہ کچھ خرق عادت رکھتا ہو تو پھر بھی وہ ولی نہیں، کوئی شخص محض خرق عادت سے ولی نہیں ہوتا۔
اب میں اپنے مطلب کی بات کرتا ہوں کہ اپنے قطب حقیقی کی کرامات اور خرِق عادت کا ذکر کروں اور یہ سب کچھ میں سلسلہ وار بیان کروں گا۔ سب سے پہلے صاحب موصوف کی والدہ محترمہ سے روایت ہے کہ حضرت صاحب بچپن اور شیر خوارگی کے زمانے میں اکثر رویا کرتے تھے اور دن رات میں صرف شام کے وقت ماں کی چھاتی سے لگ کر دودھ پیتے، پھر نہ کسی وقت پیا کرتے اور ہر وقت گریہ و نالہ کرتے رہے اور شفیق ماں ان کے مسلسل رونے سے نہایت آزردہ اور غمگین رہا کرتی تھیں، اور بہت زیادہ فکرمند رہتیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جِن یا آسیب کا اثر ہو، جس میں یہ مبتلا ہو کر روتے ہوں۔ حضرت صاحب کے والد محترم شیخ بہادر بابا جو کہ "اَبَک صاحب" کے نام سے مشہور ہیں، نے آپ کی والدہ محترمہ کو فرمایا کہ اے بختی! (حضرت صاحب کی ماجدہ والد کا نام) کوئی ایسی فکر نہ کرو کہ ان پر کسی دیو یا پری کا اثر ہوگا، اس لیے کہ ان کے ساتھ کسی دیو یا پری جن و آسیب کا کوئی کام نہیں اور اُن کی اتنی طاقت نہیں کہ اِن کو کوئی تکلیف پہنچائیں لیکن اس بچے کا ایک خاص مرتبہ ہے جس کا نور اِس کو دکھایا جاتا ہے، لیکن یہ اُس کے ضبط کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس لیے روتا ہے۔ اور شام کے وقت ہر روز جو یہ دودھ پیا کرتا ہے تو یہ روزہ دار ہوتا ہے اور اسی وقت روزہ افطار کرتا ہے، تسلی رکھو اور فکر نہ کرو۔ اور صاحب موصوف یعنی ایک صاحب نے فرمایا کہ مجھے ایک درجہ حاصل ہے یعنی علم باطن کا اور ان کو دو درجے حاصل ہیں، یعنی علم ظاہر و علم باطن دونوں اس کو حاصل ہوں گے۔ اور آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ اے عزیز بختی! یعنی جو تو نے میری موجودگی میں نہیں دیکھا اُس کے زمانے میں دیکھ پاؤ گی۔ اور یہ بھی ہمارے شیخ المشائخ کے بارے میں فرما چکے کہ یہ بچہ گنے کی طرح میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا اور جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دیکھنے سے یعنی جو کوئی بھی اُنہیں دیکھتا، دو دو اور تین تین مہینے کھانے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا، اسی طرح حضرت شیخ صاحب کے دیکھنے پر اکثر دوست اور محب لوگ آپ کے دیدار کے ذوق کی وجہ سے کھانے کی حاجت نہیں رکھتے تھے۔ اور ملاقاتیوں کو آپ کی ملاقات سے چند چیزیں حاصل ہوتی تھیں: پہلی بات تو یہ کہ جب کوئی آپ کو دیکھتا تو اس کو خدا یاد آ جاتا۔ دوسری بات یہ کہ جب کوئی آپ کی مجلس میں بیٹھتا تو دنیا کی محبت اس کے دل میں بُجھ جاتی، تیسری بات یہ کہ جو کوئی آپ کی مجلس سے چلا جاتا تو اس کو آپ کی مجلس کی یاد ستاتی اور آپ کی مجلس میں آنے کی محبت اُن کے دل پر غلبہ کرتی۔ چوتھی بات یہ کہ حضرت صاحب کے کلام سے اُن کو تازگی اور حلاوت حاصل ہوتی اور بہت لطف اُٹھاتے، حضرت صاحب اکثر حالتوں میں عالمِ استغراق و معرفت میں خاموش رہتے اور کسی قسم کی بات نہ فرماتے۔ کیونکہ مشہور ہے کہ "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ کَلَّ لِسَانُہٗ" یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی تو اس کی زبان خاموشی اختیار کرتی ہے، اور یہ خاموشی کی حالت اُن پر اکثر طاری رہتی۔ اور اگر سامعین کی خاطر کچھ کہنا چاہتے تو اپنی خلوت گاہ میں ارشاد فرماتے اور وہ بھی آہستہ، نرم الفاظ، اشارہ و رمز کے انداز میں فرماتے، اونچی آواز سے کبھی بھی بات نہ کرتے۔ اور اگر کبھی گھر میں اہل و عیال کے ساتھ کچھ فرماتے اور ہنستی مذاق کی بات ہوتی تو تبسم فرماتے اور قہقہہ یا بلند آواز سے کبھی ہنسی نہیں کی۔ ایک دن خفتن یعنی عشاء کی نماز کے بعد گھر میں فرمانے لگے کہ اے میرے اہل و عیال! آج مجھے ایک چیز ہاتھ آئی ہے، اگر تم اُس کو لینا چاہو تو وہ میں تمہیں دیتا ہوں اور اگر مجھے دینا چاہو تو میں اُسے قبول کرتا ہوں۔ ہماری والدہ صاحبہ نے فرمایا ہے کہ اگرچہ وہ چیز نہایت اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو، میں اُسے نہیں لینا چاہتی کیونکہ وہ بھی تارک الدنیا تھیں۔ ہم نے عرض کی کہ اُس چیز کے دیکھنے کے بعد ہم جواب دیں گے اور جناب حضرت صاحب بہت خوش و خرم تھے اور مُسکرا رہے تھے۔ ہم خیال کرتے تھے کہ اس سے پہلے ہم نے اُنہیں اتنا خوش اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ہم خیال کرتے تھے کہ اس چیز سے نفیس اور عُمدہ چیز کبھی حضرت صاحب کے دربار عالیہ میں نہیں آئی ہو گی، آخر کار گھر سے باہر تشریف لے گئے اور دونوں ہاتھوں میں چڑیا کا گھونسلا اُٹھائے ہوئے تشریف لائے اور مُسکراتے ہوئے فرمایا: "رحم کرنے والوں کے اچھے گھروں میں آئے۔" اس کے بعد اُس کو گھر میں محفوظ کر لیا اور اس فقیر کے صدق نیت سے نہایت خوش تھے۔ اس طرح کا کوئی اور مذاق ہم نے عمر بھر شیخ صاحب کا نہیں دیکھا اور نہ ہمیں یاد ہے۔ اسی سے اپنے تمام اہل و اعیال کو خوش و خرم کر لیا۔
دوسری بات:
ایک دِن حضرت شیخ المشائخ صاحب وضو کر رہے تھے اور حضرت صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید کھڑے تھے، جب حضرت صاحب نے وضو فرما لیا تو اس مرید کو اشارہ کیا کہ اسی لوٹے کے پانی سے جس سے میں نے وضو کیا تم بھی وضو کرو، لیکن مرید ادب و حیا کی وجہ سے لوٹے کی نزدیک نہیں جاتے تھے، آخر خود حضرت صاحب نے بہ نفس نفیس مرید کو پکڑ کر فرمایا کہ یہ پانی میں نے تم کو بخش دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے وضو کرو۔ مرید روایت کرتا ہے کہ اس حکم کے بعد میں نے لوٹا اٹھایا، جب میرے ہاتھ کو پانی لگا تو میں نے اپنے دِل میں ترقی محسوس کی اور وضو کرنے کے بعد میرے دِل میں اتنی محبت بڑھی کہ ضرورت کی وجہ سے رکوع سے سجدے میں چلا جاتا اور قیام سے رکوع میں چلا جاتا، کیونکہ قیام و رکوع اور سجود کے بغیر نماز مکمل نہ ہو سکتی، ورنہ میری محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اپنی تمام عمر صرف قیام اور رکوع یا سجود میں گزاروں۔ اُس دن کے بعد میں کبھی بھی عبادت گزاری میں سُستی کا مرتکب نہ ہوا اور دن رات عبادت کرتا تھا اور ایک لمبے اور طویل عرصے تک اسی طرح عبادت کرتا رہا حتیٰ کہ لوگوں میں معزز اور محترم ہوا، اس کے بعد ایک دِن میں اپنے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مجھے آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب تک کوئی خدا کا طالب لوگوں میں دیوانہ نہ ہو جائے خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اُس مرید کا حال دگرگوں ہوا، بچوں کی طرح لکڑی پر سوار ہوتا تھا اور لوگوں کو اپنا آپ دیوانہ دکھاتا تھا، اور لوگ اس پر ہنسا کرتے تھے اور وہ اسی طرح کرتا رہتا تھا اور اس حال میں اُسے اللہ تعالیٰ کا شوق و محبت بڑھ جاتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں کے زمرہ سے ہوا۔
دیگر:
وفات کے بعد حضرت ایک پرندے کی شکل میں ایک شخص پر ظاہر ہوئے اور اس کو پنجے میں پکڑ کر اٹھایا اور پھر زمین پر لا کر رکھ دیا اور پھر آواز دی، اُسی آواز سے اُس کو معرفت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد اس کو اسی صورت پر تربیت کرائی، یہاں تک کہ وہ مطلب تک پہنچ گیا اور ایک دل جلا عاشق ہو گیا۔
دیگر:
شیخ دریا خان چمکنی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ طریقت اختیار کرنے کے اوائل دنوں میں مجھے اپنے گاؤں میں نمبرداری اور ملکی حاصل تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم، احسان و عنایت اور سرور کائنات ﷺ کی مہربانی اور شفقت سے مجھ پر ایک ایسا وقت آیا کہ کچھ عرصہ کے لیے نماز اور تلاوت کلام اللہ شریف کے علاوہ میری زبان پر کوئی دوسری بات نہیں آتی تھی، کچھ عرصہ بعد میں شیخ آدم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میری ملاقات ہوئی، میرے دل میں یہ بات آئی کہ ایک دوسرے کے ساتھ باہم قوت آزمائی کریں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ پہلے تم اپنی طاقت اور قوت مجھ پر آزماؤ اور میں کہتا تھا کہ نہیں، پہلے آپ اپنی قوت مجھ پر آزمانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ شیخ آدم قدس سرہٗ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور وہ مجھ پر غالب آ گئے، میں ان کی خدمت جا کر حاضر ہوا، اُنہوں نے مجھے تلقین و ارشاد فرمایا اور خلافت کا اِذن مرحمت فرمایا، لیکن میری خواہش تھی کہ دنیا کی محبت قطعی طور پر میرے دل سے نکل جائے اور اس سے قطع تعلق ہو جائے، لیکن اِن کی مجلس میں ایسی حالت مجھے نصیب نہ ہوئی۔ ایک دِن انہوں نے مجھے فرمایا کہ اے شیخِ دریا! کیا آپ نے شیخ رحمکار کو دیکھا ہے؟ یا یہ فرمایا کہ شیخ رحمکار صاحب کو دیکھ لو۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ ایک شخص ہے اس علاقے میں پہاڑوں کے اندر رہتا ہے، اُس کے بعد اُن سے میں رُخصت ہوا اور اپنی جگہ اور مقام کو چلا آیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ شیخ رحمکار باطنی طور پر میرے سامنے ظاہر ہوئے، اُن کے مقابلے میں میری کوئی قوت نہ تھی، چنانچہ میں نے اُن کی جوتیاں اٹھا کر خدمت کے طور پر اُن کے سامنے رکھ دیں۔ اُن کے مرتبہ کی مثال آسمان جیسی تھی اور میرا مرتبہ پستی میں زمین جیسا تھا، پس میرے دل میں اُن کی ملاقات کی محبت بہت زیادہ پیدا ہوئی اور ان کی ملاقات کا میں نے ارادہ کیا۔ جب پہلی بار شیخ صاحب کی ملاقات کا شرف و سعادت مجھے حاصل ہوئی تو ان کو دیکھتے ہی اُن کی محبت میرے دل میں موجزن ہو گئی اور میں ان کا عاشق ہو گیا۔ جب ان کی خدمت میں چند دفعہ آتا جاتا رہا تو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ کھانا بہت کم کھایا کرو۔ جب میں یوسف خیل کے گاؤں میں پہنچا تو اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ میں منبر میں چڑھ کر خطبہ اور تقریر کر رہا ہوں اور پیچ و تاب کھا رہا ہوں کہ اچانک ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یہ خطبہ جناب شیخ المشائخ شیخ رحمکار صاحب کا ہے، تم اس کی انتہاء تک نہیں پہنچ سکتے، جو کچھ تمہاری مراد اور مطلب ہے وہاں تک پڑھ لو۔ جب میں اس خواب کو دیکھنے کے بعد جاگ اٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ دنیا کی محبت کلی طور پر میرے دِل سے نکل چکی ہے۔ اس کے بعد میری نظر میں سونا اور چاندی مٹی کے برابر وقعت نہیں رکھتے تھے اور میں نرم و نازک لباس پہننے کی بجائے کھردرا لباس پہننے لگا۔ لیکن ہمارے شیخ صاحب نے ایک وقت مجھے فرمایا کہ تمہارے لیے قبا پہننا مناسب ہے، اگرچہ اس وقت حضرت صاحب کی بات میرے دل کو اچھی نہ لگی لیکن کچھ عرصے کے بعد اُن کی بات نے میرے دل پر اثر کیا اور قبا پوشی اختیار کی اور میں سمجھ گیا کہ آپ کو میرے کام کے بارے میں علم تھا اور مجھے کوئی علم اس کے بارے میں نہ تھا اور اسی وقت میں سمجھ گیا کہ اُن کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں تھی۔
دیگر:
اسی دریا خان سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے حضرت شیخ صاحب قدس سرہٗ کے سامنے عرض کی کہ اے حضرت صاحب! آپ کے پیر صاحب کون ہیں؟ انہوں نے جواب فرمایا کہ سُن لیجییے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ تھا، ایک دن اس کو ہاتف نے آواز دی کہ کیا تم دنیا کی بادشاہت قبول کرتے ہو یا میرا بندہ ہونا تمہیں پسند ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کے اس بندے نے عرض کی کہ اے میرے خدا! میں نے تمہارا بندہ ہونا قبول کیا اور بادشاہی سے منہ موڑتا ہوں اور بادشاہی کی مجھے کوئی خواہش نہیں۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ المشائخ نے بادشاہت کرنے سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی قبول کی تھی۔
دیگر:
میرے محترم استاد صاحب روایت فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت شیخ صاحب اپنے اہل خانہ سے ہنسی خوشی باتیں فرما رہے تھے آپ کی اہلیہ صاحبہ نے آپ سے استدعا کی کہ گرد و نواح کے لوگ آپ کی نظرِ کیمیا اثر سے فیوض پاتے ہیں اور انوار و لطائف سے وہ منور ہوتے ہیں اور اپنی مراد پا لیتے ہیں اور ہمارے فرزند اور اولاد ابھی تک محروم ہیں، اگر ان پر بھی مہربانی و لطف و کرم کی نظر فرمائی جائے تو میرے دل کا بوجھ ختم ہو جائے گا اور ان کو بھی شرف حاصل ہو جائے گا۔ ہمارے شیخ صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ہر درخت اپنے وقت اور موسم پر پھولوں اور میوہ سے بار آور ہوتا ہے۔ مگر شیخ صاحب کی اہلیہ نے اپنے فرزندوں اور بچوں کی محبت اور شفقت کی وجہ سے پھر التماس کیا کہ ازراہِ عنایت توجہ کی ایک نظر فرما دیجیے، تاکہ میرے بچے آپ کی نظر کرم سے مشرف ہو جائیں اور میرے دل سے غم دور ہو جائے۔ حضرت شیخ صاحب نے ارشاد فرمایا کہ جب تو اُس مقررہ وقت تک انتظار نہیں کر سکتی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں دیکھتی تو کل جس وقت میں مسجد سے گھر آنے لگوں تو اِن کو راستے میں کھڑا کر دینا تاکہ تقدیر کے اسرار تم پر آشکارا ہو جائیں۔ جب وہ رات گزر گئی تو اگلے روز اہلیہ صاحبہ نے بعد از نماز اشراق اپنے بچوں کو خادمہ کے حوالے کر کے راستے میں کھڑا کر دیا۔ جب حضرت شیخ صاحب نے اشراق کی نماز ادا کی، مسجد سے روانہ ہو کر زمین پر نظریں جمائے گھر تشریف لا رہے تھے، جب گھر کے نزدیک پہنچے تو آپ کے فرزند وہاں سے چلے گئے تھے حضرت شیخ صاحب نے جب آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اُن کی نگاہ ایک کالے کتے پر پڑ گئی، وہ کتا اسی وقت زمین لوٹنے لگا اور بے ہوش ہو گیا، حضرت صاحب تو اس جگہ سے چلے گئے مگر وہ کتا پانچ دِن رات تک بے ہوش پڑا رہا، اس کے بعد ہوش میں آیا اور حضرت شیخ صاحب کے گھر کے دروازے کے قریب ایک غار بنایا اور اس میں رہنے لگا۔ اس کے بعد ہر صبح و شام ارد گرد کے دیہات کے کتے اکھٹے ہوا کرتے تھے اور اس کتے کے آگے دو زانوں بیٹھ کر اپنی آواز سے اللہ کا ذکر کرتے اور وہ مذکورہ کتا مراقبے کی شکل میں خاموش رہتا اور اپنا سر زمین پر رکھتا اور ان کتوں میں سے بعض کتے ایسے بے خود ہو جاتے کہ اپنے جگہ پر لوٹتے تھے اور اپنی حالت کی اُن کو کچھ خبر نہیں ہوتی تھی۔ لوگ عبرت اور تماشا کی خاطر اُن کتوں کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہو کر آتے۔ اُس کتے کی زندگی تک صبح و شام وہ کتے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور یہ شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کا فیضانِ نظر تھا۔
دیگر:
حضرت صاحب کی خاصیتوں میں سے ایک یہ تھی کہ جو کوئی حضرت صاحب سے تصوف اور سلوک کی حقیقت کے بارے میں کوئی سوال پوچھتا تو اس کا نادر جواب عنایت فرماتے اور لمبی چوڑی قال و قیل نہ فرماتے اور خاموش رہتے۔ اگر کبھی کبھار کوئی جواب مرحمت فرماتے تو مثال کے طور پر کسی بزرگ کی بات نقل فرماتے۔ بیت ؎
؎ خوشتر آں باشد کہ سیر دلبران
گفتہ آید در حدیث دیگران
’’یہ بات بھلی لگتی ہے کہ معشوقوں کے اسرار کی باتیں دوسروں کی بیان میں کی جائیں‘‘۔
(مؤلف) یعنی یہ کہ فلاں ولی کی ایسی اور اس طرح کی بات تھی اور طالب یا سائل کی جو مُراد ہوتی تو مثال دیتے ہوئے اُسی بزرگ کے حالات نقل کرتے ہوئے ظاہر کرتے اور اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے، جو کوئی حضرت شیخ صاحب کے حالات اور طریقوں سے آگاہ ہوتا تو وہ یقینی طور پر سب کچھ جان لیتا تھا کہ دوسرے کے مثال میں سب حال بیان کرتے ہیں، اور جو کوئی آپ کے حال سے آگاہ نہ ہوتے تو نا سمجھی اور کم فہمی کی وجہ آپ کے اسرار سے محروم رہتے، ان کو کچھ خبر نہ ہوتی اور عمومًا بے نصیب رہتے کیونکہ پرندوں کی زبان پرندے جانتے ہیں۔
(بیت)
؎ مرغانِ چمن بہر صباحی
خواند ترا باصطلاحی
’’چمن کے ہر پرندے ہر صبح تمہیں اپنے مخصوص اصطلاح سے یاد کرتے ہیں‘‘۔
دیگر:
آپ کی توجہ سے ایک دن ایک شخص کسی دور دراز جگہ سے آیا تھا اور حضرت سے استدعا کی اور بہت منت سماجت کی کہ مجھے اپنی توجہ سے محروم نہ رکھیے۔ جب وہ شخص حضرت صاحب سے رخصت ہو کر گھر کی جانب چلا گیا تو رات کو ایک جگہ ٹھہر گیا، اُسی رات اس کو خواب میں کوئی بڑا کام پیش آیا کہ دنیا اور دنیا کے فرزندوں کی محبت اُس کے دل میں سرد پڑ گئی۔ اس مقام سے واپس ہو کر حضرت صاحب کے پاس آیا، حضرت صاحب نے اُس سے کہا کہ جب تم رخصت ہو کر آمادۂ سفر ہو گئے تو تم میری یاد سے نہیں نکلے تھے؟ اس شخص نے عرض کی اے حضرت! مجھے ڈر ہے کہ میں دیوانہ نہ ہو جاؤں۔ حضرت صاحب نے اس کی ہمت افزئی اور اچھی طرح تسلی کرا دی کہ بالکل خیریت ہوگی تم کسی کا خوف و خطر نہ کرنا۔ پھر اُس آدمی نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ مجھے سخت ڈر ہے۔ تیسری دفعہ بھی حضرت صاحب کی تسلی دینے کے باوجود اس کی تسلی نہ ہوئی اور اُسے اطمینان قلبی حاصل نہ ہوا، چنانچہ اس کے بعد ہمارے شیخ صاحب نے اپنا مبارک ہاتھ اُس کے سر پر پھیر دیا، اس سے اس کی وہ حالت بدل گئی تب اس آدمی کو یقین ہوا کہ وہ حالت ایک عظیم نعمت تھی اور میں نے اس کی قدر نہ جانی۔ بہت شرمندہ ہوا، پھر اگرچہ اُس نے اس واقعے کے بعد بہت منت سماجت، اور الحاح و زاری کی اور بہت افسوس کا اظہار کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا وہ وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور بقول شاعر:
؎ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
لیکن ہاں اس کو اتنا فائدہ حاصل ہوا کہ پنچگانہ نماز جماعت سے ادا کرتا تھا، اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتا تھا اور قرآن خوان ہو گیا اور بُرے کاموں اور منہیات شرعی سے بچتا رہا، لیکن اس کی سابقہ حالت اور محبت قلبی میں سے واپس کچھ ہاتھ نہ آیا۔
دیگر:
آپ کی وفات کے بعد آپ کا ایک مرید بہت بے قرار اور مضطرب رہتا تھا، اُس نے ایک فاضل و دانا آدمی سے پوچھا اور اس کو اپنی بے قراری سے آگاہ کیا کہ میرے پیر شیخ المشائخ اس فانی دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں، اگر میں کسی دوسرے مرشد کے حلقۂ ارادت میں داخل طریقت ہو جاؤں تو یہ شیخ المشائخ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اچھی بات ہو گی یا کہ بُری اور بے ادبی کی بات ہو گی؟ اس فاضل آدمی نے جواب میں فرمایا کہ جب تمہارے دِل کو قرار نہیں کہ جس بزرگ پر تمہارا یقین ہو اسی بزرگ کے ہاں جاؤ تو اس کے بعد تمہارے لیے اس کا نتیجہ دو باتوں میں سے ایک تو ضرور ہوگا، یا تو خود شیخ المشائخ صاحب تم کو وہاں تک پہنچائیں گے اور تمہیں اس کے حوالے کریں گے، اور اسی طرح تم ترقی کرو گے اور اپنی مراد تک پہنچو گے۔ اور یا تمہیں کوئی اشارہ کریں گے اور تم کو وہاں سے دور رہنے کا فرمائیں گے۔ یہ بات سننے کے بعد وہ کسی دوسری جگہ جانے کا ارادہ کر کے چل پڑا اور دو مقامات کا ارادہ کیا اور دونوں جگہوں کو آنے جانے لگا۔ چند بار تو عبد اللہ کوہاٹی کے پاس آتا رہا، مگر وہاں کچھ فائدہ معلوم نہ ہوا۔ اور چند بار اللہ داد المعروف منڈوری کے ہاں آتا رہا، وہاں بھی کچھ فائدہ محسوس نہ کیا، اسی طرح بہت زیادہ عرصہ گزر گیا، وہ مرید اِن دو مقامات پر آتا جاتا رہا۔ اس کے بعد حضرت شیخ صاحب اُس پر ایسی حال میں ظاہر ہوئے کہ دونوں ہاتھوں میں دو پہاڑ اٹھا رکھے تھے اور اس مرید کو کہا: کیا تو چاہتا ہے کہ اس ایک پہاڑ کے نیچے عبد اللہ کو ریزہ ریزہ کروں اور دوسرے پہاڑ سے اللہ داد کو ریزہ ریزہ کروں؟ وہ مرید روایت کرتا ہے کہ مجھ میں اُس وقت جواب دینے کی طاقت نہ تھی، شیخ صاحب نے خود اپنا جواب خود ہی فرمایا: "اچھی بات ہے، میں ان کو چھوڑے دیتا ہوں، علماء ہیں، جانے دو" اور اُن پہاڑوں کو اپنی جگہ پر رکھ چھوڑا اور اپنے ہاتھ سے میرا کان پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا، اور پھر اپنے ہاتھ سے اس کو پیوستہ کر دیا اور پیوند چھوڑ دیا اور فرمایا کہ جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ، میں نے تم کو نشان زدہ کر دیا ہے (یعنی کان میں پیوند کاری کی)۔ اِس کے بعد اس مُرید کی محبت عبد اللہ اور اللہ داد سے بالکل منقطع ہو گئی اور پھر کبھی بھی اِن کے پاس نہ گیا، بلکہ حال اور وقت کچھ کیفیت بھی اس کو حاصل ہو گئی۔
دیگر:
ایک آدمی آپ کی خدمت گزاری میں حاضر ہوا اور گناہوں سے توبہ کی، اِس سے قبل اس کے ایک عورت کے ساتھ نا جائز تعلقات تھے، اس کے توبہ کرنے سے وہ عورت بھی باخبر ہوئی کہ وہ شخص حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر تائب ہو گیا ہے۔ ایک بار کہیں اُس عورت کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اُس کو اپنے پاس بلایا، اُس عورت نے فورًا جواب دیا کہ تم نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر توبہ کی ہے، خبردار! بدی کے ارادے سے بھی دور رہو۔ وہ شخص وہاں سے روانہ ہو کر چلا گیا، جب وہ حضرت صاحب کی مجلس میں پھر حاضر ہوا، حضرت صاحب نے اشارتًا فرمایا کہ یہ کیا نالائق بات ہے کہ پھر سے بُری نیت کے ساتھ اس عورت کو بلایا تھا اور شیطانی فعل کو پھر سے تازہ کرنا چاہتا تھا، اور اس دن کی شرمندگی سے نجات کیونکر پا سکتا تھا کہ قیامت کے دن خجالت اور شرمندگی سے پیش ہوتا؟ وہ شخص سر نیچے کیے ہوئے شرمندہ ہوا اور وہ جانتا تھا کہ حضرت شیخ صاحب اس کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے۔ اس کے بعد وہ شخص بُرے فعل سے مجتنب ہو گیا اور نیکی کی طرف راغب ہو کر متقی شخص بن گیا۔
دیگر:
حضرت صاحب جو عمل یا عبادت فرماتے یا اپنے دردِ محبت کا اگر اظہار فرماتے تو یہ سب کچھ الہام کے نتیجے میں فرماتے، یا اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ کام کرتے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب پر محبت کا غلبہ ہوا تو خٹک کے ارد گرد کے علاقے میں حکم فرمایا کہ ہر گھر کے افراد ایک گائے مجھے دے دیں تاکہ میں اس کو خدا کے نام پر صدقہ کر کے صرف کروں اور اس کے بعد جو کچھ تم چاہو اور جو مرضی ہو مجھ سے اُس کی قیمت مانگو، میں وہ قیمت ادا کروں گا۔ حضرت شیخ صاحب کا یہ حکم ایسا نہیں تھا کہ کوئی اس میں چوں و چراں یا حکم عدولی یا سرکشی کرتا، یہاں تک کہ روزانہ بیس، تیس، چالیس بلکہ اس سے بھی زیادہ گائیں ذبح کی جاتی تھیں۔ اور اسی طریقہ پر بہت زیادہ عرصہ یعنی سال بلکہ اِس سے بھی زیادہ گذر گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک طالب علم کہتا تھا کہ میرے دِل میں بہت زیادہ خطرات تھے کہ حضرت شیخ جو کچھ کر رہے ہیں یہ ظلم ہے، وہ کہتا ہے کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور حضرت صاحب آٹھ آدمیوں کے ساتھ تشریف رکھے ہوئے مجلس فرما رہے ہیں، حضرت صاحب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا تو ان کو پہچانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کی کہ حضور میں اِن کو نہیں پہچانتا۔ حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ ان میں سے ایک شخص حضرت سیدنا نوح علیہ و علی نبینا الصلوۃ و السلام ہیں اور یہ دوسرے بھی پیغمبر ہیں اور میں جو یہ صدقات اور خیراتیں کرتا ہوں ان کے حکم سے کرتا ہوں، اور اپنے حکم اور خواہش سے نہیں کرتا۔ جب وہ عالم یہ خواب دیکھ کر جاگ اٹھا تو سمجھ گیا کہ حضرت کے تمام کام کسی حکمت سے خالی نہیں اور اپنے مال سے خود دو گائیں لا کر حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں پیش کیں اور آپ نے اُن کے ذبح کرنے کا حکم دے کر ذبح کر دیا۔ اسی طرح کسی دوسرے دن شوق و جذبہ کی حالت میں مستغرق ہو کر اور محبت الٰہی میں میں از خود رفتہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ساٹھ گائیں ذبح کر ڈالیں اور محبت کے غلبہ کی وجہ سے سینہ دیگ کی طرح جوش کھاتا تھا، اتنے میں اچانک خٹک قوم کا سردار شہباز خان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، جب شہباز خان نے آپ کو استغراق کی حالت میں دیکھا تو اس پر بہت زیادہ اثر ہوا، اس کے پاس ایک عراقی گھوڑا تھا جو ایک ہزار روپے کا خریدا گیا تھا، اس گھوڑے کو حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں بطور نیاز پیش کیا۔ حضرت شیخ صاحب نے اس کو ذبح کرنے کا امر فرمایا، بعض علماء جو وہاں موجود تھے انہوں نے عرض و استدعا کی کہ اس گھوڑے کی قیمت ایک ہزار روپے ہے، اس کو فقیروں کے لیے بیچنا زیادہ نفع کی بات ہے۔ حضرت صاحب نے ان کی بات سے منہ موڑا اور ان کی بات نہ مانی اور ان کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تجارت اور سودا گری کرنے کے لیے نہیں پیدا کیا، مجھے خدشہ ہے کہ گھوڑا بیچنے سے میں تاجر اور سوداگر بن جاؤں گا، اور گھوڑے کے ذبح کرنے کا امر صادر فرمایا۔ شہباز خان نے خود اپنے ہاتھ سے گھوڑے کو ذبح کر ڈالا، اُن ساٹھ گائیوں کو بھی پکایا، کچھ نا پختہ گوشت بھی رہ گیا۔ اچانک قریب کے ایک آدمی کے ہاتھوں سے ایک دیگ ٹوٹ گئی، شہباز خان نے اُس آدمی کو بہت ڈانٹا اور اس کی زجر و توبیخ کی، پس حضرت شیخ صاحب نے اس شخص کی تسلی اور تسکینِ خاطر کے لیے اپنی زبان سے فرمایا کہ تمام دیگوں کو توڑ ڈالو۔ اس حکم کے سنتے ہی اہل مجلس اور موجود لوگوں میں سے اکثر لوگوں نے دیگوں کو توڑنا شروع کیا اور پختہ اور خام گوشت غارت ہوا۔ اتنے میں ایک سخت غلغلہ، چیخ و پکار اور شور اُٹھا جس کی ہیبت کی وجہ سے بعض ناواقف عورتوں نے شہر چھوڑ کر پہاڑ کی سمت بھاگنا شروع کر دیا۔ حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس شور میں دیو و پری یعنی جنات بھی شامل ہوئے تھے، اور ان گایوں کا خون اور گوبر، ہڈی وغیرہ سب کو لوٹ کر لے گئے یہاں تک کہ اِن ساٹھ گایوں اور ایک گھوڑے کے خون اور لید وغیرہ سے زمین پر کچھ بھی باقی نہ رہا۔ اور بسا اوقات لوگ آپ کی خدمت میں اتنے زیادہ اور کثرت سے ہوتے تھے جن کا شمار کرنا ناممکن ہوتا تھا، اور جو کوئی اُن سے نکلنے کی کوشش کرتے تھے تو ان کی آواز کو کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی آواز ایسی تھی جیسا کہ پرندے شام کے وقت جمع ہو کر شور مچاتے ہیں۔ اور اکثر اوقات پچاس ساٹھ دیگوں کے اوپر کی چربی اور روغن اکھٹا کر کے فقراء کو کھلاتے تھے اور باقی ماندہ مواد عام لوگوں کو کھلاتے تھے۔ اور کبھی کبھی ارد گرد کے دیہاتوں کے غلاموں اور نوکر چاکر لوگوں کو بلا کر روغن اور چربی، گوشت سیر کر کے کھلاتے تھے اور ان لوگوں پر بہت شفقت اور مہربانی کرتے تھے۔ مسکینوں اور فقیروں اور عاجزوں پر نگاہِ کرم مبذول فرماتے تھے اور جو شخص بھی جتنا عاجز ہوتا اِس کے ساتھ زیادہ محبت فرماتے تھے اور اس کو دوست رکھتے تھے، آپ اکثر قحط سالی کے دنوں میں بہت خیرات و صدقات فرماتے تھے، اگرچہ آپ عمومًا خیرات اور صدقات کرتے تھے، لیکن قحط کے ایام میں کثرت سے کیا کرتے تھے۔
دیگر:
ایک دفعہ آپ کو کھانا پکانے کا شوق ہوا، ایک ہزار روپے کے چاول خرید لیے اور حکم دیا کہ ان کو رات کے وقت پکایا جائے اور خود کھڑے ہو کر تمام رات نماز پڑھتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا گیا کہ وہ سب چاول لوگ خام و پختہ شکل میں لے گئے ہیں، ایک شخص نے عرض کی کہ حضرت صاحب! لوگ سب چاول لے گئے ہیں۔ حضرت شیخ صاحب نے جواب دیا کہ میری مُراد بھی یہی تھی جیسا کہ ہو چکا، اور اسی وجہ سے میں نے رات کے وقت ان کے پکانے کا حکم دیا تھا۔ ایک دن ایک شخص نے عرض کی کہ جو لوگ آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی خیرات و صدقات کی چیزیں لے جاتے ہیں یا کھاتے ہیں، قیامت کے دن ان کا کیا حال ہوگا؟ حضرت صاحب نے ان کو جواب دیا کہ میں خیرات اور صدقات لوگوں کو نفع پہنچانے کی خاطر کرتا ہوں، اس غرض سے نہیں کرتا کہ ان کا مؤاخذہ ہو اور ان کو تکلیف و سزا ملے۔ اور حضرت شیخ صاحب خیرات و صدقات کے لیے اتنا قرض لے لیتے تھے کہ یہ بات عقل میں نہیں آتی تھی کہ حضرت شیخ صاحب کو اس قرض سے کبھی بھی رستگاری نصیب ہوگی، لیکن اللہ تعالیٰ اُس قرض کو تھوڑی مدت میں ادا فرماتے اور حضرت شیخ صاحب حسبِ معمول اور قرض حاصل فرماتے اور اس کو خیرات کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ اُس کو بھی تھوڑے عرصہ میں ادا کراتے اور موت کے وقت تک قرض کا یہ سلسلہ جاری تھا۔ اور اس طرح قرض لے کر خیرات فرمایا کرتے اور حسب دستور بہت تھوڑے عرصے میں وہ قرض اللہ تعالیٰ کے کرم و احسان سے ادا ہو جاتا۔ اکثر دفعہ تو آپ اتنا قرض لے لیتے کہ اُس کی ادائیگی کی عقل کی بموجب کچھ گنجائش نہ ہوتی، لیکن جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوتا ہے، ﴿وَ مَنْ یَّتَوکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ…﴾ (الطلاق: 3) ”جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے کافی ہوتا ہے“۔ اور اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ لَّہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ" یعنی جس کا اللہ تعالیٰ مولیٰ ہو تو سب کچھ اس کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے کی مراد پوری ہوتی ہے اور اس کا ہر کام اچھی طرح سر انجام پاتا ہے، مصرع:
؎ اللہ بس ما سوا ہوس
یعنی ’’اللہ بس، باقی ہوس‘‘۔
دیگر:
ایک دفعہ حضرت شیخ صاحب کو قرض لینے کا شوق ہوا، اس زمانے کے امیروں سے دس ہزار روپے بطور قرض لیے اور سب کچھ خیرات کر ڈالا، پس آپ کی والدہ محترمہ نے اُس وقت کے بعض فاضل لوگوں کو شفیع و سفیر بنا کر ایسا کرنے سے منع کرنے کو کہا۔ بعض مریدوں نے بھی رمز اور چھپے لفظوں میں ایسا ہی کیا۔ اُن فاضل لوگوں نے عرض کی کہ عام افغان لوگوں سے قرض لیا جائے تو یہ بُری بات نہیں، مگر امیر لوگوں سے قرض لینا زیب نہیں دیتا۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے فرزندوں اور اہل و عیال پر باقی رہ جائے اور اُس قرض کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچ جائے۔ یہ سُن کر حضرت صاحب نے مریدوں کی جانب دیکھا اور غصّہ ہوئے اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کرنے کا شوق ہو جائے تو میرے مرید، میری اعانت کریں گے۔ میرا یہ خیال کبھی نہ تھا کہ یہ لوگ میری راہ میں روڑے اٹکائیں گے اور میرے پروگرام میں خلل اندازی کے مرتکب ہوں گے۔ میرے لیے خدا کافی ہے اور ہر کام وہ سر انجام دیتا ہے۔ اور ان فاضلین کو کچھ جواب نہ دیا اور نہ اُن کے ساتھ کوئی بات چیت کی، لیکن اُنہوں نے عذر کر کے عرض کی کہ اے حضرت شیخ! میں نے آپ کی والدہ محترمہ کی خاطر آپ سے عرض کرنے کی گستاخی کی ورنہ میری ہرگز یہ مرضی اور خواہش نہ تھی، جو آپ کر رہے ہیں وہی درست ہے اور یہی کرنا چاہیے۔
دیگر:
ایک بار آپ کو غلام آزاد کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، افغانوں کے علاقے میں جو غلام بھی حضرت شیخ صاحب کو غلامی سے آزاد ہونے کے لیے عرض کرتا اور اگر دربار عالی میں فریاد کرتا حضرت شیخ صاحب اُس کو آزاد اور رہا کرنے کی سعی فرماتے۔ بعض تو قیمت دے کر اور بعض بلکہ اکثر مفت کہ مالک کو نصف قیمت بھی نہیں ملتی، آزاد کراتے۔ آپ کا یہ شوق کم و بیش تین سال تک جاری تھا۔ اور میرے اُستاد صاحب نے یہ محسوس فرمایا تھا کہ حضرت شیخ صاحب غلاموں کو اس وجہ سے آزاد فرماتے ہیں کہ وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور غلام تھے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی آزادی کی نعمت سے نوازے۔ اور شیخ ملی گل صاحب جو کہ حضرت شیخ صاحب کی مجلس میں اکثر حاضر رہا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے تین ہزار غلام آزاد کر لیے تھے اور سب کی مرادیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس روایت میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔ اور اسی طرح بعض غلاموں کے مالکوں کو واجب الاداء حق سے زیادہ بھی عنایت فرماتے تاکہ وہ راضی اور خوش ہو جائیں۔ انہی دنوں ایک غلام حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں آ کر فریاد کرنے لگا اور حضرت صاحب کے دامن کو پکڑ کر اپنی آزادی کے لیے استدعا کی۔ حضرت صاحب نے اس کے مالک کو بلوا لیا اور اس کو تسلی دے کر غلام کی آزادی کے لیے کہا، مگر وہ شخص اعراض اور رو گردانی کرتا رہا اور انکار کرتا رہا اور کسی طریقے سے راضی نہیں ہوتا تھا۔ حضرت صاحب بار بار اس کو کہتے رہے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا، آخر بہت کوشش اور محنت کے بعد جب اُس آدمی نے چھٹکارے اور نجات کی کوئی صورت نہ دیکھی، آخر کار اُس نے عرض کی کہ اگر آپ واقعی اس کو خدا کی رضا طلبی کے لیے آزاد کرانا چاہتے تھے تو دو سو اسی ادھیلی (اس زمانے کا سکہ) جب کہ ہر ادھیلی پر کابل کی ٹکسال کی ضرب اور نشانی ہو، مرحمت فرما دیجیے تو میں یہ غلام آپ کو دوں گا، ورنہ بصورت دیگر میں اس کو آزاد نہیں کر سکتا۔ جب حضرت صاحب نے دیکھا کہ یہ شخص اس آخری بات سے ٹلنے والا نہیں، اپنے گھر تشریف لے گئے اور دو سو اناسی یعنی دو سو اسی سے ایک ادھیلی کم رقم اپنے دولت خانے سے لے آئے اور شیخ ملی جو کہ مریدان خاص میں سے تھے، ان سے کہا کہ یہ ادھیلی گاؤں میں پیدا کر کے اس شخص کو دے دیجیے۔ شیخ ملی نے جوابًا عرض کی کہ اے ہمارے محترم شیخ صاحب! تمام ادھیلیوں کو جو کہ کابل کا سکہ ہے، آپ حاصل کر کے لے آئے اور یہ ایک ادھیلی ہاتھ نہیں آئی، اور مجھے معلوم ہے کہ اس سارے گاؤں میں پیدا نہیں ہو سکتی۔ اب یہ بات خدا جانتا ہے کہ وہ ادھیلی بھی حضرت صاحب نے گھر سے لا کر دی اور اُس غلام کے مالک کا مطالبہ پورا کر دیا، مالک نے رقم مذکورہ لے کر اس غلام کو حضرت صاحب کے حوالہ کر دیا، اور خود چلا گیا حضرت صاحب نے اُس غلام کو آزاد فرمایا۔ اور یہ قصہ حضرت صاحب کی کرامات کی طرف ایک رمزیہ اشارہ ہے کیونکہ حضرت صاحب کے پاس کچھ بھی موجود نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سب کچھ مہیا ہو کر ہاتھ آیا۔ ﴿وَ لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ…﴾ (المنافقون: 7) ”زمین اور آسمانوں کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں“ اس آیت مبارکہ کے اسرار و رموز کا یہی مفہوم ہے۔
دیگر:
اس زمانے کے بڑی عمر کے لوگوں سے منقول ہے کہ ایک دن حضرت صاحب اپنے مریدوں کے درمیان ایسے بیٹھے تھے جیسے پروانوں کے درمیان شمع منور ہو، کہ اچانک مریدوں میں سے ایک مرید کی نگاہ آپ کے کُرتے کی آستین پر پڑی جو کہ سیاہ اور زرد ہو چکا تھا۔ یہ خلاف معمول بات دیکھ کر اس مُرید نے حیرت سے پوچھا کہ حضرت ذرا اس بات کی وضاحت فرما دیجیے کہ آپ کا ہاتھ اور آستین کیوں کر سیاہ اور زرد ہو گئے ہیں تاکہ میرے دل کی تشویش رفع ہو کر اطمینان حاصل ہو جائے۔ حضرت شیخ صاحب نے مہربانی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی ناسمجھ اور نادان قوم میرے نصیب کی ہے کہ جو عقل و تمیز سے نا آشنا ہیں اور ہر بات میں مجھ کو یاد کرتے ہیں۔ فلاں گاؤں میں ایک عورت تھی جو کہ ننگے سر بیٹھی تھی اور ہانڈی آگ پر چڑھائے ہوئے بیٹھی تھی۔ ہانڈی کے نیچے آگ جل رہی تھی، عورت نے گود میں بیٹا لے رکھا تھا جو ضد کر کے رو رہا تھا اور کچھ آرام نہیں کرتا تھا، اس مٹی کی ہانڈی کے پیندے میں دراڑ پڑ گئی اور اس سے پانی بہنے لگا۔ اس عورت نے فریاد اور آہ و زاری شروع کی اور چلاتی رہی کہ اے حضرت شیخ صاحب! پہنچ جائیے۔ میں نے اس ہانڈی کے نیچے ہاتھ رکھا تاکہ ہانڈی بند ہو جائے، میرا ہاتھ دھوئیں اور آگ کی وجہ سے زرد اور سیاہ ہو گیا۔ الحمد للہ کہ ایسا مہربان غوث ہمارا مقتدا ہے کہ ہر مشکل اور صعوبت میں ہماری دستگیری فرماتا ہے۔
دیگر:
حضرت صاحب کی نگاہ کیمیا اثر تھی، جس ناخواندہ شخص پر بھی آپ کی نگاہ پڑتی تو اُس کو باطن کا حال معلوم ہو جاتا اور اس کو ایسا علم حاصل ہو جاتا کہ لوگ اس کے کلام و گفتگو کو سُن کر دنگ رہ جاتے، اور کوئی عالم شخص بھی اس کی کسی بات کو بھی دلیل سے رد نہیں کر سکتا تھا، اور بے علمی کے باوجود وہ شخص شریعت پر عمل کرتا اس کو طریقت سے بھی آگاہی ہوتی اور معرفت اور حقیقت کو بھی اچھے طریقے سے بیان کرتا۔ چنانچہ ایک شخص جس کا نام فتح تھا ناخواندہ، اَن پڑھ اور بے علم تھا جو کہ اکثر حضرت صاحب کی مجلس میں حاضر ہوتا۔ دورانِ مجلس ایک دفعہ آپ نے اس شخص کے اچھے اوصاف بیان فرمائے، اس شخص نے اپنے عمل و کردار سے شرمندہ ہو کر نگاہیں زمین پر گاڑ دیں اور جی میں کہتا کہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ میرے جو اوصاف بیان فرماتے ہیں مجھ میں اُن کی بُو تک موجود نہیں، میرا عمل نا شائستہ اور نہایت بُرا ہے لیکن اس کے باوجود حضرت صاحب اُس کے حال پر مہربانی فرمایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے رحلت فرمائی وفات کے تیسرے دن یا کم و بیش دنوں کے بعد اس شخص پر ظاہر ہوا اور اُس پر توجہ اور مہربانی فرمائی اور اس پر ایک عظیم الشان تاثیر رونمائی ہوئی، حضرت صاحب نے اس کو حکم فرمایا کہ فلاں مکان میں قیام کر۔ وہ مکان تقریبًا بارہ تیرہ میل دور تھا، اسی شخص نے وہاں جا کر اُس مکان میں گوشہ نشین ہو کر لوگوں سے تنہائی اختیار کی مگر اس کے دل میں خطرے اور وسوسے آتے رہے کہ مبادا یہ شیطانی کام نہ ہو یا شاید کہ رحمانی ہو، اس کی وجہ سے وہ بہت رویا کرتا تھا اور نہایت غم زدہ اور پُرملال رہتا۔ پس حضرت صاحب اُس پر دوسری بار ظاہر ہوئے اور اس کو کہا کہ اُس شخص کی برابری کون کر سکتا ہے جس کا خود اللہ تبارک و تعالیٰ وکیل ہو۔ پس اُس کے دل سے وہ خطرہ کافور ہو گیا اور اسی مذکورہ مکان میں سکونت اور آرام سے رہا، کم و بیش سات سال تک وہاں خلوت نشین رہا اور ہمیشہ بیمار اور مریض رہتا تھا جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "اَلْبَلَاءُ مُوَکَّلٌ بِالْأَنْبِیَاءِ ثُمَّ الْأَوْلِیَاءِ…" (إحیاء العلوم، کتاب التوبۃ، بیان کیفیۃ توزع الدرجات و الدرکات في الآخرۃ، رقم الصفحۃ: 27/4، دار المعرفۃ بیروت) ”مصائب و آلام انبیاء علیہم السلام پر آتی رہتی ہے پھر اُن کے بعد اولیاء کرام رحمہم اللہ پر“ وہ شخص خود نقل کرتا ہے کہ اِس بیماری کے دوران میں ایک بچے کی طرح تھا کہ پیدا ہونے کے بعد پہلے تو وہ نیند کرتا ہے پھر اُس کے بعد بیٹھتا ہے اور اس کے بعد تھوڑا تھوڑا چلنے نکلتا ہے۔ میں بھی مذکورہ بچے کی طرح تھا اور ان سات سالوں میں سے پہلے تین سال مجھ پر غلبۂ حال تھا اور اس دوران شیخ المشائخ ہمیشہ کوشش اور توجہات فرماتے تھے، یہاں تک کہ شیخ المشائخ رحمۃ اللہ علیہ کو میری جانب سے اطمینان ہوا کہ میرا رفیق مجھ سے مل گیا، یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کا وصال نصیب ہوا۔ اور یہ بھی وہ شخص نقل کرتا ہے کہ حضرت شیخ المشائخ نے تین دفعہ میرے لیے رسول اللہ ﷺ کے دربار عالیہ میں التجا کی، جو تیسری دفعہ شرفِ پذیرائی پا گئی۔ اور خود رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے اپنی ملاقات اور دیدار کی سعادت عظمیٰ سے نوازا، اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین میں سے بعض بزرگ ہستیاں بھی آپ ﷺ کے ہم رکاب تھیں۔ اِن میں سے ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ بھی تھے اور ہمارے شیخ صاحب اُن کے دائیں طرف سے ادبًا آتے جاتے تھے، اور اُن کو عرض کرتے تھے کہ آہستہ آہستہ جایئے تاکہ وہ ڈر نہ جائے۔ جب سرورِ کائنات فخرِ موجودات ﷺ تشریف لے آئے اور مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا اور مُسکراتے رہے کہ الٰہی بعض لوگ کیا کرتے ہیں اور بعض کیا؟ یہ بندہ جس کے پاؤں گوبر اور لید سے آلودہ ہیں لیکن یہ صرف تمہارا کرم ہے، یعنی بعض لوگ بہت نیکی کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی اور بعض لوگ اگرچہ خرابات میں ہوتے ہیں، تمہارا فضل اس کی رہنمائی کرتا ہے، وہ توبہ کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے اور عجیب کہ حقیقت پا جاتے ہیں۔ پس اُس شخص کو علوم باطن سے ایسا علم نصیب ہوا گویا کہ اس کے سینے میں ایک بڑا سمندر ہے، جس میں علمِ معرفت، علم حال اور علمِ حقیقت کے سمندر موجیں مارتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَيْءٌ" یعنی جس نے اللہ کو پہچانا تو اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔
وہ شخص کہتا ہے کہ زمین کی تمام بیماریاں مجھے دکھائی دیا کرتی تھیں اور میں اُن سے واقف ہوتا اور میں دیکھتا تھا۔ اور یہ بھی فرماتے تھے کہ میں نے تجربے سے معلوم کیا کہ اعمال میں سے بہترین عمل نیک نیت ہے جو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ بیت
؎ چندیں فنون شیخ نیرزد بہ نیم خس
راحت رساں بدل کہ ہمیں مشرب است و بس
’’شیخ کے اتنے سارے فنون کی قیمت ایک آدھے خس کے برابر بھی نہیں، تو دلوں کی آرام اور راحت، پہنچانے کی کوشش کرتا رہ، (کہ یہی ہمارا طریقہ ہے) اور اس کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
دیگر:
حضرت صاحب نے اپنے ایک خاص مرید کو حکم فرمایا کہ اپنے لیے ایک خاص حجرہ اور تنہا جگہ بنا اور اس میں رہا کر۔ چنانچہ مرید نے حسبِ حکم اپنے لیے علیحدہ جگہ بنا کر اس میں رہائش اختیار کی۔ تھوڑے عرصے کے بعد اس کو رمزیہ طور پر اشارتًا ظاہر ہوا کہ وہ زمین پر آ رہا ہے اور اس کا مکان زمین پر ایک شگاف معلوم ہوتا تھا۔ اور اس شگاف سے دل کا سوراخ دکھائی دیتا تھا اور ہر قسم کے علوم کشف و کرامات الہام اور دیگر تمام علوم اس کو حاصل ہوئے، اور علوم کے خزانے اس پر روشن اور ظاہر ہوئے اور یہ دل پر ضرب کی مثال ہے۔
دیگر:
ایک دفعہ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ محبت کا ایسا استغراق طاری ہوا تھا کہ وجود فنا میں تبدیل ہوا اور تمام جسم اور وجود سونے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مریدوں میں سے ایک مرید اُس وقت حاضر تھا، حیرت زدہ اور پریشان ہو کر آپ کو دیکھ رہا تھا، مگر ادب کی خاطر کچھ نہیں کہہ سکتا تھا اور نہ کچھ پوچھ سکتا تھا۔ جب حضرت صاحب ہوش میں آ گئے اور اپنا سابقہ وجود دوبارہ حاصل ہوا تو اس مرید کو اشارتًا فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ یا خواہش و مرضی ہو جائے تو تجھے بھی یہ حال حاصل ہوگا اور اس کو بھی کچھ عرصہ کے بعد وہی حال حاصل ہوا اور وہی درجہ اس کو ہاتھ آیا۔
دیگر:
ایک وقت آپ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ حضرت اپنا بستر اور سرہانہ کبھی بھی بچھا دیتے تھے، اور کبھی پھر اُس کو سمیٹ لیتے تھے۔ خود بیانی کے طور پر اُس نے فرمایا کہ یا کسی کے پوچھنے پر اُنہوں نے جواب دیا کہ جب میں اس کو بچھا کر دراز کرنا چاہتا ہوں تو اقصائے زمین سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اس کو سمیٹ لینا چاہوں تو پھر اپنے مکان و مقام پر آ جاتی ہے۔ اور اسی طور اور رمز پر منصور حلاج کی بات بھی تھی کہ جب آخر کار ان کے ہاتھ کاٹے گئے تو انہوں نے کہا کہ میرے ظاہری ہاتھوں کو تم نے کاٹ لیا لیکن میرے باطن کے ہاتھ جو کہ عرش تک پہنچے ہیں کوئی بھی نہیں کاٹ سکتا۔
دیگر:
شیخ دریا خان سکنہ چمکنی جو کہ آپ کے بزرگ خلفاء میں سے ہیں، آپ کے علم غیبی کے رموز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حج کا ارادہ کیا، میں نے حضرت سے التماس کیا مگر آپ نے مجھے اجازت نہیں دی اور میرے ساتھ تھوڑی دور چل کر واپس ہوئے۔ کچھ عرصے بعد میں نے پھر خدمتِ اقدس میں عرض کی اور حج پر جانے کی اجازت چاہی پس حضرت صاحب نے اجازت مرحمت فرما کر رخصت کیا اور رفاقت کے طور پر تھوڑی دور تک ساتھ ہو لیے۔ پھر واپسی کے وقت فرمایا کہ اے شیخ دریا! یہ دیکھنا اور ملاقات، قیامت کی ملاقات کی مانند تصوّر کرنا۔ شیخ دریا رخصت ہو کر حج کو روانہ ہوئے۔ جب شیخ دریا مناسک حج سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو راستے میں ہی قندہار میں ان کو شیخ صاحب کی وفات کی خبر موصول ہوئی۔ نہایت غم زدہ ہو کر تأسف کیا اور حضرت صاحب کی بات اُنہیں یاد آئی کہ یہ ملاقات قیامت کی ملاقات کی طرح دکھائی دیتی ہے، رخصت کرنے کے وقت کی بات اب ظاہر ہوئی۔
دیگر:
ایک شخص حضرت صاحب کی زیارت کرنے کے لیے آیا، مسجد میں بیٹھ کر رات گزارنے کا قصد کیا، جب رات ہوئی اور تھوڑی سی رات گذر گئی تو اچانک حضرت صاحب نے مسجد میں تشریف لا کر اس شخص کو نیند سے جگایا اور اس کو حکم دیا کہ گھر چلے جاؤ۔ وہ شخص روانہ ہوا، جب گھر کے محاذ پر پہنچا تو آسمان پر بادل آئے اور چھاجوں پانی برسایا، اُس کے مویشی ایک وادی (نالے) میں تھے فورًا جا کر اُن کو وہاں سے نکال لایا، اُس کے بعد اس جگہ سخت سیلاب آیا، اگر وہ حاضر نہ ہوتا تو اُس کے تمام مویشی ڈوب کر ہلاک ہو جاتے۔ پس حضرت صاحب کے کلام اور اُن کے حکم کی حقیقت اور حکمت اُس نے یقینی طور پر جانی اور اس کو نافع اور مفید پایا۔
دیگر:
آپ کے مریدوں میں سے ایک مرید حج کا ارادہ کرتے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج پر جانے کی اجازت کی درخواست کی، آپ اجازت نہیں دیتے تھے، کچھ عرصہ بعد دوبارہ اجازت چاہی اس بار اجازت عطا فرما کر اس کو رخصت کیا اور اس کو نصیحت کی کہ جب کبھی اور جہاں تم کو کوئی مصیبت یا مشکل پیش آئے مجھے یاد کر کے فریاد رسی کے لیے بلانا۔ مذکورہ مرید قندہار اور اصفہان کے راستے حج کے لیے روانہ ہوا۔ چند اور حاجی بھی ان کے ہمراہ تھے اور رافضیوں کے ملک میں سے گذر رہے تھے کہ رافضیوں نے اِن کو گرفتار کر کے کہا کہ شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ، کے بارے میں بدگوئی کرو۔ ان حاجیوں نے شیخین رضی اللہ عنہم کو گالی دینے سے انکار کیا آخر رافضیوں نے حجام کو بلایا کہ ان حاجیوں کے داڑھی مونڈھ ڈالو۔ حجام نے ان میں سے ایک کی داڑھی مونڈ ڈالی۔ جب دوسرے کی مونڈنے لگے تو وہ دوسرا شیخ یہ شخص تھا کہ جس کو حضرت شیخ صاحب نے فرمایا تھا کہ سختی کے وقت مجھے یاد کرنا، تو وہ شیخ اپنے آپ کو ہلا رہا تھا اور داڑھی کو مونڈنے نہیں دیتا تھا۔ آخر کار اس کو مغلوب کیا گیا اور تھک ہار کر داڑھی مونڈنے پر آمادہ ہوا کہ اچانک اس کو اپنے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات یاد آ گئی۔ اس نے چیخ مار کر فریاد کی کہ اے کاکا! مجھے نہیں چھوڑتے اور میری داڑھی مونڈتے ہیں۔ جب اُس نے یہ آواز بلند کی تو اللہ کے فضل سے رافضیوں میں اختلاف اور بے اتفاقی پیدا ہو گئی وہ دو گروہ بن گئے اور حضرت صاحب کا مرید اُن سے نجات پا گیا۔ بہت سے لوگ حضرت صاحب کو کاکا کے نام سے پکارتے ہیں۔ پھر دوسری دفعہ بھی روافض نے اس کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور شیخین کو گالی نہ دینے پر مارنے پیٹنے لگے اور وہ انکار کرتا رہا، قریب تھا کہ مجبور ہو کر داڑھی مونڈوانے پر آمادہ ہو جائے کہ پھر اُسی طریقے سے فریاد کر کے پکارنے لگا، اس دفعہ ایک بوڑھی عورت نے اس کو رہائی دلائی، کیونکہ اِس دفعہ معاملہ شہر کے اندر کا تھا۔ جب مکہ مکرمہ پہنچا تو ایک بزرگ نے اُسے ذکر کرنے کی تلقین کی تو اُس نے جواب دیا کہ میں نے محبت کا مقام پا لیا ہے میں اپنے آپ پر حکم نہیں رکھتا، اختیار کی لگام میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے۔ وہ بزرگ بہت کوشش کرتا رہا مگر اُس کی کوشش اور سعی کار گر نہ ہوئی، کیونکہ عاشق اپنے معشوق کے حسن و جمال کے بغیر کسی دوسری چیز کو نہیں دیکھتا کہ میں سر اور مال سے گذر چکا ہوں اور اگر میرا چمڑا بھی کھینچا جائے تو میں اِس سے بھی دریغ نہیں رکھوں گا۔ اس کے بعد اُس بزرگ نے کہا کہ یہ عارفوں کی نِشانی ہے، پھر ملک شام کے ایک دوسرے بزرگ نے بھی یہی تلقین کی مگر اس کو بھی یہی جواب دیا اور اس کی خدمت میں آنے کو قبول نہ کیا۔ جب وہ مرید حج سے فارغ ہو کر اپنے وطن کو واپس ہوا تو حضرت شیخ المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب نے اُس کو کہا کہ مکہ مکرمہ اور شام کے اُن بزرگوں نے تم سے باتیں کیں مگر ازل کے لکھے ہوئے کو نہیں دیکھا۔ اس مرید کو یقین ہو گیا کہ حضرت صاحب کو میرے تمام کاموں کی اطلاع اور واقفیّت ہے، عرض کی کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں جو کچھ کہ مجھ پر گزری ہے آپ نے دیکھی ہے۔
دیگر:
حضرت صاحب اپنے جد بزرگوار شیخ مست بابا صاحب قدس سرہٗ کے مزار کو تشریف لے گئے، زیارت کرنے کے بعد جب واپس ہونے لگے تو وہاں کے باشندے آپ کی قدم بوسی کے لیے آئے تو ان لوگوں میں سے ایک شخص نے نیاز کے طور پر ایک گائے نذر کر دی اور حضرت صاحب سے رخصت ہوا۔ تھوڑی دور وہ شخص گیا تھا کہ اُس کے دل میں یہ بات گزری کہ میرے گاؤں میں بھی محتاج اور مسکین ہیں، کاش کہ یہ گائے میں اپنے گاؤں میں خیرات کرتا۔ اس خیال کے آتے ہی یہاں سے حضرت شاہ صاحب نے ایک شخص کو اُسے بلانے کے لیے بھیج دیا، جب وہ حاضر ہوا تو اس کو فرمایا کہ کل اپنے گاؤں کے محتاجوں اور مسکینوں کو گائے کے ساتھ یہاں لانا تاکہ ان سب کو اور دوسرے محتاجوں کو کھلایا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کرام کو فرمایا ہے کہ تمہاری خیرات جو میرے ہاتھوں سے صرف ہو جائے تو یہ اس خیرات سے بہتر ہے جو تمہارے ہاتھ سے خرچ ہو۔ اُس شخص نے ویسا ہی کیا جیسا کہ حضرت صاحب نے ان کو فرمایا تھا۔
دیگر:
ایک شخص حضرت شیخ صاحب کی زیارت کو آئے اور کچھ نیاز بھی لائے، حضرت صاحب نے اُن سے حال احوال پوچھا اور ان پر شفقت فرمائی، تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب گھر کی طرف چل دیئے، چند قدم تشریف لے گئے تھے کہ واپس ہو کر اس شخص کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اس کی طرف توجہ کر کے دیکھا، حضرت صاحب کی توجہ کی وجہ سے اُس شخص کا ایسا حال ہوا کہ تین ماہ تک اس کے جسم پر نیند غالب نہ ہوئی، نگاہ کیمیا اثر اسی کو کہتے ہیں۔
دیگر:
حضرت صاحب کے بعض مریدوں کو ایسا علم و دانش حاصل تھا کہ اگرچہ عامی اور ان پڑھ ہوتے، مگر اُن کے علم و دانش اور فہم و خرد مندی کے آگے علماء و فاضلان حیران رہ جاتے اور حضرت صاحب کی ایک نگاہ سے اُن پر اسرار اور رموز اور علم کے ایسے خزانوں کے در کھل جاتے کہ وہ مرید از خود رفتہ ہو کر اپنے آپ سے بے نیاز ہو جاتے اور دنیا کی محبت اُن کے دل سے بالکل قطع اور محو ہو جاتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف کلی طور پر متوجہ ہو کر عشق الٰہی میں دیوانے، مست اور بے خود ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے سوال نہ کرتے، نہ کسی غیر اللہ سے ڈرتے اور نہ خوف کھاتے، کسی خوشی اور غم سے خوش اور مغموم نہ ہوتے اور لوگوں کی تعریف اور ہجو سے بالکل بے پروا ہو جاتے اور اپنے نفع و نقصان کا تصور غیر اللہ سے نہ کرتے اور اکثر اوقات کچھ نہ کھاتے اور بھوک سے کچھ تکلیف نہ ہوتی اور نہ اس سے کمزوری محسوس کرتے، مفلسی کا انہیں کُچھ غم نہ ہوتا، گرمی سردی کی اُنہیں کچھ پرواہ نہ ہوتی اور نام و نمود اور بے جا نام نہاد ننگ و غیرت اُن کے لیے سدِ راہ یا حجاب نہ بن جاتے، اور لوگوں سے دور رہ کر خوش ہوتے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی طلب میں منہمک رہتے، غیر اللہ کا خیال دل میں نہ لاتے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک بار ایک درویش کو ایک مالدار آدمی نے اپنا مہمان بنایا، مالدار آدمی نے جب اس کی بے نوائی کو محسوس کیا تو اگلے روز اس کے پاس کچھ نقد رقم ارسال کی، درویش نے وہ رقم واپس کرتے ہوئے یہ پیغام بھیج دیا کہ یہ اس بات کی بہت کڑی سزا ہے کہ میں نے تم کو اپنی درویشی کی اطلاع دی۔ اسی طرح حضرت صاحب کے دیگر مریدوں کے حالات ہیں۔
دیگر:
آپ کے مریدوں میں سے ایک مرید ایک دفعہ آپ سے ملاقات کے لیے آ گئے، اس سے قبل وہ کبھی نہیں آئے تھے، حضرت صاحب کی جب خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پاس پانچ روپے تھے، خیال کیا کہ ایک روپیہ روز نذر پیش کروں گا تاکہ وقت بھی زیادہ لگے اور مجلس کی حاضری بھی ہاتھ آ جائے۔ وہ شخص کہتے ہیں کہ ایک دن اُن پر توجہ کی نگاہ ڈالی، آپ کی ایک نگاہ کیمیا اثر اور نظر کرم سے مجھے اتنا فیض حاصل ہوا کہ سونا اور مٹی میری نگاہ میں ایک جیسے ہو گئے اور دنیا سے قطع تعلق کر لیا اور میرے دل میں دنیا کی محبت کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہا۔
دیگر:
حضرت صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید آپ کی زیارت کے لیے آئے اور مجلس میں بیٹھے، حضرت صاحب نے اِن کی طرف نظر کی اور توجہ فرمائی۔ مرید کہتے ہیں کہ حضرت صاحب کی ایک نگاہ سے میں نے محسوس کیا کہ میرا سر آسمان سے بلند ہو گیا ہے جب دوسری دفعہ نگاہ فرمائی تو میرا جسم موم کی طرح آگ پر پگھل گیا، مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ شاید میرا جوڑ جوڑ جدا نہ ہو جائے لیکن خیریت ہوئی کہ میں اپنی اصلی حالت پر رہا۔
دیگر مناقب:
آپ کا ایک مرید ایک دفعہ آپ کی مجلس میں حاضر تھا، اس وقت آپ جذباتِ الٰہی کے اتھاہ سمندر میں غرق تھے، مذکورہ مرید بھی متاثر ہو کر کھڑا اپنے بے قراری ظاہر کر رہا تھا اور سر کو جنبش دے رہا تھا اور خیال کر رہا تھا کہ اس کا سر آسمانِ چہارم پر ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے ایک شخص کو کہا کہ اس سے کہہ دو کہ قرار و سکون اختیار کرے۔ مجذوب مرید نے کہا کہ اختیار میرے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور اب میرے ہاتھوں میں اختیار نہیں ہے۔ یہ باتیں کہتے ہوئے اس مُرید کی حالت اعتدال پر آ گئی اور اس کو صبر و سکون حاصل ہو گیا اور آرام سے بیٹھ گیا۔
دیگر:
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خاص مُریدوں میں سے ایک مُرید بیت اللہ شریف کے سفر میں ایران کے ملک میں کمزوری یا خستہ حالی اور در ماندگی کی وجہ سے نیند اور خواب کے غلبہ کی وجہ سے قافلے سے پیچھے رہ گیا، یعنی قافلہ تو کوچ کر گیا اور وہ بے چارہ سوتا رہ گیا۔ مذکورہ مرید کہتا ہے کہ جب میرے مرض میں کمی ہوئی اور تھکن میں کمی محسوس کی تو میں نے دیکھا کہ میری پشت کی جانب سے دور گرد و غبار اُٹھ رہا ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ ایک قافلہ آ رہا ہے، میں حیران ہوا کہ ہمارے پیچھے تو کوئی قافلہ نہیں تھا یہ گرد و غبار کہاں سے ہے۔ جب غبار نزدیک ہوا تو میں نے دیکھا کہ یہ وہی قافلہ تھا جس سے میں رہ گیا تھا، وہی قافلہ میرے پیچھے آ رہا ہے، میں تاڑ گیا کہ حضرت صاحب مجھے لا چکے ہیں اور ان کے ساتھ ملایا ہے۔
دیگر:
میں نے روایت سنی ہے کہ آپ مکہ مکرمہ میں نماز پڑھتے تھے اور پھر غائب ہو جاتے تھے اور ہمیشہ ایک مقررہ جگہ پر کھڑے ہو جاتے تھے، ایک دن سلام پھیرنے کے بعد ایک شخص نے آپ کی ران پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، اس نے پھر قسم دے کر کہا کہ تمہیں رب ذو الجلال کی قسم بتلا دو کہ تم کون ہو؟ اس کے بعد آپ نے جواب دیا کہ میں رحمکار خٹک ہوں۔ وہ شخص روایت کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ غائب ہو کر چلے گئے۔
دیگر:
میں نے سُنا ہے کہ ایک شخص دہلی شہر میں ہمارے شیخ المشائخ کے ساتھ بہت ارادت و عقیدت رکھتا تھا اور خاص یقین رکھتا تھا اور وہ شخص دنیا دار تھا اور وہاں کے بڑے لوگوں کے ساتھ تنازعہ اور جھگڑا رکھتا تھا، اُن لوگوں نے اس کو بہت تنگ کیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اور اس کو اہل و عیال کے ساتھ مکان میں محصور کر کے اس شخص کو زخمی کر دیا، وہ بھی مکان کا دروازہ خوب مضبوط بند کر کے ہاتھ میں تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور اپنے بعض دشمنوں کو بھی زخمی کر دیا، رات کا کچھ حصہ گذر گیا تھا کہ حضرت صاحب ان کے پاس آئے اور اس کو فرمایا کہ ایک گھٹڑی ہاتھ میں اٹھا کر مع اہل و عیال نکل جاؤ اور باقی مال یہاں چھوڑو۔ اس شخص نے کہا کہ میں کیسے نکل جاؤں، دشمن مکان کے چاروں طرف تاک لگائے بیٹھے ہیں، مگر حضرت صاحب نے مکرر طور پر کہا کہ ایک گھٹڑی اٹھا کر مع اہل و عیال نکل جاؤ۔ یہ سُنتے ہی اس شخص نے صرف ایک گٹھڑی اٹھائی اور مع اہل و عیال کے باہر چلے جانے کے ٹھانی، وہ شخص کہتا ہے کہ شیخ صاحب ہمارے آگے اور ہم اُن کے پیچھے چلے جا رہے تھے، جب دروازے پر پہنچے تو ہم حیران ہو گئے کہ دروازہ مقفل ہے ہم کس طرح نکلیں گے، اچانک ہم نے آواز سنی کہ قفل خود بخود کُھل گیا، جب دروازے پر پہنچے تو دروازہ بھی کھلا تھا، ہم باہر بھی نکل گئے پھر جو ہم نے دیکھا تو حضرت صاحب غائب تھے، ہم حیران و سرگرداں رہ گئے، جب ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا ایک جنگل پر نظر پڑی، ہم وہاں ٹھہر گئے اور ہم پر ہیبت اور خوف چھایا ہوا تھا کہ اس جگہ ہم کو دشمن دیکھ پائیں گے۔ جب صبح صادق کی روشنی پھیل گئی اور ہم نے ماحول کو دیکھ کر غور و فکر کیا تو ہم کو معلوم ہوا کہ ہم قصور کے گرد و نواح میں ہیں، قصور میں میرا ایک واقف اور دوست تھا، اپنے بال بچوں کو میں نے تسلی دی کہ ہم قصور کے علاقے میں آئے ہیں کچھ خطرے کی بات نہیں، یہاں میرا ایک واقف اور دوست ہے جو ہماری اچھی طرح خاطر تواضع اور خدمت کرے گا، اس کے بعد ہم اُس دوست کے گھر چلے گئے اور ہم نے وہاں آرام سے سکونت اختیار کی یہاں تک کہ میرے زخم بھر کر اچھے ہو گئے اور اپنے اُس دوست کی مدد سے دشمنوں سے اپنا مال بھی واپس لے لیا۔
دیگر:
ایک دن ایک امیر جس کا دادا حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معتقد تھا، کامرو کے مقام پر ایک مشکل میں پھنس گیا اور کسی صورت میں بھی اپنی رہائی کی شکل نظر نہ آتی تھی، لیکن حضرت صاحب کی توجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی نجات کی کوئی صورت بہم پہنچائی، اور وہ مع اپنے لشکر کے، اُس مشکل سے آزاد ہوا۔ جب وہ امیر حضرت کی زیارت کو آیا تو شیخ المشائخ حضرت صاحب نے اُس کو بتایا کہ ایک دفعہ کامرو کے مقام پر تم ایک مشکل میں پھنس گئے تھے، تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی۔ اس امیر نے جواب دیا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ ہماری رہائی آپ ہی کی توجہ کے مرہون منت تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ توجہ کرنا اس امیر کے دادا کی وجہ سے تھا ورنہ وہ امیر خود صادق العقیدہ نہ تھا۔
دیگر:
حضرت صاحب کا ایک مرید تھا جس کا بیٹا ہندوستان کی جانب چلا گیا تھا، کچھ عرصہ بعد وہ مرید حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کر کے اجازت چاہی کہ اپنے بیٹے کی تلاش میں چلا جائے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ چند دِن ٹھہرو، اس مرید نے حضرت صاحب کے کہنے پر عمل کیا اور حضرت صاحب کے ہاں دس بارہ دِن ٹھہرا رہا۔ انہی دنوں میں اس کا بیٹا اتفاقًا آیا اور اپنے باپ کے ساتھ وہاں ملاقات کی۔ حضرت صاحب نے دونوں کو رخصت کر کے گھر روانہ کیا اور ان کو حضرت صاحب کے حکم کا نتیجہ ظاہر ہوا اور ان کا یقین بڑھ گیا۔
دیگر:
حضرت صاحب کا یوسف زئی کے علاقے میں نذر نام کا ایک مرید تھا جو سوات میں رہا کرتا تھا، بہت عرصے تک حضرت صاحب کی خدمت میں آتا جاتا تھا، حضرت صاحب کی رحلت کا وقت قریب ہوا، اس آخری دفعہ جب وہ شخص آیا تو اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لایا اور حضرت صاحب کی زیارت کی اور کچھ عرصہ حضرت صاحب کی خدمت میں رہا۔ جب وہ میاں بیوی رخصت ہونے لگے تو حضرت صاحب نے اُن کو شیخ جعفر اٹک کے ہاں بھیج دیا کہ وہاں جائیں اور وہیں مشغول رہا کریں۔ اس کے بعد حضرت شیخ صاحب اس دار الفنا سے رحلت فرما گئے، وہ شخص بدستور شیخ جعفر اٹک کے ہاں مقیم تھا، میں نے اٹک میں اتفاقًا شیخ جعفر کے ساتھ ملاقات کی تو میں نے اس مرید کو بھی وہاں دیکھا۔ اثنائے گفتگو میں اس شخص نے کہا کہ میں شیخ صاحب کے حکم سے یہاں آیا ہوں، وہ ایک حاذق طبیب تھے اگر میں یہاں مشغول نہ ہوتا تو آپ کی جدائی میں غم سے مر جاتا اور شیخ جعفر کے سامنے حضرت صاحب کی یہ کرامت بھی بیان فرمائی کہ جب ہم آخری بار اپنی اہلیہ کے ساتھ حضرت صاحب کی زیارت کو آئے تھے تو جب ہم دونوں کو رخصت فرمایا، تو راستے میں میرہ کے میدانی علاقے میں سخت بارش ہوئی، چنانچہ بلڑ اور کلپانی کے نالے میں طغیانی اور سیلاب آیا اور ہمارے لیے آگے جانے کا راستہ بند ہو گیا، ہم حیرت زدہ ہو کر رہ گئے۔ اندھیری رات تھی اور ابھی بارش برس رہی تھی اسی اثناء میں حضرت صاحب ظاہر ہوئے اور کہا کہ تمہاری بیوی میری بیٹی ہے، اس کو ایک بازو اور مجھے دوسرے بازو سے پکڑ کر نالے کی جانب بٹھایا اور اپنا مصلیٰ ہمارے سر پر ڈال دیا، بارش تھم گئی، ہم کو رخصت کیا اور خود غائب ہو گئے۔ اور حضرت صاحب نے ان کو جو اذن فرمایا تھا کہ شیخ جعفر اٹک کے ہاں جاؤ تو یہ ان کی دل جوئی کی وجہ سے تھا کہ یہ لوگ شیخ جعفر کے ساتھ محبت اور دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ جب شیخ جعفر صاحب نے اِن سے حضرت صاحب کی یہ کرامات سُنیں تو فرمایا کہ حضرت شیخ صاحب اپنے زمانے کے ایک عظیم ولی اور مرتاض تھے۔
دیگر:
حضرت صاحب کے مریدوں میں ایک مُرید نے سوات میں بازوں کے شکار کے لیے دام بچھایا تھا، چند دن گزر گئے اور کوئی باز شکار نہ ہوا کیونکہ حضرت صاحب کی مرضی کے خلاف تھا۔ ایک دِن اُس نے دیکھا کہ ایک پنجہ نمودار ہوا جس نے بچھے ہوئے دام کو لپیٹ لیا اور اس کو اکٹھا کر کے ڈال دیا اور پھر وہ پنجہ غائب ہو گیا۔ وہ شخص بیان کرتا تھا کہ میں خوب جانتا تھا کہ یہ پنجہ حضرت صاحب ہی کا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ میں گھر چلا گیا اور بازوں کا شکار کرنا چھوڑ دیا۔ حضرت صاحب اپنے بعض مریدوں کو دنیا کے کاموں سے منع فرماتے تھے کیونکہ دنیا کے کاموں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
دیگر:
حضرت صاحب اپنے والد بزرگوار شیخ بہادر بابا صاحب سے نقل فرماتے ہیں کہ مرضِ موت میں زندگی کی آخری ساعتوں میں صاحب موصوف فرماتے تھے کہ اے الہ العالمین! اُس محبت کے چشمے کی وجہ سے جو میرے دانتوں کی جڑ سے پھوٹتا تھا مجھے کبھی بھی غذا کھانے کی ضرورت نہیں تھی، مگر بغیر کسی حاجت اور ضرورت کے لوگوں کی خاطر کھاتا تھا اور اس وقت اُسے قے کرنے کا خوف بھی رکھتا تھا، اب وہ سب کھایا ہوا زہر بن گیا ہے اور سخت کڑوا ہو گیا ہے۔ یہ روایت حضرت صاحب نے اپنے آخری وقت مرضِ موت میں کی تھی گویا کہ اپنی بات فرما رہے تھے۔
دیگر:
علماءِ ظاہر میں سے ایک عالم آپ کی زیارت کو آئے تھے، حضرت صاحب نماز کی امامت کرا رہے تھے اور پاؤں کے پھٹ جانے کی وجہ سے نماز ذرا کراہت سے ادا کرتے تھے۔ عالم کے دل میں یہ بات ناگوار گذری کہ اسی طرح کی کراہت سے نماز ادا کرتے ہیں، شاید ان کی یہ شہرت غلط اور بے موقع ہے۔ سلام پھیرتے ہی ہمارے شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس طرح کراہت سے نماز ادا کرنا عجز کی وجہ سے ہے کہ اس طرح ادا کرنے کے علاوہ دوسری طرح ادا نہیں کر سکتا۔ اس بات سے ان عالم صاحب کے دل کا خطرہ ٹل کر ان کے خیالات صاف ہوئے۔
دیگر:
ایک دفعہ یوسف زئی قوم کے ایک لشکر نے خٹک قوم پر فوج کشی کی اور دریا کے کنارے کے دیہات پر حملہ کیا، خٹک قوم کے لوگ بھی مقابلے پر اُتر آئے، قضائے الٰہی سے خٹک قوم کو شکست ہوئی اور انہوں نے فرار اختیار کیا اور دریا کے کنارے کے گاؤں کو برباد کیا۔ اُس دن ایک شخص لشکر سے پیچھے رہ گیا تھا جس نے اپنے آپ کو چھپائے رکھا تھا اور جس جگہ گاؤں کے لوگ گھاس چارہ اور لکڑی وغیرہ جمع کرتے تھے اُس نے اپنے آپ کو اس میں چھپائے رکھا، مگر جس جگہ وہ چھپا تھا وہاں کافی لکڑی وغیرہ نہیں تھی، اگر کوئی تھوڑی سی توجہ بھی کرتا تو وہ دیکھا جا سکتا اور اللہ تعالیٰ کے کرم اور حضرت صاحب کی توجہ کے علاوہ کوئی بات نہیں تھی جو اسے بچاتی، اچانک یوسف زئی کے لشکر کے بندوقچیوں اور توپچیوں نے وہاں مورچہ بنایا اور بندوقوں سے دریا کے دوسرے کنارے پر گولہ باری شروع کر دی اور خٹک قوم نے بھی دریا کے مقابل کنارے سے بندوق چلانا شروع کی اور لڑائی شروع کر دی۔ وہ شخص اس جگہ یوسف زئی کے لشکر کے پاؤں کے نیچے نہایت خوف ڈر اور ہراس سے بیدِ لرزان کی طرح کانپ رہا تھا، اگر کسی کی نگاہ اس پر پڑ جاتی تو اس کو قتل کر دیتے۔ پس وہ اپنا کل مال مویشی اور جانور جو دس راس سے زیادہ تھے، ان کو نذرانہ کر کے حضرت صاحب کے درگاہ میں التجا کی، اللہ تعالیٰ نے اُن بندوقچیوں کو وہاں سے ہٹایا اور وہ جگہ خالی رہ گئی۔ جب مذکورہ شخص نے امن محسوس کیا تو اپنے نذرانہ ماننے سے نادم اور پشیمان ہوا اور اپنے وعدے سے پھر گیا، پھر تھوڑی دیر بعد اس جگہ پہلے سے زیادہ خوف و ہراس اور ڈر کا معاملہ پیش آیا اور اُس پر نہایت بُرا وقت آن پڑا، شخص مذکور نے پھر زاری اور فریاد کا معاملہ شروع کیا کہ اے حضرت شیخ المشائخ! میں توبہ کرتا ہوں، میرے کردار پر نہ جائیے، مجھ پر اپنی توجہ مبذول فرمائیے، آپ کا نذرانہ تمام کا تمام ادا کروں گا اور پھر اپنی بات پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں گا، اللہ تعالیٰ نے پھر وہ سختی اُس پر آسان کر دی اور دشمنوں سے نجات پا کر سلامت رہا، گھر آنے کے بعد جب وہ نذر کردہ مال حضرت صاحب کی خدمت میں لے آیا تو حضرت صاحب نے اُسے فرمایا کہ یہ مال میں نے دوبارہ تجھے بخش دیا، لیکن ندامت اور پشیمانی مردوں کو زیب نہیں دیتی اور مردوں کے لیے ایسا کرنا خوب نہیں۔ پس تمام حاضرین سمجھ گئے کہ حضرت صاحب اِن کے حال سے واقف ہیں اور وہ خود بھی عذر و معذرت کرنے لگا اور اپنی تقصیر کی معافی مانگنے لگا۔
دیگر:
چند سالوں کے لیے خٹک کے علاقے میں سخت قحط پڑا، چنانچہ لوگ اپنے جانور گھاس چارے کے لیے دور کے علاقوں میں لے گئے تھے۔ جب کچھ عرصہ گذر گیا تو آپ نے حکم فرمایا کہ خٹک قوم کے جو لوگ وطن چھوڑ کر مسافری کر رہے ہیں وہ اپنے وطن کو واپس آ جائیں۔ بہت سے لوگ حضرت صاحب کے حکم کے منتظر تھے، جب حضرت صاحب کا حکم سُنا تو تمام لوگ جوق در جوق وطن کو واپس آنے لگے، ابھی راستے میں ہی تھے کہ سخت بارش برسنے لگی اور اللہ تعالیٰ نے اس قحط کو رفع دفع کیا۔
دیگر:
اس اثناء میں کمال خان کے دور میں جب کہ مغل اور افغانوں میں فتنہ و فساد اور جھگڑا تھا، افغانوں کی تمام قوم و قبیلے ایک طرف تھے اور متفق اور اکھٹے ہو کر مغلوں کے خلاف معرکہ آرا تھے، مگر شہباز خان خٹک مغلوں کا طرف دار تھا۔ آخر کار جب افغان قوم نے مغلوں پر غلبہ پایا تو مغل شکست کھا کر پشاور کے قلعہ میں بند ہو کر محصور ہو گئے اور بہت تنگ ہوئے۔ افغان قوم کے خوف کی وجہ سے شہباز خان خٹک نے اٹک کا ارادہ کیا اور اپنے اہل و عیال اور تابعین کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب خیر آباد پہنچ گیا تو حضرت صاحب نے اپنے بھائی شیخ حیات خان کو اُس کے پیچھے پیغام دے کر بھیجا کہ تم خیر آباد میں تین دن تک ٹھہرے رہو اور انتظار کرو کیا ہونے والا ہے، اس کے بعد تم کو مناسب اذن دیا جائے گا اور جو کچھ ہوگا اس حقیقت کی تم کو اطلاع دی جائے گی۔ شہباز خان آپ کے خاص مریدوں میں سے تھا، اگرچہ اُس نے یہ حکم مناسب نہ سمجھا مگر حضرت صاحب کے حکم کو مان کر تین دن تک خیر آباد میں ٹھہر گیا اور انتظار کر رہا تھا کہ اچانک تیسرے دن خبر ہوئی کہ مغل افغانوں پر غالب آ گئے ہیں اور پشاور میں مغلوں سے افغانوں نے شکست کھائی اور مغل غالب آ گئے۔ اس کے بعد شہباز خان نے اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے کہا کہ تم نے شیخ صاحب کے کلام میں حکمتیں ملاحظہ کیں؟ اور شاید حضرت صاحب کا حکم ملنے سے قبل شہباز خان کے بعض مال و سامان کو دریا سے پار کر کے اٹک کے قلعے میں محفوظ کیا گیا تھا اس کے بعد عزت اور سرخروئی کے ساتھ سرائے اکوڑہ میں واپس ہوا اور مغلوں کا معتمد خاص بنا رہا۔ (بیت)
؎ بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر فغان گوید
کہ سالک بے خبر نبود ز راہ و رسم منزلہا
’’اگر پیر مغان تم کو کہے تو اپنے جائے نماز اور سجادہ کو شراب سے رنگین بنا لو، کیونکہ ایسا کہنے کے وقت سالک اور مرشد راہ کی منزلوں کے راہ و رسم سے بے خبر نہیں ہوا کرتا‘‘۔
حضرت صاحب کو علم لدنی حاصل تھی اور بہت سے موقعوں پر اُس علم کے اشارات اور اشارے کنائے آپ سے ظاہر ہوئے تھے، چنانچہ کِسی وقت پشاور کا صوبے دار یا اس کا جانشین (مجھے ٹھیک سے یاد نہیں) شہباز خان کا مخالف تھا، اُس صوبے دار نے اپنے منہ بولے بیٹے کو طلب کر کے شہباز خان خٹک کا علاقہ لے کر اُس کے حوالے کر کے اس کو مقرر کیا۔ اُس معاملہ میں شہباز خان بادشاہ کے پاس جا کر اپنے لیے کوشش کر رہا تھا اور اس کے پیچھے خٹک قوم کے بعض لوگوں نے اس شخص کو قتل کر دیا۔ مذکورہ صوبے دار نے غصہ ہو کر اپنے ساتھ لشکر لے کر حملہ کرنا چاہا کہ پہاڑ کے دامن کے بعض گاؤں کو تخت و تاراج کرے۔ وہاں کے لوگوں کو سخت خطرہ تھا، سب لوگ حضرت شیخ المشائخ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگے کہ حضرت! آپ ہمارے شیخ ہیں اور ہم آپ کی قوم ہیں، ہمارے سروں پر سخت تباہی منڈلا رہی ہے جس بات سے ہماری مشکلات حل ہو سکیں وہ ہمیں ارشاد فرمائیں تاکہ ہم ساحلِ مراد کو پہنچ جائیں، کیونکہ ایک طرف تو ازبک اور دوسری جانب سے خٹک قوم کے کچھ لوگ بھی مغلوں کے ساتھ ہو گئے ہیں، ہم کسی صورت میں نجات کی راہ نہیں دیکھ پاتے، اور مغل لشکر کا ہراول دستہ اس مہم کو سر کرنے کے لیے اُس دن ہزار خوانی پشاور کی جانب نکل آیا تھا۔ حضرت صاحب نے اِن کو ہدایت فرمائی کہ آج رات کو ہر ایک آدمی اپنی توفیق کے مناسب خیرات کرے اور جو کوئی دنبے کے ذبح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ دنبہ ذبح کرے اور جو کوئی خالی طعام اور روٹی وغیرہ کی طاقت رکھتا ہو وہ خالی روٹی پکا کر صدقہ کرے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے گا اور آپ کو نجات دے گا۔ پس تمام قوم نے حضرت صاحب کے حکم کے مطابق عمل کیا اور ہر گھر کے لوگوں نے خیرات کر کے صدقے دئیے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن دنوں مذکورہ امیر نے اپنا ایک عزیز رشتہ دار آفریدیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے مع لشکر بھیجا تھا، وہاں سے اطلاع آئی کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے کمک لے کر پہنچ جائیں ورنہ ہم سب کے سب قتل کیے جائیں گے وہاں سے وہی ہراول لشکر ہزار خوانی سے آفریدیوں کے مقابلے کے لیے بھیجا گیا اور خٹک کی مہم ترک کی گئی اور شہباز خان کو اپنی جگہ پر عارضی حاکم بنایا گیا۔ یہ سب کچھ حضرت صاحب کے علم لدنی کا اثر تھا، چنانچہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک ولی اللہ نے جس کو علم لدنی حاصل تھا، ایک دفعہ اعلان کیا کہ جس کے گھر میں مُرغ ہو اس کو ذبح کرے اور فلاں رات گھر میں کوئی بھی آگ نہ جلائے۔ پس کچھ گھروں اور دیہات والوں نے اس پر عمل کیا اور کچھ نے نہ کیا۔ خدا کی قدرت کہ اس وقت کے بادشاہ نے حملہ کیا اور جن لوگوں نے مُرغ زندہ اور آگ جلائے رکھا اُن کے گھروں کو تخت و تاراج کر دیا اور جن لوگوں نے اُس ولی اللہ کے کہنے پر عمل کر کے مُرغ اور آگ بجھائے رکھا تھا اُس دیہات کو ویران سمجھ کر اُن کو کوئی ضرر اور نقصان نہیں پہنچایا اور سب سلامت رہے۔
دیگر:
یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ نوشہرہ میں تھانے دار شمشیر خان تھا، اُس نے یوسف زئی قوم کو تخت و تاراج کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا اور اس کے لیے مناسب وقت کی تلاش میں تھا۔ خدا کی قدرت کہ ایک دفعہ اس کو موقع مل گیا اور اس نے یوسف زئی کے بعض گاؤں کو تخت و تاراج کر کے لوٹ لیا اور بعض لوگوں کو قیدی بنایا اور بہت سا مال بھی لوٹ کر لے آیا۔ قیدیوں کے سرغنہ لوگوں کو صوبے دار کے پاس بھیج دیا جو کم و بیش چالیس آدمی تھے اور کچھ قیدی اپنے ہاں نوشہرہ میں رکھے۔ ان قیدیوں کے عزیز و اقارب نے حضرت صاحب کے دربار میں حاضر ہو کر فریاد کی، پس حضرت صاحب کے نوشہرہ لانے کی کیفیت اور حقیقت خود شمشیر خان نے اس فقیر کو بیان کی کہ جب میں نے دریا کی دوسری جانب چند فقیروں کو دیکھا تو میں نے پوچھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک فقیر پہاڑ میں رہتے ہیں وہ تشریف لائے ہیں، اور یہ دوسرے لوگ اُن کے رفیق ہیں۔ شمشیر خان نے مجھے کہا کہ میں نے اس سے قبل حضرت صاحب کو نہیں دیکھا تھا، حضرت صاحب کشتی پر سوار ہو کر دریا کے اِس پار میری جگہ پر آئے میں اُن کے استقبال کے لیے چلا گیا، اور آداب بجا لایا۔ جب وہ بیٹھ گئے تو مجھ پر نگاہ ڈالی اور کہا کہ تمام قیدی مجھے دے کر بخش دو۔ شمشیر خان نے کہا کہ مجھے دم مارنے کی طاقت نہ تھی کہ ان کے آگے زبان ہلا سکوں، مذکورہ قیدیوں کو آزاد کرانے کا اختیار میں نے حضرت صاحب کو دے دے دیا۔ میرے اس کام سے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اس کے بعد فرمایا کہ صوبے دار سے بھی اُن چالیس قیدیوں کو رہائی دلا دو۔ میں نے عرض کیا کہ وہ لوگ میرے اختیار سے نکل چکے ہیں، جو کچھ میرے ہاتھ اور بس میں تھا میں نے آپ کی خدمت میں دے دیا، ان کی رہائی کی طاقت نہیں رکھتا پس آنجناب نے تھوڑی دیر تشریف رکھی، چند جام پانی پیا، کھانا نہیں کھایا، پھر اُٹھ کر روانہ ہوئے۔ اُس کے بعد اُن دیگر قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے پشاور کی جانب چلے گئے اور شیخ عثمان کے گھر میں جو اس وقت وہاں کے ارباب تھے، رات بسر کی، اور شیخ عثمان سے کہا کہ یوسف زئی کے ان قیدیوں کو صوبہ دار سے آزاد کرا کر ہمارے حوالے کرو۔ شیخ عثمان نے سُستی دکھا کر اور بے ہمتی کر کے دلیلیں دینا شروع کیں، حضرت صاحب واپس اپنے گھر آ گئے۔ چند دن بعد پھر قیدیوں کی رہائی کے خاطر شیخ عثمان کے گھر تشریف لے گئے۔ دو راتیں گذر گئیں اور شیخ عثمان نے ادب کا طریقہ اختیار نہیں کیا جیسا کہ لازم تھا اور سُستی دکھائی، حضرت پھر اپنے گھر آ گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک سبب بنایا جس سے تمام قیدی خود بخود آزاد ہو گئے۔ اور اُن قیدیوں کی رہائی کا سبب میں نے شمشیر خان سے سُنا ہے، اُس نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب پشاور تشریف لے گئے تو صوبے دار کو حضرت صاحب کی آمد کی غرض و غایت بیان کی گئی کہ ایک بزرگ ہستی قیدیوں کے آزاد کرنے کے لیے ایک عرضداشت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جو کچھ آپ حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائے گا۔ صوبے دار نے غصہ سے لال پیلے ہو کر کہا کہ افغانوں میں ایسے شیخ بہت ہیں، اگر کوئی چالیس ہزار روپے لے آئیں تو یہ قیدی اُن کو دوں گا۔ اتفاقًا خود صوبے دار ایک بڑے لشکر کے ساتھ یوسف زئی قوم کی مہم پر کمر بستہ ہو کر روانہ ہوا، خدا کی قدرت جس وقت صوبے دار کا لشکر یوسف زئی کے علاقہ میں پہنچا تو سخت بارش شروع ہو گئی۔ صوبے دار اُس مہم میں کامیاب نہ ہوا اور آخر کار عاجز ہو کر صلح کر لی اور تمام قیدی مع مال و دولت آزاد کر دیے جو وطن واپس ہوئے۔
ان مناقب میں تین نکتے ہیں: پہلا یہ کہ شمشیر خان یوسف زئی کی تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو گیا جو اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضرت صاحب کی دُعا تھی۔ اور اس کی تمام مرادیں پوری ہوئیں، چنانچہ کچھ عرصہ بعد حیات خان سے شمشیر خان بن گیا۔ پہلے اِس کا نام حیات خان تھا، پھر منصب میں بھی اضافہ ہوا اور نام بھی شمشیر خان ہوا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدم کے طفیل ان قیدیوں کو بغیر کسی منت و فدیہ کے آزاد کرایا بلکہ ان کو خلعت بھی مل گئی۔ تیسرا نکتہ یہ کہ شیخ عثمان نے چونکہ سُستی اور تساہل سے کام لیا تھا اور ادب نہیں کیا تھا اس وجہ سے وہ نیست و نابود ہو گیا اور اس کے تمام مکانات وغیرہ اُجڑ گئے اور اس کی اولاد گداگری کرتی اور بھیک مانگا کرتی تھی۔
حکایت:
ایک دفعہ ایک بزرگ کسی شخص کے گھر گئے، مذکورہ شخص نے ان بزرگوں کو اپنے گھر میں جگہ نہ دی اور گھر میں نہ رہنے دیا۔ اس کے پڑوس میں ایک اندھا شخص تھا، وہ بزرگ وہاں چلے گئے، اس نے ان بزرگوں کو جگہ دی، جس کی برکت سے وہ اندھا شخص بینا ہو گیا۔ حضرت صاحب اہل حق اور افراد میں سے تھے، اُن کا مطلب اور مراد کرامت کا اظہار نہ تھا، جو کچھ ہوا کرتا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوتا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے افراد کے لیے اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اظہار کرامت ایک حجاب ہوتا ہے۔ چونکہ شیخ عثمان نے بھی سوئے ادبی کی وجہ سے کہا کہ اے شیخ! یہ بات کرامت کے بغیر نہیں ہو سکتی، آپ کرامت ظاہر کریں۔ پس شیخ صاحب نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ میں یہاں نفع اور فائدہ پہنچانے کی خاطر آ گیا ہوں کسی کو ضرر یا نقصان پہنچانے نہیں آیا ہوں۔ یقینًا اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حضرت صاحب کو کرامت ظاہر کرنے کی طرف میل یا رغبت نہ تھی اور اس طرح کرامت کا ظاہر کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔
نوٹ:
اس باب کی ابتدا اور تمہید میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے اور اس پر غور کرنا چاہیے کہ کرامت ایک تکوینی امر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کائنات کے پیدا کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ کے دو قسم کے احکامات تھے: ایک خلقی، جن کا اسباب کے ساتھ تعلق ہے، جیسا کہ درخت نباتات اور حیوانات۔ اور دوسرا امر، جیسا کہ ارواح کی پیدائش اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور اس کو تکوینی اس لیے کہتے ہیں کہ کُن کے امر سے ایک معدوم چیز موجود ہوتی ہے۔ ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ إِذَا قَضٰى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهٗ كُنْ فَيَكُونُ﴾ (البقرۃ: 117) ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نئے سرے سے پیدا کرنے والا ہے اور جس وقت کسی کام کے کرنے کی خواہش کرے تو اس کو کُن یعنی ہو جا کہتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے“ اس پر دلیل ہے۔
دیگر:
حضرت صاحب سانپوں کے کاٹے کا زہر دفع کرنے کے لیے کھانے کے لیے نمک دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مار گزیدہ کو شفا بخشتے تھے اور اس سانپ کا زہر زائل ہو جاتا تھا۔ حضرت صاحب کا یہ مجرب نسخہ تھا اور اُن کی رحلت کے بعد آج تک جاری ہے۔
دیگر:
بعض مریدوں کے دل میں کسی قسم کا شک یا انکار نہیں تھا، اگر پیر کے تصرف سے مرید کے دل میں ذرا برابر بھی انکار یا اعراض و تردّد ہو تو وہ مریدی کے مقام تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ جیسا کہ امت کے لیے اگر پیغمبر کے حق میں ان کے قول و فعل کے بارے میں تھوڑا سا انکار یا خلش بھی باقی رہے تو اس امتی کے ایمان میں خلل ہوتا ہے۔ خبردار! مریدوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ پیر جو تصرف کرتے ہیں تو گویا کہ یہ نازل شدہ وحی ہے۔ اگر تیرے دل میں بال برابر بھی انکار یا چوں چراں ہو تو پھر تم کو مرید نہیں کہا جا سکتا بلکہ تم منکر ہو۔
(ابیات)
؎ او دلیل تو بس تو راہ مجوئ
او زبان تو بس تو یاوہ مگوئی
ہر چہ او گفت راز مطلق دان
ہر چہ او کرد کردۂ حق دان
خاک او باش و بادشاہی کن
آن اوباش ہر چہ خواہی کن
’’وہ تمہارا رہبر و رہنما ہے تم راستوں کی تلاش نہ کر، وہ تمہاری زبان ہے تم بے ہودہ باتیں نہ کر، جو کچھ اُس نے کہا، اس کو مطلق ایک راز سمجھ، جو کچھ اس نے کیا اس کو حق کا فضل سمجھ، اس کے سامنے مٹی بن کر رہ اور بادشاہی کرو، پھر اس کا ہو کر رہو اور جو کچھ چاہو کرتے رہو‘‘۔
ایک دودھ پیتے بچے کو مردوں کے کام سے کیا واسطہ؟ اور ایک نا رسیدہ اور خام بچے کو اسرار و رموز اور شریعت حق سے انکار کی کیا گنجائش ہے؟ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ذرا سوچو اور بات سمجھو۔
دیگر:
ان مناقب کو جمع کرنے والا مؤلف وہ شخص ہے جس نے پہلی بار چمکنی کے شیخ دریا خان (جو کہ حضرت صاحب کے خلیفہ تھے) کے حلقۂ ارادت میں شمولیت اختیار کی، جس نے اِس کو ذکر اور وظائف کی تلقین کرتے ہوئے کم خوراک کھانے کی ہدایت کی۔ کچھ عرصہ گذرا اور یادداشت حاصل ہو گئی اور اس کے تمام رگ و پے ذکر کرنے میں آرام و راحت محسوس کرنے لگے۔ اس کے بعد دریا خان کے حکم و ہدایت کے تحت اس نے شیخ محمد سر غلانی سے ملاقات کی جنہوں نے سلسلہ کبرویہ کے اوراد وظائف کی اس کو تلقین کی اور چند چلے بھی کھینچے۔ وہاں سارے جسم کا ذکر اُسے حاصل ہوا اور اطوار و انوار کی حقیقت اُس پر ظاہر ہوئی اور بہت سے مکاشفات اور ملاحظہ جات اُسے حاصل ہوئے۔ اس کے بعد باطنی توجہ کی رو سے شیخ علی چشتیہ طریقے سے اس پر متوجہ ہوئے اور اُسے بہت سے فیوضات ہاتھ آئے۔ چنانچہ اس کے بدن نے روح کی شکل اختیار کی اور اس کا بدن روحی اور قلبی ہو گیا اور وہ مصفیٰ و مزکیٰ ہوا اور "ھُوْ" کے ذکر نے اس پر غلبہ کیا۔ اس کے بعد وہ تینوں بزرگ دار فانی سے دار البقا کو رحلت فرما گئے اور حق کو پہنچے، کیونکہ "اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُّوْصِلُ الْحَبِیْبَ إِلَی الْحَبِیْبَ" کہ موت ایک پل ہے جو ایک دوست کو دوسرے سے ملاتی ہے، یعنی موت نے اُن کو واصل بحق کر دیا۔ ان کی وفات کی وجہ سے یہ شخص مغموم و محزون ہو کر رہ گیا، اسی سراسیمگی اور حیرت و پریشانی کے عالم میں اُس نے حضرت شیخ صاحب کے روضۂ انور پر حاضر ہونے کا ارادہ کیا اور حضرت شیخ کے روضے کی طرف آمد و رفت اختیار کی۔ اسی طرح آتا جاتا رہا کہ ایک دن حضرت صاحب کے روضۂ پُرنور سے ایک نور ظاہر ہوا اور اس شخص کے سینے میں پیوست ہو گیا، جس کی وجہ سے وہ تمام مقامات و حالات جو اپنے شیوخ اور مرشدین سے اُس کو اُن کے دور حیات میں حاصل ہوئے تھے، اُسے دوبارہ حاصل ہوئے اور وہ ان تمام مقامات پر غالب آیا۔
اور حضرت صاحب کی محبت و ارادت جس دل میں ہو تو وہ دل غیرِ حق کی محبت سے خالی اور فارغ ہوتا ہے اور اللہ کی محبت اس کے دِل میں روز بروز رو بہ ترقی ہوتی ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت دل کو نفسانی اور شیطانی خطرات سے محفوظ کرتی ہے اور دل سے ہر ناشائستہ اور بری بات کو دور ہٹاتی ہے، اور انسان کو خواب غفلت سے جگا لیتی ہے اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ بناتی ہے، اور ریاض معرفت سے روح کی نسیم اور لطیف ہوا اس کو معطر بناتی ہے۔ اور اس کی روح و دل کو منور بناتی ہے اور لا متناہی جذبات کو تسکین و فرحت پہنچاتی ہے۔ میں نے اس کتاب میں جو مناقب سپرد قلم کر دیئے، یہ میں نے صرف ایک رمز اور ایک اشارہ بلکہ اُن کے حالات و مقامات سے صرف ایک ذرہ تحریر کیا ہے، ورنہ حضرت شیخ المشائخ کے بلا نہایت معانی و حقائق اور لا تعداد اسرار و رموز ہیں، ان کے اسرار و رموز کے خزانے اتنے بے شمار ہیں کہ تحریر میں نہیں آ سکتے اور ان چند مختصر صفحوں میں اُن کی گنجائش نہیں، اس لیے اختصار اختیار کیا اور طوالت سے گریز کیا۔