حصہ 2 باب 13: جنتیوں کی شراب اور جنت کا ساقی اور حقیقی ساقی اور اس بارے میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا علم

تیرھواں باب

جنتیوں کی شراب اور جنت کا ساقی اور حقیقی ساقی اور اس بارے میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا علم

ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ واصلانِ حق میں سے تھے، ما سوی اللہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے اور اللہ کے بغیر اُن کا کوئی مقصود نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کے سوا ان کے خواب و خیال میں بھی کوئی تصوّر سودا اور فکر نہیں ہوتا تھا۔ اور ذات باری کے سوا کوئی موجود چہرہ بھی ان کی نگاہ میں نہیں جچتا تھا، اُن کی تمام ہست و نیست محبوب حقیقی کا وصال ہے، غیر کی دوستی چھوڑ کر وصالِ دوست کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی سے سعادت مند و مشرف ہوئے تھے اور حقیقت میں وہ پیر تربیت اور پیر ارادت تھے۔

(ابیات, شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ)

؎ قیا درده شراب لالہ رنگ

آتشے در زن بکوئے نام ننگ

تا کے از ناموس و نام و گفتگو

تا کے از سالوس و رزق و بوئے رنگ

مستی بہ را بمے بستان ز ما

سینۂ ناموس ما بشکن بہ سنگ،

من خود از چشم تو بے خود ماندہ ام

گر بشوخی برد عقلم را بہ چنگ

بر دِل مجروح ما آید ہمہ

ہر مسلمانے کہ اندازد خدنگ،

نیم جانے دارم اکنوں بر سرت

گر پسند آید فشانم بے درنگ

’’اے میرے عزیز ساقی! لالہ گوں سُرخ شراب مجھے عطا فرما اور ننگ و ناموس کے کوچے کو آگ لگا, ننگ و نام اور عزت و ناموس کا خیال کب تک رکھو گے اور مکر و فریب بو اور رنگ کی باتوں کو کب تک مد نظر رکھو گے۔ ہم سے ہماری مستی کو شراب کا پیالہ دے کر لے لے اور ہمارے ناموس کے سینے کو پتھر دے مارو، میں تو خود تمہاری آنکھوں کی وجہ سے بے ہوش ہو چکا ہوں اور تمہاری حسن و شوخی نے، میری عقل اڑائی ہے جو مسلمان تیر اندازی کر کے تیر مارتا ہے تو وہ سیدھا میرے زخمی دِل کو ہدف بناتا ہے تمہارے سر کی قسم، میں نیم جان رکھتا ہوں اگر تم پسند کرتے ہو تو وہ بھی تم پر نچھاور کر لوں۔

حاصل کلام یہ کہ ﴿إِنَّ الْأَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَأْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا﴾ (الدھر: 5) ”البتہ نیک لوگ پیتے ہیں پیالہ جس کی ملونی (ملاوٹ) ہے کافور سے“ یعنی اے محبوب! ابرار کی جماعت کو کاسوں (پیالوں) سے شراب دی جائے گی۔ اور یہ اِس سبب سے کہ ابرار کی جماعت مقامِ تمنا میں ہوتی ہے اور طائفہ مقربین کو زنجبیل سے ممزوج شراب دی جائے گی، جب کبھی انسان پر مقربین کی حرارت غالب آ جاتی ہے تو مقربین کی غیرت کی حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ابرار کو شراب کافوری دی جاتی ہے تاکہ یہ حرارت سرد ہو جائے۔ "اَلْمُقَرَّبُوْنَ غُیُوْرٌ" یعنی مقربین صاحبان غیرت ہوتے ہیں تاکہ اہلِ قربت کی غیرت زائل ہو جائے۔ اس لیے کافوری شراب سے اِن کی تواضع کی جاتی ہے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ" یعنی ابرار کی حسنات مقربین کی سیآت ہوتی ہیں۔ اور ابرار کی جماعت کے مئے خواروں کو غلمان اور جنت کے نوجوان لڑکے شراب دیتے ہیں اور مقربان کو بہشت کی حوریں کاسۂ زنجبیل سے شراب پلاتی ہیں کہ ﴿یُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًا﴾ (الدھر: 17) ”اُن کو وہاں پلاتے ہیں پیالے، جن کی ملونی(ملاوٹ) ہے سونٹھ“ اسی وجہ سے مقربین کی جماعت کے لیے مقامِ قربت میں تمنّا ہوتی ہے، اور جنت کے محلوں میں جب حوروں کے ہاتھ سے زنجبیل کے پیالے نوش کرتے ہیں تو قربت کی حرارت مقربین میں بڑھ جاتی ہے۔

؎ ساقیا مے بدہ تو مالا مال

کہ گرفتہ است مرا خویش ملال

گر شوم مست و بے خبر چہ غم است

چوں قریبم بد دوست در ہمہ حال

’’اے ساقی مجھے بھر پور انداز سے شراب پلا، کیونکہ میرا دل بہت رنجیدہ اور پُر ملال ہے۔ جب میں اپنے دوست کے قریب ہوں تو اگر میں مست اور بے ہوش ہو جاؤں تو مجھے کیا غم ہے‘‘۔

اور اے میرے عزیز! تیسری قِسم کی شراب کاسوں کے انداز و پیمانوں پر نہیں، بلکہ وہ شرابِ عاشقاں ہے اور وہ ﴿سَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدھر: 21) ”اور پلائے ان کو ان کا رب شراب، جو پاک کرے دل کو“ (شیخ الہند) بیت

؎ نے گرمِ نما یدم نے سردی

لیکن قدمے ہست یک رنگی

’’نہ تو گرمی لاتی ہے اور نہ سردی، لیکن ایک رنگ کا پیالہ ہے‘‘۔

یعنی اے محبوب! عاشقوں کی شراب کاسوں کے پیمانے سے نہیں ہوتی کیونکہ یہاں ساقی خود اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ سَیِّئَاتُ الْعَاشِقِیْنَ" یہاں تو مقربین تک کی نیکیاں عاشقوں کی سیئات شمار ہوتی ہیں۔ بیت

؎ آں را کہ نگار ہم ساقی باشد

تا روز ابد جانش باقی راند

’’اپنا معشوق جس کا خود ساقی ہو، تو ابد تک اُس کی روح باقی رہتی ہے‘‘۔

دانی کہ چہ مست گردد آں درویشک

او را کہ سلطان بخویشتن ساقی باشد

’’ تم جانتے ہو کہ وہ معمولی فقیر کیسا مست ہو جائے گا کہ جس کا بادشاہ بذات خود ساقی ہو جائے‘‘۔

عاشق لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ اُس کے بغیر نہیں پیتے۔ پس اے میرے عزیز! "اَلشَّرَابُ نَوْعَانِ: شَرَابُ الْجَمَالِ فَھُوَ لِلْمَھْجُوْرِیْنَ وَ مَنْ یَّشْرَبِ الْجَمَالَ فَھُوَ مَسْرُوْرٌ لِأَنَّ شَرَابَ الْجَمَالِ لِلْعَاشِقِیْنَ وَ أَنَّ شَرَابَ الْوِصَالِ لِلْوَاصِلِیْنَ فَالْعَاشِقُ مَھْجُوْرُ الْأَبَدِ وَالْوَاصِلُ مَسْرُوْرُ الْأَبَدِ" ”شراب دو قسم کی ہوتی ہے: ایک شرابِ جمال ہے جو کہ مہجور لوگوں کے لیے ہے، اور جو کوئی شرابِ جمال نوش کرے تو وہ مسرور ہوتا ہے کیونکہ شرابِ جمال عاشقوں کے لیے ہوتی ہے اور شراب وصال واصلین کے لیے ہے۔ پس عاشق لوگ ہمیشہ مہجور ہوتے ہیں اور واصل ہمیشہ مسرور اور خوش ہوتے ہیں“۔ یعنی اے محبوب! شراب دو نوع کی ہوتی ہے: شرابِ جمال و شرابِ وصال؛ شرابِ وصال تو واصلین کے لیے ہوتی ہے اور شرابِ جمال عاشقوں کے لیے ہے۔ پس اے محبوب! عاشق مہجور ہے اور واصل مسرور۔ اور ہر شراب میں علیحدہ قسم کا سکر ہوتا ہے اور ہر سکر میں ایک خاص قِسم کا ذوق ہوتا ہے اور شوق کے سمندر کو مہمیز ملتا ہے اور اسی قدر شوق بڑھتا ہے، اور یہ سب کچھ مستور چیزیں مکشوف ہو جاتی ہیں، یعنی سب راز عیاں ہو جاتے ہیں۔ بیت

؎ شراب و شاہد و ساقی نہاں نمے ماند

کہ صبح پردہ درت میکنند غمازی

’’شراب معشوق اور ساقی کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتے کیونکہ پردہ دری کرنے والی صبح راز سے پردہ اٹھاتی ہے‘‘۔

اے میرے محبوب! یہ تینوں قسم کی شراب اللہ تعالیٰ کے مئے خوارانِ محبت کو دنیا میں بھی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ملتی ہے۔ بعض کو شرابِ وصال اور بعض کو شرابِ جمال سے نوازا جاتا ہے اور اِن کے منہ سے آواز تک نہیں نکلتی۔ ابیات شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ

؎ مطربا پردہ ساز و جامم دہ

کہ فراقم بدل شدہ بہ وصال

گشتم امروز عاشق و معشوق

بہم آمیختہ چو آب زلال

علم توحید گشت حق بہ یقین

کردم ایں نکتہ را ازان تضمین

کہ ہمہ اوست ہر چہ ہست یقین

جان و جانان و دلبر و دل و دین

’’اے مطرب اُٹھیئے اور پردہ کرکے مجھے شراب کا پیالہ بھر دیجیئے تاکہ جدائی اور فراق وصل میں بدل جائے، آج میں عاشق اور معشوق ہو گیا اور ہم ایسے خلط ہو کر آپس میں مل گئے جیسا کہ پانی، علم توحید حق الیقین کے طور پر ثابت ہو گیا اور یہ نکتہ میں نے اسی ضمن میں بیان کیا کہ جو کچھ کہ ہے یہ سب ”وہ ہی ہے“۔ یہ جان جانان، دل، دلبر اور دین سب وہ ہی ہے۔ یہ تفریق ظاہری حقیقت میں کچھ نہیں بلکہ ”ہمہ اوست“ سب وہ ہی ہے‘‘۔

پس اے محبوب! ساقی دو ہیں: ایک ساقی بالواسطہ اور دوسرا ساقی بلا واسطہ، ساقی واسطہ مثلًا انبیاء، اولیاء، فرشتے، روحانی حضرات و اکابر اور پیر تربیت کہ "اَلشَّیْخُ الْمُرَبِّيْ أَفْضَلُ مِنْ شَیْخِ الْإِرَادَۃِ" یعنی پیر تربیت مرید کے لیے پیر ارادت سے بہتر ہے کیونکہ یہی پیرِ تربیت ساقئ واسطہ ہے۔ اور پھر خوش نصیبوں کے لیے پیرِ ارادت بھی پیر تربیت کی مانند ہوتا ہے اور یہ بڑی خوش بختی ہوتی ہے۔ لیکن ایک بہت بڑا فائدہ اس میں ہوتا ہے کہ پیرِ ارادت پیر کی طرح تربیت کرتا ہے اور اسی وجہ سے مرید کو حکومت کا موقع ملتا ہے اور پیر مرید کے مقامات باطنی کے نور کو اچھی طرح سے دیکھتا ہے اور اُس کو اپنی نعمت عطا کرتا ہے، اور یہ وہی نعمت پھر دوسروں کو بخشتا ہے تاکہ ہر طرح کی نعمت پایۂ تکمیل کو پہنچے، کیونکہ یہ کامل مریدوں کی سرگزشت ہوتی ہے۔ اور پیرِ تربیت کی فضیلت یہ ہے کہ عالمِ جبروت، ملکوت و لاہوت کا فیض مرید کو اُسی کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اے عزیز! یہ بات یاد رکھو کہ مرید کے لیے یہ بات واجب ہے کہ پیر پر متواتر اعتقاد رکھے اور ان ہر دو پیروں کے معائنہ میں ذرہ بھر بھی کوتاہی نہ کرے۔ اور یہ بات میں نے تعلیم کے بارے میں کہی لیکن اس بات پر سب کا اعتقاد ہے کہ پیرِ تربیت پیر ہوتا ہے اور جس مرید نے پیرِ تربیت سے تربیت حاصل نہ کی ہو تو اُس مرید کو زائر (ملاقاتی) کہتے ہیں، اس کو مرید نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے پہلے وہی ارادت نہیں ہوتی اور یہی تربیت صحبت میں ہوتی ہے اور ارادت بھی اِسی تربیت اور صحبت کو کہتے ہیں۔ اور اے عزیز! اللہ تعالیٰ کی محبت کا فیض پیرِ تربیت کے دل سے خوش نصیب مرید کے دل میں نفوذ و سرایت کرتا ہے، پس مرید کے اعتقاد، ارادت اور محبت کے اندازے اور مقدار کے برابر شیخ کو بھی (کہ مرید کی حالت اپنے پیر کی حالت کے اندازے پر ہوتی ہے) یہ محبت زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس یہ مئے خوار اپنے مرید کو بھی اس بالواسطہ ساقی سے دنیا میں بھی حاصل کرنے کا سبب بھی ہوتا ہے۔ بیت۔

؎ ہر کہ امروز مبین رُخ آن یار ندید

طفل راہ کہ او منتظر فردا شد

’’جو کوئی آج روز روشن اُس محبوب کا چہرہ نہ دیکھے تو وہ راستے پر چلنے والا بچہ ہے جو اس انتظار میں ہے کہ کل (قیامت میں) ملاقات ہو گی‘‘۔

دوسرا ساقی بے واسطہ کہ ﴿وَ سَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدہر: 21) ”اور اُن کا رب اُن کو پاک شراب پلائے گا“۔ اے عزیز! شراب محبت کو کہتے ہیں اور طہور سے مراد پاک اور بے غل و غش محبت ہے کہ اس میں کچھ مقصود نہ ہو، یعنی غیر کی محبت سے پاک ہو اور اخلاق ذمیمہ سے پاک کرنے والی ہو۔ اور واصلین کے نزدیک اخلاق ذمیمہ یہ ہوتے ہیں: یعنی کرامت، زہد، علم، وقار، حلم، عبادت، سعادت، مرتبہ، شیخی، دیانت، مقامِ کشف و کرامت، مقتدائی اور پیشوائی کی ہوس اور حرص مدرسی یعنی تدریس کرنے کا عشق، مفسر اور مصنف بننے کا شوق۔ اور اے میرے عزیز! دوسری بات یہ ہے کہ جو درجات ہم اُن کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ سب غلطی ہیں بلکہ شیخ محمد حسین کے نزدیک بچگانہ و طفلانہ کام ہیں۔ اور شیخ محمد حسین کہتے ہیں کہ ہم سب نے ان کو اخلاقِ ذمیمہ دیکھا ہے۔ جب یہ مذکورہ عمل حور و قصور کے لیے ہو تو یہ طفلانہ و تاجرانہ ہے اور جب پاک ہو تو بغیر کسی واسطے کے ساقی سے شراب حاصل کرو گے۔ کیسی نافع اور مفید بات ہے۔

(بیت)

؎ معاذ اللہ کزیں پس بہر ہر اغیار بنشینم

مرا چوں گل بدست آید چرا با خار بنشینم

چہ باشد بہ ازیں نعمت کہ من در خواب مے جستم

دمے در صحبت یارے کہ بے اغیار بنشینم

’’خدا کی پناہ! اس کے بعد میں اغیار کے پاس کبھی بھی نہیں بیٹھوں گا، جب مجھے پھول حاصل ہو تو کانٹوں کے پاس کیوں بیٹھوں، جس کو میں خواب میں تلاش کرتا تھا تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہو گی کہ میں تھوڑی دیر کے لیے اپنے محبوب کے ساتھ ایسے وقت بیٹھوں کہ کوئی غیر نہ ہو‘‘۔

پس اے عزیز! یہ تین مشروب جو میں نے ابھی بیان کیے یہ ابرار، مقربین اور عاشقوں کے ہیں، لیکن واصلین ان ہر سہ مشروبوں سے محروم ہیں اور اپنا منہ ان ہر سہ مشاربِ مذکورہ سے آلودہ نہیں کرتے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْعَاشِقِیْنَ سَیِّئَاتُ الْوَاصِلِیْنَ" ”عاشقوں کی نیکیاں واصلین کے لیے برائیاں ہوتی ہیں“ یعنی اے عزیز! جب ساقی خود بہ نفس نفیس پیالے بھر بھر کر واصلین کے لبوں میں ٹپکائے تو واصلین ہونٹ بند کریں اور قسمیں اٹھا کر کہیں کہ ہمارے لیے کافی ہے شرابًا طہورًا کیا چیز ہے۔ اس شعر میں اس مطلب کو واضح کیا گیا ہے۔

(بیت)

؎ قدح چون دور من آید بہ ہوشیاران مجلس دہ

مرا بگذار تا حیران بمانم چشم در ساقی

’’جب محفل میں شراب کا پیالہ مجھ تک پہنچ جائے تو اُسے میری بجائے مجلس میں جو اہل ہوش بیٹھے ہوں اُن کو دے دیجئے اور مجھے چھوڑئیے کہ میں سراپا تحسیر میں ڈوب کر ساقی پر نظر جمائے رہوں‘‘۔

اپنے ساقی کو دیکھنے کا یہ حسین لمحہ میں شراب پینے کی شغل میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ "شَرَابُ الْوِصَالِ لِلْوَاصِلِیْنَ وَ الْمُوَاصِلِ یُوَاصِلُ سُرُوْرَ الْأَبَدِ" یعنی وصال کی شراب مواصل اور واصلین کے لیے ایک ابدی سرور ہے۔ یہی وہ شرابِ وصال ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کی وصولی ہے اور جس کا ذکر "دَقَائِقُ الْمَعَانِيْ" (ایک کتاب کا نام ہے) میں ہے۔ پس اے میرے عزیز! جس مقام کا وعدہ ہوا ہے وہی مقامِ محمود ہی مقام ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مقام عالی یہی مقام اور شرابِ وصال ہے جو کہ شیخ محمد حسین کہہ گئے ہیں۔ "اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا بِہٖ بَرَکَۃَ النَّبِیِّ ﷺ" ”اے ہمارے رب! ہم کو رسول اللہ ﷺ کی برکت عطا فرما“آمین آمین۔

اے میرے محبوب! اِس حدیث مبارک کے بارے میں کہ "إِنَّ فِيْ الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی جنت میں ایک بازار ہے جس میں صورتوں کی خرید ہوتی ہے۔ شیخ محمد حسین نے کہا ہے اور بہت اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے کہ کسی دوسرے نے ایسی وضاحت نہیں کی۔ اے محبوب! اللہ تعالیٰ کی شراب وصال میں اُس جہان کے دنوں کے حساب سے جس کا ایک دن ﴿إِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾ (الحج: 47) یعنی وہ دن تمہارے رب کے نزدیک تمہارے عدد شماری کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ عاشق ستر ہزار سال تک ہوں گے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے فرمان صادر ہو جائے گا کہ اے بادل! آسمانِ حقیقت کے نور پر چھا جا اور قادر لا یزال کے رُخِ زیبا کے لیے ایک حجاب بن جا۔ اس وقت بے تاب عاشقوں کو اللہ کی جناب سے خطاب ہوگا کہ اے میرے محبوبو! میرے بازار کی جانب چلے چلو کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جنت میں ایک بازار ہے جہاں صورتیں فروخت کی جاتی ہیں“۔ وہ حجاب عاشقوں کے لیے ہو گا، لیکن ایک دن اللہ لا یزال کا بازار عاشقوں کے لیے ہوگا۔ "لِأَھْلِ الْعِشْقِ حِجَابٌ یَّوْمَ الْأَحَدِ" یعنی عاشقوں کے لیے اتوار کے دن حجاب ہو گا۔ اور باقی چھ دِن شرابِ جمال کی رؤیت و دیدار میں ہوں گے اور رب ذو الجلال کی تمنائے وصال میں رہیں گے۔ اور اس سے عاشق لوگ محروم نہ ہوں گے لیکن عوام کے لیے حجاب حور و قصور اور جنت کی نعمتوں کی شکل میں ہوگا، یعنی یہ نعمتیں حجاب بن جائیں گی۔ لیکن اے میرے عزیز! اور پیارے یہ بازار خراباتِ حقیقت ہوگا، یعنی جس چیز کا نقش کلیات میں نہ ہوگا وہ جزئیات میں ظاہر ہوگی۔ (بیت)

؎ خرابات است بیرون از دو عالم

دو عالم در بر آں ہم خراب است

’’ان دونوں جہانوں سے باہر اور ماوراء خرابات ہے کہ اس کے سامنے یہ دونوں جہان نا چیز ہیں‘‘۔

؎ ببین کز بوئی دوری خرابات

فلک را روز و شب چندیں شراب است

’’یہ بات ملاحظہ کیجیئے کہ خرابات کی دور کی بو سے بھی آسمان کے لیے دن رات اس قدر شراب ہے‘‘۔ (اور اس خرابات حقیقت میں صورت پرستی کے سوا اور کوئی چیز نہ ہو گی)

اے پیارے! شیخ محمد حسین فرماتے ہیں کہ جب قلم یہاں صورت پرستی کے (لفظ کو) پہنچ گیا تو مجھ پر دیوانگی ظاہر ہوئی، اور اسی وقت میرے جدِ بزرگوار کی شریعت حقہٗ نے میرا منہ بند کیا کہ اے دیوانے! اپنے جد بزرگ کی شریعت کی زنجیر کو نہ توڑ، اسی بنا پر میں نے یہ بات چھپائی تاکہ نامحرم لوگ اس سے آگاہ نہ ہو جائیں۔ میں نے صرف یہی صورت پرستی کی خرابات کو لکھا، یہ کوشش سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے بعد یہ صورت پرستی تم عین الیقین سے مشاہدہ کرو گے اور اس کے بعد حق الیقین تک رسائی حاصل کرو گے۔ شیخ محمد حسین کے اس قول سے بجلی کی جو بات سنی گئی، کوئی دیوانہ بھی اس سے آگاہ نہیں اور کوئی سر تراشیدہ قلم بھی اس کی اطلاع نہ پا سکا، یعنی یہ بات کسی قلم نے نہیں لکھی اور حضور رسالت مآب ﷺ کی اس حدیث شریف کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْھَا الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) کے الفاظ پر قناعت کر کے لطف حاصل کرتے ہیں، اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ (بیت)

؎ گر نہاں گردند مردان پیش ازاں اسرارہا

ایں کہ آوردم نشانی از ورائے کفر و دین

خالق بے چون برائے طالبان اندر صور

مے نماید خویشتن را درمیان آب و طین

’’میں نے کفر و دین کے دور کے جو نشانات بیان کیے، اگر لوگ اِس کے اِن اسرار و رموز سے بے خبر ہیں تو خالق کائنات اپنے طالبوں کے لیے صورتوں کی شکل میں اپنے آپ کو مٹی اور پانی کی شکل میں نمودار کرتا ہے‘‘۔

اے محبوب! یہ مٹی اُس وسیع زمین (ارض واسعہ) کی مٹی ہے اور یہ پانی بحر مسجور کا پانی ہے ﴿وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ﴾ (الطور: 6) پس اے محبوب! اس مٹی اور پانی سے بقاء، جمال کی بقاءِ ظاہر اور نمودار ہوتی ہے اور صورتوں میں لاکھوں نقش بنتے ہیں۔ بیت

؎ پر توی از عکس رؤیت گر فتد بر روئے خاک

گردند از ہر ذرۂ صد ہزاران آفتاب

’’اگر آپ کے رُخ زیبا کے عکس کی جھلک بھی زمین پر پڑ جائے تو زمین کے ہر ذرے سے لاکھوں سورج بن جائیں گے‘‘۔

اور ان صورتوں کے خریدار اس بازار میں یعنی خراباتِ حقیقت میں عاشق ہوں گے اور ابد الآباد تک عاشقوں کی تسلی اِس صورت پرستی میں ہو گی، اگر اس سوال کے اسرار پوچھو گے تو میں اس کا کیا جواب دوں کہ خاموشی کچھ کہنے سے بہتر ہے۔