بارھواں باب
حضرت شیخ صاحب کے جنون عشق کے بارے میں
حضرت شیخ المشائخ و شیخنا قدّس سرہٗ اپنے عشق میں دیوانے تھے اور عاشقانہ جنون رکھتے تھا اور عشقِ حق کی دیوانگی کے رمز بعض مریدوں کو دکھا چکے تھے اور وہ لوگ دیوانہ وار رہتے تھے۔ ایک مُرید کو کہا کہ جب تک تم مخلوق کے سامنے دیوانے نہ ہو جاؤ حق کی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ عشق کے درد سے آشفتہ حال ہو کر ننگ و ناموس کو چھوڑ چکے تھے، عشق کس کو کہتے ہیں؟ عشق کا مفہوم اور معنیٰ یہ ہے کہ معارفِ الٰہی موج پر آ جائیں اور عقل بالکل چلی جائے۔ شیخ محمد حسین نے یہ اشعار عالم دیوانگی میں کہے ہیں۔ غزل:
؎ نیست چیزے بستر از دیوانگی
بگسلا صد لشکر از دیوانگی
اے بسا کافر شدہ از عقل خود
ہیچ دیدی کافر دیوانگی
داہ چہ محروم انداز عرفان او
عالمان ظاہر از دیوانگی
من برائے نازنین باطن ز سر
بر کشادم صد در از دیوانگی
چونکہ شد مجنون و عاشق اے دلم
زور بستان ساغر از دیوانگی
’’دیوانگی سے بہتر کوئی چیز نہیں، سو لشکر بھی دیوانگی سے پسپا کیے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اپنی عقل و خرد کی افزونی کی وجہ سے کافر ہو گئے کیا تم نے کسی کو دیوانگی کی وجہ سے بھی کافر ہوتے دیکھا ہے۔ اس کی معرفت اور دولتِ عرفان سے علمائے ظاہر اس وجہ سے محروم ہیں کہ وہ دیوانگی سے خالی ہیں، میں نے اپنے باطن کے نازنین کے لیے دیوانگی سے سو دروازے کھول کر رکھ دیئے، کیونکہ میں دیوانہ اور عاشق ہوگیا
اے دل چھین لے پیالہ دیوانگی سے‘‘۔
حاصل کلام یہ کہ "اَلْجُنُوْنُ نُوْرٌ مِّنْ نُّوْرِ الْعِشْقِ وَ الْعِشْقُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الْعَقْلِ وَ الْعَقْلُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ السَّمٰوٰتِ وَ السَّمَاوَاتُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الْکُرْسِيِّ وَ الْکُرْسِيُّ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الْقَلْبِ وَالْقَلْبُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الرُّوْحِ وَ الرُّوْحُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ سِرِّ الصَّمَدِ جَلَّتْ قُدْرَتُہٗ وَ السِّرُّ نُوْرٌ مِّنْ نُّوْرِ مُحَمَّدٍ وَّ نُوْرُ مُحَمَّدٍ مِّنْ ذَاتِ اللہِ تَعَالٰی کَمَا قَالَ النَّبِیُّ ﷺ حَاکِیًا مِّنَ اللہِ تَعَالٰی: "اَلْإِنْسَانُ سِرِّيْ وَ تِبْیَانِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جنون عشق کا نور ہے اور عشق جوہرِ عقل کا نور ہے، اور عقل جوہرِ سماوات کا نور ہے اور سماوات جوہرِ کرسی کا اور کرسی جوہرِ قلب کا اور قلب جوہرِ روح کا، اور روح اللہ تعالیٰ کے جوہرِ سر کا، اور سِر نور محمدی کا نور ہے اور نور محمدی اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے، جیسا کہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ و السلام اللہ تعالیٰ سے حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان میرا سِرّ اور تبیان ہے“۔
محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ "مَا الْإِنْسَانُ؟" ”انسان کیا ہے؟“ تو انہوں نے جواب دیا کہ انسان نور ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہٗ نے فرمایا ہے کہ "سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ: اَلْإِنْسَانُ نُوْرٌ فَھُوَ ذَاتُ الْبَشَرِ فَذَاتُہٗ نُوْرٌ مِّنْ ذَاتِيْ وَ نُوْرِيْ مِنْ ذَاتِ اللہِ تَعَالٰی" (لم أعثر علی ہذا الحدیث) یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا کہ آپ نے فرمایا کہ انسان نور ہے، وہ بشر کی ذات ہے تو اس کا نور میری ذات سے ہے اور میرا نور اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ پس اے میرے عزیز! جنون ایک نور ہے کہ اسی نور سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا وصال حاصل ہوتا ہے۔ بیت ؎
گفت گر دیوانۂ لائق ایں خانۂ
رفتم و دیوانہ شدم لائق ایں خانہ شدم
’’میرے محبوب نے کہا کہ اگر تم صاحب جنون اور دیوانہ ہو تو اس گھر کے لائق ہو یہ سُن کر میں دیوانہ ہوا اور اس کے گھر کے قابل ہوا‘‘۔
؎ خرد کی گُھتیاں سلجھا چکا میں
الٰہی اب مجھے صَاحب جنون کر
اور محمد حسین کا قول ہے کہ جب تک تم لوگوں کے نزدیک دیوانے نہ ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم صاحب خرد نہیں ہو سکتے، اور جب صاحب جنون بن جاؤ گے تو نور بن جاؤ گے۔ "اَلْمُؤْمِنُ نُوْرٌ وَّ الْجُنُوْنُ نُوْرٌ" کہ مؤمن نور ہے اور جنون نور ہے۔ نور کی خلعت نور کو پہنائی۔ اور یہ عجیب بات ملاحظہ کرو کہ عشق کی شراب سے کبھی تم ہوشیار ہو گے اور کبھی مست ہو گے۔ اور اے میرے عزیز! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کے ان تمام انوار مذکورہ کو مجمل طور پر بیان فرمایا ہے کہ ﴿اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تو جب اللہ کا اسم اور ذات محمدی ﷺ تمام موجودات کا مصدر اور منبع ہے، اور نور کنایہ ہے اس حدیث کے متعلق کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دار الفکر بیروت) یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور تخلیق فرمایا "خَلَقَ اللہُ" کا معنیٰ یعنی "أَظْھَرَ اللہُ نُوْرَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ بَارِكْ وَ سَلِّم وَ ھُوَ مَظْھَرُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا مِنَ الْعَرْشِ إِلَی الثَّریٰ" ﴿کَمِشْکوٰۃِ فِیْھَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحٌ فِيْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَأَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا…﴾ (النور: 35) یعنی اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے نور کو ظاہر فرمایا جو کہ آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ اِن کے درمیان میں عرش سے لے کر تحت الثری تک ہے، اس کا مظہر ہے۔ پھر قرآن کریم کی آیت جس کا ترجمہ ذیل میں ہے: ”اللہ تعالےٰ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی، مثال اس کی روشنی کی جیسے ایک طاق، اُس میں ہو ایک چراغ، وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشہ میں، وہ شیشہ ہے ایک تارا چمکتا ہوا، تیل جلتا ہے اُس میں ایک برکت کے درخت کا، وہ زیتون ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، قریب ہے اُس کا تیل کہ روشن ہو جائے“۔
اے محبوب! اس جملے کو اللہ تعالیٰ نے حضرت رسالت پناہ ﷺ کے وجود مبارک کی صفت کے بارے میں ان نشانیوں سے بیان فرمایا ہے۔ علمائے ظاہر نے اس آیت سے کیا مفہوم لیا ہے وہ علم الٰہی سے محروم ہیں، وہ اس کا مفہوم نہیں سمجھ پاتے۔ مگر اولیاء اللہ جانتے ہیں کیونکہ وہ مقام قرب کے شاہین ہوتے ہیں۔ بیت؎
آں دم کہ از صفات خودی چوں شدی فنا
گردی جو آفتاب ز انوار کبریا
’’جس وقت کہ تو خودی کی صفات کو ترک کر کے فنا ہو جائے تو کبریائی انوار سے سورج کی طرح منور ہو جاؤ گے‘‘۔
ایک دفعہ ایک شیخ دریا چمکنی سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ قند اور شکر کا ایک کوزہ بھی لے آئے اور خدمت میں پیش کیا۔ حضرت صاحب نے حکم ارشاد فرمایا کہ آئندہ کے لیے یہ نہ لانا۔ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کا اس خاشاک سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
ابیات
؎ مستان جام عشق کہ لاف از بقا زنند
جان میدہند و خیمہ بہ ملک بقا زنند
ہر ساعتی کہ مستان و شوریدہ گان عشق
لبیک عشق در حرم کبریا زنند
جامے زدست ساقی باقی چو در کشند
جامہ دریدہ نعرۂ قالو بلٰی زنند
کروبیان بہ نالہ درایند نیم شب
چو بے دلان زد رد غمش ربنا زنند
قومے کہ ہر دو کون بہ یک جو نمے خرند
ایشان دم از محبت دنیا کجا زنند
آنہا کہ دل بملک فنا در نمے زیند
میخ عمل بدامن ہمت چرا زنند
وانہا کہ روز خانہ ندارند بر زمین
شبها به نور عشق قدم بر سما زنند
عشاق خستہ خاطر و دل را بہ ہر زمان
از ہر چہ ما سوا است بہ جاروب لا زنند
مردان راہ فقر زمے خانہ الست
جامے چو در کشند دم از مصطفٰے زنند
وانہا کہ سوز عشق ندارند و شوق یار
در روز حشر نعرۂ وا حسرتا زنند
با عاشقان ز ملک سلیمان سخن مگوئی
کیشان نفس ز عالم لا منتھا زنند
لطفی است از محمد و کز نور روئے او
قدوسیان سدره ترا مرحبا زنند
’’عشق کے ساغر کے مست لوگ جو بقا کی لافیں کرتے ہیں اپنی جان دے کر ملک بقاء میں خیمہ لگاتے ہیں عشق کے شوریدہ اور مست واشفتہ حال لوگ ہر لمحہ حرم کبریا میں عشق کی لبیک لبیک کی صدا لگاتے ہیں جب ساقی کے ہاتھ سے شراب کا جام لیتے ہیں تو شدتِ شوق سے کپڑے پھاڑ کر ''قَالُوْا بَلٰی'' کا نعرہ لگاتے ہیں، آدھی رات کو عالم ملکوت کے باسی یعنی فرشتے جب نالہ و فریاد کرتے ہیں اُس کے غم کے بارے بے دلوں کی طرح ''رَبَّنَا'' کی آواز لگاتے ہیں وہ قوم جو دونوں جہانوں کو ایک جو کے مول کے نہیں لیتے اسی وجہ سے یہ دُنیا کی محبت کا دم کبھی نہیں بھرتے، جو لوگ دنیا کی محبت کی طرف توجہ اور میلان نہیں رکھتے تو ہمت کے دامن میں عمل کی کیل کیونکر ٹھونکیں گے وہ لوگ جو دن کو روئے زمین پر کوئی رہنے کا گھر تک بھی نہیں رکھتے رات کو عشق کے نور کی وجہ سے آسمانوں پر قدم رکھتے ہیں، خستہ خاطر اور زخمی دِل والے عاشقوں کے ہر وقت جو کچھ ماسوی اللہ ہے اُن سب کو ''لَا'' کی جھاڑو سے مارتے ہیں فقر کے راستے کے راہرو لوگ جب الست کے مے خانہ سے نوش کرتے ہیں تو مصطفٰے کی محبت کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو لوگ کہ نہ تو عشق کا سوز رکھتے ہوں اور نہ محبوب کا شوق تو وہ لوگ حشر کے دن وا حسرتا، اور ''اے کاش'' کے نعرے لگائیں گے عاشق لوگوں کو تو (دُنیائی مال و دولت اور) سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کی باتیں نہ کہو کیونکہ یہ لوگ ایک لا متناہی عالم کی باتیں کرتے ہیں، یہ بھی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا لطف ہے کہ آپ کے نور کے فیض سے سدرۃ المنتہیٰ کے فرشتے تجھے مرحبا پکارتے ہیں‘‘۔
حاصل کلام یہ سُکر اور حیرت ان لوگوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اور سُکر تین وجہ سے ہوتا ہے: ایک سکر محبت، دوسرا سُکر مہابت، اور تیسرا سکر حمیت ہوتا ہے، اور اس دوران ان کے منہ سے جو کلمہ بھی نکل پڑے وہ بات شریعت میں قابل قبول نہیں ہوتی۔ اور اس بات سے اُن کو عذاب اور مؤاخذہ بھی نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "إِنَّ اللہَ لَا یُؤَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے عاشقوں سے دوران عشق کچھ (غیر اختیاری) بات صادر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کا مؤاخذہ نہیں کرتا۔ اور شیخ المشائخ کا بھی یہی قول ہے کہ "اَلْعُشَّاقُ لَا یُؤَاخَذُوْنَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَ یَفْعَلُوْنَ" یعنی عاشق لوگ جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں، اُن باتوں پر اُن کا مؤاخذہ نہیں ہوتا۔ پس حدیثِ رسول اللہ ﷺ کی رو سے اور ان مشائخ کے قول کے مطابق جو رسول اللہ ﷺ کے تابعین ہوئے ہیں، اِن مست عاشقوں کو اِن کی مستی کی حالت میں کی گئی باتوں پر گرفت نہیں ہوتی اور مستی خواب کی طرح ہے اور خواب پر کوئی گرفت نہیں۔ لیکن اے میرے محبوب! مستی دو وجہ سے ہوتی ہے: ایک یہ کہ بیگانہ ہو اور اس کے لیے راہ بند ہو، پس اس کی مثال خواب جیسی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ حواس کھلے ہوں اور مستی کی طرح ہو۔ پس اے محبوب! سکرِ محبت ابراہیم علیہ السلام کو تھا، یعنی جس روز آتشِ نمرود گرم اور بھڑکائی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت کا امتحان تھا، ان کو گوپھن (منجنیق) میں پھینکنے کے لیے اُٹھایا اور ابھی گوپھن ہی میں آپ تھے کہ عرش اور تمام آسمانوں کے عالمِ ملکوت میں ایک شور اُٹھا اور عالم انسان خوش ہوا، کیونکہ جس دِن عالم سرائر میں امانت کو برداشت کرنے کے لیے جو آواز بلند کی گئی کہ ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْھَا…﴾ (الأحزاب: 72) ”ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہیں کی کہ اس کو اٹھائیں اور اس سے ڈر گئے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے“ یعنی تمام عالم موجودات اللہ تعالیٰ کے بارِ امانت و امتحان کی برداشت کی طاقت سے عاجز تھے لیکن عرش سے لے کر فرش تک تمہاری روح نے جس نے خلعت انسانی زیب تن کی ہوئی تھی، اپنا دستِ فقر آگے بڑھایا اور جو بار امانت تمام موجودات اُس کے اٹھانے سے عاجز تھے اس بار امانت کو اپنے ہاتھ میں لے کر خاموش بیٹھ گیا آج یہ کہاں بھاگ جائے گا؟ اس کو مخاطب کر کے کہا گیا؟ ﴿أَیْنَ الْمَفَرُّ﴾ (القیامۃ: 10) تمہاری فرار کی راہ کہاں ہے؟ ابراہیم علیہ السلام کہاں بھاگ سکتے تھے؟ وہ تو سکرِ محبت میں غرق تھے، یہ حالت دیکھ کر ملائکہ فریاد کرنے لگے اور سب رونے لگے کہ اے پوشیدہ اور عیان باتوں کے جاننے والے! یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اپنے خلیل اور دوست کو ایک ذلیل اور کمینے کے ہاتھوں گرفتار کروایا اور آگ کی بھٹی کو اس کا جائے قرار مقرر کیا، لیکن ظاہری نظر رکھنے والے فرشتے کیا جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام مستی کے عالم میں ہیں اور محبت کا نشہ ان کے سر کو کیسے چڑھا ہے اگرچہ ظاہر میں شراب نہیں تھی۔ مصرع
شراب را نہ بینی او را مست
یعنی ’’شراب کو نہیں دیکھتے اور اس کو مست دیکھتے ہو‘‘۔ پس ظاہر بین کیا دیکھتا ہے۔
اچانک قاصدِ رسالت حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اے ہمارے دوستوں کے قاصد! جلدی اُڑ جا اور میرے دوست سے ہوا میں پوچھ، اگر تجھ سے کچھ فریاد کرے تو اس کی حاجت براری کر۔ حکم ملتے ہی چشم زدن میں حضرت جبرئیل علیہ السلام پہنچ گئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا: "أَلَکَ حَاجَۃٌ؟ قَالَ: أَمَّا إِلَیْکَ فَلَا" (تفسیر القرطبی بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 400/5، دار الکتب المصریۃ القاہرۃ) کہ اے ابراہیم علیہ السلام کیا تجھے میرے متعلق کوئی حاجت ہے تو انہوں نے ارشاد فرمایا۔ مجھے تیری حاجت؟ مجھے تیری حاجت نہیں۔
اے میرے بھائی! یہاں دیکھنا چاہیے کہ شریعت کہتی ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ جبرئیل علیہ السلام کو اپنی حاجت بیان کر دیتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ﴿لَا تُلْقُوْا بَأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ…﴾ (البقرۃ: 195) یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام سکرِ محبت میں تھے اس لیے اُن کا مؤاخذہ نہیں کیا گیا کہ "إِنَّ اللہَ لَا یُؤَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" یعنی اللہ تعالیٰ عاشقوں کی اُن افعال کی وجہ سے جو اُن سے صادر ہو جائیں، گرفت نہیں کرتے۔ اور اس میں ایک دوسرا باریک نکتہ یہ ہے کہ جب موقع ملے خدمت کرنے کے لیے ہاتھ باندھ لو، تاکہ وصلِ محبوب حاصل ہو جائے جس کے چار مرتبے ہیں: اول عالمِ ناسوت، دوم عالمِ ملکوت، سوم عالمِ جبروت اور چہارم عالمِ لاہوت۔ اور ان سب کا ذکر پہلے گزر چکا ہے لیکن تجلی کا ایک دوسرا مقام ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ نے اس کا اچھی طرح ذکر فرمایا ہے کہ سب سے پہلے سالک کا مقام اور اس کی ابتدا کی جگہ عالمِ ناسوت ہے، یعنی جب تک کہ تُو نفس کے ظاہری خرابات اور شراب خانے میں نفس کی سرزنش نہ کرے تو نفسانی خبائث سے گوہر ظاہر نہیں ہوں گے، جب یہ تمام خبائث دیکھو گے تو ہر ایک سے تبرا نہ کر سکو گے یعنی سب کو چھوڑ کر نفس کو نہ بچاؤ گے۔ اور جب تک تم خراباتِ ظاہری پر نفس کو آگاہ نہ کرو گے تب تک نفس کو پہچان نہ پاؤ گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ…" ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا“ ایک مشہور اصطلاح ہے۔ بیت
؎ ہر کہ بخرابات نشوی دینت
ز ہر آنکہ خرابات اصول دینت
’’جو بھی خرابات سے اپنے دین کو دھو نہ ڈالے، ہر اس چیز سے جو دین کی بنیادوں کو خراب کر دے‘‘۔
پس جب تم ناسوت کو قطعًا چھوڑو گے تو اس وقت ملکوت کے مقام کو پہنچ جاؤ گے اور یہ مقام تسبیح و تہلیل کا مقام ہے، اور ملائکہ کا مقام ہے جن کے کردار کی توضیح اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے کہ ﴿یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ﴾ (الأنبیاء: 20) ”یہ لوگ رات کو اور دن کو تسبیح کرتے ہیں اور یہ کوئی افترا پردازی نہیں کرتے“ اس کے بعد جب اس مقامِ ملائکہ سے ترقی کرو گے تو عالمِ جبروت کو پہنچ جاؤ گے، اور عالم جبروت انبیاء کا مقام و عالم ہے۔ اور انبیاء کا عالم محبت، عشق، شوق، ذوق، اُنس و نشاط ہے۔ اور جب اس عالمِ انبیاء سے ترقی کرو گے تو عالمِ لاہوت تک رسائی حاصل کرو گے اور یہ مقام حضرتِ رسالت کے ساتھ مخصوص ہے، اور حضرت رسالت کے بعض مخصوص ساتھیوں کے، جو کہ رسالت پناہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہیں (ان کے ساتھ مخصوص ہے)۔ الغرض حضرت جبرئیل علیہ السلام عالمِ ملکوت سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام عالمِ جبروت سے اور ملکوتی کا درجہ جبروتی سے ادنیٰ اور کم ہے، اور اعلیٰ کی التجا اسفل کو جائز نہیں، اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو جواب دیا: "أَمَّا إِلَیْکَ فَلَا…." (تفسیر القرطبی، رقم الصفحۃ: 400/5، دار الکتب المصریۃ القاہرۃ) کہ مجھے تم سے کوئی حاجت؟ نہیں کوئی حاجت نہیں۔ پس اے بھائی! مخلوقات تین قسم کی ہیں: ایک ملائکہ، دوم حیوانات، تیسری قسم انسان۔ اور انسان میں فرشتوں کی صفت ہے مگر فرشتوں میں انسان کی صفت نہیں ﴿وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِیْعًا...﴾ (الجاثیہ: 13) ”ہم نے تمہارے لیے آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے مسخر کیا ہے“ اسی طرح زہر آلود گوشت کھانے سے رسول اللہ ﷺ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا اندرون محبت کی سیر سے بھر پور تھا۔ اسی طرح ابو طیب حجام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا خون نوش کر لیا اور تم جانتے ہو کہ خون کا پینا قطعًا حرام ہے اور اس کے ثبوت میں دلیل قطعی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے: ﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الخِنْزِیْرِ…﴾ (البقرہ: 173) ”تحقیق تم پر مردار کھانا، خون اور سُور کا گوشت حرام کیا گیا ہے“ لیکن بایں ہمہ ابو طیب حجام رضی اللہ عنہ کا کوئی مؤاخذه نہیں کیا گیا، کیونکہ ان کا اندرون سکرِ محبت سے مملو اور پُر تھا، اور فرمایا گیا ہے کہ "إِنَّ اللہَ لَا یُوَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" یعنی اللہ تعالیٰ عشاق کے افعال و اقوال پر اُن کا مؤاخذہ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ابو طیب حجام رضی اللہ عنہ کو بشارت سنا دی کہ "حَرَّمَ اللہُ جَسَدَہٗ عَلَی النَّارِ" (نسب المصنف ہذا القصۃ إلی أبی طیب و الصحیح أن شارب دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کما رواہ الدار قطنی فی سننہ بتغيير يسير: رقم الحدیث: 882) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم کو آگ پر حرام کیا۔
اے محبوب! دوسرا سکر، سکرِ مہابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جناب سید المرسلین ﷺ کی چادر مبارک پکڑ کر سر اور چہرے پر ملتے ہوئے سرور عالم ﷺ کو منع کرتے تھے اور عرض کرتے تھے کہ اے رسول اللہ ﷺ عبد اللہ بن ابی جو کہ منافق تھا، کے جنازے پر تشریف نہ لے جائیں اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں کیونکہ وہ منافقوں میں سے ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی گرفت نہیں کی، حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سخت بے ادبی کی تھی۔ اور اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان کو کوئی تنبیہ یا مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اندرون سکرِ مہابت سے بھرا ہوا تھا۔ سکر کی تیسری قسم سکر حمیت ہے، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات لانے کے لیے قوم سے وعدہ فرمایا تھا اور کوہ طور تشریف لے گئے ﴿وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ أَتْمَمْنٰھٰا بِعَشْرٍ…﴾ (الأعراف: 142) ”ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تیس رات کا وعدہ کیا تھا اور پھر اس کو دس سے پورا کیا“ یہاں لیلۃ (رات) یعنی تیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا اس سے رات اور دن دونوں مراد ہیں لیکن یہاں دن نہ کہا، یہ کیوں نہ کہا؟ اس کا سبب یہ ہے کہ دوست کے ساتھ راز کی بات رات کو اچھی طرح کہی جاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو بھی نہایت محبت سے خطاب فرمایا گیا کہ ﴿قُمِ اللَّیْلَ…﴾ (المزمل: 2) ”رات کو اٹھیے“۔
؎ تَجِدْنِيْ فِيْ سَوَادِ اللَّیْلِ عَبْدِيْ
قَرِیْبًا مِّنْکَ فَاطْلُبْنِيْ تَجِدْنِيْ
”اے میرے عبد! رات کے اندھیرے میں مجھے اپنے قریب پاؤ گے، میری طلب کرو مجھے ضرور پاؤ گے“۔
اور اے میرے محبوب! تجلیات کا حصول تیری طلب پر موقوف ہے، کیونکہ تمہاری فطرت میں یہ سعادت موجود ہے کیونکہ تُم سب انوار کے مظہر ہو۔ چنانچہ مٹی کی صفت ظلمت تھی مگر انسان ذات و صفات کے نور کا مظہر ہوا کہ ﴿إِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) اس کی صفت بیان کی گئی ہے۔
بیت ؎ از کفِ گل کاں وجود آدمی است
آنچناں خورشید پنھان کے شود
’’انسان کا وجود ایک مٹھی بھر مٹی ہے، اس مٹھی بھر مٹی میں ایسا سورج کیسے چھپا رہ سکتا ہے‘‘۔
ہاں تو اے میرے عزیز! تیس دن کا وعدہ تھا، آپ نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنی قوم میں اپنے نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے چھوڑ دیا کہ ﴿هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَ أَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (الأعراف: 142) ”اے ہارون! میرا خلیفہ رہ میری قوم میں اور اصلاح کرتے رہنا اور مت چلنا مفسدوں کی راہ“۔ تیس دن کے بعد موسیٰ علیہ السّلام کی قوم نے ہارون علیہ السلام سے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ میں بھیڑیے نے مار ڈالا ہے۔ اور ہارون علیہ السلام کو اپنی جماعت سے باہر نکال دیا، اور گاؤ پرستی اختیار کی۔ جب موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے بعد واپس آ کر تورات لائے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم گاؤ پرستی کر رہی ہے، تو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچنا شروع کر دیا۔ ہارون علیہ السلام نے عاجزی سے کہا کہ ﴿یَا ابْنَ اُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِيْ وَ لَا بِرَاْسِيْ﴾ (طٰہٰ: 94) ”اے میرے ماں جائے بھائی! مجھے سر اور داڑھی سے نہ پکڑو“ پس اے محبوب! ایک پیغمبر مرسل کا یہ فعل ایک دوسرے پیغمبر کے ساتھ کیسا ہے؟ لیکن صرف اسی وجہ سے موسیٰ سے کوئی مؤاخذہ نہیں کیا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے اندر سکر حمیت تھا اور "إِنَّ اللہَ لَا یُؤَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" کہ اللہ تعالیٰ عاشقوں کو ان سے صادر ہونے والے افعال پر نہیں پکڑا کرتا۔ پس اے عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علمائے ظاہر جو کہ علم جبروت یعنی علمِ انبیاء علیہم السلام ہیں سے بالکل محروم ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ اِس قسم کا سکر انبیاء کے لیے جائز نہیں، کیونکہ یہ لوگ دعوت دینے کے مکلف ہیں اور وہ دعوت احکام شریعت کے لیے ہے، نہ کہ اس قِسم کی باتوں کے لیے۔ لہٰذا ان چیزوں میں ان کی اقتدا کرنا جائز نہیں۔ پس اے عزیز! علمائے ظاہر جو کہ بحر المعانی سے محروم ہیں، وہ یہ بات بھلا کہاں جانتے ہیں۔ جان لو کہ سکرِ محبت قاطع ہے اور سکرِ مہابت اور سکر محبت مقام اعتراف میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے سکر مہابت و حمیت واقع ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ "یَا رَسُوْلَ اللہِ! قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿اَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ﴾ فَقَالَ: یَا عُمَرُ عَفَوْتُ عَنْکَ" ”اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وہ لوگ جو غصے کو پی جاتے ہیں، اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں“ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو معاف کیا“ (لم أجد ہذا الحدیث) اور اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ نے جب ایسا کام حضرت ہارون علیہ السلام سے کیا تو اللہ سے سوال کیا کہ ﴿رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَ لِأَخِيْ...﴾ (الأعراف: 151) ”اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما“ پس اے محبوب! سکرِ حمیت، غفلت اور حیرت کی منزل میں ہے، جیسا کہ شراب کے نشے میں ہوتا ہے۔ شراب کے پینے سے مستی اور نشہ مُراد نہیں بلکہ انہیں پینے والے کا نشاط اور سرور و ذوق مراد ہوتا ہے۔
؎ مئے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دِن رات چاہیے غالبؔ
لیکن انبیاء علیہم السلام کو متواتر اور مسلسل طور پر واردات حاصل ہوتی ہیں، اور وہ مستی اور نشہ سے مدہوش ہونے سے معصوم ہیں کہ وہ بے خبر ہو جائیں، لیکن ذوق و انس و نشاط وغیرہ بے خبری کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی فضل و کرم ہے۔ پس اے عزیز! اولیاء کرام کا سکر بھی اس طریق سے ہے۔ اولیاء مقامِ اقتدا و امامت میں ہوتے ہیں، پس شرابِ محبت کا سکر انبیاء کے واسطے بھی نشاط و ذوق کے لیے جائز ہے، اگر یہ سکر اولیاء میں واقع ہو جائے تو اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے "اَلصُّحْوُ و اَلسُّکْرُ صِفَتَانِ لِلْعَبْدِ مَا دَامَ الْعَبْدُ مَحْجُوْبًا عَنْ رَّبِّہٖ حَتّٰی تَفْنٰی أَوْصَافُہٗ" یعنی صحو اور سکر بندہ کی دو صفتیں ہیں جو اُس وقت تک ہوتی ہیں، جب تک بندہ اپنے رب سے حجاب میں ہو، یہاں تک کہ اس کی تمام صفات فنا ہو جائیں۔ لیکن اے عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تک شیخ دونوں صفتوں میں سے خارج نہیں ہوتا، ہمارے زمرے میں نہیں آ سکتا کیونکہ سکر عبادت کے غلبہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ارباب معانی کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غلبۂ محبت ہے طاور صحو حصولِ مُراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کے غلبہ کو سکر کہتے ہیں اور حصول مراد کو صحو کہتے ہیں، لیکن شیخ محمد حسین کے نزدیک دونوں حالتیں حجاب کی ہیں، سکر نفی ہے غیر محبوب سے محبوبوں کے غلبے کی اور صحو عبارت ہے مُرادیں حاصل ہونے سے۔ گویا سب محبوب ہیں، لیکن ایک سودا ہے اور وہ دونوں سے باہر ہے۔ اور شیخ محمد حسین نے سب اس رباعی میں فرمایا جس سے ان کا خیال آشکارا ہوتا ہے۔ رُباعی
؎ از نفی و از اثبات بیروں صحرائے ہست
کہ ایں طائفہ را دراں میاں سودائی ہست
عاشقی چوں بداں جا رسد محو شود
نے نفی نہ اثبات نہ او را جائے ہست
’’نفی اور اثبات سے ماوراء ایک صحرا و بیابان ہے کہ اس گروہ (عشاق) کو اس صحرا میں سودا ہے جب عاشق اس مقام کو پہنچ جاتا ہے تو نہ نفی و اثبات کا اور نہ اس کا کوئی مقام ہوتا ہے‘‘۔
اگر ارباب معانی اور مفہوم شناس لوگ آج زندہ ہوتے تو ان کلمات کے مفہوم کو سمجھ جاتے۔ بیت
؎ اے دریغا ہیچ کس را نیست تاب
دیدہ ہا کور و جہاں پر آفتاب
’’افسوس کہ کسی شخص میں تاب و توان نہیں، دنیا سورج کی روشنی سے بھرپور ہے اور آنکھیں اندھی اور نابینا ہیں‘‘۔ (مثنوی)
؎ من ز خم خانہ خورده ام جامے
نہ زمن اسمِ ماند ونے نامے
مست گشتم زاو و جام شکست
تا نگیرد دگر کسم جامے
عاشق و عشق گشت خود معشوق
خاص بیند چنیں نہ ہر عامے
چشم معنیٰ کشادہ شد بہ یقین
جان و جاناں دلبر و دل و دین
’’میں نے شراب خانے سے شراب کا ایک جام پی لیا، اب نہ میرا نام رہ گیا اور نہ نشان، میں اُس سے مست ہو گیا اور وہ جام ٹوٹ گیا، تاکہ یہ جام کوئی دوسرا شخص اُٹھا نہ لے، عاشق اور عشق خود ہی معشوق ہو گئے، یہ خاص بات ہر عام آدمی نہیں دیکھتا، یقینی طور پر معنیٰ کی آنکھیں کھل گئیں۔ جان جانان دلبر اور دل و دین سب نمودار ہوئے‘‘۔
اے عزیز! عشق کے تین حروف ہیں: عین، شین اور قاف۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم کو قیامت کے دِن تین گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے: جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ وَّ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِإِذْنِ اللهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ﴾ (فاطر: 32)
”پس کوئی برائی کرتا ہے اپنی جان پر، اور کوئی ہے اُن میں بیچ کی چال پر، اور کوئی اُن میں آگے بڑھ گیا ہے لے کر خوبیاں اللہ کے حکم سے، یہی ہے بڑی بزرگی“۔ پس اے محبوب! پہلے گروہ والے اپنے نفس پر ظالم ہیں، ان کے باب میں عشق کا حرف ”عین“ دلالت کرتا ہے یعنی اِن کی نجات اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان پر ہے۔ اور گروہ ثانی مقتصد یعنی میانہ رو اور اعتدال پسند لوگوں کا ہے، اِن کے بارے میں لفظ عشق کا لفظ ”شین“ دلالت کرتا ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم صادر ہو جائے گا کہ اے میرے حبیب! میانہ رو اور اعتدال پسند لوگوں کی شفاعت فرمائیں۔ اور تیسری جماعت نیکی اور عبادت میں آگے بڑھنے والوں اور جہدِ بلیغ کرنے والوں کی ہے، اِن کے بارے میں لفظ عشق کا لفظ "ق" دلالت کرتا ہے جو قربِ خداوندی کا مفہوم ادا کرتا ہے کہ ﴿فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ﴾ (القمر: 55) ”بیٹھے سچی بیٹھک میں نزدیک بادشاہ کے جس کا سب پر قبضہ ہے“۔ اِس آیت شریف میں چند اشکالات ہیں اور اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جس جگہ قرآن مجید میں ظالموں کا ذکر ہے، اُس سے مراد جھوٹے لوگ ہیں۔ لیکن شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مستند حدیث پائی ہے کہ "قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: "اَلسَّابِقُ وَ الْمُقْتَصِدُ یَدْخُلَانِ الْجَنَّۃَ وَ الظَّالِمُ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا ثُمَّ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ" (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 7074) ”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سابق اور مقتصد جنت میں داخل ہوں گے اور ظالم کے ساتھ آسان اور سہل طریقے سے حساب کیا جائے گا پھر اس کے بعد جنت میں داخل ہو جائے گا“۔
لیکن شیخ صاحب مذکور کو اس حدیث میں اشکال واقع ہوا تھا اور اس کی صحت میں شک تھا پھر 908ء میں 27 رمضان المبارک کی رات کو رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اور یہ حدیث آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی اور خاموش ہوئے۔ حضرت رسالت مآب ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ "یَا وَلَدِيْ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ شَأْنِيْ" ”اے میرے بچے! یہ حدیث میری ہی ہے“۔ پس اے عزیز! حضرت قتادہ کو اس بات میں تاخیر کرنی چاہیے تھی جیسا کہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ہے: "اَلظَّالِمُ ھُوَ الْکَافِرُ مِنْ کُفْرَانِ النِّعْمَۃِ لَا مِنْ الْکُفْرِ الَّذِيْ ھُوَ ضِدُّ الْإِیْمَانِ وَ الْمُقْتَصِدُ الْمُرَائِيْ لَا الَّذِيْ یُنَافِقُ فِي الدِّیْنِ وَ السَّابِقُ ھُوَ الْعَابِدُ" (لم أعثر علی ہذا القول) یعنی ظالم وہ ہے جو کہ کفرانِ نعمت کرتا ہے نہ کہ وہ کفر جو ایمان کی ضد ہے، اور مقتصد وہ ہے جو کہ دکھاوا کرتا ہے نہ کہ وہ جو کہ دین میں نفاق کرتا ہے، اور سابق سے مراد عابد ہے۔ پس ان سب باتوں کا مرام و مقصود عشق بازی کرنا ہے اور عشق بازی کیا چیز ہے؟ ”ایک جاننا ایک کہنا“۔