گیارھواں باب
قلب و روح کے بیان میں، اور اس سلسلے میں ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا علم
ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ قلب و روح کی معرفت میں مکمل علم رکھتے تھے جب لوگوں نے سرور دو عالم ﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا کہ ﴿وَ یَسْئَلْوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ...﴾ (الإسراء: 85) ”وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے اور سوالات کرتے ہیں“ تو رسول اللہ ﷺ جانتے تھے اور چاہتے تھے کہ روح کے بارے میں اپنی زبان ترجمانِ حقیقت سے گوہرِ معانی کی گوہر افشانی فرمائیں، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے کہ رب بے نیاز نہیں چاہتے کہ عشق و محبت کا یہ راز کوچہ و بازار میں رسوا ہو۔ فرمان صادر ہوا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ…﴾ (الإسراء: 85) ”ان کو فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“ رسول اللہ ﷺ کو پوری طرح سے روح کی معرفت حاصل تھی، چونکہ اس کا بیان کرنا قابلِ بیان نہ تھا، اس لیے حکم صادر ہوا کہ یہ ہمارے حوالے کیجیے۔ پس اے بھائی! جب طالب مطلوب اور محبوب کے مقام پر آ جائے تو معرفتِ روح کلی طور پر اُس پر منکشف اور ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ رسول اکرم ﷺ کے مقام کو پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: "إِنِّيْ عَرَفْتُ رِجَالًا مِّنْ اُمَّتِيْ فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ مَقَامُھُمْ عِنْدَ اللہِ تَعَالٰی مَقَامِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) کہ میں نے معراج کی رات کو ایسے لوگ دیکھے جن کا مقام اللہ تعالیٰ کے نزدیک میرے مقام جیسا ہے۔ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مقامِ روح بالکل منکشف ہوا تھا، مگر تحریر میں نہیں لایا جا سکتا، اور اب اس کی مزید وضاحت کی جائے گی۔ پس اے بھائی! جب تمہارا نفس علم الیقین (جو کہ لکھا جائے گا) کے مقام سے قلب کے مقام کو آئے اور اس کے بعد دل بھی علم الیقین کے مقام سے عین الیقین کے اتھا سمندر میں آ جائے اور اس سمندر میں سے حق الیقین کے موتی حاصل کریں۔ ان ابیات پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس کا مفہوم واضح ہو جائے۔
؎ آنچہ من در کوئی جانان یافتم
کمترین از چیز های جان یافتم
چوں در افتادم به پندار بقاء
در بقاء خود را پریشان یافتم
چوں فرو رفتم به دریائے فنا
در فنا در فراوان یافتم
تا نہ پنداری کہ ایں دریائے ژرف
نیست دشواری من آسان یافتم
’’میں نے اپنے محبوب کو جو کچھ پایا، میں نے اور چیزوں میں ایسی روح نہیں پائی۔ جب میں بقاء کے خیال میں پڑ گیا، تو بقاء میں‘ میں نے اپنے آپ کو پریشان پایا اُور جب میں فنا کے دریا میں غوطہ زن ہوا، تو بہت زیادہ تعداد میں موتی پا لیے‘‘۔
یہ خیال نہ کرو کہ یہ گہرا اور اتھاہ سمندر دشوار نہیں اور میں نے اس کو آسانی سے پایا۔
مطلب یہ کہ جب یقین کے موتی تمہیں ہاتھ آئیں گے تو تمہارا دل مقامِ روح میں آ جائے گا اور اس کے بعد تمہاری روح ﴿مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) کے مقام تک رسائی حاصل کرے گی اور تمہیں عبودیتِ کاملہ نصیب ہو گی اور ربانیت ہاتھ آئے گی۔ ابوبکر دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اَلْفَرْقُ بَیْنِيْ وَ بَیْنَ اللہِ عُبُوْدِیَّۃٌ" یعنی میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان فرق عبودیت ہے۔ پس اس مقام میں شیخ محمد حسین فرماتے ہیں کہ علماء کا خیال ہے کہ ہم بغیر قلب و روح کے ہیں جن کی ماہیت ہمیں معلوم نہیں، اور وہ کوئی چیز نہیں، لیکن آپ یہ جان لیں کہ جب آپ روح کے گوہر تک رسائی حاصل کریں گے، پس ہر گھڑی آپ کو صفتوں میں سے ایک صفت دکھائی جائے گی، یعنی آپ کی روح کی ستر ہزار صورتیں ہیں، اِن تمام شکلوں پر آپ اشکال دیکھیں گے، اور آپ خیال کریں گے کہ یہ وہ ہے مگر یہ وہی نہیں ہوگا بلکہ اس کی تجلیات ہوں گی۔ بیت۔
؎ پرتو از عکس تو گر اُفتد روئے خاک
گردد از ہر ذرہ پیدا صد ہزاراں آفتاب
’’اگر آپ کا عکس مٹی پر پڑ جائے تو مٹی کے ہر ذرے سے لاکھوں سورج پیدا ہو جائیں گے‘‘۔
اے بھائی! تمام صورتوں کی تشریح کرنا شریعت میں قابل بیان نہیں۔ بیت۔
؎ در پردۂ شریعت اندر حجاب علم
شریعت بس بزرگ حکایت اگر کنم
’’شریعت علم کے پردوں اور حجابوں میں ایک بڑا راز ہے اگر میں اس کی تشریح کروں‘‘ (اور ان باتوں کے لیے ایک عمر چاہیے کہ انسان اس کو سمجھ پائے)
پس اے بھائی! جب تمہارے قالب اور جسم میں ”توئی“ (تو ہے) کی آمیزش کی گئی ہے اور تُو درحقیقت وہ لطیفہ ہے جو کہ حاصل قلب ہوتا ہے لیکن قلب لطیف ہے اور عالم علوی سے ہے، اور تمہارا قالب اور جسم کثیف ہے جو کہ عالم سفلی سے ہے۔ پس اے میرے عزیز! قلب اور قالب کے درمیان کوئی الفت اور مناسبت نہیں اور نہ ہو گی لیکن قلب اور قالب کے درمیان کوئی رابطہ یا واسطہ ہونا چاہیے تاکہ ان کے درمیان الفت قائم ہو۔ ﴿أَنَّ اللہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ…﴾ (الأنفال: 24) ”اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے“ قلب اور قالب کے درمیان، درمیانی واسطہ ہوتا ہے یہاں تک کہ دل کا جو حصہ ہوتا ہے اس لطیفہ کو بتاتے ہیں، اور وہ لطیفہ قالب کو بتاتے ہیں۔ اے عزیز! اگر قلب کو مجرد طور پر قالب میں سما اور جما دیتے تو قلب ہرگز قالب کے ساتھ قرار و اُنس کے ساتھ مربوط نہ ہو سکتا تھا، یعنی قالب نور میں پگھل جاتا۔ خود فرماتے ہیں کہ ﴿فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ…﴾ (الزمر: 22) ”وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نور پر ہے“ اگر تُو اچھی طرح خیال کرے تو یہ لطیفہ آدمی کی حقیقت ہے۔ پس اے محبوب! اس حقیقت قالب اور قلب کے درمیان واسطہ اور حائل کرنا، اس کی مثال ایسی ہے کہ قلب جبروتی ہے اور قالب مَلکی ہے، اور ملک و جبروت میں چاہیے کہ ملکوت جبروت کی زبان کا ترجمان ہو یعنی یہ ایسی بات ہے کہ ایک عجمی زبان بولنے والا عربی زبان نہیں سمجھتا، مگر وہ تب سمجھتا ہے کہ کوئی ایسا ترجمان درمیان میں ہو جو کہ عربی بھی سمجھے اور عجمی بھی سمجھے، یعنی کہ وہ عربی بھی ہو اور عجمی بھی ہو۔ پس اے بھائی! یہ بات معلوم ہو گئی کہ اِن ظاہری حواس خمسہ (پانچ خواص) کے علاوہ پانچ حواس معنوی و باطنی بھی ہیں جو کہ سب تمہاری سرشت میں رکھے گئے ہیں جو کہ مشاہدے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ پس اے عزیز! تم قلب ہو اور یہ لطیف فطرت اور سرشت جس کا ذکر کیا گیا، نفسِ قلبی اور روحی ہے۔ اے بھائی! رسول اللہ ﷺ ایک طبیب حاذق تھے، وہ مصالح اور مفاسد پر کڑی نظر رکھتے تھے، اُنہیں اس کی ضرورت تھی، ان کو فرمان خداوندی ہوا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”کہیئے کہ روح امر ربی میں سے ہے“ رسول اللہ ﷺ نے ہر حال میں اِس کے اسرار کو ظاہر نہ ہونے دیا، وہ جانتے تھے کہ میری امت میں اس کے بارے تھوڑا سال حال اُن لوگوں کو بتایا جائے گا جو اس کے اہل ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، اس آیت: ﴿أَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ...﴾ (البقرۃ: 248) ”آئے تمہارے پاس ایک صندوق کہ جس میں تسلی خاطر ہے تمہارے رب کی طرف سے“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ سکینہ ہے جو کہ انبیاء علیہم السلام کے دِل کے تابوت میں اس جگہ تھا۔ پس اے عزیز بھائی! اس مقام پر "بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ" (الصحیح لمسلم، کتاب القدر، باب: تصریف اللہ تعالٰی القلوب کیف شاء، رقم الحدیث: 2654) ”مؤمن کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے“ کی طلب کر (یعنی دلِ مؤمن کی طلب کرو) تاکہ اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان مقام پائے۔ اس مقام پر شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر "إِصْبَعَیْنِ" (دو انگلیوں) کے معنیٰ سے پردہ اٹھاؤں تو تمام لوگ شفا یاب ہو جائیں گے۔ آپ تھوڑی سی بات سن لیجیے کہ دل منظرِ الٰہی ہے، پس دل نگاہ و نظر کے لائق و اہل ہے، کیونکہ فرمایا گیا ہے: "إِنَّ اللہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَ أَمْوَالِکُمْ وَ لٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ أَعْمَالِکُمْ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ، باب: تحریم ظلم المسلم، رقم الحدیث: 2564) کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کی نگاہ و نظر تمہارے دلوں اور تمہارے احوال پر ہوتی ہے۔ جب دل اللہ تعالیٰ کا منظر اور مرکز نگاہ و نظر ہوا تو جب تمہارا قالب اور جسم بھی دِل کی طرح ہو جائیں تو وہ بھی منظر الٰہی ہو جائیں گے۔ اِس بات میں نکتہ یہ ہے کہ سالکوں کے دل مواصلت اور موانست کی تکالیف اپنے حصّہ میں برداشت کرتے ہیں، اور ان کے دل دوسرے عالم میں اور دو انگلیوں کے درمیان گردش کرتے ہیں۔ اور "إِصْبَعَیْنِ" (انگلیوں) سے مُراد یہی دو مقام (یعنی محبوب کے دل کی سکونت) ہیں، اور وہ دو انگلیاں ان کے دل کے سکون کا مقام ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اس لیے ”ہوا“ کے بارے میں بطور رمز بیان فرمایا ہے کہ "لَا تَسُبُّوا الرِّیْحَ…" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 7407) "فَإِنَّھَا مِنْ نَّفْسِ الرَّحْمٰنِ" (لم أجد هٰذا الجزء من الحدیث) یعنی ہوا کو گالی نہ دو کہ یہ رحمٰن کے نفس سے ہے۔ یہ ہوا محبوبوں کے دلوں کو پھراتی ہے اور رحمٰن کون ہے؟ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہٰ: 5) ”وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا“ اور اے عزیزِ من اگر رحمان اپنا جمال اپنی مخلوق کو دکھاتا تو سب کو روشن اور منور کرتا کہ "قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللہِ تَعَالٰی" (الموضوعات للصغانی، رقم الحدیث: 70) ”مؤمن کا دل خداوند تعالیٰ کا عرش ہے۔ سبحان اللہ کیا ارفع مقام ہے۔ بیت ؎
ایں خانہ چہ خانہ است درو گنج نہاں است
از خواجہ بپرسید کہ ایں خانہ چہ خانہ مَست
گنج مست دریں خانہ کہ در کون نگنجد
ایں خانہ و ایں خواجہ ہمیں آں نہاں است
’’یہ گھر کیسا عالی شان گھر ہے کہ اس میں خزانہ پوشیدہ ہے، مالک سے پوچھیئے کہ یہ گھر کیسا قابلِ وقعت گھر ہے اس گھر میں ایسا خزانہ ہے کہ جو ساری کائنات میں سما نہیں سکتا یہ گھر اور اُس کا مالک دونوں نظروں سے پوشیدہ ہیں‘‘۔ ؎
فی الجملہ ہر آن کس کہ دریں خانہ راہے یافت
سلطان زمین است و سلیمان جہاں ست
’’حاصل کلام یہ کہ جو کوئی اس گھر میں راہ پائے گا تو وہ زمین کا بادشاہ اور جہان کا سلیمان ہے‘‘۔
اے عزیزِ من! تمہارے دل کا خزانہ تو لکھا گیا، اس موقع پر قطب عالم قدّس سرہٗ نے رمزًا ایک ارشاد فرمایا کہ "الْقَلْبُ ھُوَ الْعَرْشُ وَ الصَّدْرُ ھُوَ الْکُرْسِيُّ" یعنی قلب عرش ہے اور سینہ کرسی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت: ﴿بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَجِیْدٌ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ (البروج: 22) ”کوئی نہیں یہ قرآن ہے بڑی شان کا، لکھا ہے لوح محفوظ میں“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ لوحِ محفوظ مؤمن کا دل ہے۔ رسول اللہ ﷺ یہی بات یوں فرماتے ہیں کہ "الْعَرْشُ مُحِیْطٌ عَلٰی جَمِیْعِ مَا خَلَقَ اللہُ تَعَالٰی" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق فرمایا ہے، عرش اُن سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے، لیکن دل عرش پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حکایتًا حدیث منقول ہے: "مَا وَسِعَنِيْ سَمَائِيْ وَ لَا أَرْضِيْ بَلْ وَسِعَنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ" (الزیادات علی الموضوعات للسیوطی، رقم الحدیث: 1017) کہ میں آسمانوں اور زمین میں نہیں سما سکتا، مگر مؤمن کے دل میں سما سکتا ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عرش ہمارے لائق نہ ہوا، آسمان کی قوت برداشت جواب دے گئی اور زمین ہمارے تحمل سے وا ماندہ ہو گئی، لیکن مؤمن کے دل نے مجھے قبول کیا۔ چنانچہ اے میرے عزیز! ایک دن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ "أَیْنَ اللہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ: "فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو جواب میں سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بندوں کے دلوں میں۔ اے عزیز! میں نے دل کی اتنی شرح بیان کی، اب دوسرا بیان سن لو۔ بعض رسالوں میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نو لاکھ اسی ہزار سال تک دل کو جو کہ نور سے ہے، اپنے قبضۂ قدرت میں لے کر پرورش کرتا رہا اور اس کو کہتا رہا کہ تُو میرا عاشق ہے اور میں تیرا عاشق ہوں۔ یہ بیان بہت طویل ہے جو کہ مختصر طور پر کہا گیا۔ پس اے برادرِ عزیز! میں نے دل کے بیان کی شرح جو بیان کر دی ہے اور جو کچھ کہ میں نے اس سلسلے میں "أَلَمْ نَشْرَحْ" کردیا اور تحریر میں لے آیا، یہ اس لیے کہ تو دِل کو پالے، اور اس کے بعد روح جو کہ حق تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اس کو پانے کی کوشش کرے۔ الغرض اے میرے عزیز! سن لو کہ اس بارے میں شیخ محمد حسین کیا فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ روح کی عزت کے جمالِ جہاں آرا کو عام طریق سے لوگوں کو دکھاؤں مگر شریعت کی پابندی آڑے آئی۔ میرے جنون نے حقیقت کو پوشیدہ رکھا اور چونکہ "إِنَّ اللہَ غَیُّوْرٌ" ”اللہ تعالیٰ بہت زیادہ غیرت والا ہے“ اللہ تعالیٰ کی غیرت کی وجہ سے میں نے اپنا خیال ملتوی کر دیا۔ اگر بایزید بسطامی اور شبلی رحمۃ اللہ علیہم زندہ ہوتے تو میں ان کو شرح بیان کرتا۔ جب روح کی شرح کے بیان کو قلم پہنچ جاتا تو میری دیوانگی حرکت میں آ جاتی ہے اور مقام غیرت سے غیب کے پردوں سے اس فقیر کو بطور تنبیہ یہ آواز آتی ہے کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”روح امرِ ربی میں سے ہے“ اور یہی روح کی مکمل شرح ہے۔ بیت:۔ ؎
کار تو سعیت و عالی اند راہ حقیقت
در صد ہزار سالے یک مرد راہ بین است
’’راہ حقیقت میں یہ ایک عالی اور مضبوط مقام ہے لاکھوں سالوں میں کہیں رہ شناس آدمی پیدا ہوتا ہے‘‘۔
اس کے بعد روح کا کلام لکھا جائے گا۔ روح کے قالب کی جانب اشارہ کرنا ایسا ہوگا کہ انسان کے لفظ کا اطلاق قالب کے بغیر نہیں ہوتا لیکن ایک دوسری جماعت جو کہ علماءِ ظاہر بین ہیں، قالب کو بھی انسان سمجھتے ہیں اور روح کو بھی، لیکن جو لوگ خصوصیت کے مئے کدہ سے جام نوش کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان خطابات کا مقصود جان کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور روح کے بغیر آدمی کی کچھ حقیقت نہیں۔ مثلًا اگر کہا جائے کہ فلاں شخص عالم ہے، جاہل، قادر، عاجز، سخی، کنجوس، مؤمن یا کافر ہے تو یہ تمام اوصاف جان یعنی روح کے ہیں اور اُس کی تعریف
ہے، اور یہ بات کسی طرح بھی موزوں نہیں کہ قالب اور جسم کو ان صفتوں سے یاد کیا جائے لیکن مجازی طریقے سے قالب پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، لیکن لفظ انسان اور آدمی وغیرہ قالب کے لیے مجاز کے طریقے سے بھی بولے جاتے ہیں جیسا کہ "زَیْدٌ فَقِیْرٌ" یا "طَوِیْلٌ" یا "سَمِیْعٌ" یا بہرا؛ یہ سب قالب پر اطلاق کرتے ہیں، لیکن کافری، مسلمانی، سخاوت، بخل، علم اور جہالت؛ یہ سب جان و روح کے ساتھ مخصوص ہیں، قالب کا ان میں کوئی حصہ نہیں، لیکن کوتاہی، طوالت، اندھا پن، بہرا پن، گونگا پن؛ یہ سب قالب کے لیے ہیں اور روح کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔ پس قالب پر ان کا اطلاق مجازًا اور جان پر ان کا اطلاق حقیقی ہوتا ہے۔ عین القضاۃ ہمدانی قدّس سرہٗ العزیز کے رسالے میں آتا ہے کہ روحیں چار ہیں: ایک ناصیہ، دوسری متحرکہ، تیسری ناطقہ اور چوتھی قدسی ہے۔ ناصیہ انسان ہے اور دیگر تمام حیوانات و نباتات میں خواہ وہ رحمِ مادر میں ہوں یا باہر مشترک ہیں، پرورش اور نشوونما میں یہ روح مخلوق ہے ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا…﴾ (السجدۃ: 4) ”اس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا ہے اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے“ روحِ متحرکہ انسان اور دیگر حیوانات میں مشترک ہے، نباتات اس میں شامل نہیں، اور اس کو روح حیوانی کہتے ہیں کیونکہ تمام حیوانات کی حرکات اس روح کی وجہ سے ہیں، یہ روح بھی مخلوق ہے اور یہ دونوں روحیں عناصر کی تاثیر سے وجود پذیر ہیں۔ اور روحِ ناطقہ کا تعلق خاص انسان کے ساتھ ہے، یہ حیوانات اور نباتات میں نہیں اور اس کو روح انسانی کہتے ہیں اور یہ عالَمِ امر سے ہے، عناصر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ ﴿وَ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) سے یہ ثابت ہے، لیکن روحِ قدسی انبیاء اور خاص اولیاء کرام کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کو سکینہ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِم...﴾ (الفتح: 18) ”ہم نے ان پر سکینہ نازل کی“ اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس روح کو منفوخ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“ اس بات پر شاہد ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کی کرامات اور معجزات درجاتِ فہم معانی باطنہ و مکاشفات خرق عادات احیاء و اموات وغیرہ اسی روح کی تاثیر سے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں میں یہ روح نہیں ہوتی اور "اَلرُّوْحُ عَالِمٌ بِمَا کَانَ وَ بِمَا یَکُوْنُ" ”یہ روح اُس چیز پر عالم ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو گیا ہو یا جو کچھ ہونے والا ہے“ یہ روح قدس کی صفت ہے لیکن یہ امداد الٰہی کا فیض ہے، یعنی اللہ کا نور ہے اور یہ اثرِ ذات کہلاتا ہے اور یہ مذکورہ ارواح کو مدد پہنچاتا ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ میں خاص الخاص اولیاء جو کہ معانی کے ادراک اور حقائق کی سمجھ اور اشیاء کی معرفت رکھتے ہیں، سب اسی روح قدسی کے طفیل کرتے ہیں۔ "سرُ اللہ" نام کی ایک کتاب میں روح کی معرفت تین قسم پر ہے: عام، خاص اور اخص۔ عام روح کے وجود کی تاثیر کو جانتا ہے، خاص اس کے اثر، خاصیت کو اور حرکات کا شناسا ہوتا ہے، اور اخص یا خاص الخاص روح کی ذات کا مکاشفہ دیکھتا ہے۔ اُس کی تمثیل تا جزو کو دیکھتا ہے اگر کوئی شخص روح کو دیکھے تو وہ اس کا عاشق ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کی صورت اور حسن کی ترجمان ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ نور ہے جس کو زوال نہیں اور اس کے کان میں گوشوارۂ سبوحی ہے اور اُس کے وجود پر الوہیت کا لباس ہے، شاہدِ حق یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی ہے، جو کچھ کہ عالم الوہیت میں ہے، وہ اس کی روح میں ہویدا ہے۔ اور اس عکس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو تو شیخ محمد حسین نے کہا ہے کہ "یُلْقِی الرُّوْحُ جَمَالَہٗ مِنْ أَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ" ”روح اپنا جمال اس کے حکم سے اس کے بندوں پر جس پر چاہے آشکارا کر لیتی ہے“ وہ تم پر اپنی تجلی ظاہر کر دے اور تم کون و مکان سے گذر کر یہاں تک رسائی کرو کہ روح کو دیکھ لو اور عرش پر متمکن ہو جاؤ کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ﴾ (طہ: 5) ”رحمٰن عرش پر استوٰی رکھتا ہے“ اور جب عرش سے بھی آگے گذر جاؤ تو اُس کے بعد ارفع اور بلند ترین درجات والے عرش کے مالک کو دیکھو گے، تو اے میرے پیارے! اُس وقت تمہارا دِل روح کے نور میں غوطہ کھائے گا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) امر ربی سے مُراد نورِ ربی ہے تو اس غوطہ کھانے کے بعد تم ﴿نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ…﴾ (النور: 35) ہو جاؤ گے۔ اور جو کچھ تم کہتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل خود کہے گا، اُس وقت تم دل کے مرید اور خادم ہو جاؤ گے اور تمہارا دل، تمہارا پیر و مرشد ہو جائے گا، یعنی تمہارا دل آمر (حکم دینے والا) اور تم مامور (حکم بجا لانے والے) بن کر دل تمہاری تربیت کرے گا، پس تم جان جاؤ گے کہ دل کو تمہارے ساتھ اندرونی محبت ہے یا کہ ظاہری اور بیرونی محبت اور اللہ تعالیٰ کی اس عالم سے اندرونی محبت ہے یا کہ بیرونی۔ اے میرے محبوب! روح داخل بھی ہے اور خارج بھی، اور وہ بھی داخل ہے اور خارج بھی ہے۔ اور روح نہ داخل ہے نہ خارج نیز وہ بھی نہ عالم میں داخل ہے نہ خارج۔ اور روح نہ قالب کے ساتھ متصل ہے اور نہ منفصل اور اللہ رب العزت بھی متصل بھی نہیں اور منفصل (جدا) بھی نہیں۔ ان شعروں میں فکر کر کے مفہوم معلوم کرو۔ ابیات؎
حق بہ جان اندر نہان و جان با دل اندر نہان
اے نہان اندر نہان اندر نہاں اندر نہان
ایں جنس رمز عیاں خود با عیاں ست و عیان
اے جہاں اندر جہاں اندر جہاں اندر جہان
’’حق روح کے اندر پوشیدہ ہے اور روح دل کے اندر پوشیدہ ہے اے پوشیدہ کے اندر پوشیدہ اور پوشیدہ کے اندر پوشیدہ اور پوشیدہ کے اندر پوشیدہ، یہ ظاہر و عیاں راز ظاہری طور پر عیاں ہے، اس کے اندر ایک دنیا ہے اور جہاں اندر جہاں اندر جہان اس میں پڑا ہے‘‘۔ بیت
؎ آدمی چیست برزخ جامع
صورت خلق حق درو واقع
آدمی کیا ہے؟ ایک جامع برزخ (اور عالم ہے) یہ مخلوق کی شکل میں ہے اور اس کے اندر ہے۔
”نظم“
اے دریقا جان قدسی کز ہمہ پوشیدہ است
پس کرا دیدہ است روئے او نام کے بشنیدہ است
ہر کہ بیند در زبان دل از حسن او کافر شود
اے دریقا لکن شریعت راوی کو بریده است
کون و کان بر ہم زن و از خود بروں شو تا شوی
کہ ایں جان تو خدا ز دو جہان بگزیدہ است
تو ہنوز دل خود ندیدۂ و جانرا کہ بینی
و جان را ندیده خدا را کہ بینی
’’افسوس کہ قدسی کی روح سب سے پوشیدہ ہے اُس کا چہرہ کس نے دیکھا ہے اور اس کا نام کس نے سُنا ہے؟ کون و کائنات کو ترک کر کے اپنے آپ سے دست بردار ہو جا تاکہ رسائی حاصل کر سکو کیوں کہ تمہاری یہ جان اللہ تعالیٰ نے ہر دو جہان سے منتخب فرمائی ہے تو نے ابھی تک اپنا دل نہیں دیکھا ہے تو روح کو کیا دیکھے گا اور جب روح کو نہیں دیکھا تو خدا کو کہاں کیسے (اور کب) دیکھو گے‘‘۔
ایک تحقیق شدہ قول ہے کہ آدمی کی کھوپڑی میں ایک سوراخ ہوتا ہے جو کہ بہت باریک ہوتا ہے، اُس سوراخ کو ’’یافوخ‘‘ کہتے ہیں، جب عارفوں اور اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی روح خواہش کرے کہ عروج کریں یعنی عالم بالا کی سیر کریں تو اُس سوراخ جس کو ’’یافوخ‘‘ کہتے ہیں، اس میں ایک براق لایا جاتا ہے اور اُن کی روح کو اس پر سوار کرتے ہیں اور لے جاتے ہیں۔ اے بھائی! روح کے باطن کا نور ایک آئینہ ہوتا ہے غضب اور شہوت اِن دونوں کی آگ اس آئینے کو سیاہ اور دُھندلا کرتی ہے۔ پس روح کے معانی ایک سیر ہے اور اس سیر کی سیر اور راز حق کے ساتھ روح کا اتصال ہوتا ہے، اور یہ روح قدسی ہوتی ہے جو کہ عرش سے بالاتر اور برتر ہوتی ہے۔
اب یہ بات جان لو کہ لوگوں کو روح کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت روح کو جسم کہتی ہے اور دوسرا گروہ اس کو جوہر کہتا ہے، ایک گروہ عرض اور دوسرا اس کو قدیم اور کچھ لوگ اس کو محدث کہتے ہیں۔ اور ترسائیوں کا قول ہے کہ روح قدیم ہے اور بعض فلسفیوں اور بعض صوفیوں کا بھی یہی قول ہے، اور ان بعض صوفیوں کا قول جو کہ روح کی قدامت پر دلالت کرتا ہے، یہ اشعار ہیں، اگر ان کا مفہوم تم سمجھ جاؤ تو سب کچھ تم پر واضح ہو جائے گا۔
”نظم“
تو گوہر کافی و گوہر نونی
چہ کاف و چہ نونی
کہ از کاف و نون تو افزونی
محیط گنبد دار را توئی مرکز صفا و حضم اسرار را
تو استونی۔ شپہر مطلع انوار و آفتاب جلال
بگرو نقطۂ ذات تو گرد گردانی
ظہور مسہر کمالات سرمدی از تست
از آنکه خازن اسرار را تو مخزونی
وقتی مخزن اسرار را کہ کون و مکان است
نداشت طاقت دیدرآں تو مدفونی
لواء عز محمد کہ برتر از عرش است
عزیز در صف اہل صفا نہ اکنونی
ترجمہ: ’’تو کاف و نون کا جوہر ہے، اور کاف و نون کیا ہیں؟ تو کاف اور نون سے زیادہ اور افزوں ہے (یعنی کُن سے زیادہ یا قبل ہے) اس دورہ کرنے والے محرّک گنبد کے محیط کا تو مرکز ہے تو جلال کا سورج اور مطلع انوار کا آسمان ہے، تمہاری ذات کے نقطہ کے گرد آسمان چکر لگاتا ہے، ابدی کمالات کا ظہور تیری ذات سے ہے کیونکہ اسرار و رموز کے خزانچی کا خزانہ تو ہے، یہ ساری کائنات جو کہ ایک وقت میں طاقت دیدار نہیں رکھتی تِھی اس مخزنِ اسرار کا تو امین و مقام ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی عزت کا پرچم جو کہ عرش بریں سے بالا و برتر ہے تو اب سے اہل صفا کی صف میں عزیز نہیں (بلکہ قدیم سے ہے)
عرش کے نیچے یہ ساری کائنات ہے، مگر جو روح عرش سے بالا و برتر ہے وہ روح قدسی ہے‘‘۔ اور کاف و نون سے مراد "کُنْ فَیَکُوْنُ" ہے، یعنی روح کاف و نون کے تحت نہیں، لیکن شیخ جنید رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت اچھی تشریح کی ہے کہ "اَلرُّوْحُ شَيْءٌ اسْتَاثَرَہُ اللہُ تَعَالٰی بِعِلْمِہٖ وَ لَمْ یَطَّلِعْ عَلَیْہِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِہٖ وَ لَا تَجُوْزُ الْعِبَارَۃُ بِأَکْثَرِ مِنْ مَوْجُوْدٍ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”روح ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے اپنے لیے خاص کیا ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اُس کے بارے میں مطلع نہیں فرمایا اور اس کی وجود کو عبارت میں ظاہر نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحِ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) پس صحیح ترین مذہب یہی ہے جو کہ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور فقہاء اور ائمہ کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اطلاع دی کہ ﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ...﴾ (الإسراء: 85) اور اسی وقت اِس کی قدامت کی نفی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”فرما دیجیے کہ روح امر ربی سے ہے“ اور امر ربی مخلوق اور حادث کے لیے آتا ہے، پس جو کچھ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم اُسی کا اقرار کرتے ہیں اور اُس کی کیفیت سے سروکار نہیں رکھتے، کہ کیا ہے؟ اور کہاں و کیسی ہے؟ کیونکہ روح کے صانع اور بنانے والے نے ہمیں اُس کی موجودگی کی خبر تو دے دی مگر اس کی کیفیت اور ماہیت کی اطلاع نہیں دی۔ یہاں تک کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے جو کہ روح ہے مگر اس کی کیفیت کی کسی کو اطلاع نہیں دی کہ کیا ہے اور کہاں ہے؟ یہاں تک کہ مخلوق اُس کی ماہیت جاننے سے عاجز ہوئی، اور یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھ جائیں کہ جب بنی بنائی ہوئی چیز کو اُس کے تعارف و تعریف کے بغیر (جو کہ خالق نے نہیں کی ہے) نہیں جان سکتے تو اس کے بنانے والے خالق و صانع کو اس کی تعریف کے بغیر کیسے جان سکیں گے؟ اور مولانا روم صاحب اور دیگر بزرگان بھی یہی اور ایسا ہی فرماتے ہیں۔ اور جو لوگ روح کے قدیم ہونے اور اس کی قدامت کے قائل ہیں، یہ دلیل لاتے ہیں کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے اور اللہ کا امر اللہ کا کلام ہی ہے اور اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے، لیکن یہ دلیل غلط ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”کہہ دیجیے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے“ اور اگر روح خود امر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا جو کہ نہیں فرمایا کہ "قُلِ الرُّوْحُ أَمْرُ رَبِّيْ"(الإسراء: 85)۔ اس سے روح کا وجود تو ثابت ہو گیا لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ روح رب کے امر سے ہے لیکن امر نہیں ہے۔ اِن کی اس دلیل سے تو پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح مخلوق نہیں، کیونکہ یہ امر سے ہے تو پھر تمام کائنات ہی امر سے ہے جو کہ امر تکوین ہے۔ چنانچہ "کُنْ فَیَکُوْنُ" سے فراز عرش سے لے کر تحت الثری تک اور ازل سے ابد تک تمام اشیاء محدثات یعنی مخلوق و حادث ہیں اور "کُنْ فَیَکُوْنُ" کی وجہ سے تمام بنی ہوئی اشیاء حادث ہیں اور قدیم ہرگز نہیں۔ پس یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ روح جو کہ امر ربی سے ہے قدیم ہو سکے۔ اور اس بحث کی تفصیل شیخ شرف منیری کے رسالے میں بہت تفصیل سے تھی جو کہ مختصر بیان کی گئی۔
انسانیت کی حقیقت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے کہ انسان کا لفظ کیوں اور کیسے پڑ گیا اور اس کا جاننا سب پر فرض ہے کہ جب خود سے جاہل ہوتا ہے تو بغیر خود کے بارے میں جانے دوسری چیزوں سے زیادہ جاہل ہوگا۔ اور پہلے نفس کی معرفت کا ذکر کیا گیا، یہاں انسان کا لفظ زیر بحث آیا ہے۔ پس بعض لوگ کہتے ہیں کہ انسان روح کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ غلط ہے، کیونکہ روح صورت کے قالب میں ہے اور بغیر قالب کے اس کو انسان نہیں کہتے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ انسان کا لفظ روح و قالب کے مجموعہ پر منطبق ہے جیسا کہ کسی گھوڑے میں دو رنگ جمع ہو جاتے ہیں ایک کالا رنگ اور دوسرا سفید رنگ تو اس گھوڑے کو ابلق یعنی چتکبرا کہتے ہیں۔ اور صوفیوں کی ایک جماعت یہ خیال کرتی ہے کہ انسان آکل و شارب یعنی کھانے والا اور پینے والا نہیں اور تغیّر و تبدل کا موقع مقام بھی نہیں رکھتا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے اور یہ جسد اور جسم اس کا ایک طلسم ہے۔ اور ایک گروہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب عناصر اور جو کچھ کہ اس میں ہے میں مرکب فرمایا ہے اور اس کو قرآن مجید میں انسان کہا ہے پس اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق جو کہ "أَصْدَقُ الْقَائِلِیْنَ" ”سب سے زیادہ سچا ہے“ ہم کو اعتقاد رکھنا چاہیے۔ پس مختصرًا یہ بات جان لیجیے کہ ایک کامل انسان کی ترکیب تین معنوں میں ہوتی ہے: ایک روح، دوسرا نفس اور تیسرا جسم؛ اور لوگ کل عالم کا ایک نمونہ ہیں اور عالم دونوں جہانوں کو کہتے ہیں اور وہ دونوں جہاں انسان کے اندر ہیں۔ یہ جہان پانی، مٹی، ہوا اور آگ (عناصر اربعہ) سے ترکیب ہوئے ہیں، اور وہ بلغم، خون، صفراء اور سوداء (اخلاط اربعہ) سے۔ اور اس جہان کی نشانی جنت دوزخ اور عرصات ہیں۔ پس روح لطافت کی جگہ اور مقام پر جنت میں اور نفس وحشت اور آفت کی وجہ سے دوزخ اور جسم عرصات کے مقام پر ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مؤمن کی روح اُس کو جنت کی جانب بلاتی ہے اور نفس اس کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے اور جسم عرصات کی طرف کہ دنیا میں اس کا نمونہ ظاہر ہوتا ہے۔ بعض طالبان صادق نے نفس کو خنزیر کی شکل میں دیکھا ہے اور بعض نے لومڑی کے بچے کی شکل میں۔ بعض نے پیلے رنگ والے کتے کی شکل میں اور بعض نے چوہے کی صورت میں دیکھا ہے۔ پس نفس کو پہچاننا چاہیے اور ریاضت اور محنت سے اس کی پہچان ہو سکتی ہے لیکن ریاضت سے اس کی اصلی ماہیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اور جب اس کی پوری شناخت ہو جائے یعنی نفس کو اچھی طرح سے پہچانا جائے تو طالبوں کا تابعدار اور پابند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ﴿اَلنَّفْسُ کَلْبٌ وَّ إِمْسَاکُ الْکَلْبِ بَعْدَ الرِّیَاضَۃِ مُبَاحٌ﴾ یعنی نفس ایک کتا ہے اور ریاضت کے بعد کتے کو پالنا مباح ہے۔ یعنی جب نفس تابع ہو جائے تو اس کا پالنا مباح ہے، مگر اس کی تادیب مشکل ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت اور پیر مشفق کی تربیت کے بغیر یہ ہاتھ نہیں آتا۔