حصہ 2 باب 10: رموز و اسرار انسانی، تواضع وغیرہ کے بَیان میں اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ان کے بارے میں علم

دسواں باب

رموز و اسرار انسانی، تواضع وغیرہ کے بَیان میں اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ان کے بارے میں علم

حضرت صاحب انسان کی سیر و رموز کے بارے میں پوری معلومات رکھتے تھے اور سیرِ حال و سیرِ انسان اور مقامِ عبودیت ان کے سامنے ظاہر و عیاں ہو کر "أَلَمْ نَشْرَحْ" ہو چکے تھے۔ بیت ؎

عشق اندر فضل و علم و دفتر و اوراق نیست

ہر چہ گفت و گوے باشد آں رہ عشاق نیست

کاخ عشق اندر ازل و آن بیخ او اندر ابد

ایں شجر را تکیہ بر عرش و ثریٰ ساق نیست

عقل را معزول کردیم و ہوا را حد زدیم

ایں حلاوت لائق ایں عقل و ایں اخلاق نیست

تا تو مشتاقی بداں ایں اشتیاق تو بہ است

چوں بمعشوق آمدی پس، ہستی عشاق نیست

ترجمہ:۔ عشق (کا کاروبار)، فضیلت علم کتب خوانی یا ورق گردانی پر منحصر نہیں، عشاق کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ گفت و گو اور قیل و قال میں وقت ضائع کریں۔ عشق کے محل کا تعلق ازل سے اور اس کی جڑ ابد تک پھیلی ہوئی ہے کیونکہ اس درخت کا تکیہ عرش معلیٰ اور تحت الثریٰ پر نہیں۔ ہم نے عقل کو معزول کیا اور خواہشات کو دھتکار دیا۔ کیونکہ اِن اخلاق اور اس عقل کے لیے یہ حلاوت شایانِ شان نہیں۔ جب تک تو مشتاق ہے تو جان لے کہ تمہارا یہ اشتیاق اچھا ہے، جب تو معشوق کے پاس پہنچے گا تو عشاق کی ہستی باقی نہیں رہتی۔

اے برادرِ عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ﴿إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی﴾ (النجم: 16) ”جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا“ :یہ سِدرہ ربوبیت کا درخت ہے، جس کا میوہ عشقِ ازل ہے جو کہ عبودیت کی صورت میں عیاں ہے۔ اے بھائی! محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں قابلِ غور اور قیمتی ہیں کہ اُنہوں نے عشق کے مدرسہ میں ﴿وَ عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکھف: 65) ”اور سکھلایا تھا اپنے پاس سے ایک علم“ شاگردی کی سعادت حاصل کی ہے اور ربوبیت کے شراب خانے سے اُس نے ﴿وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور پھونک دوں اُس میں اپنی جان سے“ شراب نوش فرمائی ہے اور احدیت کے خلعت خانہ سے عبودیت کی عبا کو پہننے کا شرف حاصل کیا ہے: ﴿وَ حَمَلَھَا الْإِنْسَانُ...﴾ (الأحزاب: 72) ”اور انسان نے اُس کے اٹھانے کی ہامی بھری“ کیونکہ اے بھائی! اس کائنات میں کوئی عالم بھی عبودیت سے افضل اور برتر نہیں۔ یعنی عبودیت ایک حال ہے جو کہ ربوبیت کے جمال کے حسین چہرے سے مزین ہے۔ جیسا کہ شیخ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ "لَیْسَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ رَبِّيْ إِلَّا الْقَدَامَۃُ بِالْعُبُوْدِیَّۃِ" ”میرے اور میرے رب کے درمیان سوائے عبودیت کی قدامت کے، کچھ بھی حائل نہیں“۔ پس شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے کہ ربوبیت کے چہرے کا حسن و جمال عبودیت کے حال کے بغیر کمال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا اور عبودیت کا حال ربوبیت کے چہرے کے بغیر وجود نہیں رکھتا کہ ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریٰت: 56) ”اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو“ یہ آیت دونوں جانب کی گواہی دیتی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے اراہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں۔ یہ ربوبیت کا بیان ہے۔ "فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" ”پس میں نے مخلوق پیدا کی“۔

اے بھائی! یہ عشق بازی اور عاشقی کے معاملات و اسرار ہیں۔ اور ذو النون صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ "اَلْعُبُوْدِیَّۃُ بِغَیْرِ الرُّبُوْبِیَّۃِ نُقْصَانٌ وَّ زَوَالٌ وَّ الرُّبُوْبِیَّۃُ بِغَیْرِ الْعُبُوْدِیَّۃِ مُحَالٌ" یعنی بغیر ربوبیت کے عبودیت نقصان اور زوال ہے اور عبودیت کے بغیر ربوبیت محال اور ناممکن ہے۔ ﴿وَ أَلْزَمُھُمْ کَلِمَۃَ التُّقْوٰی وَ کَانُوْا أَحَقَّ بِھَا وَ أَھْلَھَا...﴾ (الفتح: 26) ”اور قائم رکھا ان کو آداب کی بات پر، اور وہی تھے اِس کے لائق اور کام کے“ عاشق و معشوق اور عاشق مناسب اور لازم پیدا کئے گئے ہیں۔ ﴿إِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَھُمْ وَ أَمْوَالَھُمْ بِأَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ...﴾ (التوبة: 111) یعنی مؤمنوں کے نفوس اور اموال اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے خریدے ہیں، لیکن دل خود اللہ تعالیٰ کا ہے اس کے خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ قابل خرید و فروخت یعنی بکاؤ مال نہیں۔

اے بھائی! جیسا کہ ربوبیت کی کوئی قیمت نہیں، عبودیت کا بھی کوئی مول نہیں اور جو بیع اپنے مقابلے اور بدلے میں رقم اور قیمت نہیں رکھتی وہ بیع بیع نہیں بلکہ وہ غبن فاحش ہے، اور سخت ظلم ہے۔ اگر دل آئینہ الٰہی کے مقابل نہ ہوتا تو "مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ الْأَرْبَابِ" ”چہ نسبت خاک را با عالم پاک“ کبھی بھی درست نہیں ہوتا۔ ﴿ظَلُوْمًا جَھُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے نے عبودیت کے نقطے کو محبت سے فروخت کیا، جب بیع مکمل ہوئی تو عبودیت کا نقطہ، ربوبیت سے واصل ہوا۔ اور اے برادرِ عزیز! جب ربوبیت کا نور عبودیت کے نور پر غالب ہو جائے تو نورِ عبودیت مغلوب ہو جاتا ہے، اور کبھی نورِ ربوبیت نورِ عبودیت پر نوازش کرتا ہے اور اس کو قربت کا شرف عطا کرتا ہے اور کبھی معشوق کا نور عاشق کے نور پر غلبہ کرتا ہے اور کبھی عاشق کے نور کو قرب وصال سے نوازتا ہے۔ مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ معراج کی رات کو میں اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ سکا، کیونکہ اس کے نور نے غلبہ کیا تھا "فَرَأَیْتُ فِرَاشًا مِّنَ الذَّهَبِ حَالَ بَیْنِيْ وَ بَیْنَہٗ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی میں نے سونے کے ایک پتنگے کو دیکھا جو کہ میرے اور اِس کے درمیان حائل ہوا تھا۔ یعنی دید در میت کا وہ حائل جو فرمایا گیا ہے، وہ انسانیت تھی۔ لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نور الٰہی کی شمع کے لیے انسان کا دل ایک پروانہ ہے۔ ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِہٖ مَا أَوْحٰی (النجم: 8-10) ”پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی نزدیک پھر حکم بھیجا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر“۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی قدرت کا ہاتھ میرے کندھوں پر تھا، اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھا تو "فَعَرَفْتُ مَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْأَرْضِ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب میں جان پہچان گیا۔ پس اے بھائی! یہ آیتِ شریفہ اس بات پر صریح دلالت کرتی ہے کہ عشقِ الٰہی جانِ مقدس کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے، لیکن ظاہر بین لوگ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، کیونکہ راز کی بات ہر کسی کو نہیں کہی جاتی۔ اور ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی﴾ (النجم: 9) فرمایا گیا ہے یہاں اپنے عشق اور محبوب کی جان کے تعلق کا بیان ہے۔ اور ﴿إِلٰی عَبْدِہٖ﴾ فرما کر کس انداز سے اس کی نشاندھی سے ذرا سا پردہ سرکایا ہے۔

اے میرے پیارے بھائی! اگر مقدس جان کی رسول اکرم ﷺ میں شائستگی نہ ہوتی تو اس قوم میں شور و غوغا نہ پڑ جاتا؟ عشق ایک بادشاہ ہے جس محل و مقام میں چاہتا ہے وہاں جلوہ آرا ہو جاتا ہے۔ اور ابدی عشق نے مقدس جان کے ساتھ پوشیدہ طور پر عقد باندھا ہے، جس سے عشق کے سوا کوئی بھی آگاہ نہیں، کیونکہ عشق ایک ایسا مقام ہے کہ عاشق و معشوق ہر دو کو اِس کی خبر و اطلاع نہیں، نہ تو معشوق کو آگاہی ہوتی ہے اور نہ عاشق کو۔ پس عشقِ الٰہی جانِ قدسی کے ساتھ ہوتا ہے اور جانِ قدسی کا عشق انوارِ الٰہی سے۔ ان باتوں پر خوب غور و فکر کرو اور سوچ لو کہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وہ مجھے اپنی قربت کی سعادت عطا کرتا ہے تو اس کے نور میں مَیں اپنے آپ کو دیکھ لیتا ہوں کہ "رَاٰی قَلْبِيْ رَبِّيْ" یعنی میرے دل نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا۔ اولیاء اللہ کے سردار حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس حالت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں کہ "مَا نَظَرْتُ شَیْئًا إِلَّا رَأَیْتُ اللہَ فِیْہِ" (العقیدۃ الاسلامیۃ علی ضوء مدرسۃ أهل البیت بمعناه، و ھو من کتب الشیعۃ، رقم الصفحۃ: 137) یعنی میں جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اُس میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ پاتا ہوں۔ اور اس بات کی گواہی قرآن کریم نے یوں دی ہے کہ ﴿أَلَمْ تَرَ إِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ...﴾ (الفرقان: 45) ”تو نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف کیسے دراز کیا سائے کو“ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو ہمارے دل کے آئینے میں دیکھ لیتا ہے تو اس کی عبادت اور بیان یہ ہوتی ہے: ﴿أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللہَ یَرٰی﴾ (العلق: 14) ”یہ نہ جانا کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے“ اے برادر! اگر محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول تمہاری روح کی شایان نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس بھائی کی باتوں کو جانتا ہے کہ اس کے یہ کلمات دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتے، کیونکہ دونوں جہان بہت مختصر ہیں۔ پس اے بھائی! یہ بات تو واضح ہے کہ سورج کو چراغ سے نہیں پہچانا جاتا جیسا کہ اس فقیر نے کہا ہے کہ "لَا یَعْرِفُ الْحَقَّ إِلَّا الْحَقُّ" یعنی حق کو حق کے سوا کوئی نہیں پہچانتا۔ ''ولی راوی سے شناسد'' اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "عَرَفْتُ رَبِّيْ بِرَبِّيْ" (روح البیان، بلا نسبۃ إلی أحد، رقم الصفحۃ: 65/3، دار الفکر، بیروت) یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے رب سے جانا۔ جو شخص حاملِ عشق نہ ہو وہ اس راستے کا مسافر ہی نہیں۔ عاشق تو عشق کے سہارے پہنچ سکتا ہے اور معشوق کو اپنے عشق کے اندازے کے مطابق دیکھ لیتا ہے، جتنا اور جس حد تک عاشق کے عشق میں زیادہ کمال ہو، اس قدر معشوق کے حسن و جمال میں زیادہ حسن و جمال معائنہ کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پوشیدہ آتا ہے اور پوشیدہ باہر نکل جاتا ہے مگر عاشق و معشوق کو خبر بھی نہیں ہوتی۔

اب یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے عشق کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کو عطا فرمایا گیا ہے اور ایک حصہ ابلیس علیہ اللعنۃ کو دیا گیا ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اپنی قسم مؤمنوں کو بخش دی ہے اور جمال و حُسن کا شور و غوغا اِن میں بھر دیا ہے۔ اور محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ایک راز تھا جو میں نے چھپا کر چھوڑ دیا، اگر لکھا جاتا ہے تو دونوں جہان زیر و زبر ہو جاتے۔ پس اے بھائی! ان سب باتوں کا مقصود اور مطلب یہ ہے کہ عشقِ الٰہی کی تو تقسیم ہو چکی ہے لیکن عشقِ عبودیت اُس نے تمام قبضہ میں کیا ہے کہ ﴿إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرہ: 20) ”بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“ میری بات کو تم سوچ کر جان سکو گے، اِس کو دریافت کرو گے اور پھر اِس کو پا لو گے۔ پس اے بھائی! عشق الٰہی تقسیم ہو چکا ہے، میں اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بیان کرتا ہوں۔ عشق اہلِ جمال کے جمال کو نوازتا ہے اور عشق نے اہل جلال کے جلال کو نوازا، "إِذَا رَأَوُا الْجَلَالَ تَابُوْا وَ إِذَا رَأَوُا الْجَمَالَ ذَابُوْا" یعنی جب جلال کو دیکھتے ہیں تو تائب ہو کر ہمہ تن مائل ہو جائے ہیں اور جب جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو مشاہدۂ جمال سے پگھل جاتے ہیں۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دو مقام جو دو تقسیموں میں بیان کئے گئے ہیں، یہ مقامات ان لوگوں کے لیے ہیں جو متوسط ہمت رکھتے ہوں۔ مگر اے میرے برادرِ عزیز! اعلیٰ ہمت رکھنے والوں کے لیے دین اور مذہب عشق ہوتا ہے، نہ تو وہ جلال کے پابند ہوتے ہیں اور نہ جمال کے، یعنی جو لوگ اُس کے عاشق ہوتے ہیں یا اُس کے معشوق ہوتے ہیں، اُن کے لیے اس کی بقا اور دیدار یا اُس کے لیے اُن کی بقا کے علاوہ کوئی دوسرا دین، مذہب اور ملت نہیں ہوتا۔ پس ایسی حالت میں جو کفر حقیقی ہوتا ہے، وہی ایمان حقیقی ہوتا ہے۔ اے بھائی! اللہ تعالیٰ کا طریقہ زمینوں اور آسمانوں میں نہیں ہے بلکہ عرش اور جنت میں بھی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور راستہ اُس میں ہے کہ فرماتے ہیں: ﴿وَ فِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 21) ”اور خود تمہارے اندر (نشانیاں ہیں) سو کیا تم کو سوجھتا نہیں؟“ یعنی عرش و فرش سب کچھ تم سے پیدا کیا گیا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ تمہارے ظاہر و باطن سے ترکیب پا گیا ہے۔ پس اے بھائی! جب تم حق کو دیکھو گے تو تم جان جاؤ گے کہ تم کتنا بڑا کارخانہ اور نگار خانہ ہو۔ بیت۔

؎ گنجے ست درین خانہ کہ در کون نگنجد

ایں خانہ و ایں خواجہ و این و آں نہاں مست

’’اس گھر میں ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو کائنات میں نہیں سما سکتا۔ یہ گھر، یہ مالک اور یہ سب کچھ اس میں پوشیدہ ہے‘‘۔ ؎

فی الجملہ ہر آنکس کہ دریں خانہ رہے یافت

سلطان زمین است و سلیمان جہاں مست

’’حاصل کلام یہ کہ جو کوئی اس گھر میں راہ پائے گا تو وہ زمین کا بادشاہ اور جہاں بھر کا سلیمان ہے‘‘۔

اور ہمارے حضرت صاحب طریق عشق اور اسرار و رموز انسانی کے بارے میں مکمل معلومات اور علم رکھتے تھے۔ سمجھنے والے اس بات کو سمجھتے ہیں: "اَلْعِشْقُ ھُوَ الطَّرِیْقُ وَ الرُّؤْیَۃُ ھُوَ الْجَنَّۃُ وَ الْفِرَاقُ ھُوَ النَّارُ وَ الْعَذَابُ" کہ راستہ اور طریقہ تو بس عشق کا طریقہ ہے، رؤیت اور دیدار جنت ہے اور فراق و جدائی کو دوزخ اور عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ بیت

؎ ہر آں نقشے کہ بر صحرا نہادم

تو زیبا بین کہ من زیبا نہادم

’’جو نقش و نگار میں نے صحرا میں بنا رکھا تو اس کو اچھا دیکھ کہ میں نے اُسے خوبصورت بنایا ہے‘‘۔

حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ سے حکایتًا بیان کیا گیا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفُ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے ارادہ کر کے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ یعنی حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے غیب الغیب کے پردوں میں پردہ نشین اور مستور تھے، اور اپنے جمال سے جلال کا پردہ ابھی تک نہیں ہٹایا تھا۔ اپنے نورِ محبت کا نقش جمیل جو کہ نورِ محمدی سے تعبیر ہے، اس نقش کو اپنے نورِ احدیت سے وجود میں لائے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے کمال فصاحت و بلاغت سے خاص و عام کے سامنے اپنی اس خلعت خاص کا ذکر اِن الفاظ میں فرمایا کہ "أَنَا مِنْ نُّوْرِ اللہِ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنْ فَیْضِ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 56/9، دار الفکر، بیروت) یعنی میں اللہ تعالیٰ کے نور سے پیدا کیا گیا ہوں اور مؤمن میرے نور کے فیض سے تخلیق کئے گئے ہیں۔ دوسری بات اللہ تعالیٰ قدیم کے دربار میں اپنی قدامت کا ذکرِ خیر ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دار الفکر، بیروت) یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ اے میرے پیارے بھائی! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے ابیات کہے ہیں، ابیات:

؎ خواجہ را گر شرح گویم بیش بود

در ہمہ چیزاں ہمہ در پیش بود

ہر دو گیتی از وجودش نام یافت

عرش نیز از نام او آرام یافت

ہم چو شبنم آمد از بحر وجود

خلق عالم از طفیلش در وجود

نور او مقصود موجودات بود

حق چو دید آن نور مطلق در وجود

آفرید از بہر او بحر وجود

بر خویش آں پاک جان را آفرید

بر او خلق جہاں را آفرید

بعد بر آں نور عالی زد علم

گشتِ عرش و کرسی و لوح و قلم

یک علم از نور پاکش عالم ست

یک علم در نیستی عالم ست

’’اگر میں خواجہ (کونین ﷺ) کے حالات کی شرح بیان کروں تو وہ سب سے پہلے تھا اور تمام کائنات میں سے وہ مقدم تھا، دونوں جہانوں نے اس کے وجود اقدس سے نام پایا اور اس کے مبارک نام کی وجہ سے عرش بریں کو آرام و سکون ہوا، بحر وجود سے شبنم کی طرح نمودار ہوا، اور دنیا کی مخلوق نے اسی کے طفیل سے وجود پایا۔ اس کا نور موجودات کا مقصد تھا، حق نے وہ نور مطلق وجود میں دیکھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بحر و بر وجود کی تخلیق فرمائی، اس روح پاک کو جان آفرین نے اپنے لیے پیدا کیا اور پھر اس کے لیے سارا جہان پیدا کیا، جب اس نور عالی کی خلعت فرمائی گئی تو پھر عرش و کرسی اور لوح و قلم پیدا کئے گئے، ساری دنیا اُس کے نور پاک کی وجہ سے موجود ہے اگر آپ نہ ہوتے تو عالم کچھ بھی نہ ہوتا‘‘۔

پس اے محبوب! کونین کا مقصود آں جناب ﷺ کا وجودِ مسعود ہے اور موحدین کا ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاند جیسے چہرۂ انور سے ہے۔ اس بات کی مثال جناب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث مبارک ہے: "عَنْ أَبِيْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ! أَیْنَ إِیْمَانُنَا؟ فَقَالَ: "بِمُشَاھَدَۃِ وَجْھِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے جناب سرورِ عالم ﷺ سے پوچھا کہ ہمارا ایمان کہاں (ہوتا ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے واپسی جوابًا ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان میرے چہرے کو دیکھنے سے ہے“ اور تمام کافروں کا کفر آپ ﷺ کے کالے گیسوؤں سے ہے۔ ﴿وَ اللَّیْلِ إِذَا یَغْشٰی وَ النَّھَارِ إِذَا تَجَلّٰی﴾ (اللیل: 1) ”قسم رات کی جب چھا جائے اور دن کی جب روشن ہو“ اس معنیٰ کا سِر اور رمز ہے: ﴿وَ ھُوَ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ وَّ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (التغابن: 2) ”وہی ہے جس نے تم کو بنایا، پھر کوئی تم میں منکر ہے اور کوئی تم میں ایماندار، اور اللہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو، دیکھتا ہے“۔ اور اہل اللہ کا گوہر جو کہ موجودات کا مصدر ہے، ارادت اور محبت کی کیمیا گری کے کام میں اِس بات کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں جو کہ ابھی ابھی اوپر ذکر ہوئی۔ اور یہ بات بھی محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے کہ عربی زبان میں خلقت تین معنوں میں آتا ہے: ایک کا معنیٰ ہے پیدا کرنا، وجود میں لانا، آفرینش۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الۡأَرۡضِ جَمِیعࣰا…﴾ (البقرۃ: 29) ”وہ اللہ جس نے تمہارے واسطے پیدا کیا جو کچھ کہ زمین میں ہے سب کا سب“ دوسرا تقدیر کے معنیٰ میں ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ﴿وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ: 284) ”اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“ تیسرا معنیٰ ظہور ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکایتًا بیان کیا گیا ہے: "إِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ، باب: النہی عن ضرب الوجہ، رقم الحدیث: 2612) کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے ظہور اور وجود میں لانا مراد ہے۔ اور نورِ احمد ﷺ کی نور احدیت سے خلقت ہوئی ہے۔ اور جناب شیخ محی الدین نے اپنے رسالے "مخصوص" میں لکھا ہے کہ احمد ﷺ کا نور عدم سے پیدا ہوا ہے۔ محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "واللہ اگر یہ شخص زندہ ہوتا تو اس کو کہا جاتا کہ احمد ﷺ کے نور کو عدم سے کیا نسبت ہے؟ اور مؤمنوں کا نور بھی عدم سے تعلق نہیں رکھتا، کیونکہ آپ کا نور محض وجود ہے پس وجودِ قدیم کو عدم سے نسبت دینا موزوں نہیں، پس نور احمدی اور مؤمنوں کے نور کو عدم سے کوئی نسبت نہیں"۔ اور انہی محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ سال سات سو اٹھاون (758ھ) میں انتیس جمادی الأولی کو میں حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ایک کشتی میں دریائے فرات میں ہم سفر تھا اور خضرعلیہ السلام کے ساتھ نور کے بارے میں بات چل رہی تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ "خَلَقَ اللہُ تَعَالٰی نُوْرَ مُحَمَّدٍ مِّنْ نُّوْرِہٖ وَ صَدَّرَہٗ عَلٰی یَدِہٖ وَ یَبْقٰی ذَالِکَ النُّوْرُ بَیْنَ یَدَيِ اللہِ مِائَۃَ أَلْفِ عَامٍ فَکَانَ یُلَاحِظُہٗ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ سَبْعِیْنَ أَلْفَ لَحْظَۃٍ وَّ نَظْرَۃٍ وَّ یَکْسُوْہُ فِيْ کُلِّ نَظْرَۃٍ نُّوْرًا جَدِیْدًا وَّ کَرَامَۃً جَدِیْدَۃً ثُمَّ خَلَقَ مِنْھَا الْمَوْجُوْدَاتِ کُلَّھَا" کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کا نور تخلیق فرمایا اپنے نور سے، اور اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور یہ نور اللہ تعالیٰ کے پاس ایک لاکھ سال تک موجود رہا اور اللہ تعالیٰ ہر دن اور ہر رات میں ستر ہزار مرتبہ اسی پر نگاہ ڈالتا تھا اور ہر نگاہ پر اس کو ایک جدید نور کا لباس پہناتا تھا اور نئی عزت افزائی کرتا پھر اس سے ساری موجودات کی تخلیق فرمائی۔ اور محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ناسمجھوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ موجودات اور مخلوقات کو عدم سے پیدا کیا گیا ہے، یہ معنیٰ کبھی بھی درست نہیں کہے جا سکتے، کیونکہ ہم معدوم کو جانتے ہیں کہ معدوم اس چیز کو کہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں، اور جس چیز کا وجود ممکنات سے ہو اس کو معدوم نہیں کہنا چاہیے۔ جو کچھ کہ ممکن الوجود تھا وہ خلقت کا لباس پہن چکا۔ آفتاب یعنی سورج کی روشنی میں اشیاء ظاہرًا دیکھی جا سکتی ہیں، مگر رات کے اندھیرے میں اگر کوئی یہ کہے کہ ان اشیاء کی موجودگی نہیں تو یہ جائز بات نہیں ہے۔ ان کا وجود تو موجود ہوتا ہے مگر رات کے گھپ اندھیرے میں دکھائی نہیں دیتا۔ جس وقت سورج اپنے نور سے اس کو ظاہر کرے تو معلوم ہوا کہ عدم کوئی چیز نہیں۔ بیت۔

؎ گم شدم در خود نمے دانم کجا پیدا شدم

شبنمے بودم ز دریا غرقۂ دریا شدم

’’میں اپنے آپ میں گم ہو گیا میں نہیں جانتا کہ میں کہاں پیدا ہوا، میں دریا سے اُٹھ کر شبنم تھا اور شبنم کی طرح پھر دریا میں غرق ہو گیا‘‘۔

؎ سایۂ بودم ز ازل در زمین افتادہ خوار

راست کان خورشید پیدا گشت نا پیدا شودم

’’میں پہلے سایہ تھا اور زمین پر بے وقت پڑا تھا جب وہ سورج نمودار ہوا تو میں ناپید ہو گیا۔

حاصل کلام یہ کہ تمام مخلوقات تاریکی میں موجود تھیں، اور قدامت کی خلعت میں ملبوس تھیں، جب نورِ احمدیت نے طلوعِ وجود کا ارادہ فرمایا تو زمینوں اور آسمانوں کی موجودات نے ظہور کیا۔ اس موقع پر علماء ظاہر اس بات کو رد کرتے ہیں کہ یہ معنیٰ اگر لیے جائیں تو یہ معنیٰ موجودات کی قدامت پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات کہنا جائز نہیں کیونکہ تمام مخلوقات حادث ہیں۔ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کا نکتہ جو اس کے جواب میں ہے وہ یہ ہے کہ روز اول سے بلکہ روز اول سے پہلے موجودات موجود تھیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "مَوْجُوْدَاتِيْ قَبْلَ الْأَزَلِ مَوْجُوْدَۃٌ بِالْمَوْجُوْدِ وَ بَعْدَ الْأَزَلِ بِالْحَدَثِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”میری موجودات ازل سے قبل موجود کی حیثیت سے موجود تھیں اور ازل کے بعد نئی تخلیق کی حیثیت سے موجود ہیں“ بیت ؎

پیش ازاں روز کہ یاد مئی و می خانہ نہ بود

جان ما سوئے خرابات کرد سجود

’’اس دِن سے جب کہ شراب اور شراب خانے کی یاد تک نہ تھی ہماری روح شراب خانے کی جانب سجدے کر رہی تھی‘‘۔

یعنی ازل سے پہلے جان سجدے کر رہی تھی اگر ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمَوٰتِ وَ الْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) ”اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے“ نہ ہوتا تو کائنات کے ذروں کا وجود بھی نہ ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اور کوئی بھی اس کا فہم و ادراک نہیں رکھتا کہ ﴿وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِيْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ…﴾ (الأعراف: 172) ”اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد کو“ اور جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلُمَاتٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِّنْ نُّوْرِہٖ" (العواصم من القواصم بمعناہ، رقم الصفحۃ: 21، مکتبۃ دار التراث، مصر) کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت (تاریکی اندھیرے) میں پیدا کیا پھر اُس پر اپنے نور سے چھڑکاؤ کیا۔ اس کے بعد یہی معنیٰ ہے یعنی مخلوقات کا وجود تاریکی میں چھپا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو نور الوہیت سے نزدیک کیا تو ان کا وجد بھی نور ہو گیا اور ظاہر ہوا۔ پس ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ یعنی آسمانوں اور زمینوں کی مخلوق اس کے نور سے ہے، اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا مصدر ہے یعنی اس کی ذات تمام موجودات کا سرمایہ اور مصدر ہے۔ یعنی "نُوْرُ اللہِ وَ نُوْرُہٗ مَصْدَرُ الْأَنْوَارِ" کہ اللہ تعالیٰ کا نور اور اُس کا نور انوار کا مصدر ہے۔ پس منصور کے ساتھ کیا اور کس قسم کا واقعہ پیش ہوا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہوبہو ایسا تھا کہ ایک سانپ راستے پر چلا گیا، پس نادان اور بے سمجھ لوگ سانپ کی اس لکیر کو سانپ کہتے ہیں اور اس کو مارتے اور جلاتے ہیں، حالانکہ یہ سانپ نہیں، بلکہ سانپ کے جانے کا نقش ہے یعنی لکیر ہے۔ پس یہ ”سُبْحَانِيْ“ اور ”أَنَا الْحَقُّ“ کہنا ان کا کام نہ تھا اور ان کا کام کیسے ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ لوگ جب اس دائرے میں استغراقِ روح کرتے ہیں تو یہ بھی ذات کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں تو یہ کچھ انہوں نے کہا ہے ”اُس“ سے کہا ہے، یہاں تک کہ یہ لوگ ”وہ“ ہو گئے۔ اور ایسا کہنا اور اس طرح کہنے کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جو کہ ”وہ“ ہو جاتے ہیں، اس بات کو سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے ایک صریح لطیف بات کے طور پر فرمایا ہے کہ "مَنْ رَّاٰنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی جس نے مجھے دیکھا تو تحقیق کہ اس نے میرے رب کو دیکھا۔ یہ تو تمام صفات سے موسوم ہو گیا کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ آَدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ، باب: النہی عن ضرب الوجہ، رقم الحدیث: 2612) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس ذکر شدہ صفت کے بارے میں مختلف باتیں ہیں اور جناب رسول اللہ ﷺ نے اس کی جانب اشارہ بھی فرمایا ہے کہ "إِنَّ الْحَقَّ یَنْطِقُ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ" (المعجم الأوسط للطبرانی بتغییر قلیل، رقم الحدیث: 3330) یعنی حق (اللہ) عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر بولتا ہے۔

(نوٹ: یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ سچی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان کلام کرتی ہے۔) اور یہ بات دُرست ثابت ہوئی۔ بیت ؎

ہاتفی اے حریم خاص الخاص

ہر کہ او از بندگی خواہد خلاص

محو گردد عقل تکلیفش بہم

ترک آں ایں ہر دو بس درندِ قدم

گفت یا رب من ترا خواہم مدام

عقل و تکلیفم نہ شاید و السّلام

بی صفت گشتم و گشتم بے جہت

عارفم اما ندارم معرفت

گر تو می بینی کسے را آں زمان

نیستم من ہست آن شاہ جہان

می ندانم تو منی یا من توئی

محو گشتم در تو و گم شد دوئی

گفتم اکنوں مے ندانم کیستم

بندہ بارے نیستم پس چیستم

’’خاص الخاص حریم سے یہ ندا آئی کہ جو کوئی بندگی سے رہائی چاہتا ہے تو اس کی عقل اور تکلیف (مکلف ہونا) دونوں محو ہو جاتے ہیں، ہر دونوں (یعنی عقل و تکلیف) کو چھوڑ کر اُن پر پاؤں رکھو، ایسا شخص کہتا ہے کہ اے خدا میں آپ ہی کو چاہتا ہوں، مجھے عقل اور تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں۔ میری کوئی صفت نہیں کہ مجھے اس سے پہچانا جائے اور میری کوئی سمت نہیں جہاں مجھے تلاش کیا جائے، میں ایک ایسا عارف ہوں جو کہ معرفت نہیں جانتا۔ اگر تو میری صورت میں کسی کو دیکھ پائے تو یاد رکھو کہ وہ میں نہیں ہوں بلکہ وہ جہان کا بادشاہ ہے اب مجھے یہ شعور تک نہیں کہ ”تو“ ”میں“ یا ”میں“ ”تم“ ہوں۔ میں تم میں کلیتًا محو ہو گیا اور دوئی درمیان سے اُٹھ کر محو ہو گئی، اس حالت کے پہنچنے پر میں نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ ہاں اگر میں بندہ نہیں ہوں تو پھر میں کیا چیز ہوں۔

دیگر اشعار

؎ از شراب شوقِ گشتم مست او

مستی ما گم اندر ہست او

بود ما در بود او نابود شد

ہر چہ در غیرش بداں مردود شد

چوں مجرد گشتم از مستی تمام

نے وجود ماندا اینجا و نہ نام

زاں شدم پرواز سوئے لا مکان

دیدم آنجا عیشہا و بس عیان

خویش را دیدم ہمہ نابود خویش

یا فتم سر رشتۂ مقصود خویش

چوں شدہ فانی محمد از وجود

غیر او دیدی کہ دیگر کس نہ بود

ترجمہ:۔ میں شوق و محبت کی شراب کے پینے کی وجہ سے اُس کا والہ و شیدا اور مست ہو گیا اور ہستی میں میری مستی گم ہو گئی۔ ہمارا ہونا (وجود) اُس کے (ہونے) وجود میں گم اور ناپید ہو گیا۔ اور جو کچھ اس کے سوا تھا وہ سب رد ہوا۔ اور جب میں مستی میں سے بالکل مجرد ہوا، تو نہ میرا وجود باقی رہا اور نہ نام و نشان اور اسی وجہ سے میں نے لامکان کی طرف پرواز کی۔ وہاں میں نے ظاہر و عیاں طور پر عیش دیکھے، میں نے اپنے کو بالکل نابود اور محو دیکھا اور اسی وجہ سے میں نے اپنا مقصود پایا۔ جب محمد رسول اللہ ﷺ اپنے وجود سے فانی ہو گیا تو پھر تم نے دیکھا کہ اور کوئی بھی نہ تھا

اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے بطور رمز فرمایا ہے: "مَنْ رَّاٰنِيْ فَقَدْ رَأَی الْحَقَّ" (الصحیح للبخاری، کتاب التعبیر، باب: من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام، رقم الحدیث: 6996) کہ جس نے مجھے دیکھا تو اس نے حق دیکھا۔ پس حدیث اور قرآن کریم کی اس آیت کہ ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ...﴾ (النساء: 85) یعنی جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تو تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور اللہ جل جلالہٗ کی محبت والوں کے لیے اسی میں ایک رمز ہے اور یہ اس حقیقت کی جانب بھی ایک اشارہ ہے کہ "وَ الشَّوْقُ إِلٰی لِقَاءِ إِخْوَانِيْ" یعنی بھائیوں کی ملاقات کے لیے شوق ہے۔ اور بھائی کون ہیں اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ "اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ" (الصحیح للبخاری، کتاب المظالم و الغصب، باب: لا یظلم المسلم المسلم و یسلمہ، رقم الحدیث: 2442) یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اور محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم خود کو نور (روشنی) میں دیکھتے ہیں کہ "اَلْمُؤْمِنُ مِرْاٰۃُ الْمُؤْمِنِ" (سنن أبی داوٗد، کتاب الأدب، باب: في النصیحۃ و الحیاطۃ، رقم الحدیث: 4918) ”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے“ اور اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو ہم میں مشاہدہ کرتا ہے۔ پس اے محبوب! وہ عبودیت کی وجہ سے مؤمن ہے اور ہم ربوبیت کے مؤمن ہیں۔ پس ہم اور وہ جل شانہٗ دونوں مؤمن ہیں۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کی باتوں کی طلمساتی زبان کو سمجھ پاؤ تو چاہیے کہ اس مقام تک رسائی حاصل کرو کہ نہ تو مسلمان ہو اور نہ کافر۔ اور یہ کہ سلامتی اور اہل سلامت سے بالکل جدا ہو کر "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ" (المقاصد الحسنہ، رقم الحدیث: 926) ”میرا اللہ کے ہاں ایک وقت ہے کہ جس میں نہ کسی پیغمبر کی گنجائش ہے اور نہ کسی مقرب فرشتے کی“ کے مقام عالی میں مقیم ہو کر رہو۔ پس اے محبوب! اللہ تعالیٰ کے محبوبوں کی جماعت اپنے محبوب کو خود اپنے آپ میں تلاش کرتی ہے۔ پس وہ لازمًا اس کو خود اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور عاشق و سالک لوگ اللہ تعالیٰ کو اسی کے ذریعے تلاش کرتے ہیں تو لازمی طور پر اُس کو اسی میں پاتے ہیں اور اسی سے دیکھتے ہیں، جیسا کہ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "رَأَیْتُ رَبِّيْ بِرَبِّيْ" یعنی میں نے اپنے رب کو رب کے ذریعے دیکھا۔ اور انجیل کا قول ہے کہ "لَا یَدْخُلُ مَلَکُوْتَ السَّمَاءِ مَنْ لَّا یُوْلَدُ مَرَّتَیْنِ" یعنی آسمانوں کے عالم ملکوت میں وہ شخص داخل نہیں ہو سکتا جس کی دو دفعہ ولادت نہ ہوئی ہو۔ یعنی یہ کہا کہ جب تک تمہاری ولادت نہ ہو جائے تو اس مقام عالی تک نہیں پہنچ سکتے۔ یعنی جب تمہاری ولادت اپنی ماں سے ہو جائے تو اس مقام عالی تک نہیں پہنچ سکتے، یعنی جب تمہاری ولادت اپنی ماں سے ہو جائے تو تم یہ جہاں اور اپنے آپ کو دیکھ پاؤ گے اور جب اپنے آپ سے جنم حاصل کرو گے تو اپنے آپ اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ لو گے۔ اور اللہ رب العزت نے کس قدر لطیف اشارہ اور خبر عطا فرمائی ہے: ﴿رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَ أَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ...﴾ (المؤمن: 11) ”اے رب ہمارے! تو موت دے چکا ہمیں دو بار اور زندگی دے چکا ہمیں دو بار“ پس اے میرے محبوب! جسم و قالب کی اس موت کے علاوہ ایک دوسری موت بھی جان لے اور جسم و قالب کی اس زندگی کے سوا ایک دوسری زندگی بھی جان و مان لے۔ دوسرا اگر تم چاہتے ہو کہ معنوی زندگی اور موت کیا ہیں تو معلمِ انسانیت جناب محمد ﷺ کے ارشادات گرامی کی طرف کان لگا کر سنو کہ اپنی دُعا میں ارشاد فرماتے ہیں: "اَللّٰھُمَّ بِکَ أَحْیٰی وَ بِکَ أَمُوْتُ" (الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب: ما یقول إذا نام، رقم الحدیث: 6312) اے میرے اللہ میں تجھ ہی سے جیتا ہوں اور تجھ ہی سے مرتا ہوں“ یعنی تم سے زندہ ہوں اور تم سے مرتا ہوں۔ پس اس سے مرنا اور جینا کیسا اور کس طرح ہوتا ہے، یہ حالات عاشقوں کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں جانتا۔ یہ بات صرف وہ لوگ جانتے ہیں کہ معشوقوں کے بغیر زندگی کیسے ہوتی ہے، جدائی اور فراق موت ہوا کرتے ہیں اور زندگی وصال و قرب کا نام ہے۔ "لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ" ( الصحیح لابن حبان، کتاب التاریخ، باب: بدء الخلق، رقم الحدیث: 6213) ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ؟“۔ اور مولانا محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے بحر المعانی میں تحریر فرمایا ہے کہ شاہدانِ نبوت درجات میں شاہدانِ ولایت سے افضل ہیں، اور اس پر تمام مشائخ کرام رحمہھم اللہ کا اتفاق ہے لیکن رسولِ اکرم ﷺ کی امت مرحومہ میں سے بعض اولیاء جو کہ رسالت مآب کے مقام قربت میں ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے انبیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس فریق عالی کے بارے میں زبان رسالت یہ اشارہ فرما چکی ہے کہ "إِنَّ رَجُلًا مِّنْ اُمَّتِيْ فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ رَأَیْتُہٗ فِيْ مَقَامِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی میری امت میں سے ایک شخص معراج کی رات کو میرے مقام پر تھے۔ اس سے اولیاء کی قربت اور نزدیکی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور ان کے مدارجِ عالیہ معلوم ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی رؤیت اور دیدار کے درجاتِ علیا جو رسول اکرم ﷺ کو حاصل ہیں، وہ کسی پیغمبر کو بھی حاصل نہیں۔ اور اس بارے میں وہ لطیف رمز بھی دیکھیے کہ فرما گئے ہیں: "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِيْ فِیْہِ مَلَکٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مَّرْسَلٌ" (المقاصد الحسنہ، رقم الحدیث: 926) کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے لمحات حاصل اور میسر ہیں کہ اُن میں کسی مقرب فرشتے یا کسی نبی مرسل کی گنجائش نہیں۔ ان ارشادات گرامی کے وقت "لَا نَبِيٌّ" تو فرما گئے۔ مگر "لَا وَلِيٌّ" نہیں فرمایا، کیونکہ ان کے لیے ہر لحظہ مشاہدے کے (جو کہ ان کا رب العزت سے کلام ہوتا ہے) جدا جدا مقامات ہوتے ہیں، اور اسی مفہوم کے ادا کرنے کے سلسلے میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے اظہار فرمایا ہے اور اپنے رسالہ میں تحریر فرمایا ہے کہ "یَرَاہُ الْمُؤْمِنُوْنَ فِي الْآخِرَۃِ کَمَا یَرَاہُ الْأَنْبِیَاءُ فِي الدُّنْیَا وَ یَرَاہُ الْأَنْبِیَاءُ فِي الْآخِرَۃِ کَمَا یَرَاہُ النَّبِيُّ ﷺ فِي الدُّنْیَا وَ ھُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِيْ لَا یَشْتَرِکُ فِیْہِ لَہٗ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ وَ الرُّسُلِ وَ الْأَوْلِیَاءِ" ”اللہ تعالیٰ کو آخرت میں مؤمن لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسا کہ دنیا میں رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھا کرتے تھے اور وہ مقام محمود ہے جس میں آپ ﷺ کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں، نہ تو نبی نہ رسول اور نہ کوئی ولی“ ۔

پس اے میرے پیارے! جب اللہ تعالیٰ کی قربت بعض اولیاء اللہ کو حاصل ہو جائے تو اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ قربت میں کس قدر تخصیص ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمنا کو معلوم کر کے خیال میں لاؤ کہ یہ بات کسی دوسرے کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ اور جو کچھ سلف صالحین نے معلوم کیا ہے وہ اس کی کیفیت تاڑ گئے ہیں اور بانجھ عقل سے یہ راز پوشیدہ ہیں۔ "إِعْلَمْ أَنَّ تِلْکَ الْوِلَایَۃَ مَخْصُوْصَۃٌ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَ بِمُحَمِّدٍ النَّبِيِّ وَ لِھٰذَا قَالَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ یَا لَیْتَنِيْ کُنْتُ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ قَالَ وَ اللہِ لِأَنَّھَا لَا یَحْصُلُ لِيْ إِلّا بِمُتَابَعَتِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کمَاَ قَالَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ: أَنَّ نُزُوْلَ عِیْسٰی عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ السَّمَاءِ الرَّابِعَۃِ إِلَی الْأَرْضِ لِأَجْلِ تِلْکَ الْوِلَایَۃِ الَّتِیْ ھِيَ مُعَایَنَۃُ الْحَقِّ بِمُتَابَعَۃِ النَّبِيِّ کَمَا قَالَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ" ”یہ بات خوب جان لو کہ یہ ولایت خاص محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ کاش محمد رسول اللہ ﷺ کی امت مرحومہ سے ہوتا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ خدا کی قسم یہ درجۂ ولایت مجھے محمد رسول اللہ ﷺ کے متابعت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چوتھے آسمان سے زمین پر تشریف آوری اسی ولایت کے حصول کی خاطر ہے جو کہ معائنہ حق اور متابعت نبی ﷺ کی برکت سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تمنا کی کہ اے اللہ! مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے بنا“۔ پس یہ سب کچھ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ولایت کے لیے ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ "اَلْوِلَایَۃُ مِنِّيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی ولایت مجھ سے ہے۔ اے میرے پیارے! تم کبھی یہ گمان نہ کرنا کہ میں اولیاء کو انبیاء پر افضل کر رہا ہوں، ایسا نہیں ہے، لیکن قربت مشاہدہ میں یہ ایک خاص مقام پر دیکھے جاتے ہیں اور اسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اطلاع فرمائی ہے کہ "رَاٰھُمُ اللہُ فِيْ مَقَامِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث)1؎۔ کہ اِن کو اللہ تعالیٰ نے میرے مقام پر دیکھا اور یہ بھی فرمایا کہ "اَلْوِلَایَۃُ مِنِّيْ"۔

(1؎ : گذشتہ صفحہ میں "رَأَیْتُھُمْ فِيْ مَقَامِيْ" اور یہاں اسی حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ "رَاٰھُمُ اللہُ فِيْ مَقَامِيْ" مفہوم اور مطلب میں بہت فرق پڑ جاتا ہے۔ اصل حدیث کا پتہ نہیں چلتا، کیونکہ کتاب میں کہیں بھی کسی حدیث کا حوالہ نہیں۔ واللہ اعلم)

شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوب میں فرمایا ہے کہ عشق کے سلسلے میں عاشق کا کمال اس میں ہے کہ معشوق کو بھلا بیٹھے، کیونکہ عاشق کی زندگی تو عشق کے ساتھ اور عشق کی طفیل ہے، نہ کہ معشوق کی وجہ سے۔ خدا کی قسم! اگر موسیٰ علیہ السلام اس معنیٰ سے آگاہ ہوتے تو کبھی بھی "رَبِّ أَرِنِيْ..." (الأعراف: 143) ”اے میرے رب! مجھے اپنے آپ کو دکھا دے“ نہ کہتے۔ اور اس بات کی اطلاع رسول اللہ ﷺ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کے چند جرعہ نوش ارادت مندوں کے سوا کسی کو نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِيْ فِیْہِ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" (المقاصد الحسنہ، رقم الحدیث: 926) یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص وقت حاصل ہے کہ اس میں کسی مقرب فرشتے اور کسی نبی مرسل کی بھی کوئی راہ یا گنجائش نہیں اور پھر یہ فرمایا کہ "إِنِّيْ عَرَفْتُ رِجَالًا فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ مَنْزِلَتُھُمْ مَّنْزِلَتِيْ مِنْ عِنْدِ اللہِ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی میں نے شب معراج ایسے آدمیوں کو پہچانا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی منزلت میرے برابر تھی۔ آپ ﷺ اس بارے میں ایسی وضاحت فرما چکے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! پورے غور و فکر سے کام لو کہ مقام ولایت کتنا بلند اور ارفع مقام ہے، لیکن مطلق فضیلت اہل نبوت کے لیے ہے۔ مطلب یہ کہ نبوت کی یہ فضیلت اُس وقت ہے کہ نبوت اور ولایت دو شخصوں میں جمع ہو، لیکن جب نبوت اور ولایت ایک ذات میں جمع ہوں تو تمام مشائخ کے نزدیک ولایت نبوت سے افضل ہے، اور اسی وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ "اَلْوِلَایَۃُ أَفْضَلُ مِنَ النُّبُوَّۃِ لِأَنَّ الْوِلَایَۃَ عِنْدَھُمْ عِبَارَۃٌ عَنْ شُھُوْدِ الْحَقِّ وَ النُّبُوَّۃُ عِبَارَۃٌ عَنْ دَعْوَۃِ الْحَقِّ إِلَی الْخَلْقِ" یعنی ولایت نبوت سے افضل ہے کیونکہ ان کے نزدیک ولایت سے مراد شہودِ حق ہے اور نبوت مخلوق کو خالق کی طرف دعوت دینے کو کہا جاتا ہے۔ پس اے محبوب! اللہ تعالیٰ کے عاشق متنوع اور مختلف قسم کے ہوتے ہیں، ان میں سے بعض کی اساس حقیقت پر ہوتی ہے اور وہ کائنات کو اس کے تمام لذائذ کے ساتھ ٹھوکر مارتے ہیں، اس کو رد کرتے ہیں اور اس سے محبت کفر سمجھتے ہیں۔ پس ان کا دل مفتی ہے اور اس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا یہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا: "کُلُّ مُجْتَھِدٍ مُّصِیْبٌ، قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللہِ مَا الْاِجْتِھَادُ؟ قَالَ: "اَلْاِجْتِھَادُ رَأْیُ الْقَلْبِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”ہر مجتھد اصابتِ رائے کا مالک ہوتا ہے، لوگوں نے پوچھا کہ اے رسول اللہ ﷺ الاجتھاد کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الاجتھاد دل کی رائے کو کہتے ہیں“۔ لیکن اے پیارے! یہ بات ضروری ہے کہ دل کو چاہیے کہ وہ روح کی طرح ہو جائے، نہ کہ دل نفسِ امارہ بن جائے پھر تو نفس کی مخالفت کرنا ایک فریضہ ہے۔ اللہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نصیحتًا فرمایا کہ "تَقَرَّبْ إِلَيَّ بِعَدَاوَۃِ نَفْسِکَ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”اپنے نفس کی مخالفت کر کے میرا تقرب اور نزدیک حاصل کرو“ یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرنا اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے۔ بیت:

؎ وسوسۂ تن گذشت غلغلۂ جان رسید

مور فروشد بگور خیز سلیمان رسید

چند مخنث نژاد دعویٰ وحدت کنند

جان خدا خوان بمرد جان خدا دان رسید

دزد کہ باشد برفت شحنۂ ایمان رسید

شحنۂ کہ باشد بگو چون شہ و سلطان رسید

’’جسم و تن کے خیال و فکر اور وسوسہ کا وقت گذر گیا، اب روح کے جوش و خروش اور غلغلے کا وقت آن پہنچا۔ چیونٹی قبر میں اندر گھس گئی، اُٹھ جائیے کہ سلیمان آن پہنچے۔ چند ہیجڑے اور مخنث لوگ وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خدا خدا کرنے والا تو مر گیا اب خدا کو پہچاننے والا آں پہنچا۔ چور کی کیا حیثیت ہے اب تو ایمان کا کوتوال آن حاضر ہوا ہے، کوتوال ہی کیا ہے اعلان کیجیے کہ بادشاہ اور سطان آن پہنچا ہے‘‘۔

علمائے ظاہر نے یہ سمجھا ہے کہ علم بس یہی ہے جو ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے فرمایا ہے، وہ زمانے بھر کے سب سے بڑے ناسمجھ ہیں، کیونکہ ؎

عشق را بو حنیفہ درس نہ گفت

شافعی را درو روایت نیست

حنبل از سیر عشق بے خبر ست

مالک را درو روایت نیست

’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عشق کا درس نہ دیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت نہیں کی۔ امام حنبل رحمۃ اللہ علیہ عشق کے رُموز و اسرار سے آگاہ نہیں اور امام مالک نے رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کوئی روایت نہیں کی‘‘۔

حضرت صاحب (شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ) معرفتِ حق کا ایک آئینہ تھے اور لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ارادت کو پیر کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے وہ یہی بات کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کو مصطفیٰ ﷺ کی جان پاک سے حاصل کیا اور اسی مفہوم کے ذریعے اوامر و نواہی کی معرفت اُن کے دل مبارک پر القا ہوئی۔ پس رسول پاک ﷺ کی روح مبارک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے ایک آئینہ تھی جس میں اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ یہی معنیٰ اس بات سے لازم ہوتا ہے کہ کہا جائے کہ خدا پیر کی جان میں ہے۔ "تَعَالَی اللہُ عَنْ ذَالِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا" اے بھائی! اگر کوئی کہے کہ میں نے خود اپنے آپ کو دیکھا تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ آئینہ کے درمیان ہو۔ یہاں یہ بھی لازم ہے کہ صانع اپنی صنعت میں ہو لیکن صانع کے بغیر صنعت کا موجود ہونا بھی محال ہے۔ جو کوئی صنعت پر نظر رکھے تو وہ جانتا ہے کہ اس صنعت کا صانع ضرور ہے یہ جاننا صانع کو صنعت میں دیکھنے سے ہوتا ہے چنانچہ کہا گیا ہے ؎

در ہر چہ نگہ کنم ترا مے بینم

’’جس چیز پر بھی نظر ڈالتا ہوں تو میں تجھے دیکھتا ہوں‘‘۔

اس طرح پیر کی روح میں خدا کا دیکھنا معمول کی بات ہے۔ اور ہمارے شیخ صاحب کا دیگر قابل عزت مقام عبودیت کی حدود کا مراقبہ ہے کہ اس کے ذریعے ربوبیت کے حقوق کی حفاظت فرماتے تھے اگر کوئی سالک اپنے دل میں یہ بات لائے کہ تمام دنیا میں مجھ سے زیادہ بُرا کوئی نہیں تو اُس کو متکبر اور مغرور کہتے ہیں، کیونکہ حقیقت میں یہ سب کچھ ایک دعویٰ ہے۔ سبحان اللہ! وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسکین اور بے چارہ کہتے ہیں، وہ بھی سزا سے بچ نہیں سکتے، تو رہا وہ طبقہ جو کہ نخوت، غرور اور فخر کا دعویٰ کرتے ہیں تو اندازہ کیجیے کہ اُن کا کیا حال ہوگا؟ مسیح قدمان فرماتے ہیں کہ اگر تُو مسجد میں گوشہ نشین ہو جائے تو حق کے ساتھ ہوگا اور اگر باغ میں بیٹھ جائے تو اس کے حق کے ساتھ ہوگے اور اگر گرجے میں بیٹھ جاؤ تو اس شخص سے بہتر ہو جو کہ مسجد میں بیٹھا ہو مگر اس کے ساتھ نہ ہو (یعنی دل کہیں اور ہو)۔ اور علماء فرماتے ہیں کہ خدا کا راستہ بھی عجیب راستہ ہے کہ وجود کا ساز و سامان رکھتے ہوئے اس راہ پر قدم نہیں بڑھایا جاتا۔ سبحان اللہ! مشکل راستہ ہے اور عجیب دربار ہے کہ اس راہ میں چلنے والے مسافر کی ذات خود اپنی حائل ہوتی ہے، ہاں ایک بات سنو کہ جب صاحب قاب و قوسین، مقام قاب و قوسین سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان سے سوال کیا کہ اے رسول اللہ! ﷺ جہاں سے آپ تشریف لا رہے ہیں وہاں آپ ﷺ نے کیا ملاحظہ فرمایا؟ جناب سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی! اِس سوال کرنے کی کیا تُک ہے کہ محمد ﷺ بھی محمد ﷺ سے یہی سوال پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا؟ سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔ بیت ؎

نخشبی راز وصل دوست مپرس

بو العجب عاشقے کہ او گوید

آنکہ از خویش بے خبر باشد

خبر دیگراں کجا گوید

’’نخشبی سے تم وصال دوست کے بارے میں کچھ نہ پوچھو وہ عجیب قسم کا عاشق ہے کہ وہ کہتا ہے جو کوئی اپنے آپ سے آگاہ نہ ہو وہ دوسرے لوگوں کے بارے میں کیا کہے گا‘‘۔

اور ہمارے شیخ المشائخ حضرت صاحب قدس سرہٗ العزیز بہت زیادہ متواضع تھے اور کبر و غرور سے بالکل خالی اور دور تھے، پس جو کوئی یہ بات جانے کہ ان کی ابتدا کیا تھی، درمیانی عمر کا کیا ہوگا، اور انجام کار کیا ہونے والا ہے تو یاد رکھئے کہ بغیر متواضع ہونے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ متواضع وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو مٹی کے برابر سمجھے، پس خاکی مرد وہ ہے جو اپنے جسم اور مٹی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہونے دیں۔ بزرگوں سے روایت ہے کہ درویش کی مثال زمین کی طرح ہے، اچھی اور بری چیز جو بھی ہو اس میں جمع ہوتی ہے "وَ قَدْ کَانَ قَوْمٌ مِّنْ أَصْحَابِ الصُّفَّۃِ یَکْرَھُوْنَ أَنْ یَّجْعَلُوْا بَیْنَھُمْ وَ بَیْنَ التُّرَابِ حَائِلًا" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اصحابِ صُفہ میں ایک جماعت ایسی تھی جو اپنے جسم اور مٹی کے درمیان کسی دوسری چیز کا حائل ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ جو آج نفیس اور عمدہ فرشوں اور قالینوں پر نشست جماتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ کل وہ کس مسند پر بیٹھیں گے۔ اور وہ لوگ جو آج کے دن رنگین لباس زیب تن کرتے ہیں، معلوم نہیں کہ کل قیامت کے دن ان کو کونسا لباس پہنایا جائے گا۔ اے میرے عزیز! جو کوئی عالم ظاہر میں ایک لباس پہنے تو وہ پوشیدہ اور مستور ہو جاتا ہے، اور جو کوئی عالم باطن میں دو لباس پہنے تو وہ ننگا ہو جاتا ہے۔ بیت ؎

نخشبی زاں پیاز گندہ شود

کہ چوں سوسَن ندارد از یک پوش

’’اے نخشبی! پیاز اس وجہ سے گندہ ہو جاتا ہے کہ سوسن کی طرح ایک لباس نہیں رکھتا‘‘۔

جس کے دو کرتے ہوں اصحابِ دین کے نزدیک وہی ننگا ہوتا ہے۔ طالبِ حق کو چاہیے کہ اپنے نفس کو پہچانے اور اس کا مخالف ہو جائے۔ نفس کی مثال ایک مریض شخص جیسی ہے اگر اس کو اس کی خواہش کے مطابق دیا جائے تو یہ اُس کے لیے زہر قاتل ہے، یہ اس کے لیے دوائی اور علاج نہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ نفس کی خواہشات کو ترک کیا جائے تاکہ نفسِ مطمئنہ کی صفت سے موصوف ہو جائے کہ نفسِ مطمئنہ کا اطمینان اور قرار اللہ تعالیٰ کی طاعت ہے۔ اور خلافِ امر نہ کوئی کام کیا جائے اور نہ کسی کام کی طلب کی جائے۔

یہ بات جان لو کہ نفس کی تین قسمیں ہیں: ایک کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں، "وَ ھِيَ الَّتِيَ اطْمَأَنَّتْ بِطَاعَۃِ اللہِ لَا یَطْلُبُ مُخَالفَۃَ أَمْرِہٖ" ”اور نفس مطمئنہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طاعت پر مطمئن ہو اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کے خلاف عمل نہ کرے" اور دوسری قسم کو نفسِ لوامہ کہتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو گناہ اور معصیت کے کام پر ملامت کرے۔ اور تیسری قسم کو امارہ کہتے ہیں، "وَھِيَ الَّتِيْ تَأْمُرُ بِالسُّوْءِ وَ تَدْعُوْ إِلَی الْمَہَالِکِ" یعنی یہ وہ قسم ہے جو کہ برائی کا حکم دے اور ہلاکت خیز کاموں کے کرنے کی دعوت دے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ایک چوتھا نفس بھی ہے جس کو نفس مُلہمہ کہتے ہیں، ﴿فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَھَا﴾ (الشمس: 8) اُس کے بارے میں ہے۔

ہمارے شیخ رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ دردِ محبت میں ڈوبے رہتے تھے، اور عشقِ الست کے پیالے سے مست رہا کرتے تھے، پس جو کوئی محبوب کی یاد میں مستغرق ہو وہ زندہ ہے، اگرچہ وہ مر کیوں نہ جائے۔ اور جو کوئی محبوب کی یاد سے بے بہرہ ہو وہ مُردہ ہے، اگرچہ ظاہری طور پر اس میں زندگی ہو۔ عبد اللہ مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مردہ کو غسل دینے کا میں نے ارادہ کیا جب میں نے اس کا ازار بند کھولنا چاہا تو اس مردے نے دونوں ہاتھوں سے اُس کو پکڑ لیا اور کھولنے نہ دیا، میں نے متعجب ہو کر کہا "اَلْحَیٰوۃُ بَعْدَ الْمَمَاتِ؟" ”موت کے بعد زندگی؟“ گھر کے ایک کونے سے آواز آئی: "أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَمُوْتُ" ”کیا تم نہیں جانتے کہ جس نے اپنے رب کو پہچانا تو وہ نہیں مرتا“ اے سالک! اگر تم آج ہستی کو نیستی میں تبدیل کرو گے تو ایسے ہست ہو جاؤ گے کہ نیستی کا گرد و غبار بھی تمہاری ہستی کے خیمے کے پردوں تک نہیں پہنچے گا۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ آج تم کس بات میں مصروف ہو، سچ بات تو یہ ہے کہ "یَنْبَغِيْ لِلْعَاقلِ الْکَامِلِ أَنْ یَّکُوْنَ الْیَوْمَ مَشْغُوْلًا بِمَا ھُوَ فِي الْغَدِ مَسْئُوْلًا" ”ایک کامل اور عاقل شخص کو چاہیے کہ آج اس کام میں مشغول ہو جس کام کے بارے میں کل مسئول ہوگا“۔

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہیں، اُن کو کہا گیا کہ کسی مردے پر چار تکبیروں سے زائد کا حکم نہیں اور آپ نے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تو چار تکبیریں اس مردہ پر پڑھیں اور پانچویں تکبیر ان زندہ لوگوں پر پڑھی کہ یہ لوگ اس مردے سے زیادہ مردے ہیں۔ اے میرے عزیز! مرد اُس شخص کو کہتے ہیں، اور پہلے کچھ ایسے مرد تھے جن کو دوسروں کے گناہوں سے بخار آتا تھا اور اب تو اپنے گناہ سے بھی جسم گرم نہیں ہوتا۔ یہ ایک قدیمی رسم و رواج تھا کہ جب پھولوں یعنی بہار کا موسم آتا تھا تو لوگ لہو و لعب میں مشغول ہو کر خوشیاں مناتے تھے، اسی خیال و فکر اور ڈر کے مارے جب بہار کا موسم آتا تھا تو معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ جو عالم طریقت کی بہار تھے، خود بیمار پڑ جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ پھر بہار کا موسم آیا، لوگ لہو و لعب اور عیش و نشاط میں زندگی ضائع کریں گے۔

ہمارے شیخ اور حضرت صاحب ایک مؤمن برحق تھے، اور مؤمنِ حقیقی میں جو صفات ہوتی ہیں وہ سب ان میں موجود تھیں۔ چنانچہ روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت حارث رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ "کَیْفَ أَصْبَحْتَ؟" ”تو نے کیسی رات گزار کر صُبح کی؟“ تو انہوں نے جواب دیا کہ "مُؤْمِنًا حَقًّا" ”مؤمنِ حقیقی کی طرح رات سے صُبح کی“ فرمایا کہ تمہاری اس بات کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ یعنی آپ نے استفسار فرمایا کہ "لِکُلِّ حَقٍّ حَقِیْقَۃٌ فَمَا حَقِیْقَۃُ إِیْمَانِکَ؟" ”ہر ایک سچی بات کی حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟“ حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کی حقیقت کی وضاحت یوں فرمائی کہ "قَدْ عَزَفْتُ نَفْسِيْ عَنِ الدُّنْیَا وَ أَسْہَرْتُ لِذٰلِکَ لَیْلِيْ وَ اطْمَأَنَّ نھَارِيْ وَ کَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلٰی عَرْشِ رَبِّيْ" ”میں نے خود کو دنیا سے دور کر لیا، رات خوشی سے گزاری اور دن اطمینان سے، گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کو دیکھ رہا ہوں“ پس وہ اپنے مقصد پر دلیل لائے اور خود یہ خیال کیا کہ میں یہ سچ بول رہا ہوں، اس لیے ان کو فرمایا گیا کہ "عَرَفْتَ فَالْزَمْ" (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 3367) یعنی تُو بات کی تہہ تک پہنچ گیا، یہی حقیقت ہے اب اس بات پر قائم رہ۔

ہمارے حضرت صاحب دنیا کی محبت کو چھوڑ چکے تھے، اپنے ایک مرید کو اپنی زبان مبارک سے حلفیہ فرمایا تھا کہ سُرخ طلا یعنی سونا اور چاندی اور پتھر کی وقعت میرے دل میں ایک جیسی ہے۔ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ مقام عبودیت تک رسائی حاصل فرما چکے تھے، اُنہیں یقین کامل اور صداقت قلبی حاصل ہو گئی تھی، حقیقت کی راہ ان پر کھل گئی تھی، وہ عشق و محبت کی بلندیوں کے شہباز تھے۔ اہل دانش فرماتے ہیں کہ "اَلْعُبُوْدِیَّۃُ ثَلٰثَۃُ أَشْیَاءٍ: مَنْعُ النَّفْسِ عَنْ ھَوَاھَا وَ زَجْرُھَا عَمَّا نَہَاھَا وَ الطَّاعَۃُ فِيْ أَمْرِ مَوْلَاہَا وَ مَنْ فَعَلَ ھٰذَہِ الْأَشْیَاءَ نَادٰی مُنَادٍ کُلَّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ أَنْتَ حُرٌّ فِي الدَّارَیْنِ" ”عبودیت تین چیزوں پر مشتمل ہے: نفس کو خواہشات سے منع کرنا، اور جس سے چیز سے منع ہوا ہے اس سے جان بچا کے رہنا، اور اپنے مولیٰ کی حکم کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا۔ جو کوئی یہ تینوں کام سر انجام دے تو ہر دن رات ایک آواز دینے والا اس کو پکارا کرتا ہے کہ تم دونوں جہانوں میں ”حُر“ یعنی آزاد ہو“۔

ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ بندگی کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہر حالت میں خداوندِ کریم کو اپنا مالک و خداوند سمجھا کرو۔ اور اپنے آپ کو ہر وقت اس کا بندہ تصور کرو، یہی بندگی ہے۔ عبودیت کے میدان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر کسی نے قدم نہیں رکھا ہے، کیوں کہ انہوں نے علی الاعلان کہا کہ ﴿إِنِّيْ عَبْدُ اللہِ...﴾ (مریم: 30) ”میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں“ مگر یاد رکھیے کہ بندہ ہونا علیحدہ بات ہے، اور بندگی کرنا ایک جدا بات ہے۔ اگر بندہ ہونا اور بندگی کرنا ایک بات ہوتی تو کبھی بھی شیطان ایسا شرمندہ، لعنتی اور رو سیاہ نہ ہو جاتا۔ جو کوئی بندگی کرنے میں چست اور چابکدست ہو تو حضرت عزرائیل علیہ السلام بھی اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں جیسا کہ "خیر نساج" کے قصہ میں ذکر ہوا ہے کہ عزرائیل علیہ السلام اُس کی روح قبض کرنے کے لیے تشریف لائے، اس نے کہا کہ اے عزرائیل علیہ السلام مجھے ذرا مہلت دیجیے تاکہ میں نماز ادا کروں، ایسا نہ ہو کہ میری نماز فوت ہو جائے، میری روح کا قبض ہونا آپ کے لیے فوت نہیں ہو سکتا۔ عزرائیل علیہ السلام کو الہام ہوا کہ "یَا عِزْرَائِیْلُ أَمْھِلْہُ" ”اے عزائیل! آپ اس کو مہلت دیجیے“ پس عزرائیل علیہ السلام نے اس کو مہلت دی، اُس نے نماز پڑھی اُس کے بعد اُس کی روح قبض کی۔ پس ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ عبودیت اور صدق و یقین کے میدان کے شہسوار تھے، وہ صاحبان یقین جن کا یقین مکمل اور عقیدہ پختہ تھا، فرماتے ہیں: "اَلْیَقِیْنُ رُؤْیَۃُ الْعَیَانِ بِنُوْرِ الْإِیْمَانِ وَ الْإِیْمَانُ مُشَاھَدَۃُ الْغُیُوْبِ بِکَشْفِ الْقُلُوْبِ وَ مُلَاحَظَۃُ الْأَسْرَارِ بِمُخَاطَبَۃِ الْأَفَکَارِ" یعنی یقین یہ ہے کہ کھلے طور پر ایمان کے نور سے دیکھا جائے، اور ایمان یہ ہے کہ غیب کی چیزوں کو دلوں کے کشف سے دیکھا جائے اور اسرار کو افکار کی توجہ سے دیکھا جائے۔ حضرت جُنید بغدادی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں: "مَنْ لَّمْ یَصِلْ عِلْمُہٗ بِالْیَقِیْنِ وَ یَقِیْنُہٗ بِالْخَوْفِ وَ خَوْفُہٗ بِالْعَمَلِ وَ عَمَلُہٗ بِالْوَرَعِ و وَرَعُہٗ بِالْإِخْلَاصِ وَ إِخْلَاصُہٗ بِالْمُشَاھَدَۃِ فَھُوَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ" ”جس شخص کا علم یقین کے ساتھ نہ مل جائے اور اس کا یقین خوف کے ساتھ اور خوف عمل کے ساتھ اور عمل ورع اور تقویٰ کے ساتھ اور اس کا ورع اخلاص کے ساتھ اور اخلاص مشاہدہ کے ساتھ نہ مل جائے، تو وہ شخص ہلاک ہونے والوں میں سے ہے“۔ اور رسول اللہ صلی اللہ و آلہٖ و بارک و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ امت کے بارے میں اکثر خوف ان کے ضعفِ یقین کے بارے میں ہے۔ اور بزرگوں کا یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ یقین واثق سے بہتر کوئی دولت نہیں۔