نواں باب
آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اُس کے معنیٰ کے بیان میں، اور اس سلسلے میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا علم
حضرت شیخنا و شیخ المشائخ جناب رحمکار صاحب اس علم کے معانی میں پوری طرح مہارت، دسترس اور وقوفی و آگاہی رکھتے تھے اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی اور واقفیت رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کا ان پر احسانِ عظیم اور فضلِ عمیم تھا جو کہ ان کو عطا کیا گیا تھا۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے یہ مندرجہ ذیل ابیات اس بات کے متعلق ہیں۔ ابیات:
؎ اے صورت زیبایت سر تا بقدم معنیٰ
در صُورت و ہم معنی مثل تو نبود بالا
در ہر درختے نہ بود ایں صورت و معنیٰ
زانکہ بس شاخ سر افرازد و لیکن نشود طوبی
بار مردم بے معنی منشین کہ دریں صورت
شمعی است کہ مے داری اندر نظر اعمی
مجنون حقیقت او مستغرق معنیٰ شو
خوش خرم تو بوده از صورت و آل معنیٰ
معشوقه بے معنیٰ آخر چہ کنی کرد آن
در بتکده نہ خوان ایں و ایں عیسیٰ
دل بست محمد چوں دریں صورت
گر بر سر صد حرفے اظہار شود معنیٰ
در صورت محبوبم معنیٰ دیگر دیدم
ہر گہ کہ بستر مستی کردم غزل و اشنا
ترجمہ: تیری خوبصورت شکل سر تا بسر معنیٰ ہے صورت اور معنیٰ میں تمہاری طرح رفیع و بالا کوئی نہیں۔ ہر درخت میں یہ صورت و معنیٰ نہیں ہوا کرتی، بہت سی شاخیں پھوٹتی ہیں، لیکن وہ طوبی کا درخت نہیں ہوتیں، بے معنیٰ لوگوں کے ساتھ جو محض صورت رکھتے ہوں نہ بیٹھو، اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اندھے کے سامنے شمع کو جلائے رکھو، حقیقت کے چہرے کا مجنون ہو کر معنیٰ کی فکر میں ڈوبا رہ اور صورت و معنیٰ سے خوش اور مسرور رہ، ایک بے معنیٰ معشوق کو آخر تم کیا کرو گے، بتکدہ میں عیسیٰ عیسیٰ نہ کہتا رہ، جب محمد نے دل باندھا اس صورت میں، تو سو حرفوں میں اس کا معنیٰ ظاہر ہوا, میں نے اپنے محبوب کی صورت میں دوسرا معنیٰ دیکھا جس وقت کہ میں نے غزل و انشاء تحریر کیا۔
حضرت آدم اور ابنائے آدم کی حقیقت سب کی سب میں نے بحر المعانی سے اکھٹی کی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ذات، آدم علیہ السلام اور اولادِ آدم کی صورت کو نو لاکھ قالبوں میں اسمائے صفات کی صورت میں ترکیب دیا تھا۔ اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے قالب، تمہارے قالب اور ابنائے آدم کے قالب کو اپنے اسمِ ذات کی شکل و صورت میں جو کہ اسم اللہ ہے، مرکب کرایا۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ وَ ذُرِّیَّتَہٗ عَلٰی صُوْرَتِہٖ وَ أَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ فَخَلَقَھَا عَلٰی صُوْرَۃِ اسْمِ ذَاتِہٖ وَ اسْمِ اللہِ" (لم أجد لہذا الأثر أصلا) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کو اپنے اسماء و صفات کی صورت میں پیدا کیا اور اُن کو اپنے اسم ذات یعنی اسم اللہ کی صورت پر پیدا کیا۔ پس اے میرے محبوب! اللہ تعالیٰ کے نو لاکھ نام ہیں جن سے بنی آدم، جنات اور فرشتے اُس کو یاد کرتے ہیں۔ ان میں آٹھ لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے (899999) نام اسمِ صفات ہیں اور ایک اللہ کا اسم اسمِ ذات ہے۔ پس اے برادر عزیز! اللہ تعالیٰ نے آٹھ لاکھ ننانوے نام حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کی اولاد جن میں کافر اور مؤمن شامل ہیں، جو کہ بنی آدم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یعنی میں اور تو یا ہم سے پہلے جو تھے یا بعد میں ہوں گے، اُن کو اپنی صفات کے ناموں کی شکل و صورت پر بنایا۔ اُس کے بعد ایک ہزار سال اُس بے مثال حسن و جمال کو آدم و ابنائے آدم کے اس آئینہ میں جو کہ اسمائے صفات کی شکل و صورت میں ہے، معائنہ کرتا رہا۔ اُن کو توڑ کر اور شکستہ کرنے کے بعد کوئی دوسری شکل و صورت بناتا۔ اسی طرح اپنے جمال کو صفات کے آئینے میں ملاحظہ فرماتے ہوئے یعنی جنت میں آٹھ لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے (899999) صورتوں کا معائنہ کیا، اُس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے اسمِ ذات کی شکل و صورت پر بنایا اور جب حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذرّیّت کی صورت اللہ تعالیٰ کے اسم ذات کی صورت پر بن چکی "إِذَا تَمَّتْ صُوْرَۃُ آدَمَ وَ ذُرِّیَّاتِہٖ عَلٰی صُوْرَۃِ اسْمِ ذَاتِہٖ فَقَالَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ: فَتَبَارکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ" (لم أجد ہذا القول) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ﴿فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المؤمنون: 14) ”سو بڑی برکت اللہ کی، جو کہ سب سے بہتر بنانے والا ہے“۔ اے میرے محبوب اپنے آپ کو بغور دیکھو، تمام انداموں سے اسم ذات کی خوبصورت ترین شکل ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس شراب خانہ سے تھوڑی بہت شراب پی تھی اور اس بارے میں کچھ فرما گئے تھے۔ بیت
؎ نہ صد ہزار سال شد تا قالبم را ساختند
وی قالبم خودروی بودہ است من عاشق دیرینہ ام
’’نو لاکھ سال ہوئے کہ میرے جسم کے قالب کی تخلیق کی گئی میرا یہ قالب خود اس کا ہے اور میں پُرانا عاشق ہوں‘‘۔
اور اس عمل و طریقہ کا بیان مجمل ہے اور اس تک رسائی حاصل کرنا دور کی بات ہے اور مجمل طور پر یہی کہ ؎
؎ پیش ازاں روز کہ یادے و میخانہ نہ بود
جان ما سوئے خرابات ہمی کرد سجود
’’اس وقت سے پہلے کہ جب شراب اور میکدہ کا ذکر تک بھی نہیں تھا، ہماری روح خرابات کی جانب رُخ کر کے سجدہ ریز ہوا کرتی تھی‘‘۔
اَبیات
؎ چوں تجلی کرد ہر کلی صفات
زاں تجلی یافتند ایشان حیات
صورتے راکرد سر خود پدید
مؤمن المرآت زانجا شد پدید
مؤمنان آئینہ یک دیگر اند
صیقل آریا بند و در خود بنگرند
نقطہ را در حرق خود پیدا کند
کور مادر زاد را بینا کُند
در صور شان ہست پیدا ذات او
کس نہ بیند جز بدان مرآت او
زانچہ مرآت ترا گر حق زدود
ہر چہ باشی خود ترا خواہد نمود
ہر چہ پاشی خویش بر آہنی تمام
من سخن کوتاہ کردم والسّلام
’’جب تمام صفات پر تجلی فرما گئے تو اس تجلی سے انہوں نے زندگی حاصل کی، شکل و صورت کو اپنا اسرار ظاہر کیا اسی وجہ سے مؤمن آئینہ بن گیا، مؤمن ایک دوسرے کے لیے آئینہ کی طرح ہیں اگر یہ صیقل ہو کر صاف ہو گئے تو اپنے آپ میں دیکھتے ہیں، اپنے حرف میں نقطہ پیدا کرتے ہیں اور مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے ہیں اِن کی صورت میں اس کی صورت ظاہر ہے، اُس کو اس آئینے کے بغیر کوئی نہیں دیکھ سکتا کیونکہ جب تیرا آئینہ اگر حق نے صاف کیا تو جو کچھ تمہاری حقیقت اور اصلیت ہو وہ سب تم پر عیاں ہو جائے گا اور تم اُسے دیکھو گے تم جو کچھ ہو اور جیسا ہو تم اپنے آپ کو دیکھو گے، میں نے مختصر سی بات کہہ ڈالی باقی والسلام‘‘۔
اب اے میرے محبوب! یہ بات جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تین قسمیں بنائی ہیں: پہلی قسم آدم کی شکل پر ہیں مگر آدم کی حقیقت اور معانی سے خالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کو اِن الفاظ میں یاد فرمایا ہے کہ ﴿اُوْلٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ...﴾ (الأعراف: 179) ”وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ اُن سے بھی زیادہ بے راہ“ کیونکہ ﴿ھُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ (الأعراف: 179) ”یہ لوگ غافل ہیں“ کی صفت سے موصوف ہیں۔ اے میرے محبوب! یہ لوگ اس قابل نہیں کہ قرآن کریم اِن کا تذکرہ کرے کیونکہ یہ تو کرامت اور فضیلت کا مقام ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا گیا کہ اے حبیب! میں نے تمہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے اور اُن کے ساتھ محبت کرنے والے متبعین کے لیے ارسال فرمایا ہے۔ اور یہ کہ میں نے تم کو بے معنیٰ اہل صورت یعنی ابوجہل عتبہ اور شیبہ کے لیے نہیں بھیجا۔ ﴿فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَ یَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلَاقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِيْ یُوْعَدُوْنَ﴾ (الزخرف: 83) ”اب چھوڑ دے اُن کو بک بک کریں اور کھیلیں یہاں تک کہ ملیں اپنے اس دِن سے جس کا اُن کو وعدہ دیا ہے“ یعنی اے حبیب! اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو امر فرمایا کہ آپ کو منکروں اور پیٹھ پھیرنے والوں سے کیا کام کہ اُن کو اس عالمِ آخرت کی نعمتوں کی طرف بلاتے ہو، آپ فرما دیجئے کہ ہم تو اس عالمِ الٰہی میں ہیں اور یہ کہ ہمارا نصیب تو دیدار ہو گا اور اُن کا حصہ ادبار و ہلاکت اور بدنصیبی۔ ﴿فَإِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِيْ عَمَلِيْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنْتُمْ بَرِیْئُوْنَ مِمَّا أَعْمَلُ وَ أَنَا بَرِئٌ مِّمَّا تَعْلَمُوْنَ﴾ (یونس: 41) ”اور اگر تجھ کو جھٹلائیں تو کہہ میرے لیے میرا کام اور تمہارے لیے تمہارا کام، تم پر ذمہ نہیں میرے کام کا اور مجھ پر ذمہ نہیں جو تم کرتے ہو“۔
ارشاد ہوا اے میرے حبیب! اگر میں چاہتا تو سب کو ایک ہی فطرت پر پیدا کر دیتا۔ لیکن اس نے سب کو ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے اور ہر ایک ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور ریاکار مخلصوں سے الگ ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اور اس جہان میں اس نے گفت و شنید (کے اسباب) پیدا کردیئے۔ چونکہ کہا جاتا ہے "اَلْأَمْثَالُ مَصَابِیْحُ الْأَفْعَالِ" یعنی مثال سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ (اس لئے ہم مثال بیان کرتے ہیں کہ ) ایک حسین و جمیل (محبوب) گھر سے باہر نکل آیا، ایک جمِ غفیر اس ( کودیکھنے کیلئے) اس کے پیچھے لگ گیا۔ اچانک وہ گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کرلیا۔ جو لوگ اس کی خاطر جمع تھے ان میں شور شرابا ہونے لگا اور وہ سب وہاں گرکر فریاد کرنے لگے کہ جب (ملاقات) ممکن نہ تھی تو یہ جھلک کیوں دکھائی؟ پردے کے اندر سے جواب دیا کہ مجھے لوگوں کا
شور و غوغا اچھا لگتا ہے۔ لوگ باہر شوق سے مجبور ہو کر چیخنے اور کہنے لگے کہ "لَا مِنْکَ الْفِرَارُ وَ لَا مِنْکَ الْقَرَارُ" کہ نہ آپ کے پاس سے جانا ہمارے بس میں ہے اور نہ آپ کے ہاں ہم کو قرار ممکن ہے۔ نہ جائے ماندن اور نہ پائے رفتن۔
پس اے محبوب! حقیقت میں فطرت کی دو حالتیں ہیں: ایک عدم، دوسری وجود۔ یعنی جب طنبورہ بجایا جاتا ہے تو زبانِ حالِ سے یہی کہتا ہے:
؎ در عدم گو بود ما را اختیار
تا شدم موجود فعل آریم کار
از عدم آورد ما را در وجود
گاہ از ما فسق آید گاہ سجود
علم بود در سرشت ما نخست
ہر چہ می آید زما تقدیر تست
’’حالت عدم میں اگر ہم کو اختیار حاصل ہوتا کہ اگر ہم موجود ہو جائیں تو کام کر جائیں گے، ہم کو عدم سے وجود سے لایا گیا ہے تو کبھی ہم گناہ کا کام کرتے ہیں اور کبھی عبادت، ہماری ابتداء اور فطرت میں پہلے سے علم تھا اب جو کچھ ہو رہا ہے اور ہم کر رہے ہیں یہ سب تمہاری مقرر کی ہوئی تقدیر ہے‘‘۔
یعنی اے محبوب! اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی عالم کثرت کے بنانے کی تھی کہ ﴿وَ لَوْ شَاءَ اللہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ﴾ (الانعام: 35) ”اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو جمع کرتا سب کو سیدھی راہ پر سو تو مت ہو نادانوں میں سے“۔
دوسری بات یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ ان کو ہدایت نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے ارادے کی کیمیا گری نے اِن کو نبوت اور ہدایت کی حرارت سے محروم کر دیا ہے، ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ...﴾ (آل عمران: 128) ”تیرا اختیار کچھ نہیں“ ﴿وَ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ﴾ (ھود: 118) ”اور ہمیشہ رہتے ہیں اختلاف میں“۔ جب مشیت ہوتی ہے تو کیا کہا جائے اور کس کو کہا جائے، کسی قسم کی چوں و چراں کی گنجائش نہیں ہوتی۔
دوسری قِسم وہ گروہ اور جماعت ہے جو کہ صورت، معنیٰ اور حقیقت میں آدم ہیں اور آدم کی حقیقت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدس گروہ کو اپنے فضل و عنایت سے اپنے کلام پاک میں یاد فرمایا ہے اور ان کے بارے میں ایسا خطاب فرمایا گیا ہے: ﴿وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ وَ حَمَلْنَاھُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاھُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 70) ”اور ہم نے عزت دی ہے آدم کی اولاد کو اور سواری دی ان کو جنگل اور دریا میں اور روزی دی ہم نے ان کو سُتھری چیزوں سے اور بڑھا دیا اُن کو بہتوں سے جن کو پیدا کیا ہم نے بڑھائی دے کر“ اے عزیز! یہ فضل جو کہ آیتِ مُبارکہ میں ذکر ہوا، یہ مال و دولت اور زر و جواہر کے بارے میں نہیں بلکہ آدمیت کی روح اور حقیقت کے جوہر دونوں جہانوں کے ساتھ برابر نہیں۔ چنانچہ اے میرے عزیز! خیال کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو روح القدس سے زینت بخشی گئی ﴿وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ...﴾ (الحجر: 29) ”اور پھونک دی اس میں اپنی جان سے“ (شبیر احمد عثمانی) چنانچہ ہر کسی کی روح کو روح القدس سے مزیّن فرمایا ﴿وَ أَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسَ...﴾ (البقرہ: 87) ”اور قوت دی اُس کو روح پاک سے“۔
پس اے میرے عزیز! پہلی قسم کے لوگ دنیا میں بھی دوزخ میں ہیں اور آخرت میں بھی دوزخ میں ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ کَلَّا إِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾ (المطففين: 14) ”کوئی نہیں مگر زنگ پکڑ گیا ہے اُن کے دلوں پر جو وہ کماتے تھے، کوئی نہیں وہ اپنے رب سے اُس دن روک دیے جائیں گے، یعنی آج کے دن تو وہ حجاب میں اور پردے میں ہوں گے (اور کل فراق اور جدائی میں تڑپتے رہیں گے)“۔ اور یہ دوسری قِسم کے لوگ آج معرفت اور حقیقت سے آشنا ہوں گے اور کل رؤیت یعنی دیدار اور قربت و وصال سے لطف اندوز ہوں گے۔ ﴿کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّیِّیْنَ وَ مَاۤ أَدْرٰىكَ مَا عِلِّیُّوْنَؕ كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌۙ یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَۙ﴾ (المطففین: 18-19) ”ہرگز نہیں، اعمال نامہ نیکیوں کا علیین میں ہے، اور تجھ کو کیا خبر ہے علیین کیا ہے، ایک دفتر ہے لکھا ہوا، اُس کو دیکھتے ہیں نزدیک والے (یعنی فرشتے)“۔ یعنی ہماری قربت اور رؤیت کی سعادت و شرف اُن کو حاصل ہو گا۔ رسول کریم ﷺ نے اس گروہ کے بارے میں ایک رمز فرمایا ہے کہ "إِنَّ لِلّٰہِ عِبَادًا خَلَقَھُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ…" (مسند الشہاب القضاعي، رقم الحدیث: 1007) یعنی اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ضرورتوں (کو پورا کرنے) کی خاطر پیدا کیا ہے۔ یعنی دنیا میں لوگوں کو ان سے قوت حاصل ہوگی اور آخرت میں شفاعت کا مقام ان کو حاصل ہوگا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: "یَشْفَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلَاثَۃٌ: اَلْأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الْعُلَمَاءُ ثُمَّ الشُّھَدَاءُ" (سنن ابن ماجہ: کتاب الزھد، باب: ذکر الشفاعۃ، رقم الحدیث: 4313) یعنی قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام شفاعت فرمائیں گے ان کے بعد علماء اور ان کے بعد شہداء۔
تیسری جماعت وہ ہو گی جو کہ خود حقیقت اور معنی ہو گئے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی حمایت و حفاظت میں ہوں گے۔ اور ان کا مقام یہ ہو گا کہ "أَوْلِیَائِيْ تَحْتَ قَبَابِيْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" (روح المعانی، رقم الصفحۃ: 201/9، دار الکتب العملیہ، بیروت) یعنی میرے دوست اور اولیاء میری قبا کے نیچے ہیں، میرے سوا اُن کو کوئی نہیں پہچانتا۔ اور اے میرے عزیز! اللہ کریم نے اس تیسری جماعت کے بارے میں ایک رمزیہ اشارہ اپنے پاک اور مقدس کلام میں لوگوں کی خاطر ظاہر کیا ہے کہ ﴿رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللہَ عَلَیْہِ...﴾ (الأحزاب: 23) ”ایمان والوں میں کتنے مرد ہیں کہ سچ کر دکھلا دیا جس بات کا عہد کیا تھا اللہ تعالیٰ سے“ اے میرے پیارے اور عزیز! اللہ تعالیٰ کے اس کرم و احسان اور تصدق کا کیا بیان کروں؟ ہاں! جس وقت وہ محبوب حقیقی اس جماعت کے صدق اور ثباتِ عہد کو ملاحظہ فرمائے گا تو "رِجَالٌ" کو وہی رجالیت کی خلعت عطا فرمائی جائے گی۔ پس اے عزیز تو اس وقت اپنے آپ کو رجال اللہ کے زمرہ میں دیکھے گا، میں نے اس تیسری جماعت کے بارے تمثیل اور تشبیہ اور اشاروں، کنایوں کے علاوہ کچھ تفصیلی بات نہیں کی۔ ﴿وَمَا یَتَّبِعُ أَکْثَرُھُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا...﴾ (یونس: 36) ”اور وہ اکثر چلتے ہیں محض اٹکل پر، بے شک اٹکل کام نہیں دیتی حق بات میں کچھ بھی“ اور میرے پیارے رسول اکرم ﷺ نے بھی اسی جماعت کے بارے میں رمزیہ طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ "إِنَّ لِلہِ تَعَالٰی عِبَادًا قُلُوْبُھُمْ أَنْوَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَ فِعْلُھُمْ فِعْلُ الْأَنْبِیَاءِ وَ ھُمْ عِنْدَ اللہِ بِمَنْزِلَۃِ الشُّھَدَاءِ" (لم أجد لھذا الحديث أصلا) یعنی اللہ تعالیٰ کے ایسے پاک بندے ہیں جن کے دل سورج سے بھی زیادہ روشن ہوتے ہیں اور اُن کے کردار انبیاء کرام علیہم السلام کے طرح پاک اور مقدس ہوتے ہیں اور اُن کا درجہ و منزلت اللہ تعالیٰ کے ہاں شہیدوں جیسا ہوتا ہے۔ پس اس بارے میں رسول اکرم ﷺ نے بطور رمز و تمثیل اور تشبیہ بتا دیا ہے، لیکن اے میرے عزیز! اُن کے دلوں کا نور جو اس دنیا میں ایسا سورج ہوگا کہ دُنیا کا سورج اس کے سامنے ایسا ہوگا جیسا کہ اس سورج کے سامنے چراغ ہو۔ اور ان کے افعال انبیاء جیسے ہونگے۔ یعنی یہ پیغمبر تو نہیں ہوں گے مگر معجزوں کی طرح کرامتیں اِن سے ظاہر ہوں گی۔ یہ لوگ اگرچہ شہید نہیں ہوں گے مگر شہیدوں کا درجہ رکھیں گے۔ اور شہیدوں کا درجہ یہ ہے کہ ﴿أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَا أَتٰاھُمُ اللہُ...﴾ (آل عمران: 169) ”بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے، پیتے اور خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا اُن کو اللہ تعالیٰ نے“ مگر یہ تیسری جماعت مشاہدہ اور حضوری کے رزق سے ایک لحظہ بھی بے بہرہ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: "إِنِّيْ لَأَعْرِفُ أَقْوَامًا ھُمْ بِمَنْزِلَتِيْ عِنْدَ اللہِ" (لم أجد ہذا الجزء من الحدیث) "مَا ھُمْ بِأَنْبِیَاءَ وَ لَا شُھَدَاءَ بَلْ یَغْبِطُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَ الشُّھَدَاءُ لِمَکَانِھِمْ وَ ھُمُ الْمُتَحَابُّوْنَ بِرُوْحِ اللہِ تَعَالٰی" (فقہ السیرۃ للغزالی بمعناہ، رقم الصفۃ: 162، دار القلم، دمشق) یعنی میری امت سے ایک جماعت کا مجھے علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی قدر و منزلت میری قدر و منزلت کے برابر ہو گی حالانکہ وہ پیغمبر اور شہید نہیں ہوں گے بلکہ انبیاء اور شہداء اُن پر غبطہ (رشک) کریں گے۔ یعنی مقام اور منزلت کی رو سے یہ انبیاء و شہداء ہوں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے دوستی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اِن کے اس کمال کی تعریف اور توصیف اِس مقدس حدیث کی ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ "أَوْلِیَائِيْ تَحْتَ قَبَابِيْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" (روح المعانی، رقم الصفحۃ: 201/9، دار الکتب العملیہ بیروت) یعنی میرے دوست اور ولی میری قبا کے نیچے ہیں اُن کو میرے علاوہ اور کوئی نہیں پہچانتا۔ اور اہل ظواہر لوگ اس تیسری جماعت کی حقیقت اور معانی سے محروم ہیں کیونکہ اُن کا تصور یہ ہے کہ اُس کے دوست اُن کے بغیر دوسرے لوگ نہیں پہچانتے، اور اس کی حقیقت اس شعر میں ہے۔ بیت:
؎ بعقل ایں راہ کم رو کاندریں راہ
جہاں عقل چوں خر در خلابست
’’اس راستے پر عقل کے سہارے نہ جا، کیونکہ عقل اس راستے میں گدھے کی طرح کیچڑ میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔
اب یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ”غیری“ میں ”یاء“ جو ہے وہ یائے نسبت ہے یعنی مطلب یہ ہے: "لَا أُعَرِّفُھُمْ غَیْرَ أَحِبَّائِيْ" یعنی اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو پہچانتا ہے اور اپنے دوستوں سے بھی اُن کی شناسائی کراتا ہے، "یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" سے مُراد یہ ہے۔ اور اگر اس ”یاء“ کو یائے نسبت نہ کہیں تو مشائخ کرام کے قول کی مخالفت لازم آتی ہے۔ چنانچہ بایزید قدّس سرُّہ العزیز فرماتے ہیں کہ میں نے تین سو اولیائے کرام کے ساتھ ملاقات کی، اُس کے بعد قطب جناب شیخ قطب الدین بختیار اویسی قدّس سرُّہ العزیز کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا، اسی طرح ہر ایک نے ایسے ہی روایت کی ہے۔ چنانچہ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ میں نے تین سو بیاسی ولی، قطب الاقطاب، افرادِ کامل اور اقطابِ حقیقت کو دریافت کیا ہے اور مجذوب حضرات اتنے کہ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ پس معلوم ہوا کہ غیری کی ”یا“ یائے نسبت ہے۔
فائدہ:
شیخ محمد حلیم صاحب کا قول صحیح ہے، جیسا کہ کہتے ہیں اور ضرب المثل ہے کہ ''ولی را ولی مے شناسد''، یعنی ایک ولی کو دوسرا ولی ہی پہچانتا ہے۔ اے محبوب! یہ تیسری جماعت اللہ تعالیٰ کا مطلوب و محبوب ہے، اور یہ اہل حقیقت ہیں اور ان کا خطاب ”رجال اللہ“ ہے۔ اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اختیاری موت قبول کی ہے کہ "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذَکَرَہٗ عَلِیٌّ الْقَارِیُّ فِي الْأَسْرَارِ الْمَرْفُوْعَۃِ فِي الْأَخْبَارِ الْمَوْضُوْعَۃِ رقم الحدیث: 539، وَ قَالَ ہُوَ مِنْ کَلَامِ الصُّوْفِیَّۃِ) ”مرجاؤ اُس دن سے قبل کہ تم مر جاؤ“ یعنی اپنی زندگی کے دوران ہی میں موت اختیار کرو تاکہ اضطراری موت سے چھٹکارا اور نجات حاصل کر سکو۔ اور اے عزیز! اس سے قبل میں نے حدیث شریف کی شرح بیان کی تھی مگر اس حدیث کے اسرار و رموز یہاں بیان کروں گا۔ پس اے میرے عزیز! اگر تم اختیاری موت کو اختیار اور قبول کرو گے تو اضطراری موت سے نجات پاؤ گے، کیونکہ موت ایک دفعہ ہے، دوبارہ کوئی جواز نہیں رکھتی۔ اور علمائے ظاہر جو دو موت ﴿أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ...﴾ (الغافر: 11) کہتے ہیں یعنی دو موت ہیں، ایک موت کو ظاہر کی موت کہتے ہیں اور دوسری موت منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد کی موت کہتے ہیں۔ اور تفسیرِ محمد حسین میں دو موتوں سے مراد ایک عدم ہے یعنی جو کہ تاحال ظہور نہیں ہوا، عدمِ ظہور اور عدم بھی موت ہے اور دوم ضروری موت ہے۔ پس وہ موت جو کہ ظہور سے پہلے تھی، وہ تو گذر گئی اور ضروری موت باقی رہ گئی۔ پھر جب تم اے میرے عزیز! "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذَکَرَہٗ عَلِیٌّ الْقَارِيُّ فِی الْأَسْرَارِ الْمَرْفُوْعَۃِ فِي الْأَخْبَارِ الْمَوْضُوْعَۃِ رقم الحدیث: 539، وَ قَالَ ہُوَ مِنْ کَلَامِ الصُّوْفِیَّۃِ) ”مرنے سے پہلے مر جاؤ“ کے حکم کے تحت اختیاری موت اختیار کرو، یعنی اپنی تمام حرکات و سکنات دنیاوی سے قطع تعلقی اپنی لازمی اور ضروری موت سے قبل اختیار کرو، پس تمہاری دوسری یہی اختیاری موت ہوگی اور ضروری موت سے نجات حاصل کر لو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اَلْمُؤْمِنُ حَيٌّ فِي الدَّارَیْنِ" (روح البیان، رقم الصفحة، 139/2، دار الفکر، بیروت) یعنی مؤمن دونوں جہانوں میں زندہ ہوتا ہے۔ پس اے عزیز! موت اختیاری والے کو موت اضطراری موزوں نہیں، کیوں کہ موت تو ایک ہی ہے۔ شیخ محمد حسین فرماتے ہیں اس بات کے بارے میں بہت سے مدارج اور معارج میرے سینے کے کتب خانے میں موجود ہیں، لیکن ناداں اور بے عقل عالموں کے ہاتھوں میں نے تحریر نہیں کی کہ ان کے تصور میں یہ باتیں نہیں آتیں اور وہ اس کو تناسخ اور آواگون سمجھتے ہیں۔
بیت؎ ایں نیست تناسخ سخن وحدت و خوب است
کز خویش روی قلزم زخار بر آمد
گر شمس فروشد بغروب و نہ فنا شد
از برج دیار آں مہ انوار بر آ مد
’’یہ تناسخ اور آواگون نہیں، یہ تو وحدت کی اچھی باتیں ہیں، جب تم اپنے آپ سے گذر جاؤ گے تو تمہیں ایک بحر بیکراں موجزن نظر آئے گا، اگر سورج غروب ہوا تو وہ فنا نہیں ہوا تو وطن کے برج سے نور بھرا چاند نکل آئے گا‘‘۔
جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ أَرَادَ أَنْ یَّنْظُرَ إِلٰی مَیِّتٍ یَّمْشِيْ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی ابْنِ أَبِيْ قَحَافَۃَ" (العھود المحمدیۃ، رقم الصفحۃ: 887) یعنی جو شخص یہ خواہش کریں کہ زمین پر چلتی پھرتی میت کو دیکھے تو ابنِ ابی قحافہ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کو دیکھے۔ پس اے میرے محبوب! جب تم موت اختیاری میں حقیقت تک پہنچ جاؤ تو پھر موت کو حقیقت سے کیا واسطہ۔ تمہارے جسم کا چمڑا تو شریعت ہے اور تمہارے جسم کے اندر حقیقت پیدا کی ہوئی ہو گی تو پھر موت شریعت طریقت اور حقیقت کے ساتھ کیا مناسبت رکھتی ہے؟ اور ملک الموت کا ان کے ساتھ کیا جھگڑا اور مناقشہ ہے؟ یعنی ایسی حالت میں قالب، قلب اور روح ایک رنگ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ روح کے لیے موت نہیں اور یہ دوسری دو چیزیں بھی روح کے رنگ میں رنگی ہیں تو روح کے اوصاف اس کے لیے لازم ہوئے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَ لٰکِنْ یَّنْقَلِبُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ" (روح البیان بمعناہ، رقم الصفحۃ: 197/5، دار الفکر، بیروت) اللہ تعالیٰ کے اولیا مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اس کنایہ کا کیا کہنا جس کا مطلب واضح اور صریح ہے۔ یہ جو کچھ لکھا گیا شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ پس اے میرے محبوب! اختیاری موت کے بعد حیاتِ ابدی نصیب ہوتی ہے۔ پس اے محبوب! قطبِ حقیقت جناب شیخ نظام الدین ندوانی قدّس سرہٗ نے اہل الظواہر علماء کو وصیت فرمائی تھی کہ نمازِ شریعت یعنی نمازِ جنازہ کے بعد نماز حقیقت پڑھی جائے تاکہ مجھے وجد کی کیفیت حاصل ہو۔ جب سماع کیا گیا تو شیخ رکن الدین ابو الفتح معائنہ فرما رہے تھے کہ وہ حیات ابدی سے سرشار ہیں اور وجد بھی کریں گے، پس حیاتِ ابدی کی کیفیت نا محرموں پر واضح ہو جائے گی، اسی وجہ سے اُن کو منع کیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اہلِ اختیار کو موت ضروری لاحق نہیں ہوا کرتی۔ اس بات پر خوب غور کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہمیں یہ نصیب کریں آمین…آمین... آمین... بحرمۃِ النبی ﷺ!
اس حدیث کا ترجمہ اور مطلب شیخ محمد حسین کی تشریح کے مطابق نہ ہوا تو پھر "قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذَکَرَہٗ عَلِیٌّ الْقَارِيُّ فِي الْأَسْرَارِ الْمَرْفُوْعَۃِ فِي الْأَخْبَارِ الْمَوْضُوْعَۃِ، رقم الحدیث: 539، وَ قَالَ ہُوَ مِنْ کَلَامِ الصُّوْفِیَّۃِ) کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ پس اے برادرِ عزیز! تمام اولیاء کی اِس موت اختیاری سے مُراد یہ ہے کہ اپنی روح و اعضاء اور تمام انداموں کو گناہ سے مردے کی طرح محفوظ رکھو۔ لیکن شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ باطن کو ما سوی اللہ کے حرکات و سکنات سے محفوظ رکھو جیسا کہ مردہ ضروری موت کی وجہ سے ہو جاتا ہے، اسی طرح اپنے باطن کو غیر اللہ سے مردہ رکھو۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں یہی موت اختیاری مشاہدہ فرمائی تھی اور اسی وجہ سے ارشاد فرمایا کہ "إِلٰی مَیِّتٍ یَّمْشِيْ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ" یعنی ایسا مردہ جو زمین پر چل رہا ہو۔ حالانکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعضاء ظاہر طور پر میت اور مُردے کی مانند نہ تھے کہ حضور ﷺ نے "یَمْشِيْ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضَ" یعنی زمین پر چلتا پھرتا ہے، فرمایا۔ پس ظاہری اعضاء مُردے کرنا صحیح نہیں اور اس طرح کرنا اس سے مراد نہیں، اس سے مُراد یہ ہے کہ باطن کو ما سوی اللہ سے پاک و صاف رکھا جائے۔ اس پر خوب اچھی طرح سے غور کرو، موت قبل از موت ضروری یہی ہے۔
فائدہ:
اس کتاب کے مؤلف کے نزدیک اور تمام اولیاء اللہ کے نزدیک "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذَکَرَہٗ عَلِیٌّ الْقَارِيُّ فِي الْأَسْرَارِ الْمَرْفُوْعَۃِ فِي الْأَخْبَارِ الْمَوْضُوْعَۃِ، رقم الحدیث: 539، وَ قَالَ ہُوَ مِنْ کَلَامِ الصُّوْفِیَّۃِ) کا مفہوم یہی ہے کہ مردے کی طرح تمام اعضاء کو گناہوں سے محفوظ رکھو۔ اور شیخ محمد حسین کا مطلب یہ ہے کہ باطن کو ما سوی اللہ کی خیال سے خالی کرنا۔ قریب قریب دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے مگر اس پر خوب غور کرنا چاہیے۔ مؤلف آمدم بر سر مطلب۔
جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہَا الصُّوَرُ" (سنن الترمذی بمعناہ، أبواب صفۃ الجنۃ، باب: ما جاء فی سوق الجنۃ، رقم الحدیث: 2550) کہ جنت میں ایک بازار ہے کہ جس میں صورتیں فروخت ہوتی ہیں تو شیخ محمد حسین صاحب نے خوب فرمایا ہے کہ خرابات حقیقت کی صورتوں کی تجلیاں جلوہ افروز ہوتی ہیں۔ اور صورتوں کی یہ فروخت اس کو نصیب ہوگی جو کہ اضطراری موت سے نہ مرا ہو، یعنی جس کو موت اختیاری کی سعادت حاصل ہوگی اور جس کی ایک روح قناعت کرے، وہ خضر علیہ السّلام کی طرح ہے۔ اور جو کوئی اضطراری موت سے مرا تو اس کو محشر میں پھر زندہ کیا جائے گا۔ اگر نیک عمل والا مسلمان ہوگا تو جنت کی نعمتوں جو کہ ابلہان کا مقام ہے کہ "أَکْثَرُ أَھْلِ الْجَنَّۃِ الْبُلْہُ" (مسند البزار، رقم الحدیث: 6339) کہ اہل جنت میں سے اکثر ابلہ ہوتے ہیں۔ پس اے میرے محبوب! اس جانِ عزیز کو داؤ پر لگاؤ، یعنی اختیاری موت کو اختیار کرو، تمہیں ارواح کے سمندر میں غوطہ دیا جائے گا، تاکہ روح مجسم بن جاؤ۔ بیت
؎ اگر مردی بجاں در باز جان را
کہ یک جان را عوض آنجا ہزار است
اگر در ہر دمے صد جان رہندت
نثارش کن کہ جانہا بے شمار است
تو ہر وقتے کہ جان را بر فشانی
ہزاروں جانہا بر تو نثار است
چو خواہی کرد خود را نیم جانے
چو دائم زندگی تو بہ بار است
کسے کز جان بود زندہ دریں راہ
ز عزم خود ہمیشہ خضر وار است
ترجمہ: اگر تو جواں مرد ہے تو جان کی بازی لگا کر نثار کرو کہ ایک جان کے بدلے وہاں ہزار جانیں ہیں، اگر تمہیں ہر گھڑی سو جانیں دے دیں تو یہ سب اس پر نثار کرو کہ جانیں بے شمار ہیں۔
تو جس وقت اپنی جان کو قربان کرو گے تو تم پر ہزاروں جانیں نچھاور ہو جائیں گی۔
جب تم اپنے آپ کو نیم جان کرو گے تو ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی میوہ دار بن جائے گی۔
اس راستے میں جس کی روح زندہ ہو تو اپنے پختہ ارادے کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے خضر کی طرح زندہ و جاوید ہو گا۔
اب میرے اے عزیز! اس حقیقت کے پیش نظر کہ "یُبَاعُ فِیْھَا الصُّوَرُ" یعنی اس میں صُورتیں فروخت ہوتی ہیں۔ ہر لحظہ جب تم حقیقت کے اس مئے خانے میں آؤ گے تو بے شمار جانیں جن کا کچھ حد و حساب نہیں اس صورتوں کے بازار میں صورتوں کی شکل میں جلوہ گر ہو کر سامنے آئیں گی اور تم اس کے خریدار ہو گے۔ اور ہر صورت کی تجلیات کو دیکھ کر تم ہزار سال بے ہوش ہو کر گر پڑو گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ خود آواز دے گا کہ "اِشْتَغَلْ عَبْدِيْ بِالسُّوْقِ الرُّوْحَانِیَّۃِ وَ اُنْسِيَ لِقَاءَنَا وَ أَنَا إِلٰی لِقَائِکُمْ أَشَدُّ شَوْقًا مِّنْکُمْ" (لم أجد لہٰذا الحدیث أصلًا) ”میرا بندہ روحانیت کے بازار میں منہمک اور مشغول رہا اور وہ ہماری ملاقات بھول چکا، اور میں تمہاری ملاقات کا تم سے بڑھ کر مشتاق ہوں“۔
پس جب حقیقت کے اس مئے خانے سے تم ہوش میں آ کر اُٹھ کھڑے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم صادر ہو جائے گا کہ اے میرے دوست! تم کہاں تھے؟ اِس وقت تم فریاد کرو گے کہ افسوس.. افسوس..! میں تو مئے خانے کی گلیوں میں رہا، میں نہیں جانتا کہ ایک گھڑی پر وقت کیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہزار سال سے تم بے ہوش اور بے خود پڑے تھے اور ہم خود اپنی قدرت کی انگلیوں سے تمہاری پریشان زلفوں کو سنوارتے تھے۔ اے محبوب! یہ مئے خانۂ حقیقت کی شرح تھی کہ آدم علیہ السّلام کے زمانے سے اس گھڑی تک کوئی بھی جنت کے والہانہ شوق میں ایسا سرشار نہ تھا۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے جو ایسا کہا ہے، یہ بھی مزید کہا ہے کہ یہ جزوی مئے کدے کلی مئے کدوں کے سائے ہیں، اور اہل شوق کو ان جزوی مئے کدوں کی اس وجہ سے خواہش ہے کہ یہ مئے کدے کلی اور حقیقی مئے کدوں کے نقوش ہیں، اور عاشق اِن مئے کدوں سے وہی کچھ مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ بے خبر علماء بے چارے قبیح اور بُری اساس رکھتے ہیں اس لیے ان کی نظر میں بُری چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور اگر کبھی اچھی چیزیں اِن کے سامنے آ جائیں تو بھی اُن کو خوب نہیں سمجھتے۔ بیت؎
در ظلِ آفتاب تو چرخے ہمی زنم
کورست آنکہ گوید ظلِ از شجر جداست
’’میں تمہارے سورج کے سائے میں چکر لگاتا ہوں وہ آدمی اندھا ہے جو یہ کہتا ہے کہ سایہ درخت سے علیحدہ چیز ہے‘‘
پس اے عزیز! اپنی روح کو درمیان میں نہیں دیکھو گے، یعنی اس کو اختیاری طور پر آگے بھیجو گے تاکہ خرابات اور میکدے کا بازار حاصل کر سکو۔ ؎ بیت
رو در میکدہ زن تکیہ بہ طاعات مکن
پیش ازیں از پی ناموس مقالات مکن
تو از اسرار خرابات قوی بے خبری
طعنہ بر حالت مستانِ خرابات مکن
ساکن خانہ مئے خمار شو ار مرد رہی
جز بزندان تو دریں کوئے ملاقات مکن
از در می کدہ ہا مست بہ بازار بر آئی
خلق را جز بہ خرابات مراعات مکن،
درد باید کہ ز طاعت نکشاید نکتہ
تکیہ بر دلق و مصلی و بطاعات مکن
چوں عبادات تو در صومعہ از روی ریاست
بر در میکدہ مے باش و عبادات مکن
تا کے از زہد چو پے بادہ سُخن پیمائی
بادہ مے خور سُخن از راہ مقامات مکن
نفی ہستی کن و صورت مطلبِ جان عزیز
بت پرستی نہان را بہ خود اثبات مکن
حور و جنت چو حجابند محمد ایں راہ
طاعتے گر بکنی بہرِ مکافات مکن
’’جاؤ اور شراب خانے کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہو اور اپنی عبادت پر بھروسہ نہ کرو، اِس کے بعد اپنے ناموس کی باتیں نہ کرو۔ تو خرابات کی اسرار و رموز سے آگاہ نہیں اس لیے خرابات کے مستوں کی حالت پر طعنہ زنی نہ کرو۔ اگر تو واقعی راہرو منزل ہے تو شراب فروش کے گھر میں سکونت اختیار کر۔ اگر اِس کوچے میں ملاقات کسی سے کرنی ہو تو جیل خانے کے سوا کسی سے بھی ملاقاتی نہ ہو، مے کدے کے دروازے سے مستی کی حالت میں بازار کو نکل آ، اور لوگوں کو رعایت صرف خرابات کے امورات میں کیا کر۔
عشق کا درد چاہیئے کہ طاعت سے نقطہ حل نہیں ہوتا۔ تم گدڑی، مصلے اور اپنی عبادتوں پر بھروسہ نہ کرو۔ چونکہ خانقاہ میں تمہاری ساری عبادت رو و ریا سے پُر ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی بجائے میکدے کے دروازے پر رہا کرو اور کسی قِسم کی عبادت نہ کرو۔ بغیر شراب (محبت) کے تم زہد کے بارے میں کب تک باتیں کرتے رہو گے، یہ چھوڑ اور شراب پیا کرو اور مقامات کے راستوں کی باتیں چھوڑو اور یہ باتیں بالکل نہ کرو، اپنی ہستی کی نفی کر اور اے جان عزیز! صورت کی طلب اور چاہت نہ کر۔ یہ ایک قسم کی پوشیدہ بت پرستی ہے اور اس پوشیدہ بت پرستی کا اپنے آپ پر ثبوت فراہم نہ کر۔
اے محمد (شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ) چونکہ حور اور جنت اِس راستے میں حجاب ہیں۔ اس لیے اگر تو طاعت کرے تو اِس کے اجر اور بدلے کا خیال نہ کر۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:
؎ سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنّا بھی چھوڑ دے