آٹھواں باب
طریقت کے سالکوں کی منزل اور اس بارے میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علم کے بیان میں
راہِ طریقت کی منزلوں میں ہمارے حضرت شیخ المشائخ صاحب کے نقوشِ قدم ثبت تھے اور وہ اُن منازلِ سلوک و طریقت کے رمز آشنا تھے، اور اس مشکل راہ کی مشکلات میں اپنی ثابت قدمی کی وجہ سے مشہور تھے۔ حقیقت کی شاہراہ کے حق شناس اور اس راہِ قربت کے راہرؤوں کے پیش رَو تھے۔ بادۂ عرفان سے مست تھے، دفترِ عشق کے قاری اور دریائے معرفت کے غوطہ زن تھے۔ ابیات ؎
گر ز سوز عشق او داری خبر
جان بدہ در عشق جانان و نگر
چوں کسے از عشق ہر گز جان نبرد
گر تو ہم از عاشقانی جان مبر
عشق دریائے ست قعرش ناپدید
آبِ دریا و آتش موجش نگر
سر کشی از ہر دو عالم ہمچو موئے
گر سر موئے ازاں یابی خبر
گوہر اسرار ہر سرے ازو
سوئے آں حضرت دل تو راهبر
’’اگر تم کو سوزِ عشق سے کچھ آگاہی ہو تو معشوق کے عشق میں جان دے کر دیکھئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عشق کی وجہ سے کوئی جان سلامت نہیں لے گیا ہے اگر تم بھی زمرۂ عشاق میں سے اپنے آپ کو شمار کرتے ہو تو اپنی جان کی پرواہ کر کے اسے سلامت نہ لے جا۔ عشق ایک ایسا سمندر ہے کہ جس کی گہرائی انتہا نہیں رکھتی اس سمندر کے پانی اور اس کی موجوں کی آگ دیکھتا رہ۔ اگر تم کو بال برابر بھی عشق کی حقیقت سے آگاہی نصیب ہو جائے تو بال کی طرح دونوں جہانوں سے سر کشی اختیار کرو گے (بالوں کا جسم سے باہر نکلنا، اس کو سر کشی کے لفظ سے یاد کر کے بڑی حسین تشبیہہ دی ہے) اس کا راز رازوں کا موتی ہے اور اس کی جانب تمہارا دل تمہاری رہنمائی کرے گا‘‘۔
حاصلِ کلام یہ کہ بارگاہِ احمدیت کے راستوں کے طالبوں کے وہ راستے جو کہ دربار احدیت کی جانب جاتے ہیں، اتنے زیادہ ہیں کہ اُن کا بیان ممکن نہیں، کیونکہ کہا گیا ہے کہ "اَلطَّرِیْقَۃُ إِلَی اللہِ تَعَالٰی بِعَدَدِ أَنْفَاسِ الْخَلَائِقِ" ”اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے طریقے مخلوق کی سانسوں کے شمار کے برابر ہیں“ لیکن با ایں ہمہ تمام راستوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلی قسم معاملات والوں کا راستہ ہے جو کہ نماز کی کثرت، روزوں، تلاوتِ قرآن اور حج وغیرہ کی ادائیگی سے ہاتھ آتا ہے، یہ عام مسلمانوں کا راستہ ہے اور یہ راستہ عذابِ ابدی سے نجات کا راستہ ہے، لیکن اِس قِسم کی عبادت گذاری کی راہ سے وصولِ حقیقی مشکل ہے۔ دوسری قِسم مجاہدوں اور ریاضت کرنے والوں کا راستہ ہے اور اپنے اخلاق کو سراپا تبدیل کرنا، اپنے نفس کا تزکیہ اور دل کو مکمل طور سے صاف کرنا ہے، یعنی جو چیز باطن سے تعلق رکھتی ہے، اس کا پاک و صاف کرنا ہوتا ہے، اور یہ ابرار کا راستہ ہے اور یہ لوگ امت کے نیک لوگ ہیں، اور یہ دوسرا طائفہ میانہ رو لوگوں کا ہے اور ان میں واصلانِ حق کی تعداد تھوڑی ہے۔ تیسری قِسم حضرت احمدیت کے مقامِ ارفع کے سیر کرنے والے ہیں جو کہ مقامِ لاہوتی کی فضاؤں میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عنایتِ بے پایاں سے سیر کرتے رہتے ہیں لیکن ایک جگہ قدم رکھ کر دونوں جہانوں کے گرد اڑان کرتے ہیں۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے، ابیَات:
؎ با چشم بستہ صورت جانان نظر کنم
بر جائے نشستہ گرد دو عالم سیر کنم
با آب و خاک شان است دور ز به پیش ما
زیں رو بوقت قطر مگر خاک زر کنم
در خاک برو مست چو بادہ عسل شود
در پیش ما چو زہر بیاری شکر کنم
جز وہم نیست ہر دو جہان غیر ذات او
زیں رمز عشق بے خبراں را خبر کنم
’’میں بندھی ہوئی آنکھوں سے اپنے دوست کو دیکھتا ہوں اپنی جگہ پر بیٹھ کر دو عالم کی سیر کرتا ہوں، اگر اُس مست پر مٹی شراب کی طرح شہد بن جاتی ہے تو اگر میرے پاس زہر لاؤ گے تو میں اس سے شَکر بناؤں گا اِس جہاں میں اس کی ذات کے سوا باقی جو کچھ کہ ہے وہ محض وہم ہے (اور اس کی کوئی حقیقت نہیں)، میں اس عشق کے اس راز سے بے خبر لوگوں کو آگاہی دلاؤں گا‘‘۔
پس یہ تیسری قسم کے لوگ شروع میں دوسروں سے ملے رہتے ہیں اور آخرت میں دوسروں سے الگ رہتے ہیں، یہ سب طریقوں سے بہتر طریقہ ہے اور اس کے معنیٰ موت پر ہیں، اس لیے کہ فرمایا گیا ہے: "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 161/1، دار الفکر بیروت) یعنی موت سے پہلے مر جاؤ۔ اور اس نیک بختی اور سعادت کا ظہور دس منزلوں پر بنایا گیا ہے، پہلی منزل یہ ہے کہ مجھے چاہیے کہ توبہ کروں اور اس توبہ کی حقیقت یہ ہونی چاہیے کہ اس ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب اپنے اختیار سے، موت سے قبل رُخ کر کے متوجہ ہو جاؤں، اور یہ ایسی توجہ اپنی مرضی اور اختیار سے اختیار کرو جیسا کہ تم اضطراری حالت (یعنی موت) کے بعد اختیار کرو گے، اور اضطراری حالت میں تو اُس کی طرف رجوع اور جانا ضروری ہے، مگر وہ حساب میں تو نہیں آتا۔ اور اے میرے محبوب! توبہ کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ کہ تجھے خدا سے باز رکھے خواہ وہ دنیوی ہو یا آخرت سے متعلق ہو، اس سے باز آ کر اُس کو بالکل ترک کرو، کیونکہ یہ گناہ ہے اور یہ وصالِ الٰہی سے منع کرنے والی چیز ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ﴿تُوْبُوْا إِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا أَیُّھَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (النور: 31) ”تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع (توبہ) کرو اے مومنو! اس سے تم فلاح اور نجات پاؤ گے“ بیت ؎
گر نگاہ فقر خواہی اے پسر
از خود و جملہ جہاں اندر گذر
ایں کلاہ بے بہر است اے شاہ پسر
گر دهندت تا تو مے نازی بسر
’’اگر تم فقیر کی نگاہ چاہتے ہو تو اے برخوردار اپنے آپ اور تمام جہان کو چھوڑ کر اس سے آگے گزر جاؤ، یہ تاج انمول ھے اے شہزادے
اگر تمہیں دیں تو تم ناز سے زندگی گذارو گے‘‘۔
اور دوسری منزل یہ ہے کہ اس توبہ کے بعد زہد اختیار کرو، زہد کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے پہلے اپنے اختیار سے اپنے آپ کو اور اپنے مقصود کو چھوڑ کر آؤ، کیونکہ موت کے بعد تو اضطرارًا تم خود ایسا کرو گے، اور وہ ترک و خروج عند اللہ ضروری ہے اور اس کا کوئی حساب بھی نہیں کیونکہ وہ اضطراری ہوتا ہے، پس تم ایسا زہد اختیار کرو کہ تمام درجات اور دنیاوی لذتوں کو چھوڑ کر پس پشت ڈالو، اور اگر یہ سب کچھ تمہیں دے دیں تو آنکھ اُٹھا کر بھی اس کو نہ دیکھو، کیونکہ "اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ الْآخِرَۃِ وَ الْآخِرَۃُ حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ دُنْیَا وَ ھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی" ”دنیا آخرت والوں کے لیے حرام ہے اور آخرت دنیا والوں کے لیے حرام ہے، اور یہ دونوں یعنی دنیا اور آخرت اہل اللہ کے لیے حرام ہیں“ اور اے میرے محبوب! اِن حرام اشیاء میں حرام کیا ہے؟ تو جان لو کہ ان میں دنیا اور عقبیٰ کی لذت حرام ہے، اِن کی خدمت کرنا حرام نہیں، خدمت کرنے میں خدمت کرنے کے علاوہ محبت کرنا نہیں ہوتا، اور حرام صرف غیر اللہ کی محبت ہے خواہ وہ دنیا کی محبت ہو یا عقبیٰ کی۔ پس اے محبوب! محبوبِ ازلی نے یہ خدمت گذاری کا کام اپنے خاص محبوبوں کے لیے مقرر فرمایا ہے، پس حرام یہ ہو گا کہ محبوبِ ازلی کے بغیر کسی دوسرے کے ساتھ محبت کی جائے، خدمت کرنا حرام نہیں، لوگوں نے یہ فرض کیا ہے کہ اگر خدمت بھی حرام گردانی جائے تو ہم مفلس، قلاش اور محتاج ہو جائیں گے، پس حرام سے مُراد محبت باطنی ہے کیونکہ دل اور باطن میں دنیا اور عقبیٰ کی محبت اور لطف اندوزی کی طلب منع ہے۔ ہاں اگر ظاہری طور پر ہزاروں سال بھی خدمت میں مشغول رہو اور تمہارے دل میں بھی غیر اللہ کی محبت نہیں تو اُس وقت یہ خدمت حرام نہ ہو گی، اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرو۔ بیت؎
ہر آں کہ در بنازد ہر دو عالم
نگردد حریم خاص مجرم
’’جو کوئی دونوں جہان اس محبت کے کھیل میں ہار نہ جائے تو وہ حریم خاص کا مجرم نہیں بن سکتا‘‘۔
اس ہارنے اور ہاتھ سے دینے کا مطلب دِلی محبت کرنا ہے، دِل میں ان کی (یعنی دُنیا اور عقبیٰ ہر دو کی) محبت کو جگہ نہ دو کیونکہ "وَ ھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ" کہ یہ دونوں اہل اللہ پر حرام ہیں۔
تیسری منزل توکّل ہے، اور توکّل کی حقیقت یہ ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے اختیار سے اسباب و ذرائع کی طرف نگاہ کرنے سے باز آجاؤ، کیونکہ مرنے کے بعد تو اضطرارًا تمام متعلقاتِ اسباب و ذرائع سے دست کشی اختیار کرو گے، بعد از موت کی دست کشی اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوگی، یعنی اسباب و ذرائع سے وہ لا تعلقی اور دست کشی جو کہ تم اللہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم کے ناطے کرو گے، وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ﴾ (التوبہ: 129) ”اگر یہ روگردانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے، اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں اس پر تکیہ و توکل کرتا ہوں، اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے“۔
اے میرے عزیز! چوتھی منزل قناعت ہے، قناعت کی حقیقت یہ ہے کہ دوست کے سوا ہر کسی سے جدائی اختیار کرو، یعنی کسی کے ساتھ بھی باطنی محبت نہ کرو، نہ بیویوں کے ساتھ اور نہ بچوں کے ساتھ اور نہ کسی غیر کے ساتھ۔ یعنی باطن اور دل میں جیتے جی اپنے محبوب (اللہ تعالیٰ) کے سوا کسی دوسرے کو جگہ نا دو، ورنہ موت کے بعد تو ظاہر ہے کہ قناعت کرو گے، جو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی شمار میں نہیں۔
؎ معاذ اللہ کہ من زیں پس بر اغیار بنشینم
مرا چوں گل بدست آمد چرا با خار بنشینم
چہ باشد به ازیں دولت کہ من در خواب مے جستم
چرا لب بستہ بر دریا چو تو بیمار نشینم
’’خدا کی پناہ! اگر آج دِن کے بعد میں اغیار کے ساتھ بیٹھوں، جب مجھے پھول کی صحبت نصیب ہوتی ہے میں کانٹے کی قریب کیوں پھٹکوں، اس سے زیادہ نعمت کیا ہو گی کہ میں اس کو اپنی نیندوں میں تلاش کرتا تھا، اب بیمار کی طرح لب دریا کیوں ’’تشنہ لب‘‘ اور لب بستہ رہ بیٹھوں‘‘۔
پانچویں منزل اے میرے دوست عزلت ہے، عزلت کی حقیقت یہ ہے کہ جیتے جی غیر اللہ سے اپنے باطن کو بند رکھو، کیونکہ موت کے بعد باطن کا دروازہ غیر اللہ سے بند رکھنے کی کوئی قیمت اور شمار نہیں۔ پس اے برادرِ عزیز! عزلت دو قِسم کی ہوتی ہے: ایک عزلتِ زنانہ، اور دوسری قسم عزلتِ مردانہ، پس عزلتِ زنانہ یہ ہے کہ اپنے اعضاء کو صومعہ میں بند کر کے رکھو اور دِل محلات میں اٹکا رہے، ایسی عزلت و تنہائی کسی کام کی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اور مردانہ عزلت یہ ہے کہ ظاہر میں لوگوں کے ساتھ مجلس آرائی کرتے رہو اور لوگوں سے محوِ کلام رہو مگر باطن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھے رکھو، یہی مردوں کی عزلت ہے۔ بیت؎
1؎ دوستان تعلق باطن زمن برفت
من درمیان جمع و دل من بسوئے دوست
’’اے دوست مجھ سے باطن کا تعلق چھوٹ گیا میں تو لوگوں کی جھمگٹ میں ہوں، اور میرا دل دوست کی جانب مائل ہے‘‘۔ بیت
؎ خرد مند او بود کہ در ہمہ کار
گہے باگل نشیند گاہ با خار
’’وہ شخص عقل مند ہوتا ہے کہ ہر کام میں کبھی گل کے ساتھ ہم نشین ہوتا ہے اور کبھی کانٹے کے ساتھ‘‘۔
اور اس قسم کی عزلت کسی پیرِ کامل کی صحبت اور تربیت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ پس اے بھائی! تربیت دینے والا پیر بھی ایک حاذق طبیب کی طرح ہوتا ہے کہ جب تک مریض کو پرہیز نہ بتلائے اور اسہال کے بعد مناسب غذا نہ دے جس سے وہ قوت حاصل کرے۔ اسی طرح عاشقوں کے لیے عزلت پرہیز کی مانند ہے اور ان کے لیے اسہال وغیرہ یہی ہے کہ ہمیشہ خلا و ملا یعنی خلوت اور جلوت میں اپنے محبوب کے حضور میں رہیں کہ "أَبْدَانُھُمْ فِي الدُّنْیَا وَ قُلُوْبُھُمْ فِي الْآخِرَۃِ مَعَ اللّٰہِ تَعَالٰی" یعنی ان کے بدن دنیا میں اور ان کے دل آخرت میں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔
ابیات:۔ زخم خوردم روز و شب عمرے دراں
تا بصد زاری دوش کردند باز
تا نیابد درد ایں کارت پدید
قصہ ایں درد نتوانی شنید
گر شود ایں درد دامن گیر تو
برکشید سر بسر زنجیر تو
’’میں اس بات کے بارے میں عمر بھر زخم کھاتا رہا یہاں تک کہ بہت منت سماجت کے بعد اس کا دروازہ کھول دیا گیا، جب تک تم اِس کام کے درد کو محسوس نہ کرو گے تو اس درد کی کہانی نہیں سنو گے، اگر تم کو یہ درد حاصل ہو جائے تو تمہاری زنجیریں تمام کی تمام کھول دی جائیں گی‘‘۔
چھٹی منزل ذکر ہے، ذکر دمِ واپسیں سے قبل غیر کی یاری سے اپنے اختیار اور مرضی سے ہاتھ کھینچنا ہے، کیونکہ موت کے بعد ذِکر غیر سے پہلو تہی اضطراری ہوتی ہے۔ ﴿وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیْتَ...﴾ (الکهف: 24) ”جب تمہیں بھول ہو جائے تو اپنے رب کو یاد کرو“ اے میرے برادرِ عزیز! ذکر مرکب ہے نفی و اثبات سے، اور نفی ''لَا إِلٰہَ'' ہے جو کہ نفسِ امّارہ کی مُراد ہے، شہوتِ حیوانی اور اخلاقی ذمیمہ ظلمانی مثلاً کبر، بخل، غرور، حسد، حرص اور ریا کاری وغیرہ سے عذر کرنا ہے۔ ان صفات میں سے ہر ایک صفت روح کے لیے ایک قید ہے اور دل کے لیے بیماری ہے، اور دل اللہ تعالیٰ کا محل ہے اور آفتاب فردانیت کا مطلع انوار ہے، یہ نفی اُس کو حدوثِ ظلمانی سے صاف کرتی ہے۔ اس نفی کے بعد اثبات ''إِلَّا اللّٰہُ'' ہے، جس کے ذریعے دل اخلاقِ ذمیمہ سے سلامتی حاصل کرتا ہے اور زندگی کو حیاتِ طیبہ بناتا ہے اور نورِ وحدت کے جلال و جمال کے ذریعہ ان اخلاقِ ذمیمہ کی تاریکیاں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں، اور اس کے بعد روح کا سلطان جو کہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اپنے جمال و کمال کی جلوہ آرائیوں سے مزین ہو کر تم کو اپنے جلوے مشاہدہ کرائے گا۔ اور اے میرے محبوب! تمہارے جسم کی زمین کو ہدایت کے انوار اور جمال و کمال کی روشنی سے منور کرائے گا اور تمہارا جسم عزت کے سورج کی روشنی میں متلاشئ حق ہو جائے گا اور ما سویٰ اللہ کا غبار اس روشنی میں تمہارے جسم سے کافور ہو جائے گا اور مذکورہ جمال ذاکر کے عین باطن میں ظاہر ہو جائے گا اور ''ھُوَ'' کا اشارہ تمہارے دل میں مضبوط اور محکم ہو جائے گا۔ ابیات
؎ تاکہ باشد یاد غیرے در حساب
ذکر مولیٰ از تو باشد در حجاب
گر شوی چوں خاک در رہ پائمال
تا ابد جان را بدست آری کمال
تا بود یک ذرہ از ہستی بجائے
کفر باشد گرانی در عشق پائے
تا توئی خویشی عدد بینی ہمہ
چوں توئی فانی احد بینی ہمہ
’’اگر تمہارے حساب میں غیر اللہ کی یاد ہو تو مولیٰ کا ذکر تم سے پردے میں ہوگا، (اگر تمام دنیا تمہارے ثواب سے بھرپور ہوگی تُو جب تک موجود ہو، اپنے آپ کو فانی نہ کرو، تو یہ سب تمہارے لیے باعثِ عذاب ہو گا
) اگر تم راستے میں مٹی کی طرح پامال ہو جاؤ گے، تو ابد تک تم روح کو حاصل کرتے رہو گے جب تک تم میں ہستی (یا انانیت) کا ایک ذرہ بھی موجود ہو گا تو تمہارے لیے عشق کی راہ میں قدم رکھنا کُفر ہے جب تک تم اپنے آپ کو دیکھو گے تو تم عدد (کثرت) دیکھو گے اور جب تم اپنے آپ کو فانی تصور کرو گے تو ہر سِمت احد احد دیکھو گے‘‘۔ (غیر اللہ کو خواہ وہ تمہاری ذات ہو یا اور کوئی چیز کو فنا اور محو کرنے سے ”وہ“ مل جاتا ہے)
ساتویں منزل توجہ ہے، اور اے بھائی! توجہ کی حقیقت خدائے بے نیاز کی جانب موت سے قبل رُخ کرنا ہے، جب کہ تو موت کے بعد اضطرارًا خواہی نخواہی توجہ کرے گا، مگر وہ توجہ کام کی نہیں اور وہ کسی شمار کی نہیں۔ پس اے پیارے بھائی! ہمت کو بلند رکھو اور حق تعالیٰ کے ما سوا کسی کو مطلوب و محبوب بنا کر اس کی جانب التفات نہ کرو، حتی کہ اگر انبیاء کا مقام بھی تمہیں پیش کیا جائے تو بھی آنکھ اُٹھا کر اس کی طرف توجہ نہ کرو اور خدا تعالیٰ کے سوا باطن میں کسی چیز میں بھی مشغول نہ ہو۔ خدا اُس شخص کو بایزید جیسی ہمت دے جس نے بایزید سے کہا کہ اے بایزید! میں تجھے محمد رسول اللہ ﷺ بناؤں گا۔ بایزید نے جواب دیا کہ اے بارِ خدایا! محمد ﷺ تو تمہارا ایک ہے۔ فرمان آیا کہ میں تمہیں ایسے عالم میں بھیجوں گا کہ اس دنیا میں آدم، نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام کو مبعوث کروں گا اور تم پر نبوت ختم کروں گا۔ بایزید نے کہا کہ مجھے آپ کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ حکم صادر ہوا کہ اے بایزید! تم میرے قرب میں رہا کرو۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں سن نو سو اسی (980ء) میں بلخ میں تھا اور میں نے تمام علوی اور سفلی جہانوں کو اپنے لیے تلخ بنا رکھا تھا، اچانک آدھی رات کو میرے کان میں آواز آئی کہ اے فقیر! میں تجھ کو مقامِ نبوت تک ترقی دیتا ہوں کہ نبوت تم پر ختم کرا دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ اے میرے خدا! ختم الرسل تو جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ کم ترین فقیر تو اُن کے دربار کے کُتوں میں سے ہے۔ "ثُمَّ قُلْتُ أَنَا مَشْغُوْلٌ بِکَ وَ أَنْتَ مَقْصُوْدِیْ فَلَیْسَ لِیْ مَقْصُوْدٌ سِوَاکَ فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ یَا مَحْبُوْبُ أَنْتَ مَشْغُوْلٌ بِیْ وَ أَنَا مَشْغُوْلٌ بِکَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَا نِہَایَۃَ لَہٗ حَیْثُ خَاطَبَنِیْ بِہٰذَا الْخِطَابِ" ”پھر میں نے عرض کیا کہ میں تیرے ساتھ محبت کرتا ہوں اور تو ہی میرا مقصود ہے، تیرے سوا میرا کوئی مقصد نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اے میرے محبوب! تم میرے ساتھ محبت کرتے ہو اور میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ پس حمد و ثنا ہے اللہ جلّ شانہٗ کے لیے جس کی کوئی نہایت اور انتہا نہیں کہ اس نے مجھ سے یہ خطاب فرمایا“۔ اے بھائی! جب کوئی درویش مقامِ کبریا کو پہنچتا ہے تو اس درویش کو انبیاء علیہم السلام کا مقام پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس لیے کہ اس کا امتحان لیا جاتا ہے کہ وہ عالی ہمت ہے یا کہ پست ہمت۔ اگر پست ہمت ہو اور اس ترقی مقامات کی طرف دھیان کرے اور دِل میں اس مقامِ رفیع کی تمنا کرے تو فوراً اس موجودہ مقام سے بھی گرا دیا جاتا ہے اور اس کی حالت اُلٹ جاتی ہے۔ پس اے میرے محبوب! جو لوگ نبوت کے خادموں کی قطار میں ہوں اُن کو مسندِ نبوت سے کیا واسطہ کہ اُس کی خواہش کریں۔ بیت
؎ من از جام محبت مست گردم
دو عالم پیش من گشت ست پستم
ندارم لاف فرزندی دریں راہ
منم خاک درش ہستم و ہستم
’’میں محبت کے جام سے مست ہوا ہوں، میرے سامنے دونوں جہانوں کی رفعتیں پست ہیں، میں اس راستے میں فرزندی (وارث ہونے) کی ڈینگ نہیں مارتا، میں اُس کے دروازے کی مٹی کے برابر ہوں اور (یہ بات تاکیدًا اور مکررًا کہتا ہوں کہ میں اس کے کوچے کی مٹی) ہوں‘‘۔
آٹھویں منزل صبر ہے، اور صبر کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں جہانوں کے لطف انگیزیوں اور لذتوں سے اپنے ظاہر و باطن کی آنکھیں بند کر لی جائیں اور مرنے سے پہلے محبت پر ثابت قدم رہا جائے کیونکہ مرنے کے بعد تو یہ سب کچھ اضطراری طور پر کیا جاتا ہے۔ پس اے برادرِ عزیز! صبر اختیار کرو تاکہ اُس کے نورِ مقدس میں گم ہو جاؤ۔ بیت
؎ در نور مقدس چوں گشتم پنھان
و از حد مکان گذشتم اے جان جہَان
در مسند عشق و مقرب گشتم
اندر رہ من نہ ایں ماند و نہ آن
’’میں جب مقدس نور میں پوشیدہ ہو گیا اور اے میرے پیارے! میں مکان کی حدود سے آگے نکل گیا اس کے عشق کی مسند پر مقرب بن گیا میرے راستے میں نہ یہ رہا اور نہ وہ‘‘۔
نویں منزل مراقبہ ہے، اور اے برادرِ عزیز! مراقبے کی حقیقت یہ ہے کہ ظاہر و باطن کی آنکھ کو محبوب و مطلوب پر جمائے رکھو اور موت سے قبل اپنی حرکات و سکنات کو اپنے محبوب و مطلوب کے لیے وقف رکھو، کیونکہ مرنے کے بعد یہ سب کچھ تو اضطراری طور پر ہوگا جو کسی شمار میں نہیں۔ اور اے میرے پیارے! مراقبہ یہ ہے کہ تصفیۂ قلب اور تزکیہ نفس کے بعد اللہ تعالیٰ کے مواہب و عطایا کے دروازوں کے کھلنے کا انتظار کیا جائے اور اللہ کریم کے نہ ختم ہونے والے لطف و کرم کی نسیمِ خوشگوار کے جھونکوں کے انتظار میں رہا جائے اور موت کے میدان میں جوان مردوں کی طرح ہمت کا قدم بڑھایا جائے، احدیت کے سمندر میں غوطہ کھا کر اپنی زندگی کے پروانے کو جمالِ احمدیت کی شمع پر جلا دیا جائے اور اسی شمع کی روشنی میں فراق و جدائی کی منازل کو طے کیا جائے اور حجاب کی بدبختی کی گڈری کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو اُس کے حوالے کیا جائے، اور مجاہدوں کی بساط کو طے کر کے مردہ دِل کو مشاہدات کے انوار سے زندہ کر دیا جائے اور نفس کی سیّئات اور برائیوں کو حسنات اور نیکیوں میں تبدیل کیا جائے۔ ﴿اُوْلٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِھِمْ حَسَنَاتٍ...﴾ (الفرقان: 70) ”یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی بدیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے“ اور اس کے بعد اپنے آپ کو پاک دامنی اور عصمت کے حصار میں محفوظ رکھو، تاکہ جمال و جلال کے خورشید نورانی کو ازل و قدم کے صحرا میں جلوہ گر ہوتے دیکھو اور آسمان و زمین اور جسم و قالب کی تاریکیوں سے مکمل نجات حاصل کرو۔ ﴿ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَ اللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الحدید: 21) ”یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے اُسی پر اپنا فضل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت زیادہ فضل کرنے والا ہے“
نظم
ہر کہ با او ہم دم و ہم خود براست
یکدم از ملک دو عالم برتر است
با خدائے خویش دائم در حضور
چوں شود دِل تنگ با آں شمع نور
گر تو خواہی تا شوی از اہل راز
تا ابد منگر بسوئے ہیچ باز
زانکہ ہر جائے نظر خواہی فگند
اے کہ از جملہ نفوری ارجمند!
ہر کہ را آئینہ گر در بادشاہ
کفر باشد گر کُند با خود نگاہ
گر گدائی او ترا شاہت کند
ورنہ آگاہی و آگاہت کند
’’جو کوئی اس کے ساتھ ہمدم و ہمراز ہو، تو وہ دونوں جہانوں کی حکومت سے بالا و برتر ہے، ہمیشہ اپنے خدا کی حضور میں رہتا ہے اور اس نورانی شمع سے کس طرح دل تنگ اور سیر ہو جائے گا، اگر تم چاہتے ہو کہ تم اہل راز میں سے ہو جاؤ تو تمہیں چاہیے کہ ابد تک کسی دوسرے کی جانب نگاہ اُٹھا کر نہ دیکھو، (اگر تم سب سے متنفر ہو تو تم نیک بخت ہو)۔ اور ہر جگہ تم نظر ڈالتے ہو تو سب سے نفرت کر کے اُسی ایک کے ہو جاؤ، بادشاہ جس کے لیے خود آئینہ بن جائے تو اس کے بعد اگر وہ اپنے آپ کو دیکھنا چاہے تو یہ کفر کی بات ہے۔ (اگر تم اس کے ہو جاؤ، تو) اگر تم فقیر و گدا بھی ہو تو وہ تم کو بادشاہ اور شہنشاہ بنا ڈالے گا اور اگر تم کو کچھ خبر نہ ہو تو وہ تم کو خبر دار کرے گا‘‘۔
دسویں منزل رضا ہے، اور رضا کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے قبل اپنے محبوب کے راستے کو برضا و خواہش اختیار کیا جائے، کیونکہ موت کے بعد خواہی نخواہی یہی اختیار کرنا پڑتا ہے، اور اپنے محبوب کی رضا جوئی سالکوں کے لیے بلند ترین مقام ہوتا ہے۔ اس مقام میں ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک منفرد اور مخصوص مقام رکھتے تھے اور اپنے خدا سے عظیم فضل و احسان اور نوازش سے نوازے گئے تھے اور رضا جوئی کے کام میں ثابت قدم تھے، لیکن مبتدی سالک مقام مسکنت و حقارت میں ہوتا ہے۔ پس اے میرے عزیز بھائی! جو شخص اپنی مُراد و مقصود کا طالب ہو اُس کو چاہیے کہ اپنے آپ کو درمیان سے اٹھائے اور اپنے بڑے اور عظیم کام کو عظیم ترین ہستی کے سُپرد کرے، اِس کے نتیجے میں وہ بے انتہا بخشش پائے گا اور مقامِ کبریائی میں باریاب ہو جائے گا۔ اے میرے محبوب بھائی! جناب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی جانب سے حکایت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ "مَنْ شَغَلَہٗ ذِکْرِيْ عَنْ مَسْئَالَتِيْ أَعْطَیْتُہٗ أَفْضَلَ مَا اُعْطِيَ السَّائِلِیْنَ" (شرح الزرقانی علی الموطأ، کتاب القرآن، باب: ما جاء في الدعاء، رقم الصفحۃ: 51/2، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، قاہرۃ) یعنی جس کسی نے میرا ذکر جاری رکھتے ہوئے مجھ سے سوال نہ کیا تو میں اُس کو دیگر سائلین سے بہتر عطا کرتا ہوں اور وہ آدمی جو کہ سوال اور طلب کے میدان اور صحرا میں گم گشتہ راہ پھر رہا ہو، وہ اس آدمی کے برابر کیسے ہو سکتا ہے جو کہ راضی برضا ہو اور سوال و طلب سے ماوراء ہو اور خود بینی خود غرضی اور کیسے، کیوں اور کیوں کر کے چکر سے دور ہو، تم کو چاہیے کہ اس پر اچھی طرح سے غور کرو۔ بیت۔
؎ تو نکردی ہیچ کم چیزے مگو
و آنکہ جوئی نیست آن چیزے مگوئی
آنچہ گوئی آنچہ جوئی ہم توئی
خویش را بشناس صد چنداں توئی
’’تم کچھ بھی نہ کہو تم سے کچھ بھی کم نہیں ہو گا۔ اور جو تم تلاش کرتے ہو، یہ نہ کہو کہ وہ نہیں ہے جو کچھ تم کہتے ہو یا ڈھونڈتے ہو وہ تم ہی ہو۔ اپنے آپ کو پہچان لو کہ تم اُس سے سو گنا زیادہ ہو‘‘۔
یہ اشعار شیخ محمد حسین صاحب نے فرمائے ہیں۔