ساتواں باب
حضرت صاحب کے متفرق حالات و مقامات اور انفاس کے بیان میں
ہمارے حضرت صاحب بہت زیادہ معلومات اور دسترس رکھتے تھے، اور انفانس کے حالات میں بہت زیادہ درک اور کافی زیادہ اور عمیق معلومات ان کو حاصل تھیں، کوئی بھی چیز اُن سے مخفی و مستور نہیں ہوتی تھی۔ علمِ توحید اور علمِ شریعت کے بعد کوئی بھی علم، علمِ سلوک سے بڑھ کر شریف نہیں۔ علم حاصل کرنے اور تعلیم دلانے کے بعد کوئی فن بھی فنِ ریاضت سے اشرف و افضل نہیں، ہاں یہ بات یاد رہے کہ علمِ سلوک ایک ایسی مفید چیز ہے جو کہ جہالت کے صحرا میں گرے پڑے لوگوں کو اپنے دینی مقصد تک پہنچاتی ہے، اور ریاضت ایک ایسا عمل ہے جو کہ ضلالت و گمراہی کے بیابان اور لق و دق صحرا کے گم کردہ راہوں کو یقین کی منزل تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ علم سلوک کی اصطلاحات میں سے ایک کو ”حال“ کہتے ہیں اور "اَلْحَالُ مَا یَرِدُ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ طَرَبٍ أَوْ حُزْنٍ أَوْ بَسْطٍ أَوْ قَبْضٍ وَّ الْحَالُ سُمِّيَ حَالًا لِّتَحَوُّلِہٖ مِنْ حَالٍ إِلٰی حَالٍ" ”اور حال وہ ہوتا ہے جو کہ دل کو ایک حالت یعنی خوشی، غم، بسط اور قبض سے دوسری جانب لے جاتا ہے، اور حال کو حال اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں تحوّل یعنی ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جانے کا عمل ہوتا ہے“
ریاضت کے میدان کے شہسوار کہتے ہیں کہ ایمان، توبہ، زہد اور دائمی عبادت گذاری کے گھوڑے پر سوار ہو کر تمام احوال و مقامات کو فتح کرے۔ اور ان چار چیزوں کی امداد کے بغیر مندرجہ بالا چار چیزوں پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی اور وہ چار چیزیں یہ ہیں: "وَ ھِيَ قِلَّۃُ الْکَلَامِ وَ قِلَّۃُ الطَّعَامِ وَ قِلَّۃُ الْمَنَامِ وَ الِاعْتِزَالُ عَنِ النَّاسِ" یعنی کم بولنا، کم کھانا، کم سونا اور لوگوں سے کنارہ کش رہنا۔ اب یہ بات یاد رکھو کہ سلوک میں ایک کو صاحبِ وقت کہتے ہیں اور ایک کو صاحبِ احوال کہتے ہیں اور ایک کو صاحبِ انفاس کہتے ہیں۔ صاحب وقت مبتدی ہوتا ہے اور صاحب انفاس منتہی اور صاحب احوال اِن دونوں کے درمیانی درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اور احوالِ متناہی نہیں ہوا کرتے، یعنی اِن کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، کیونکہ احوال اللہ تعالیٰ کے عطیہ اور مواہب میں سے ہوتے ہیں اور مواہب الٰہی کی انتہا نہیں ہوتی۔ مختصر یہ کہ احوال غیبی عطیہ اور مواہب ہوتے ہیں اور عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کی تشریح، توضیح اور بیان ذوق قلم سے ادا نہیں کی جا سکتی۔ "قَیْلَ الْمَقَامَاتُ مِنَ الْمَکَاسَبِ وَ الْأَحْوَالُ مِنَ الْمَوَاھِبِ" ”اہل اعلم کہتے ہیں کہ مقامات کا حصول کسب و عمل سے تعلق رکھتا ہے اور احوال کا انحصار اللہ تعالیٰ کی دین ہے“:
اِیں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشنده
قطعہ کین سلامت نشان بے عیبی است
حالِ حاصل زکسب نتواں کرد
حالِ خوش از مواهب غیبی ست
(مصرعۂ چہارم درج نہیں)
مختصر یہ کہ حال، کسب و عمل سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، یہ مواہب غیبی اور فیض الٰہی میں سے ہوتا ہے۔ یہ بات جاننی چاہیے ہے کہ اس علم کی اصطلاحوں میں سے ایک ”وجد“ ہے، اور وجد کی تعریف علمائے سلوک یہ کرتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ مَا یُرِدُ عَلَی الْقَلْبِ بِلَا تَکَلُّفٍ" یعنی جو وجدانی طور پر بغیر کسی تکلف اور آورد کے دِل پر چھا جائے۔ اور اہل معرفت کہتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ تَرَقِّی الْقَلْبِ لَا یَطَلِّعُ عَلَیْہِ أَحَدٌ إِلَّا اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی" یعنی وجد دِل کی وہ حالت ہوتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو کوئی آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ وَارِدُ الْحَقِّ إِذَا جَاءَ تَضْطَرِبُ الْقُلُوْبُ إِلَی الْحَقِّ" یعنی وجد حق (یعنی اللہ تعالیٰ) کی جانب سے وارد ہوتا ہے اور جب یہ ورود کرتا ہے تو دل اللہ تعالیٰ کی جانب بے چین ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحب حال شخص یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک مجلس میں حاضر ہوا، اس مجلس کی باتوں سے اس پر وجد طاری ہوا اور سخت اضطراری حالت سے دو چار ہوا۔ "فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ: مَا ھٰذَا؟ فَقَالَ: کَلَامُ الرَّبَّانِیَّۃِ ھَیَّجَ فِيْ أَسْرَارِ الْوَحْدَانِیَّۃِ فَانْمَّحَتْ صِفَاتُ الْإِنْسَانِیَّۃِ و ظھَرَتْ أَحْکَامُ الرَّبَّانِیَّۃِ" ”تو اس سے ایک شخص نے کہا کہ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس نے وحدانیت کے اسرار میں ہیجان پیدا کیا، پس انسانی صفات مٹ گئیں اور ربانی احکام ظاہر ہو گئے“
اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ "اَلْوَجْدُ أَوّلُہٗ حُلْوٌ وَّ أَوْسَطُہٗ مُرٌّ وَّ آخِرُہٗ سَقْمٌ" یعنی وجد کی ابتدا میں مٹھاس، وسط میں تلخی اور آخر میں بیماری ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے ایک ”تواجد“ ہے: "وَالتّوَاجَدُ اسْتِدْعَاءُ الْوَاجِدِ عَنْ نَفْسِہٖ وَ لَیْسَ لِصَاحِبِ التَّوَاجُدِ کَمَالُ الْوَجْدِ" یعنی تواجد اپنے نفس سے وجد کرنے کی استدعا کرنی ہے (یعنی آمد نہیں آورد ہے) اور صاحبِ تواجد کو وجد کا کمال حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! تواجد بابِ تفاعل سے ہے اور اسی بابِ تفاعل میں ایسی صفت کا اظہار ہوا کرتا ہے جو کہ وہ صفت اس کے صاحب میں نہیں ہوتی، جیسا کہ تمارض (اپنے آپ کو بہانہ سازی سے مریض بنانا) یا تجاہل (جان بوجھ کر جاہل بننا)۔ وجد اُس حال کو کہتے ہیں جو کہ بلا تکلف اور بے ساختہ اس صاحبِ حال سے صادر ہو جائے، اور تواجد اُس حال کو کہتے ہیں جو کہ اُس کے صاحب سے تصنّع اور تکلف سے ظاہر ہو، اِس حال اور اُس حال میں بہت بڑا فرق ہے "لَیْسَ التَّکَحُّلُ فِي الْعَیْنِ کَالْکُحْلِ" ”آنکھ میں سُرمہ لگانا، سرمے جیسا تو نہیں ہوتا“ اور فقر ایک مذہب ہے اور جس کسی میں اس کی صفاتِ حسنہ ہوں تو اُن صفاتِ حسنہ کا ظاہر کرنا فقر کے مذہب میں جائز نہیں۔ اور جس میں صفات حسنہ نہ ہوں تو ان کا اظہار کرنا کہاں جائز ہوگا؟ بعض درویشوں کو ملامتی کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا طائفہ ہوتا ہے کہ نہ تو یہ اپنی نیکی عمل میں لا سکتے ہیں اور نہ اپنی برائیوں کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ یہ ضروری بات بھی جاننی چاہیے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے قبض و بسط ہیں: "وَھُمَا حَالَانِ یُشْبِہَانِ الْخَوْفَ وَ الرَّجَاءَ" ”اور یہ دونوں یعنی قبض و بسط، خوف اور امید کے مشابہ ہیں“ منتہی کے لیے قبض و بسط ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ مبتدی کے لیے خوف و رجا ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض کہتے ہیں کہ قبض و بسط خوف و رجاء سے بلند تر ہوتے ہیں، لیکن بعض کہتے ہیں کہ "اَلْقَبْضُ یَتَوَلَّدُ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْبَسْطُ یَتَوَلَّدُ مِنَ الرَّجَاءِ" یعنی قبض خوف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور بسط امید و رجا کے سہارے ظہور میں آتا ہے۔ اور اہلِ ریاضت کی رائے ہے کہ "اَلْقَبْضُ حَالَۃُ الِافْتِقَارِ، وَ الْبَسْطُ حَالَۃُ الِافْتِخَارِ" یعنی حالتِ قبض عجز و نیاز اور فقیری کی حالت ہے، اور حالتِ بسط ناز و افتخار کی حالت ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ قبض رزق کی تنگی اور بسط اس کی فراخی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ قبض دنیا داری اور بسط ترکِ دنیا ہے اور قبض و بسط ارادت غیبی کے طفیل ہوا کرتے ہیں، "لَا یَدْرِيْ صَاحِبُھَا عَنْھُمَا" ”صاحب قبض و بسط ان دونوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا“
ہمارے حضرت صاحب کو علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین کے متعلق پورا حصّہ اور کامل علم حاصل تھا، وہ اِن مقامات کے بارے میں کافی دسترس رکھتے تھے۔ کیونکہ اِن سب مقامات کو طے کر چکے تھے اور اِن سب کو دیکھ چکے تھے اور اِن سے لطف اندوز ہوئے تھے۔ "فَعِلْمُ الْیَقِیْنِ مَا کَانَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَالِاسْتِدْلَالِ وَ عَیْنُ الْیَقِیْنِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَ الشُّکْرِ وَ النَّوَالِ وَ حَقُّ الْیَقِیْنِ مَا کَانَ بِہٖ تَحْقِیْقُ الِانْفِصَالِ عَنْ لَوْثِ الصَّلْصَالِ، وَ قِیْلَ عِلْمُ الْیَقِیْنِ لِلْأَوْلِیَاءِ وَ عَیْنُ الْیَقِیْنِ لِخَواصِّ الْأَوْلِیَاءِ وَ حَقُّ الْیَقِیْنِ لِلْأَنْبِیَاءِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ" ”علم الیقین وہ ہوتا ہے جو کہ نظر اور استدلال سے حاصل ہوتا ہے، عین الیقین نظر، شکر اور عنایتِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے اور حق الیقین کیچڑ اور مٹی سے جوہر اصلی کو جدا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ علم یقین اولیاء کے لیے، عین الیقین خواص اولیاء کے لیے اور حق الیقین انبیاء علیہم السلام کے لیے ہوتا ہے“
اس کے علاوہ اس علم کی اصطلاحات میں سے محاضرہ، مشاہدہ اور مکاشفہ ہے۔ محاضرہ اربابِ تلوین 1؎ اور اہلِ علم الیقین کا حق ہے، اور مکاشفہ اربابِ تلوین، اصحابِ تمکین اور اہلِ علم الیقین کے درمیان ایک امر ہے، اور سالکوں کے لیے غیبت و حضور ہوا کرتے ہیں۔ "اَلْغَیْبَۃُ أَنْ یَّغِیْبَ الْقَلْبُ مِنْ أَحْوَالِ الدُّنْیَا وَ الْحُضُوْرُ أَنْ یَّحْضُرَ بِأَحْوَالِ الْعُقْبٰی" ”غیبت یہ ہے کہ احوال دنیا سے دل غائب ہو کر رہے اور دل سے احوال دنیا غائب رہیں، اور حضور یہ ہے کہ دل میں احوال عقبیٰ حاضر رہیں“ اور بعض کہتے ہیں کہ غیب سکر کی منزل پر ہے اور حضور، صحو کے مشابہ ہے۔
حضرت صاحب کو محو و اثبات اور فنا و بقا میں کمال کا درجہ حاصل تھا اور اس میں کافی مہارت اور دسترس رکھتے تھے گویا کہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ایک عظیم سمندر تھے، محبت اور معرفت میں غایتِ استغراق کی کثرت کی وجہ سے اکثر مدہوش اور متحیّر رہا کرتے تھے، اور دم مارنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے اور "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ کَلَّ لِسَانُہٗ" یعنی ’’جس کو، معرفت الٰہی نصیب ہو جاتی ہے تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے‘‘ کے مقامِ رفیع تک رسائی حاصل کر چکے تھے۔ بیت ؎
گر کسے وصف او از من پرسد
بے دل از بے نشان چہ گوید باز
’’اگر کوئی شخص مجھ سے اس کی صفت بیان کرنے کا مطالبہ کرے تو بھلا ایک بے دل آدمی ایک بے نشان چیز کے بارے کیا کہہ سکتا ہے‘‘
آپ ہستی کے میدان سے نکل کر بقا و فنا کے میدان میں آرام فرما تھے، اور حیرت کے ایک گوشے میں بیٹھ کر غیر حق کو فراموش کر چکے تھے "فَمَعْنَی الْمَحْوِ رَفْعُ أَوْصَافِ الْعَادَۃِ وَ مَعْنَی الْإِثْبَاتِ إِقَامَۃٌ وَّ مَعْنَی الْبَقَاءِ أَحْکَامُ الْعِبَادَۃِ" ”محو کے معنیٰ عادتی صفتوں کا زائل ہونا اور اثبات کے معنیٰ اقامت ہیں، یعنی ثابت رہنا، اور بقا کے معنی عبادت کے احکام ہیں۔‘‘ اور پھر محو تین طرح کا ہوتا ہے: "مَحْوُ الذَّاتِ عَنِ الظَّوَاھِرِ وَ مَحْوُ الْغَفْلَۃِ عَنِ الضَّمَائِرِ وَ مَحْوُ الْغَیْبَۃِ عَنِ السَّرَائِرِ" یعنی ظاہری اشیاء
(حاشیہ: 1؎ تلوین۔ گوناگون کرنا۔ رنگا رنگ بنانا۔ اور تصوف میں ایک مقام کا نام ہے)
و احکام سے ذات کا محو ہونا اور ضمائر سے غفلت کا محو ہونا اور اسرار و رموز سے غیبت کا محو ہونا۔ اور اسی طرح فنا "وَ مَعْنَی الْفَنَاءِ سُقُوْطُ أَوْصَافِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَ الْغَفْلَۃِ وَ ثُبُوْتُ أَوْصَافِ الْمَحْمُوْدَۃِ" یعنی فنا کے معنیٰ ہیں بُری اور غفلت کی بد ترین عادتوں کا ساقط ہونا اور اوصافِ محمودہ کا ثابت، قائم اور برقرار ہونا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "اَلْفَنَاءُ صِفَۃُ الْکَوْنِ وَ الْبَقَاءُ صِفَۃُ یَکُوْنَ وَ مَا کَانَ لِأَجْلِ الْکَوْنِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ یَعْنِی الْکَوْنُ ﴿وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ یَعْنِي الْمُکَوِّنَ فَأَعْمَالُ الْمُخْلِصِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْبَقَاءِ لِأَجْلِ الْکَوْنِ وَ أَعْمَالُ الْمُرَائِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْفَنَاءِ لِأَجْلِ أَنْ یَّطْلُبُوْا بِھَا عِزّۃً وَّ قُوَّۃً"
ترجمہ: ”فنا کون کی صفت ہے اور بقا یکون کی صفت ہے کون کے سبب سے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ (الرحمن: 26) 1؎ یعنی کون (یعنی کائنات اور بنائی ہوئی اشیاء) ﴿وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ (الرحمن: 27) 2؎ یعنی مکوِّن، اور وہ باقی رہے گا۔ یعنی مکوِّن (خالق) کی ذات باقی رہے گی۔ تو مخلصین کے اعمال بقا کے حکم میں داخل ہیں کون کی وجہ سے، اور ریاکاروں کے اعمال فنا کے حکم میں داخل ہیں، اس وجہ سے کہ وہ اس سے عزت اور قوت چاہتے ہیں“
اور فانی اُس کو کہتے ہیں کہ "لَا یَبْقٰی لِنَفْسِہٖ حَظٌّ وَّ لَا لَہٗ مَعَ نَفْسِہٖ نَصِیْبٌ" یعنی نہ تو اُس کو اپنے نفس سے کچھ لطف اور حَظ حاصل ہو اور نہ نفس کا اس میں سے کچھ حصّہ ہو۔ اور کہتے ہیں کہ "اَلْبَقَاءُ فَنَاءُ الْجَھْلِ بِبَقَاءِ الْعِلْمِ وَ فَنَاءُ الْغَفْلَۃِ بِبَقَاءِ الذِّکْرِ وَ فَنَاءُ الْمَعْصِیَۃِ بِبَقَاءِ الطَّاعَۃِ وَ فَنَاءُ الشَّکِّ بِبَقَاءِ الْیَقِیْنِ وَ فَنَاءُ الرَّغْبَۃِ بِبَقَاءِ الزُّھْدِ وَ فَنَاءُ الْحِرْصِ بِبَقَاءِ الْقَنَاعَۃِ وَ فَنَاءُ الْبُخْلِ بِبَقَاءِ السَّخَاوَۃِ وَ فَنَاءُ الْکُفْرِ بِبَقَاءِ الشُّکْرِ وَ فَنَاءُ الْجَزَعِ بِبَقَاءِ الصَّبْرِ وَ فَنَاءُ السَّخَطِ بِبَقَاءِ الرِّضَاءِ وَ فَنَاءُ الشِّبَعِ بِبَقَاءِ الْجُوْعِ وَ فَنَاءُ الرِّیَاءِ بِبَقَاءِ الْإِخْلَاصِ وَ فَنَاءُ الْکَذِبِ بِبَقَاءِ الصِّدْقِ وَ فَنَاءُ التَّکَبُّرِ بِبَقَاءِ التَّوَاضُعِ وَ فَنَاءُ الْکُلِّ مَا دُوْنَ الْحَقِّ بِالْبَقَاءِ مَعَ الْحَقِّ"
ترجمہ: ”جہالت، غفلت، معصیت، شک، دنیا کی طرف رغبت، حرص، بخل، کفر، جزع، (فریاد کرنا) سخط، بھرے پیٹ کھانا، ریاکاری، جھوٹ، تکبر، غیر اللہ کی فنا؛ علی الترتیب علم، ذکر، طاعت، یقین، زہد، قناعت، سخاوت، شکر، صبر، رضا، بھوک، اخلاص، سچائی، تواضع اور مع اللہ
(حاشیہ: 1؎ جو کچھ دنیا میں ہے فانی ہے۔ سورۃ الرحمٰن آیت 26)
(حاشیہ: 2؎ اور تمہارے رب کی ذات باقی رہے گی۔ 27)
کی بقاء سے ہے“
اور حقیقت کی بات یہ ہے کہ حضرت صاحب اِن اوصافِ فنا و بقا سے موصوف تھے، اور حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ شکر اور محو میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے اور ان کی تمام حقیقتوں کے شناسا تھے، اور آپ اِس سے آ گاہ تھے کہ اِن میں سے کوئی حال آپ سے پوشیدہ اور مخفی نہیں۔ "فَالسُّکْرُ اِسْتِیْلَاءُ سُلْطَانِ الْأَحْوَالِ وَ الصَّحْوُ الْعَوْدُ إِلٰی تَرْغِیْبِ الْأَفْعَالِ وَ السُّکْرُ لِأَرْبَابِ الْقُلُوْبِ وَ الصَّحْوُ لِلْأَصْحَابِ الْمُکَاشِفِیْنَ حَقَائِقَ الْغُیُوْبِ" ”سکر احوال کی قوت کا غلبہ ہے اور صحو افعال کے کرنے کی ترغیب کی جانب پلٹ آنا ہے، سکر اربابِ قلوب اور اہلِ دل کے لیے ہے اور صحو غیب کی حقیقتوں کے مکاشفہ کرنے والوں کے لیے ہے“
اور اس علم کی رسومات میں سے ایک جمع و تفرقہ ہے، جمع کی تعریف اہلِ تصوف نے یوں فرمائی ہے: "اَلْجَمْعُ ھُوَ أَنْ یَّکُوْنَ فَانِیًا عَنْ نَفْسِہٖ وَ یَرَی الْأَشَیَاءَ کُلَّھَا بِہٖ وَ لَہٗ وَ إِلَیْہِ وَ مِنْہُ" یعنی جمع یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے فانی ہو جائے اور تمام اشیاء ایسی نظر سے دیکھے کہ یہ اُس کے ذریعے سے ہیں، اس کے لیے ہیں، اس کی جانب ہیں اور اس کی جانب سے ہیں۔ اور تفرقہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل و کردار عبودیت سے حاصل کرے، "فَلَا بُدَّ لِلْعَبْدِ مِنَ الْجَمْعِ وَ التَّفْرِقَۃِ فَإِنَّ مَنْ لَا تَفْرِقَۃَ لَہٗ لَا عُبُوْدِیَّۃَ لَہٗ وَ مَنْ لَا جَمْعَ لَہٗ لَا مَعْرِفَۃَ لَہٗ ﴿یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ﴾ إِشَارَۃٌ إِلیَ التَّفْرِقَۃِ" بندہ کے لیے جمع اور تفرقہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کیونکہ جس کو تفرقہ نہ ہو اس کو عبودیت نصیب نہیں، اور جس کو جمع حاصل نہ ہو اس کو معرفت ہاتھ نہیں آتی، ﴿یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ...﴾ (البقرۃ: 213) کا اشارہ اہل تفرقہ کے لیے ہے۔ ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: "اَلْجَمْعُ بِالْحَقِّ بِہٖ تَفْرِقَۃٌ مِّنْ غَیْرِہٖ وَ التَّفْرِقَۃُ مِنْ غَیْرِہٖ بِالْجَمْعِ بِہٖ"
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب قلبِ سلیم کے مالک تھے اور قلبِ سلیم بغیر انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کے اور کسی کا نہیں ہوتا، جو کہ اِن کے ساتھ مخصوص ہے۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾ (المائدۃ: 54) ”یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس کو مل گیا“ اور دوسری بات یہ ہے کہ علم تکوین اور تمکین میں خوب بالغ نظر تھے اور پوری مہارت رکھتے تھے۔ "اَلتَّکْوِیْنُ صِفَۃُ أَرْبَابِ الْأَحْوَالِ وَ التَّمْکِیْنُ صِفَۃُ أَصْحَابِ الْحَقَائِقِ" یعنی تکوین اربابِ احوال کی صفت ہے اور تمکین أصحابِ حقائق کی صفت ہے۔ سالک جب تک سلوک کے مقامات طے کر رہا ہو اس کو صاحبِ تکوین کہتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اِس مقام سے وہ شخص فائدہ اور لطف اُٹھا سکتا ہے جو کہ قلب سلیم رکھتا ہو، اور قلب سلیم اُس دل کو کہتے ہیں جو کہ بیس خصلتوں سے معمور ہو اور بیس خصلتوں سے خالی ہو۔ اُن اوصاف کی تفصیل جن سے دل خالی ہونا چاہیے وہ خصائل یہ ہیں: 1۔ شرک، 2۔ نفاق، 3۔ عداوت، 4۔ طمع، 5۔ امل (امیدیں)، 6۔ جزع (یعنی فریاد کرنا)، 7۔ حرص، 8۔ شک، 9۔ جہل، 10۔ گناہ پر اصرار کرنا، 11۔ تکبر، 12۔ بخل، 13۔ قنوطیت، 14۔ احسان جتانا، 15۔ حسد، 16۔ دھوکہ دینا، 7۔ ملاوٹ کرنا، 18۔ بد گمانی کرنا، 19۔ جھٹلانا، 20۔ سخط (یعنی بے صبری دکھانا، ناراضی کا اظہار کرنا)۔ اور وہ خصلتیں جن سے دل معمور ہونا چاہیے، یہ ہیں:
1۔ توحید، 2۔ اخلاص، 3۔ نصیحت، 4۔ زہد، 5۔ قناعت، 6۔ یقین، 7۔ علم، 8۔ تفویض، 9۔ لوگوں سے کنارہ کشی، 10۔ امیدیں مختصر کرنا، 11۔ صبر کرنا، 12۔ کسی پر احسان نہ جتانا، 13۔ سخاوت، 14۔ توبہ کرنا، 15۔ تواضع کرنا، 16۔ خوف، 17۔ اُمید رکھنا، 18۔ بھوک، 19۔ نیک گمان کرنا، 20۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے محبت کرنا۔ قطعہ:
؎ نخشبی کار کار تمکین است
ایں نصیحت زمن بگوش پذیر
گر تو خواہی بدیں جناب رسی
بست خصلت گزار و بست بگیر
’’اے نخشبی یہ بات عزت کا کام ہے اور تم مجھ سے یہ نصیحت کان کھول کر سنو، اگر تم چاہتے ہو کہ اس مقام تک تمہاری رسائی ہو جائے تو بیس خصلتوں کو چھوڑ کر بیس خصلتیں اختیار کر۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو زبانِ حال عطا کی گئی تھی، اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ بلیغ اور بہتر ہوتی ہے۔ وہ گروہ جن کی نظر تمام عبرت ہوا کرتی ہے اور اُن کی باتیں دِل میں اُترتی ہیں، اور ان کی باتیں فکر سے بھری ہوتی ہیں، اکثر زبانِ حال سے باتیں کرتے ہیں، اور وہ باتیں دِل میں اترتی ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اے دل تو سب اعضا کا سردار ہے، اور تمام انداموں کا بادشاہ ہے، اور بادشاہوں سے آبادی اور ملک کی شادابی کی امید کی جاتی ہے نہ کہ ملک کی خرابی کی۔ اور اسی طرح اپنے نفس کے ساتھ بھی گفت و شنید کرتے ہیں اور اسی طرح دیگر اشیاء کے ساتھ بھی باتیں کرنے لگتے ہیں، ان کے کلام کے درمیان کوئی پردہ نہیں کرتا، اور ان کی باتیں نا قابلِ فہم نہیں ہوتیں۔ اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ فصیح ہوتی ہے، اس بات کو وہ لوگ سمجھ پاتے ہیں جن کو فہم و فکر کی نعمت ودیعت ہوتی ہے۔
آن حضرت صاحب کے دیگر اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصیت حضرت صاحب کا فقر ہے، ان کے حال کے آغاز و انجام اور باطن و ظاہر میں فقر تھا۔ مسیح صاحب جو کہ فقر کے سمندر کے ملنگ تھے، وہ فرماتے تھے کہ "اَلْفَقْرُ مَشَقَّۃٌ، قَدْ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ وَ قَالَ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا الْفَقْرُ؟ قَالَ: "خَزَائِنُ مِنْ خَزَائِنِ اللّٰہِ تَعَالٰی فِي الدُّنْیَا وَ مُرٌّ فِي الْآخِرَۃِ وَ الْغِنَا مُرٌّ فِي الدُّنْیَا وَ مَشَقَّۃٌ فِي الْآخِرَۃِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آ کر پوچھا کہ فقر کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فقر دنیا میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانہ ہے اور آخرت میں تلخی اور کڑواہٹ ہے، اور غنا دنیا میں تلخی ہے اور آخرت میں مشقت ہے“ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کیا درویش کے لیے جائز ہے کہ کسی سے کوئی چیز لے لے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر وہ جانتا ہو کہ وہ اسی وقت کسی دوسرے شخص کو دے دے گا تو وہ لے لے۔ درویش وہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو، اور اگر ہو بھی تو اُس کی کوئی چیز نہ ہو۔ اور جو کوئی اپنی زندگی میں گوشۂ گمنامی میں رہے تو وفات کے بعد وہ تمام دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے۔ "فَطُوْبٰی لِمَنْ لَّا یَعْرِفُ النّاسَ وَ لَا یَعْرِفُوْنَہٗ" ”وہ آدمی خوش نصیب ہے جو کہ لوگوں کو نہ پہچانتا ہو اور لوگ بھی اِس کو نہیں پہچانتے“ اور جو کوئی اپنے دور حیات میں اپنی مشہوری اور شہرت کے لیے کوشش کرے وہ موت کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس کا نام فرسودہ اور ذکر رفتہ ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو ہمیشہ بھوکا رہنے کی جانب میلان تھا، اور وہ ہمیشہ اپنے آپکو بھوکا رکھا کرتے تھے۔ کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ وہ آدمی جو کہ بھوک کے دسترخوان سے صدیقین کا کھانا تناول فرماوے، تو اُس کا دوپہر کا کھانا نہیں ہوتا۔ عقلمند لوگ کہتے ہیں کہ بھوک کی تکلیف ایک پیسے سے دور کی جا سکتی ہے مگر سیری اور بھرے پیٹ کی تکلیف ایک خزانے سے بھی دفع نہیں ہو سکتی۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا یہ زر و مال، گھوڑے، خادم وغیرہ نہیں، بلکہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ "بَطْنُکَ دُنْیَاکَ" یعنی تمہارا پیٹ تمہاری دنیا ہے۔ جو لوگ کم کھاتے ہیں وہ تارکانِ دنیا ہیں اور جو زیادہ کھاتے ہیں وہ تارکان دنیا نہیں ہوتے۔ ایک شخص نے ایک درویش سے عرض کیا کہ مجھے عبادت کرنا سکھا دیجیئے۔ درویش نے پوچھا کہ تُو طعام کس طریقے سے کھاتا ہے؟ خوب سیر ہو کر کھاتا ہے یا کہ آدھے پیٹ کھاتا ہے؟ اُس نے کہا کہ پیٹ بھر کر کھاتا ہوں۔ درویش نے جواب دیا کہ سیر ہو کر کھانا جانوروں کا کام ہے، پہلے جا کر کھانا سیکھ لو، اس کے بعد میرے پاس آ جاؤ تاکہ تمہیں عبادت کرنا سکھا دوں۔
روایت ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں بھرے پیٹ والے کے ساتھ نماز میں معانقہ کرتا ہوں، (یعنی اُسے گلے لگاتا ہوں) اور بھوکا آدمی اگر نیند میں بھی ہو تو میں اُس سے دور جاتا ہوں۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو آدمی پیٹ بھر کر کھائے تو نماز کے باہر بھی شیطان کا اس پر تسلط اور غلبہ ہو گا۔ اور وہ بھوکا آدمی جو کہ نماز پڑھ رہا ہو، شیطان اُس سے کتنی زیادہ دوری اور نفرت کرتا رہے گا۔ پس درویش سے کم کھانا، کم کہنا، اور کم سونا مُراد ہوتا ہے۔ جیسا کہ علم سے مقصود عمل اور شمع سے مطلب روشنی کا حصول ہے، نہ کہ علم سے مُراد حکایت اور روایت کا رٹنا اور تکرار کرنا، کیونکہ جاننا ایک علیحدہ کام ہے اور اس پر عمل کرنا دوسرا کام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب بہت زیادہ عالی ہمت تھے۔ اور کہتے ہیں کہ عالی ہمت وہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت کرے اور اس کا اجر نہ مانگے۔ اے میرے عزیز! جس ذاتِ برتر نے تجھے بغیر کسی عوض معاوضے کے پیدا کیا ہے، تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تو اس کی بغیر کسی عوض کے عبادت کرے، اور جو عاشق معشوق سے عوض کے بدلے راضی ہو جائے، اس کے ساتھ وہ معاملہ کرنا چاہیے کہ جس سے اس کا عاشق عوض لے کر راضی ہوا تو اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ اور یہ حکایت مفصل طور پر سلک سلوک میں بیان کی گئی ہے وہاں دیکھنا چاہیے۔ ایک بزرگ تھا، جو کہ کسی وقت بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ "مَنْ شَرِبَ شُرْبَۃً مِّنْ کَأْسِ الْمَحَبَّۃِ لَا یُحِبُّ الْإِشَارَۃَ إِلٰی غَیْرِہٖ" کہ جس شخص نے محبت کے جام و ساغر سے شراب نوش کی تو وہ کبھی بھی دوسرے کی جانب اشارہ کرنا یا دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اور اہل درد فرماتے ہیں کہ درویش وہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نیستی میں اتنا خوش اور مسرور ہوتا ہے جتنا کہ دوسرے لوگ ہستی میں اور ہستی سے خوش ہوتے ہیں اور اپنی نیستی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنے محبوب کی محبت میں ایسا مشغول رہتا ہے کہ نہ تو وہ کسی غیر کا دامن پکڑتا ہے اور نہ کسی غیر کو اجازت دیتا ہے کہ اس کا دامن پکڑے۔ خواجہ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تیس سال سے حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں تھا، ایک دِن میں نے انہیں دیکھا کہ پہاڑ میں "ھُوَ قَائِمٌ عَلَی الصَّخْرَۃِ، قَدْ دَنَوْتُ مِنْہُ وَ أَخَذْتُ ذَیْلَہٗ فَقَالَ خَلِّ ذَیْلِيْ یَا سِرِّيُّ! فَإِنَّ الْحَبِیْبَ غَیُّوْرٌ" کہ وہ ایک پتھر پر کھڑے تھے، ان کے نزدیک جا کر میں نے ان کا دامن پکڑا، انہوں نے مجھے کہا کہ اے سری! میرا دامن چھوڑ دو، محبوب بہت غیرت والا ہے، کہیں اس سے ناراض نہ ہو جائے۔ اور یہ بات جاننی چاہیے کہ "لَا وَحْشَۃَ مَعَ اللّٰہِ وَ لَا رَاحَۃَ مَعَ غَیْرِ اللّٰہِ" یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک رہنے سے کوئی وحشت نہیں ہوتی اور غیر اللہ کے پاس رہنے سے کوئی راحت نصیب نہیں ہوتی۔ میرے عزیز! اگر کچھ بھی پاس نہ ہو تو بھی دوست کے ساتھ ہونا سراسر خوشی ہے، اور اگر سب کچھ ہو مگر دوست کا وصال نہ ہو تو یہ سراسر ناخوشی اور ناراضی ہے۔ جو کوئی اپنے دوست سے جدا ہے، اگرچہ دنیا بھر کے خزانے اس کی مٹھی میں ہوں، مگر وہ بالکل کنگال اور تہی دست ہے۔ اور جو کوئی اپنے دوست کے لطف و کرم سے نوازا گیا ہو، اُس کے پاس اگر نان شبینہ یعنی رات کے لیے روٹی کا ٹکڑا بھی نہ ہو، پھر بھی اُس کے پاس سب کچھ ہے۔ چونکہ مغفرت کے دریا میں کوئی کمی یا زوال نہیں اور کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی لامتناہی رحمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اگر تُو اِس راہ میں ہزار سال بھی قدم فرسائی کرتا رہے اور تیرے دل میں یہ گذرے کہ اِس کو قبول ہونا چاہیے، تو جان لے کہ ابھی تک تُو جاہ طلب آدمی ہے، راہ طلب مرد نہیں بنا۔ اہلِ تحقیق فرماتے ہیں کہ جس کسی کا تعلق دنیا کے ساتھ ہو تو وہ عقبیٰ کے کام کا نہیں رہتا، اور جس کا تعلق عقبیٰ سے ہو، وہ دنیا کے کام سے باز رہتا ہے۔ اور جس کا تعلق مولیٰ کے ساتھ تو سب کچھ اُس کے لیے ہے، باطن کا تعلق باطن کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے۔ صراطِ مستقیم کے راہرو فرماتے ہیں کہ اُس راہ کے مسافر پر واجب ہے کہ وہ جو قدم بھی اٹھا کر رکھے تو لوگوں کو چاہیے کہ اِس قدم کی داد دے دیں، پس اِس راہ کے مسافر کو چاہیے کہ "جتنی چادر دیکھو اُتنے پاؤں پھیلاؤ" پر عمل کرتا رہے اور اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "وَیْلٌ لِّمَنْ لَّبِسَ الصُّوْفَ فَخَالَفَ فِعْلُہٗ قَوْلَہٗ" (إحیاء العلوم، ربع المھلکات، کتاب ذم الجاہ والریاء، رقم الصفحۃ، 292/3، دار المعرفۃ، بیروت) یعنی اس آدمی کی حالت پر افسوس ہے جو صوفیائے کرام کا لباس پہنے اور خود اُس کا عمل اور قول اُس کے خلاف ہو۔ ہاں اگر کوئی قبا پہن کر اہل گلیم (گدڑی والوں) کا کام اور عمل کرے تو وہ قابل تحسین و آفرین ہے، اور اگر گدڑی پہن کر قبا والوں جیسا عمل کرے تو وہ ملامت اور نفرت کے قابل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب مئے اَلست کے بادہ صافی سے مخمور تھے، اس بات میں حکمت یہ ہے کہ سابقہ امتوں کے لیے ظاہری شراب حلال اور اِس امت کے لیے حرام فرمائی گئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پرانی اور سابقہ امتوں کے ساقیان ابدی نے اُن کو عشق کی صراحی سے شراب نہیں پلائی تھی۔ چونکہ شراب مایۂ طرب و نشاط ہے، اِس لیے جب وہ اس کی جرعہ کشی کرتے تھے تو ان کے باطن میں سر خوشی اور جوش موجزن ہو کر ان کو اُکسانے پر مجبور کرتے تھے۔ اور یہ اُمت خود شرابِ عشق سے مخمور ہے اور اسی خمار میں سراپا اضطراب و ہمہ تن شوق ہیں، اِن کو اِس ظاہری شراب کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں! مچھلی کے دل میں آگ رکھی گئی ہے، اگر تمام سمندروں کا پانی اس کے حلق میں ٹپکایا جائے تو اس آگ کا ایک ذرا بھی کم نہیں ہو گا۔ علمائے ظاہر کہتے ہیں کہ ﴿یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا...﴾ (الانبیاء: 69) ”اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا“ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے یہ ظاہری آگ کو کہا گیا تھا، لیکن علمائے اسرار و رموز کہتے ہیں کہ یہ خطاب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کے باطن کی آگ کو فرمایا گیا ہے۔ اے نمرود! ابراہیم علیہ السلام کے لیے تو آگ کیوں جلاتا ہے کیونکہ جو آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سینے کے آتش خانے میں روشن کی گئی ہے اگر اِس کی ایک چنگاری بھی ظہور کرے تو نمرود کی ساری آگ اور آتش خانے جل کر راکھ ہو کر رہیں گے۔ اے بھائی! محبتِ ابدی کی آگ کے جلے ہوئے اور عشقِ سرمدی کے سر مست لوگ اور ہوتے ہیں، اور عوام الناس قسم کے لوگ اور ہوتے ہیں۔ اور یہ جاننا چاہیے کہ عقل اور عشق کے درمیان اختلاف اور تضاد ہے۔ علماء کا طبقہ اہل عقل ہوتا ہے اور فقراء کی جماعت اہل عشق ہوتی ہے۔ علماء کی عقل فقراء کے عشق پر غالب ہے، اور فقراء کا عشق علماء کی عقل پر۔ مگر انبیاء کرام علیہم السلام کی دونوں حالتیں یعنی عقل کامل اور عشق صادق دونوں ہوتی ہیں، وہ عاشق کہ سر تا پا اپنے معشوق کے عشق و محبت میں مشغول ہوتے ہیں ایسا کہتے ہیں کہ "یَکُوْنُ الْبَدَنُ حَیْثُ یَکُوْنُ الْقَلْبُ فَإِذَا کَانَ الْقَلْبُ مَعَ اللّٰہِ فَالْبَدَنُ یَکُوْنُ ھُنَاکَ" یعنی جسم اور بدن وہاں ہوتا ہے جہاں دل ہوتا ہے، پس جب دل اللہ تعالیٰ کے پاس ہو تو لا محالہ بدن بھی وہاں ہو گا۔ ہاں یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ…" (سنن الترمذی، أبواب الزھد، باب المرء مع من أحب، رقم الحدیث: 2385) یعنی جس کے ساتھ محبت قلبی ہو، آدمی وہاں ہوتا ہے۔
ایک عجیب و غریب واقعہ روایت کرتے ہیں کہ اہل معرفت میں سے ایک صاحب جب حج اور مناسکِ حج سے فارغ ہوے تو اسی وقت پھر سے احرام باندھا، لوگوں نے اُن سے کہا کہ صاحب حج کے ایام تو گذر گئے اب یہ احرام کس بات کا؟ اُنہوں نے جواب میں فرمایا کہ "أَحْرَمْتُ مِنَ الْوَطَنِ إِلَی الْبَیْتِ وَ الْآنَ أَحْرَمْتُ مِنَ الْبَیْتِ إِلٰی صَاحِبِ الَبَیْتِ" کہ پہلے تو میں نے وطن چھوڑ کر بیت اللہ شریف کی خاطر احرام باندھا، اب میں بیت یعنی خانۂ خدا سے خدا کے لیے احرام باندھتا ہوں۔
دوسری بات یہ کہ حضرت شیخ صاحب اور اُن کے حالات کے بارے میں شیخ محمد سرغلانی صاحب جو کہ اپنے وقت کے مشائخ کبار میں تھے، نے کہا ہے کہ شیخ محمد سرغلانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت صاحب بادشاہی مرتبہ اور جاہ و جلال میں نظر آئے اور اُن سے اُسی حالت میں ملاقات کی۔ شیخ محمد سر غلانی صاحب نے اس وقت اور اس حال میں فرمایا کہ یہ ایک مجذوب بادشاہ ہیں، اور آپ کی بادشاہی کو دیکھنے کے بعد مزید کہا کہ آپ میں خلقِ خدا کی امامت کی نشانیاں ہیں، اور یہ اپنے زمانے میں مقتدائے وقت ہوں گے، طریقت کے جنگل کے شیر اور حقیقت کے سمندر کے نہنگ ہیں، اور اپنے زمانے اور اوطان میں اپنے باطن کے نور کے آسمانوں سے گذر کر اعلیٰ علیین تک پہنچے ہیں اور غلامی اور عبدیت کا حلقہ اُس کے کان میں ڈالا گیا ہے کیونکہ: "اَلْفَقْرُ إِذَا تَمَّ فَھُوَ اللّٰہُ وَ قِیْلَ: تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللّٰہِ" یعنی فقر جب کامل ہو کر انتہا کو پہنچتا ہے تو یہی خدا ہے اور اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اختیار کر کے اُس میں اپنے آپ کو محو کرو۔
آپ اس فقر اور اخلاق کی معراج کے حصول سے سرفراز ہو چکے تھے اور آسمان و زمین کی مخلوق کے محبوب ہو چکے تھے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں روایت ہے کہ جب بندہ کو اللہ تعالیٰ کی دوستی کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ عرش کے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں میں سے فلاں بندے کے ساتھ دوستی کرو اور اس کے ساتھ محبت کرو، یہاں تک کہ آسمان کے ملائکہ کو حکم ہو جاتا ہے کہ اِس کی محبت زمین پر زمین کے باسیوں کے دلوں میں ڈالی جائے تاکہ اُس کو اپنا دوست اور محبوب بنا لیں۔ "مَنْ لَّہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ" یعنی جس کا مولیٰ دوست ہو جائے تو اس کے پاس سب ہو جاتے ہیں۔ اور یہ مقام اُنہیں نصیب ہوا تھا۔ اور "دَعْ نَفْسَکَ فَتَعَالْ" ”اپنے نفس کو چھوڑ دیجیئے اور میرے پاس آ جائیے“ پر عمل پیرا ہو کر بے چارگی، عجز اور شکستگی کو اختیار کر کے اپنی زندگی کے درخت کو جڑوں سے اکھاڑ چکے تھے، اور اس درختِ حیات کو اپنے سے جدا ڈال کر اللہ کی ذات کو مد نظر رکھ کر علم یقین سے حق الیقین کے مقام کو پہنچ کر وہاں سے عینُ الیقین کے مرتبہ عالیہ سے مشرف ہو چکے تھے، اور اُس کی ذات پاک کے ساتھ باقی ہو چکے تھے۔ اور اس مقام پر جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ "بِيْ یُبْصِرُ وَ بِيْ یَسْمَعُ وَ بِيْ یَبْطِشُ" (الصحیح للبخاری بمعناه، کتاب الرقاق، باب: التواضع، رقم الحدیث: 6502) ”مجھ سے دیکھتا ہے مجھ سے سُنتا ہے اور مجھ سے پکڑ اور گرفت کرتا ہے“ سرفراز تھے۔ اور رؤف رحیم تھے، اور شریعت کے لباس میں نہایت احتیاط سے نہایت پوشیدہ نگاہ رکھتے تھے، اگرچہ اُنہیں اپنے قویٰ اور قوت پر اختیار نہ تھا۔ اور صوفی حضرات کو اپنے آپ پر اختیار نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم اور لطف و احسان ہمیشہ اِن کی رہنمائی کرتا ہے، اور اس کو اپنی رضا کے مطابق سیدھے راستے پر چلائے رکھتا ہے، اور اپنی حفاظت میں رکھتا ہے اور اپنے ناپسندیدہ راستے سے اس کو دور رکھتا ہے اور وہ بھی اپنے دین و دنیا کے تمام اُمور اپنے مالک کے حوالے کرتے ہیں اور ﴿وَ اُفَوِّضُ أَمْرِيْ إِلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ بِصِیْرٌ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44) ”میں نے اپنے امور اللہ تعالیٰ کے سپُرد کیے، تحقیق اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیت اور اعمال کو دیکھنے والا ہے“ کا تاجِ سعادت اپنے سر پر رکھتا ہے اور اُس کے سوا کسی دوسرے کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ بیت: ؎
خودی کفر است نفی خویش کن زود
کہ جز او در حقیقت نیست موجود
’’جلدی سے اپنے آپ کی نفی کر کیونکہ خودی کفر ہے اور اس کے بغیر حقیقت میں کوئی بھی موجود نہیں۔‘‘
آگ کی روشنی کی یہ مجال نہیں کہ سورج کے سامنے اپنی روشنی دکھائے۔ بیت:؎
گر گزندت رسد ز خلق مرنج
کہ نہ راحت رسد ز خلق نہ رنج
’’اگر تجھے لوگوں کی جانب سے کوئی تکلیف پہنچے تو رنج نہ کر، کیونکہ لوگ کس قابل ہیں کہ اُن کی طرف سے تمہیں راحت پہنچے یا رنج‘‘ یہ دونوں لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ اِس کی طرف سے پہنچتے ہیں۔
شیخ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ شام کی نماز میں امامت فرما رہے تھے جب ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحہ: 4) پڑھا تو بے ہوش ہو کر گر پڑے، جب ہوش میں آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! آپ کو کیا ہوا؟ اُنہوں نے کہا کہ جب میں نے یہ کہا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ جب میری عبادت کرتے ہو اور مجھ سے ہی مدد مانگتے ہو تو پھر طبیب سے دوائی اور بادشاہ سے امداد کیوں طلب کرتے ہو؟ جھوٹ کیوں کہتے ہو؟
اہلِ معانی و اہلِ بیان کہتے ہیں کہ اِس آیت میں غائب سے حاضر کی جانب التفات ہے، کیونکہ ہر اسم ظاہر غائب ہے پس الحمد غائب ہو گئی۔ اور اہلِ شوق کہتے ہیں کہ اس میں اہلِ طلب یعنی طلب کرنے والوں کے لیے اشارہ ہے۔ بیت: ؎
ہلہ نومید نہ باشی کہ تُرا یار براند
گرت امروز براند کہ نہ فردات بخواند
’’یاد رکھو کبھی نا امیدی کے پاس بھی نہ بھٹکو اگر تم کو دوست اجازت نہ دیں تو اس سے نا امید نہ ہو اگر آج تمہیں اجازت نہ دے گا تو کل تمہیں اپنے پاس بلائے گا۔‘‘
یہ ایک عجیب اور حیرت کی بات ہے کہ اگر عاشق ﴿أَنْظُرْ إِلَیْکَ﴾ (الأعراف: 143) ”میں آپ کی ملاقات چاہتا ہوں“ کہے تو خطاب میں جواب آتا ہے کہ ﴿لَنْ تَرَانِيْ﴾ (الأعراف: 143) ”تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے“ اور اگر نا امید ہو کر کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے آپ سے کہے کہ یہ کیا حماقت کرتے ہو، کہاں تم اور کہاں وہ۔ "مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبُّ الْأَرْبَابِ نِسْبَۃٌ" ”چہ نسبت خاک را با عالم پاک“ تو اس کو جواباً کہا جاتا ہے: ﴿اُدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المؤمن: 60) ”مجھے بلاؤ میں تمہاری دعا قبول کروں گا“ "فَبَقَتْ أَرْوَاحُ الْمُشْتَاقِیْنَ بَیْنَ الرَّدِّ وَ الْقُبُوْلِ وَ الْفَرْقِ وَ الْوُصُوْلِ" ”تو مشتاقوں کی روحیں رد و قبول اور ہجر و وصَال کے درمیان پریشان رہتی ہیں کہ میری دعا قبول ہوگی یا میرے منہ پر ماری جائے گی۔ ؎
گر دست بد کارے زنم زنجیر بر دستم مہنمند
در خم مے غرقم کند ز گر نام هوشیاری برم
’’اگر کوئی کام کرنا چاہوں تو میرے ہاتھوں میں زنجیر ڈالی جاتی ہے اور اگر ہوشیاری کا نام لوں تو مجھے شراب کی خم میں ڈبویا جاتا ہے۔‘‘
لیکن حکم استقامت کا دیا گیا ہے کیونکہ فَإِنَّ الرَّبَّ تَقَدَّسَ وَ تَعَالٰی یَطْلُبُ الْاِسْتِقَامَۃَ: ﴿فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ﴾ (الشوریٰ: 15) ”اللہ تعالیٰ استقامت کی طلب فرماتا ہے (اور فرماتا ہے:) جیسا تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر استقامت اختیار کرو۔“ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ استقامت تین قسم کی ہوتی ہے: اقوال میں، افعال میں اور احوال میں۔ شریعت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اقوال ہیں، اور طریقت رسول اللہ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ فعل و عمل ہے، اور حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے احوال ہیں۔
"اَلشَّرِیْعَۃُ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ مَعَ الْخَلْقِ وَ الطَّرِیْقَۃُ فِعْلُ النَّبِيِّ مَعَ النَّفْسِ وَ الْحَقِیْقَۃُ أَحْوَالُ النَّبِيِّ مَعَ اللہِ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی" ظاہر کی استقامت یہ ہے کہ حدودِ شریعت پر عمل پیرا ہو اور باطن کی استقامت یہ ہے کہ ما سوی اللہ کی نفی کر لی جائے۔ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْ رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (الأحقاف: 13) ”تحقیق جنہوں نے کہا رب ہمارا اللہ تعالیٰ ہے پھر ثابت قدم رہے، نہ تو ڈر ہے اُن پر اور نہ وہ غمگین اور نہ ملول ہوں گے“ ایسے لوگوں کے لیے بڑا اجر ہے جو کہ صاحبِ استقامت ہوتے ہیں۔ "اِسْتَقِیْمُوْا وَ لَا تُحصُوْا" ”ثابت قدم رہو اور حساب نہ کرو“ کیونکہ حساب کرنا کرانا مشکل کام ہے جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت صاحب کو اس بلند ہمتی اور ثابت قدمی سے بہت زیادہ حصہ اور قابلِ قدر نصیب حاصل ہو چکا تھا، ہمت کی بلندیوں کا ہُما ان کے سر پر بیٹھ گیا تھا اور وہ استقامت و ثابت قدمی کی سلطنت حاصل کر چکے تھے، اور عالی ہمتوں سے میدان میں بازی جیت چکے تھے اور قرنوں اور زمانوں میں ہمت کا تاج ان کے سر پر رکھ کر اُن کو سرفراز کیا گیا تھا، جود و سخا کے شہسواروں سے میدان جیت چکے تھے اور حاتم طائی کو نیستی اور کمزوری و کمتری کی بھٹی میں جھونک کر پگھلا دیا تھا، اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ تھے، کوئی دوسرا آپ کی نظیر نہیں تھا، دردِ محبت میں غرق رہتے تھے، سینے میں عشق و محبت کی آگ فروزاں تھی جس سے دل پر نور تھا، عشق کی راہ میں سر بریدہ اور مقتول و شہید تھے اور "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" ”مرنے سے پہلے مر جاؤ“ کی زندہ مثال تھے، اور اسی وجہ سے حَیات ابدی کی سعادت و شرف حاصل کر چکے تھے۔ "أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَ لٰکِنْ یَنْقَلِبُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ" ”آگاہ رہ کہ اولیاء اللہ مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کو منتقل ہوتے ہیں“ یہ مقام انہیں حاصل ہو گیا تھا اور ان ابیات کے مصداق بن چکے تھے، ابیات:؎
با درد بساز کہ دوائے تو منم
با کس منگر کہ اشنائے تو منم
گر بر سر کوئے عشق من کشتہ شوی
شکرانہ بده کہ خون بہائے تو منم
’’اس درد کے ساتھ نباہ کر کیونکہ میں تیری دوا ہوں اور کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ کیونکہ میں تیرا دوست ہوں اگر تم میرے عشق کی راہ میں قتل کئے جاؤ تو اس بات پر شکر ادا کر، کیونکہ اس کے بدلے میں بذاتِ خود تیرا خون بہا ہوں۔‘‘
بادۂ الست سے مخمور تھے، جذباتِ حق کے مجذوب بن چکے تھے اور عشق و محبت کی شراب سے مدہوش و بے خود تھے، آپ کی سوز و محبت کے بارے میں دوسرے اشعار، ؎
در یاد تو اے دوست چنان مشغولم
صد تیغ گر زنی بسرم نخروشم
آہے کہ ز غم بیاد تو وقتِ سحر
گر ہر دو جہان را بدہند نہ فروشم
’’اے دوست تمہاری یاد میں ایسا از خود رفتہ ہوں کہ اگر مجھے سو تلوار بھی مارے جائیں تو میں فریاد نہیں کروں گا، صبح کے وقت تمہارے غم کی یاد میں جو آہ نکالتا ہوں، اگر مجھے دونوں جہاں بھی دیئے جائیں تو میں اس آہ کو اِن دونوں جہانوں کے بدلے فروخت نہیں کروں گا۔‘‘
آپ کے عشق اور سوز و محبت کے بارے میں مزید اشعار: ؎
آن کس ترا شناخت جان را چہ کند
فرزند و عیال و خانمان را چہ کند
دیوانہ کنی و ہر دو جہانش بخشی
دیوانہ تو ہر دو جہان را چہ کند
اُسے دیوانہ بنا کر اگر دونوں جہانوں کو عطا کرے
تو آپ کا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرتا ہے
جو کوئی تجھے پہچان لیں تو وہ روح کو کیا کرتا ہے
اور فرزند اور بال بچہ اور اپنے خاندان کو کیا کرتا ہے
؎ سوزے تو درونم و عشق تو در سرم
یا سوز در دروں شود و یا جان بدر رود
’’تمہارا سوز و محبت میرے اندر ہے اور تمہارا عشق میرے سر میں ہے یا تو یہ سوز اندر ہو گا یا اندر سے جان نکل کر باہر آئے گا۔‘‘ (مترجم کی جانب سے ایک شعر)
؎ تذکرہ سوزِ محبت کا کیا تھا اک بار
تا دمِ مرگ زباں سے میرے چھالے نہ گئے (کوثؔر)