چھٹا باب
قرآن مجید کے اسرار معانی کے بیان میں، اور حضرت صاحب کا معانئ قرآن کے متعلق علم
ہمارے محترم شیخ صاحب قرآن مجید کے علوم اور علم معانی کے اسرار اور رموز میں پوری دسترس رکھتے تھے۔ قرآن کریم ایک نا پیدا کنار اتھاہ سمندر ہے، رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں: "جَدِّدِ السَّفِیْنَۃَ فَإِنَّ الْبَحْرَ عَمِیْقٌ" (مسند الفردوس، للدیلمی، باب الیاء، رقم الحدیث: 8368) ”کشتی کی مضبوطی کا بندوبست کرو، کیونکہ سمندر بہت گہرا ہے“ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ قرآن کے معانی اور رموز کے سمندر کے غوطہ خور تھے۔ بعض اصحاب اور وہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ میرا دل تو معارفِ قرآنی سے واقف و آشنا ہے مگر میری زبان جاری نہیں ہوتی اور اس کی عبادت کی ادائیگی سے قاصر ہے۔ بیت : 1؎
؎ بدریائے در افتادم کہ پایانش نمے بینم
بدردے مبتلا گشتم کہ درمانش نمے بینم
دریں دریا یکے دُر است و من مشتاق آں بودم
و لیکن کو کہ مے جوید کہ فرمائش نمے بینم
”میں ایک ایسے دریا میں گِر پڑا کہ اُس کی تہہ نہیں دیکھ سکتا اور ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس کا کوئی علاج معلوم نہیں۔ اس دریا میں ایک موتی ہے اور میں اُس کے پانے کا مشتاق ہوں لیکن اُس کو ڈھونڈنے کا حکم نہیں اس لیے نہیں ڈھونڈ نہیں سکتا“
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جَدِّدِ السَّفِیْنَۃَ فَإِنَّ الْبَحْرَ عَمِیْقٌ" (مسند الفردوس، للدیلمی، باب الیاء، رقم الحدیث: 8368) یعنی اے محبوب! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے دل کی کشتی کو مضبوط بناؤ کہ قرآن کریم کا دریا بہت گہرا ہے۔ "اَلْقُرْآنُ بَحْرٌ عَمِیْقٌ وَّ الْأَکْثَرُ غَرِیْقٌ" کہ قرآن کریم ایک گہرا سمندر ہے اور اکثر لوگ اس میں ڈوب جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا﴾ (البقرۃ: 26) ”گمراہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور هدایت کرتا ہے اس سے بہتیروں کو“ یہ آیت کلام اللہ کے طرف اشارہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ عالی کی جانب بھی مشیر ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ قرآن تجھ پر نازل ہوا ہے، اگر یہ پتھروں پر بھی نازل ہوتا تو قسم ہے کہ وہ پتھر پگھل کر اللہ تعالیٰ کے خوف سے پانی ہو جاتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَوْ أَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ...﴾ (الحشر:21) ”اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تُو دیکھتا کہ وہ دب جاتا، پھٹ جاتا اللہ تعالیٰ کے ڈر سے“
اے میرے پیارے! جب قرآن کریم اپنے حُسن و جمال سے غیرت کا نقاب ہٹاتا ہے اور عظمت کا حجاب اپنے معانی سے اُٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے جدائی کے بیمار فنا ہو جاتے ہیں، اور تمام مصائب سے نجات پاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "اَلْقُرْاٰنُ ھُوَ دَاءٌ" (لم أجد ھذا الحدیث) یعنی اپنے طالب کو قتل کرتا ہے تاکہ وہ اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔ پس اے بھائی! اللہ نے قرآن کریم کو اِس دنیا میں حروف کے لباس میں ارسال فرمایا ہے، اور پھر ہر حروف کے اندر لاکھوں حسین و جمیل جاں ربا اشارے پوشیدہ کر رکھے ہیں اور اعلان فرمایا کہ ﴿وَ ذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْرٰی تَنَْفَعُ الْمُوْمِنِیْنَ﴾ (الذاریات: 55) ”اور سمجھاتا رہ کہ سمجھانا نفع پہنچاتا ہے ایمان والوں کو“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو فرمایا کہ تُو اپنی رسالتِ حقہ کا جال پھیلا، اور اپنے خلقِ عظیم کا دانہ اس جال میں پھیلا کر ڈال رکھ، جو ہمارے شکار ہیں وہ آپ کے اس جال میں آ جائیں گے، بیگانوں اور اغیار کے لیے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں۔ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ أَنْذَرْتَھُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُوْمِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 6) ”بے شک جو لوگ کافر ہو چکے، برابر ہے اُن کو تُو ڈرائے یا نہ ڈرائے، وہ ایمان نہ لائیں گے“ جو کچھ کہ تھا اور جو کچھ کہ آئندہ ہوگا، سب کچھ قرآن کریم کے اندر موجود ہے۔ ﴿وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ إِلَّا فِيْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الأنعام: 59) ”اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز، مگر یہ کہ وہ سب کتابِ مبین میں ہے“ یہ ظاہر بین علماء کہاں یہ بات جانتے ہیں، اور کیا جانتے ہیں؟ افسوس! صد افسوس…. کہ قرآن مجید اس پردے میں ہے جس سے ظاہر بین علما محروم ہیں۔ پس قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا اپنے دوستوں کے ساتھ مکالمہ اور خطاب ہے۔ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9) اور ظاہری طور پر دیکھنے والوں کے لیے ظاہری حروف و کلمات کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔ یعنی ظاہری طور پر تو سنتے ہیں لیکن باطن کے سننے میں یہ لوگ بے بہرہ ہیں۔ ﴿إِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ﴾ (الشعراء: 212) ”اُن کو سننے کی جگہ سے دور کر دیا ہے“ اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ﴿لَوْ عَلِمَ اللہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّأَسْمَعَھُمْ...﴾ (الأنفال: 23) ”اور اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو اُن کو سنا دیتا“
اب اے میرے عزیز بھائی! جان لے کہ محمد حسین صاحب فرما گئے ہیں کہ اہلِ حقیقت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَھْلُ الْقُرْآنِ أَھْلُ اللہِ وَ خَاصَّتُہٗ" (سنن ابن ماجۃ، باب: فضل من تعلم القرآن و علّمہ، رقم الحدیث: 215) یعنی قرآن والے اللہ تعالیٰ کے خاص اور اہل ہیں۔ اب قاری حضرات محض قرأت کی وجہ سے اور مفسرین حضرات تفسیر اور بیان کی وجہ سے اس حدیث شریف کے ظاہر کو اپنی شان میں تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اُن کی بڑی غلطی ہے اور وہ یہ بات نہیں سمجھتے۔ اہل قرآن اور اہل اللہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کے حقیقت شناس ہوں اور حقائق قرآنی کے مشاہدہ کرنے والے ہوں۔ پس اہلِ قرآن اُس مقام میں ہیں کہ تمام قرآن کو بائے ''بِسْمِ اللہِ'' میں دیکھتے ہیں۔ پس اے میرے عزیز بھائی! اگر تو صرف زبان سے کہے کہ ﴿لِلہِ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ...﴾ (البقرۃ: 284) یعنی جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہیں وہ سب اللہ کے ہیں۔ یعنی جو کچھ کہ زمینوں اور آسمانوں میں ہیں سب ہی کہہ دو۔ اور جب اس آیت کا مشاہدہ کیا جائے اور اس آیت کے حسن و جمال سے عزت و جلال کا نقاب ہٹا کر اِس کو بغور دیکھا جائے اور تم اس کے جمال سے آگاہ اور واقف ہو جاؤ تو فورًا پکار اٹھو گے کہ ﴿لِلہِ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ...﴾ (البقرۃ: 284) اور جو کچھ کہ آسمانوں اور زمینوں کی وسعتوں میں ہے وہ بیک نگاہ سب دیکھ پاؤ گے۔ تم اُن کا مشاہدہ کرو گے اور ہر ایک کو پہچانو گے اور ان کے ناموں کو بھی جانو گے۔ پس اے میرے عزیز! اگر ہر ایک کا جدا جدا نام لوگے تو بہت زیادہ عرصہ گزرے گا لیکن جب تم یہ کہو گے کہ ﴿لِلہِ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ...﴾ (البقرۃ: 284) تو یہ سب کہو گے اور اِن سب کا مشاہدہ کرو گے اور اِس وقت اپنے آپ کو ﴿وَ كَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطًا﴾ (النساء: 126) کے دائرے اور احاطے کے اندر دیکھو گے۔ شیخ محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اُس محیط کو دیکھو گے یا اپنے آپ کو بائے ''بِسْمِ اللہِ'' کے نیچے کے نقطے میں دیکھو گے تو اس وقت تمہیں بائے ''بِسْمِ اللہِ'' کی عظمت و جلال کا احساس ہوگا کہ یہ ''بِسْمِ اللہِ'' اور اس کا نقطہ محرمان درگاہ اور مقرب بندوں کے دلوں کے ساتھ عظیم جلوہ دکھاتا ہے۔ پس جو باء کے نقطے میں دیکھو گے جس سے اب تک تم واقف نہ ہو اور اس طرح جب تم سین یا میم کا جمال دیکھو گے تو سمجھ لو گے کہ قرآن کریم کیا ہے اور قرآن جاننے والا کون ہے، تو اِس وقت اہل اللہ ہو جاو گے اور محرم راز بن جاؤ گے۔ تم پہلے اس وقت میں کالے حروف اور سفید کاغذ کے علاوہ کچھ نہ دیکھتے تھے۔ اور یہ مسلّمہ بات ہے کہ جب تم اپنے ہوش و وجود میں ہو گے تو اس سیاہی اور سفیدی کے علاوہ کچھ نہ دیکھو گے، اور جب وجود کے خول سے باہر نکل آؤں گے تو اللہ کا کلام تمہارے وجود کو خود بخود محو کر دے گا۔ اُس وقت یہ تمہیں محو سے اثبات تک پہنچایا جائے گا کہ ﴿یَمْحُوْ اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ...﴾ (الرعد: 39) اس کے بعد تمہیں کچھ بھی کالا نظر آئے گا۔ یعنی سب ہی سفید ہی سفید دیکھو گے یعنی تمام برائیاں تجھے نیکیاں نظر آئیں گی۔
ابیات:۔ ہر آں نقشے کہ در صحرا نہادیم
تو زیبا بین کہ ما زیبا نهادیم
’’جو نقش کہ ہم نے صحراء میں بنا چھوڑا ہے تو اس کو خوبصورت نظر سے دیکھ کہ ہم نے اُس کو حسین بنایا ہے‘‘
اور جب تم اِس صحیفۂ کائنات کو دیکھو گے تو پکار اٹھو گے: ﴿وَ عِنْدَہٗ أُمُّ الْکِتَابِ﴾ (الرعد: 39) ”اس کے پاس اُم الکتاب ہے“ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کئی ہزار حجابوں اور پردوں میں ملفوف کر کے اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے کہ بسم اللہ شریف کی جلالت عرش مجید یا آسمانوں پر رکھ دی جاتی تو تابِ جمال سے فورًا ٹوٹ پڑتے اور پگھل جاتے کہ ﴿لَوْ أَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَأَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللهِ...﴾ (الحشر: آیت 21)
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "کُلُّ حَرْفٍ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ أَعْظَمُ مِنْ جَبَلِ قَافٍ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی قرآن کریم کا ہر حرف لوح محفوظ میں کوہِ کاف سے بہت بڑا ہے۔ اور یہ لوح مسلمانوں کے سینوں میں ہے۔ ﴿أَفَمَنْ شَرَحَ اللہُ صَدْرَہٗ لِلْإِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ...﴾ (الزمر: 22) اور تم یہ قاف جانتے ہو کہ کیا ہے: ﴿قٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ﴾ (ق: 1) ”قاف اور قرآن مجید کی قسم“ پس اے میرے بھائی! ہر عالَم میں علماءِ ربانی قرآن کریم کے جدا جدا معزز نام لیتے ہیں، اور دوسرے عالَم میں پہلا نام نہیں لیتے بلکہ دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ایک عالَم اور ایک پردے میں اس کلام اللہ کو قرآن مجید کہتے ہیں: ﴿بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ﴾ (البروج: 21) دوسرے پردے میں اس کو ”مبین“ کہتے ہیں، تیسرے میں ”عظیم“ کہتے ہیں، پھر چوتھے پردے میں اِس کو ”عزیز“ بولتے ہیں: ﴿إِنَّہٗ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ﴾ (فصلت: 41) کسی میں ”کریم“ کہلاتا ہے: ﴿إِنَّہٗ لَقْرْاٰنٌ کَرِیْمٌ﴾ (الواقعہ: 77) دوسرے جہاں میں ایک جگہ ”حکیم“ نام سے یاد کیا جاتا ہے: ﴿وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ﴾ (یٰس: 2) پس اے عزیز! قرآن کریم کے ہزار نام اس عالَم میں ہیں، اور عرش سے ثریٰ تک ایک عالَم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اتنے بے شمار عالَم ہیں کہ ان کی حقیقت مصطفے ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سب اولیاء و انبیاء میں سے کسی کو بھی ان کی خبر نہیں۔
پس اے میرے بھائی! ہم اس کے علم کے بارے میں حیران و سرگرداں ہیں، اور کچھ نہیں جانتے۔ یہ بات غور سے سنو! کہ معراج کی رات جب رسول اللہ ﷺ پہلے آسمان پر پہنچے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ بہت سے اونٹ ایک دوسرے کے ساتھ قطار میں باندھے ہوئے جا رہے ہیں، اور ان کا اگلا پچھلا سرا کسی کو معلوم نہیں۔ جبرائیل امین نے کہا کہ اے رسول اللہ! ﷺ جس دن سے میں پیدا ہوا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ اونٹوں کی قطار چلی جا رہی ہے، اور مجھ سے پہلے اُن کے چلتے رہنے کا یہ سلسلہ جاری تھا اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کب تک یہ چلتے رہیں گے، اور میں نے تمام پیغمبروں سے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اس کے بارے میں پوچھا ہے، کسی کو بھی معلوم نہیں۔ میں نے پریشان ہو کر اللہ جل جلالہ سے پوچھا تو وہاں سے حکم صادر ہوا کہ ٹھہرو! میرا حبیب جب تشریف لائے (ان اونٹوں پر جو لدا ہوا ہے وہ سب اُس کے مبارک وجود کی وجہ سے ہے) اُن سے پوچھنا، تمہاری مُراد حاصل ہو جائے گی۔ پس جبرائیل علیہ السلام نے آقائے دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ فرمائیے یہ اونٹ کہاں جا رہے ہیں اور ان کے اوپر کیا چیز لدی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرما کر ارشاد فرمایا کہ جاؤ ایک اونٹ کھول کر لے آؤ، حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک اونٹ کھول کر لے آئے، اس اونٹ کے اوپر ایک صندوق پڑا تھا جس کو مقفل کیا گیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل کو ارشاد فرمایا کہ قفل کھول دے۔ جب تالا کھولا گیا اور صندوق کو کھول کر دیکھا تو صندوق کے اندر سات آسمان، زمین پہاڑ، درخت، شہر اور گاؤں، آبادیاں، اسلام، کفر، ملتیں اور اور مختلف دین، مساجد، دیر و کعبہ، کلیسا، آسمان، فرشتے، عرش، کرسی، لوح اور قلم اور تمام مقرب فرشتے سب کہہ رہے ہیں کہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۔ اور یہ وہی معراج کی مبارک رات ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کو لے جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے جبرائیل سُن لے کہ یہ تمام اونٹ جو تم دیکھ رہے ہو ان پر جو صندوق لدے ہوئے ہیں اور ہر صندوق میں اس طرح کا عالَم بنایا گیا ہے اور ہر عالَم میں محمد مَیں ہوں۔ اِس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اونٹ کی مہار دوبارہ باندھ دی۔ اونٹ دوبارہ روانہ ہوئے اور جبرائیل علیہ السلام خدا کی ثنا اور نعت میں مشغول ہوئے۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے پیر کے مشاہدات کی تجلیات سے ظاہر ہوا ہے، اگر ان میں سے کسی حرف کا اظہار کر دوں تو وہ تمام دینی علوم جو لوگ سیکھ چکے ہیں اور جو لوگوں کو پیش آ چکے ہیں اور جو کچھ رسومات وغیرہ سے سیکھ چکے ہیں، وہ سب کچھ باطل اور غلط سمجھیں گے اور اپنی ہستی کو نیستی اور پستی میں تصور کریں گے۔ اور مزید فرمایا کہ اس فقیر کو ہر وقت یہ الہام پہنچایا جاتا ہے اور مجھے کہا جاتا ہے، بیت:
؎ چو تو سرنائے منی بے دم من نالہ مکن
تا چوں چنگت نتوازم زنوا ہیچ مگوئی
پھر انہوں نے فرمایا اور میں نے اُس الہام کے جواب میں کہا کہ، بیت:
آتش زدی و گفتی که مرا هیچ مگوی
ہم چو گل خنده زد گفت در آتا بینی
ہمہ آتش سمن برگ کتان ہیچ مگو
دست خود را برگزیدم کہ فغان از غم تو
گفت من زان قوام اوست فغان هیچ مگو!
’’مجھ کو آگ لگا کے کہہ دیا کہ کچھ نہ کہوں۔ پھول کی طرح ہنس پڑا اور کہا، کہ آو دیکھ لو، تم آگ ہے اور برگ کتان (یعنی آگ اور روئی کا ملاپ ہے) تم بیچ میں کچھ نہ کہو۔ میں نے غم و غصے سے اپنا ہاتھ کاٹا، اس نے کہا کہ میں تجھ سے ہوں اور آہ و فغان کچھ نہ کرو‘‘
مطلب یہ کہ قرآن کے یہ کئی ہزار اسمائے مبارکہ جو ہیں، تم ظاہری کانوں اور سماعت سے نہیں سن سکتے۔ اگر سماعتِ باطنی رکھتے ہو یا اس کو فراہم کر سکتے ہو تو "حۤمۤ عۤسۤقۤ" کے عالَم میں کئی نام پوشیدہ ہیں تو تب ان اسمائے مبارکہ کو سُن سکو گے اور اس رمز کے بارے میں سرور عالمین ﷺ نے فرمایا ہے: "إِقْرَءِ الْقُرْاٰنَ وَ تَفَتَّشْ غرَائِبَہٗ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”قرآن مجید پڑھا کرو اور اُس کے غرائب کی تلاش کرو“ مگر قرآن کریم کے غرائب تلاش کرنا ہر کس و نا کس کا کام نہیں، یہاں تک کہ تو "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1 دار الفکر، بیروت) کے کتب خانے تک رسائی حاصل کرے گا اور اُس وقت استاد "أَرِنِيْ رَبِّيْ" کے مکتب خانے میں یعنی اچھی صورت میں تجھے ادب سکھائے گا اور قرآن کو بلا کسی واسطے کے تمہارے دل پر نقش کرے گا کہ ﴿وَ رَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق: 3-5) تم اس کتب خانے میں یہ سیکھو گے کہ ﴿نٓ وَ الْقَلَمِ…﴾ (القلم: 1) کیا ہے؟ اور یہ سب کچھ تم پر جلوہ نما ہو کر تم سیکھ جاؤ گے۔
پس اے میرے محبوب! حروِف مقطعات اسی سبب سے گویا ہیں کہ وہ محبان الٰہی کے ساتھ راز و نیاز کی پوشیدہ باتیں کریں کہ اُن کے مطالب و معانی اور اسرار و رموز سے فرشتے اور عالمِ ملکوت سر گرداں و پریشان ہیں۔ اور نا محرم لوگ حروف کے لباس کے اندر اطلاع نہیں پاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "الٓمٓ الٓمٓر کھٰیٰعٓصٓ یٰسٓ صٓ نٓ حٰمٓ عسٓقٓ طٰہٰ الٓمٓصٓ" یہ سب احدیت کے نشان ہیں کہ کوئی بھی نا محرم اور اجنبئ ظاہر مبین اللہ تعالیٰ کے اُن اسرار سے جو کہ محمد مختار ﷺ کے ساتھ ہیں، مطلع نہ ہو سکے۔ اگر کسی کو آگاہی حاصل ہو تو وہ صرف وہ لوگ ہوں کہ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساغر محبت کے جرعہ نوش ہوں۔ بیت:
1؎ گر سرو سہی در ہمہ قامت خوانم
در آہوئے افتاده به دامت خوانم
زیں ہر سه بگو تا به دامت خوانم
کز رشک نخواهم که می خوانم
اگر تجھ کو تیری قامت زیبا کی وجہ سے سر و سہی کہوں، یا تجھ کو آپ کے دام میں اسیر آہو کہوں اِن تینوں میں تم ہی کہو کہ میں تجھے کس نام سے پکاروں، کیونکہ میں رشک کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ تجھے تیرے نام سے پکاروں۔
پس حروف مقطعات کو عالم سر میں مجمل کہتے ہیں اور مفصل آیت: ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبّٗوْنَہٗ…﴾ (المائدۃ: 54) میں آیا ہے۔ مجمل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ﴿وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَھُمُ الْقَوْلُ…﴾ (القصص: 51) اور مفصل کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ ﴿فَصَّلْنَا الْآیَاتِ﴾ (الانعام: 97) معانی کے حقائق کے ساتھ سہل و آسان کرے۔ ﴿وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٌ﴾ (القمر: 17) بے چارے اہل ظواہر یعنی ظاہر بیں علماء قرآن کے پڑھنے اور قرآن کریم کی چند ظاہر چیزوں کو جاننے کے بعد اپنے آپ کو اہل اللہ، خاصۃ العلماء اور ورثۃ الانبیاء سمجھنے لگے ہیں، اور اصل میں اہل اللہ اور انبیاء کرام کے وارث وہ لوگ ہیں جو کہ کلام اللہ کی حقیقت تک رسائی حاصل کر چکے ہوں کہ ﴿أَفَلَا یَتَدَبُّرُوْنَ الْقُرْآنَ﴾ (النساء: 82) اِن سے حاصل ہوتا ہے، اور قرآن کریم بھی اِن کو قبول کرتا ہے، کیونکہ یہ لوگ ان اوصاف کے حق دار اور اہل ہیں، اور وہ محبوب یقینی طور پر یہ بات جانتا ہے کہ جب تک تجھے قرآن کریم قبول نہیں، تو معانی کی یہ حقیقت کبھی بھی بیان نہیں کی جا سکتی کیونکہ دلہن کی ملاقات قبول کے بعد ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح معانی قرآن کی عروس (دُلہن) جس نے اس محبوب کو قبول کیا ہے، تم اس کی جلوہ گری اُس طرح دیکھو گے جیسا کہ محمد حسین نے اس زیبائش اور حسن کی مشاط گری کی ہے۔ یاد رکھو! کہ قرآن کریم کسی نا محرم اور اجنبی کو شرفِ قبولیت عطا نہیں کرتا اور وہ کسی اجنبی کے ساتھ بات تک بھی نہیں کرتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے حسن و جمال کے جلوے اور حسین جلوے شراب محبت کے اُن مستانِ ازل کو دکھانے سے دریغ نہیں کرتا جو کہ اُن جلوہ ہائے حسین و ہوش ربا کے اہل ہوں۔ ﴿إِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37) ”اس میں سوچنے کی جگہ ہے اُس کو جس کے اندر دِل ہے یا لگائے کان دِل لگا کر… “
اور شیخ محمد حسین نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص حقائق قرآنی سے آگاہی حاصل کرے تو اس کا کم ترین مقام یہ ہوتا ہے کہ قرآن اس شخص کو جنت میں پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پس ذرا غور کرو! کہ اس سے اعلیٰ مقام اور کیا ہو گا؟ لیکن یہ بات یاد رکھ! اس مقام کی ابتدا اس سے ہو گی کہ قرآن کریم تجھ سے کلام کرے اور اپنا حسن و جمال تجھ کو دکھائے۔ اس کے بعد جو کچھ تم سمجھ پاؤ گے وہ اتصالات ہونگے، یعنی وہ مضامین قرآن کے اندرونی فضائل و محاسن کے بارے میں ہوں گے، اور انفصالات تجھ سے رخصت ہو جائیں گے یعنی کوئی بات جو قرآن مجید کے مضامینِ حسن سے جدا اور علیحدہ ہو وہ تم سے کوسوں دور ہو جائے گی۔ اور اس ابتدا کی انتہا کوئی نہیں، اور ابد الآباد تک اس کی انتہا نہیں، لیکن تم یہ معلوم نہیں کر سکو گے کہ قرآن بس یہاں ہے، جب تک کہ تو ﴿فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ﴾ (البینة: 3) کے اشارے اور غمزے مشاہدہ نہ کرے۔ اور علمائے ظاہر نے تو ظاہر پر قناعت کی ہے وہ قرآن کے چھلکے اور پوست کو تو دیکھتے ہیں مگر اُس کے مغز کی لذت اور ذائقہ سے آشنا نہیں کہ "إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللهِ" (المستدرك على الصحيحين للحاكم، کتاب فضائل القرآن، باب: أخبار فی فضائل القرآن جملۃ، رقم الحدیث: 2040) یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا سجایا ہوا دستر خوان ہے۔ اور حسن بصری نے اِس مقام پر فرمایا ہے کہ "أُنْزِلَ الْقُرْاٰنُ لِیُعْمَلَ بِہٖ وَ اتَّخَذَ النَّاسُ قِرَاءَتَہٗ وَ دَرْسَہٗ عَمَلًا" یعنی قرآن کریم کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ اُس پر عمل کیا جائے، مگر لوگوں نے اس کی قرأت، تلاوت اور درس کو عمل بنا کر رکھا۔ صُمٌّ (کان نہیں رکھتے) 1؎ بُکْمٌ (گونگے ہیں) قرآن کیسے پڑھیں گے؟ عُمْیٌ (اندھے ہیں) اِن کی آنکھیں نہیں ہیں، آیت مُبارکہ کے حُسن و جمال کو دیکھ کر کیا لطائف حاصل کریں گے؟ اور ان لوگوں کا تعارف اور تعریف بس یہی ہے کہ ﴿لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ﴾ (الحج: 46) ”سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، لیکن اندھے ہو جاتے ہیں دِل جو سینوں میں ہیں“ یعنی اِن کے دِل کی آنکھیں اندھی، دِل کی زبان گونگی اور دِل کے کان بہرے ہیں۔