حصہ 2 باب 5: اسلام کی پانچ بنا کے بارے میں اور حضرت صاحب کے مقامات کے بیان میں

پانچواں باب

اسلام کی پانچ بنا کے بارے میں اور حضرت صاحب کے مقامات کے بیان میں

"اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانَ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ" ایمان زبان سے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق اور توثیق کرنا ہے۔ یہ بات عوام الناس میں مشہور ہے۔ اور ایمان کی یہی تعریف عام لوگوں کے ایمانی حالت پر صادق آتی ہے۔ لیکن ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانی حقیقت نورانیت کے کمال کی دوسری قسم ہے۔ اور ایمان کی یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر حقیقی طور پر ایمان لانا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کہ جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلے، وہ اپنے پروردگار کی معرفت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اے بھائی! معاف فرمائیں اور مجھ کو معذور سمجھیں جب آپ معرفت کی ابتدا تک پہنچ جائیں گے تو معرفت کی شراب سے مست ہو جائیں گے اور اس مستی کے عالم میں اپنے منتہیٰ کے انتہا تک پہنچ جائیں گے اس کے بعد اپنے نفس کی معرفت حاصل کریں گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" یہی حقیقت آپ کے احوال کی تجلیات ہو جائیں گی۔

شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر ایک نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 128) کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا یعنی نفس کی آیت، اور نفس سے مراد رسول اللہ ﷺ کا نفسِ مقدسہ ہے۔ اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ" یعنی جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کے نفس مقدسہ کی معرفت حاصل کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی۔ یہ حقیقت اس معنیٰ اور مفہوم کی طرف جلوہ گری کرتی ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے ابیات:

؎ گر گزر یابی ز نفس و جان و جسم و جان

آشنا گردی یقین با جان جان

جانِ جان ہم پرتو است از ذاتِ او

کس نہ بیند جز بداں مرآت او

”اگر تم نفس و جان اور جسم و جان سے گزر سکو، تو جانِ جان سے واقف ہو جاؤ گے۔ جانِ جان بھی اس کی ذات اقدس کی ایک پرتو ہے۔ اس شیشے کے بغیر کوئی اس کو نہیں دیکھ پاتا“

سرور عالم نے بھی فرمایا ہے: "طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِيْ" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 22138) ”اس شخص کے لیے خوش نصیبی ہے جس نے مجھے دیکھ لیا“ جب تجھے محمد رسول اللہ کے نفس مبارک کی معرفت حاصل ہو جائے، تو تب معرفت نفس احمدی کی بدولت معرفت حضرت احدی کو حاصل کرو گے۔ اور سرور کونین نے رمزًا اور اشارتًا فرمایا ہے کہ "مَنْ رَآنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أقف علی ھذا الجزء من الحدیث) ”جس نے مجھے دیکھا اس نے میرے رب کو دیکھا“

پس اللہ تعالیٰ کی معرفت یہ ہے کہ اس جگہ "رَآنِيْ" (مجھے دیکھا) اور "فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (اس نے میرے رب کو دیکھا) کے درمیان نکتہ ہے۔ شیخ محمد حسین نے فرمایا کہ اگر میں اس کو ظاہر کرتا تو یہ مجازی اور تقلیدی مسلمان مجھ کو اس کی وجہ سے سنگسار کرتے۔ ان کی نا سمجھی کی وجہ سے میں نے اس کا اظہار چھوڑ دیا۔ لیکن برادرانِ اسلام یہ بات جان رکھیں کہ جو کوئی خود شناس نہ ہو یعنی اپنے آپ کو نہ پہچانے وہ محمد کو کیا پہچانے گا؟ کس طرح عارف بنے گا؟ اور محبوب کی معرفت اس کو کیسے حاصل ہوگی؟ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْ...﴾ (الفتح: 10) ”تحقیق جو لوگ بیعت کرتے ہیں، تجھ سے وہ بیعت کرتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر اُن کے ہاتھ کے“ (ترجمہ شیخ الہند) کی بیعت کی حقیقت تم پر جلوہ افروز ہو گی۔ اور بیعت کی اس نعمت عظمیٰ کے بعد ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔﴾ (المائدہ: 3) ”آج میں پورا کر چکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر احسان اپنا“ کی نعمت سے تمہاری تکمیل ہو گی۔ اس کے بعد ﴿لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ۔۔۔﴾ (آل عمران: 164) ”اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انہی میں کا“ کے احسان عظیم کے مستحق ہو گے۔ اور اس احسانِ عمیم کا تم پر اتنا زیادہ شکر کرنا واجب ہوگا جو کہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔ اور شکر کثیر کے ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ تم کو اتنی فراواں نعمت سے نوازے گا اور اپنی اتنی معرفت عطا فرمائے گا کہ اس معرفت میں نہ تو عارف کو پہچانے گا، اور نہ معروف کو۔ یہ بھی ایک تحقیق شدہ بات ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِجْزُ عَنِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" یعنی سمجھنے سے عاجز ہونے کا سمجھنا بھی سمجھنا ہے، یعنی عجزِ معرفت و ادراک یہ ہے کہ عارف کی ذات کو کھا جائے اور محو کرے، اور عارف کی جگہ معروف رہ جائے۔ بیت:

؎ عشق و عاشق محو گردد زیں مقام

خود ہماں معروف گردد والسلام

”یعنی اس مقام پر عشق اور عاشق محو ہو جاتے ہیں۔ اور بس معروف (یعنی معشوق) ہی باقی رہ جاتا ہے“

اے بھائی! یہ عجز معرفت کا کمال ہے، یعنی جو شخص کہ کمال معرفت میں غرق اور محو ہے، وہ کمال سے عاجز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ انتہائی غنی ہے اور فقر ہمارا کمال ہے اور غِنا (غنی ہونا) اس کا کمال ہے۔ بیت:

؎ گر شاه را تاجِ زر بر سر است

مرا پایۂ عقل عالی تر است

و گر شاہ مستِ مئے ہستی است

بجامِ نیستی مرا سر خوش تر است

”اگر بادشاہ کے سر پر سونے کا تاج ہے، تو مجھے عقل و سمجھ کا عالی مرتبہ حاصل ہے۔ اور اگر بادشاہ ہستی کی شراب سے مست ہے، تو نیستی کے جام و ساغر سے میں بھی نشے میں ہوں“

اسی مطلب کو بیان کرتے ہوئے، حضرت قطبِ عالم شیخ نصیر الدین صاحب نے فرمایا ہے کہ "سُبْحَانَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلْ لِلْخَلْقِ سَبِیْلًا إِلٰی مَعْرِفَۃٍ إِلَّا بِعِجْزٍ عَنْ مَعْرِفَتِہٖ" کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی معرفت کا مخلوق کے لیے کوئی راستہ سوائے اس کے نہ چھوڑا کہ اس کی معرفت سے عجز کا ادراک کیا جائے۔ یعنی اے بھائی! انبیاء اور اولیاء میں سے کسی کو بھی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی معرفت کے لیے آئینہ محمدی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ مصرع:

؂ بیروں ز دو سرا زلفِ شاہد راہ نیست

یعنی معشوق کی زلف کے علاوہ کوئی (دوسرا) راستہ نہیں۔ پس اے میرے بھائی! اگر تم طریقت کے راستے پر جانا چاہتے ہو، تو اپنے آُپ کو آئینہ بناؤ، اُس آئینے میں اپنے پیر و مرشد کو دیکھتے رہو۔ اور پیر و مرشد کو آئینہ بنا کر نفسِ محمد ﷺ کا مشاہدہ کرو، اور نفسِ محمدی ﷺ کو آئینہ بناؤ، مالک الملک اس سے آگے ہے، "رَأَیْتُ رَبِّيْ لَیْلَۃَ الْمِعْرَاجِ فِيْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ" (سنن الدارمی بتغییر قلیل، کتاب الرؤیا، باب: فی رؤیۃ الرب فی النوم، رقم الحدیث: 2195) کہ میں نے بہترین صورت میں معراج کی رات اپنے پروردگار کو دیکھا۔ پس شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام میں فرمایا ہے کہ یہ دیکھنا حقیقت میں ذات محمدی کا اپنے آپ کو دیکھنا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو میں نے خود دیکھا ہے۔ اس مقام میں ایک باریک نکتہ ہے، محمد حسین فرماتے ہیں کہ میں اس نکتہ کو مجازی مسلمانوں کی خوف کی وجہ سے ظاہر نہیں کرتا لیکن "فِیْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ" سے مراد وہی ہے جو کہ سرور کونین فرما چکے ہیں کہ "أَنَا مِنْ ظُھُوْرِ ذَاتِہٖ وَ مَخْلُوْقُہٗ مِنْ ظُھُوْرِ ذَاتِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) کہ میں اس کی ذات کے ظہور سے (پیدا ہوا) ہوں اور مخلوق میری ذات کے ظہور سے ہے۔ پس اے میرے پیارے! یہ وہی ذات تھی جو کہ اس ذات میں محو ہوئی، جب روح نظارہ میں فنا ہوئی تو یہ کہا کہ خدا کے جمال کا نظارہ خدا کے سوا کسی دوسرے نے نہیں کیا۔ اور اسی مقام سے ہی نبی نے فرمایا کہ "مَنْ رَاٰنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) کہ جس نے مجھے دیکھا تحقیق اس نے میرے رب کو دیکھا۔ اور شیخ محمد حسین نے فرمایا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جو کہ اُس کی ذات کا مظہر ہے، آئینۂ محمدی میں "رَبِّ أَرِنِيْ" کہہ ڈالتے، تو "لَنْ تَرَانِيْ" کے جواب سے ہرگز مخاطب نہ ہوتے، لیکن چونکہ انہوں نے آئینۂ محمدی سے باہر یعنی اس کو چھوڑ کر سوال کیا تو لامحالہ "لَنْ تَرَانِيْ" کے جواب سے مخاطَب ہوئے۔ پس اے میرے پیارے! اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول کریم و جمیل کے مبارک زمانے میں ہوتے، تو جب وہ جمال محمدی کا مشاہدہ فرماتے تو گویا اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کا جمال ملاحظہ کرتے اور تسکین پاتے۔ "مَنْ رَاٰنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" کی حقیقت سے جب موسیٰ علیہ السلام کو آگاہی ہوئی تو آئینۂ محمدی میں جذب ہونے کے بعد ان پر یہ حقیقت روشن ہو گئی اور اس آگاہی کے بعد انہوں نے سوال کیا، کہ "اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ﷺ" (کتاب السنۃ لأبی عاصم بتغییر قلیل، باب: نسبۃ الرب تبارک و تعالٰی، رقم الحدیث: 996) یعنی اے خدا! مجھے محمد کی امت سے قبول فرما۔ اِس زمانے میں ہمارے شیخ المشائخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس مقام سے آگاہ تھے۔ اور حقیقت میں وہ عارف تھے اور معرفت میں کمال درجہ اُن کو حاصل تھا۔ جس طرح کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ زمانۂ قدیم میں معرفت میں کمال درجہ رکھتے تھے۔ بیت:

؂ ہر جا فقیر بینی با او نشست باید

ما را فقیر معنی چوں بایزید باید

ما را نویدِ باده از خمِ غیب بادہ

ما را مقام و مجلس عرشِ مجید باید

”تو جہاں کہیں بھی کسی فقیر کو دیکھے تو اس کی مجلس میں بیٹھنا چاہیے۔ اور ہم کو تو بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح فقیر منش مرشد چاہیے۔ ہم کو غیب کے خُمِستاں (مے خانے) سے شراب کا مژدۂ (خوشخبری) چاہیے اور ہم کو بیٹھنے اور محفل آرائی کے لیے عرشِ مجید جیسا مقدس مقام چاہیے“

پس اے بھائی! چاہیے کہ تمام میخانہ نوش کر کے بھی ہوش میں رہو اور کچھ چیخ و پکار نہ کرو۔ اور اگر کوئی چیخے چلائے تو وہ کامل نہیں ہوتا۔ اور جوان مردوں کی مجلس کے قابل نہیں۔ "أَنَا الْحَقُّ" کہنا اور "سُبْحَانِيْ" الاپنا اہل ہمت کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اگر آئینۂ محمدی میں مشاہدہ حاصل ہو جائے تو پھر شور نہیں مچاؤ گے اور اہل ظواہر کو آواز نہیں دو گے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: "وَ مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ مَا عَرَفَ اللہَ حَقَّ مَعْرِفَتِہٖ" کہ اللہ کی قدر و منزلت اور اس کی معرفت کو کما حقہٗ نہیں سمجھا گیا۔ پس دل سے جان لو، اور آنکھوں سے دیکھ لو، مگر مخلوق کو نہ کہو۔ اور اس دیکھنے اور جاننے سے کسی کو بھی مگر جو مردِ حقیقت ہو، اطلاع نہ دو۔ اور اہلِ ظواہر یعنی ظاہر بینوں کو یہ راز افشا نہ کرو۔ پس اے بھائی! جان لو کہ معرفت کے درخت کا میوہ اللہ کا دیدار ہے، اور جو شخص یہاں اہل معرفت ہوگا وہ اہل رویت ہوگا۔ یعنی اس کو دَوار (رسائی) نصیب ہو گی۔ اور جس شخص نے یہاں معرفت حاصل نہ کی تو وہاں اندھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿مَنْ کَانَ فِيْ ھٰذِہٖ أَعْمٰی فَھُوَ فِي الْآخِرَۃِ أَعْمٰی...﴾ (الاسراء: 72) ”جو اس دنیا میں اندھا ہوگا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا“ پس اے بھائی! معرفت تین قسم کی ہوتی ہے: معرفتِ ذات، معرفتِ صفات و معرفتِ افعال اللہ و احکامہ۔ آخر الذکر یعنی معرفت افعال اللہ و احکامہ کو اپنے نفس سے حاصل کرو گے کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی ﴿وَ فِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریٰت: 21) ”اور خود تمہارے اندر سو کیا تم کو سوجھتا نہیں“ اور معرفتِ صفات، نفسِ محمد ﷺ کی معرفت سے حاصل کرو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ...﴾ (التوبہ: 128) ”آیا ہے تمہارے پاس رسول تم میں کا“ اور معرفتِ ذات کی کیفیت اور ماہیت کا بیان ممکن نہیں اور وہ الفاظ کے احاطے میں سما نہیں سکتا۔ اور یہ جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "تَفَكَّرُوْا فِيْ آلَاءِ اللهِ - يَعْنِيْ عَظَمَتَهُ - وَلَا تَتَفَكَّرُوْا فِي اللهِ" (شعب الإیمان للبیھقی، کتاب الإیمان باللہ، باب: أسامی صفات الذات، رقم الحدیث: 119) ”اُس کی عظمتوں میں تفکر کیا کرو، اور اس کی ذات میں فکر کرنے سے باز رہو“ تو یہ بات عام لوگوں اور متوسط ہمت رکھنے والے لوگوں کے لیے ہے۔ مگر اے برادر! شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ عالی ہمت لوگ سلوک کے راستے میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ جب تک اس کی ذات میں اس کے سوا سب کچھ محو نہ کریں، اُن کو قرار نہیں آتا۔ اور جب خود محو ہو جاتے ہیں تو ان کو قرار آتا ہے۔ اور ان کی محویت کا عالم یہ بیان ہوا ہے۔ بیت:

؎ من نیم آن کس که منم گویی کیست

خاموش دلم دردمندم گوئی کیست

من پیرہن بیش نیم از سر تا پائے

آنکس کہ منش ز من گوئی کیست

”میں وہ شخص نہیں ہوں جو کہ میں ہوں، آپ پوچھیں گے کون ہوں؟ خاموش دل اور دردمند ہوں۔ آپ پوچھیں گے کون ہوں؟ میں ایک قمیص سے زیادہ نہیں سر سے پیر تک، جس کو میں کہتے ہیں پتہ نہیں کون ہوں۔“ ابیات:

؎ دلا نزدیک کن بنشین که از جانان خبر دارد

بجنبان آں درختے را کہ او گلہائے تر دارد

نہ ہر کلک شکر دارد نہ ہر زیرِ زبر دارد

نہ ہر جسم بصر دارد نہ ہر بحر گہر دارد

”اے میرے دل! ایسے شخص کی ہمنشینی اختیار کر جو کہ محبوب کے حال سے آگاہ ہو۔ اور اُس درخت کو ہلایا کرو جو کہ تازہ اور میٹھا میوہ رکھتا ہو۔ ہر مل اور بانس میں شکر اور شیرینی نہیں ہوتی نہ ہر جسم میں دیکھنے کی قوت یعنی آنکھ ہوتی ہے، اور نہ ہر سمندر میں موتی ہوتا ہے۔“ مثنوی:

مُردم از حیوانی و آدم شدم

از چه ترسم کی ز مردن کم شدم

حملۂ دیگر بمیرم از بشر

تا بر اَرم نہ ملائک برد سر

از ملائک هم بایدم جستن ز جو

کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہٗ

بارِ دیگر از ملک قربان شوم

آنچہ اندر دہم نایداں شوم

پس عدم گردم عدم چوں ارغنون

گردم کَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن

یہ مولانا روم صاحب کے مثنوی شریف کے نا مکمل اشعار ہیں، جن کا مطلب یہ ہے کہ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

پہلے میں جمادات یعنی مٹی کی شکل میں تھا، جب میری وہ صورت فنا ہو گئی تو نباتات اور سبزے کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس شکل سے بدل کر میں حیوانوں کے اجسام میں منتقل ہو گیا اور حیوانات کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور اسی طرح ہوتے ہوتے انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ چونکہ ارتقاء کا عمل بدستور جاری ہے، تو اب میں مرنے سے کیا ڈر اور خوف کروں گا کہ مرنے سے میں کم ہو جاؤں گا۔ اب کہ جب میں مر جاؤں گا تو عالَمِ بشریت سے نکل کر عالَم ملکوت کی جانب قدم بڑھاؤں گا، بلکہ اس سے بھی آگے نکل جانے کی کوشش کروں گا، فرشتوں سے بھی آگے نکل جانے کی جستجو کروں گا۔ اور چونکہ خدا کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اس لیے اس مرحلے سے آگے جا کر فرشتوں سے بھی آگے نکل جاؤں گا۔ اس کے بعد میں عدم ہو جاؤں گا، جس طرح باجے کی آواز معدوم ہوتی ہے۔ اور میرے بارے میں "إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" کہا جائے گا۔

اس کتاب کے مؤلف کو مثنوی شریف اور اس مقام سے حضرت شیخ صاحب شیخ المشائخ رحمکار صاحب کے مقامِ معرفت کے بارے میں حالت استغراق میں ایک راز کی بات کہہ دی کہ محبت کے آسمان میں معرفت کی بادلوں میں ایک بجلی چمکی اور اس روشنی میں مجھ کو کلمہ طیبہ کے معنیٰ واضح ہو کر معلوم ہوئے۔ اور وہ مفہوم و معانی مجھ پر روشن ہو گئے۔ وہ معنیٰ کوئی دوسری چیز ہے اور یہ معنیٰ جو کہ ظاہر بین لوگ کرتے ہیں، اس میں اور اُس معنیٰ میں بہت عظیم فرق ہے۔ یعنی اُس میں روح کا مشاہدہ اور معائنہ کیا اور ایمان بالغیب کے مقام سے آگے نکل کر معائنے اور مشاہدے کے ایمان یعنی ایمان شاہد و مشہود کے مقام کو پہنچا۔

؎ گر علمِ خرابات ترا ہم نفسے

ایں علم و عمل و هنرش تو بادا ہوسے

گر طائرِ غیبی ست بسرت سایہ فگن

سیمرغِ جہاں در نظرت چوں مگسے

”اگر تمہیں ظاہری علوم میں دسترس حاصل ہو، تو تمہارا یہ علم اور ہنر صرف تمہاری خواہشات ہیں۔ اور اگر غیب کا پرندہ تمہارے سر پر سایہ کر ڈالے تو دنیا کا سیمرغ پرندہ تمہاری نظر میں ایک حقیر مکھی جسیا ہو گا“

اس بات کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش عطا کی ہو۔ مختصر یہ کہ میں نے یہ جو بات عرض کی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنے نفس سے حاصل کرو گے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک مَلکی، اور دوسری قسم کے افعال ملکوتی ہیں، یعنی یہ جہاں اور وہ جہاں۔ جو کچھ کہ اس جہاں میں ہے، اس کو ملکی کہتے ہیں، اور جو کچھ کہ اُس جہاں میں ہے وہ ملکوتی ہے، اور جو کچھ کہ اس اور اس جہاں سے تعلق نہیں رکھتا اُس کو جبروتی کہتے ہیں۔ اور لاہوتی کی تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔ اُس کی تعریف الفاظ میں سما نہیں سکتی۔ اس راہ میں مطلب اور غرض کی بات یہ ہے کہ تم جو کچھ کرتے ہو، فقط اُسی کے لیے کرو۔ اس کے لیے دنیا بھر کی لغزشوں اور گناہوں کی پرواہ نہ کرو۔ اور اس تک رسائی و نارسائی سے آنکھیں بند رکھو۔ اور یہ خیال تک ذہن میں نہ لاؤ کہ میں پہنچ جاؤں گا یا نہیں پہنچوں گا۔ اور اُن خوشگوار نہ ختم والی ہواؤں کے انتظار میں رہو، اور وہ اعمال دینی جو کہ لوگوں کی نظروں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہوں، وہ سب آتش میں ڈال دو۔ اور اپنے آپ کو منکرات کے نزدیک تصور کرو۔ اور اے برادر عزیز! جب تک پردۂ ربوبیت سے پردۂ جمالِ الٰہی تک رسائی حاصل نہ ہو، اور پردۂ جمال الٰہی سے پردۂ عزت تک اور پردۂ عزت سے پردۂ کبریائی تک رسائی حاصل نہ ہو، "فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" ”یعنی اس نے اپنے رب کو پہچانا“ کے مقام تک پہنچ نہیں سکتا۔ اور ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پردۂ کبریائی کے غوطہ زن تھے۔ اور اس زمانے میں وحدتِ الٰہی کے قطب تھے اور بایزید بسطامی دوم تھے۔ اور جب کوئی مقامِ کبریائی میں پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کلام کی نغمہ سرائی کرتا ہے۔ بیت:

؂ ہر کرا در معرفت محکم قدم

در گزشت از کفر و از اسلام ہم

چوں ترا این چنیں ایماں بود

این تنِ تو گم شد آن جان بود

”جس کسی کا مقام معرفت میں قدم مضبوط ہو جائیں، تو وہ کفر اور اسلام سے گزر گیا۔ اور جب تجھے ایسا مقام حاصل ہو جائے، تو تمہارا بدن گم ہو کر فقط جان باقی رہ جائے گا“

؂ مردِ میداں شوی این کار را

مرد باشی این چنیں اسرار را

؂ ہائے در نہ ہمچو مردان و مترس

در گذر از کفر و از ایمان مترس

؂ چند ترسی دستی از طفلی بدار

باز سو چوں شیر مرداں سوئے کار

”اس کام کے لیے مرد کار بن جاؤ تو اس قسم کے اسرار و رموز کے اہل ہو جاؤ گے۔ جواں مردوں کی طرح آگے قدم بڑھاؤ، اور مت ڈرو۔ کفر اور ایمان کے جھمیلوں کو چھوڑ دو۔ اور کچھ خوف نہ کرو۔ تم کب تک یہ خوف کھاتے رہو گے؟ یہ بچپن چھوڑ دو، اور شیر دل جوانوں کی طرح ہو جاؤ“

یہ اشعار شیخ محمد حسین کے مکتوبات میں سے لکھے گئے۔ لیکن اب "فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کا "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" کے ساتھ کیا واسطہ ہے اور اس کے کیا ثمرات ہیں، اس کے متعلق کیا معلومات ہیں۔ "وَاللہُ أَعْلَمُ"

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فصل

حضرت شیخنا شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نماز کے بیان میں

اسرارِ ایمان کے بعد نماز کے اسرار واقع ہیں۔ اور اس کی اہمیت کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی...﴾ (البقرہ: 238) ”نماز کی حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی“ اور صاحبِ شریعت یعنی رسول اللہ کا فتویٰ بھی اس پر دلیل ہے کہ "اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ" (شعب الإیمان للبیھقي، کتاب الصلوة، رقم الحدیث: 2550) ”نماز دین کا ستون ہے“ لیکن اے بھائی! نماز کی صحت کے لیے اہم شرط طہارت، پاکی یعنی وضو ہے کہ بغیر طہارت کی نماز کا کوئی حاصل نہیں۔ اور اسی بارے میں سرور کونین نے فرمایا ہے کہ "مِفْتَاحُ الصَّلٰوۃِ الطُّہُوْرُ" (سنن الترمذی، أبواب الطھارۃ، باب: ما جاء أن مفتاح الصلوۃ الطھور، رقم الحدیث: 3) یعنی طہارت نماز کی کنجی اور کلید ہے۔ اور طہارت کے مبارک سلسلے میں پہلا مرحلہ اعضاء اور انداموں کا نجاست سے پاک کرنا ہے۔ خواہ پانی سے پاک کیا جائے یا کہ مٹی سے۔ پس اے بھائی! یہ تو اعضاء کا نجاست سے پاک کرنا ہے۔ مگر درجۂ دوم میں اندرون اور باطن کو برے اخلاق اور خصلتوں سے مثلاً حرص، غرور، بغض اور جو اس طرح کی بری عادتیں ہوں سے پاک و صاف کرنا ہے۔ پس اے برادرِ عزیز! جب تم اپنے باطن کو ان بُرے خصائل سے پاک کرو گے تو تمہارا وضو کامل ہو جائے گا۔ اور تب تمہاری نماز کو اللہ تبارک و تعالیٰ قبول فرمائے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے: "لَا تُقْبَلُ الصَّلٰوۃُ إِلَّا بِطَھُورٍ" (سنن الترمذی، أبواب الطھارۃ، رقم الحدیث: 1) یعنی کامل وضو کے بغیر نماز قبول نہیں کی جاتی۔ اور شیخ شبلی علیہ الرحمۃ فرما چکے ہیں کہ "وَ الْوُضُوْءُ انْفِصَالٌ وَّ الصَّلٰوۃُ إِیْصَالٌ وَّ مَنْ لَّمْ یَنْفَصِلْ لَمْ یَتَّصِلْ" ”وضو ما سوا سے جدا ہونا ہے اور نماز اللہ تعالیٰ سے ملنا اور اتصال ہے۔ پس جو کوئی (دنیا سے) جدا نہ ہو، (اللہ تبارک و تعالیٰ) سے اتصال کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا“ پس اس بات میں پوشیدہ نکتہ یہ ہے کہ اگر ما سویٰ اللہ سے تجھے جدائی حاصل نہ ہو، تو "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ" کی لذتِ اتصال نماز میں ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور مجھے مکمل یقین ہے اور امید واثق رکھتا ہوں کہ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہی مذکورہ طہارت اور مندرجہ بالا نماز کی کیفیت اچھی طرح سے حاصل تھی۔ کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ "اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ" (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان، رقم الصفحۃ: 55/1، دار المعرفۃ، بیروت) ”نماز مؤمن کی معراج ہے“ کی کیفیت ان میں ظاہر اور نمایاں تھی۔ نماز کے لیے ﴿أَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ...﴾ (الاسراء: 78) چاہیے اور قیام کے لیے سمت اور طرف چاہیے اور وہ سمت قبلہ ہے۔ اور اے برادر عزیز! اجسام اور قالب کا قبلہ تو وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِي السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنِّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ...﴾ (البقرہ: آیت 144) ”بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف، سو البتہ پھیر دیں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے۔ اب پھیر اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف“ لیکن روح کا قبلہ یہ قبلہ نہیں بلکہ روح کا قبلہ وہ ہے ﴿لَا اُقْسِمُ بِھٰذَ الْبَلَدِ﴾ (البلد: 1) ”قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی“ تم جانتے ہو اور اہل ظواہر جانتے ہیں کہ یہ شہر مکہ مکرمہ ہے اور جناب سید الکونین کے جسمِ اطہر کی پیدائش کا مقام ہے، لیکن فی الحقیقت مکہ مکرمہ کا یہ شہر وہ مقام ہے کہ جہاں محمد کی روحِ اقدس کی ولادت ہوئی ہے۔ اور آپ نے فرمایا ہے کہ "أَنَا مِنْ نُّوْرِ اللہِ وَ وُلِدَتْ فِيْ ھٰذَا الْبَلَدِ وَ ھُوَ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَ فِيْ عَرْشِ الرَّحْمٰنِ لَا لَیْلٌ وَّ لَا نَہَارٌ وَّ لَا أَرْضٌ وَّ لَا سَمَاءٌ" (لم أجد هذا الحدیث) ”میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور اس شہر میں میری ولادت ہوئی ہے اور یہ رحمٰن کا عرش ہے اور رحمٰن کے عرش میں نہ رات ہوتی ہے اور نہ دن اور نہ زمین ہوتی ہے اور نہ آسمان“ اے بھائی! ایک جہان یعنی بہت سے لوگ بغیر قبلہ کے نماز پڑھتے ہیں تاکہ قرب حاصل کریں اور اس قبلہ کے بغیر اپنی پیشانیاں رگڑتے رہے ہیں اور رگڑتے جا رہے ہیں۔ مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں اور انبیاء علیہم السلام اور اولیا کرام رحمۃ اللہ علیہم نے بھی اس قبلہ کی جانب نماز ادا فرمائی ہے، تب اُن کو نبوت اور ولایت کا ثمرہ حاصل ہوا ہے۔ خداوندِ عالی کی قسم! اگر یہ حضرات اس قبلہ کے بغیر ہوتے تو کبھی بھی نبوت اور ولایت کا ثمرہ نہ چھکتے۔ اور اے بھائی! اگر تم کو ایک ہزار سال عُمر نصیب ہو اور اہل ظواہر کو بھی اتنی ہی عمر نصیب ہو جائے اور تم ساری عمر نماز پڑھو اور وہ بھی نماز پڑھتے رہیں۔ قبلۂ مذکور کے بغیر کبھی بھی قرب الٰہی حاصل نہیں کر سکتے۔ چنانچہ شفیع المذنبین رحمۃ اللہ للعالمین نے فرمایا ہے: "یَأْتِيْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَّجْتَمِعُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ لَيْسَ فِيهِمْ مُؤْمِنٌ" (المستدرك للحاكم، کتاب الفتن و الملاحم، رقم الحدیث: 8365) ” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجدوں میں اکھٹے ہوں گے لیکن ان میں کوئی مؤمن نہیں ہو گا“ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کن لوگوں کی جانب اشارہ ہے؟ اے برادرِ عزیز! نماز وہ ہے جس کے بارے میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے حضرتِ جلیل سے خود اپنے بارے میں اور اپنی اولاد کے بارے میں دُعا فرمائی تھی کہ ﴿رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِيْ...﴾ (ابراہیم: 40) ”اے میرے رب کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی“ اور اولیاء اللہ کے سردار حضرت علی حیدر کرار کرم اللہ وجھہٗ نے بھی فرمایا ہے: "وَاللہِ لَمْ أَعْبُدْ مَا لَمْ أَرَہٗ" (میزان الحکمۃ للریشہری بتغییر قلیل و ھو من علماء الشیعۃ الشنیعۃ، رقم الصفحۃ: 1905/3) کہ قسم خدا کی! میں نے کبھی اس کی عبادت نہیں کی جس کو میں نے دیکھا نہیں۔ یعنی اے بھائی! اللہ تعالیٰ کی نماز تو وہ ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے راز کی باتیں کہے۔ اور بندہ کا قیام اِس مذکورہ قبلہ کی جانب مندرجہ بالا طہارتِ کاملہ کے ساتھ ہو، جیسا کہ اولیاء میں سے خاص ولی اللہ کو۔ جیسا کہ اس زمانے میں ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور زمانۂ سابقہ میں محمد حسین صاحب تھے۔ شاید یہ بات اہلِ ظواہر کے دل میں آ جائے کہ صلوٰۃ و نماز کے کیا معنیٰ ہیں؟ یہ لفظ یعنی صلٰوۃ "صِلَۃٌ" سے مشتق ہے اور "صِلَۃٌ" وہ ہوتا ہے کہ بندہ کی مناجات اور باتیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں۔ "اَلْمُصَلِّيْ یُصَلِّيْ رَبَّہٗ" یعنی نمازی اللہ تعالیٰ کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ رسول اللہ کو معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے معراج کرائی اور آپ وہاں تک پہنچے جہاں عقل کی رسائی ناممکن ہے۔ اچانک غیب کے پردوں سے جس میں شک و شائبہ کی راہ تک نہیں، آواز آئی کہ۔ "قِفْ یَا حَبِیْبِيْ" ”اے میرے حبیب! ذرا توقف کرو اور ٹھہرے رہو“ بیت:

؂ آمد ندائے بے چوں

نے از درون و بیرون

نے چپ و راست و نے پس

تا کہ ندا برآمد بس

”بے چوں کے ندا آئی جو کہ نہ اندر سے تھی نہ باہر سے، نہ دائیں ہاتھ سے اور نہ بائیں ہاتھ سے اور نہ پیچھے سے، بس ایک ندا آئی اور بس“

محبوبِ کبریا نے پوچھا کہ کیوں ٹھہروں؟ دوسری ندا آئی کہ "إِنَّ اللہَ یُصَلِّيْ" ”اللہ تعالیٰ صلوٰۃ ادا کر رہا ہے“ "فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَا صَلٰوتُکَ؟" ”تو رسول اللہ نے پوچھا کہ آپ کی صلوٰۃ کیا ہے؟“ جواباً ندا آئی کہ "یَا حَبِیْبِيْ إِنَّ صَلٰوتِي الثَّنَاءُ لِذَاتِيْ ثُمَّ أَشْغُلُ بِثَنَاءِکَ" کہ میری صلوۃ (نماز یہ) ہے کہ میں اپنی ثنا کروں، پھر تمھاری ثنا میں مشغول ہو جاؤں۔ جب سید عالم نے یہ ماجرا سنا، اور ان پر ثنا واجب اور لازم ہو گئی تو عرض کیا کہ "لَا اُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ" (لم أجد ہذہ القصۃ) ”آپ کی ثناء نہیں کی جا سکتی، آپ کی شان ایسی ہے جیسا کہ آپ اپنی ذات کی ثنا خود فرماتے ہیں“۔

شیخ محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شان رسالت کے بارے میں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جب سرور عالم نے اپنی بلند ہمتی سے سر کو قدم بنایا (سر کے بل چلنا محاورہ ہے) تو اس ادب و خلوص کی وجہ سے اس نے کما حقہٗ سیر سے لطف اندوزی فرمائی، اور حسنِ محبوب زیادہ ہوتا گیا۔ اور ذات صفات میں جلوہ گر ہوا۔ اے بھائی! میں (فرطِ شوق سے) کیا کہوں۔ زمینوں میں آپ کا اسمِ گرامی محمد بولا جاتا ہے، اور آسمانوں میں احمد اور اطراف سے (محاورہ ہے، یعنی جہاں اطراف نہ ہوں) یعنی شش جہات سے پرے میم کو محذوف کیا جاتا ہے۔ (احمد سے میم حذف کیا جائے تو احد رہ جاتا ہے۔(وَاللہُ أَعْلَمُ) بیت:

؎ آن یار ہماں ست اگر جامه دگر کرد

او جامہ دگر کرد دگر بار بر آمد

ایں نیست تناسخ سخن وحدت محض است

کز شش جہت ایں قلزمِ زخار بر آمد

”اگر میرے محبوب نے دوسرا لباس پہنا تو وہی محبوب ہے، صرف لباس تبدیل کیا اور دوسری دفعہ نمودار ہوا۔ یہ تناسخ (یا آواگون کا چکر) نہیں بلکہ وحدت اور توحید کی بات ہے کہ یہ موجیں مارتا ہوا سمندر چھ سمتوں سے موجزن ہوا“ "اَلْأَمْثَالُ مَصَابِيْحُ الْأَقْوَالِ" یعنی مثالیں باتوں کے ستارے ہوتی ہیں۔ "اَلْأَنْبِیَاءُ یُصَلُّوْنَ فِيْ قُبُوْرِھِمْ" (ميزان الاعتدال بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 460/1، مکتبہ: دار المعرفۃ، بیروت) ”انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں“ یہ صورتاً ظاہری طور پر موت ہے اور باطنی طور پر زندگی ہے۔

تم نے طہارت کی تشریح سُن لی، اب نیت کے اسرار سُن لو۔ اے بھائی! اہل ظواہر نہیں جانتے کہ نیت کیا چیز ہوتی ہے۔ نیت کرنا بھی نماز کے لیے شرط ہے۔ نماز تب درست ہوتی ہے جب نیت صحیح اور درست ہو، جیسا کہ رسول اللہ فرما چکے ہیں کہ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" (الصحیح للبخاری، رقم الحدیث: 1) ”اعمال کا دار و مدار نیتوں پر موقوف رہتا ہے“ اور عبداللہ تشتری صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اَلنِّیَّۃُ نُوْرٌ" یعنی نیت نور ہے، اور نیت کے حروف میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے: "اَلنُّوْنُ إِشَارَۃٌ إِلَی النُّوْرِ وَ الْیَاءُ إِشَارَۃٌ إِلٰی یَدِ اللہِ وَ التَّاءُ إِلٰی ھِدَایَۃِ اللہِ وَ قِیْلَ: اَلتَّاءُ إِشَارَۃٌ إِلٰی تَائِیْدِ اللہِ بِالْھِدَایَۃِ فَإِنَّ النِّیَّۃَ نَسِیْمُ الرُّوْحِ فَرَوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ وَّ جَنَّۃُ النَّعِیْمٌ" ”نون اشارہ ہے نور کی جانب، اور یاء اشارہ ہے ید اللہ، اللہ کے ہاتھ کی جانب، اور تاء اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی جانب۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تاء اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید جو کہ ہدایت کی جانب ہو کیونکہ نیت روح کی خوشگوار ہوا، خوشبو اور نعمتوں سے بھر پور جنت ہے“ پس اے بھائی! اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اور نیت کوئی چیز نہیں ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم و عطا ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے خلعت ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے جناب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی میت پر نماز جنازہ نہیں پڑھی، دوستوں نے اس پر اعتراض کیا کہ تم نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ پر نمازہ جنازہ نہیں پڑھی۔ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ "لَا أَجِدُ نِیَّۃً" ”مجھے نیت حاصل نہیں تھی“ انہوں نے کہا کہ سب دوست مذکورہ نیت سے محروم تھے۔ پس نماز میں اس قسم کی نیت درکار ہوتی ہے تاکہ نماز ادا کی جا سکے۔ نیت کے بعد تکبیر کہنا ہے تاکہ نماز میں جو باطل سامنے ہو سب کو آگ میں جلا ڈالے اور نماز میں باطل کا شائبہ تک نہ رہے اور سب حق ہی حق رہ جائے۔ ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ...﴾ (بنی اسرائیل: 81) ”کہہ دو آیا سچ اور نکل بھاگا جھوٹ“

اے بھائی! پروانہ جو آگ کا عاشق ہے، جب وہ اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرتا ہے اور آگ اس کو قبول کرتا ہے اور غیر کی نفی کرتا ہے تو اس کو آگ ہی سے قوت حاصل ہوتی ہے، اور کسی غیر کے بغیر اُس کو اُس سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ اے بھائی! میں نہیں جانتا کہ کیا لکھوں۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں زمان و مکان اُٹھ جاتے ہیں۔ پس محمد حسین کے اِن اشعار پر غور کرنا چاہیے:ابیات:

؂ در فروغ آں یک نظر

محوے گردد قدم وجودم سر بسر

اش شعاع آفتاب فرشاہ

پاک بر خیزیم آن ساعت ز راہ

چو نمے ماند ز من نامِ وجود

چوں بخدمت پیش رقم در سجود

گر تو مے بینی مرا آن دم عیان

نیستم من ہست آں شاہ جہان

گفتم اکنون مے ندانم کسنیم

بندۂ باری نیستم پس چیشتم

مے ندانم تو منی یا من توئی

محو گشتم در تو و گم شد دوئی

”اُس ایک نظر کے نور اور روشنی سے میرا سارا وجود سراسر محو ہو جاتا ہے۔ بادشاہ کے دبدبے کی شعاعِ آفتاب کی وجہ سے میں اس وقت راہ پر سے اُٹھ جاتا ہوں۔ جب میرے وجود کا نام تک نہیں رہ جاتا تو میں آپ کی خدمت میں سجدہ ریز کیسے ہوا؟ اگر تُو اس وقت مجھے دیکھتا ہے تو میں نہیں ہوتا بلکہ وہ جہان کا بادشاہ موجود ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اب میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ میں بندہ نہیں ہوں، تو پھر کیا ہوں؟ میں یہ نہیں جانتا کہ تُو، میں ہے یا کہ میں ”تم“ ہوں۔ میں تمہاری ذات میں محو ہو گیا اور دوئی درمیان سے مٹ گئی“

سمجھنے والے ان باتوں کو سمجھ پاتے ہیں۔ اے میرے محبوب! بس جس چیز کی جانب روح مائل ہو کر اس جانب کا رُخ کرے وہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔ ﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْ فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ...﴾ (البقرہ: 115) ”سو جس طرف تو منہ کرو۔ وہاں ہی متوجہ ہے اللہ“ (شیخ الہند)

حاصل کلام یہ کہ جب بندہ اس مقام تک پہنچ جائے جس تک کہ ہم آواز دیتے ہیں تو وہاں نہ دِن ہوتا ہے نہ رات ہوتی ہے۔ "لَیْسَ عِنْدَ اللہِ صَبَاحٌ وَّ لَا مَسَاءٌ" ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ صبح ہوتی ہے نہ شام“ تو پھر پانچ وقتوں کو کیسے دریافت کرے گا مگر جب یہ آیت ﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ دَائِمُوْنَ﴾ (المعارج: 23) ”اور وہ لوگ جو اپنی نماز پر قائم ہیں“ اس گروہ کے بارے میں درست ہو۔ اس مقام پر شیخ محمد حسین نے لکھا ہے کہ میں کیا کروں کہ دنیا کے حال سے بے خبر راستے کے بچوں کی طرح ہوں، اس کا بیان اور تشریح نہیں کر سکتا، لیکن تکبیر اس طرح کہنی چاہیے کہ تُو دونوں جہانوں کو محو سمجھے اور ﴿إِنِّيْ ذَاھِبٌ إِلٰی رَبِّيْ سَیَھْدِیْنِ﴾ (الصافات: 99) ”میں جاتا ہوں اپنے رب کی طرف وہ مجھے راہ دے گا“ کے استقبال میں چلے اور مشاہدہ کرے کہ جس وقت ﴿إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ...﴾ (الانعام: 79) کہے تو محبوب کے رخِ زیبا کو اپنا مرکز سمجھے اور اس کو مرکز السمٰوت والارض تصور کرے اور اس مقام کو دیکھے کہ ﴿فَلَا اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ وَ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الحاقۃ: 38-39) "سو قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی جو دیکھتے ہو اور چیزیں کہ تم نہیں دیکھتے" اور وہ مرکز دیکھے جو "حَنِیْفًا" "مِلَّۃَ إبْرَاہِیْمَ" کا مرکز ہے، اور "مُسْلِمًا" کہہ کر استغفار کہے۔ اس کے بعد ﴿إِنَّ صَلوٰتِيْ وَ نُسُکِيْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الانعام: 62) کہ "میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، جو پالنے والا سارے جہان کا ہے" اور ان سب کو تو ظاہر اور عیاں دیکھے اور غیر کو شوق کی آگ سے جلتا ہوا کرے۔ اس کے بعد اے بھائی! ﴿وَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام: 163) "مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں" کی مبارک آیت تم کو مسلمانی سکھائے۔ اس کے بعد ﴿أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ کہنا اس مقام پر درست ہو گا۔ اور "بِسْمِ اللہِ" سے شروع کرنے کی ضرورت ہو گی۔ "اَلرَّحْمٰنِ" اور "اَلرَّحِیْمِ" اُس کی صفات ہیں جو کہ ذات کے ساتھ تعلق پذیر ہیں۔ پس اے بھائی! "اَلْحَمْدُ لِلہِ" شکر کرنا ہے، "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" اِس کے بعد "رَبِّ الْعَالَمِیْن" کی ذات کی صفات ہیں، جو بار دیگر توثیق اور مزید آرائش کے لیے ہیں۔ جیسا کہ "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" خوش نما اور زیبا ہے۔ اس کے بعد اے برادر عزیز! اللہ اور اِلٰہ ایک ہو جائیں گے۔ اس لیے "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم" کا تکرار ضروری ہے۔ "مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ" یعنی دنیا کو دین کے آئینے میں دیکھے گا کیونکہ آخرت کے لیے دنیا میں جگہ نہیں اور وہ اس میں سما نہیں سکتی۔ پس اے بھائی! سورۂ فاتحہ میں ساقی واسطہ (رسول اللہ ) سے شراب مانگو گے اور یہی کر کہ تجھے مستی اور دیوانگی ہو جائے اور ساقئ واسطہ جناب رسالت پناہ کی ذاتِ مبارک اور پِیر تربیت ہے تو اے بھائی! اِسی ساقئ واسطہ سے ساقی واسطہ تک پہنچ جاؤ گے۔ اور جب تم مست ہو جاؤ تو "إِیَّاکَ نَعْبُدُ" کہہ کر خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ گے اور "إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ" تمہاری زبان سے نکل پڑے گا۔ اور تمہارے دونوں جہانوں کی تمنا بر آئے گی اور "اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" کو بعینہ دیکھو گے کہ ساقی کے ہاتھ سے بغیر کسی واسطے کے شراب نوش کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کون ہیں جو بلا واسطہ دستِ ساقی سے شراب نوش کرتے ہیں وہ لوگ "صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ" ہیں۔ اور وہ لوگ جو کہ محروم ہیں اور جدائی کے صدمے سہہ رہے ہیں، تم گھر کے اندر بیٹھ کے نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہو اور وہ زنجیر کے حلقے کی طرح باہر نکلے اور نکالے پڑے ہوئے ہیں۔ "غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّالِّیْنَ" ہیں، اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سرور عالم نے جو اشارہ فرمایا ہے کہ "لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب: وجوب القراءۃ للإمام و المأموم، رقم الحدیث: 756) یعنی سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی، اور کوئی نماز سورۂ فاتحہ کے بغیر وجود ہی نہیں رکھتی۔ اس مبارک قول میں کتنی صداقت ہے۔ اس کے بعد یعنی ان مراحلِ تعریف اور بیان کے بعد تیری فاتحہ درست ہو جائے گی۔ اور فاتحہ یہی جو میں نے ابھی ذکر کی اور تم نے سُنی۔ اور یہ بات قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے کہ ہم اور تم اور تمام اہل ظواہر یہ لاف زنی کریں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔ افسوس… صد افسوس! کہ ہم نے تمام عمر میں ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور ایک دفعہ بھی فاتحہ نہیں پڑھی اور تکبیر اور نیت نہیں کہی۔ یہی جو میں نے ذکر کیا اور جس کی تشریح کی یہی فاتحہ، نیتِ قبلہ، تکبیرِ توجہ اور قیام تھے، مگر اس قسم کی نماز ہمارے شیخ صاحب یعنی شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شایان شان ہے۔ جس کے بارے میں شیخ محمد حسین نے بطور رمز کنایۃً کہا تھا کہ تیس 30 سال ہوئے کہ میں قلم کو ارادتًا مقدور بھر استعمال کرتا ہوں لیکن اس کے رموز ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اور مکمل ہونے کے بھی نہیں۔ اور یہ چند نکات جو کہ انوار کے سمندروں میں سے اس فقیر کو جلوہ نما ہوئے ہیں آسان طریقہ پر حل شدہ انداز میں تحریر کرتا ہوں۔ حقیقت میں اِس کی حقیقت تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اِس تک کسی کی رسائی ہو سکے گی۔

فصل

زکوٰۃ کے بارے میں

نماز کے بعد زکوٰۃ کا رکن ہے۔ سرور عالم نے فرمایا ہے کہ "اَلزَّکوٰۃُ قَنْطَرَۃُ الْإِسْلَامِ" (المعجم الأوسط للطبرانی، باب: المیم، رقم الحدیث: 8937) ”زکوٰۃ اسلام کا پُل ہے“ جو لوگ مال و دولت رکھتے ہوں اُن پر زکوٰۃ واجب ہے۔ ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ….﴾ (التوبہ: 60) ”زکوٰۃ فقیروں کے لیے ہے“ اس زکوٰۃ سے علماء ظاہر ایک چیز مراد لیتے ہیں اور محقق لوگ دوسری مُراد لیتے ہیں، مگر ہر ایک کو اس کا حصّہ دینا چاہیے۔ چنانچہ مال سے زکوٰۃ کے طور پر بہر حال دینا واجب ہے۔ اس طرح اولیاء اللہ پر واجب ہے کہ علم معرفت میں سے زکوٰۃ دے دیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "لَا کَنْزَ أَنَفَعُ مِنَ الْعِلْمِ (أَيْ عِلْمِ الْمَعْرِفَۃِ)" (هذا من أقوال علی رضی اللہ عنہ کما نقله المجلسی فی بحار الأنوار، رقم الصفحۃ: 282/72) ”علم سے زیادہ نفع دینے والا خزانہ نہیں اور علم سے مراد علم معرفت ہے“ کیونکہ علم اولیاء اللہ کا خزانہ اور رزق ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ ﴿مَنْ رَّزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا...﴾ (نحل: 75) کہ ”جس کو ہم رزقِ حسن عطا فرمادیں“ اے برادر عزیز! رزقِ حسن بس یہی علم معرفت ہے کہ "اَلْعِلْمُ لَا یُحِلُّ اللہُ مَنْعَہٗ" یعنی علم کا منع کرنا اور کسی کو نہ دینا اللہ تعالیٰ نے ناجائز فرمایا ہے۔ پس اے بھائی! لوگوں کے حوصلے کے مطابق یہ نثار کرنا چاہیے اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ پر عمل کرنا چاہیے کہ ﴿مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3) ”اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کر دیتے ہیں“ اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ زکوٰۃ سے مراد ایک خزانہ ہے: "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) "میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں" یہ زکوٰۃ ہے کہ جس سے علماء ظاہر محروم ہیں۔ اولیاء اللہ پر واجب ہے کہ یہ زکوٰۃ اپنے بھائیوں کو دے دیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَشَرُّ النَّاسِ مَنْ أَکَلَ وَحْدَہٗ" (مختصر تاریخ دمشق لابن منظور بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 307/21) ’’یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ بُرا شخص وہ ہے جو اکیلا کھائے‘‘۔ اور ہمارے حضرت شیخ صاحب کو اس علم و معرفت سے بہت بڑا اور کامل حصہ نصیب ہوا تھا اور اس کی زکوٰۃ بہت سے لوگوں کو دے چکے تھے۔ اور ان کو ان کا حصہ دے کر محفوظ ہوئے تھے۔

فصل

روزے کے بیان میں

ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ شریعت کا روزہ بھی رکھتے تھے اور حقیقت کا بھی روزہ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَآ أَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ: 183)

(حاشیہ: 1؎ قنطرہ: پُل جو دریا پر ہو۔)

”اے ایمان والوں فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ“

شاید کہ تم گناہوں سے پرہیز کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور روزہ آرزؤں کو توڑتا ہے۔ تفسیر عرائش میں ہے کہ یہ آواز اہل دل کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اُن لوگوں کو بلاتا ہے جو زمین و آسمان کی وسعتوں میں مشاہدۂ محبوب کے ہلال کو تلاش کرتے ہیں، اور یہ آواز دلوں کو فرحت دیتی ہے اور رنج و غم کو دور کر دیتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم اہلِ یقین لوگوں کو تمام چیزوں سے منع کیا جاتا ہے، کیونکہ تم مشاہدۂ جمال کے طالب ہو اور اس مطلوب کے طلب کرنے والوں پر روزہ واجب ہے کہ تم پر مرغوب اور دلپسند چیزوں سے (جیسا کہ انبیاء اور اولیاء کے بارے میں لکھا گیا ہے) روزہ واجب ہے تاکہ تم بشریت کی نجاست سے رہائی پا کر امن و قرب کے مقام سے واصل ہو جاؤ۔ اور جناب عین القضاۃ صاحب نے اپنی کتاب تمهیدات میں تحریر فرمایا ہے کہ شریعت میں روزہ طعام اور پینے سے منع ہونے اور نہ کھانے سے ہے، اور حقیقت میں اشارہ ہے کھانے پینے کی طرف۔ لیکن کھانا کونسا؟ "عِنْدَ رَبِّيْ یُطْعَمُنِيْ" (زاد المعاد، فصل فی ھدیہ علیہ الصلوۃ والسلام، رقم الصفحۃ: 31/2، مکتبہ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت) کہ میرے رب کے پاس مجھے کھانا کھلایا جاتا ہے اور پینا کونسا؟ ﴿وَ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الانسان: 21) ”اور ان کو ان کا رب پاک شراب پلاتا ہے“ اور صاف ظاہر ہے کہ یہ روزہ عارفوں کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔

نظم

مردِ عارف چوں یافت لذتِ قرب

نہ باکلش کشش بودش نہ بشرب

اکلش و شرابش چه باشد اُنس بحق

دائم او در حق ست مستغرق

لقمہ از خوان بطعمش یُطْعِمُنِيْ

شربت از چشمه سار یَسْقِیْنِيْ

”عارف آدمی جب قرب کی لذت سے آشنا ہوتا ہے تو اس کے لیے نہ کھانے میں کوئی کشش ہوتی ہے اور نہ پینے میں۔ اس کا کھانا پینا کیا ہوتا ہے، بس صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت۔ اور ہمیشہ حق کی محبت میں ڈوبا رہتا ہے، اس کو ''یُطْعِمُنِيْ'' کے دسترخوان سے لقمہ ملتا ہے اور ''یَسْقِیْنِيْ'' کے چشمۂ صافی سے پینے کو ملتا ہے“

اور اس زمانے میں یہ شرف ہمارے حضرت شیخ المشائخ کو اللہ تعالیٰ کی لطف و کرم سے عنایت کیا گیا تھا۔ اور یہ بات تو مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اَلصَّوْمُ لِيْ" کہ ’’روزہ میرے لیے ہے اور روزے کی حالت میں خدا کے سوا کوئی پیش نظر نہیں ہوتا‘‘ "وَ أَنَا أَجْزِيْ بِہٖ" (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام، رقم الحدیث: 2212) ”اور میں خود اس کی جزا دوں گا“ بلکہ میں خود اِس کی جزاء ہوں۔ اور قطبِ عالم شیخ نصیر الدین محمود قدّس سرّہُ العزیز نے اسی معنیٰ کی وضاحت میں فرمایا ہے: "الصَّوْمُ الْغُنْیَۃُ عَنْ رُُؤْیَۃِ مَا دُوْنَ اللہِ بِرُؤْیَۃِ اللہِ" ’’یعنی روزہ اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کی وجہ سے دوسری چیز کو دیکھنے سے غنا یعنی بے پروائی ہے۔‘‘ اور اس قسم کے روزے کو مریم علیہا السلام بیان کرتی ہیں: ﴿إِنِّيْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا﴾ (مریم: 26) ”میں نے نذر مانا ہے رحمٰن کا روزہ، سو بات نہ کروں گی آج کسی آدمی سے“ (شیخ الہند) کہ ان کا افطار اللہ کے دیدار کے بغیر نہیں ہوتا جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ إِفْطَارِہٖ وَ فَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّہٖ" (سنن النسائی بتغییر قلیل، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام، رقم الحدیث: 2212) ”روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اُس کے افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب کی ملاقات کے وقت“

محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رمز بیان فرمائی ہے کہ میرا روزہ: "صُوْمُوْا لِرُؤْیَۃِ اللہِ وَ أَفْطِرُوْا لِرُؤْیَۃُ اللہِ" یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر افطار کرو۔

اور روزے سے دوسری کوئی چیز یا نشانی نہیں لی جا سکتی کیونکہ اس روزے کی ابتدا بھی اللہ تعالیٰ سے ہے اور اس کا افطار بھی اللہ تعالیٰ ہی پر ہو گا۔ کہا گیا ہے کہ "اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ" (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب: ذکر الاختلاف علی محمد بن أبی یعقوب…، رقم الحدیث: 2224) کہ روزہ ڈھال ہے۔ شیخ محمد حسین صاحب نے ایک دوسری رمز بیان فرمائی ہے کہ اصلاح نفس اور تدبیرِ روح روزے سے ہوتی ہے، اس لیے کبھی روزہ رکھو اور کبھی افطار کرو۔ کیونکہ اگر تو عمر بھر کے لیے روزے سے ہوگے تو تم ایک رنگ میں رہو گے جیسا کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ "لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ" (الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب: حق الأھل فی الصوم، رقم الحدیث: 1977) کہ جو عمر بھر کے روزے رکھے تو اس کا کوئی روزہ نہیں۔ اگر افطار نہ ہو تو روزے کا نام کہاں ہوتا (اشیاء اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں)۔ تمام عمر کا روزہ دار صائم تو صرف ایک ہے جو کہ "اَلصَّمَدُ" یعنی بے نیاز ہے۔ یہ بھی اس ذاتِ پاک کی مخلوق کے لیے ایک نعمت ہے کہ "صُوْمُوْا سَاعَۃً وَّ أَفْطِرُوْا سَاعَۃً" ”کبھی روزہ رکھو اور کبھی افطار کیا کرو“ اس جگہ میں بہت مدارج تھے اور بہت سے رفیع و بلند مقامات تھے، لیکن اہل ظاہر کی وجہ سے جو کہ اس راہ سے واقف نہیں وہ باتیں چھوڑی گئیں اور بیان نہ کی گئیں۔

فصل

حج کے بارے میں

حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ شاید خلیل اللہ کا کعبہ دیکھ چکے تھے۔ حاجیوں میں سے بعض نے کہا ہے کہ ہم نے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حرم پاک میں دیکھا تھا۔ اور یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ بہت عرصہ مسجد حرم میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ ایک تحقیقی بات ہے کہ کعبہ خلیل علیہ السلام کا حج فرما چکے تھے ﴿وَ لِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: 97) ”اور اللہ تعالیٰ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی“ پس اے بھائی! اللہ تبارک و تعالیٰ کا راستہ نہ تو دائیں جانب اور نہ بائیں، نہ اوپر کی طرف ہے اور نہ نیچے کی طرف ہے، اور نہ دوری میں ہے اور نہ نزدیکی میں، ہاں اس کا راستہ مؤمن کے دل میں ہے اور صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہے کہ "دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالْ" پس اپنے نفس سے (حاشیہ: 1؎ شریعت میں "صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَ أَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ" (الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب: قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إِذَا رَأَیْتُمُ الْھِلَالَ فَصُوْمُوْا، رقم الحدیث: 1909) ہے کہ چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر عید مناؤ۔ مگر یہاں طریقت میں چاند کی بجائے اللہ کر دیا۔ سبحان اللہ)

دست کش ہو جاؤ اور آ جاؤ۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ سے پوچھا کہ "أَیْنَ اللہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ: فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو فرمایا کہ اپنے بندوں کے دلوں میں“ اپنے بندوں یعنی مؤمنوں کے دلوں میں ہے۔ ابیات:

؂ نباشد عیب پرسیدن ترا خانه کی باشد

نشانے دہ گر یابم کہ آن اقبالِ ما باشد

تو خورشیدِ جہاں باشی نہ چشمِ ما ازاں باشی

تو خود آں را روا داری و آنگه ایں روا باشد

”اس بات کو پوچھنے میں کوئی برائی نہیں اور عیب نہیں کہ تجھ سے پوچھ لیں کہ تمہارا گھر کہاں ہوگا۔ اپنے گھر کی نشانی بتا، شاید اگر ہم اس کو معلوم کر کے باریابی حاصل کریں تو یہ ہماری اقبال مندی ہوگی۔ آپ زمانے کے خورشید (سورج) ہیں اور ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، اس بات کو آپ جائز سمجھتے ہیں تو پھر یہ جائز ہی ہو گی“

ہاں تو فرمایا گیا کہ "قَلْبُ الْمُؤْمِنِ بَیْتُ اللہِ" ”مؤمن کا دل اللہ تعالیٰ کا گھر ہے“ پس اے مؤمن! تو دِل کا حج کر، کہ حج کرنا دل کا حج کرنا ہے۔ اگر تم یہ پوچھو کہ دل کہاں ہے تو دل کو ان دو جگہوں میں تلاش کرو کہ "قَلْبُ الْمُؤْمِنِ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ" (الصحیح لمسلم بتغییر قلیل، کتاب القدر، باب: تصریف اللہ تعالٰی القلوب کیف شاء، رقم الحدیث: 2654) ”مؤمن کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان میں ہے“ ایک جمال ہے دوسری جلال ہے۔ شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں ایک رمز ہے، اگر وہ نکتہ میں بیان کروں تو لوگ مجھے قتل کر دیں گے۔ اسی وجہ سے میں نے وہ نکتہ بیان کرنا چھوڑ دیا۔ مطلب یہ کہ صورت کا حج یعنی حجِ صوری تو ہر کوئی کر سکتا ہے مگر حجِ معنوی ہر ایک کے کرنے کا کام نہیں اور حجِ حقیقی کے راستے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ اس حج کی خاطر اپنی روح کے شہر سے اُٹھے، کیونکہ کہا گیا ہے کہ ﴿مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: 97) ”جو اس کی طرف قدرت رکھتا ہو راہ چلنے کی“

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور حجر اسود کو مخاطب فرما کر کہا کہ "إِنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَضُرُّ وَ لَا تَنْفَعُ لَوْ لَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ" (الصحیح للبخاری، کتاب الحج، باب: ما ذکر فی الحجر الأسود، رقم الحدیث: 1597) ”تم ایک پتھر ہو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ فائدہ، اگر میں اپنے آقا رسول اللہ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا“ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ساتھ تشریف فرما تھے۔ حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ "مَھْلًا یَّا عُمَرُ! إِنَّہٗ یَضُرُّ وَ یَنْفَعُ" ”خیال فرمائیے اے عمر (رضی اللہ عنہ) یہ نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی“ "فَقَالَ عُمَرُ مَا ضَرُّہٗ وَ مَا نَفْعُہٗ؟" ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا نفع کیا ہے اور اس کا نقصان کیا ہے؟“ فَقَالَ عَلِيٌّ کَرَّمَ اللہُ وَجْھَہٗ: قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا﴾ (مریم: 87) ”تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”مگر جس نے لیا ہے رحمٰن سے وعدہ“ یعنی جو عہد کہ ہم نے کیا ہے وہ عہد نامہ لکھا گیا ہے اور وہ عہد نامہ اس پتھر کے منہ میں رکھا گیا ہے۔ ہمارا بوسہ اس عہد نامے کا ہے نہ کہ پتھر کا۔ اور رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْحَجَرُ یَمِیْنُ اللہِ فِي الْأَرْضِ" (الکامل فی الضعفاء لابن عدی، رقم الصفحۃ: 557/1، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ”یہ پتھر اللہ تعالیٰ کا اس کی زمین میں ہاتھ ہے“ اس کو خدا کا ہاتھ کہا گیا ہے۔ اور اے عمر! (رضی اللہ عنہ) تُو اس کو ایک پتھر تصور کرتا ہے؟ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ اسرار معلوم فرمائے جو کہ اُنہیں فرمانے چاہئیں تھے۔

پس اے بھائی! موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور کے دیکھنے کے مشتاق تھے۔ اُن پتھروں کے دیکھنے کے نہیں، بلکہ اس مقام کے کہ جہاں اپنے محبوب سے ہم کلامی کی سعادت اور شرف حاصل کر چکے تھے۔ اور اس مقام کی دید کے مشتاق تھے نہ کہ پتھروں کے دیکھنے کے شوقین تھے۔ ﴿وَ أَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللہِ أَحَدًا﴾ (الجن: 18) ”اور یہ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے ہیں سو مت پکارو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو“ اے بھائی! کعبہ کا حُسن و جمال یہ پتھر نہیں جس کو حجاج کرام دیکھتے ہیں، کعبے کا جمال وہ نور ہے جو کہ اولیاء اللہ کی آنکھوں پر عیاں اور روشن ہے۔ اور کل قیامت کے دن وہ نور ایک خوبصورت شکل میں نمودار ہو کر اپنے زائرین کی شفاعت کے لیے نمودار ہو جائے گا۔ اے بھائی! کسی شخص نے بھی اپنی عُمر میں ایک بار بھی روحِ اعظم کا حج نہیں کیا ہے۔ "اَلجُمُعَۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْنِ" ”جمعہ مسکینوں کا حج ہے“ یعنی اے بھائی جمعہ روح کا نام ہے، جو کہ جمیع کونین (ساری کائنات ہے) اور کچھ کے نزدیک کونین یعنی کائنات میں ہے کہ "اَلرُّوْحُ جُمُعَۃٌ" ”روح جُمعہ ہے“ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رمز فرمائی ہے کہ "طَوَافُ الرُّوْحِ حِجَّۃٌ مَّبْرُوْرَۃٌ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”روح کا طواف حج مبرور و مقبول ہے“ اور یہاں سے یہ معلوم کرو گے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِيْ" (بحار الأنوار للمجلسی، ھو من غلاۃ الروافض، رقم الصفحۃ: 24/15) ”اللہ تعالیٰ نے پہلے پہل جو چیز تخلیق فرمائی وہ میرا نور تھا“ جو کہ ساری کائنات کا منبع اور مصدر ہے۔ چنانچہ اے بھائی! ایک دن بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھ کر اس سے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو؟ اُس نے کہا: "إِلٰی بَیْتِ رَبِّيْ" ”میں اپنے رب کے گھر کی جانب جاتا ہوں“ بایزید رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کتنے درہم رکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے پاس سات درہم ہیں۔ بایزید رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کہا کہ یہ مجھے دے دو اور میرے گرد سات بار طواف کرلو تو گویا کہ تم نے ستر دفعہ حج کیا اور تمھیں ستر حجوں کا ثواب مل جائے گا۔ اُس شخص نے ویسا ہی کیا لیکن اس کے دل میں خیال آیا کہ ستر حجوں کا ثواب خواب میں دیکھ لوں۔ اسی رات اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کے نامۂ اعمال میں ستر مبرور حجوں کا ثواب درج کیا گیا ہے کہ "طَوَافُ الرُّوْحِ حَجٌّ مَّبْرُوْرٌ" ”روح کا طواف حجِ مبرور ہے“ اور اصحابِ شریعت کا فتویٰ ہے کہ "اَلْجُمُعَۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْنِ" جمعہ مسکینوں کا حج ہے۔بیت:

؂ محرابِ جہاں جمالِ رخسارۂ ماست

سلطانِ جہاں در دِلِ بے چارۂ ماست

شور و شرک و کفر توحید و یقین

در گوشۂ دیدۂ مئے خون خوارۂ ماست

”ہمارے رخسار کا جمال و حُسن دنیا کی محراب و سجدہ گاہ ہے، اور دنیا جہاں کا بادشاہ ہمارے بے چارے اور شکستہ دِل میں جا گزین ہے۔ شور، شرک، کُفر، توحید اور یقین؛ یہ سب ہماری خونخوار آنکھوں کے گوشوں میں ہیں“

شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی اجسام اور کعبہ وغیرہ کی شکل و صُورت نہ تھی کہ ہماری روحِ اعظم، کعبہ اعظم میں سجدے میں تھی اور یہ اشعار بھی اُنہوں نے پڑھے:

؎ پیش ازاں روز کہ یادِ مے مے خانہ نہ بود

جانِ ما سوی خرابات ہمے کرد سجود

عاشقی را به طوافِ حرمِ کعبہ چه کار

شاہدِ ما چو رخ از خانۂ خمار نمود

”جب شراب اور شراب خانے کا نام تک بھی نہ تھا اُس سے پہلے ہماری روح خرابات میں سجدہ کرتی تھی۔ جب ہمارے معشوق نے شراب خانے سے اپنا جلوہ دکھایا تو اب عاشقی کے لیے حرمِ کعبہ کے طواف کی کیا ضرورت ہے؟“

؂ سرِّ وحدت ہمہ روشن شود گہ آن شنود

زنگِ هستی خود از آئینہ ہمے بزدود

بادہ می نوش کہ معشوقِ حقیقی ہرگز

ہر کہ او بستہ زہد است برو در نکشود

گاہ از نعرۂ مستان صبوحی تا روز

اندریں میکدہ چشمان محمد نہ غنود

”وحدت کے راز سب کُھل جائیں گے اور وہ شخص روشنی لے گا جس نے اپنے آئینے سے ہستی کا زنگ مٹا دیا۔ جو کوئی کہ زہد کا پابند ہوا ہے اُس پر معشوقِ حقیقی نے اپنا دروازہ رحمت نہیں کھولا۔ اس لیے شراب پیتا رہ۔ جامِ صبوحی کے مستوں کے نعروں سے دن چڑھنے تک اس شراب خانے میں محمد کی آنکھوں میں نیند تک نہ آئی“

شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ بشریت اور شریعت میں کعبۂ ربوبیت کو بیان کروں، لیکن اس کے متعلق میں نے رمز اور اشارہ کیا ہے۔ اسلام کے اِن پانچ ارکان کے متعلق میں نے حقیقت کا بیان کیا اس کے بعد کعبہ شریفہ کے اعجاز بیان کروں گا۔

﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ...﴾ (آل عمران: 96) سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بنایا گیا ہے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور اس کو فرشتوں کے سکونت اختیار کرنے کا مقام بنایا، زمین میں سے سبز رنگ کے زمرد سے جہاں آج کل خانہ کعبہ ہے، ایک محل بنایا اور اسی غرض کے مطابق یہ ایک گوہر (دانہ زمرد) سے بنایا گیا اور اس میں کوئی جوڑ نہیں تھا اور اس کو فرشتوں کا قبلہ بنایا۔ تعمیر کی تاریخ سے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک اُسی جگہ وہ محل موجود تھا۔ جب طوفانِ نوح آیا تو اللہ تعالیٰ نے وہ گھر اُٹھایا اور اسے چوتھے آسمان پر لے گیا۔ چنانچہ جیسا کہ زمین میں قبلہ موجود ہے آسمان میں بھی قبلہ ہے اور اس قبلے کے عین مقابل کعبہ ہے۔ اُس قبلے کو بیت المعمور کہتے ہیں۔ اور اس کعبہ سے بیت المعمور تک اور بیت المعمور سے ساتویں آسمان تک بھی قبلہ ہے۔ اور کعبہ سے نیچے کی جانب ساتویں زمین تک بھی قبلہ ہے اور وہ بھی کعبہ کے مد مقابل ہے۔ کیا تُو نہیں دیکھتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کنویں اور مچھلی کے پیٹ میں جب نماز پڑھتے تھے تو اسی قبلے کی طرف رخ کرتے تھے۔ ﴿لَلَّذِيْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا...﴾ (آل عمران: 96) مکہ کو مبارک کہا یا کعبہ کو مبارک کہا اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ مکہ ہے اور مکہ کی مبارکی اس لیے کہ رسول اللہ کو اس مٹی سے پیدا کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کا اجلاس بھی اسی جگہ پر تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کا تخت بھی کعبہ کے مقام میں تھا۔ اور یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ جو کوئی وہاں جائے گا اُسے قبر کا عذاب نہیں ہوگا۔ اور یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ جو کوئی مکہ مکرمہ آ جائے تو اُسے برص یا جذام نہیں ہوتا۔ اور یہ بات اسی حدیث میں ہے۔ اور یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ رحمت کا نزول پہلے سے وہاں پر ہوگا اور وہاں سے دنیا کی اطراف میں پھیل جائے گا۔ اور یا اس لیے مبارک ہے کہ دنیا کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کئی ہزار انبیاء، اولیاء، زہاد، عبادت گزار اور اوتادوں کی رہائش گاہ رہا ہے۔ اور یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ اس کی جانب ہر طرف سے نماز کے لیے رخ کرنا جائز ہے اور یا اس لیے مبارک ہے کہ دوسرے مقاموں سے وہاں کی عبادت کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَ ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 96) ”اور عالمین کے لیے عبادت ہے“ جس کسی نے اس کی کرامتیں اور نشانیاں دیکھ لیں وہ مسلمان ہو گیا۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر نے فرمایا کہ جو کوئی حالت جنابت میں کعبہ کے دروازے کو پکڑے اس کا ہاتھ خشک ہو جاتا ہے۔ ایک کافر کو آدھی رات کو جنابت پیش آئی، اس نے کعبہ کی طرف ہاتھ بڑھایا اُسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہو گیا۔ صبح سویرے وہ کافر رسول اللہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور مسلمان ہو گیا۔ اور ایک قول کے مطابق ﴿ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 96) کا مفہوم "قِبْلَۃُ الْعَالَمِیْنَ أَيْ قِبْلَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ" اور ایک قول کے مطابق "مَلْجَأٌ لِّلْعَالَمِیْن" یعنی مسلمانوں کا قبلہ اور دنیا جہاں والوں کا ملجا ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے ﴿اٰیَاتٌ بَیِّنَاتٌ...﴾ (آل عمران: 97) یعنی اس میں روشن نشانیاں ہیں۔ آیاتِ بینات، یعنی اس میں کرامتیں اور برکتیں اور مظاہرِ سعادت ہیں۔ ایک نشانی اور کرامت تو یہ ہے کہ کوئی پرندہ اُس کے اوپر نہیں گزر سکتا، اور اگر قصد کرے تو اُسی وقت جل اٹھتا ہے۔ دوسری کرامت اور نشانی یہ ہے کہ جب کوئی درندہ شکار پر حملہ آور ہوتا ہے اور شکار حرم میں داخل ہو جاتا ہے تو اگر وہ درندہ شکار پر حملہ کرنے سے تب بھی باز نہ آئے تو وہ درندہ فوراً ہلاک ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح باز کا حال ہے جب وہ حدودِ حرم میں کبوتر پر جھپٹنا چاہے۔ تیسری کرامت یہ کہ جب صحرائی جانور بیمار ہو جائیں وہ ایسی جگہ کھڑے ہو جائیں جہاں کعبہ کی جانب سے ہوا چلتی ہو، جب ہوا کا کوئی ایسا جھونکا کعبہ کی جانب سے آئے اور اُن کو وہ ہوا لگ جائے تو وہ فوراً صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ چوتھی کرامت یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو دیکھنے سے کوئی سیر نہیں ہوتا۔ پانچویں کرامت یہ ہے کہ جو شخص اس کے خراب کرنے اور اجاڑنے کا ارادہ کرے وہ ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اصحاب فیل کا واقعہ مشہورِ عالم ہے۔ چھٹی کرامت یہ ہے کہ اگر جنبی آدمی اس کی طرف ہاتھ بڑھائے تو اس کا ہاتھ خشک ہو جاتا ہے۔ ساتویں کرامت یہ کہ وہ کسی وقت بھی طواف سے خالی نہیں رہتا۔ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں چالیس دن حرم کعبہ میں تھا، میں چاہتا تھا کہ کسی وقت کعبہ کو خالی پاؤں اور میں طواف کروں مجھے کسی وقت بھی یہ طواف سے خالی نہیں ملا۔ آٹھویں کرامت یہ ہے کہ اس کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں ہے، اگر چہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا۔ نویں کرامت یہ ہے کہ جو کوئی اس کو دیکھے اس کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ دسویں کرامت یہ ہے کہ جس نے اس کی زیارت کی تو اس کا اثر اس پر ضرور ہوتا ہے۔ گیارہویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص نے ارادہ کیا کہ بیت المقدس کی زیارت کو جائے، اس کے پاس چند ہزار اشرفیاں تھیں، خانہ کعبہ کے اندر ان کو رکھا اور چلا گیا کہ کوئی یہاں سے چوری نہیں کر سکتا۔ ایک چور اس سے باخبر ہوا، اس نے ایک سرنگ بنائی اور اس کے نزدیک سرنگ لے جا کر سوراخ کر دیا اور اس سے سر باہر نکالا اور اس مال کی جانب ہاتھ بڑھایا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ سکڑ کر تنگ ہو جاؤ۔ جب زمین تنگ ہو گئی تو اس کا سر بدن سے کٹ کر جدا ہو گیا اور اس مال کے نزدیک پڑا رہا۔ ایک آواز آئی کہ جو کوئی ہمارے گھر میں چوری کی نیت سے آئے گا تو وہ اپنا سر ضائع کرے گا۔ یہ آواز کعبہ کے مجاوروں نے سنی، انہوں نے جب کعبہ کا دروازہ کھولا تو اس آدمی کو پاس پڑا ہوا پایا۔ بارہویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص کعبے کے اندر مصروفِ عبادت تھے۔ حسبِ معمول انہوں نے دروازہ بند کیا اور دروازے کو مقفل کر کے چلے گئے۔ جب آدھی رات گزری تو ان کو حاجت ضروری کا تقاضا ہوا، مجاوروں کو اندر سے بہت آوازیں دیں، مگر کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ وہ شخص مجبوراً خانہ کعبہ کے اندر حاجتِ انسان سے فارغ ہوا۔ صبح نکل آیا اور اپنے اس بُرے کام کی شرم کی وجہ سے بھاگ نکلا۔ جب مجاور خانہ کعبہ کے اندر آئے تو انہوں نے مشکِ ازفر کی ایک پوٹلی دیکھی۔ مجاوروں نے اعلان کیا کہ اے برادرانِ اسلام! یہاں کسی نے مشک کی پوٹلی چھوڑی ہے کسی نے جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ آدمی آیا اور اس نے اپنا قصہ بلا کم و کاست بیان کیا۔ تیرھویں کرامت یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں "رخاب" نام کی ایک عورت تھی، وہ "عقیل" نام کے ایک مرد پر عاشق تھی۔ ایک رات اس کو خانہ کعبہ کے اندر پکڑ کر اپنی خواہش پوری کی۔ دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے ساتھ چسپاں رہ گئیں۔ بہت زور لگایا مگر کسی حالت میں بھی جدا نہ ہو سکے۔ صبح لوگوں کے درمیان ذلیل ہوئے، تین دن اسی طرح تھے۔ چوتھے دن ہلاک ہوئے اور اُن کی شکل خنزیر کی مانند ہو گئی۔ چودھویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص نے طواف کی حالت میں ایک پرائی عورت کو بری نگاہ سے دیکھا، اُسی وقت اندھا ہو گیا۔ پندرھویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص چوری کی تہمت میں پکڑا گیا، اس نے کہا کہ میں کعبہ کی قسم کھاتا ہوں۔ مخالف راضی ہوگیا، جونہی چور نے کعبہ پر ہاتھ رکھنا چاہا اسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہو گیا۔ سولہویں کرامت یہ ہے کہ ایک دفعہ خادمانِ کعبہ، کعبہ کے اندر چلے گئے اور چاہا کہ رسول اللہ کے سامنے کچھ بہانا بیان کریں، انہوں نے کعبہ کے اندر ایک آواز سنی کہ میرے دوست کے ساتھ فریب دہی کی کوشش نہ کرو، تم اس میں کامیاب نہ ہوگے، یہ سُن کر سب بھاگ نکلے۔ سترھویں کرامت یہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی خانہ کعبہ کو بہت دیکھا کرے تو اس کی بینائی تیز ہو جائے گی۔ اٹھارہویں کرامت یہ ہے کہ اس میں جتنے لوگ بھی جمع ہو جائیں سب سما سکتے ہیں۔ انیسویں کرامت یہ ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کے ساتھ اپنا جسم مَل دے تو اس کی وہ جسمانی تکلیف زائل ہو جاتی ہے۔ بیسویں کرامت یہ ہے کہ ایک دن ابوجہل اپنے غلام پر غصے ہوا اور اس کے پیچھے بھاگا۔ غلام خانہ کعبہ کے اندر جا گھسا، یہ بھی تعاقب کرتے ہوئے اندر گھسا، فوراً اسی وقت اندھا ہو گیا۔ تبرک کے خیال سے اس کی مٹی آنکھوں میں ڈالی تو بلا تاخیر پھر بینا ہو گیا۔ اکیسویں کرامت یہ ہے کہ نوشیروان عادل، بزرجمہر پر غصہ ہوا اور اس کو مکہ مکرمہ میں قید کر دیا، ایک رات چھت پر کھڑا تھا کہ آسمان سے ایک نور کو دیکھا جو کہ خانہ کعبہ پر پڑ رہا تھا۔ فوراً دُعا کی کہ اے خدا! اس گھر کے طفیل مجھے اس قید سے نجات عطا فرما۔ ابھی وہ چھت پر سے نہیں اُترا تھا کہ نوشیروان نے قاصد بھیج کر اس کو قید سے رہائی دے دی۔ وہ اُسی وقت اللہ تعالیٰ پر دل میں ایمان لایا۔ غرض خانہ کعبہ کی آیاتِ بینات بہت زیادہ ہیں، اختصار کے طور پر یہ چند بیان کی گئی ہے۔ وَ قَالَ اللہُ تَعَالٰی ﴿مَقَامُ إِبْرَاھِیْمَ...﴾ (آل عمران: 97)۔ چونکہ آخری عمارت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دست مبارک کی بنائی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے اسم گرامی کے ساتھ اضافت کی گئی۔ کہتے ہیں کہ کعبہ کو سات مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ بیتِ المعمور، دوسری دفعہ حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے

(حاشیہ: 1؎ مصنف کی علمی شان کے آفتاب کے سامنے یہ فقیر ذرہ بھی نہیں، مگر چونکہ یہ ایک دینی مسئلہ ہے اس لیے عرض ہے کہ علامہ ازرقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ اخبار مکہ سن 355 مطبوعۃ مکہ مکرمہ میں تحریر فرمایا ہے کہ "وَ اتَّفَقَ عَلَیْہِ أَنَّ الْمُؤَرِّخُوْنَ اٰخَرُوْنَ أَنَّ الْکَعْبۃَ بُنِیَتْ عَشَرَ مَرَّاتٍ…." یعنی مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خانہ کعبہ کی دس دفعہ تعمیر کی گئی ہے۔ بارِ اول فرشتوں نے تعمیر کی، دوسری دفعہ حضرت آدم علیہ السلام نے، تیسری دفعہ حضرت شیث علیہ السلام نے، چہارم حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے، پنجم عمالقہ، ششم قبیلہ جُرہم، ساتویں قصی، آٹھویں قریش، نویں ابن زبیر رضی اللہ عنہ، دسویں حجاج۔ علامہ ارزقی نے آگے تحریر فرمایا ہے کہ "وَ قُلْنَا قَدْ بُنِیَتْ لِمَرَّۃِ الْحَادِیَۃِ عَشَرَ عَامَ 1039 ھِجْرِیَّۃً فِیْ عَہْدِ السُّلْطَانِ مُرَادِ بْنِ السُّلْطَانِ أَحْمَدَ مِنْ سَلَاطِیْنِ آلِ عُثْمَانَ" ”ہم یہ کہتے ہیں کہ گیارہویں دفعہ اس کی تعمیر 1039 ہجری میں سلطان مراد بن سلطان احمد جو کہ آل عثمان کے سلاطین میں سے تھے کے دور میں ہوئی تھی)

بعد تیسری بار یلدز نام کے کافر نے بت خانہ بنا دیا اور اس کی چند اینٹیں اس میں لگائی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے زلزلے سے اس خانہ کعبہ کو مسمار کر دیا۔ اس کے بعد چوتھی دفعہ اس یلدز کے بیٹے شمعون نے اس کی چوتھی دفعہ تعمیر کرائی، پانچویں بار حضرت داؤد علیہ السلام نے تعمیر فرمائی، چھٹی دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی تھوڑی سی عمارت بنائی تھی، ساتویں بار حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، بی بی سارہ و بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہما نے تعمیر فرمائی۔ قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ آمِنًا...﴾ (آل عمران: 97) ”جو کوئی اس میں داخل ہو وہ امن میں ہو گا" بعض مفسرین کے نزدیک وہ قتل سے مامون ہو گیا۔ یعنی اگر کوئی چور یا قاتل آ جائے تو اس کے ہاتھ اندرونِ حرم نہیں کاٹے جائیں گے اور نہ اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا، بلکہ اس کو کھانا پینا نہیں دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ حدودِ حرم سے باہر آ جائے اور اس پر شرعی احکام نافذ ہو جائیں۔ اور بعض کے نزدیک "کَانَ اٰمِنًا مِّنَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ" یعنی جذام اور برص سے امن میں رہے گا۔ بعض یہ مراد لیتے ہیں کہ جو کوئی اس میں داخل ہو گا وہ ذلت اور پستی سے امن میں رہے گا۔ اور بعض کے نزدیک "کَانَ اٰمِنًا مِّنَ النَّارِ" یعنی وہ دوزخ میں کی آگ سے امن میں رہے گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "مَنْ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ أَمِنَ مِنَ الْہَاوِیَۃِ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”جو شخص کعبہ میں داخل ہوا وہ ہاویہ دوزخ کے عذاب سے امن میں ہوا“ اگر کوئی تجارت کی نیت کر کے ساتھ حج بھی کرے تو اس کو اس قدر ثواب ہاتھ نہیں آئے گا جتنا کوئی خالصتًا للہ حج کرے اور ریاکاری اور شہرت و ناموس سے دور ہو۔ اور یہ ریاکاری سے اجتناب اس لیے کہ اس کی تکلیف رائیگاں نہ جائے۔ اس کو چاہیے کہ فسق و فجور سے جان بچا کے رکھے اور توبہ اچھی طرح سے کر کے نبھائے اور احرام کے بعد اپنی بیگم سے بوسہ بازی، چھیڑ خانی اور جماع سے احتراز کرے۔ حدیث شریف کے الفاظ اس طرح ہیں "لَمْ یَرْفَثْ وَ لَمْ یَفْسُقْ" (الصحیح للبخاری، کتاب الحج، باب: فضل الحج المبرور، رقم الحدیث: 1521) ”نہ رفث کرے اور نہ فسق“ پھر دونوں کا ترجمہ کر کے کہتے ہیں "اَلرَّفَثُ ھُوَ الْجِمَاعُ وَ الْمَسُّ وَ الْقُبْلَۃُ، وَ الْفِسْقُ وَ الْفُجُوْرُ ھُوَ الْمَعَاصِيْ" یعنی رفث جماع، چھیڑ خانی اور بوسہ بازی ہے۔ اور فسق و فجور گناہ اور نا فرمانی ہے۔

(حاشیہ: 2؎ اللہ تعالیٰ: اس میں شرف تعمیر کعبہ کا ذکر کیا ہے، اس میں حضرت اسحاق علیہ السلام وغیرہ کا نام نہیں بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ذکر مبارک آیا ہے۔ مثال کے طور پر: ﴿وَإِذْ یَرْفُعُ إِبْرَاھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ إِسْمَاعِیْلُ﴾ (البقرۃ: 127) ﴿وَ عَھِدْنَا إِلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَ إِسْمَاعِیْلَ أَنْ طَھِّرَا بَیْتِيَ لِلطَّائِفِیْنَ﴾ (البقرۃ: 125)۔ تفصیل کے لیے اخبارِ مکہ اور متداول تفاسیر ملاحظہ فرماویں۔ مترجم عبدالرزاق کوثر)