حصہ 2 باب 4: حضرت صاحب کی محبت اور درد کے حالات میں

چوتھا باب

حضرت صاحب کی محبت اور درد کے حالات میں

حضرت صاحب کی خاص صفت محبت اور دردِ حق تھی۔ وہ اللہ سے محبت کرتے تھے اور معرفت الٰہی کی علامات میں سے ایک علامت محبت ہے۔ "لِأَنَّ مَنْ عَرَفَہٗ أَحَبَّہٗ وَ أَلْزَمَ بَابَہٗ، وَ قِیْلَ: اَلْمَحَبَّۃُ مَیْلُ الْقَلْبِ إِلَی اللہِ وَ إِلٰی مَا أَحَبَّ اللہُ" ”کیونکہ جس کو معرفت حاصل ہوئی، وہ اُس کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے اور اُس کے دروازے پر پڑ کر سرِ مو انحراف نہیں کرتا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ محبت دل کے میلان کو کہتے ہیں، جو کہ خدا کی جانب پورا میلان ہو اور اُن اشیاء کی طرف بھی جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں“

حضرت سمنون رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ محبت کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: "مَا خَلَقَ اللہُ شَیْئًا وَّ الْمَحَبَّۃُ أَلْطَفُ مِنْہُ فَکَیْفَ أُعَبِّرُ عَمَّا لَا عِبَارَۃَ لَہٗ؟" ”اللہ تعالیٰ نے جتنی اشیاء تخلیق فرمائی ہیں، محبت اُن سب سے لطیف ترین چیز ہے۔ تو میں کس طرح وہ چیز عبارت اور الفاظ میں بیان کروں جس کے لیے الفاظ اور عبارت نہیں؟“ عشق کے کوچے کے درد مند کہتے ہیں کہ "اَلْمَحَبَّۃُ عِلَّۃٌ فِیْھَا کُلُّ شِفَاءٍ" ”محبت ایسی بیماری ہے، جس میں سراسر شفا ہی شفا ہے“

اے میرے عزیز! یہ عجیب درد ہے کہ تمام دارو اور دوائی اُس میں موجود ہے اور اس درد کی کوئی دوا نہیں سوائے دردِ محبت کے۔ پس اُس درد کا درد مند فریاد نہیں کرتا، اور اپنے درد کو ہزار دوا و درمان سے فروخت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، اور اپنے دوست کے علاوہ کسی دوسرے کے دیکھنے سے آنکھیں ایسی بند کر لیتا ہے کہ دل کے اندھے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اندھا ہے۔ اور خدا سے محبت کرنا خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنا ہے ورنہ اس بندۂ خاکی کی اُس ذات پاک سے محبت کی کیا تُک ہے؟ آخر بندہ کیا کرے گا جب وہ اپنے خداوند سے محبت نہ کرے۔ اُسے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ خدا بندے سے محبت کرنے لگے۔

ایک دفعہ ایک آدمی حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ خدا کو چھوڑ کر کوئی مجھ سے محبت کرے۔ "فَإِنَّ أَبِيْ أَحَبَّنِيْ فَطَرَحَنِيْ إِخْوَتِيْ فِي الْجُبِّ وَ إِنَّ امْرَأَۃَ الْعَزِیْزِ أَحَبَّتْنِيْ فَأَلْقَانِيْ خُدَّامُھَا فِي السِّجْنِ" ”میرے باپ نے میرے ساتھ محبت کی تو میرے بھائیوں نے مجھے کنویں کی تاریکی میں پھینک دیا، اور عزیز کی بیوی (زلیخا) نے میرے ساتھ محبت کی تو اُس کے نوکروں نے مجھے قید خانے میں ڈال دیا“ اے عاشق! محبت کو لکڑی سے سیکھ کہ اس کے سر پر آرا چلاتے ہیں مگر وہ زکریا علیہ السلام کی طرح سر تک نہیں ہلاتا، اور اُسے آگ میں ڈالا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح دم نہیں مارتا، حضرت یحییٰ علیہ السلام کو خلوت کی لذت اُس دن ہو گئی تھی جب وہ آرا کشی کی کشمکش میں تھے۔ جب اُس ثابت قدم ذات کے سر پر آرا رکھا گیا تو کسی نے ان سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میرا آدھا حصّہ مشرق میں اور آدھا مغرب میں گر پڑے تاکہ دنیا کے لوگ یہ جان لیں کہ جس راہ پر ہم نے قدم رکھا ہے، وہ ایسی مشکل اور عجیب راہ ہے کہ اُس میں اپنے آپ کے باوجود قدم نہیں رکھ سکتے۔

ہمارے حضرت صاحب فقر کی صفت سے مزین تھے، گویا کہ دریائے فقر کے نہنگ تھے۔ پس صادق طبیب یعنی سچے فقیر جو کہ فسق کی بیماری کا علاج کر سکتے ہیں، وہ یہ بات کہتے ہیں کہ "اَلْعَالِمُ طَبِیْبُ الدِّیْنِ وَ الدَّرَاھِمُ دَاءٌ، فَإِذَا کَانَ الطَّبِیْبُ یَجُرُّہُ الدَّاءُ إِلٰی نَفْسِہٖ فَکَیْفَ یُدَاوِيْ غَیْرَہٗ؟" ”عالم، دین کا طبیب ہے، اور زرِ دنیا (روپیہ پیسہ) بیماری ہے۔ جب طبیب خود اپنی جان کے لیے بیماری کے حصول کے لیے کوشاں رہے تو پھر بھلا علاج کون کرے گا؟“ اے بھائی! سب سے پہلے جس اشرفی پر دنیا میں مہر لگائی گئی، تو ابلیس علیہ اللعنۃ نے اُسے اُٹھا کر بوسہ دیا اور سر آنکھوں سے لگایا اور کہا کہ اے دینار! تمہاری دوستی کی وجہ سے لوگ میرے دوست بن جائیں گے۔

فقیر لوگ ہمیشہ علماء کی اقتدا کرتے رہتے ہیں، اور دنیا کے ترک کرنے کے سلسلے میں علماء کو چاہیے کہ فقیہ اور دین شناس فقیروں کی اقتداء کریں۔ فقیہ ابو اللیث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب عالم لوگ حلال مال کے جمع کرنے میں لگ جائیں تو عوام مشتبہ کی دولت کے حصول میں منہمک ہو جاتے ہیں، اور جب اہل علم مشتبہ مال کے اکھٹا کرنے میں لگ جائیں تو عوام حرام خوری کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اور جب اہل علم حرام خور ہو جائیں تو عوام کافر ہو جاتے ہیں ''نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْھَا''۔ اے میرے عزیز! عالم کو چاہیے کہ وہ درویش ہو، اور درویش کو چاہیے کہ وہ عالم ہو۔ اور جس عالم میں فقر کی چاشنی نہ ہو تو وہ ایک ضرر رساں درندہ ہے، اور جس فقیر میں علم کی حلاوت اور شیرینی نہ ہو تو وہ فقط ایک عامل ہے اور وہ بھی بے کار۔ بیت:

؎ نخشبی فقر بے علوم نکو

شہد بے منفعت وہم زہر است

”اے نخشبی! بغیر علم کے فقر ایک بے فائدہ شہد بلکہ زہر ہے“

؎ آنچہ در آدمی بکار آید

فقر با علم و علم با فقر است

”جو چیز آدمی کے لیے ضروری ہے، وہ علم کے ساتھ فقیری اور فقیری کے ساتھ علم ہے“

عبودیت محتاج تعارف چیز نہیں، اللہ کے بندے جانتے ہیں کہ بندگی کیا ہوتی ہے لیکن حریت آزادی کے بارے میں سنو کہ حریت کیا ہوتی ہے۔ "قِیْلَ: اَلْحُرِّیَّۃُ الْإِعْرَاضُ عَنِ الْکُلِّ وَالْإِقْبَالُ إِلٰی مَنْ لَہُ الْکُلُّ" یعنی حریت سب سے منہ موڑنا ہے، اور اُس کی طرف رُخ کرنا ہے جس کا یہ کُل ہو یعنی ہر چیز کا مالک ہو۔ حسین منصور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو بندہ مقامِ عبودیت کو بالکل طے کر لے، اس کو حر کہتے ہیں۔ "وَ ذَالِکَ مَقَامُ الْأَنْبِیَاءِ وَالصِّدِِیْقِیْنَ" ”یہ انبیاء اور صدیقین کا مقام ہوتا ہے“ حضرت جنید صاحب سے کسی نے پوچھا کہ اگر کسی سالک پر دنیا سے اس قدر باقی رہ چکا ہو کہ سات کنکریوں پر گنا جائے، تو اُسے حر کہتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ "اَلْمُکَاتَبُ عَبْدٌ مَّا بَقِيَ عَلَیْہِ الدِّرْھَمُ" کہ مکاتَب ؂1 اُس وقت تک غلام ہوتا ہے، جب تک کہ اُس پر مکاتبت رقم کا ایک درہم واجب الاداء ہو۔ اے میرے عزیز! جو کوئی عبودیت اور طریقت کو کما حقہٗ ادا کرے حقیقت میں حر (آزاد) وہی ہے۔ "قَالَ الْحَسَنُ: مَنْ أَرَادَ الْحُرِّیَّۃَ فَلْیَعْمَلِ الْعُبُوْدِیَّۃَ" ”جو شخص کہ حریت چاہے، تو اس کو چاہیے کہ عبودیت پر عمل کرے“ قطعہ:

؂ نخشبی ہم جو بندگان مے باش

ورنہ آفاق بہ تو خندہ کند

کار احرار کار احرار ست

بندہ باید کہ کار بندہ کند

”اے نخشبی! بندوں کی طرح رہا کرو ورنہ تم پر ہنسائی ہوگی۔ احرار کا کام احرار کا عمل ہوتا ہے، بندہ کو چاہیے کہ بندگی کا عمل انجام دیتا رہے“

(حاشیہ ؂1: مکاتَب وہ غلام ہوتا ہے، جو اپنے آقا کے ساتھ آقا کی مرضی سے معاہدہ کرے کہ میں تم کو اتنی رقم ادا کروں گا، اور اس رقم کی ادائیگی کے عوض تم مجھے اپنی غلامی سے آزاد کروگے۔ کوثر)

اور جو کوئی لغو اور ہنسی مذاق کی باتیں بکتا رہے، وہ بندگی سے آگاہ نہیں اور اگر اپنے آپ کو حُر کہے تو اُس کی بات میں کوئی تُک نہیں۔ اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی خاصیتوں میں ایک صفت شکر گزاری کی تھی کہ وہ دائمی طور پر رضا و بلا میں شاکر اور شکور رہتے تھے اور کسی محنت اور مشقت کے وقت کسی قسم کا شکوہ شکایت نہیں فرماتے تھے۔ اور کسی قسم کی تکلیف و شدید رنج میں اُن کی حالت میں تغیر اور فرق نہیں آتا تھا، اللہ تعالیٰ کی رضا کو اختیار کیے ہوئے تھے اور اپنی رضا اور نفس کے فائدہ کی پروا نہ کرتے ہوئے حق تعالیٰ کی رضا جوئی کے متلاشی رہتے، اور اپنی رضا کو پس پشت ڈال کر راضی برضائے ایزدی تھے۔ محققین سے نقل ہوا ہے کہ شاکر اور شکور میں فرق یہ ہے کہ "اَلشَّاکِرُ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الرَّخَاءِ وَالشَّکُوْرُ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الْبَلَاءِ" یعنی شاکر وہ ہے جو کہ نعمت، خوشی اور راحت پر شکر کرے، اور شکور وہ ہے جو کہ مصیبت پر شکر کرے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ "اَلشَّاکِرُ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الْمَوْجُوْدِ وَ الشَّکُوْرُ الَّذِيْ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الْمَفْقُوْدِ" وَ قَالَ بَعْضُ أَھْلِ الْمَعْرِفَۃِ: "الشَّاکِرُ خَوْفُہٗ أَبْلَغُ وَ الشَّکُوْرُ رَجَاءُہٗ أَبْلَغُ" ”شاکر وہی ہوتا ہے جو کہ موجود پر شکر ادا کرے، اور شکور وہ ہوتا ہے جو کہ مفقود پر شکر ادا کرے۔ اور بعض اہل معرفت نے فرمایا ہے کہ شاکر وہ ہے جس کا خوف زیادہ ہو اور شکور وہ ہے جس کی اُمید زیادہ ہو“ بلکہ حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اکثر مریدان مراتب اعلیٰ تک پہنچے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے شیخ صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید اپنا حال بیان فرماتے تھے، اور اللہ کے نام کی قسم اٹھا کے بیان کرتے تھے کہ جس رات کہ میرے گھر میں کچھ بھی نہ ہو اور میرے اہل و عیال بھوکے سو جائیں، تو میں اُس رات بہت خوش اور راضی رہتا ہوں اور بھوک و ننگ سے اُن کو کچھ غم اور رنج نہ ہوتا۔ اور اُن سے کچھ خوف اور ہیبت نہیں ہوتی۔ حضرت صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید نے ایک لوٹا حضرت صاحب کے دربار میں لٹکایا اور معلق باندھ کر چھوڑ دیا۔ اور اُس سے اس کی مراد اور مطلب یہ تھا کہ میں دنیا میں اس لوٹے کی مانند خوار اور ذلیل ہو جاؤں اور دنیا کی نعمتوں سے بے بہرہ اور بے نصیب ہو کے رہوں تو میں اس بات پر راضی ہوں۔ پس ان کے لیے دنیا کی محنت اور تکلیف نعمت کے مانند تھی اور اس کی خواہش اور رغبت رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں سر گرداں رہتے تھے اور اس کی طلب کرتے رہتے تھے۔ شیخ فتح خٹک جو حضرت صاحب کے مرید تھے اُن کی خلوت گاہ میں سانپ آیا کرتے تھے اور اُن کو کاٹتے تھے۔ اُن سانپوں کو نہ تو خود مارتے تھے اور نہ کسی کو اُن کے مارنے کے لیے کہتے تھے۔ اُن سانپوں کے ڈسنے کی وجہ سے قے کرتے تھے۔ اور اُن کو بہت تکلیف ہوا کرتی تھی۔ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تصور کرتے تھے اور تیوری پر بل نہیں لاتے تھے۔ وہاں سے نہیں بھاگتے اور اس کے لیے اپنے آپ کو امادہ رکھتے۔ بیت:

؎ گر گزندت رسد ز خلق مرنج

کہ نہ راحت رسد ز خلق نہ رنج

”اگر لوگوں سے تجھے کچھ نقصان پہنچے تو رنج نہ کر۔ کیونکہ لوگوں سے نہ تکلیف پہنچتی ہے اور نہ راحت‘‘۔ اللہ والوں کا یہی طریقہ ہے“ بیت:

؎ ہر چہ رود بر سرم چوں تو پسندی رواست

بندہ چہ دعویٰ کند حکم خداوند راست

”جو حادثہ مجھ پر آئے جب آپ کو پسند ہو تو وہ جائز ہے۔ غلام اور بندہ کیا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے لیے حکم و امر ہے“

ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک کالا ناگ آپ کے خلوت خانے سے باہر آیا اور آپ کے سجدے کی جگہ پر کنڈلی مار کر سر رکھ دیا۔ اس حقانی فقیر نے بغیر کسی جھجھک کے، بغیر کسی خطرے کے سجدے کے وقت سجدے کی جگہ اپنا سر رکھ دیا۔ سانپ نے یہ دیکھتے ہوئے اپنے سر کو اٹھا کر جگہ چھوڑ دی۔ پھر جب وہ جلسہ کے لیے بیٹھ گئے تو سانپ نے دوبارہ اُسی جگہ اپنا سر رکھ دیا۔ پھر اس مرد حق نے سجدہ کے لیے اپنا سر سجدہ گاہ پر رکھنا چاہا تو سانپ نے اپنا سر وہاں سے ہٹایا اور اپنے بل کی طرف چلتا بنا اور اپنے بل میں گھس کر نظر سے اوجھل ہو گیا۔ جو لوگ غیر سے نہیں ڈرتے، غیر کی جانب نگاہ نہیں اٹھاتے، تو وہ ان کی مانند ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ شیخ فتح کے پاس چیتے اور پہاڑی درندے آیا کرتے تھے اور اس کی زیارت کر کے اپنے ٹھکانوں کو واپس جاتے تھے۔ غرض یہ ہے کہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کا یہ حال تھا کہ ہر حال پر راضی اور خوش تھے۔

حکماء کا قول ہے کہ خداوند کریم کی نعمتیں قسما قسم اور متنوع ہیں، فقط یہ کھانا پینا اس کی نعمت نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی نعمت متنوع ہے تو ہر نوع پر شکر کرنا واجب ہے۔ ایک دن حضرت آدم علیہ السلام نے دربار الٰہی میں مناجات کی کہ اے بار الٰہی! میں آپ کی نعمتوں کا شکر کس طرح ادا کروں؟ فرمان صادر ہوا کہ جب تم کوئی نعمت جو تم کو حاصل ہو گئی ہو، اُس کو ہماری جانب سے خیال کرو تو مکمل طور پر شکر نعمت ادا کرو۔ آپ نے شکر گذاروں کے مناقب بہت سنے ہوں گے، اب ناشکروں کی حکایت بھی سن لیجیے۔ نمرود علیہ اللعنۃ کے سات بڑے شہر تھے، اور ہر شہر میں حکیموں نے عجیب و غریب طلسم بنائے تھے۔ پہلے شہر کے دروازے پر ایک بطخ کا بت بنایا تھا، جب شہر کے دروازے پر کوئی مسافر آتا تو بطخ کے اس بت سے ایک آواز نکلتی جو کہ تمام شہر میں سنی جاتی، لوگ تفتیش کے طور پر پوچھتے تھے کہ کون آیا ہے۔ دوسرے شہر کے دروازے پر ایک طنبورہ بنایا تھا، جب کسی کی کوئی چیز گم ہوتی تو اس طنبورے پر ڈھول بجایا جاتا تو طنبورے سے آواز نکلتی کہ تمہاری گم شدہ چیز فلان شخص لے گیا ہے اور فلاں جگہ پڑی ہے۔ تیسرے شہر کے دروازے پر ایک آئینہ بنایا گیا تھا کہ جو مسافر مفقود اور غائب ہو جاتا، تو اس آئینے میں دیکھا جاتا، اور اس مفقود مسافر کا حال خواہ کسی شہر میں ہوتا، اس کا حال معلوم ہو جاتا۔ چوتھے شہر میں ایک حوض بنایا تھا کہ نمرود ہر سال اس حوض کے کنارے ایک جشن مناتا، جو کوئی آتا تو شراب کی کوئی قسم اپنے ساتھ لاتا، اور اس حوض میں ڈالتا۔ کوئی گلاب لاتا، کوئی شربت، کوئی شراب لاتا۔ جب اس حوض کو بھر دیتے، اور جب حوض سے واپس آتے تو ہر کوئی وہی واپس لے جاتا جو وہ لایا ہوتا۔ پانچویں شہر میں ایک تالاب بنایا تھا، اس تالاب کے پانی کے پاس کوئی شخص بیٹھا کرتا اور لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتا۔ جب دو آدمی دعویٰ کر کے آتے تو دونوں پانی کے اندر چلے جاتے، جو شخص باطل پر ہوتا تو وہ پانی میں غرق ہو جاتا، اور دوسرا بچ جاتا۔ چھٹے شہر میں ایک درخت تھا، اگر کوئی آدمی اس کے نیچھے کھڑا ہوتا تو درخت اس پر سایہ کرتا حتیٰ کہ ہزار آدمی اس کے زیر سایہ ہوتے اور اگر ہزار سے ایک بھی زیادہ ہوتا تو تمام دھوپ میں ہوتے اور کسی پر بھی سایہ نہ ہوتا۔ ساتویں شہر میں ایک حوض بنا تھا، اس کے کنارے پر تمام شہروں کی تصویریں بنی تھیں، اگر کسی شہر میں جو اُس کی مملکت میں ہوتے، اگر اس میں بغاوت یا نافرمانی کے آثار ہوتے تو اگر وہ چاہتا کہ اُن کو سزا دے تو اس حوض میں سے ایک نہر اُس شہر کی جانب کھول دیتا تو وہ شہر اسی وقت پانی میں ڈوب جاتا۔ حق تعالیٰ نے اُس کو ایسی نعمتوں سے نوازا تھا، مگر اس نے نعمت کی قدر کر کے شکر ادا نہ کیا، بلکہ دوسرا بڑا دعویٰ کیا۔ پس اُس نے وہی چکھا اور دیکھا جو کہ اُس کے ساتھ ہوا یعنی اُس کے لشکر کو مچھروں سے ہلاک کیا گیا۔ اور آدھا مچھر اُس پر مسلط کیا گیا جو اُس کی ناک میں چلا گیا، اور اُس کو ھلاک کر ڈالا۔ قطعہ:

؎ نیم پشہ بر سر دشمن گماشت

در سر او چہار دہ سالش بداشت

”اُس شخص پر مچھر کو مسلط کیا جو چودہ سال اُس کے سر میں رہا“

؎ چوں دہد حکمتش ضعیف را مددے

سبلت خصم قوی را بر کند

”جب اللہ تعالیٰ کسی کمزور کو اعانت دے کر اُس کی مدد کرتا ہے تو قوی دشمن کی مونچھ اُکھاڑتا ہے“

فصل

آپ کے زہد کے بیان میں

حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ تارکین دنیا میں سے تھے، بلکہ ما سوی اللہ کو ترک فرما چکے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ صاحبہ روایت فرماتی ہیں کہ ایک عورت دہی کی ایک مشک اور سوت کے تار لنگر میں نذر کرنے لائی۔ دہی کو تو میں نے لنگر میں صرف کیا، اور سوت کو ان کے حجرے میں خفیہ جگہ چھپا رکھا تاکہ گدڑی یا خرقہ مبارکہ کی مرمت کروں۔ جب حضرت صاحب مسجد سے حجرہ مبارکہ میں تشریف لائے تو حجرے کے دروازے پر کھڑے رہے اور بہت زیادہ محزون و غمگین کھڑے رہے، حجرے میں اندر قدم نہ رکھا۔ میں جلدی سے اُن کے پاس آئی اور ان کو کہنے لگی کہ اے میری آنکھوں کے نور اور ٹھنڈک، اور اے میرے گھر کے چراغ! کیا وجہ ہے کہ محزون و مغموم ہو، اور آپ کا رنگ اُڑ چکا ہے اور حجرہ کے اندر تشریف کیوں نہیں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ اے میری مشفقہ و مکرمہ والدہ محترمہ! حجرہ کے اندر سے مجھے کسی مردار اور بدبودار چیز کی سخت بدبو آ رہی ہے، میں نے سوچنے کے بعد عرض کی کہ آپ کے حجرے میں مردار چیز کہاں سے آئی، مگر سوت کے چند تار میں نے اس غرض سے رکھے ہیں کہ آپ کے کپڑوں کو سی کر مرمت کروں۔ اس کے بعد اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ انہی سوت کی تاروں سے بد بو آ رہی ہے، لائیے اور محتاجوں کو صدقہ دیجئے، حاجت کے وقت اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے۔ آپ کی والدہ صاحبہ نے وہ تار باہر نکال کر صدقہ فرمائے اس کے بعد حضرت صاحب حجرہ مبارکہ کے اندر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو گئے۔ حضرت صاحب نے اس مقولہ پر عمل کرنا اختیار کیا تھا کہ "تَرْکُ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ عِبَادَۃٍ" کہ دنیا کو ترک کرنا ہر قسم کی عبادت گذاری کی اساس ہے اور اس پر عمل فرما کر ہمت کے میدان میں عالی ہمتوں سے سبقت لے گئے تھے اور حق کو مرکزِ نگاہ بنا کر غیر حق سے آنکھیں موڑ لی تھیں۔ نہ تو کسی سے کوئی چیز مانگی تھی، اور نہ کسی چیز کو سنبھال کر رکھا تھا۔ "اَلدُّنْیَا سُوْقُ الْمُسَافِرِ فَلَیْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ یَّشْتَرِيَ مِنْھَا فَوْقَ الْکَفَافِ" یعنی دنیا مسافر کا بازار ہے، تو کوئی عاقل اور سمجھ دار شخص اُس میں اپنی حاجت سے زیادہ چیز نہیں خریدتا۔ دنیا کو ترک کر کے اُس سے آگے بڑھ کے قرب اور وحدت کے بساط عالی تک پہنچے تھے اور ما سوی اللہ کو ترک کیا تھا۔ ترکِ دنیا سے یہ مطلب نہیں کہ روپیہ اور اشرفی کو نہ رکھا جائے، بلکہ ترکِ دنیا سے مراد یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ کے سوا جو چیز بھی ہو اُس کو ترک کر دیا جائے۔ اے بھائی! خبردار…! ایسا نہ ہو کہ تم یہ سمجھو کہ میں نے دنیا اور دنیا والوں کو چھوڑا اس لیے دنیا والے بھی مجھے چھوڑ جائیں گے۔ جو کوئی خدا کی خاطر مخلوق کو چھوڑ رکھے تو مخلوقِ خدا اُس کو نہیں چھوڑا کرتی۔ ایک صحرا میں گڈریا نماز پڑھتا تھا اور بھیڑیا اُس کی بھیڑوں کی رکھوالی کرتا تھا۔ کسی نے اُس سے اس کا سبب پوچھا، تو اُس نے جواب دیا: "کَمَا صَلَحْتُ مَعَ اللہِ صَلَحَ ذِئْبٌ مَّعَ الْغَنَمِ" کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ صلح و مصالحت کر لی ہے، اسی طرح بھیڑیے نے بھیڑوں کے ساتھ مصالحت کر لی ہے۔ قطعہ:

؎ نخشبی گریہ ساز پیشۂ خود

تا جہاں زیر خندۂ تو بود

”اے نخشبی! گریہ و زاری کو اپنا وطیرہ اور معمول بناؤ، تاکہ کل تم دنیا اور دنیا والوں پر ہنس سکو“

؎ گر تو در بندگی نکو باش

ہمہ آفاق بندۂ تو بود

”اگر تم بندگی میں کامیاب اور ثابت قدم ہو جاؤ گے تو تمام دنیا تمہاری غلام ہو جائے گی“

میرے عزیز بھائی! اگر کوئی یہ چاہے کہ اس راستے میں قدم رکھے، تو ایسا اور اس انداز میں رکھے جیسا کہ دین کے مردانِ حق نے رکھا تھا۔ اور یہ قاعدہ تب تک معمول نہیں بن سکتا جب تک کوئی شخص دنیا کی محبت اور دنیا سے لطف اندوزی کا خیال دل سے بالکل باہر نکال کر خالی نہ کرے۔ اے درویش! خیال کیجئے! کہ ابلیس اور تم دنیا کی محبت کی وجہ سے جنت سے محروم رہے، اور دنیا کی محبت میں آلودہ ہو کر جنت میں جاؤ گے، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ سعادت اور نیک بختی کی نشانی یہ ہے کہ عبادت کیجئے اور خوف کھائیے کہ بخشش ہو گی یا نہیں۔ اور شقاوت اور بدبختی کی علامت یہ ہے کہ گناہ کر کے اُمید رکھے کہ آخر وہ بخشا جائے گا۔ اے درویش! مردانِ حق نے ہمیشہ یہ کام اس انداز سے کیا ہے کہ اپنے آپ کو ہر گھڑی اپنی اور لوگوں کی نظروں میں خوار و ذلیل رکھا ہے۔ کسی وقت میں ایک طائفے نے یحییٰ بن معاذ سے کہا کہ ہم کو نصیحت کریں، تو آپ نے فرمایا کہ "کُوْنُوْا عِبَادًا بِأَفْعَالِکُمْ کَمَا کُنْتُمْ عِبَادًا بِأَقْوَالِکُمْ" ”اپنے افعال و کردار میں ایسے بندے بن جاؤ جیسا کہ تم اپنے قول و گفتار سے بندے بنے پھرتے ہو“ ہاں ایسے رہو جیسے کہ تم دکھائی دے رہے ہو، اور ایسے دکھائی دو جیسے کہ رہتے اور زندگی بسر کرتے ہو۔ اور ایسا کرنا بہت بڑا کام ہے۔ حکماء نے فرمایا ہے:

"کَانَ النَّاسُ عَلٰی أَرْبَعَۃِ فِرَقٍ: اَلْفِرْقَۃُ الْأُوْلٰی کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ لَا یَقُوْلُوْنَ ثُمَّ صَارُوْا یَقُوْلُوْنَ وَ یَفْعَلُوْنَ ثُمَّ صَارُوْا یَقُوْلُوْنَ وَ یَقُصُّوْنَ ثُمَّ صَارُوْا یَقُوْلُوْنَ وَ لَا یَفْعَلُوْنَ"

”لوگ چار قسم کے تھے: پہلی قسم وہ ہے جو عمل کرتے تھے مگر کچھ نہیں کہتے تھے، پھر وہ ایسے ہوئے کہ کہتے تھے اور کرتے تھے، پھر وہ ایسے ہوئے کہ کہتے تھے لیکن افسانے بناتے تھے، پھر ایسے ہوئے جو کہتے تھے مگر کرتے نہیں تھے“

ہمارے شیخ صاحب ہمیشہ بھوکے رہا کرتے تھے اور پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے "لَمَّا خَلَقَ اللہُ الدُّنْیَا جَعَلَ فِي الْجُوْعِ الْعِلْمَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ جَعَلَ فِي الشِّبَعِ الْجَھْلَ وَ الْمَعْصِیَۃَ" یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی ہے، تو علم و حکمت کو بھوک میں پیدا کیا ہے اور جہل و معصیت کو بھرے پیٹ میں تخلیق کیا ہے۔ بھوک کا ثمرہ رحمانی ہے اور بھرے پیٹ کا نتیجہ شیطانی ہے۔ علم و حکمت کی سعادت بھوک میں اور جہل و گنہگاری کی بدبختی اور شقاوت سیری اور شکم پُری میں لکھی گئی ہے۔

سلک سلوک میں لکھا گیا ہے کہ کامل وہ شخص ہے جس کا دنیا میں کوئی حصّہ نہ ہو۔ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ سو اشرفیاں دجلہ میں پھینک دیں، لوگوں نے پوچھا یہ کیا کیا؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: "مٹی پانی کے لیے بہت بہتر تھی" لوگوں نے کہا کہ کسی کو کیوں نہ دیا؟ فرمایا: "جو چیز اپنے لیے جائز اور پسند نہ ہو، وہ دوسروں کے لیے بھی جائز اور پسند نہ جانو، اگر یہ اچھی چیز ہوتی تو میں اس کو دریا میں نہ ڈالتا"۔ ہاں سوچنے کی بات ہے کہ جس کسی کے پیچھے ملک الموت جیسا دشمن لگا ہو، اگر وہ دنیا کے کاموں میں مشغول رہے تو اس سے زیادہ نادان اور بے سمجھ کون ہو گا۔ روایت ہے کہ ”خائف“ وہ شخص ہوتا ہے جو کہ ابلیس سے زیادہ اپنے نفس سے ڈرتا رہے۔ کیونکہ ابلیس انسان سے جدا ہوتا ہے اور نفس انسان کے ساتھ متصل ہوتا ہے۔ اور عاقل شخص نزدیک کے دشمن سے دور کے دشمن کے نسبت زیادہ ڈرتا ہے۔ اور اسی لیے جب بادشاہ لوگ کسی کو ہلاک کرنا چاہتے ہوں تو پہلے قریب والے کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔

میرے عزیز! نفس کے مکر و فریب سے اللہ تعالیٰ کی عنایت کے پردے کے بغیر بچا نہیں جاتا۔ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ درویشی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو اپنی تکالیف گوشے میں چھپائے رکھے، اور کسی سے شکایت نہ کرے۔ ابو یزید اکثر مریدوں کو مجاہدے (بھوک وغیرہ) کے لیے کہتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتے کہ اگر فرعون بھوکا ہوتا تو کبھی بھی ﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی﴾ (النازعات: 24) نہ کہتا۔ کسی موقع پر لوگوں نے آپ سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ پانی کی سطح پر چلتے پھرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کون سی عزت کی بات ہے؟ ایک تنکا بھی تو پانی کی سطح پر تیرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک ہزار اشرفی پیش کی تاکہ وہ انہیں قبول کریں۔ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اُس شخص سے پوچھا کہ اس طرح اور بھی تمہارے پاس ہیں؟ اُس نے عرض کیا کہ ہاں بہت ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اِن کا بھی تمہارے پاس ہونا بہتر ہے کیونکہ اس قسم کی چیز تم رکھتے ہو اور میرے لیے ان کا رکھنا اچھا کام نہیں، کیونکہ میں اس نوع کی چیز اپنے پاس نہیں رکھتا۔ نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ نے پاؤں کی دو انگلیوں پر نماز پڑھی ہے۔ عبد اللہ ضعیف ایک آدمی تھا کہ سنت میں سے کوئی چیز بھی اس سے فوت نہ ہوئی تھی۔ اس نے چاہا کہ وہ بھی اس قسم کی نماز ادا کرے، ایک رکعت تو اُس نے دو انگلیوں کے سِروں کے سہارے ادا کی، جب دوسری رکعت ادا کرنے کا ارادہ کیا تو اُس نے محسوس کیا کہ رسول اللہ نے محراب سے سر باہر نکالا کہ اے ضعیف! یہ میرا خصوصی فعل ہے اس کو نہ چھیڑ۔

فصل

حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حزن، عشق، فکر اور معرفت کے بیان میں

حضرت شیخ صاحب معرفت کے شہسواروں میں سے تھے۔ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ جو کوئی حق کو پہچانے تو آگ کا عذاب اس پر اثر نہیں کرتا۔ یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی تو وہ آگ کے لیے عذاب ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت کو حاصل نہ کیا تو آگ اس کے لیے عذاب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے پوچھا کہ آخر کس عمل کے طفیل اللہ تعالیٰ نے تم کو علم غیب کی نعمت عطا فرمائی؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں نے جو عمل بھی سر انجام دیا میں نے کبھی بھی اس کے اجر کی لالچ نہیں کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے جو کہ عطا کرنے والا ہے، مجھے اتنا کچھ عطا فرمایا کہ جس کا حساب و شمار نہیں۔

اے میرے عزیز! جواں مردوں کے نزدیک اگر کوئی شخص کوئی عمل بھی نہ کرے مگر وہ اُس شخص سے بہتر ہے جو عمل کر کے اُس کے اجر کی فکر اور لالچ میں ہو۔ "اَلْعَامَّۃُ یَتُوْبُوْنَ مِنْ سَیِّاٰتِھِمْ وَالصُّوْفِیُّوْنَ یُتُوْبُوْنَ مِنْ حَسَنَاتِھِمْ" یعنی عام لوگ تو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور صوفی حضرات اپنی نیکیوں سے توبہ کرتے ہیں۔ اے عزیز! اگرچہ اس دنیا میں نیکی اور بدی کی کئی قسمیں ہیں، مگر تمام نیکیوں کی بنیاد یہی ہے کہ کوئی دل تم سے خوش ہو جائے۔ مردوں کو اس راستے میں ایسی گذر اوقات کرنی چاہیے کہ کسی وقت اُن سے کوئی چیونٹی بھی آزار نہ ہو۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک چیونٹی پر غصّہ ہوئے، تو چیونٹی نے کہا: "مَا ھٰذَا الصَّوْتُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنِّيْ عَبْدٌ لِّمَنْ أَنْتَ عَبْدُہٗ؟" ”یہ غصہ اور دبدبہ کیسا؟ تم تو جانتے ہو کہ میں اُسی کا بندہ ہوں، جس کا تو بندہ ہے“ حضرت شیخ صاحب اہل فکر کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے، اور اہل فکر کی جماعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فکر مشتبہ اشیاء سے جان بچانا ہے، اور پاک دامنی کی دلیل ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ فکر دل کے صدق اور عمل کی مقبولیت کا معیار ہے۔ ہاں! فکر ایک آئینہ کی مانند ہے جس میں انسان اپنے اچھے اور برے اعمال کا عینی مشاہدہ کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے دنیا کی مخلوق کے بارے میں فکر کی، وہ گروہ جو کہ عدم کے گوشے میں ہے وہ میں نے اس گروہ سے بہتر حالت میں اور خوشی کے عالم میں پایا جو صحرائے وجود میں ہے۔ اہل معرفت کہتے ہیں کہ عاقل وہ شخص ہے کہ دس چیزوں کو دس چیزوں سے تبدیل کریں: بے صبری اور جزع و فزع کو صبر سے، اور نسیان اور بھولنے کو ذکر سے، کفر کو شکر سے، نافرمانی اور عصیان کو فرمانبرداری اور طاعت سے، کنجوسی اور بخل کو جود و سخا سے، شک کو یقین سے، ریا کاری کو اخلاص سے، اصرار اور بار بار گناہ کو توبہ سے، جھوٹ کو سچ اور غفلت کو تفکر سے۔ اے میرے عزیز! اہل نظر جس چیز کو بھی دیکھتے ہیں تفکر سے نگاہ کرتے ہیں۔ قطعہ:

؎ نخشبی فکر کارها درد

غافلان از بلا خدر نکنند

”نخشبی امور کی فکر کرتا ہے اور غافل لوگ مصائب اور بلاؤں سے خوف نہیں کھاتے“

؎ آں عزیزاں کہ چشمِ دل دارند

جز تفکر بہ کس نظر نکنند

”وہ عزت مند لوگ جن کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں، تفکر کے بغیر کسی پر نظر نہیں کرتے“

حضرت ہمیشہ فکر میں ڈوبے رہتے اور تفکر درجۂ عبادت سے اولی اور بہتر ہے۔ دائمی طور پر تفکر کرنا توحید اور معرفت کی اصل اور اساس ہے، اور فکر کی چار اقسام ہیں: "فِکْرَۃٌ فِيْ اٰیَاتِ اللہِ تَعَالٰی تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الْمَعْرِفَۃُ وَ فِکْرَۃٌ فِيْ أَمْرِ اللہِ تَعَالٰی تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الْمَحَبَّۃُ وَ فِکْرَۃٌ فِيْ وَعْدِ اللہِ تَعَالٰی تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الرَّھْبَۃُ وَ فِکْرَۃٌ فِيْ فَنَاءِ النُّفُوْسِ تَتَولَّدُ مِنْھَا الْحَیَاۃُ" یعنی آیات اللہ (اللہ کی نشانیوں) میں فکر کرنے سے معرفت پیدا ہوتی ہے اور امر اللہ (اللہ کے احکام اور افعال) میں فکر کرنے سے محبت جنم لیتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں فکر کرنے سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور نفوس کی فنا میں فکر کرنے سے حیات اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔ اے میرے عزیز! مخلوق میں تفکر کرنا جائز ہے مگر خالق میں تفکر کرنا جائز نہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ ہر وقت مستی میں ڈوبا رہے تو اسے چاہیے کہ ہمیشہ عبودیت کے اثبات میں لگا رہے۔ اور اثباتِ ربوبیت کے بارے میں فکر و اندیشہ نہ کیا کرے۔ قطعہ:

؂ نخشبی کہنہ وحدتش کہ رسد

چہ شوی واسطہ کہ مہ گوید

مشرک از سر وحدتش برسد

وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ گوید

حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو عشق و محبت کے درد کی وجہ سے اتنا غم و اندوہ اور حزن و ملال ہوتا تھا کہ دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ماتم زدہ ہیں۔ "قَالَ النَّبِيُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ: أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَی اللہِ تَعَالیٰ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ طَالَ حُزْنُہٗ" (إحیاء العلوم بتغییر قلیل، کتاب کسر الشہوتین، رقم الصفحۃ: 81/3، دار المعرفۃ ،بیروت) ”رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے قریب ترین وہ شخص ہو گا جس کا حزن زیادہ ہو“ کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ حزن کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ "اَلْحُزْنُ جُزْءُ الرُّوْحِ إِذَا کَانَ لِأَجْلِ الْحَقِّ وَ سُرُوْرُ الْقَلْبِ إِذَا کَانَ لِأَجْلِ الْخَلْقِ" یعنی حزن روح کا ایک حصّہ ہوتا ہے جب یہ حق کے لیے ہو، اور دل کی خوشی اور سرور ہوتا ہے جب یہ مخلوق (خلق) کے لیے ہو۔ اے میرے عزیز! جس دن تونگر اور مالدار سے غم و اندوہ کو ہٹایا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّي الْحُزْنَ" یعنی حمد ہے اس ذات پاک اللہ تعالیٰ کی جس نے ہم سے رنج کو ہٹایا۔ اور یہی دعا فقیر کہتا ہے جب اس سے خوشی چھین لی جائے۔ دونوں جہانوں کی قیمت سے محبت کے راستے درد مندوں کا نالہ و فریاد زیادہ قیمتی ہے۔ "إِنَّ اللہَ یُحِبُّ قَلْبًا حَزِیْنًا" اللہ تعالیٰ قلب حزین یعنی غم آلودہ دلوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ درد مند سالک جو راستہ ایک دن میں طے کرتا ہے، وہی راستہ بے درد سالک ایک ماہ میں طے کرتا ہے۔ پس ہر زمانے میں ایک اندوہ گیں اور غمزدہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا اس کے درد کی پناہ میں زندگی بسر کرتی ہے۔ رسول اللہ کے اوصاف عالیہ میں سے ایک یہ تھا کہ وہ متواصل الحزن اور دائم الفکرۃ تھے۔ ایک دفعہ دو شخص آپس میں بحث و مباحثہ اور منازعت کرتے تھے، ایک کہتا تھا: "مَنْ عَرَفَ اللہَ تَعَالٰی زَالَتْ أَحْزَانُہٗ" یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا تو اُس کے غم اور حزن سب زائل ہو گئے اور دوسرا کہتا تھا کہ "مَنْ عَرَفَ اللہَ تَعَالٰی طَالَتْ أَحْزَانُہٗ" یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی تو اُس کے غم بڑھ گئے۔ خواجہ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو کہا کہ اے فرزند! تو مجھے یاد کرتا ہے؟ میرے سینے کے تنور میں شوق و اندوہ (حزن) کی آگ بھڑکائی گئی ہے، تم نہیں جانتے کہ ہوا سے آگ زیادہ بھڑک اٹھتی ہے۔ حزن کا یہ راز اور رمز اُس کا حصّہ تھا۔ اے میرے عزیز! محبت اور الفت سے بڑھ کر کوئی اندوہ اور غم ایسا نہیں جو کہ اُس سے زیادہ فرحت افزا اور راحت امیز ہو۔ ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ دس سال تک میں پانی کے آنسو روتا رہا۔ اور دس سال تک خون کے آنسو روتا رہا، اور دس سال ہوئے کہ میں ہنستا ہوں۔ قطعہ:

؂ شادمانی اندوہ است

دل جز ایں شادمانی طلب نہ کند

آنچہ اندوہ کرد در دل من

در دل دیگرے طرب نہ کند

”دردِ محبت اور غمِ عشق میں سراپا خوشی اور شادمانی ہے، اور دل کو اُس کے سوا کوئی خواہش نہیں۔ یہی غم و اندوہ (محبت) میرے دل میں جو کچھ کرتا ہے، وہ خوشی اور طرب دوسروں کے دلوں میں نہیں کرتا“

حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ عاشقان حق کے زمرہ میں سے تھے۔ اور ایک سوختہ دل عاشق تھے۔ ابیات:

؎ باز تر آمد زجان نعرۂ غوغا ز عشق

باز ازاں کوہ قاف آمدہ عنقائے عشق

سینہ کشادہ سنت فقر جانب دلہائے پاک

در شکم طور بیں طنطنہ ہائے عشق

عشق ندائے بلند کرد باواز پست

گفت کہ بالائے عرش کنگر بالائے عشق

”روح کے اندر سے عشق کی وجہ سے ایک نعرہ بلند ہوا۔ یعنی کوہِ قاف کی بلندیوں سے عشق کا عنقا بر آمد ہوا۔ فقر نے اپنا سینہ پاک دلوں کے لیے کشادہ کیا ہے۔ کوہ طور کے پیٹ میں عشق کے طنطنے دیکھ لو۔ عشق نے نیچی آواز سے آواز بلند کر کے نعرہ لگایا کہ عرش کی بلندیوں پر عشق کا مینارہ بلند کیا گیا ہے“

پس اے میرے پیارے! لیلیٰ کا جمال مجنون کے عشق سے کہتا ہے کہ اے مجنون کے عشق! اگر میں غمزہ کروں، یعنی آنکھ کا اشارہ کروں تو لاکھوں مجنون صفت لوگ بے ہوش ہو جائیں گے۔ اور ہمارے غمزے، اور آنکھ کے اشارے کے شہید ہو جائیں گے، تو مجنون کا عشق بھی جواب میں کہتا ہے کہ اگرچہ تمہارا غمزہ مجنون کو فنا کرتا ہے، مگر تمہارا وصال و لطف اُس کو عالم بقا تک پہنچاتا ہے۔ اور ہر گھڑی اور ہر آن اُس کو مقام ارفع و اعلیٰ میں نوازتا ہے۔ ابیات:

؎ وصل تو گنج ست پنہاں ہم از خود

ہر کہ فانی شد ز خود مردانہ است

گو مرا در عشق خود فانی کنی

باقیت ہر جان خود شکرانہ است

”تمہارا وصال ایک ایسا خزانہ ہے جو کہ خود ہم سے بھی پوشیدہ ہے۔ جو کوئی عشق میں فانی ہوا وہ مرد ہے۔ اگر تم مجھے اپنے عشق میں فانی کرو گے تو ہماری جان اس نوازش عالی کے لیے شکرانہ ہے“

پس اے برادرِ عزیز! عشق کا متوالا بنا رہ کہ عشق کے محرم لوگ خود جانتے ہیں کہ عشق کی ایک حالت ہوتی ہے۔ نا اہل لوگوں کے لیے عشق ملامت اور بیماری کا سبب ہوتا ہے۔ عشق کی خلعتِ فاخرہ ہر کسی کو نہیں پہنائی جاتی نا مردوں اور مخنث ہیجڑوں کا عشق سے کیا واسطہ۔ بیت:

؎ تا نباشد ہم چوں موسیٰ عاشقے

ہر عصا در دست ثعبان کے شود

در کف گل کاںچ وجود آدمی ست

آنچناں خورشید پنہاں کے شود

”اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح عاشق نہ ہو تو ہر عصا اور چھڑی ہاتھ میں کب سانپ بن جاتی ہے۔ اس مٹھی بر خاک میں جو کہ انسان کا وجود اور جسم ہے۔ اس طرح کا سورج کب اور کیسے چھپا اور پوشیدہ ہو جاتا ہے؟“

پس اے برادرِ عزیز! جو عشق کرنے کے قابل ہے وہ اعلیٰ مقام کے قابل ہوتا ہے اور جو کوئی عشق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، وہ مقام عزت میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا، چنانچہ ایک بزرگ نے نہایت اچھی بات فرمائی ہے کہ اے عاجز! اگر تو عشق کرنے کا خیال اور حوصلہ نہیں رکھتا، پس نادانی اور حماقت اختیار کر، کیونکہ "أَکْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّۃِ بُلْہٌ" (إحیاء العلوم، ربع المھلکات، بیان معنی النفس و الروح و القلب و العقل، رقم الصفحۃ: 23/3، دار المعرفۃ، بیروت) ”جنت والوں میں اکثریت نادانوں کی ہے“ جنت طلب کرنے والے کو سرور عالم سید الکونین ﷺ نے ابلہ اور نادان کہا ہے۔ بھلا جو کوئی کہ دُر و گوہر اور لعل و جواہرات کے لیے لایا گیا ہے وہ خرمروں اور کوڑیوں پر قناعت کرے، آخر اس سے بڑی نادانی کیا ہو سکتی ہے؟ ابیات:

؎ حضرت حق ہست دریائے قدیم

قطرۂ خورد است جنات النعیم

؎ چوں بدریا مے توانی راہ یافت

سوئے یک شبنم چرا باید شتافت

”اللہ تعالیٰ جل شانہٗ ایک عظیم و قدیم سمندر ہے، اور جنات النعیم اور ساری جنتیں اُس کے آگے ایک چھوٹا سا قطرۂ آب ہے۔ جب تم دریا کے پاس جا سکتے ہو، تو شبنم کے ایک قطرے کے لیے کیوں دوڑ دھوپ میں لگے ہو؟“

؎ ہر کہ داند گفت با خورشید راز

کے تواند ماند با یک ذرہ باز

ہر کہ کل شد ذرہ را با اوچہ کار

چونکہ جان شد عضو را با اوچہ کار

”جو کوئی سورج کو اپنا رازداں بنا کر اپنا راز کہہ سکتا ہے تو اس کو ایک ذرہ کو بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو کوئی ”کُل“ ہو جائے تو ذرے کا اُس سے کیا کام؟ اور جب جان ہو جائے تو ایک عضو کا اس سے کیا واسطہ؟“

اے پیارے بھائی! جنت کی طلب میں ایک دنیا اُمنڈ آئی ہے اور ایک آدمی بھی عشق کا خواہاں نظر نہیں آتا، یہ اس لیے کہ جنت نفس اور دل کی خواہش کا مقام ہے اور عشق روح کی جائے قیام ہے۔ حقیقت میں ہزاروں لوگ خرمرہ اور کوڑی کے خواہاں ہیں، مگر ایک آدمی بھی دُر و گوہر کا طلب گار نہیں۔ کیونکہ عشق تو جان کے وصال کا واسطہ اور ذریعہ ہے اور ہر کس و نا کس کو اس کی ہمت کیونکر ہو سکتی ہے۔ مثنوی:

؎ عشق جمال جاناں دریائے آتشین است

گر عاشقی بسوزی زیرا کہ روئی ایں است

تور درہ چنانی زیر آنکه مردں را

اول قدم دریں ره بر چرخ هفتمین است

کار قوی ست عالی اندر رہ حقیقت

در ہر ہزار سالے یک مرد راہ بین است

”معشوق کے حُسن و جمال کی محبت آگ کا دریا ہے، اگر تم عاشق ہو تو تم ضرور جل اُٹھو گے، کیونکہ اُصول یہی ہے تم ایسے راہرو ہو اور اس طرح کے راہرو مسافروں کا پہلا قدم ساتویں آسمان پر ہوتا ہے۔ راہِ حقیقت قوی اور عالی ظرف لوگوں کا کام ہے، اس لیے کہیں ہزاروں سالوں میں کوئی راہ شناس آدمی پیدا ہوتا ہے“

قَال النَّبِيُّ ﷺ: "إِذا أَحَبَّ اللہُ عَبْدًا وَّ عَشِقَ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُ اللہُ تَعَالٰی عَبْدِيْ أَنْتَ عَاشِقِيْ وَ مُحِبِّيْ فَأَنَا عَاشِقٌ لَّکَ وَ مُحِبٌّ لَّکَ" ''اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا'' (شرح تمہیدات، رقم الصفحۃ: 198، طبع حیدر آباد دکن، سنہ 1364ھ) ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے ساتھ محبت اور عشق کرے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! تم میرے عاشق اور محبت کرنے والے ہو، تو میں بھی تمہارا عاشق اور محبت کرنے والا ہوں۔ اے ہمارے خدا ہمیں یہ نصیب فرما“

اے میرے عزیز بھائی! عشق کی ابتدا میں شاہد و مشہود کا فرق ہوتا ہے، مگر جب انتہائے عشق ہوتی ہے، یعنی جب عشق انتہا کو پہنچ جاتا ہے، تو پھر فرق نہیں ہوتا۔ یعنی جب عاشق و معشوق ایک ہو جاتا ہے تو شاہد مشہود ہو جاتا ہے، اور مشہود شاہد۔ یگانگی اور اتحاد کا کمال حاصل ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کا مذہب و ملت کیا اور کونسا ہوتا ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والے امام ابو حنیفہ و امام شافعی رحمہم اللہ کے مذہب و ملت پر نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے عشق کے مذہب و ملت پر ہوتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہیں۔ اِس مذہب میں ان کو اللہ تعالیٰ کی لِقا حاصل ہوتی ہے۔ اور جب محمد رسُول اللہ کو دیکھتے ہیں تو آپ کی لِقا اُن کا ایمان بن جاتا ہے۔ اور جب ابلیس کو دیکھتے ہیں تو ان کا یہ کفر ہوتا ہے۔ محققین کے دین و ایمان اور کفر کا دار و مدار اس مشاہدہ پر ہوتا ہے، اور یہ بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ وہ ان باتوں سے آگے نکلے ہوتے ہیں، اور اُن کو آگے نکل جانا چاہیے۔

اے میرے بھائی! دین و ایمان اور کفر کا مقصود محمد حسین کے کلمات تم پر یہ باتیں واضح کریں گے۔ اللہ تعالیٰ محمد حسین کے کلمات اُس شخص پر روشن کرے کہ معشوق کے خد و خال اور ابرو و زلفیں عاشق پر کیا (اثر) کرتے ہیں۔ تب تک تُو ہرگز یہ بات نہ جانے گا کہ خد و خال محمد کے نور کے چہرے کے سوا نہیں۔ کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِيْ" (بحار الأنوار للمجلسی، رقم الصفحۃ: 24/15، و ھو من کتب الشیعۃ) ”سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کی تخلیق فرمائی ہے“ یعنی نور احدیت کا جمال خد و خال نور احمدیت ہے، اور اگر دلیل چاہتے ہو، تو کلمہ کے جمال میں مشاہدہ کرو کہ "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ" کیونکہ اگر کوئی کافر ایک ہزار سال بھی کلمۂ جمال بغیر خد و خال کے فہم کے پڑھے تو واللہ وہ ہر گز مسلمان نہیں بن سکتا۔ اور جس کو خد و خال کا مشاہدہ قال (بولنے) پر آمادہ کرے، تو اس کی قال میں کمال درجہ کا حسن و جمال ظاہر ہوتا ہے۔ محمد حسین نے کہا ہے کہ چشم و ابرو کیا ہیں، عرش کے اوپر جو سیاہ رنگ کا نور ہے، میں نے اُس کا مشاہدہ قطب عالم کے مقام سے کیا ہے پس تو جان لے کہ وہ سیاہ نور محمد کی آنکھوں اور ابرو کا نور ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کوئی کہ شاہد و معشوق کو خد و خال اور زلف و ابرو اور آنکھوں سمیت مشاہدہ کرے تو لازمی بات ہے کہ وہ منصور کی طرح "أَنَا الْحَقُّ" اور بایزید کی طرح "سُبْحَانِيْ" کہہ ڈالے۔ جو اس حقیقت کو سمجھ ڈالیں تو وہ یہی کچھ کرتے ہیں۔ ابیات:

؎ آنرا کہ حیاتش ز بت دلبر نیست

از خال و خط و لب چوں شکر نیست

جان و دل او در ابروئے زلفتیں نیست

در ہر دو جہاں جز مشرک و کافر نیست

از کفر و بکفر رفتن باور نیست

زیر آنکہ جز او دیگر در خور نیست

”جس کی زندگی کا دار و مدار اپنے محبوب اور اس کے خط و خال اور شکر جیسے میٹھے ہونٹوں سے نہیں، اور جس کے دل و جان اپنے محبوب کی زلف و گیسو میں نہ ہوں تو دونوں جہانوں میں اُس سے بڑھ کر کوئی دوسرا مشرک اور کافر نہیں، کفر سے بڑھ کر مزید کفر پر جس کا یقین نہیں تو وہ دیکھ لے، کہ اُس کے سوا دوسرا کوئی اس کا لائق نہیں“

جو عاشق کمال اور انتہا کو پہنچ جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی حجاب کے بغیر اور کسی مقام میں نہیں ہوتا، رسول اللہ نے اس جماعت کے بارے میں رمزیہ طور پر فرمایا ہے، کہ "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُ فِیْہِ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" (المقاصد الحسنۃ، رقم الحدیث: 926) ”اللہ تعالیٰ کے ہاں مجھے ایک وقت میسر ہوتا ہے کہ جس میں نہ کسی مقرب فرشتہ اور نہ کسی رسول پیغمبر کی گنجائش ہوتی ہے“ یہ وہ مقام ہے کہ نبی مرسل اور ملک مقرب کو بھی اس کی خبر نہیں۔ لیکن یہ بات اولیاء اللہ نہیں کہا کرتے، کیونکہ وہ اولیاء ہوتے ہیں (نبی نہیں ہوتے) وہ جو فرمایا گیا ہے کہ "إِنِّيْ أَعْرِفُ رِجَالًا مِّنْ أُمَّتِيْ فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ مَنْزِلُتُھْمْ بِمَنْزِلَتِيْ عِنْدَ اللہِ تَعَالٰی" (لم أجد لھذا الحدیث أصلا) ”میں اپنی امت کے اُن آدمیوں کو پہچانتا ہوں، جن کی منزل اور مقام اللہ تعالیٰ کے نزدیک معراج کی رات میں میری منزل اور مقام کے برابر تھا“ اے برادر عزیز! عشق تمثیلی لباس رکھتا ہے اور اگر تمثیل نہ ہوتی تو سالک اور راہِ طریقت کے راہرو کافر ہو جاتے۔ کیونکہ اگر ہر چیز کو مختلف اوقات میں ایک شکل پر ہی دیکھتا رہے تو اس سے انسان نفسیاتی طور پر سیر ہو جاتا ہے جو کہ باعثِ ملال ہوتا ہے۔ اور جب ہر لحظہ اور ہر آن جمال و حسن میں زیادتی اور اضافہ دیکھتا ہے تو عشق بھی زیادہ ہوتا رہتا ہے، دید کا اشتیاق اور ملاقات کا شوق مزید بڑھتا جاتا ہے۔ پس "یُحِبُّھُمْ" (اُن کے ساتھ محبت کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ساتھ محبت کرتا ہے) ہر وقت ایک تمثیل کا حامل ہوتا ہے، جو "یُحِبُّوْنَہٗ" کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور اسی طرح "یُحِبُّوْنَہٗ" ؂1 بھی، پس اس حالت میں محبوب کو انتہائی کمال کے ساتھ کمال عشق و محبت اور پورے شوق کے ساتھ دیکھنا ہوتا ہے۔ ابیات:

؎ ہر روز بعشق تو بجمال و گرم

و ز حسن تو در بند جمال و گرم

تو آیت حسن را جمال دیگرے

من آیت حسن را کمال دگرم

”تمہارے عشق میں ہر روز جداگانہ قسم کے جمال سے آشنا ہوتا ہوں، اور تمہارے حسن کی نیرنگیوں سے نرالے حسن و جمال کا اسیر ہوتا ہوں، تم حسن و جمال کی ایک جداگانہ نشانی ہو اور میں حسن کے کمال کی ایک علیحدہ علامت ہوں“

(حاشیہ: ؂1 اُس کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ سورۂ المائدہ آیت 54 پوری آیت شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: "اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کر دے گا، جن کو وہ دوست رکھے، اور جسے وہ دوست رکھیں، اور جو مؤمنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں، خدا کی راہ میں جہاد کریں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں، یہ خدا کا فضل ہے، جسے چاہے دیتا ہے، اور خدا بڑی کشائش والا (اور) جاننے والا ہے")

پس اے بھائی معشوق کا رزق اور حصّہ لطف کس چیز میں ہے، اور عاشق کس چیز سے اپنا نصیب حاصل کرتا ہے، اور خود عشق کس چیز سے زندہ ہے، لیکن عشق کے بارے میں کیا بیان کیا جائے، اور کیا ظاہر کیا جائے؟ اس کے بارے میں رمز اور مثال کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ورنہ اس رمز و مثال اور اشارت کے علاوہ عشق کےمتعلق کیا کہا جائے، اور کیا کہنا چاہیے؟ اگر عبادت میں عشق کی تفصیل اور حال بیان ہو سکتا، اور اشارات میں اس کی حقیقت سما سکتی تو زمانے سے فارغ دل اور عالَم عقبیٰ کے طلب گار لوگ اپنے دورِ حیات میں عشق کے معنیٰ کے جسم سے فارغ نہ ہوتے۔ اور عشق کے جمال و حسن سے محروم نہ ہوتے اور حجاب میں نہ ہوتے۔ ابیات:

؎ اے عشق تو دریغا کہ بیان از تو خجال ست

حظ تو ز خود باش و حظ تو محال است

اُنس تو برباد است با زلف سیاه است

قوتت ز خدا ہست حیات تو زخال است

”افسوس کہ تیری محبت اور عشق کا حال بیان کرنا باعثِ خجالت ہے۔ (یعنی بیان نہیں کیا جا سکتا۔) تُو خود ہی اپنے آپ مقدر بنو اور تمہارا خود اپنے آپ مقدر بننا نا ممکن ہے، تمہارے ساتھ محبت کرنا اور تہمارے کالے گیسو کی محبت لا حاصل ہے، آپ کی روزی اور خوراک تو خدا کی جانب سے ہے“

اور تمہاری زندگی کفن سے ہے یعنی موت کے بعد حیاتِ سرمدی حاصل کرو گے۔ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مقام یعنی ﴿فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِہٖ مَا أَوْحٰی﴾ (النجم: 10) کی تشریح کی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ "إِتْمَامُ الْعُبُوْدِیَّۃِ لِلْعَبْدِ أَنْ یَّکُوْنَ عِشْقُہٗ کَعِشْقِ اللہِ تَعَالٰی" یعنی عبودیت کی انتہا اور تکمیل یہ ہے کہ بندہ کی محبت اللہ تعالیٰ کے عشق کی مانند ہو جائے، عبودیت کی انتہا تکمیل اور اتمام یہی ہے کہ تقصیر اور توقیر ختم ہو کر رہے۔ یعنی کمی بیشی کا حساب نہ رہے۔ میں نے یہ بات اشارے، رمز و کنایہ کے طور پر کہی ورنہ حقیقت اور اس راز کو واضح طور پر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو مالک و معبود کے لیے حاصل ہے، وہی بندہ کو بھی حاصل ہو اور جو صفات مالک کی ہوں، مثلًا ہنسنا، دیکھنا، قدرت، ارادت، زندگی، بقا اور کلام و دوام وہی بندہ کو بھی مالک کی صفات کی وجہ سے حاصل ہو۔ اے عزیز بھائی! ذرا دیکھئے شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام میں فرماتے ہیں کہ "فَقَالَ أَنَا أَقَلُّ مِنْ رَّبِّيْ بِسَنَتَیْنِ" یعنی میں اپنے رب سے دو سال کمتر ہوں۔ یعنی وہ مجھ سے دو سال کی سبقت رکھتا ہے اور میں اُس سے دو سال کم ہوں۔ اور یہ ایام اللہ تھے یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے سال ہوتے ہیں۔ اور اے بھائی! اللہ کے سال میں ہر دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے، ﴿وَ إِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾ (الحج: 47) ”اور بے شک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے روز سے ہزار برس کے برابر ہے“ اے برادر! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نا سمجھ علماء سمجھتے ہیں کہ ایسا کہنا کفر ہے۔ میں اس کی تشریح کروں گا کہ یہ ایک حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) ”میں ایک پوشیدہ خزانہ اور گنجینۂ مستور تھا۔ میں نے چاہا میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق پیدا کی تاکہ پہچانا جاؤں“ پس اے بھائی! اُس مخفی کا ظہور "فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" یعنی تخلیق روح تک کا زمانہ سات سو بیس ہزار سال (720,000 سات لاکھ بیس ہزار سال) تھا پس اللہ تعالیٰ کے دو سال سات لاکھ بیس ہزار سال تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس اظہار کے بعد کہ میں خلق کی تخلیق کرنا چاہتا ہوں، روح کی تخلیق دو سال بعد ہوئی، اس کے بعد دوسری مخلوق پیدا ہوئی، اللہ کریم کی ابتدائی حالت جس کو وہ "کَنْزًا مَّخْفِیًّا" یعنی گنجینۂ مستور سے مثال فرماتا ہے، ان دو سالوں سے قطعٔ نظر اس حالت یعنی کنز مخفی کی ابتدا ہی نہیں۔ پس حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ کی بات صحیح ہے کہ وہ مجھ سے دو سال سبقت رکھتے ہیں۔ اب اگر علماء اس بات کو نہ سمجھیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ جناب حسین منصور (حلاج) اور ابوبکر دقاق فرماتے ہیں اور یہی بات حضرت جنید بغدادی بھی فرماتے ہیں، کہ "اَلْفَقِیْرُ ھُوَ الَّذِيْ لَا یَفْتَقِرُ إِلٰی نَفْسِہٖ وَ لَا إِلٰی رَبِّہٖ" یعنی فقیر وہ ہوتا ہے جو نہ تو اپنی ذات کا محتاج ہوتا ہے اور نہ اپنے پروردگار کا، کیونکہ احتیاج اور حاجت مندی کمزوری اور نقص ہے، اور فقیر جب اُس کمال کو پہنچتا ہے تو وہ اُس مقام تک رسائی حاصل کرتا ہے کہ "إِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللہُ وَ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللہِ" ”جب فقر درجۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے، تو یہی خدا کا مقام ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق اختیار کرو“ عاشق کا اس سے بلند تر مقام اور کوئی نہیں۔ یا اللہ کریم! ہمارا یہی مقصود ہمیں نصیب فرما۔

اے عزیز بھائی! حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص (بہترین قصہ) کہا گیا ہے، اس کا سبب بس یہی ہے کہ ﴿وَ یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کی نشانی اپنے میں رکھتا ہے۔ اے بھائی! ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کی خبر تجھے اُس وقت ہو جائے گی کہ تجھے اس آیت مبارک کے معنیٰ نظر میں جلوہ افروزی کریں: ﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمہُ اللہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِيَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ۔۔۔﴾ (الشوری: 51)۔

ترجمہ: ”اور یہ کسی بشر کا مرتبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی سے کلام کرے، مگر ہاں یا تو وحی سے یا کسی آڑ پردے سے یا کسی قاصد فرشتے کو بھیج دے، سو وہ وحی پہنچائے اللہ کے حکم سے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے“

اور لفظ طٰہٰ میں سب کچھ تو مشاہدہ کرے گا اور سمجھ جائے گا کہ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کیا ہے۔ کیونکہ اے بھائی! شہد، شہد کہنا، یا گڑ، شکر وظیفہ کرنا اور بات ہے اور اس کا دیکھنا دوسری بات ہے اور چکھنا دوسری بات ہے۔ یعنی لیلیٰ ہونا دوسری بات ہے اور لیلیٰ کا نام جپنا دوسری بات ہے اور جب مجنون خود عالَم استغراق میں ہو تو وہ خود کو لیلیٰ دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں لیلیٰ ہوں اور لیلیٰ مجھ میں ہے۔ بیت:

؂ عشق و عاشق محو گردد زیں مقام

چوں ہماں معشوق ماند والسلام

”اس مقام میں عشق اور عاشق سب محو ہو جاتے ہیں اور معشوق رہ جاتا ہے“

اور بس اے بھائی! ﴿یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کے خلوت خانے میں یہ سب ہم سر برابر اور ہم مشاہدہ ہیں۔ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) ایک دوسرے کے سودا میں نہیں ہوتے بلکہ ہم سر و ہم مشاہدہ ہوتے، اور کہتے ہیں کہ "لَا یَطَّلِعُ عَلَیْنَا مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" ”ہماری حالت کی مقرب فرشتے اور پیغمبر تک اطلاع اور آگاہی نہیں ہوتی“۔

ہمارے حضرت صاحب یعنی شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ اخلاق حمیدہ، بلند ہمتی، صداقت، مقامات انفاس اور زبانِ حال کے لحاظ سے "مُوْتُوْ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" ”موت سے پہلے مر جاؤ“ کے مقامِ عالی تک پہنچے تھے، اور اس مقام کی فرحتوں سے لطف اندوز ہو گئے تھے اور اس کے آثار و اسرار آپ کی روح پر ظاہر ہو گئے تھے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے کہ اس میں خود کو ہلاک کیے بغیر منزل تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ جناب علی محمد عطاء صاحب جو کہ طریقت کے راستے کے عطار تھے، فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ایک درویش صاحب کو دیکھا جو کہ قسم قسم مصائب و آفات میں مبتلا تھا، جب میں نے اسے اس حال میں دیکھا، تو میرا دل اُس کی حالت پر سوزش کرنے لگا، درویش نے مجھے دیکھ کر مجھے زور سے کہا کہ "یَا مُکَلَّفُ مَا دُخُوْلُکَ فِيْ مَا بَیْنِيْ وَ بَیْنَ رَبِّيْ دَعْہُ یَعْمَلْ مَا یَشَاءُ" ”اے ہوشیار اور مکلف شخص! تمہیں میرے اور میرے رب کے معاملات میں دخل اندازی کی کوئی ضرورت نہیں، یہ بات چھوڑیے، وہ جو چاہے اور جو کچھ اس کی مرضی ہو وہ کرتا رہے“ مجھے یہ کہہ کر اس نے کہنا شروع کیا: "إِلٰھِيْ بِعِزَّتِکَ وَ جَلَالِکَ لَوْ قَطَعْتَنِيْ إِرْبًا أَوْ صَبَبْتَ عَلَيَّ مِنَ الْبَلَاءِ صَبًّا مَا ازْدَدْتُّ لَکَ إِلَّا شَوْقًا وَّ حُبًّا" ”اے میرے رب مجھے آپ کی عزت و جلال کی قسم ہے! اگر آپ مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ توڑ ڈالیں اور میری ہر حاجت منقطع کر ڈالیں، تو ایسے حال میں بھی میری محبت اور میرا شوق بڑھتا جائے گا“

فرماتے ہیں کہ اس کی سلطنت میں آگ کے آداب ہیں یعنی آگ بھی اس کے حکم کے ما تحت ہے۔ وہ معاملہ جو کہ ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان گزر چکا اور جس کا بڑا حصّہ لوگوں کو بتلا دیا، وہ کیا تھا؟ "لِیَعْلَمُوْا أَنَّ کُلَّ مَنْ أَحَبَّہٗ لَا یَضُرُّہٗ شَيْءٌ فِي الدَّارَیْنِ وَ لِیَعْلَمُوْا أَنَّ أَھْلَ الْمَعْرِفَۃِ فِي النَّارِ أَطْیَبُ عَیْشًا وَّ أَحْسَنُ حَالًا وَّ أَشَدُّ سُرُوْرًا مَّعَ اللہِ تَعَالٰی مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فِي الْجَنَّۃِ" ”وہ صرف یہ بات تھی کہ لوگ جان لیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں، دونوں جہانوں میں کوئی چیز بھی اسے ضرر نہیں پہنچاتی، اور یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اہل معرفت کے لیے آگ میں بہت اعلیٰ قسم کی زندگی ہے، اور بہتر حالت ہوتی ہے اور اہل جنت کو جنت میں جتنی خوشی ہوتی ہے، اہل معرفت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معیت میں اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے“ سلطان العارفین فرماتے ہیں کہ اگر قیامت کے دن اہل جنت سے ملاقات کا مزہ منقطع کیا جائے تو اہل بہشت بھی ویسی ہی فریاد کریں گے جیسا کہ دوزخ کے لوگ دوزخ میں کرتے ہیں۔ بایزید بسطامی نے ایک دفعہ ایک شخص کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے سنا، جب اس آیت پر پہنچا کہ ﴿مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الْآخِرَۃِ...﴾ (آل عمران:152)۔ ترجمہ: ”کوئی تم میں سے چاہتا تھا دنیا، اور کوئی تم میں سے چاہتا تھا آخرت“ (ترجمہ شیخ الہند) تو بایزید صاحب رونے لگے اور فرمانے لگے کہ "ھٰذَا مِنَ اللہِ شِکَایَۃٌ عَلٰی عَبْدِہٖ کَأَنَّہٗ یَقْوْلُ مِنْکُمْ مَّنْ رَّضِيَ اللہُ عَنِّيْ بِالدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ رَّضِيَ عَنِّيْ بِالْآخِرَۃِ فَأَیْنَ مَنْ رَّضِيَ عَنِّيْ؟" یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندہ کے خلاف شکایت ہے کہ تم میں سے بعض تو دنیا پر راضی ہو گئے اور بعض مجھ سے عقبیٰ پر راضی ہو گئے، پس وہ کہاں ہیں جو کہ مجھ پر راضی ہوئے؟ پس مردِ کامل وہ ہے جو کہ خدا کو بذاتہ چاہے اور خدا کے ملنے پر خدا سے راضی ہو جائے۔ اور جو لوگ کہ خداوند تعالیٰ سے اُس کے ملنے پر راضی ہو جائیں وہ کسی وقت بھی نہ تو کسی سے تکلیف پا کر خفا ہوتے ہیں، اور نہ کسی کو ناراض اور خفا کرتے ہیں۔ اور دنیا میں اِس سے سخت کام کوئی نہیں کہ کوئی اپنا دل اور باطن کسی سے جدا کرے۔ اے میرے بھائی! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا باطن ہمیشہ سالم اور مجتمع رہے تو کسی دوسرے کے دل کو تکلیف نہ پہنچاؤ، جیسا کہ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، حضرت شیخ صاحب لوگوں کی دل داری فرماتے تھے اور ان پر خرچ کرنے کے لیے بہت کوشش فرماتے تھے اور کبھی چیونٹیوں کے سوراخوں میں دانے اور غلہ وغیرہ ان کے کھانے کی خاطر ڈالتے تھے۔ کبھی صحرائی درندوں اور جانوروں کے لیے گوشت ڈالتے تھے اور کبھی کتوں کے ساتھ احسان کرتے تھے اور کبھی بھی سانپ اور بچھو وغیرہ کو تکلیف نہیں پہنچاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کو ایک بچھو لڑا آپ نے اس کو کچھ نہ کہہ کر چھوڑ دیا، اور دوسروں کو بھی منع کیا کہ اس کو کچھ نہ کہا جائے۔ ایک دفعہ جونک آپ کے حلق میں چمٹ گئی کچھ عرصے تک آپ کو سخت تکلیف دیتی رہی، کچھ عرصہ کے بعد جب وہ جونک باہر آ گئی، حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کو لے جا کر پانی میں چھوڑ دیا جائے۔ اور اس کو ضرر پہنچانے سے لوگوں کو منع فرمایا۔ قطعہ:

؎ نخشبی خوئے خوش کجا یابند

طیب صندل بہ ہر خسے ندهند

”اے نخشبی! اچھی عادت اور نیک خصلت کہاں پاؤ گے، صندل کی خوشبو ہر تنکے اور خس کو نہیں دی جاتی“

؎ خلق نیکو سعادت ابدی ست

ایں سعادت بہ ہر کسے ندہند

”اچھے اخلاق سعادت ابدی ہے، اور یہ سعادت ہر کسی کو نہیں دی جاتی“

ہمارے محترم شیخ صاحب بلکہ شیخ المشائخ (حضرت شیخ رحمکار صاحب رحمتہ اللہ علیہ) اپنے زمانے کے زاہد تھے۔ زُہد میں تین حروف ہیں، زا، ہا اور دال، ”ز“ ترکِ زینت کی جانب اشارہ ہے، ”ہ“ ترکِ ہوا و ہوس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ”د“ ترکِ دنیا کی سمت اشارہ ہے اور آپ ہر تین اوصاف سے موصوف تھے۔ درویش حضرات فرماتے ہیں کہ درویش کا فائدہ اس میں ہوتا ہے کہ آخرت کے لیے دنیا ترک کرے، مگر سلطان العارفین صاحب فرماتے ہیں: "لَیْسَ خَیْرُکُمْ مَّنْ تَرَکَ الدُّنْیَا لِلْآخِرَۃِ وَالْآخِرَۃَ لِلدُّنْیَا وَ لٰکِنَّ خَیْرَکُمْ مَّنْ لَّمْ تُوْخَذْ مِنْ ھٰذِہٖ وَ ھٰذِہٖ" یعنی وہ شخص تم میں سے بہتر نہیں جو دنیا کو آخرت کے لیے یا آخرت کو دنیا کے لیے ترک کرے۔ بلکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو کہ یہ بھی اختیار نہ کرے اور وہ بھی۔ بقول اقبال:

؎ سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے

اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

اے گلشنِ زہد کی نورستہ کلی! زہد یہ نہیں کہ کچھ نہ کھایا جائے بلکہ زہد یہ ہے کہ جو کچھ کھایا جائے حلال کھایا جائے۔ اے درویش! اگر تم کو کسی دولت مند کے دسترخوان پر حاضری کا موقع ملے تو اُس سے اجتناب کرو، اور اپنے آپ کو بچائے رکھو، اور اگر کسی درویش کی جھونپڑی میں جانے کا اتفاق ہو جائے تو اس کے بے نمک، سُوکھی روٹی سے دل تنگ نہ کیجیو، اور اس کو اس کی بے نوائی کا طعنہ یا احساس نہ دیجیو۔ ایک دفعہ ایک درویش نے ایک دولت مند کو مہمان کیا، جب اُس کی غربت کو دولت مند نے دیکھا، اور اگلے روز کچھ نقد روپے درویش کے پاس ارسال فرمائے، درویش نے اس رقم کو واپس کیا اور کہا کہ میرے لیے یہ سزا کافی ہے کہ میں نے تم کو اپنی درویشی سے آگاہ کیا۔ اور یہ عام طریقہ ہے کہ شکاری کتا اکثر اور بہت زیادہ شکار کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور چیتا جو کہ شکار کی تاک میں بیٹھا ہوتا ہے، ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دفعہ شکار کا قصد کرتا ہے، اور شکار کے پیچھے زیادہ نہیں دوڑا کرتا۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ کتے کی مانند رزق کی تلاش میں نہ رہیں، اور جو کچھ سامنے آئے تو چیتے کی طرح اُس پر قبضہ کریں۔ اور نیز لوگوں کو چاہیے کہ دوسروں کی حالت سے عبرت حاصل کریں، جیسا کہ چیتا نافرمانی کرتا ہے تو کُتے اُس کے سامنے مارتے ہیں تاکہ عبرت حاصل کرے۔ پس دوسروں کی حالت سے عبرت حاصل کرنا بہت اچھا کام ہے، "اَلسَّعِیْدُ مَنْ سُعِدَ بِغَیْرِہٖ" یعنی نیک بخت وہ ہے جو کہ دوسروں کی حالت سے نیک بختی کے اصول سیکھے۔