حصہ 2 باب 3: حضرت صاحب شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کی ریاضت اور مجاہدوں کے بیان میں

باب سوم

حضرت صاحب شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کی ریاضت اور مجاہدوں کے بیان میں۔

ہمارے شیخ محترم شیخ المشائخ (حضرت شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ) اپنے زمانے میں نہایت عبادت اور ریاضت فرماتے تھے۔ ریاضت کے جنگل کے ایک شیر تھے اور محنت کے سمندر کے نہنگ تھے۔ حضرت موصوف نے اپنے ایام طفولیت میں اتنی ریاضتیں، محنتیں اور مشقتیں اُٹھائی تھیں جو کہ شمار اور گنتی سے باہر ہیں۔ اپنی صغرِ سنی اور طفولیّت کے زمانے میں کچھ وقت ابتدائے حال میں بالکل باتیں نہیں کرتے تھے اور کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ ان حالات میں ایک دن آپ کی والدہ محترمہ کو گھر کے اندر کسی چیز کی ضرورت پیش آئی، اُس کو تلاش کیا، مگر سخت جستجو کے باوجود وہ چیز نہ پا سکیں۔ حضرت صاحب وہ چیز دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اُن کو اس چیز کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت وہ کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتے تھے، اور اللہ کا ذکر اور فکر کرنے کے علاوہ دوسرا کام نہیں کرتے تھے، اس لیے خود حضرت صاحب بنفسِ نفیس اُس چیز کی طلب کے لیے اُٹھے لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے سخت کمزور تھے، بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ والدہ صاحبہ نے مامتا کی وجہ سے چیخ ماری اور فریاد کرنے لگیں۔ ان کو خطرہ لاحق ہوا کہ جن بھوت نے ان کو یہ نقصان پہنچایا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب ہوش میں آئے اور اپنی مشفقہ والدہ مکرمہ سے کہا کہ میں صحیح اور تندرست ہوں۔ اس چیز کے لیے جس کو تم ڈھونڈتی تھی، میں اُٹھنا چاہتا تھا، مگر کمزوری کی وجہ سے میں زمین پر گر پڑا۔ اور اُن کو وہ چیز بتا دی اور دکھا دی۔ اور اکثر دفعہ لوگوں سے بھاگا کرتے تھے اور جب رات سر پر آ جاتی تو اُن کی والدہ محترمہ اُن کی تلاش کی خاطر گاؤں کے لوگوں کو بھیجا کرتیں۔ اور وہ ان کو ڈھونڈتے اور جب اُن کو پا لیتے تو گھر لے آتے، کیونکہ اُس زمانے میں چوروں ڈاکوؤں وغیرہ کا بہت زیادہ خطرہ تھا۔ اور "حال" کے ابتدائی ایام میں حضرت صاحب موسم سرما میں رات کے وقت پانی میں بیٹھ کر گزارا کرتے تھے، اور اس کے نتیجے میں برف کی تہہ اُن کی گردن کے گرد حلقہ بنائے ہوئے نظر آتی تھی۔ تہجد کے وقت وہ پہنے ہوئے کپڑے پانی سے نچوڑ لیتے تھے اور اُس کے بعد نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ اپنی جوانی کے آغاز میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بھائیوں کے ساتھ اس بات پر مصالحت کی، اور ان کو کھل کر کہا کہ اے والدہ مکرمہ اور اے میرے بھائیو! اگر مجھے اختیار کرنا چاہتے ہو، تو میں تمہارے ساتھ رہوں گا اور میں دنیا کو تصدّق کروں گا۔ اور اگر تم دنیا کو اختیار اور پسند کرنا چاہتے ہو تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا، اور تم اپنا معاش اور گذارہ کرتے رہو۔ پس اس قرارداد پر جانبین نے مصالحت کی اور انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم نے تم کو اختیار کیا اور دنیا کے امور تم پر چھوڑ دیے، ہم نے دنیا تمہارے حوالے کی، اور آپ جو پسند فرماتے ہوں وہی کرو۔ حضرت صاحب نے ایک دن میں ستر دنبے اور تیس گائے بیل ذبح کر ڈالے۔ ایک اعلیٰ گھوڑا بھی حضرت صاحب کے ہاں تھا، حضرت صاحب اُس گھوڑے پر سوار ہو کر دور دراز کا سفر کرتے۔ ایک کھلے اور طویل میدان میں گھوڑے کو دوڑایا، اور دور لے جا کر اُس کو تنہا اپنے ہاتھوں ذبح کر ڈالا اور کہا کہ میں نے گھوڑا درندوں اور دیگر گوشت خور جانوروں کی خاطر تواضع کے لیے ذبح کر ڈالا، تم لوگ اس کام میں مداخلت نہ کرو۔ گھوڑے کا پیٹ چاک کر کے وہاں چھوڑ دیا۔ اور حضرت صاحب واپس اپنے مکان کو تشریف لے آئے۔

؎ جدا مست و جہد مایۂ اقبال آدمی

تا از حضیض به اوج سما رسد

مردانی ز جد و جہد بجائے رسیده اند

آن را کہ جد و جہد نہ باشند کجا رسد

”آدمی کے اقبال و ترقی کے لیے جد و جہد ایک سرمایۂ اقبال ہے۔ جد و جہد اور کوشش سے انسان فرشِ خاک سے اوجِ سما اور فرازِ عرش تک پہنچتا ہے۔ لوگ جد و جہد اور کوشش سے اپنے مقام عالی تک پہنچ گئے ہیں۔ اور جو لوگ کوشش نہیں کرتے وہ کہاں پہنچتے ہیں“

شمائلِ اتقیاء نامی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ابدال ان چار عادات و فضائل کی وجہ سے ابدال ہو جاتے ہیں: "قِلَّۃُ الطَّعَامِ وَ قِلَّۃُ الْمَنَامِ وَ قِلَّۃُ الْکَلَامِ وَ احْتِمَالُ جَفَاءِ الْأَنَامِ" یعنی تھوڑا کھانا، تھوڑا سونا، تھوڑا بولنا اور لوگوں کی جفا کاریوں کو برداشت کرنا۔ ابدال وہ ہوتے ہیں کہ ان کی برائیاں خوبیوں میں تبدیل ہو جائیں اور ایسا ہونا ریاضت کا ثمرہ ہوتا ہے۔ اور جس کسی کو ریاضت کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے، تو اس کو ابدی نعمت اور سرمدی دولت نصیب ہو جاتی ہے۔ اور ہمارے حضرت شیخ اتنا کم سوتے تھے کہ جب دن کے وقت کبھی اتفاقاً قیلولہ کے طور پر سو جاتے تو چار یا پانچ گہرے سانس لینے کی مقدار میں سوئے ہوتے، پھر جاگ اُٹھتے اور آنکھ مبارک کھولتے۔ اور رات کی نیند کی حقیقت سے میں واقف نہیں ہوں، لیکن اندازہ کرتا ہوں اور خیال ہے کہ دن کی طرح اور اسی انداز پر نیند فرماتے۔ اور کھانے سے پیٹ بھرنا اور زیادہ کھانا بُرا سمجھتے تھے اور ایسا کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے، کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو رات چھا جاتی ہے۔ جب پیٹ بھر جاتا ہے تو باطن پر رات چھا جاتی ہے، یعنی باطن کو تاریک بناتی ہے۔ لیکن ایک وقت ان وقتوں میں ایسا آیا تھا کہ سارے مہینے میں جو کہ تیس (30) راتیں ہوتی ہیں، پختہ سیر کے وزن سے تیس (30) سیر وزن کا گھی کھانے میں نوش فرماتے۔ مطلب یہ کہ ہر رات ایک سیر گھی طعام کے ساتھ کھاتے۔ اُس حال میں تمام ماہ ایک ہی وضو سے عشاء و فجر کی نماز ادا کرتے اور رات بھر نوافل پڑتے رہتے۔ اُس مہینے کے گذرنے کے بعد جیسا کہ ذکر ہوا گذر چکا، حضرت صاحب اس معمول کا ذکر فرماتے، اور اس کی تعریف فرماتے کہ اس ماہ کا بہت اچھا معمول تھا جو کہ گذر چکا۔ اور اوائل میں حضرت صاحب کے معمول کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ اٹھارہ مہینے طعام نہیں کھاتے تھے، اور ایک ماہ پانی نہیں پیتے تھے، لیکن آخری عمر میں دو ماہ بہت دفعہ طعام نہیں کھاتے تھے اور ایک سال پانی نہیں پیتے تھے۔ اور حضرت صاحب کے کھانا کھانے کا اندازہ یہ تھا کہ کبھی کبھی بہت سا عرصہ جَو کی روٹی کھایا کرتے، اور کبھی کبھی بہت عرصے تک ارزن شموخہ (ایک گھاس ہے) کی روٹی کھاتے تھے۔ اور کبھی کبھی بہت عرصے تک دوسرا غلہ کھاتے تھے۔ اور بغیر نمک والے سالن کی کم خوراک تناول فرماتے۔ اور پتلی روٹی جو اچھی طرح پک کر سخت ہو گئی ہو، کھاتے تھے کہ اس روٹی میں مغز نہیں ہوتا تھا۔ اور لذیذ کھانا نہیں کھاتے تھے مگر دوسروں کے التماس اور لحاظ سے کہ کسی نے اس کو نہ دیکھا ہو، کھایا کرتے، مگر سیر ہو کر نہ کھاتے۔ اور امیروں میں سے ایک امیر ان کی خدمت میں حاضر ہوا، بازار کی شیرینی میں سے حضرت صاحب کے کھانے کے لیے کچھ شیرینی لے آیا۔ اور عرض اور استدعا کی کہ حضرت! یہ شیرینی جو میں خدمتِ اقدس میں لا چکا ہوں، آپ میرے روبرو اس میں سے تناول فرمائیے۔ حضرت صاحب نے ان کی خاطر وہ شیرینی منہ میں ڈالی اور پھر پھینک دی۔ چنانچہ حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس شیرینی کی مٹھاس میرے حلق سے نہیں گزری۔ میں اپنی زبان کپڑے سے رگڑتا اور وہ شیرینی پھینک دیتا تاکہ اُس کی مٹھاس اور لذت میرے منہ سے نکل جائے۔ اپنی زبان کو اتنا رگڑ دیا تھا کہ بہت عرصے کے لیے اس رگڑنے سے سخت تکلیف سے دو چار ہوئے اور وہ امیر اس راز سے آگاہ نہ ہوا۔ اُس وقت شام کے بعد کی خفتن کے قریب کی تاریکی چھا رہی تھی۔ اور یہ کام اُنہوں نے اس لیے کیا تھا کہ بازار کی اور لذیذ خوراک کھانے سے پرہیز فرماتے تھے اور جس طعام اور شیرینی پر لوگوں کی نظر پڑ چکی ہوتی، وہ تناول نہ فرماتے۔ اور یہ سچے اور حقانی صوفیائے کرام کے خصائل و خواص میں سے ہے کہ وہ بازار کا کھانا نہیں کھاتے اور نہ لذیذ قسم کے طعام کی طرف میل رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کا نفس نفسِ مطمئنہ کے اوصاف سے متصف تھا اور ﴿یَا أَیُّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃ﴾ (الفجر: 27) کی ندائے دل نواز سے مخاطب ہو کر اس نام سے موصوف ہو گئے تھے۔

؎ لَیْسَ لِلْحَاجَاتِ إِلَّا مَنْ لَہٗ جَھْدٌ

فَعَلَیْکَ الْجَھْدُ فِیْھَا وَ عَلَی اللہِ نَجَاحٌ

”جو لوگ جد و جہد اور کوشش کرتے ہیں، ان کی حاجت بر آتی ہے، تم کو چاہیے کہ تم کوشش کیے جاؤ اللہ تعالیٰ اس کی مکافات میں تمہاری حاجت بر لائے گا“

اور حضرت صاحب اپنے عہد میں اور اپنے قول کے سچّے اور پکے تھے۔ اور غیر ضروری باتوں سے احتراز فرماتے تھے اور ایسی باتوں سے دور رہا کرتے تھے۔ اور سید الکونین فخرِ موجودات جناب رسول اللہ کے مبارک قول پر عمل فرماتے تھے اور کبھی ہرگز اپنی زبان مبارک سے لغو اور بے ہودہ بات نہ نکالتے اور سچی بات فرماتے۔ نہایت نیک کردار تھے، مجمعِ کمالات تھے اور رسول کریم کے عمل سے آراستہ تھے۔ یعنی رسول اللہ کے نقشِ قدم پر چلا کرتے تھے، ہوا و ہوس اور خواہشاتِ نفسانی کا سر کاٹ کر پاؤں کے نیچے پامال کر دیا تھا جو کہ حواس خمسہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اخلاقِ حمیدہ و حسنہ رکھتے تھے اور بُری عادتوں کا ان میں کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ "اَلْفَنَاءُ فَنَاءُ الصِّفَاتِ الْبَشَرِیَّۃِ دُوْنَ الذَّاتِ" یعنی فنا کا مطلب یہ ہے کہ ذات الٰہی کے سوا تمام بشری صفات کو فنا اور نیست و نابود کیا جائے اور یہ مقام انہیں نصیب ہوا تھا، فنا فی اللہ اور بقا باللہ اُن کے قلب و خیال پر چھائے ہوئے تھے۔ اور یہ نیک بختی اور سعادت اُن کو تائید الٰہی سے نصیب ہوئی تھی۔ حضرت صاحب کو کامل معرفت حاصل ہوئی تھی کہ "مَنْ عَرَفَ اللہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْءٌ وَّ لَا أُنْسَ مَعَ غَیْرِ اللہِ" جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے، تو اُس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔ اور غیر اللہ کے ساتھ اُس کی محبت باقی نہیں رہتی۔ اور اسی معرفتِ الٰہی کا تاج اُن کو عنایت ہو کر اس انعام سے سرفراز ہو گئے تھے اور "عَرَفْتُ رَبِّيْ بِرَبِّيْ" ”میں نے اپنے رب کو اپنے رب سے پہچانا“ کا ملکہ انہیں حاصل ہوا تھا۔ اور اپنی ذات اور نفسانی خواہشات سے مبرّا و منزہ ہو کر اضمحلال اور نیستی کی کھٹالی میں اپنے آپ کو محو اور نیست کر چکے تھے۔ اور اس آواز کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے، اور اس تخاطب سے لرزہ بر اندام اور ہیبت زدہ تھے:

؎ در شھر بگویا کہ تو باشی یا من

کا شفته شود کار ولایت بدو تن

”اعلان کرو کہ شہر میں یا تو تم ہوں گے یا میں ہوں گا۔ کیونکہ ولایت اور سلطنت کا کام دو آدمیوں کی موجودگی سے خراب ہو جاتا ہے“

اور آں حضرت صاحب قدّس سرّہٗ خود سے فانی تھے۔ اور حلول و اتحاد حال رکھتے تھے۔ اور رمز کے طور پر اس رباعی کے مضمون کے مصداق تھے:

؎ تا مرو ز خود فانی مطلق نہ شود

اثبات ز نفی و محقق نہ شود

توحید حلول نیست نا بودن تست

ورنی بہ تکلیف آدمی حق نہ شود

”جب تک آدمی مکمل طور پر مطلقًا فانی نہیں ہو جاتا، اُس کی نفی و اثبات کا کوئی یقین نہیں۔ توحید یہ نہیں کہ تم حلول کر جاؤ، بلکہ توحید یہ ہے کہ اپنے آپ کو فانی نیست و نابود کرو۔ اگر ایسا نہیں تو تکلف سے تو آدمی حق نہیں ہو جاتا“

شمائل اتقیاء میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی نیک کردار و گفتار نیک اخلاق و معارف رکھتا ہو، اس کو غوث، قطب، غوث الزمان اور قطبِ دوران کہا جاتا ہے۔ اور مناسب ہے کہ اس کو آئینۂ جہاں اور مرآت گیتی آرا کہا جائے اور وہ پیشوائی اور اقتدار کے لیے موزوں ہے اور اس کا لائق ہے۔ اور حضرت صاحب ان چار اوصاف میں اپنے عہد کے کامل ترین اور اپنے زمانے کے مناسب ترین فرد تھے۔ اور ہمارے شیخ اپنے زمانے کے بہت عبادت گزار اور ریاضت کش تھے۔ کہا گیا ہے کہ "اَلرِّیَاضَۃُ سَدُّ بَابِ النَّوْمِ وَ الْبُعْدُ عَنْ صُحْبَۃِ الْقَوْمِ" یعنی ریاضت خواب اور سونے کے دروازے کا بند کرنا ہے اور لوگوں کی مجلس سے دور رہنا ہے۔ اور بعض لوگ ریاضت کی تعریف یوں کرتے ہیں: "اَلرِّیَاضَۃُ مُدَارَاۃُ الشَّرِیْعَۃِ وَ مُدَاوَاۃُ السَّقْمِ بِالطَّبِیْعَۃِ" یعنی ریاضت شریعت کے راستے پر چلنا اور طبیعت کی بیماری کا علاج کرنا ہے۔ اور ریاضت کی اساس بھوک ہے۔ "اَلْجُوْعُ تَھْذِیْبُ الْأَوْلِیَاءِ وَ تَعْذِیْبُ الْأَشْقِیَاءِ" یعنی بھوک اولیاء اللہ کو مہذب کرنا اور بد بختوں کے لیے عذاب ہے۔ اربابِ معرفت کہتے ہیں کہ لوگ پانچ بڑی مصیبتوں میں مبتلا ہیں اُن میں سے ایک پیٹ کی محبت ہے اور اس میں دل کی سختی ہے، دوسری مصیبت آرام طلبی اور راحت کی چاہت ہے اور اس میں عمل کا افلاس ہے۔ تیسری نیند کی محبت ہے اور اس میں عمر کا نقصان ہے، چہارم مال کی محبت ہے اُس کا نتیجہ سخت حساب و محاسبہ اور بد ترین عذاب ہے، اور پانچویں مصیبت جوانی کی محبت ہے اور اُس میں ثواب کا فقدان ہے۔ اور یہ پانچویں مصیبت سب سے بڑی ہے اور اسی بنا پر لوگوں کے لیے خود پرستی سے زیادہ بدتر عیب اور خود بینی سے زیادہ معیوب چیز اور کوئی نہیں۔ ایک صاحبِ مقام بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ انصاف کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ دوسروں کا انصاف اپنے آپ سے طلب کر کے دے دے اور اپنا انصاف کسی سے نہ مانگے۔ طالبانِ صادق کا قول ہے کہ طالب کو چاہیے کہ مطلوب کو بغیر کسی واسطے کے دوست اور محبوب رکھے، نہ کہ کسی واسطے کے ذریعے۔ اے میرے بھائی! یہ ایک راستہ ہے کہ اگر اس راہ پر کوئی عمل نہ بھی کر لے، تو یہ اس بات سے بدرجہا بہتر ہے کہ اس پر عمل کرے اور مزدوری طلب کرے۔ بقول اقبال:

؂ سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے

اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

اور اپنے عمل سے مزدوری (اجر) کی اُمید رکھنا خود پرست لوگوں کا کام ہے۔ اور لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ لوگ ہیں جو کہ چاہتے ہوں کہ خود بھی نیک ہوں اور دوسرے بھی نیک ہوں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ چاہتے ہیں کہ نا خود نیک ہوں نا دوسرے نیک ہوں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں کہ چاہتے ہوں کہ خود نیک ہوں، مگر دوسروں کے بارے میں نہ چاہتے ہوں۔ چوتھے وہ لوگ ہیں جو کہ دوسروں کو چاہتے ہوں کہ نیک ہوں مگر خود اپنے لیے یہ خواہش نہ رکھتے ہوں اور کام کے یہی لوگ ہیں، جن میں یہ صفت پائی جاتی ہو۔ بیت:

؎ نخشبی نیک خواہ خلقے باش

مثل ایں کار در جہاں کار نیست

”اے نخشبی! لوگوں کے خیر خواہ اور نیک خواہ رہا کرو کہ اس کام سے بہتر کام دنیا بھر میں کہیں نہیں“

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ میں مسجد حرام میں ایک جوان کو دیکھا جو کہ بہت نحیف و نزار تھا، پرانے چیتھڑے پہنے ہوئے تھے لیکن پوری دل جمعی اور استغراق کے ساتھ مشغولِ عبادت تھا۔ میرے پاس سو درہم کی ایک تھیلی تھی، میں نے اس کو نذر کی، اُس نے اُس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ آخر میں نے بہت منت سماجت کی تو وہ کہنے لگا: "یَا شَیْخُ ھٰذِہٖ حَالَاتٌ لَّا أَبِیْعُھَا بِکُلِّ الْآخِرَۃِ فَکَیْفَ أَبِیْعُھَا بِبَعْضِ الدُّنْیَا؟" "اے شیخ یہ ایسے حالات ہیں جو کہ میں تمام آخرت پر نہیں بیچتا، تو ان حالات کو دنیا کے بعض حصے پر کیونکر فروخت کروں؟"

ہاں! جس کی نظر میں باقی خزانے سما جائیں وہ اس نقد پر جو کہ فانی ہے، کیسے التفات کرے گا؟ اور جو کوئی حقیقی بادشاہ کا قرب حاصل کر لے، وہ مجازی امیروں کے جانب کیا توجہ اور رجوع کرے گا؟ اور وہ امیر کہ فقیروں کے دربار میں حاضری دیں تو یہ ان امیروں کی نیک بختی اور سعادت ہے۔ اور وہ فقیر کہ امیروں کے دروازے پر جائیں، تو یہ اس فقیر کی بد بختی اور شقاوت ہے۔ بعض درویش بادشاہوں سے اس قدر احتراز کرتے ہیں کہ جتنا بعض بادشاہ فقیروں سے دامن بچائے رکھتے ہیں۔ بیت:

؎ نخشبی فقر گنج بر گنج است

اہل غیبت ہمیشہ در رنج است

”اے نخشبی! فقیری خزانوں کا خزانوں ہے، اور اہل غیبت (بے خبر لوگ) ہمیشہ رنج میں مبتلا ہوتے ہیں“

؎ پائے درویش بر درے نرود

پائے فقرا همیشه بر گنج است

”فقیر اور درویش کے قدم کسی دروازے کی طرف نہیں جاتے، فقیروں کے پاؤں ہمیشہ خزانے پر ہوتے ہیں“

اور فقیری میں ادب کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت صاحب کو حاصل تھا۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے: "مُنْذُ عِشْرِیْنَ سَنَۃً مَّا مَدَدْتُّ رِجْلًا وَّقْتَ جُلُوْسِيْ فِيْ خَلْوَۃٍ رِّعَایَۃً لِّحُسْنِ الْأَدَبِ مَعَ اللہِ تَعَالٰی" "بیس 20 سال کا عرصہ ہوا ہے کہ میں نے خلوت میں بھی اللہ تعالیٰ کے ادب و احترام کی خاطر اپنے پاؤں نہیں پھیلائے ہیں"

اگر تھوڑے عمل میں زیادہ ادب ہو تو گزارا ہوتا ہے، لیکن اگر زیادہ عمل میں ادب برائے نام ہو تو گزارا مشکل ہے۔ اے بھائی! ادب اور تواضع سب سے بہتر چیز ہے۔ اور تمام بزرگوں سے بھی بہتر ہے۔ اور فقیروں کے لیے گوشۂ تنہائی بہت اہم ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کو عزلت اور تنہائی کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ اگرچہ نیک صحبت بہت اچھی چیز ہے، لیکن جب آدمی درجۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے تو وہ نہ تو کسی کی صحبت اختیار کرتا ہے اور نہ اپنی صحبت میں کسی کو رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ محقق عالم کہتے ہیں کہ سالک کے لیے تنہائی اور عزلت حضرت خضر علیہ السلام کی صحبت سے زیادہ بہتر ہے۔ اے میرے عزیز! اگر کل دنیا کے تمام گنہگار کسی صاحبِ اقبال کا دامن پکڑ کر دوزخ میں چلے جائیں تو یہ ایسا ہوگا کہ بہشت کو دوزخ پر غیرت آئے گی۔ ذوالنون مصری صاحب علیہ الرحمۃ سے کسی نے پوچھا کہ کس کی محبت اختیار کرنی چاہیے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس شخص کی جس کے اندر "میں" اور "تو" نہ ہو۔