حصہ 2 باب 2: اولیاء اللہ تعالیٰ کے مراتب اور مقامات کے بارے میں اور یہ کہ ہمارے شیخ صاحب کون سا مرتبہ اور مقام رکھتے تھے

باب دوم

اولیاء اللہ تعالیٰ کے مراتب اور مقامات کے بارے میں اور یہ کہ ہمارے شیخ صاحب کون سا مرتبہ اور مقام رکھتے تھے۔

جناب حضرت شیخ رحمکار صاحب المعروف جناب کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور اولیاء اللہ کے زمرۂ مبارکہ میں اعلیٰ ترین اور خاص مقام رکھتے تھے۔ وہ فرد اور قطبِ حقیقی تھے۔ اور قطبِ وحدت کے مرتبہ پر تھے جو کہ قطبیت کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے اور معشوقیت کے مقام تک رسائی حاصل فرما چکے تھے۔ بحر المعانی میں تحریر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معشوق جو کہ عموماً لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں، اُن کو اہلِ حقیقت کے سوا کوئی نہ دیکھ پاتا ہے نہ پہچان پاتا ہے، جبکہ یہ خود ہی حقیقت ہوتے ہیں۔ اور اس مبارک گروہ میں سات آدمی ہیں۔ سرور کونین رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "بَدَلَاءُ اُمَّتِيْ سَبْعَۃٌ" (لم اجد ہذا الحدیث) یعنی میری امت کے ابدال سات ہیں۔ اور یہ سات ابدال سات اقلیموں یعنی ممالک میں ہوتے ہیں۔ ہر ابدال ایک اقلیم میں ہوتا ہے۔ جس وقت کہ لوگ عاجز و درماندہ ہو جاتے ہیں تو ابدال کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اُن کی امداد اور معاونت کرے اور جب اُس قوم میں کوئی کامل درویش ہو تو اُس درویش کے ذریعے اُس قوم کی فریاد رسی کی جاتی ہے۔ اور جب ان ابدال میں سے کوئی صاحب بقضائے الٰہی انتقال کر جاتے ہیں اور عالم بقا کا سفر اختیار فرماتے ہیں تو صوفیائے کرام میں سے کسی ایک کو مرحوم کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اور اُس مرحوم کا جو نام ہوتا ہے اُسی نام سے اسے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور سات ابدالوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں اور یہ سات افراد سات پیغمبروں کے مشرب پر ہوتے ہیں۔ ان میں ایک اقلیمِ اوّل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے اور اس کا نام عبدالحی ہے۔ دوسرا فرد اقلیمِ دوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے اور اس کا نام عبداللہ ہے۔ تیسرا اقلیمِ سوم میں حضرت ہارون علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے اور اُس کا نام عبدالمرید ہے۔ چوتھا اقلیمِ چہارم میں حضرت ادریس علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے اور اس کا نام عبدالقادر ہے۔ پانچواں فرد اقلیمِ پنجم میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے اور اس کا نام عبدالقاہر ہے۔ چھٹا اقلیمِ ششم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قائم مقام ہے اور اس کا نام عبدالسمیع ہے۔ ساتواں اقلیم ہفتم میں حضرت آدم علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے اور اُس کا نام عبدالبصیر ہے۔

بحر المعانی کے مصنف جناب محمد حسین ابن نصیر الدین جو کہ افرادِ حق میں سے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے دورانِ سفر ان کا ساتھ حاصل ہوا ہے۔ اُن ابدالوں میں سے ہر ایک معارفِ الٰہی اور لطائف کا عارف ہوتا ہے اور ساتوں ستاروں میں اللہ تعالیٰ نے جو اسرار ودیعت کر رکھے ہیں وہ سب تاثیر ان ابدالوں کی ذات گرامی میں موجود ہوتی ہے۔

اقالیم بالفتح، جمع ہے اقلام کی یعنی ملک، فارسی لوگ اسے اِمالہ کے ساتھ بولتے ہیں، اور یائے فارسی کے ساتھ اقلیم لکھتے ہیں۔ اور اقلیم ربعِ مسکون کا ساتواں حصّہ ہے۔ اور ربعِ مسکون تمام زمین کے چوتھائی حصّہ کو کہتے ہیں۔ اور تمام ربعِ مسکون نوے (90) درجے ہے۔ جس میں باسٹھ درجے جھلسی ہوئی زمین اور برف کے پہاڑ ہیں، اس میں جاندار زندہ نہیں رہ سکتے، اور وہاں آبادی ممکن نہیں۔ اور ربعِ مسکون میں سے اٹھائیس درجے آبادی کے قابل ہیں۔ اور زمین کا چوتھائی حصّہ دریائے محیط کے نیچے ہے اور زمین کے نصف حصّے کی حقیقت معلوم نہیں، اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اور اس حصے کو نیچے کی زمین (زمین تحت) کہتے ہیں۔ اور حُکَماء نے پوری زمین کے ایک سو ساٹھ درجے مقرر کیے ہیں، پس ہر اقلیم ایک ستارے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ہندوستان زحل کے ساتھ، چین مشتری کے ساتھ اور ترک مریخ کے ساتھ، خراسان شمس کے ساتھ اور ماوراء النہر زہرہ کے ساتھ، روم عطارد کے ساتھ اور بلخ قمر کے ساتھ منسوب ہے۔

ابدال پہاڑوں میں سکونت پذیر ہوتے ہیں، اُن کی خوراک درختوں کے پتے اور صحرا کی ٹڈی (ملخ) ہوتی ہیں۔ اور یہ کمال معرفتِ ایزدی رکھتے ہیں، اور حالت طیر اور حالت سیر نہیں رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "إِنَّ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قَلْبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلّٰهِ فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ مُوسٰى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلّٰهِ فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوْبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلّٰهِ فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوْبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلّٰهِ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوْبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيْكَائِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلّٰهِ فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهٗ عَلٰى قَلْبِ إِسْرَافِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الثَّلَاثَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الْخَمْسَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ السَّبْعَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الْأَرْبَعِيْنَ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِيْنَ أَبْدَلَ اللہُ مَكَانَهٗ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ عَامَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ، بِهِمْ يَرْفَعُ اللهُ تَعَالى الْبَلَاءَ مِنْ ہٰذِہٖ الْاُمَّۃِ" (الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 2، رقم الصفحۃ: 298، دار الفکر، بیروت)

ترجمہ: ”مخلوق میں ابدال کی تعداد تین سو ہے جن کے دل حضرت آدم علیہ السلام کے دل کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن میں چالیس کے دل موسیٰ علیہ السلام کے دل کے مانند ہوتے ہیں۔ اور سات ابدال ایسے ہوتے ہیں جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح ہوتے ہیں۔ پانچ کے دل حضرت جبریل علیہ السلام تین کے دل میکائیل علیہ السلام کے دل کی مانند ہوتے ہیں۔ اور ایک ایسا ہوتا ہے جس کا دل اسرافیل علیہ السلام کے دل کی مانند ہوتا ہے۔ جب یہ ایک ابدال فوت ہو جائے تو اس کی جگہ اُن تین ابدالوں میں سے ایک سے پر کی جاتی ہے۔ اور جب تین میں سے کوئی چل بسے تو پانچ میں سے کسی ایک سے تبدیل کی جاتی ہے۔ اور جب پانچ میں سے کوئی فوت ہو جائے تو سات کے گروہ میں سے کسی ایک سے پُر کی جاتی ہے۔ اور جب سات میں سے کوئی راہی عالمِ بقا ہو جائے تو چالیس کی جماعت سے اُس کے مقام کی خانہ پُری کی جاتی ہے۔ اور جب چالیس میں سے کوئی سفرِ آخرت پر چل بسے تو تین سو میں سے کسی کو اُس کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اور جب ان تین سو میں سے کوئی وداع فرمائے تو عام مسلمانوں میں سے کسی کو ان کے مقام پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس اُمت کے مصائب رفع کرتے ہیں۔“

پس وہ تین سو ابدال جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کے قائمقام ہیں اُن کا وِرد حضرت آدم علیہ السلام والا ہوتا ہے یعنی: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا….﴾ (الأعراف : 23) کا ورد جاری رکھتے ہیں۔ اور وہ چالیس ابدال جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائمقام ہیں تو ان کا وِرد موسیٰ علیہ السلام والا وِرد: ﴿إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَلَہٗ﴾ (القصص: 16) ہوتا ہے۔ اور سات ابدال جو کہ ابراہیم علیہ السلام کے قائمقام ہیں ان کا ورد حضرت ابراہیم علیہ السلام والا وِرد: ﴿رَبِّ ھَبْ لِيْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِيْ بِالصَّالِحِیْنَ(الشعراء: 83) ہوتا ہے۔ اور پانچ ابدال جو کہ جبریل علیہ السلام کے قائمقام ہیں تو ان کا علم مقامِ جبریل علیہ السلام سے تجاوز نہیں کرتا۔ اور تین ابدال جو کہ میکائیل علیہ السلام کے قائمقام ہیں اُن کا علم میکائیل علیہ السلام کے مقام سے متجاوز نہیں ہوتا۔ اور ایک ابدال جو کہ اسرافیل علیہ السلام کے قائمقام ہے اس کا علم بھی اسرافیل علیہ السلام کے مقام سے تجاوز نہیں کرتا۔ اور وہ تین سو ابدال جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کے قائمقام ہیں اُن کو صفی کہتے ہیں۔ اور چالیس جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائمقام ہیں ان کا نام موسیٰ ہے۔ اور وہ سات جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قائمقام ہیں اُن کا نام ابراہیم ہے۔ اور وہ پانچ جو کہ جبریل علیہ السلام کے قائمقام ہیں اُن کا نام جمال الدین ہے اور وہ تین جو کہ حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر ہیں ان کا نام محمد ہے۔ اور ایک جو اسرافیل کے قلب پر ہے اس کا نام احمد ہے۔ اور جب احمد نام والا قطبیت کے مرتبے پر پہنچ جائے تو اس کا نام عبدالرّب ہو جاتا ہے۔ علیہم رضوان اللہ اجمعین۔

اور دنیا کے چاروں کونوں میں چار اوتاد ہوتے ہیں۔ بحر المعانی کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے مغرب میں عبد الودود سے ملاقات کی، مشرق میں عبد الرحمٰن سے، جنوب میں عبد الرحیم سے اور شمال میں عبد القدوس سے ملاقات کی۔ اور جب ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو ان میں سے ایک کو لے جا کر اُس کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے اور دُنیا جہاں کے چار رکن (گوشے) ان کے وجود سے آباد ہیں۔ چنانچہ اے میرے پیارے! جس طرح زمین کو پہاڑوں کی وجہ سے قرار و سکون حاصل ہے اسی طرح ان ارکانِ عالم کو ان چار اوتادوں سے ثبات و قرار حاصل ہے اور جہاں کی آبادی کا یہ سبب ہوتے ہیں۔ اے میرے محبوب! نقبا (نقیب کی جمع) تین سو ہیں نجبا (نجیب کی جمع) ستر اور ابدال تین سو چھپن جن کا ذکر کیا گیا۔ اور چالیس دوسرے بھی ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: وَ قَالَ عَلَیْہِ السّلَامُ: "اَلْبُدَلَاءُ أَرْبَعُوْنَ رَجُلاً اِثْنَا عَشَرَ بِالشَّامِ وَ ثَمَانِیَ عَشَرَ بِالْعِرَاقِ " (الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 2، رقم الصفحۃ: 295، دار الفکر، بیروت) وَالْبَاقُوْنَ لَمْ نَذْکُرْ مَکَانَھُمْ وَ اسْمُھُمْ کُلُّھُمْ أَحْمَدُ فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ مِنْھُمْ أَبْدَلَ اللہ تَعَالیٰ مَکَانَہٗ مِنَ الْاٰخَرِ وَ فِیْ مَکَانِ الْاٰخَرِ أَبْدَلَ اللہُ تَعَالیٰ مَکَانَہٗ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ أوِ الْمُصَوِّدِیْنَ"

ترجمہ: میری اُمت کے چالیس ابدال ہیں اُن میں سے بارہ افراد شام میں، اٹھارہ عراق میں اور باقی کی جائے قیام کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور ان سب کے نام احمد ہیں، جب ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اُن کی جگہ دوسرے مقام سے تبدیل فرما کر پُر کر دی جاتی ہے۔ اور اس کی جگہ شاہدین اور مصودین سے پُر کی جاتی ہے۔

اخیار سات ہیں اور ان کے نام حسین ہوتے ہیں۔ اور عمد چار ہیں اور یہ عمد سے ہی موسوم ہوتے ہیں۔ اور ایک غوث ہوتا ہے جس کا نام عبد اللہ ہے۔ اور اے میرے محبوب! جب غوث فوت ہو جاتا ہے تو عمد میں سے ایک غوث کے مقام پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اور جب عمد میں سے کوئی وفات پاتا ہے تو اخیار میں سے اُس کی خانہ پُری ہوتی ہے۔ اور اسی طرح جب اخیار میں سے کوئی داعی اجل کو لبیک کہتا ہے تو نجبا میں کوئی اس کی جگہ پہنچتا ہے، اور نجبا میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے تو نقبا میں سے کوئی اس کے مقام پر مقرر کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ پہلے ابدال کا ذکر گزر چکا ہے۔ اور اے میرے محبوب! نقبا کا مسکن مغرب کی زمین یعنی سویدہ ہے کہ وہاں تمام دن کی طوالت اتنی ہے جتنا کہ بالعموم یہاں صُبح سے چاشت تک ہوتی ہے۔ اور یہی رات کا تتمہ ہوتی ہے، لیکن نمازوں کے بارے میں جب وقت ہو جاتا ہے تو زمین کی گردش سے جو اوقات متعین ہیں، سورج کے طلوع سے بذریعہ مشاہدہ ہوتے رہتے ہیں۔ اور پانچ وقت کی نمازیں اپنے وقت پر ہوتی رہتی ہیں۔ اور بحر المعانی کے مصنف صاحب نے ان کو بھی دیکھا ہے۔ اور نجبا کی سکونت مصر میں ہے اور ابدال کے مساکن کا ذکر ہو چکا ہے۔ اخیار علی العموم مصروفِ سفر رہا کرتے ہیں۔ اُن کے لیے سکون و آرام نہیں۔ اور عمد زمین و زیرِ زمین کے فرائض انجام دیا کرتے ہیں۔ غوث کی جائے سکونت مکہ مکرمہ ہے۔

اب بارہ قطبوں کا ذکر کروں گا۔ اور قطبِ مدار شہرِ معظم میں سکونت پذیر ہوتا ہے۔ اور قطبِ عالم تمام اقلیموں اور تمام قطبوں پر متصرف اور حاکم ہوتا ہے اور عرش معلیٰ سے تحت الثریٰ تک اس کا تصرف ہوتا ہے۔ اور قطبیت کی حالت میں کسی گاؤں شہر یا قصبہ میں سکونت نہیں کرتا۔ جب اس مقام سے ترقی کرے تو مقام افراد تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ یہاں پہنچ کر ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ خواہ کسی گاؤں قصبہ میں رہائش کرے، خواہ شہرِ معظم میں۔ اور سوادِ اعظم یقین کے ساتھ اُس کا مقام بن جاتا ہے اور قطبِ حقیقی اور معشوقی کے لیے بھی ترتیب ساقط ہے۔ اور اِن تفصیلی باتوں کا حاصل یہ ہے کہ قطبِ مدار ہمیشہ کے لیے صفات کی تجلیات میں محو اور مستغرق رہتا ہے، لیکن افراد کامل ہمیشہ ہمیشہ ذات کی تجلیات میں مگن ہوتے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! جان لے کہ افراد خاص الخاص ہوتے ہیں اور قطب مدار خاص ہوتا ہے۔ بعض اولیا کے لیے تو افعال کی تجلی ہوتی ہے۔ اور بعض کو اسماء کی تجلی اور بعض کو آثار کی تجلی حاصل ہوتی ہے۔ بعض صحو کے مقام اور بعض سُکر کے مقام پر متمکن ہوتے ہیں۔ اور اولیاء اللہ کے مقامات بکثرت ہیں، لیکن جن کو فردانیت نصیب ہو اُن کا مقام ان سب سے برتر اور اعلیٰ ہوتا ہے اور وہ بلند ترین مقام پر تجلی افروز ہوتے ہیں، اس مقام کو فردانیت کہتے ہیں۔ اور فردانیت لا مکان ہے اور شش جہات کی حدود سے باہر ہے۔ اور یہ مقام "لاہوت" ہے اصل میں لاہوت، "لاہو" ہے، اور "تا" کا حرف اس میں زائد ہے۔ اہل عرب کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کوئی لفظ بولتے ہیں تو کوئی چیز (حرف) اس میں بڑھاتے ہیں اور کچھ گھٹاتے ہیں، تاکہ نا محرم اور اجنبی لوگ اُس کی حقیقت سے بے بہرہ رہیں۔ پس اے میرے محبوب! جان لے کہ "لا" نفی ہے یعنی افراد کے گروہ کے لیے صفات کی تجلی۔ اور "ہو" اسمِ ذات ہے یعنی "لا ہو" مگر یہاں ذات کی تجلی ہوتی ہے۔ پس فردانیت یعنی افراد ہمیشہ "لاہوت" کے مقام پر قیام پذیر ہوتے ہیں۔ یعنی تجلی ذات اور فردانیت کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ اور یہ شش جہات (چھ طرفوں) سے خارج اور ما وراء ہوتے ہیں۔ اور "مقام" کا یہ لفظ جو کہ اضافت کے طور پر استعمال ہوتا ہے کوئی مقام نہیں ہوتا، مجاز کے طور پر مقام کہلاتا ہے کہ لاہوت کا مقام ہے، مگر لاہوت کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ اور مقامِ لاہوت سے نیچے کا مقام "مقامِ جبروت" ہے یعنی جبر اور لوگوں پر غلبہ اور زیادتی۔ اور یہ قطب مدار کا مقام ہے یعنی قطب عالم کا مقام ہے، جو کہ غرازِ عرش سے تحت الثریٰ تک متصرف ہوتا ہے اور جبر و کُثر یعنی غلبہ اور استیلا بھی شش جہات میں سما سکتا ہے۔ اور اس کو مقامِ جبروت اس وجہ سے کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے جبر و کُثر اور اعجاز وغیرہ اسی عالم سے ہیں۔ اور جب اس مقام جبر و استیلاء سے ترقی حاصل ہو جاتی ہے تو مقامِ فردانیت ہوتا ہے یعنی مقام لاہوت۔ اس مقام میں جبر و استیلاء اس طائفہ کے لیے کفر ہوتا ہے، مگر جو لوگ عالم جبروت پر قدرت رکھتے ہوں، اگر وہ جبر و کثر کے کام میں مصروف ہو جائیں، تو وہ فردانیت کے مقام یعنی تجلی ذات سے گر جائیں گے۔ اور مقامِ جبروت سے نیچے کمتر اور اسفل مقام ''مقامِ ملکوت'' ہے۔ اور مقامِ ملکوت ملائکہ کا مقام ہے۔ یعنی بغیر کسی نقصان اور بے دلی یا بد دلی کے عبادت اور طاعت خداوندی کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ (الانبیاء: 20)

ترجمہ: وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس میں کچھ کمی نہیں کرتے۔

اور بے فتور عبادت جس کسی کے ہاتھ آئے تو وہ عبادت ملائکہ کی عبادت ہے۔ یعنی ملائکہ عبادت و تسبیح کرنے میں سستی تکاسل کمی اور کاہلی نہیں کرتے۔ پس مقامِ ملکوت یہی ہوتا ہے کہ اُس میں عبادت بے فتور ہوتی ہے۔ جس کسی کو یہ مقام حاصل ہو جائے، اور ایسی عبادت کرنا نصیب ہو جائے، تو اس کی ملکوت کے عالم کی طرح بے عادت عبادت ہوتی ہے۔ اور عادت والی عبادت عالمِ ناسوت کا مقام ہوتا ہے اور مقامِ ناسوت عادتی ہوتا ہے جو کہ بے سعادتی کی نشانی ہے۔ پس اے محبوب! عبادت کا پہلا مقام عادت ہے جو کہ عالمِ ناسوت ہے۔ جب درویش اس عادت پرستی کے مقام سے آگے نکل جائے، تو عالم فرشتگان یعنی عالم ملکوت کے مقام پر رسائی حاصل کرتا ہے یعنی اُس کو خلوص اور اخلاص کی عبادت ہاتھ لگتی ہے۔ اور جب مقامِ اخلاص پر قدم رکھتا ہے تو عادت پرستی سے نجات حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد اخلاص سے عالمِ جبروت تک پہنچتا ہے۔ یعنی جبر و کُثر، کشف و کرامات، آسمانوں کی خبریں، فرشتوں کے اخبار، عرش، کرسی، آسمان و زمین کے آثار وغیرہ اس کو حاصل ہوتے ہیں۔ اور اس کو مقام جبروت کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس مقام سلوک سے ترقی کر کے مقام لاہوت جو کہ فردانیت ہے اور جو کہ جہات و حدود سے منزّہ ہوتا ہے یعنی اس میں کوئی جہت سمت اور حد وغیرہ نہیں ہوتی۔ تو اسی مقامِ لاہوت و فردانیت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ پس وہ ہمیشہ اور دائمی طور پر مشہود یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی تجلیات سے لطف اندوز رہتا ہے۔ اب اے میرے پیارے! یہ بات گرہ میں باندھ رکھو کہ شریعت کے مطیع اور فرمان بردار عامل، طریقت میں عاصی اور گنہگار تصور ہوتے ہیں۔ اور طریقت کے مطیع حقیقت کے عاصی ہوتے ہیں، کہ "حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْعَاشِقِیْنَ وَ حَسَنَاتُ الْعَاشِقِیْنَ سَیِّئَاتُ الْوَاصِلِیْنَ" یعنی ابرار (نیک لوگوں) کی نیکیاں عاشقین کی برائیاں ہوتی ہیں۔ اور عاشقین کی نیکیاں واصلین کی برائیاں ہوتی ہیں۔ اب اے میرے پیارے! ایک اہم نکتہ سن لیجئے کہ شیخ داؤد قیصری نے اپنی بعض کتابوں میں رقم فرمایا ہے کہ ہر زمانے میں قطبِ عالم ایک ہوتا ہے۔ اور دنیا و آخرت کی تمام موجودات خواہ سفلی ہوں، یا عالمِ علوی سے تعلق رکھتی ہوں، اسی قطبِ عالم کے وجود کی برکت سے قیام پذیر ہوتی ہیں۔ اور قطب عالم کو قطب مدار بھی کہتے ہیں۔ یعنی تمام عالمِ سفلی و علوی کا مدارِ حیات ان کے وجود کی برکت سے ہوتا ہیں۔ اور اس قطبِ مدار کے وزیر ہوتے ہیں، ایک وزیر دائیں جانب جس کا نام عبد المالک ہوتا ہے اور دوسرا وزیر جو کہ اس کے بائیں جانب ہوتا ہے، اس کا نام عبد الرب ہے۔ وہ وزیر جس کا نام عبد المالک ہے قطبِ مدار کی روح سے فیض حاصل کرتا ہے اور اہلِ علوی کی فیض رسانی کرتا ہے۔ اور یہ دوسرا وزیر جس کا نام عبد الرب ہوتا ہے، قطبِ مدار کے دل سے فیض حاصل کرتا ہے۔ اور اہلِ سفلی کو فیض پہنچاتا ہے۔ اور جب قطبِ مدار اس دنیائے فانی سے رحلت فرماتا ہے، تو یہی عبد المالک جو کہ دائیں بازو کا وزیر ہوتا ہے، قطب مدار کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اور اس قطب مدار کا نام جو قطبیت تک پہنچتا ہے، اس کو عبد اللہ کہتے ہیں۔ خواہ اس کا کوئی دوسرا نام کیوں نہ ہو۔ اور بائیں طرف کا وزیر جس کا نام عبد الرب ہوتا ہے عبد المالک کی جگہ پر جاتا ہے۔ اور ابدالوں میں سے ایک ابدال جو کہ اسرافیل علیہ السلام کے قلب پر ہوتا ہے اس ابدال کو عبد الرب کی جگہ پر ترقی دیتے ہیں۔ پس عبد المالک قطبِ مدار ہو جاتا ہے۔ عبد الرب کو عبد المالک کی جگہ پر ترقی دیتے ہیں، پس عبد المالک قطبِ مدار ہو جاتا ہے۔ عبد الرب عبد المالک کی جگہ پر مقرر ہو جاتا ہے۔ اور مذکورہ ابدال عبد الرب کا مقام حاصل کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ قیامت کے دن تک یونہی چلتا رہے گا۔ اور تمام قطب حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے قلوب پر ہوتے ہیں۔ پہلا حضرت نوح علیہ السلام کے قلب پر، دوسرا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر، تیسرا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب پر، چوتھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قلب پر، پانچواں حضرت داؤد علیہ السلام کے قلب پر، چھٹا حضرت سلیمان علیہ السلام کے قلب پر، ساتواں حضرت ایوب علیہ السلام کے قلب پر، آٹھواں حضرت الیاس علیہ السلام کے قلب پر، نواں حضرت لوط علیہ السلام کے قلب پر، دسواں حضرت ھود علیہ السلام کے قلب پر، گیارھواں حضرت صالح علیہ السلام کے قلب پر اور بارھواں حضرت شیث علیہ السلام کے قلب پر ہوتا ہے۔ یہ تمام قطب حضرات بارہ قطب ہوئے ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی ان سے خارج ہیں۔ اور قطبِ مدار ایک ہی ہوتا ہے۔ اور اُس کا نام عبد اللہ ہوتا ہے اور وہ سواد اعظم میں سکونت پذیر ہوتا ہے۔ اور اس کا فیض عالمِ علوی و سفلی پر ہوتا ہے۔ اور تمام مذکورہ قطب صاحبان تمام کے تمام قطبِ مدار کے زیر فرمان ہوتے ہیں۔ یعنی وہی قطبِ عالم ہوتا ہے۔ پس اے میرے پیارے! بارہ قطب ہوتے ہیں اور جو قطب اقلیموں (اقالیم) میں ہوتے ہیں وہ سات ہیں، ہر اقلیم میں ایک قطب ہوتا ہے۔ اور پانچ اور قطب ولایت یعنی ملک میں ہوتے ہیں، اُن کو قطبِ ولایت کہتے ہیں۔ اور اقالیم کے قطب صاحبان کو قطبِ اقلیم کہتے ہیں۔ قطبانِ اقالیم کا فیض قطب ولایت پر نازل ہوتا رہتا ہے اور اسی طریقے سے فیوض حاصل کرتے رہتے ہیں اور قیامت کے دن تک ایسا ہوتا رہے گا۔ پس اے میرے محبوب! جب کوئی ولی ترقی کرتا ہے تو وہ قطب ولایت کے درجے تک پہنچتا ہے۔ اور جب قطب ولایت ترقی کرتا ہے تو قطب اقلیم تک پہنچتا ہے، اور جب قطب اقلیم ترقی کرتا ہے تو عبد الرب کے (جو کہ قطبِ مدار کے بائیں ہاتھ ہوتا ہے) مقام تک ترقی کرتا ہے اور جب عبد الرب ترقی کرتا ہے تو عبد المالک جو کہ قطبِ مدار کے دائیں ہاتھ کا وزیر ہوتا ہے، کے مقامِ عالی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اور عبد المالک قطب مدار کے رحلت فرمانے کے بعد قطب مدار کے مقام تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اور کبھی وہ ابدال جو اسرافیل کے قلب پر ہوتے ہیں، ترقی کر کے پہلے عبد الرب کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر عبد الرب سے مقام عبد المالک تک اور پھر ترقی پانے پر قطبِ مدار ہو جاتے ہیں، یعنی قطبِ عالم ہو جاتے ہیں۔ پس اے محبوب! جب قطبِ مدار کی زندگی قابل فخر بن جاتی ہے، تو وہ سلوک میں ترقی کر کے فردانیت کے مقام پر پہنچتا ہے۔ اور مفردین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قلب پر ہوتے ہیں۔ اور وہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "یَا عَلِیُّ أَنْتَ نَظِیْرِیْ أَیْ مِثْلِیْ فِی الْوِلَایَۃِ الَّتِیْ ھِیَ مُعَایَنَۃُ الْحَقِّ وَ لِہٰذَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَا رَاٰنِی عَلَی الْحَقِیْقَۃِ الَّتِیْ خَلَقَنِیَ اللہُ تَعَالیٰ" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْحَدِیْثِ فِيْ کِتَابٍ مَّا لَعَلَّهٗ مِنْ خُرَافَاتِ الشِّیْعَۃِ)

ترجمہ: اے علی! تم میری نظیر ہو، یعنی اس ولایت میں جس میں حق کا معائنہ ہوتا ہو، میری مثال ہو۔ اور اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی نے بھی حقیقت میں مجھے اس شکل میں نہیں دیکھا، جس پر خدا نے مجھے پیدا کیا ہے۔

محمد حسین بن نصیر الدین مصنف بحر المعانی فرماتے ہیں کہ میں نے ان تمام اقطاب کو دیکھا ہے اور ان کے حالتِ سفرِ اقالیم، سیرِ سلوک سب کو معلوم کیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک نے میرے حق میں بہت ساری نعمتیں ارسال فرمائی ہیں۔ اور میں نے ان کے مراتب دیکھے ہیں۔ پس اے میرے محبوب! افراد کی کوئی محدود تعداد نہیں اور ظاہری لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، مگر قطبِ مدار اور بعض قطب ان کو پہچانتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں۔ اور جب کامل افراد جو کہ تفرد کے مظاہر رکھتے ہیں، سلوک میں ترقی کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک سے ترقی کرتے ہیں، قطبِ حقیقی کے مقام کو پہنچ جاتے ہیں۔ اور قطبِ حقیقی کے مقام سے مقام معشوقیت یعنی قطبِ وحدت تک پہنچ جاتے ہیں۔ اے میرے پیارے اور حق و ہدایت کے متلاشی محبوب! کان کھول کر سن لو کہ بارہ قطب کیا اور کون ہیں؟ پہلا قطب جو کہ حضرت نوح علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہے اُس کا ورد سورۂ یٰسین ہے۔ دوسرا قطب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر ہے اُس کا ورد سورۂ اخلاص ہے۔ اور تیسرا قطب جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلبِ مقدس پر ہے اُس کا وظیفہ سورۂ نصر ہے۔ اور قطبِ چہارم جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہے اُس کا وظیفہ سورۂ فتح ہے۔ پانچواں قطب جو کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے قلب پر ہے اُس کا وظیفہ سورۂ زلزال ہے۔ اور چھٹا قطب جو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قلب پر ہے اُس کا وظیفہ سورۂ واقعہ ہے۔ اور ساتواں قطب جو کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے قلب پر ہے اُس کا وظیفہ سورۂ بقرہ ہے۔ اور آٹھواں قطب جو کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے قلب پر ہے اُس کا ورد سورۂ کہف ہے۔ اور نواں قطب جو کہ حضرت لوط علیہ السلام کے قلب پر ہے اور اُس کا وظیفہ سورۂ نحل ہے۔ دسواں قطب جو کہ حضرت ہود علیہ السلام کے قلب مبارک ہے اور اس کا وظیفہ سورۂ انعام ہے۔ گیارہواں قطب جو کہ حضرت صالح علیہ السلام کے قلب پر ہے اس کا ورد سورۂ طٰہٰ ہے۔ بارھواں قطب جو کہ حضرت شیث علیہ السلام کے قلب پر ہے اس کا وظیفہ سورۂ ملک ہے۔ اور اے میرے پیارے! یہ بھی سن لیجئے کہ اقطاب کے مراتب کیا ہیں؟ تو اُن کے مرتبے یہ ہیں: اگر وہ چاہیں تو ایک ولی کو ولایت کے مرتبہ سے معزول کر کے دوسرا کوئی مقرر کریں۔ اور قطبِ مدار یعنی قطبِ عالم کا مرتبہ اتنا عظیم ہوتا ہے کہ اقطاب کو رتبۂ قطبیت سے معزول کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اور قطبِ مدار کے کہنے پر اللہ تعالیٰ فرشتے کو معزول کرتا ہے۔ اور اُس کے کہنے پر اللہ تعالیٰ لوح محفوظ کے لکھے ہوئے کو مٹاتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور عرش و کرسی کے انتقالات بھی کرتا ہے اور قطبِ مدار کے یہ تمام تصرفات ہوتے ہیں۔ اور جب قطبِ مدار ترقی کرتا ہے تو مقامِ فردانیت کو جا پہنچتا ہے اور تصرفات سے محو ہو جاتا ہے۔ یعنی مقامِ فردانیت، مقامِ انبساط اور موانست ہوتا ہے۔ اور افراد کی کوئی خواہش نہیں ہوتی، اور ان کی مراد اللہ تعالیٰ کی مراد اور مرضی ہوتی ہے۔ حضرت قطب عالم شیخ نصیر الدین محمود قدس اللہ العزیز سرّہ اٹھائیس سال تین ماہ اور بارہ دن تک قطبِ مدار تھے۔ یہ رتبہ اُن کو تحمّل (برداشت) کرنے کی شرط پر عنایت کیا گیا تھا۔ انہوں نے تحمل کیا تو اٹھائیس سال تین ماہ اور بارہ دن کے بعد اُن کو مقامِ فردانیت مرحمت فرمایا گیا۔ اور مقامِ فردانیت سے مقامِ بقا کو رحلت فرما گئے۔ اور قطب عالمی کے دوران اقطاب کے درمیان ان کا اسم مبارک عبد اللہ تھا۔ اور جب مقام فردانیت میں رسائی ہوئی تو اُن کے دائیں ہاتھ پر شیخ نجم الدین دمشقی تھے اُن کا نام عبد الملک تھا، وہ قطب مدار ہو گئے۔

اب میرے پیارے! یہ بات سن لیجئے کہ قطبِ مدار کی عمر کتنی ہوتی ہے۔ بعض کی عمر تینتیس سال اور چار ماہ ہوتی ہے اور بعض کی تینتیس سال تین ماہ اور بیس دن ہوتی ہیں۔ اور بعض کی بتیس سال گیارہ ماہ اور بیس دن ہوتی ہیں۔ اور بعض کی اُنیس سال اور باون دن ہوتی ہیں۔ پس اے میرے پیارے! تینتیس سال اور چار ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی، اور انیس سال اور باون دن سے کم نہیں ہوتی۔ اور اگر ان عمروں کے اندر ان کا وقت مقررہ آن پہنچتا ہے تو رحلت فرماتے ہیں۔ اور جو کوئی سلوک میں ان عمروں کے اندر ترقی کر جائے تو مقام افراد میں پہنچتا ہے۔ افراد کی عمر پچپن سال ہوتی ہے، نہ کم ہوتی ہے اور نہ زیادہ۔ اور اگر اس عمر میں سلوک کے اندر ترقی کرے گا، تو قطب حقیقی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اور قطب حقیقی کی عمر تینتیس سال اور بارہ دن ہوتی ہے اور یہ مقامِ معشوقیت یعنی وحدت ہوتا ہے۔ اور اس مقام کا مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو کچھ معشوق کہتا ہے اللہ جل جلالہ وہی کرتا ہے۔ پس اے میرے پیارے! بعض کو مقامِ ولایت سے مقامِ فردانیت تک پہنچایا جاتا ہے۔ اور یہ مقام مشائخ کا مقامِ اوّل ہے۔ ورنہ عام طور پر مشائخ وہ ہوتے ہیں کہ ولایت سے قطبیت اور پھر وہاں سے مقام فردانیت کو پہنچائے جاتے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! وہ افراد جو کہ قطبِ مدار یعنی قطبِ عالم سے افضل اور بہتر ہیں ہمیشہ اور دائمی طور پر تجلئ ذات میں محو ہوتے ہیں، لیکن مخلوق اور اہل ظاہر ان کو عالم محو میں سمجھتے ہیں، لیکن وہ محو عظیم ہوتا ہے۔ اور افراد کے قالب (جسم) بشریت کے لباس میں مشابہت اور تمثیل کے طور پر اہل ظاہر کو نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ نورِ ذات میں محو اور فنا ہوتے ہیں۔ نہ تو وہاں مکان ہوتا ہے اور نہ زمان (یعنی اہل مکان و زمان) یعنی اہلِ تجلئ صفات افعال اور آثار کی تجلیات کے لیے کوئی افراد کی تجلی نہیں ہوتی۔ بلکہ اُن کے لیے مشاہدہ بھی نہیں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ پس جو کوئی اس مقام کو رسائی حاصل کرے وہ خود سمجھ جائے گا۔ یہ عام لوگ اور اہل ظواہر شیخی اور درویشی کو اس بات میں سمجھتے ہیں کہ چند رکعت نماز پڑھ لی جائے، یا چند روز تک خلوت میں بیٹھا رہے یا چند دن بھوکا پیاسا رہے۔ خدا کی قسم ان تمام توہمات اور خیالات سے حقیقت دور ہے۔ اور جناب حضرت شیخ رحمکار صاحب قطب حقیقی تھے۔ اور آپ تجلئ ذات سے متجلّی اور منور تھے۔ پس اے میرے پیارے! صاحبِ فصوص الحِکم تحریر فرماتے ہیں کہ منصور حلاج کو تجلئ ذات حاصل تھی اور فردانیت کے مقام کو پہچانتا تھا۔ لیکن محمد حسین بن نصیر الدین جو کہ بحر المعانی کے مصنف ہیں فرماتے ہیں کہ اگر منصور حلاج کو تجلی ذات حاصل ہوتی تو وہ "أَنَا الْحَقُّ" کبھی نہ کہتے۔ اور ذکر سبحانی نہ الاپتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجلئ ذات میں محویت ہوتی ہے، اور جو محو ہو جائے تو اس کو کیا خبر ہوتی ہے کہ وہ کون ہے اور کیا چیز ہے؟ پس "أَنَا وَ إِنَّا" (میں اور ہم وغیرہ) سے مراد اپنی حقیقت کو سمجھنا اور بیان کرنا ہے۔ پس وہ مقام محویت میں کب اور کیسے ہوتا ہے کہ جب کہتا ہے کہ میں اور ہم۔ یعنی میں ایسا ہوں اور ہم ایسے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! تجلئ ذات میں کلام کرنا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ سرور عالم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ کَلَّ لِسَانُہ" یعنی جو شخص اپنے رب کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، تو اس کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ اور اس ''عَرَفَ'' سے مراد تجلئ ذات ہے، لیکن تجلئ صفات اور تجلئ اسماء و آثار میں کلام کرنا جائز ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے "مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ طَالَ لِسَانُہٗ" یعنی جو اپنے رب کی معرفت کی سعادت سے مشرف ہو جاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے تجلئ صفات وغیرہ مراد ہیں۔ اس بات میں خوب غور و فکر سے کام لو کہ جب تجلئ ذات کے درمیان کلام ہو تو تجلئ ذات میں "سُبْحَانِيْ" اور "أَنَا الْحَقُّ" کہنا مناسب نہیں اور ہرگز جائز نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ کلام وغیرہ تجلئ صفات کے دوران ہوگا۔ اور محمد حسین بن نصیر الدین فرماتے ہیں کہ جب میں اس مقام میں تھا تو اس فقیر کے ساتھ اتنی باتیں ہوئیں اور یہ فقیر بھی جواب دیتا تھا کہ اُس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اگر تجلئ صفات وغیرہ میں کلام نہ ہو تو ہلاکت کا خوف ہوتا ہے۔ اور اسی محمد حسین صاحب نے یہ مثنوی کہی ہے جو کہ تجلئ صفات کے مقام سے کہی گئی ہے۔ مثنوی:

؂ بحر جان چوں زدہ صد گونہ جوش

چوں توانم بود بیک ساعت خموش

جوں کہ غرق آتشم غیبم مکن

مے بسوزیم گر نمی گویم سخن پس مے از گوش

’’روح اور جان کا سمندر جب طغیانی اور جوش میں آتا ہے تو ایک گھڑی بھر کے لیے میں کیسے چپ رہ سکتا ہوں؟ چونکہ آگ میں ڈوبا ہوا ہوں تو اگر میں بات نہ کروں تو میں جل جاتا ہوں۔ یہ بات کان کھول کر سنو‘‘

پس اے میرے پیارے! "أَنَا الْحَقُّ" اور "سُبْحَانِيْ" کی شرح یہ ہے اے میرے پیارے اور محبوب! جب سالک تجلئ صفات میں مستغرق ہوتا ہے تو صفات کے جمال کی وجہ سے اپنے آپ کو بھی انہیں صفات میں (موصوف) دیکھتا ہے۔ یعنی ذات جاذب الوجود، واجب الوجود کی صفات میں اُن صفات کے جمال کے نور میں مستغرق ہو جاتا ہے۔ اور واجب الوجود (اللہ تعالیٰ) کی صفات جذبیت میں آتی ہیں۔ جاذب الوجود (سالک) کا وجود مجذوب ہو کر کلام کرنے لگ جاتا ہے۔ "سُبْحَانِيْ" اور "أَنَا الْحَقُّ" مجذوب نہیں کہتا ہے بلکہ وہی صفاتِ واجب الوجود (اللہ تعالیٰ) جاذب الوجود (سالک) کی زبان سے فرماتا ہے جیسا کہ سید الکونین رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ "إِنَّ اللهَ تَعَالَى جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰى لِسَانِ عُمَرَ "

ترجمہ: تحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں حق رکھ دیا ہے۔

محمد حسین نے کہا ہے کہ اے میرے محبوب! جو شرح کہ اس فقیر نے نقل کی ہے۔ تو یہ شرح اُن لوگوں سے پوچھی جائے جو "أَنَا الْحَقُّ" اور "سُبْحَانِيْ" کہہ چکے ہیں تو وہ خود بھی اس کی شرح نہیں کر سکتے۔ اور اس کو واضح طور پر بیان نہیں کر سکتے۔ خدائے برتر و توانا کی قسم کہ اس کی شرح و بیان کرنے سے وہ عاجز ہوتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ میں سے کسی نے بھی اس کی شرح بیان نہیں کی ہے۔ پس اہل ظاہر یہ کلام مجذوب کی جانب سے تصور کر کے اُس کو ضرر پہنچاتے ہیں۔ پس تم حتمی طور پر یہ بات سمجھ رکھو کہ تجلیاتِ ذات میں کوئی کلام نہیں، کلام صرف تجلی صفات میں ہے، اور محمد حسین بن نصیر الدین مصنف بحر المعانی نے اپنا حال ایک مرید کو ظاہر کیا، اور فرمایا کہ افراد کے گروہ میں بھی اونچے درجوں والے ہوتے ہیں۔ یہ فقیر مقامِ لاہوت یعنی مقام فردانیت میں جا پہنچا اور فردانیت کے تیسرے مقام میں فروکش ہوا اور وہ یہ ہے کہ "قَالَ الْفَقِیْرُ إِذَا أَرَادَ اللہُ أَنْ یُوَالِيَ عَبْدًا مِّنْ عِبَادِہٖ فَتَحَ عَلَیْہِ أَبْوَابَ الْقُرْبِ ثُمَّ أَجْلَسَ عَلٰی کُرْسِیِّ التَّوْحِیْدِ ثُمَّ یَرْفَعُ عَنْہُ الْحُجَبَ الْعَظِیْمَۃَ فَیُقَوِّیْہِ لِلْمُشَاھَدَۃِ ثُمَّ أَدْخَلَہٗ دَارَ الْفَرْدَانِیَّۃِ وَ کَشَفَ عَنْہُ الْجَمَالَ فَإِذَا وَقَعَ بَصَرُہٗ عَلَی الْجَمَالِ بَقِيَ ''ھُوْ'' فَحِیْنَئِذٍ صَارَ الْعَبْدُ فَانِیًا وَّ بِالْحقِّ بَاقِیًا"

ترجمہ: فقیر کہتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اپنے بندوں میں سے کسی کو دوست بنائے تو اس پر قرب کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر اس کو توحید کی کرسی پر بٹھاتا ہے پھر اس کے سامنے سے بڑے بڑے پردے اٹھا دیتا ہے اور اس کو مشاہدہ کی قوت بخشتا ہے۔ پھر اس کو فردانیت کے مقام میں داخل کرتا ہے اور اس کو اپنا جمال دکھا دیتا ہے۔ جب اس کی نظر جمال پر پڑ جاتی ہے تو ھُو باقی رہ جاتا ہے اور بندہ فانی ہو جاتا ہے۔ اور حق باقی رہ جاتا ہے۔

اے میرے پیارے! ہُو کے دائرے سے تم عزت کے مقام تک پہنچو گے اور ہُو کے سوا تم سے کچھ ظاہر نہ ہو گا۔ اور دنیا کے حالات اور اشیاء میں سے عرش سے لے کر پاتال تک تم کو کچھ خبر نہ ہو گی۔ بعض لوگوں کو یہ مقام احمد کے نور سے اور بعض کو احد کے نور سے حاصل ہوتا ہے۔