حصہ 2 باب 1: اوصاف حمیدہ کی پہلی قسم، شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاف حمیدہ

حصّہ اوّل

باب اوّل

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عِتْرَتِہٖ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ

رسول کریم پر درود اور خدا کی حمد کے بعد عبد الحلیم جو کہ خداوند تعالیٰ کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہے، عرض کرتا ہے کہ میں گنہگار اور تر دامن ہوں، مگر اس کے باوجود خداوند رحیم و کریم کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میرے گناہوں کو عفو فرمائے گا اور میری عبادت و اطاعت کو میری شرمندگی اور عذاب کا سبب نہیں بنائے گا۔ بلکہ مجھے بہشت بریں میں داخل فرمائے گا۔ اور حشر و نشر کے دن مجھے شرمندہ نہیں کرے گا، اور میرے ساتھ سخت حساب نہیں فرمائے گا، اور دوزخ کے عذاب سے مجھے پناہ دے گا۔ اور مجھے عارفوں اور محبت کرنے والوں کی محبت نصیب فرمائے گا۔ "وَارْزُقْنِيْ شَفَاعَۃَ النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ یَا مَوْلَانَا یَا مَوْلَانَا یَا سَامِعَ دُعَانَا فِيْ یَوْمِ الْحَشْرِ وَالنَّشْرِ وَ اغْفِرْ لِيْ وَ لِأَبَوَیْنَا وَ أَدْخِلْنِيَ الْجَنَّۃَ وَ أَجِرْنِيْ مِنَ النَّارِ بِحُرْمَتِہٖ وَلَا تَقْطَعْ رَجَاءَنَا"

ترجمہ: ”اے ہمارے مولا! اے ہمارے مولا! اے ہماری دعاؤں کے سننے والے! حشر نشر کے دن نبی کریم کی شفاعت مجھے نصیب فرما، میری اور میرے والدین کی مغفرت فرما، مجھے جنت میں داخل فرما اور رسولِ کریم کی حرمت کے طفیل مجھے دوزخ سے دور فرما اور ہماری اُمیدیں قطع نہ فرما“

چونکہ میرے دل و دماغ میں حضرت صاحب (شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ) کی مدح اور تعریفیں کثرت سے آتی تھیں اور میری یہ سخت خواہش تھی کہ اپنے شیخ محترم کے مناقِب جمع کروں، اسی لیے چند ایک صحیح مناقب جو کہ میرے ہاتھ لگے تھے، میں نے حوالۂ قرطاس و قلم کیے، اور اُن کو ضبط تحریر میں لایا۔ اگرچہ میں خود کو ان کی مدح اور تعریف کے قابل نہیں سمجھتا، لیکن میں نے اپنے فائدے کے لیے بہت محنت کر کے یہ مناقب جمع کیے تاکہ دنیا اور آخرت میں میرے لیے باعثِ نفع و جزا ہوں۔

پہلا باب: حضرت صاحب کے اسماء کے بیان میں اور خود حضرت صاحب کا طریقہ اور جناب حضرت صاحب کا مریدوں کی تربیت کا با برکت طریقہ

جناب حضرت صاحب کے وہ نام جو کہ لوگوں میں بہت مشہور تھے، یہ ہیں:

شیخ رحمکار، شیخ رامکار، کستری، کستر (بسکون را) اور بہت سے لوگ اُن کو کاکا کہتے تھے، اور مغلیہ خاندان کے بعض لوگ اس کو رحمان کار کہتے تھے واللہ أعلم۔

مناقب:

اوصاف حمیدہ کی پہلی قسم، شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاف حمیدہ: وہ بہت دیندار تھے، صاحبِ قرب تھے، اور بساطِ قرب پر متمکن تھے۔ اُن میں کبر و غرور کا شائبہ تک نہ تھا، قلبِ سلیم کے مالک تھے اور اس قلب سلیم میں کسی قسم کے غیر اللہ کی کدورت نہیں رکھتے تھے۔ غیرِ حق سے نگاہ آشنا نہ تھے، معرفت کی محبت اپنے سینے میں کمال درجے کی رکھتے تھے، غیر حق پر نظر نہیں رکھتے تھے۔ ظاہر میں کتاب خواں اور باطن میں تقویٰ سے آراستہ عقبیٰ کو مد نظر رکھتے۔ راہ عشق کے سر گرم راہرو اور شہسوارِ عشق و محبّت تھے۔ وہ صاحبِ جذب و کشش تھے، مراتبِ عالیہ کے مالک، اپنی ہستی کی نفی کرتے تھے، اور رات کے وقت غیر حق کو چھوڑ کر سیر مع اللہ میں مشغول ہوتے تھے۔ درمیان سے غیریت بر طرف تھی۔ محقق اور سراپا محبت تھے۔ شریعت میں کمال کا درجہ حاصل تھا، طریقت و حقیقت میں گم تھے، سراپا شوق تھے، اور شوق و اشتیاق میں ہر وقت رو بہ ترقی تھے۔

آپ کا دل توکّل سے مملوء (بھرا ہوا) تھا، دل میں مجذوبوں کی طرح سوز اور جذبہ رکھتے تھے، تقرّب کے میدان میں گویا سبقت لے چکے تھے۔ اپنے زمانے میں با ادب مقتدا اور پیشوا تھے۔ خود بھی کامل تھے، اور دوسروں کو بھی کامل بنانے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ محبت الٰہی کی شراب سے سرشار تھے۔ علم لدنّی کے عالِم اور راہ حقیقت کے شناسا تھے۔ خدا کی مخلوق اور اُن کی ملاقات سے دانۂ اسپند کی طرح سوزش میں آتے۔ کشف القلوب کے حامل تھے۔ اپنے نفس کے عارف تھے۔ اور موت سے قبل آشنائے موت ہو گئے تھے۔ فقط اپنے مطلوب پر نظر جمائے رکھتے تھے، اُن میں انانیت بالکل نہ تھی۔ اُن کی بقا حق پر تھی یعنی باقی باللہ تھے۔ حقیقی ایمان رکھتے تھے اور بغیر کسی پردے اور حجاب کے حق الیقین رکھتے تھے، اور حق الیقین رکھنے کی وجہ سے سوال و جواب کے محتاج نہ تھے۔ اور کسی قسم کی لاف زنی نہیں کرتے تھے۔ وہ صاحب عقل و خرد تھے، اور مقام خیرت میں مقیم تھے۔ کمال (حق ادائیگی) کے ساتھ بکثرت اعمال کرتے تھے۔ اخلاق و کردار، نیک اقوال و گفتار علم سے پُر رکھتے تھے۔ وہ شریعت کا بحرِ بے کراں تھے اور شریعت کے مطابق اخلاق رکھتے تھے۔ قول کے سچے اور جھوٹ و فریب کے راستے سے کوسوں دور تھے۔ طریقت کے سمندر تھے، مگر اُن میں فخر و غرور کا شائبہ تک نہ تھا۔ زہد و ریاضت میں یکتائے روزگار تھے، حقیقت کے سمندر تھے، اور سر کی آنکھوں سے اُسے دیکھتے تھے۔ سیر میں تازہ دم رہتے تھے، کوئی دوسرا شخص درمیان میں حائل نہ تھا۔ معرفت کے سمندر تھے، غیر اللہ کا خوف ان کے دل میں نہ تھا اور دوست کے مشاہدے اور ملاقات میں تمام کرب و بلا سے بے نیاز تھے۔ اپنے زمانے میں دین کو زندہ کرنے والے بایزید رحمۃ اللہ علیہ، بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح نہایت سخی اور صاحبِ جود تھے اور جود و سخا کے ایک اتھا سمندر تھے۔

صاحبِ دل تھے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے خُلق عظیم رکھتے تھے، عالم غیب یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُنہیں نیک کاموں کا الہام ہوتا تھا۔ تین سال میں تیس ہزار غلاموں کو آزاد کیا جس کا انہیں الہام ہوا تھا۔ فربہ اور اچھی قسم کی بے شمار گائیں اور ہزاروں دنبے خیرات کیے، محتاجوں کو بے شمار نقد رقم دی، بہت سارے گھوڑے ذبح کیے، بے نوا، بے سہارا، نادار فقیروں کو بہت سا لباس دیا۔ ہر کام خدا کے لیے کرتے تھے، اچھے طریقے سے پکایا ہوا طعام عام و خاص لوگوں کو کھلاتے تھے، جو کوئی کھانا چاہتا تھا بلا تکلف سیر ہو کر کھاتا تھا، گھی پانی کی طرح بے حساب فراواں طور پر خرچ ہوتا تھا، نہایت متحمل مزاج اور بردبار تھے، ہر وقت باوضو رہتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ بغیر کچھ کھائے پیے ہمیشہ روزہ سے ہوتے تھے، اویسی طریقے سے نوازے گئے تھے اور یہی نوازش بلا واسطہ رسول اللہ کی جانب سے عنایت ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے آپ سورج سے بھی زیادہ مشہور تھے۔ صاحبِ نظر تھے، اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو ترک فرما چکے تھے، اُن کی مجلس میں تاثیر تھی، کبھی کسی شخص کو رمز کی طور پر اشارت فرماتے تو وہ شخص وجد میں آجاتا تھا۔ اسرار کے رموز ان پر منکشف ہو گئے تھے، وضو کی فضیلت اور اس کے تمام اسرار ان پر کھل گئے تھے اور اسی لیے آپ نماز میں بے حد لطف و لذت محسوس کرتے تھے۔ آپ دن رات عبادتِ الٰہی میں منہمک اور مصروف رہا کرتے تھے، اور عبادت گزاری میں روز افزوں ترقی فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحبِ منصب آدمی کو حکم دیا کہ لکڑیوں کا ایک گھٹا بازار لے جائے، وہ شخص تعمیل حکم کرتے ہوئے لکڑیاں بازار لے گیا، تمام لکڑیاں ویسی کی ویسی رہ گئیں اور وہ شخص منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ ہمیشہ نیت میں خلوص اور صداقت رکھتے تھے، خدا کے بغیر ان کی کوئی مراد نہ تھی۔ الغرض اُن کی وفات کے بعد اب تک مخلوق خدا کو اُن کا فیض پہنچتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اُن کی محبت و اخلاص کی وجہ سے، یا مجلس میں حاضری کی وجہ سے، یا خدمت کرنے کی وجہ سے، یا خالص نیت اور عقیدت رکھنے کی وجہ سے فیض سے مشرف فرمایا، یہاں تک کہ غائب لوگوں کو خواب میں فیض پہنچایا۔ اُن کے اوصاف حمیدہ کہاں تک لکھوں اور اُن تک میری رسائی کہاں ہے۔ عطیہ الٰہی کے طور پر درجۂ ولایت پر فائز تھے، جس طرح اویس رحمۃ اللہ علیہ کو عرب میں فیض ربانی حاصل ہوا تھا اس طرح آپ بھی طریقہ اویسی سے فیضیاب اور مشرف ہوئے تھے۔

مناقب ہٰذا کا یہ ضعیف اور کمزور جامع (شیخ عبد الحلیم صاحب فرزند کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ) عرض کرتا ہے کہ ایک دن میں نے اپنے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ اے حضرت شیخ! آپ کے پیر و مرشد محترم کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب فرمایا کہ خدا مجھے آپ کا درد نہ دکھائے، (یہ خاص الفاظ حضرت صاحب کے معمول تھے جو کہ مہربانی اور تلطّف کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے تھے) شیخی کو میں نے شیخوں یعنی مشائخ کے لیے چھوڑ دیا، پیری کو پیروں کے واگزار کر دیا، سلوک سالکوں کو بخش دیا، تصوف صوفیوں کے لیے چھوڑ دیا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں اور میری حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کی زنجیر میرے گلے میں ڈال دی ہے، چاہتا ہوں کہ یہ زنجیر میری گردن میں پڑی رہے اور میری گردن سے جدا نہ ہو۔ بیت:

؎ رشتہ در گردنم افگندہ دوست

مے برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست

’’میری گردن میں دوست نے رسی ڈال رکھی ہے اور جس طرف کہ اس کی مرضی ہو مجھے کھینچے لیے جا رہا ہے‘‘

پس یہ عبودیت کا مقام ہے اور عبودیت کے بہت سے اور بکثرت درجات ہیں۔ بیت:

؎ با دو قبلہ در رہ توحید نتواں رفت راست

یا رضائے دوست باید یا ہوائے خویشتن

’’توحید کے راستے پر دو قبلوں کی طرف رخ کر کے نہیں چلا جاتا، یا دوست کی مرضی پر چلنا ہوتا ہے اور یا اپنی خواہش پر‘‘ بیت:

؎ گر مرا دوزخ بسوزد خاکسارے گو مباش

و گر مرا جنت نباشد بوستانے گو مباش

من سگ اصحاب کہفم بر در مرداں مقیم

گرد ہر در نے مگردم استخوانے گو مباش

’’اگر مجھے دوزخ جلائے تو بھی مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اور اگر میرے لیے جنت نہ ہو تو ایک باغ کی بھی مجھے حاجت نہیں۔ میں اصحاب کہف کا کتا ہوں اور اُن جواں مردوں کے دروازے پر قیام پذیر ہوں۔ میں ہر دروازے پر نہیں جاتا کیونکہ مجھے ہڈی کی کوئی ضرورت اور خواہش نہیں‘‘

اور یہ مقام حجتِ ذاتی ہے، "اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا" ’’اے خدا یہ ہمیں نصیب فرما‘‘ اور عبودیت مقامِ رضا ہے۔ اگر تم پر کوئی افتاد پڑے تو قضائے الٰہی پر عمل کرو، قضائے الٰہی پر رضا مندی اختیار کرنا، اور اس پر چون و چرا نہ کرنا مقامِ رضا و عبودیت ہے۔ جب عبدیت کا شرف و سعادت نصیب ہو جائے تو لازمی طور پر کرامت کا تاج اور امامت کی خلعت حاصل ہوتی ہے: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ أَسْرٰى بِعَبْدِه...﴾ (بنی اسرائیل: 1) یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے رات کے وقت اپنے عبد کو سیر کرائی۔ اسی کی جانب (عبد) اشارہ ہے اور ﴿یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ أَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ (الزخرف: 68) اسی (عبدیت) کا نتیجہ ہے، رباعی:

؎ درگہ خلق ہمہ زرق است و فسوس و ہوس

کار درگاہ خداوند جہاں دارد و بس

بندہ خاص ملک باش کہ با داغ ملک

روزہا ایمن از شخنہ و شب ہا زعس

”مخلوق کی درگاہ تمام دھوکہ فریب اور ہوس کاری ہے، خدائے جہاں کے دربار کا کام کرنا ہے اور بس. بادشاہ کا خاص بندہ اور غلام ہو جاؤ، کیونکہ بادشاہ کی غلامی کی نشانی کی وجہ سے دن کے وقت داروغہ سے اور رات کو کوتوال کی داروگیر سے محفوظ اور امن میں رہو گے“ بیت:

؎ بد در مخلوق بودن عمر ضائع کردن است

خاک آن در شو کہ آب بندگانش روشن است

”مخلوق کے دروازے پر ہونا اپنی عمر ضائع کرنا ہے۔ اُس دروازے کی خاک بن جا، کہ اس کے غلاموں کی عزت روشن، عیاں اور نمایاں ہے“

پس حضرت شیخ صاحب کا طریقہ اویسی تھا اور ان کو نبی کریم کا نور مبارک تربیت دے رہا تھا، اور ان کو سارے درجات عالیہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے حاصل ہو گئے تھے، اور جو محبت و سعادت وغیرہ ان کو حاصل تھی، یہ سب کچھ اس کا فیض تھا اور یہ قسمتِ ازلی تھی، اور ان کا مریدوں اور احبابِ قسمت کے ساتھ رابطہ باطنی توجہات کے ذریعے ہوتا تھا۔ فضلِ ایزدی سے صاحب نظر تھے، بہت عرصے تک ارادت یعنی مرید بنانے کا سلسلہ خفیہ رکھتے تھے اور اس کو ظاہر نہیں فرماتے تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادے سے اس مشک کی خوشبو اور اس عطر کی لپٹیں نسیم صُبح کی طرح اللہ تعالیٰ کے لطف اور فضل و کرم کے گلزار سے ظاہر و عیاں ہو گئیں، تو بہت عرصے کے لیے جو کوئی بھی حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت اور ملاقات کو آتا تھا، ان کو کھانا وغیرہ نہیں کھلاتے، تاکہ یہ لوگ منع ہو جائیں اور کھانا وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے زیارت کو نہ آئیں، مگر زائرین اپنے ساتھ خود کھانے کا سامان لاتے اور دیہاتی لوگ کھانا پکاتے تھے۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے حکم کیا کہ جو لوگ ان کے پڑوس میں تھے اور اُن کے نزدیک قرب و جوار میں رہتے تھے، ان کو فرمایا کہ زائرین کے لیے اُن کے لائے ہوئے سامانِ خوراک سے کھانا نہ پکائیں، تاکہ لوگوں کی کثرت اور ہجوم نہ ہو مگر زائرین اس پر بھی کم نہ ہوئے، بلکہ زائرین اشیائے خوراک کے ساتھ پکانے کا سامان دیگ وغیرہ بھی لانے لگے اور اپنے ساتھ لایا ہوا سامان خود پکاتے۔ اس پر حضرت صاحب نے حکم فرمایا کہ ان کے دیگ وغیرہ توڑ دیے جائیں، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ لوگ آتے رہے اور بھوکے رہتے اور آنے سے نہ منع ہوئے اور نہ کم ہوئے، لوگ تسلسل سے متواتر آتے رہتے۔ جب اس حالت میں کچھ عرصہ گزر گیا، تو حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ میری تو خواہش تھی کہ اپنے آپ سے لوگوں کا ہجوم باز رکھوں، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو میرے پیچھے لگا رکھا ہے اب نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور اس کا کوئی مداوا نہیں۔ اس کے بعد اجازت فرمائی کہ جو کوئی چاہتا ہو ان زائرین کی خدمت کرے اور خود بھی گاہے گاہے کچھ کھانے کی چیزیں عنایت فرماتے۔ حضرت صاحب کے بعض مخلص مریدوں کی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ اُن کو کھانا کھانے کی بھی حاجت نہیں تھی، اور بعض بہت کھانا کھاتے اور کبھی بالکل نہیں کھاتے تھے، ہر حال میں کھانے اور نہ کھانے کی شکل میں اپنے نفس کی مخالفت کرتے۔ اور حضرت شیخ صاحب جب کبھی بزرگوں کی تعریف فرماتے تو اپنے والد محترم حضرت شیخ بہادر صاحب کی بہت تعریف فرماتے اور ان کی قبر کی زیارت کو اکثر تشریف لے جاتے اور مزار پر حاضری دیتے۔ میں نے ان کی زبانی تو کوئی بات نہیں سنی، لیکن جب حضرت والد صاحب بہت زیادہ ادب کرتے اور تعریف فرماتے، نیز ان کے مزار پر کثرت سے حاضری دینے کی وجہ سے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ طریقہ سہروردی میں اپنے والد صاحب کے ساتھ بھی نسبت رکھتے ہیں۔ اُن کے واضح قول و بیان سے اُن کا طریقہ اُویسی معلوم ہوتا ہے اور حضرت شیخ صاحب یہ طریقہ اویسی ہر کسی کو بیان یا ظاہر نہ فرماتے اور اس کے بارے میں کچھ نہ فرماتے۔ اس کی علت غائی یہ ہے کہ یہ اسرار میں سے ہے اور اسرار کا چھپانا بہت اچھی بات ہے۔

ایک بار حضرت صاحب اپنے والد محترم کے مزار کو بہت سے لوگوں سمیت تشریف لے جا رہے تھے، حضرت صاحب کے والد محترم حضرت شیخ بہادر صاحب قطب عالم کے مرتبے پر فائز تھے، حضرت شیخ صاحب نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ ہر شخص راستے پر چلتے ہوئے یہ دعا کرے کہ اللہ! تو ان کی سر بلندی فرما یعنی درجات بلند فرما۔ کیونکہ آپ کی سر بلندی اور بلندئ درجات ہماری سر بلندی ہے اور جب مذکورہ مزار شریف کے قریب پہنچ گئے تو تمام لوگوں کو ایک وادی میں روکے رکھا اور ایک شخص کو ایک بلند مقام پر تعینات فرمایا کہ جس کسی پر نظر پڑے کہ وہ اس طرف آ رہا ہے اس کو آنے سے منع کیا جائے اور اُن کو کہا جائے کہ یہاں سے واپس چلا جائے، تھوڑی دیر بعد اس تمام مجمع اور گروہ کو جس کو منع کیا گیا تھا، طلب فرمایا اور حضرت شیخ بہادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر تشریف لے گئے، لوگوں نے ایک ایسے شخص سے جو کہ بلندی پر تعینات کیا گیا تھا، اُن حالات اور حقیقت کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے بیان کیا کہ حضرت صاحب ننگے سر مذکورہ قبر کے پائنتی کھڑے تھے اور یہ بات حکمت سے خالی نہ تھی کہ اس سے قبل یا بعد آپ کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا گیا، بہر حال جب آپ اپنے والد محترم قطب عالم شیخ بہادر صاحب کا اسم گرامی یاد فرماتے تو نہایت ادب و احترام سے یاد فرماتے، اور ان کو "ریشتنے" (یعنی راست گو) کے نام سے یاد فرماتے۔ پس اے میرے پیارے! یہ بات جان لے کہ اولیاء اللہ تین نوع کے ہوتے ہیں: بعض کی تو ولایت ہوتی ہے، سرایت نہیں ہوتی کہ دوسروں پر اثر کر لے۔ اور بعض کی ولایت اور دوسروں پر اثراندازی کی خاصیت ہوتی ہے، لیکن اثر کا یہ نفوذ اُن کے حینِ حیات میں ہوتا ہے ان کی وفات کے بعد یہ تاثر منقطع ہو جاتا ہے اور ایسے ولی کو کامل کہتے ہیں۔ اور بعض ولایت بھی رکھتے ہیں اور سرایت و اثر اندازی کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی ان کی تاثیر جاری رہتی ہے۔ اور ان کے اثر کا یہ نفوذ غیر منقطع ہوتا ہے، ان کو مکمّل کہتے ہیں اور اُس زمانے میں یہ مرتبہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل تھا۔ اور ان کے یعنی حضرت شیخ صاحب کے دورِ حیات میں بہت سارے لوگوں نے اُن کے جام و ساغر سے شرابِ محبت نوش کی تھی۔ اور اُن کی معرفت کے درخت کا میوہ کھایا تھا۔ اس کے علاوہ تین ہزار تین سو تین غلاموں کو آزاد کر کے حضرت صاحب نے کمال جمالِ بے مثال تک پہنچایا تھا۔ اور جو لوگ کہ حضرت شیخ صاحب کے ہاتھوں فیض یاب ہو گئے تھے، ان میں سے اکثر بنگش، کُرم، ٹل اور مروت کے علاقوں میں سکونت پذیر ہیں یا وہاں دفن ہو چکے ہیں، ان میں سے بعض کی شہرت ہو چکی ہے اور ان کے مزارات معروف و مشہور ہیں، اور بعض ابھی تک مخفی اور مستور ہیں۔ اور جو فیض ان کو حاصل ہوا ہے، بعض کو تو نگاہ کی تاثیر سے حاصل ہے، بعض کو مجلس کے اثر سے اور بعض کو نیند کی حالت میں اور بعض کو کم کھانے اور فاقہ کشی کے ذریعے حاصل ہے اور بعض مخلصوں کو غیبی شکل میں کہ اگرچہ وہ دور دراز کے علاقوں مثلاً ہندوستان وغیرہ میں ہوتے تو حضرت شیخ صاحب کے باطنی توجہ سے اُن کو فیض پہنچتا اور وہ اس فیض سے مستفید ہو جاتے اور ان کو فائدہ پہنچتا، اور اُن کی وفات کے بعد بھی بہت سے لوگوں نے اُن سے فیض حاصل کیا ہے اور فیض پا رہے ہیں بعض خواب میں، بعض مزار کی حاضری کے وقت اور بعض نیند میں بھی اور حضور میں بھی فیض حاصل کرتے رہے ہیں۔ اور اس مناقب کی کتاب کا جمع کرنے والے فقیر (شیخ عبد الحلیم صاحب) کو بھی روضۂ مبارک سے فیض حاصل ہوا ہے اور اکثر اوقات مزار اقدس پر حاضری کے وقت انواع و اقسام کے فیوضات حاصل ہوئے ہیں اور جو کچھ کہ دیکھا ہے میرے دل نے دیکھا ہے اور جو کچھ سنا ہے وہ میرے کانوں نے سنا ہے اور اس کا لطف وہ جانتے ہیں۔ یہ اشارہ ان کے بیان کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ باتیں کرنا بھی خلاف ادب ہے اسی وجہ سے میں نے مختصر طور پر اپنا حال بیان کیا۔ اور اس مقولے پر کہ "خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ" یعنی ’’بہتر بات وہ ہے جو مختصر ہو، اور مدلل ہو‘‘ عمل کیا۔

اور حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جدِ محترم یعنی دادا جی شیخ مست صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو کہ طریقت کا سمندر تھے وہ مجذوب عاشقوں میں سے تھے، عشق خداوندی میں مدہوش اور متحیر رہتے تھے، اور عارفوں اور صدیقوں کے زمرے سے تھے۔ چنانچہ ایک وقت میں شر پسند فسادیوں نے اُن پر تلواروں کے پے در پے وار کیے، لیکن اُن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، اور نہ وہ ان سے ڈرے، اور نہ اُن کی حالت اور رنگ میں کچھ تغیر ظاہر ہوا، اُن کے ہاتھ سے تلوار لے کر پھر اُن کے حوالے کی اور خود اُن کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پس یہ لازمی بات ہے کہ اُس پیر کی متابعت اور پیروی کی جائے جو کہ شریعت، طریقت اور حقیقت کے راستوں سے واقف ہو اور وہ راستے اُس کے دیکھے بھالے ہوں۔ بیت:

تا خاطرت مسخّرِ طمع و ہوا بود

جانت اسیر رنج و بلا مبتلا بود

ہرگز بسوئے محبتِ بیگانہ نہ کند التفات

ہر کس کہ دریں منزل و رہ آشنا بود

بر طبع و نفس پا بنہ ار خواہی اے عزیز

تا بر سرِ تو سایۂ لطفِ خدا بود

ایمن مباش خواجہ و نومید هم مشو

کاسلام درمیانِ خوف و رجا بود

زنہار بر بقا مکن اے خواجہ اعتماد

از بہر آنکہ عاقبت او فنا بود

در پنج روزِ عمر کہ بر شارعِ فناست

آں کن کہ در طریقِ شریعت روا بود

از خوف جان من بلب رسید اے عزیز

تا بازگشتِ من بقیامت کجا بود

ترجمہ: ”(1) جب تک تمہارا دل خواہش اور لالچ کا شکار ہو، تو تمہاری روح رنج اور مصیبت میں گرفتار ہوگی۔ (2) جو شخص کہ اس منزل اور راہ سے واقف ہو وہ بیگانوں کی محبت کی جانب التفات نہیں کرتا۔ (3) اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سر پر اللہ تعالیٰ کے لطف کا سایہ ہو، تو اپنی خواہش اور نفس کو پاؤں کے نیچے مسل دے۔ (4) اے بھائی! بے پرواہ نہ رہ، اور نا امید بھی نہ ہو، کیونکہ اسلام خوف اور امید کے درمیان ہے۔ (5) اے برادر! اس بقا (زندگی) پر اعتماد نہ کر، کیونکہ اس کا انجام بالآخر فنا ہے۔ (6) اس پانچ دن کی زندگی میں جو کہ فنا کے راستے پر ہے، وہی کچھ کر جو کہ شریعت میں جائز ہو۔ (7) مارے خوف کے میری روح میرے ہونٹوں تک آ گئی ہے، کہ قیامت کے دن میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا“

الغرض اے میرے پیارے! جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو کہ عبادت کرتے ہوں گے اور وہ طاعت اُن کے حق میں معصیت سے بڑھ کر ہو گی۔ اور طالبِ مولیٰ کے بہت سے گناہ عبادت سے بڑھ کر ہوں گے۔ اور یہ بات اہل دل حضرات کے نزدیک مسلّمہ ہے کہ ایسی عبادت جو تیرے (اندر) فخر و غرور (پیدا کرنے) کا سبب ہو، وہ عبادت عین معصیت ہے۔ اور وہ معصیت جو تجھے (گناہ کے) اعتراف اور (اس سے) معذرت کی طرف لے جائے، حقیقت میں وہ معصیت تیرے لیے (پہلی قسم کی) عبادت سے زیادہ مفید ہے۔ یعنی اے میرے پیارے! جب تمہیں اخلاقِ بشری اور اوصافِ بہیمی و سباعی شیطانی کے سبب آثار و حالات اور اعمال امن میں نظر آئیں، تو ان پر خوب غور کرو، تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اکثر عبادتیں اور طاعات جو کہ عام لوگ اور زمانے کے شیوخ بطور رسم اختیار کر چکے ہیں، یہ تمام بے سعادتی کی نشانیاں ہیں، اگرچہ ان کی شکل و صورت دینی ہوتی ہے۔ پس اگر ان سب کو عدل کے میزان میں رکھا جائے، تو اس کے حق میں یہ آیت مبارک نازل ہوئی ہے: ﴿وَ بَدَا لَھُمْ مِّنَ اللہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ (الزمر: 47)

ترجمہ: ”اور ان پر خدا کی طرف سے وہ امر ظاہر ہو جائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا“

یعنی ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے قیامت کے میدان میں جو کچھ کہ ان کے خیال میں اچھا معلوم ہوتا تھا وہ خلاف توقع برا ظاہر ہو گا۔ صحابۂ کرام نے جب رسول اللہ سے اس کی تفسیر اور معنیٰ پوچھے تو جناب سید المرسلین نے ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ اپنے عمل و کردار کو طاعت اور عبادت خیال کرتے ہوں گے، جب قیامت کے دن دیکھیں گے تو جو کچھ انہوں نے طاعت تصور کیا تھا وہ تمام کا تمام معصیت اور گناہ ہوگا۔ پس اے میرے پیارے! یہ بہت مشکل کام ہے، زاہدوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ محض وہ ٹوپی پہننا جو وہ سر پر رکھتے ہیں، اور چند رکعت نماز جو کہ عادت کے طور پر پڑھتے ہیں، اور عبادت اور سلوک کی چند حکایتیں یاد کرلینا، حالانکہ یہ سب کچھ بے سعادتی اور بے فائدہ ہے کہ (اسی) کو کام سمجھ لیا جائے، ان تمام عباداتِ عادتی سے ان کو کچھ فائدہ اور نفع نہیں ہوگا۔ اے میرے پیارے! آپ کو اور اس زمانے کے شیوخ و عالموں کو ایسے پیر و مرشد کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوئے بغیر چارہ نہیں جو کہ اس راستے پر چلا ہو، اور شریعت کی منازل سے آگاہ ہو اور اسرارِ حقیقت کے جام نوش کر چکا ہو، ایسے صاحبِ دولت کے دامن سے وابستہ ہو جائیں تاکہ وہ لحظہ بلحظہ تمہیں اعمالِ نفسانی و شیطانی سے آگاہ کرے اور اعمالِ قلبی و روحانی کی طرف تمہاری رہنمائی کرے۔ کیونکہ اے میرے پیارے! بادشاہوں کی خدمت کے طریقے اور قربِ الٰہی کے پیچیدہ اسرار ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا جو اس راہ پر چل چکے ہوں۔ پس اے میرے محبوب! جسے بادشاہ سے ملنے کی طلب ہو، جب تک وہ بادشاہ کے کسی مقرب کی حمایت حاصل نہ کرلے، اپنی مراد نہیں پا سکتا۔ اسی طرح جو شخص بھی اللہ جل جلالہ کی رضا جوئی کی تلاش کرے، تو جب تک کسی راہ شناس اور منزل آگاہ شخص کا دامن نہ پکڑے اپنی منزلِ مقصود کو نہیں پہنچے گا۔ مردانِ راہِ سلوک کی چند حکایتیں مخنثوں کی شان میں بیان کر دینا کیسے درست ہوگا؟ اس راستے میں کامیابی کے لیے مردِ کامل کی ضرورت ہے، چند رکعتوں اور چند حکایتوں سے کیا حاصل ہوگا؟ پس اے میرے پیارے! جب اللہ تعالیٰ کی عنایتِ ازلی کسی مرید کے بارے میں نصیب ہو جائے، تو اللہ تعالیٰ اس مرید کو کسی ایسے پیر کی صحبت نصیب فرما دیتا ہے کہ اُس پیر کا ظاہر علومِ شریعت سے آراستہ ہوتا ہے اور اس کا باطن کمالِ معرفت اور حقیقت سے مزین ہوتا ہے اور غرور و تکبّر کی آنکھیں اس نے باہر نکال پھینکی ہوتی ہیں، حرص اور لالچ کے دامن کو قناعت کے پتھروں سے بھر دیا ہوتا ہے۔ اس پیر کا ظاہر شریعت کے سیدھے راستے پر قائم ہوتا ہے۔ اور اس کا باطن مخفی ریاضت کی بھٹی میں کندن بن چکا ہوتا ہے۔ اور اُس کا سر ہر گھڑی مرید کے دل کی کھیتی میں لطائف کا تخم کاشت کرتا ہے۔ اور ہر دن وہ تخم حقائق کے آداب کے دقائق سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس بہترین توجہ اور نصیحت کے قبول کرنے اور اللہ کریم کی عنایت سے اس مقبول مرید کے نیک اعمال اور پسندیدہ افعال، عمدہ احوال اور اعلیٰ مقامات میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور غیبی واردات کی خوشبو کے جھونکے اس مقبول مرید کے دل کے باغ میں محسوس ہوتے ہیں۔ اور اس مریدِ مقبول کا باطن صفا و طہارت کے انوار اور وفا و محبت کے اسرار سے منور ہو جاتا ہے۔ پس اے میرے پیارے! یہ تمام مذکورہ نشانیاں مقبول مرید کی ہیں، بصورتِ دیگر بے بہرہ اور بد نصیب مرید کی نشانی یہ ہے کہ کسی جاہل شیخ کے پاس جاتا ہے اور خود کو اس بڑے جاہل کے سپرد کر دیتا ہے جس کا اپنا دل تاریک ہو اور جس کی خصلت سراپا حیوانی ہو اور اُس کے بارے میں یہ کلام ربانی پوری طور پر منطبق ہو: ﴿کَلَّا إِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ (المطففین: 15) ترجمہ: ”بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہوں گے“۔

اگرچہ یہ آیتِ شریفہ کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مگر جب تم طریقت میں آ جاؤ تو لاکھوں کفر سامنے آئیں گے۔ اس کے بعد ہر روز وہ گمراہ شیخ نام نہاد تقلید کی تاریکیوں اور رسمی عبادتوں کے بندھن اُس مرید کے گرد سخت کرتا جاتا ہے اور باطل تصورات اور فاسد خرافات سے اس بے چارے پر حق کا راستہ بند کر دیتا ہے، اور گمراہی اور بدعتوں کے کانٹے اس بے چارے مرید کے راستے میں بچھاتا رہتا ہے اور ہر گھڑی کمینگی اور خیانت کے بیج اس کے دل میں کاشت کرتا ہے اور اس کا باطن حرص اور حسد کی غلاظت سے گندہ اور پلید کرتا ہے۔ اے میرے محبوب! "لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ" یعنی "شنیدہ کے بود مانند دیدہ؟"۔ اس لیے زمانے کے پیروں اور مریدوں کے حال پر نظر کرنی چاہیے کہ کیسے ابلیس کے دھوکے اور فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اس کے باوجود فقر کا نام اپنے ساتھ لگائے ہوئے ہیں، اور متقیوں اور اولیاء اللہ کا لباس پہن رکھا ہے، اور اس لباس میں مقبولانِ درگاہِ ایزدی کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں، اپنے آپ کو اہلِ یقین کی شکل و صورت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا شعار رندی اور کھیل کود، اور ان کی مجلس کے آداب بدعت اور بے نمازی، اور ان کے وجد و حال رفض اور خواہشات کی تکمیل "السِّمَاعُ حَرَامٌ لِّلْعَوَامِّ لِبَقَاءِ نُفُوْسِھِمْ" ”عوام کے لیے ان کی (خواہش) نفس کے باقی ہونے کی وجہ سے سماع حرام ہے“ ان کی مجلس جھگڑا فساد، ان کے اسرار و خلوت تفرقہ اور خباثت، ان کا فخر حرام کی کمائی اور گداگری پر ہے، ان کی شیخیاں قباحت اور بے حیائی کے امور پر اورجاہل عوام کے ایک مجمعے کی بنا پر ہیں جو عوام کالانعام ہوتے ہیں۔ اور ان مردودوں نے معذور لوگوں کے ایک گروہ کے نفسانی و شہوانی دعووں، اور اباحت اور کفرِ مذموم کا نام طریقت رکھ دیا ہے، اور دین اسلام کی حقیقت سے بالکل بے گانہ ہو گئے ہیں۔ اور ان کے مرید ان گمراہوں کے ساتھ گمراہی کے اس سفر میں بھٹک رہے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! یہ بات گرہ میں باندھ کے رکھ لے کہ جب تک دل کا آئینہ بشری اوصاف کی برائیوں سے پاک نہ ہو، ایمان اور اسلام کی روشنی اور انوار دل میں کبھی نہیں آ سکتے۔ اور جس کسی کے اعمال و کردار میں اخلاص نہ ہو، اور ہمیشہ خواہشات نفسانی کا تابع اور فرمانبردار ہو، تو وہ کبھی فلاح و نجات کی شکل بھی نہ دیکھ سکے گا۔ کیونکہ یہ اسلام کا حاصل ہے۔ اور اسلام کی حقیقت حکم ماننا ہے، اور نفس کی مخالفت کرنا بھی احکام میں سے ایک حکم ہے۔ "أَوْحَی اللہُ تَعَالٰی إِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ یَا مُوْسٰی إِنْ أَرَدْتَّ رِضَائِيْ فَخَالِفْ نَفْسَکَ إِنِّيْ لَمْ أَخْلُقْ خَلْقًا یُّنَازِعُنِيْ غَیْرَھَا" (مفاتیح الإعجاز، جلد: 1، رقم الصفحۃ: 211)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ اے موسیٰ! اگر تم کو میری رضا جوئی مطلوب ہو تو اپنے نفس کی مخالفت کر کیونکہ میں نے اس کے سوا کوئی دوسری مخلوق ایسی نہیں بنائی جو میرے ساتھ نزاع کرے“

پس نفس کا حکم ماننا تمام معصیتوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ خیبر کے جہاد سے واپس تشریف لائے تو فرمایا: "قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ" قَالُوا: وَمَا الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ؟ قَالَ: "مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ لِهَوَاهُ" (جامع العلوم و الحِکم لابن رجب، رقم الحدیث: 19) آپ نے فرمایا کہ اے میرے اصحابِ کرام! ہم نے چھوٹا جہاد تو کر لیا، اور بڑا جہاد باقی رہ گیا ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا جہادِ اکبر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:"انسان کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد" اے میرے پیارے! عارف وہ ہے جو اغیار (غیر اللہ) کی ہستی کا نقش اپنے وجود کی تختی سے مٹا لے۔ بیت:

؎ ہر کرا ایں سعادت رونمود

ابواب مواہب غیبی برو کشود

واز بیم و امید و ادبار و اقبال

واز دنیا و آخرت درآسود

” جس کسی کو یہ سعادت ہاتھ آئی تو غیب کے فیوضات و مواہب کے دروازے اُس پر کھل گئے‘۔ اور خوف و اُمید اور ترقی و تنزل اور دنیا و آخرت کی فکر و خیال سے نجات حاصل کر گیا‘‘

اے میرے پیارے! کافر تو آپ کو جان سے مارنے کا ارادہ کرتے ہیں، اور یہ مکار نفس آپ کے ایمان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ یعنی یہ ایسا دشمن ہے کہ تمام زخم اپنے دوست اور ساتھی پر لگاتا ہے، اور ایسا کافر ہے جو اپنا گھوڑا دوست اور محبت کرنے والے پر دوڑا کر اسے روندتا ہے۔ جو کوئی نفس کی دوستی میں جس قدر کوشش کرتا ہے تو ابدی ہلاکت کا زہر اُس قدر نوش کرتا ہے، جو کوئی کہ نفس کے عشوہ و ناز پر جتنا فریفتہ ہوا تو اپنے دین و ایمان کی عزت اُس قدر گنوائی۔

فائدہ: تمکین دو قسم کی ہے: ایک اصطفائی اور دوسری اکتسابی۔ اکتسابی تمکین یہ ہے کہ ایک شخص نفسانی کمالات حاصل کر کے اچھی خدمت انجام دیتا ہے اور بادشاہ اور آقا کے احکامات کو پورا کرنے میں ہر قسم کی تکلیف اور رنج برداشت کرتا ہے اور دن رات اپنے آقا کی خدمت میں حاضر رہتا ہے۔ اگر آقا کا منظور نظر ہو جائے تو اس کو وجاہت حاصل ہو جاتی ہے۔ اور یہ مقام مرشد کامل کے بغیر ہاتھ نہیں لگتا۔ ﴿یٰۤأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوْۤا إِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِيْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (المائدۃ: 35)

ترجمہ: ”ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور اس کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اُس کے راستے میں جہاد کرتے رہو (خواہ ظاہری دشمنوں سے ہو خواہ باطنی دشمنوں سے ہو) ایسا کرنے سے تم کو فائدہ اور خیر و فلاح حاصل ہوگا“

اس آیت شریف میں اسی جانب اشارہ ہے۔ اور حدیث مبارک یہ ہے: "مَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّهٗ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ یُبْصِرُ بِہٖ وَ یَدَہُ اَلَّتِيْ یَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِيْ یَمْشِيْ بِھَا وَلَئِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهٗ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهٗ" (الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب: التواضع، رقم الحدیث: 6502)

ترجمہ: ”میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہوں، پھر جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا رہے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ گرفت کرتا ہے، اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو اُس کو دے دی جاتی ہے، اگر مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو اُس کو ہمارے ہاں سے پناہ دی جاتی ہے“

اس حدیث شریف کا بھی یہی مطلب ہے۔

اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بادشاہ خود ارادہ فرمائے کہ کسی کو تربیت دے کر اعلیٰ مرتبہ تک پہنچایا جائے، تو وہ خود بذاتہٖ اس کو تربیت دیتا ہے۔ اور جب وہ کمال حاصل کرتا ہے تو اس کو اعلیٰ مرتبہ تفویض کرتا ہے۔ اس طریقہ میں پیر و مرشد کی ضرورت نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ خود ہی نورِ محمدی کے ذریعے اس کے دل کی تربیت فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ إِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ (آل عمران: 33)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور اَل ابراہیم اور اَل عمران کو تمام عالم میں سے برگزیدہ فرمایا ہے“

﴿وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ إِنَّ اللهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ (آل عمران: 42)

ترجمہ: ”فرشتوں نے جس وقت حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو برگزیدہ اور منتخب فرمایا اور تم کو پاک اور طاہر بنایا، دنیا کی تمام عورتوں سے“

﴿قَالَ یٰمُوْسٰۤى إِنِّي اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَ بِكَلَامِيْ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ (الأعراف: 144)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے تو جو میں نے تم کو عطا کر رکھا ہے، اسے پکڑ رکھو اور میرا شکر ادا کرو“

یہ پہلی قسم یعنی اصطفائی کی طرف اشارہ ہے۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام اسی قسم سے ہوتے ہیں۔ اور بعض اولیاءِ کرام بھی مثلاً بی بی مریم علیہا السلام، اویس قرنی رضی اللہ عنہ، ابو الحسن نوری وغیرہ اس قسم سے تھے۔ شیخ المشایخ ہمارے حضرت قدّس سرّہ بھی اسی قسم سے تھے۔ کسی سے انہوں نے اکتسابِ طریقت نہیں کیا تھا۔ اور اویسی طریقے کا یہی مطلب ہے کہ اس کی تربیت نورِ احدی یا نور صمدی کی جانب سے ہوتی ہے اور ظاہری مرشد نہیں رکھتا، وہ خود بھی کسی کو قادری یا چشتی وغیرہ سلسلے کی طرح وظائف نہیں سکھاتے، بلکہ کیمیا نظر ہوتے ہیں، صرف نظر سے یا باطنی توجہ سے مریدوں کو زندگی میں یا اب بھی وفات کے بعد فیض بخشتے ہیں۔ ازلی بات ہے کہ اگر ازل میں سعید اور نیک بخت ہو تو شیخ صاحب سے فیض یاب ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات بد بخت بھی نیک بخت ہو جاتے ہیں، کیونکہ مثل مشہور ہے کہ "اَلشَّیْخُ مَنْ يُّسْعِدُ الشَّقِیَّ" شیخ وہ ہوتا ہے جو کہ باطن کی نظر سے بد بخت کو نیک بخت بناتا ہے۔