مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ کے مؤلّف علیہ الرّحمۃ کی وصیت
واضح رہے کہ پہلے میں شیخ قطب الدین صاحب قطب دہلی کی ایک غزل تحریر کرتا ہوں، اس کے بعد بنی آدم کی کیفیت کو مختصر طور پر تحریر کرتا ہوں، تاکہ راہِ طریقت کے سالک کے لیے مشعلِ راہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ اگر اس تحریر پر عمل کیا جائے تو کبھی غلطی میں مبتلا نہ ہوں گے۔
غزل
افسوس زانکہ طالبِ عشقِ خدا کم است
آن را کہ دردِ عشق نباشد کے آدم ست
ہر کس بدردِ عشق دلارام خو گرفت
تا چشم وا کند دلش از وصل خرم است
آن را کہ درد نیست بدامان نمے رسد
زیرَا کہ اہلِ درد ز مقبولِ عالم است
ہر کس کہ دردِ عشق نہ ورزید در جہان
دائم بدرد و غصہ و اندوہ باہم است
آں کس کہ وارہد بہ تمام از وجودِ خویش
اندر حریمِ وصل دلارام محرم است
در بوتہ گداز برو خویش را گداز
ہر گاہ گداختی تو وصال در دم است
وارستگیست پیشۂ عشاق قطب دین
ہر کس ز خود رہید بدلدار ہمدم است
ترجمہ: (1) افسوس! کہ عشقِ الٰہی کے طالب بہت کم ہیں۔ اور جو شخص عشق کا درد نہ رکھتا ہو وہ کیسا انسان ہے(یعنی وہ انسان نہیں)۔ (2) جو شخص اپنے دل آرام (یعنی معشوق کے) دردِ عشق کا عادی ہو جاتا ہے، وہ جب آنکھ کھولتا ہے تو اُس کا دل وصالِ محبوب سے خوش و خرم ہوتا ہے۔ (3) جس شخص کے دل میں درد نہ ہو، وہ علاج تک نہیں پہنچتا۔ کیونکہ دُنیا میں اہلِ درد ہی مقبول ہوا کرتے ہیں۔ (4) جس کسی نے دُنیا میں دردِ عشق حاصل اور اختیار نہ کیا۔ تو وہ ہمیشہ درد، غصّہ اور رنج میں مبتلا رہتا ہے۔ (5) جو شخص کہ اپنے وجود سے پوری طرح نجات حاصل کرلے، (یعنی نفس کی خواہشات کو ترک کردے) تو وہ اپنے محبوب کے حریمِ وصال میں جگہ پا لیتا ہے۔ (6) جاؤ! اپنے آپ کو کٹھالی میں پگھلا دو۔ اور جس وقت تم نے اپنے آپ کو پگھلا دیا، اسی وقت وصال پا جاؤ گے۔ (7) اے قطب دین! عاشقوں کا پیشہ (اپنی نفسانی خواہشات) سے آزادی ہے۔ جس شخص نے بھی اپنے آپ (اور اپنے نفس سے) رہائی پالی وہ اپنے محبوب اور دلدار کے ساتھ واصل ہو گیا۔
جب تک میں مختصراً بنی آدم کی حقیقت بیان نہ کر دوں، عشقِ خدا کے طالب، عشق، وصال اور درد کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اور اگر اس کی تفصیل بیان کروں، تو اس کے لیے ایک الگ کتاب بلکہ کئی کتابیں درکار ہوں گی۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں متعدد روایتیں ہیں اور مشہور ہیں کہ موجودہ آسمانوں اور اُن میں جو کچھ ہے، اور موجودہ زمینوں اور ان میں جو کچھ موجود ہے، اور جو کچھ کہ زمین اور آسمانوں کے درمیان ہے، ان سب سے قبل بھی موجودہ مخلوقات کے علاوہ دوسری مخلوقات مثلاً جنات، دیو اور گھوڑے وغیرہ موجود تھے۔ مگر آسمانی کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں۔ قصّہ مختصر یہ ہے کہ ابتدا اور آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔ چنانچہ تورات میں مذکور ہے کہ آغاز میں اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ اور یہ زمین اُجاڑ، خاموش اور تاریک تھی، اور خدا کی روح پانی پر حرکت کرتی تھی (باب: پیدائش، آیات: 1۔2) اور پھر اسی طرح روشنی، خشکی، تری اور سیاہی کو بھی پیدا کیا اور سب کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ اور اسی طرح چاند، سورج اور خشکی و تری کے تمام جانور اور مخلوقاتِ ہوائی بھی پیدا کیے۔ اور اس کام کو پانچ دن میں پورا کیا۔ (باب: پیدائش، آیات: 3 تا 25) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر پیدا کریں گے تاکہ دریا کی مچھلیاں، ہوا کے پرندے اور زمین کے سب جانور اُس کے محکوم ہوں، اور وہ اُن پر حکومت کرے اور خداوند تعالیٰ نے ایسا ہی کیا۔ اور یہ کام چھٹے دن ختم ہوا، اور ساتویں دن خداوند تعالیٰ سب کاموں سے فارغ ہوا۔ (باب: پیدائش، آیات 26 تا 31) اور قرآن کریم بھی اسی طرح بیان کرتا ہے: ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ فِيْ سِتَّةِ أَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ أَیُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًاؕ وَ لَىِٕنْ قُلْتَ إِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا إِنْ هٰذَاۤ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ (ھود: 7)
ترجمہ: خدا وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، اور اُس کا عرش پانی پر تھا۔ (اور اس آفرینش کی علت غائی یہ تھی) کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے اچھا ہے(یعنی معرفت اور محبت میں) اور اگر تم ان کو کہہ دو کہ تم موت کے بعد اُٹھائے جاؤ گے تو یہ کافر لوگ ضرور کہیں گے کہ یہ (ایک کھلا ہوا) صریحاً جادو ہے۔
پس معلوم ہوا کہ ذاتِ الٰہی کے بغیر کوئی چیز بھی نہیں تھی۔ اور اُس کا عرش پانی پر حرکت کرتا تھا۔ اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکایتًا بیان فرماتے ہیں کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی "میں ایک مخفی اور پوشیدہ خزانہ تھا، اور میں نے یہ بات پسند کی کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے خلق کو پیدا کیا"۔ اور خلق سے مراد نورِ احمدی ہے۔ اور نورِ احمدی سے اصل مقصود انسان کی تخلیق تھی۔ باقی اشیاء مثلاً آسمان، زمین اور حیوانات انسان کے طفیل پیدا کیے گئے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے نور کو پیدا کر کے ہزاروں سال تک اپنے دستِ قدرت میں اُس کی پرورش کی اور اُس کو کہا کہ "أَنَا عَاشِقُکَ وَ أَنْتَ عَاشِقِيْ" "میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تو مجھ پر عاشق ہے۔ بیت:
؎ بیمار درد عشق تو درمان چہ مے کند
و آنکس کہ نیست عاشق تو جان چہ مے کند
’’تمہارے عشق اور محبت کا بیمار علاج کا کیا کرے گا؟ (یعنی اسے علاج کی ضرورت نہیں)۔ اور جو شخص تمہارا عاشق نہیں، وہ جان کا کیا کرے گا؟ (یعنی اُس کی زندگی بے فائدہ اور بے کار ہے)‘‘
؎ آغازِ عاشقی ز خدا داں نہ از عباد
بنگر بہ ما محبت آن عشق باز چیست
”محبت کرنے کے عمل کی ابتدا کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے سمجھ، دیکھو کہ ہمیں اس محبت کرنے والے (خدا) سے کتنی محبت ہے“
اور جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو آدم علیہ السلام سے بنی آدم اور بنی آدم کی پشت سے ان کی اولاد پیدا کر کے اُن سے عہد یا میثاق لیا کہ تمہارا رب ہوں، اور اُنہوں نے اس کی ربوبیت قبول کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اطلاع دیتا ہے: ﴿وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ قَالُوْا بَلٰىۚۛ شَهِدْنَاۚۛ أَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ۔ أَوْ تَقُوْلُوْۤا إِنَّمَاۤ أَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْۚ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ۔ وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلۡأٓيٰتِ وَلَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُونَ﴾ (الأعراف: 174-172)
ترجمہ: "اور وہ وقت یاد کیجئے کہ جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو برآمد کر کے ان سے شہادت لی اور اپنی ذات پر اُن کو شاہد اور گواہ بنایا کہ آیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں تم ہی ہمارے رب ہو، ہم اس بات کے گواہ ہیں، اور میں نے یہ گواہی اس لیے لے لی کہ تم قیامت کے دن ایسا نہ کہو کہ ہم اس سے غافل تھے(یعنی اس توحید کی ہمیں خبر نہ تھی) یا تم یہ کہو کہ ہمارے باپ دادا نے قبل ازیں شرک کیا تھا، اور ہم اُن کے بعد اُن کی اولاد میں سے ہیں۔ کیا پس تم ہم کو اُن بدکاروں کے عمل کی پاداش میں ہلاک کرتے ہو۔ اور اسی طرح ہم نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آئیں۔"
مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگوں نے اُس عہد اور میثاق کو فراموش کر دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر انسان کی نادانی کی شکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو کوئی اُس عہد کی خلاف ورزی کرے گا، تو اس کو خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں عذاب دیا جائے گا۔ اور وہ اس طرح سے ہے: ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُؕ إِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ لِّیُعَذِّبَ اللهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ وَ یَتُوْبَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ وَ كَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الأحزاب: 72-73)
ترجمہ: تحقیق کہ ہم نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر امانت پیش کی، پس انہوں نے اس میں خیانت نہیں کی ، اور خیانت سے ڈرگئے، اور انسان نے اس میں خیانت کی، بے شک وہ ظالم اور ناسمجھ ہے۔(کہ اس نے امانت میں خیانت کی) اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ منافق مردوں، منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے گا۔ اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ یقیناً بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
فائدہ: بحث طلب امر یہ ہے کہ امانت سے کیا چیز مراد ہے؟ اور ﴿فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْهَا﴾ کے کیا معنی ہیں؟ مفسرین نے امانت کے بہت سے معنے کیے ہیں مگر حقیقت میں اس سے مراد یہی عبادت اور اطاعت ہے۔ اور ﴿فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْهَا﴾ کے اکثر مفسرین یہی معنی بیان کرتے ہیں کہ آسمانوں وغیرہ نے اپنی عجز اور اطاعت کی طاقت نہ رکھنے کی بناء پر صاف انکار کیا کہ نہ تو ہم ثواب کی اُمید رکھتے ہیں اور نہ عذاب کے خطرہ کو برداشت کرتے ہیں، اس لیے اس اطاعت کا ذمہ نہیں اُٹھاتے۔ لیکن بعض مفسرین نے حملِ امانت کا معنی نقصِ امانت لیا ہے۔ یعنی آسمان وغیرہ نے نقصِ امانت یعنی امانت میں خیانت کے ڈر سے وعدہ نہ کیا، لیکن انسان کہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے، اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امانت میں خیانت کر گیا۔ اس لیے عذاب دیکھے گا۔ اور جتنے معانی بیان کیے جا چکے ہیں، ان سب میں یہ معنی صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ آسمان، زمین اور پہاڑوں کی کیا مجال ہے کہ اطاعت سے از روئے عجز و ناتوانی، یا کبر و غرور کی وجہ سے انکار کریں، بلکہ قرآن کریم کے متعدد مقامات سے یہ بیان ایک روشن حقیقت کی طرح واضح ہے کہ ہر ایک چیز نے اطاعت قبول کی ہے، بلکہ اطاعت کو بخوشی اور بسر و چشم منظور کیا ہے۔ اُن مقامات قرآنی میں سے بطور نمونہ ایک یہ ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْأَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ وَ إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ إِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل: 44)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی پاکی تمام سات آسمان، زمین اور جو کچھ کہ ان میں ہیں، بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو کہ اس کی تسبیح اور پاکی بیان نہیں کرتی، مگر تم اُن کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بردبار اور بخشنے والا ہے۔
دوسری مثال: ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِؕ وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُؕ وَ مَنْ یُّهِنِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍؕ إِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُؕ﴾ (حج: 18)
ترجمہ: کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، جانور اور لوگوں میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اور بہت سارے لوگوں پر اللہ کا عذاب طے ہوچکا ہے۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ ذلیل کرے اُس کو کوئی بھی عزت دینے والا نہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہے اور پسند فرمائے۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو وقتاً فوقتاً اس عہد و میثاق کی یاد دہانی کرنے کے لیے بھیجا ہے: ﴿كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَّاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ إِلَّا الَّذِیْنَ أُوْتُوْهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ فَهَدَى اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهٖ وَ اللهُ یَهْدِيْ مَنْ یَّشَآءُ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (البقرۃ: 213)
ترجمہ: لوگ ایک امتِ واحدہ (یعنی ایک ہی گروہ اور جماعت) تھی، پس اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو ارسال فرمایا جو کہ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ سچائی کے ساتھ کتاب نازل کیں تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے اُن کا اُن میں فیصلہ کر دے۔ اور اُس میں اختلاف بھی اُن لوگوں نے کیا جن کو کتاب دی گئی تھی باوجود یہ کہ اُن کے پاس کھلے ہوئے احکام آ چکے تھے۔ اور یہ اختلاف انہوں نے صرف آپس کی ضد سے کیا۔ تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے، خدا نے اپنی مہربانی سے مؤمنوں کو اُس کی راہ دکھائی۔ اور خداوند کریم جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
اُمتِ واحدہ کے بارے میں اہل تفاسیر نے اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ امتِ واحدہ سے مراد ہے کہ پہلے پہل سب دینِ اسلام پر تھے پھر بعد میں انہوں نے اختلاف کیا۔ اور اُمت واحدہ سے یہاں اُمت اسلام مراد ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اُمتِ واحدہ سے امتِ کفر مراد ہے۔ اور اس میثاق کے ایفا کے سلسلے میں جس طرح اُمت کی جانب سے امت کو اور امت کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عذاب دیا گیا وہ محتاج بیان نہیں، قرآن کریم اور تاریخ کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔ اسی طرح یہ کشمکش جاری تھی کہ لوگ چند فرقوں میں منقسم ہو گئے۔ بعض لوگوں نے تو خداوند کریم کی اُلوہیت اور خدائی کو تسلیم نہ کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کی باتوں پر کان دھرنے پر آمادہ ہوئے اور نہ اپنے میثاق کی ایفا کا خیال کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے حالات سے ان الفاظ میں خبر دیتا ہے: ﴿وَ قَالُوْا مَا هِيَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُهْلِكُنَاۤ إِلَّا الدَّهْرُ وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا یَظُنُّوْنَ﴾ (الجاثیہ: 24)
ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے کہ (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے۔ اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں صرف ظن اور تخمین سے کام لیتے ہیں۔
اور اس فرقے کو ملحد کہتے ہیں اور اس کو دہریہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض لوگوں کو خدا کا وعدہ یاد نہ رہا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کو تو مان لیا مگر جس طرح اللہ تعالیٰ کی قدر کا حق تھا اُس طرح قدر دانی نہ کی۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت اور امر وغیرہ میں شریک بنائے۔ ان کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے: ﴿وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْــئًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا﴾ (الفرقان: 3)
ترجمہ: اور لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا لیے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نفع اور نقصان کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا اُن کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑا ہونا۔
پس اس فرقے میں تمام بت پرست، آفتاب پرست اور آتش پرست شامل ہیں۔ اور بعض فرقے خدا اور پیغمبر کو تسلیم کرتے ہیں، مگر اُن کا دل منکر ہوتا ہے۔ اور ان کے حال کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس طرح اطلاع دیتا ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚوَ مَا یَخْدَعُوْنَ إِلَّاۤ أَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ﴾ (البقرۃ: 8-9)
ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اپنے پندار میں خدا کو اور مؤمنوں کو چکمہ دیتے ہیں۔ مگر درحقیقت اپنے سوا کسی کو چکمہ نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں۔(اور اس فرقے کو منافق کہتے ہیں)
اور بعض فرقے اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، مگر یا تو رسول اللہ ﷺ کے قول میں زیادتی کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق عمل نہیں کرتے، یا اُن کے قول میں کمی کرتے ہیں۔ اور یا تو بعض رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں رکھتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا﴾ (النساء: 115)
ترجمہ: اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے، اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے، ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے۔ اور قیامت کے دن ہم اُسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔(اس فرقے کو ضال مضل اور مبتدع کہتے ہیں)
بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر پر ایمان تو رکھتے ہیں، مگر اتنا علم ان کو حاصل نہیں ہوتا کہ اس علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں۔ وہ صرف تقلیدی ایمان رکھتے ہیں کہ جو کچھ انبیائے کرام اور علما صاحبان نے فرمایا ہے بغیر کسی فکر اور سوچ بچار کے اس کو قبول کیا، اس فرقے کو عامی کہتے ہیں، اور ان کو جاہل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو اس عبارت اور الفاظ سے یاد فرماتا ہے: ﴿وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ أَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ أُولٰٓىٕكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّؕ أُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾ (الأعراف: 179)
ترجمہ: اور ہم نے بہت سے انسان اور جِن دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ اُن کے دل ہیں، لیکن اُن سے سمجھتے نہیں۔ اور اُن کی آنکھیں ہیں، مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
خدا کے نزدیک اس فرقے کی بھی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ پسند فرمائے تو ان کے لیے یہ تقلیدی ایمان بھی کفایت کرے گا۔ اور اگر ان کو قربِ الٰہی نصیب نہ ہو، تو عذاب سے بچ تو جائیں گے۔
بعض لوگ علم دین تو حاصل کرتے ہیں، لیکن شہواتِ نفسانی اور دنیوی لذتیں اُن کو اس پر عمل کرنے نہیں دیتیں اور حرام کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور حرام و حلال اور مباح کے درمیان کچھ فرق و تمیز نہیں کرتے، اس فرقے کا بیان اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِيْ أَوْحَیْنَاۤ إِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِؕ إِنَّ اللهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ﴾ (فاطر: 31)
ترجمہ: اور یہ کتاب جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے، برحق ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے کی ہیں۔ بے شک خدا اپنے بندوں سے خبردار اور اُن کو دیکھنے والا ہے۔ ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِإِذْنِ اللهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ﴾ (فاطر: 32)
ترجمہ: پھر ہم نے اُن لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا، تو کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، اور کچھ میانہ رو ہے، اور کچھ خدا کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ یہی بڑا فضل ہے۔
بنا بریں بے عمل عالم اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔
اور بعض لوگوں نے علم تو حاصل کیا ہے، مگر شریعت کے احکام سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ جو کچھ کہ شریعت نے حرام کیا ہے اس کو حرام جانا ہے اور جو کچھ کہ شریعت نے حلال گردانا ہے اُس کو حلال سمجھا ہے، اور جس چیز کا شریعت نے حکم فرمایا ہے اس پر عمل کیا ہے، اور جس چیز سے شریعت نے منع کیا ہے اس سے منع ہوئے ہیں، مگر طریقت اور حقیقت کو نہیں پہنچے۔ اس فرقے کو متقی مقتصد اور اصحاب یمین کہتے ہیں۔ اور ان کے حالات اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللهِ وَ أَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ أَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ لِیُوَفِّیَهُمْ أُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ إِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ﴾ (فاطر: 29)
ترجمہ: جو لوگ کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ کہ ہم نے اُن کو دیا ہے اس سے علانیہ اور پوشیدہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور ایسی تجارت کی امید کرتے ہیں جس میں خسارہ کا خوف نہ ہو (یعنی آخرت کے ثواب کی امید رکھتے ہیں) تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کا بدلہ عطا فرمائے اور اپنے فضل سے زیادہ بخشے۔ پس اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور شکور ہے۔
یعنی جیسا کہ ان کی امید اور اعتماد ہے، اسی طرح آخرت کا بدلہ دیا جائے گا۔
اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ علم حاصل کر چکے ہیں اور شریعت اور طریقت کے منازل طے کرتے ہوئے حقیقت تک پہنچ چکے ہیں اور بالکل نیست ہو گئے ہیں۔ اور جو کچھ کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اُسی پر وہ راضی ہیں، بلکہ اپنے نفس کو فنا کر کے باقی باللہ ہو چکے ہیں۔ بیت:
نہ حرص جنت دارم نہ ترسم ز آتش دوزخ
منم شوریدہ جانان چه خواهم کرد حوراں را
؎ نہ ہے جنت کی لالچ نہ ڈر مجھ کو جہنم کا
فدائے دوست ہوں کیا کام مجھ کو حور و غلماں سے
ان لوگوں کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: ﴿قُلْ إِنَّمَاۤ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى إِلَیَّ أَنَّمَاۤ إِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ أَحَدًا﴾ (الکہف: 110)
ترجمہ: ان کو کہہ دو کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ البتہ میری طرف وحی آتی ہے (یعنی فرشتے کے ذریعے مجھ تک وحی پہنچتی ہے، یا الہام ہوتا ہے) کہ تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی اُمید اور خواہش رکھے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔(اور نہ کسی چیز کو شریک بنائے)
یعنی نہ تو اس لیے عبادت کرے کہ لوگ اس کو دیکھیں اور جانیں کہ یہ عابد ہے تو ایسا کرنا ریاکاری ہے، اور یہ شرکِ جلی ہے۔ اور اگر آخرت کے ثواب اور جنت، حور و قصور کی خاطر عبادت کرے تو یہ بھی شرک ہے کیونکہ یہ تو خالص خدا کے لیے عبادت نہ ہوئی، بلکہ جزا اور بدلے کی خاطر عبادت ہوئی، تو یہ بھی شرک ہی ہے، مگر خفی۔
؎ سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے (اقبال)
اور اگر دوزخ کے ڈر سے گناہ نہ کرے تو یہ بھی شرک ہے، خالص عبادت یہ ہے کہ خدا کو اپنا رب اور اپنے آپ کو اس کا بندہ جانے اور عبودیت اور بندگی کرے۔ کیونکہ غلام اور بندہ اپنی خدمت گزاری کی مزدوری نہیں چاہتا، اور اگر بدلے اور اجر و مزدوری کی طلب کرے تو پھر وہ غلام اور بندہ نہ رہا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ یہ جماعت اپنے آپ کو حقیقت میں "عبد" خیال کر کے حق میں محو ہو کر خود "نیست" ہو گئے ہیں، اور یہی لوگ انسانیت کے انتہائی اعلیٰ اور ارفع مقام پر متمکّن ہوتے ہیں۔ ان کو انبیا، شہدا، صدیقین و صالحین کہتے ہیں۔ اور ان کو عاشقین و واصلین کہتے ہیں۔ یہی وہ مقرّب لوگ ہیں اور ان کے حال کو وصل و قرب کہتے ہیں۔ بیت:
؎ قرب نے بالا و پستی رفتن است
قرب حق از حبس هستی آمدن است
؎ رفیع و پست حقیقت میں ہے نہیں قربت
فنائے ہستی خود قرب حق کا منزل ہے
پس اگر تم اس تحریر پر غور کرو گے تو ابتدا میں جو قطب الدین صاحب کی غزل تحریر کی جا چکی ہے، اس کے معنی و مطلب کو سمجھ پاؤ گے، اور تم عشق، طالبِ عشق اور وارستگی کا مفہوم سمجھ جاؤ گے۔ میں نے تمہارے لیے لوگوں کے انواع اور اصناف بہت تفصیل سے بیان کیے۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ جس نوع اور صنف کو تم پسند کرتے ہو اسی کو اختیار کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ سے انہی الفاظ میں ہم کو اطلاع دیتا ہے: ﴿وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ إِنَّاۤ أَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ...﴾ (الکہف: 29)
ترجمہ: اور کہہ دو کہ (لوگو!) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے بر حق ہے، تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔
اور وہ آگ فراق کی آگ ہے، اور رب العالمین کی جدائی کی آگ سے زیادہ سخت اور تیز کوئی دوسری آگ نہیں ہے۔ اور یہ بات وہ شخص جانتا ہے جس کو علم ہو، یعنی علم رکھنے والا شخص اس کا احساس رکھ سکتا ہے: ﴿إِنَّمَا یَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ إِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ﴾ (فاطر: 28)
ترجمہ: خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم ہوں، بے شک خدا غالب اور بخشنے والا ہے۔
پس اگر تم چاہتے ہو کہ تم بھی مقرّبین میں سے ہو جاؤ، تو تمہیں چاہیے کہ سب سے پہلے ایمان لاؤ، اور اس کے بعد اپنا کام خدا کے حوالے کر دو، اُس کے بعد علمِ دین حاصل کرو، کیونکہ علم کے بغیر جہاد اور کوشش کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ جو شخص اسلحہ نہیں رکھتا، اور وہ دوست اور دشمن کے درمیان امتیاز نہیں کر سکتا، تو وہ کیا جہاد کر سکے گا؟ کیونکہ عالَمِ انسانی میں دوست اور دشمن ایک ہی رنگ میں مخلوط ہیں۔ علم کے بغیر لشکرِ رحمانی اور عساکرِ شیطانی میں تمیز کرنا ممکن نہیں۔ اور لاعلمی میں شیطانی لشکر کا معاون بن جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ کسی مخالف فوج کے مقابلے میں اپنا لشکر بھیجے اور بادشاہ کا یہ لشکر وہاں میدان جنگ میں دیکھتا ہے کہ تمام لوگ ایک ہی قسم کی وردی اور لباس پہنے ہوئے ہیں۔ اور یہ لشکر لا علمی کی وجہ سے دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کر سکتا اور اپنے دوست کو قتل کرتا ہے اور دشمن کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور جی میں خوش ہوتا ہے کہ میں نے بڑا کام کیا۔ جب بادشاہ کے پاس جاتا ہے اور اُس کو اپنے کیے ہوئے کام کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے تو آپ خود اس کے نتیجے کا اندازہ لگا لیجئے۔ جب تُو علم حاصل کرے تو شریعت سے عمل شروع کر۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رہنما بن کر تمہیں منزلِ مقصود تک پہنچائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس واقعہ کے بارے میں یوں اطلاع دیتا ہے: ﴿یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ أَنْزَلْنَاۤ إِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾ (النساء: 174)
ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پرودگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آ چکی ہے اور ہم نے (کفر اور ضلالت کا اندھیرا دور کرنے کے لیے) تمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیجا ہے۔
﴿فَأَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِيْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ وَّ یَهْدِیْهِمْ إِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ﴾ (النساء: 175)
ترجمہ: پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اس کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑا، اُن کو وہ اپنے فضل اور اپنی رحمت کے بہشتوں میں داخل کرے گا۔ اور اپنی طرف پہنچنے کا سیدھا راستہ دکھائے گا۔
خدا کے راستے کے سالکوں کی ابتدائی اور پہلی منزل شریعت ہے۔ اور شریعت کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اور جن امور سے منع کیا ہے ان سے پہلو تہی کرنی چاہیے۔ اور جب جان لے کہ شریعت پر مضبوط اور مستحکم ہو گیا تو دوسری منزل طریقت ہے۔ اور طریقت کا معنیٰ، مفہوم اور مراد تزکیۂ نفس ہے۔ اور یہ ریاضت اور باطن کی صفائی یعنی برے اخلاق مثلاً تکبّر، حرص، حسد، کینہ، دنیا اور جاہِ دنیا کی محبت کا ترک کرنا اور اخلاقِ حسنہ مثلًا تواضع، توبہ، صبر، رضا، توکل، صدق، اخلاص، قناعت اور زہد وغیرہ کا حصول ہے۔ جب تم اچھی طرح سے محسوس کر لو اور جان لو کہ تم طریقت میں بھی مستحکم ہو گئے تو ہر چیز کو ترک کر دو اور اللہ کے سوا ہر چیز کو دل سے نکال دو اور دن رات ذکر و فکر اور خدا کی یاد میں مشغول رہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس بات کی یوں ہم کو اطلاع دیتا ہے: ﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِۚۙ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے ہیں، اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو نے مخلوق کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، تو قیامت کے ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔
الغرض ہر وقت کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں ذکر و فکر اور رب العالمین سے استغفار اور طلبِ مغفرت میں مشغول رہو۔ بیت:
؎ یک چشم زدن غافل ازاں ماہ نہ باشم
ترسم کہ نگاہے کُنداں گاہ نباشم
(اُس چاند (محبوب) سے ایک لمحہ کے لیے غافل نہیں ہوں گا۔ شاید کہ وہ نگاہ کرم فرمائے اور میں غافل ہوں) اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا وَ إِیَّاکَ بِفَضْلِہٖ وَ کَرَمِہٖ۔ (آمین)
جب تُو توبہ کرے اور تحصیل علم کے بعد اس راہ پر چلنے لگے، پس تمہارا یہ حال دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا: یا تو تم حق تعالیٰ کی مراد، محبوب اور معشوق ہو گے کہ جس کو مُخلَص، مصطفےٰ اور مجتبیٰ کہتے ہیں۔ اور یا تو تم مرید، محبت کرنے والے اور عاشق ہو گے۔ جس کو مُخلِص، طالب اور متلاشی کہتے ہیں، پس اگر تم اوّل الذکر یعنی مراد اور محبوب ہو، تو مرشدِ کامل اور کامل کرنے والے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود نورِ محمدی کے وسیلے سے تمہاری تربیت کر چکا ہو گا، اور تم کو خود بخود مصیبت اور امتحان کی مختلف قسم اور شکل پیش آئی ہوں گی کہ تمہارا نفس ذلیل اور تمہارا دل دنیا سے متنفّر ہو چکا ہے، اور وہ ریاضتیں جو کہ مرشد ارشاد فرماتا ہے وہ سب کچھ تم سے از خود ظاہر ہوتی رہیں گی۔ اور معرفت الٰہی کے وہ علوم و اسرار جو انبیائے کرام نے اپنی زبان فیض ترجمان سے فرمائے ہوں یا کتابوں میں درج ہوں بغیر کسی تعلیم کے خود بخود دل میں نازل ہوتے ہیں۔ اور اس کو اویسی طریقہ کہتے ہیں۔ اور اس کی تشریح میں نے مقاماتِ قطبیہ میں تفصیل سے کی ہے، وہاں اس کو ملاحظہ کرنا چاہیے، چنانچہ رب العٰلمین اس واقعہ کی اس طرح اطلاع دیتا ہے: ﴿اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍؕ اَلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍؕ یَهْدِی اللهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ وَ یَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِؕ وَ اللهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ﴾ (النور: 35)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل ایسی صاف و شفاف ہے کہ گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے۔ اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے یعنی زیتون کا جو کہ نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا تیل خواہ آگ اُسے نہ چھوئے جلنے کو تیار ہے، روشنی ہی روشنی ہو رہی ہے۔ خداوند تعالیٰ اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اور خدا جو مثالیں بیان فرماتا ہے تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے اور خداوند تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ اور واقف ہے۔
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور طاق سے مراد مؤمن کا سینہ ہے اور چراغ سے مراد انسان کی روحِ حیوانی ہے جو کہ گوشت کے ایک ٹکڑے میں ہے جس کو مجازاً دل کہتے ہیں، موجود ہے، اور شیشہ سے مراد روحِ انسانی ہے کہ اُس کے بارے میں ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ...﴾ (الاسراء: 85) فرمایا گیا ہے۔ اور یہ روحِ انسانی نورِ ربانی کی وجہ سے ستارہ کی طرح چمکتی ہے۔ پس چراغ کے لیے تیل کی ضرورت ہوتی ہے یعنی قلب کے لیے تربیت چاہیے اور اس چراغ کو تیل زیتون کے درخت سے چاہیے، اور وہ نورِ محمدی ہے یعنی مؤمن کے قلب کی تربیت نورِ محمدی سے ہوتی ہے۔ اگرچہ چراغ کو آگ نہ پہنچی ہو یعنی مؤمن کے قلب کو ریاضت کی آنچ نہ پہنچی ہو، صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُس کا دل روشن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دن بہ دن نورٌ علی نور اس کی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح رب العالمین بعض کیفیتں امثال کی شکل میں لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔ اور ان آیات میں طریقۂ اویسی کا بیان ہوا ہے۔ اور نور سے مراد یہ نور نہیں ہے جو کہ سورج، چاند، آگ اور چراغ رکھتا ہے کہ جن سے محسوس چیزوں کا ادراک اور احساس ہوتا ہے، بلکہ اُس سے لطیفہ مراد ہے جو کہ انسان کے دل میں نزول کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کو سِرّ کہتے ہیں۔ آگ کے نور کو اس وجہ سے نور کہتے ہیں کہ اس سے محسوسات کا ادراک ہوتا ہے ورنہ اصل میں نور سِرّ ہے جس سے رب العالمین کی معرفت ہاتھ آتی ہے۔ چنانچہ سورج کا نور اندھے آدمی کی آنکھوں پر اثر نہیں کرتا، اسی طرح یہ نور بھی منکروں کے دل پر اثر نہیں کرتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿مَنْ کَانَ فِيْ ھٰذِہٖ أَعْمٰی فَھُوَ فِي الْآخِرَۃِ أَعْمٰی وَ أَضَلُّ سَبِیْلاً﴾ (الاسراء: 72)
ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو، وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا۔ اور (نجات کے) راستے سے بہت دور۔
اور اندھے پن سے دل کا اندھا پن مراد ہے، نہ کہ آنکھوں کا اندھا پن۔ اور تم مرید اور طالبِ حق ہو تو ایک کامل اور کامل کرنے والے مرشد کے بغیر یہ راستہ طے کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی کسی بادشاہ سے ملاقات کرنا چاہتا ہو، تو جب تک اس بادشاہ کے واقف امیر یا مشیر سے واقفیت حاصل نہ کرے (تاکہ اُس سے ملاقات کا طریقہ جان لے) بادشاہ تک رسائی حاصل کرنا سخت مشکل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتا ہے: ﴿یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰىۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِهَا۪ وَ اتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 189)
ترجمہ: (اے محمد! ﷺ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹنا بڑھنا کیوں ہے؟ ) کہہ دو کہ یہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں اور حج کے اوقات معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔ اور نیکی اس بات میں نہیں کہ احرام کی حالت میں گھروں میں اُن کے پچھواڑوں کی طرف سے آؤ، بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیز گار ہو۔ اور گھروں میں دروازوں سے آیا کرو، اور خداوند تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔
یعنی جہاں بھی جاتے ہو بغیر وسیلہ کے نہ جاؤ، کیونکہ "اَلدُّنْیَا بِالْوَسَائِلِ لَا بِالْفَضَائِلِ" یعنی دُنیا وسائل سے ہے، فضائل سے نہیں۔ البتہ تم پوچھو گے کہ پیرِ کامل کی نشانی کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو تین چیزوں میں کامل ہو، یعنی شریعت، طریقت اور حقیقت میں پورا کامل ہو، تو وہ خود بھی کامل ہے اور دوسروں کو بھی تکمیل تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ اور گو گَردِ سُرخ (گو گَردِ سرخ ماہرینِ کیمیاء کے نزدیک وہ اکسیری دوا ہے جو تانبے کو زرِّ خالص بناتا ہے۔ مترجم) کی خاصیت رکھتا ہے اور دوسروں کے دلوں کے تانبے کو سونا بنا سکتا ہے۔ شریعت میں کپڑے، بدن اور سب اعضاء کو نجاست اور ظاہری پلیدی سے محفوظ رکھنا ہے اور طریقت میں دل کا انسانی اور بشری کدورتوں اور اخلاقِ ذمیمہ سے محافظت کرنا ہے۔ اور حقیقت میں دل کو ما سوی اللہ سے پاک و صاف رکھنا ہے۔
شریعت سے طریقت کی طرف جانا خواص (خاص لوگوں) کا کام ہے اور طریقت سے حقیقت کی جانب جانا اخصّ یعنی خاصوں کے خاص لوگوں کا کام ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مال و مرتبہ کی محبت اور لوگوں کی دوستی، دشمنی باقی ہو، وہ شریعت سے طریقت کو بھی نہیں پہنچے، حقیقت کا تو اور ہی مقام ہے۔ صاحبِ حقیقت محبت کی شراب سے مدہوش ہوتا ہے، وہ مخلوق کے نیک و بد ہونے سے کچھ غرض نہیں رکھتا۔ تم نہیں دیکھتے کہ جو کسی بھی مخلوق کی محبت میں مگن ہو، وہ کسی کے نیک و بد اور اچھے بُرے سے باخبر نہیں ہوتا۔ تو خالق کی محبت تو ایک جُدا اور اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ رب العالمین اپنے دوستوں کو مخلوق کی آنکھوں سے پوشیدہ اور مستور رکھتا ہے۔ اور یہ جو کسی خاص بندے کو کسی عام مصلحت کے لیے مقرر فرماتا ہے وہ بھی طبعاً اس کام سے نفرت کرتا ہے۔ (یعنی مخلوق کے ساتھ تعلق محبت عداوت وغیرہ سے نفرت کرتا ہے۔) وہ تو صرف اپنے مالک کا حکم بجا لاتا ہے۔ پس اُس میں ضد اور دشمنی کہاں سے آئے گی، وہ تو خود محبت میں مدہوش اور از خود رفتہ ہوتا ہے۔ اُسے اپنی خبر نہیں ہوتی تو ضد اور عداوت سے اُسے کیا آگاہی ہوگی؟ پس جو شخص دوست و دشمن رکھتا ہو، اور لوگوں کی دوستی و دشمنی اور بدگوئی اُس پر اثر کرے تو جان لو کہ وہ ابھی ابتدائی منزل میں ہے، نہ تو وہ خود کامل ہے، اور نہ دوسروں کو کامل بنا سکتا ہے۔ بلکہ وہ عامل ہے اور اپنے عمل کے ذریعے اُس نے لوگوں کو مسخر کیا ہے اور بس!، عاقل کو اشارہ کافی ہے۔ اور درجہ کمال تک پہنچنے کی نشانی یہ ہے کہ اُس سے کوئی شخص فیض حاصل کرے۔ ورنہ بصورتِ دیگر لوگوں کا ہجوم در ہجوم آنا کمال کی نشانی نہیں۔
(حاشیہ: مزید تفصیل کے لیے مقالہ نمبر چودہ ملاحظہ فرماویں، جس میں محبت اور ہوائے نفسانی کے ترک کرنے کا ذکر ہے کہ جو شخص طلب کرے کہ وہ صوفی نہیں، بلکہ جھوٹا مدعی ہے)
پس اگر مرشدِ کامل و کامل کنندہ زندہ بہم نہ مل سکے تو وہ مرشد جو کامل کرنے والا ہو، اور دُنیا سے رحلت کر چکا ہو، وہ بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ انبیائے کرام علیہم السلام کے تصرّف خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کا تصرف دُنیا سے منقطع نہیں ہے۔ اسی طرح اولیاء کا تصرف (جو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک سے ہے) بھی دُنیا سے منقطع نہیں مثلًا بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبد القادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ رحمکار صاحب ملک خٹک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔
غالباً تم سوال کرو گے کہ کامل بنانے والے پیر سے جو کہ دنیا میں موجود نہ ہو کس طرح استفادہ حاصل کیا جائے گا؟ پس جواب یہ ہے کہ اگر طالب، مراد ہو تو اس کو خود لدنّی طور پر تعلیم دی جاتی ہے، اگر طالب، مرید ہو اور اُس پیر کا شاگرد ہو جو کہ ابھی دُنیا میں زندہ ہے، پس جس راستے سے پیر اُس کو لے جاتا ہے، وہ اسی راہ پر چلتا ہو۔ اور اگر ایسے پیر سے جو کہ دُنیا میں زندہ موجود نہ ہو، امداد لینی ہو تو اُس بارے میں علم کی بہت ضرورت ہے کہ ایسا کام نہ کرے جس سے شرک ظاہر ہو جائے۔
اس صورت میں موصوف پیر صاحب کے مزار پر حاضری دے اور قرآن کریم کو اپنا وظیفہ بنائے اور جب مزار کو جائے تو قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کر لے اور اس کا ثواب صاحب موصوف کو بخش دے اور نوافل اور ذکر وغیرہ جو کہ مسنون ہوں وہ بھی کرتا رہے۔ اور جو کچھ کہ سنتِ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو اس پر عمل کرے کہ صراط مستقیم یہی ہے۔ اور اس سے بال برابر بھی تجاوز اور انحراف نہ کرے ورنہ ہلاکت کا خطرہ ہے۔ (ایک ضروری (بات یہ کہ) اگر طالب سعید ہو تو اس کو مزار سے بھی اسرار معلوم ہو جائیں گے، مگر ان کی اس کتاب میں تشریح کرنا ممنوع ہے اور اسرار لکھے نہیں جاتے، بلکہ اسرار وہی ہوتے ہیں جو کہ سینے میں محفوظ ہوں۔ ﴿بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْعِلْمَؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ إِلَّا الظّٰلِمُوْنَ﴾ (العنکبوت: 49)
ترجمہ: یہ روشن باتیں ہیں (اسرار) اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے ان کے سینوں میں محفوظ ہیں، اور ہماری آیتوں سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو ظالم اور بے انصاف ہیں۔
اس بات میں شک نہیں کہ مروجہ اذکار یعنی اسم ذات کے ذکر اور نفی، اثبات جو کہ یک ضربی طریقے سے ہو، سے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے، لیکن زندہ مرشد کے بغیر یہ عمل مشکل ہے۔ بے شک جلدی سے صفائی حاصل ہوتی ہے مگر وہ دیر پا نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو چیز جلدی حاصل ہو وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ اور اس طریقہ کو متاخرین یعنی بعد کے لوگوں نے جاری کیا ہے جو کہ ماثورہ نہیں۔
تمام اذکار میں سے ذکرِ قرآن یعنی قرآن کی تلاوت ذکر اکبر ہے۔ کیونکہ قرآن کا حفاظت کرنے والا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9)
ترجمہ: بے شک یہ کتاب نصیحت ہم نے اُتاری ہے اور ہم ہی اُس کے نگہبان ہیں۔
اور قرآن کریم کے علاوہ دیگر اذکار و وظائف کی کتابیں ہیں۔
(حاشیہ: جس کا زندہ پیر موجود نہ ہو۔ اور وہ وظائف کی کتاب یا مشکوٰۃ شریف پاس نہ رکھتا ہو، تو اس کے لیے اس کتاب کا مقالہ نمبر سولہ بھی کفایت کرتا ہے)
وہاں سے ملاحظہ کرنا چاہیے ورنہ مشکوٰۃ شریف سے اس مقصد کے لیے دوسری عمدہ کتاب نہیں۔ یہ حق کے راستے کا طریقہ ہے، باقی اللہ تعالیٰ کی رضا کی ضرورت ہے۔ ﴿وَ اللہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (النور: 46)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر لے جاتا ہے۔
﴿إِنَّ ھٰذِہِ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا﴾ (المزمل: 19)
ترجمہ: یہ نصیحت ہے جو کوئی چاہتا ہے، اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔
﴿وَ مَا تَشَآءُوْنَ إِلَّاۤ أَنْ یَّشَآءَ اللهُؕ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۗۖ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖؕ وَ الظّٰلِمِیْنَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِیْمًا﴾ (الدھر: 30-31)
ترجمہ: اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے، مگر جو خدا کو منظور ہو، بے شک خدا جاننے والا حکمت والا ہے، جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور ظالموں کے لیے اُس نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ فقط۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِصَاحِبَیْنِ مُوَلِّفِہٖ وَ مُتَرْجِمِہٖ
ترجمہ: اے خدا! اس کتاب کے دونوں صاحبوں مؤلف اور مترجم کی مغفرت فرما۔
جمعۃ المبارک 92-5-29