پیش لفظ

پیش لفظ

حافظ بشیر احمد مدنی مدرس دارالعلوم فیضُ القرآن پیر سباق نوشہرہ

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ

تصوُّف کی اصل تقوٰی، تزکیہ اور احسان ہے جو کتاب و سُنّت کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید میں منصبِ نبوّت کی یوں وضاحت فرمائی گئی ہے: ﴿هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ وَ إِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ﴾ (الجمعہ: 2)

’’وہی (اللہ) جس نے مبعوث فرمایا اُمّیوں میں ایک رسول انہی میں سے۔ جو پڑھ کر سناتا ہے انہیں اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان (کے دلوں) کو اور سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘

کتاب کے ساتھ مُعلّم کی بھی ضرورت ہوتی ہے، نسخہ کے ساتھ طبیب کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ضرورتِ شیخ کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:

﴿یٰۤأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوْۤا إِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِيْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (المائدہ:35)

’’اے ایمان والو! ڈرو اللہ تعالیٰ سے اور تلاش کرو اس تک پہنچنے کا وسیلہ اور جدوجہد کرو اس کی راہ میں، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

اس آیتِ مبارکہ سے دو باتوں کا حکم ملا: اول اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنا، دوم اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وسیلہ تلاش کرنا۔ وسیلہ کے متعدد معانی ہیں، شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ وسیلہ سے مراد بیعتِ مُرشد لیتے ہیں (قول جمیل)

حضرت امامِ ربّانی مُجدّد الف ثانی قُدِّسَ سِرّہٗ کے نزدیک صُحبت شیخِ کامل کبریتِ احمر ہے، اس کی نظر دوا اور اس کی باتیں شِفاء ہیں۔

؎ مولوی ہرگز نہ شد مولاے روم

تا غلامِ شمسِ تبریزی نہ شد

؎ دمِ عارف نسیم صُبحِ دم ہے

اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے

؎ اگر کوئی شعیبؑ آئے میسر

شبانی سے کلیمیؑ دو قدم ہے

عہدِ رسالت مآب ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور میں جس طرح دین کے دوسرے شعبے مثلاً تفسیر، حدیث، فِقہ، اُصول، علمِ کلام وغیرہ کے نام اور اصطلاحات وضع نہ ہوئی تھیں اور اُصول و کُلیات موجود تھے اور ان اُصول و کُلیات کی بُنیاد پر بعد میں مذکورہ عنوانات کے تحت مستقِل شعبے مدون ہوئے، اسی طرح علمِ سلوک بھی ہے۔ شریعت بُنیادی طور پر تین قسم کے علوم کا مجموعہ ہے: علمُ العقائد، علمُ الاحکام، علمُ الاحسان۔

تزکیۂ باطن بھی حضور ﷺ کے فرائض میں شامل تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی بھی اسی کا نمونہ تھی۔ کلمہ طیّبہ کا فہم اور قلب و روح میں اس مفہوم کا تمکّن اور پھر پوری زندگی پر اس کا اسی طرح حاوی ہو جانا کہ خیال و عمل میں اس سے یک سرِ مو انحراف نہ ہو، یہی تصوّف و احسان ہے اور اسی کو صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے حاصل کیا۔ ارشاد نبوی ہے:"اَلْإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ" (بخاری شریف، کتابُ الایمان، باب: سوال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن الإیمان والإسلام، رقم الحدیث: 50)

ترجمہ: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے گویا اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اُسے نہیں دیکھ رہا تو (یہ خیال کر کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ یہی چیز سلسلہ بہ سلسلہ ہمارے اکابر تک پہنچی، حق تک پہنچے کا یہی راستہ ہے۔ تصوّف ایسا علم ہے جس سے تزکیۂ نفوس، تصفیۂ اخلاق اور ظاہر اور باطن کی تعمیر کے احوال پہچانے جاتے ہیں۔ تاکہ سعادتِ ابدی حاصل ہو۔

جس طرح فِقہ کا تعلُّق انسان کے ظاہری عمل سے ہے کہ جو حُکم ملا تھا اس پر عمل کیا یا نہیں۔ اسی طرح تصّوف یہ دیکھتا ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے میں تمہارے اندر خلوص، نیک نیّتی اور سچی اطاعت کس قدر تھی؟ اس لیے صوفیاء رَحِمَہُمُ اللہُ تعالیٰ فرماتے ہیں:

؎ آن کس کہ در نماز نہ بیند جمال دوست

فتوٰی ہمی دِھم کہ نمازش قضا کند

زیر نظر کتاب مقامات قُطبیہ و مقامات قدسیہ دقیق اور ادیبانہ فارسی میں تحریر کی گئی ہے اس کے مطالعے سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ شریعت و طریقت لازم و ملزوم ہیں۔

یہ کتاب حضرت شیخُ المشائخ رحمکار کاکا صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزند حضرت شیخ عبدُ الحَلِیْم علیہ الرحمۃ (حلیم گُل بابا رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 24 محرّم 1096ھ) کی لکھی ہوئی ہے۔ اور میاں محترم مھتد اللہ کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ نے 1318ھ میں جنرل پرنٹنگ پریس دہلی سے شائع کروائی۔

شریعت و طریقت کے اسرار و معارف جس انداز سے تحریر کیے گئے ہیں۔ ان سے مُصنِّف کی تبحُّرِ علمی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

یہ کتاب شیخ رحمکار کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت و سوانح اور تصوُّف میں عظیم درجہ رکھتی ہے۔ اس میں بلند پایہ کُتُبِ تصوُّف کے حوالے دیے گئے ہیں۔ افادہ عام کے لیے اس اہم کتاب کے اُردو ترجمے کی ضرورت شدّت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ہمارے شیخ و مربّی حضرت شیخ الاسلام والدی و مُرشدی الحاج مولانا عبدالسلام صاحب دامت برکاتہم بانئ دار العلوم فیضُ القرآن پیر سباق نوشھرہ کے توجہ دلانے پر مُحترم میاں جلال شاہ ابن میاں حاجی احمد شاہ مرحوم کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمے و اشاعت کا بیڑا اٹھا کر اُردو خوان طبقے اور بالخصوص اہل تصوُّف پر بڑا احسان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

مترجم جناب عبد الرّزاق کوثر صاحب کا کہنا ہے کہ مجھے تصوُّف کی کتابوں کے ترجمے کا بارہا اتفاق ہوا ہے مگر جو دقیق علمی بلکہ مختلف علوم کی یکجائی کی کاوش اور قُرآن و حدیث کے عجیب و غریب اچھوتے لطائف اس کتاب میں درج ہیں وہ اہل علم اور اصحابِ دِل کے لیے نایاب تُحفہ ہیں۔ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: حصّہ اوّل میں چودہ ابواب، تتمّہ، خاتمہ اور شجرہ نسب ہے، دوسرے حصے میں بیس مقالات ہیں۔ آخر میں ضمیمہ ہے، جو قواعدِ تجوید کے بیان میں ہے جسے ان شاء اللہ تعالیٰ علیحدہ کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعتِ مصطفویہ علی صاحبہا الصَّلوٰۃ والسلام والتحیّۃ کے طریقہ پر قائم اور ثابت رکھے۔ کیونکہ متابعتِ شریعت ہی مدارِ نجات و سعادت ہے۔

؎ محمد (ﷺ) عربی کآبروئی ہر دو سراست

کسیکہ خاک درش نیست خاک بر سر او