دیباچہ

حصّہ اوّل

دیباچہ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ۔

أما بعد! اس کتاب کا عاجز و مسکین مؤلف ابو اسد اللہ مُہتد اللہ ولد عطاء اللہ اس کتاب کی تالیف کا سبب بیان کرتا ہے کہ عقل مند اور دانا لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ دُنیا کے کاروبار میں انسان جس قدر سعی و کوشش کرتا ہے اُس کو اُسی قدر رنج اور تکلیف پہنچتی ہے۔ دنیا کی مثال سراب کی مانند ہے، اگرچہ سراب دور سے پانی لگتا ہے مگر حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتا۔ دانا اور عقل مند وہ ہے جو دنیا سے بقدرِ کفایت ہی حصّہ لے۔ بصورتِ دیگر اُس کو اتنے ہی رنج و تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا جتنا رنج و تکلیف اہلِ دنیا کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ حقیقت روزمرہ کے تجربات سے واضح ہے کہ جو شخص جتنا دنیا کے لالچ میں مبتلا ہے اتنا ہی زیادہ رنج و تکلیف میں پھنسا ہوا ہے۔ اسی طرح مؤلف (میں) دنیا کا حریص تھا تو ہر طرف سے مصائب میں مبتلا تھا۔ اب اگر میں ان مصائب و آلام کو بیان کرنے لگوں کہ یہ مصیبت پیش آئی اور اُس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا، تو اُس کا کچھ فائدہ نہیں۔ لیکن (مختصر یہ) کہ چاروں جانب سے غم و آلام کا ہدف بنا رہا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جتنی کوشش بھی کرتا رہا، گلو خلاصی نہ ہو سکی، بلکہ عزت کی بجائے روز بروز ذلت پیش آتی رہی۔ ایک دن میں نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور کہا کہ اے نفس! کب تک یہ ذلّت و خواری اور رسوائی برداشت کرتے رہو گے اور ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ کا مصداق بنے رہو گے؟ میں نفس کے ساتھ اسی محاسبہ میں تھا کہ اچانک نفس نے میری بات کی تائید کی اور میری نصیحت کو سُن لیا۔ بلا تاخیر میں نے امورِ دنیا کو ترک کیا اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ رباعی:

؂ عمرے پے کامِ دل شتابان بودم

اندر رہ جستجو پا فرسودم

دیدم کہ درآن بحز پریشانی نیست

دست از ہمہ باز داشتم و آسودم

’’بہت عرصے تک خواہشاتِ نفسانی کی خاطر پریشان رہا اور اس کی تلاش میں خود کو تھکاتا رہا۔ میں نے دیکھ لیا کہ اس راہ میں پریشانی کے سوا کچھ (ہاتھ) نہیں (آتا)، سب کچھ چھوڑ دیا تو آسودہ ہو کر آرام میں رہا‘‘

ایک دن میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اس میں تقریباً اوّل و آخر اولیاء اللہ کے سوانح و حالات درج تھے، مگر مجھے اپنے سلسلہ کے بزرگوں یعنی کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے حالات نہیں ملے۔ اسی خیال میں تھا کہ کون سے ذرائع حاصل ہوں کہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور اسی قبیل کے دوسرے بزرگوں کا حال معلوم ہو جائے کہ ان کا طریقہ حیات کیا تھا، اور ان میں سے ہر ایک کا مرتبہ کہاں تک تھا۔ اسی خیال میں پشاور چلا گیا اور وہاں سے زیارت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ چلا گیا۔ شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کو دیکھا اور زیارت کی سعادت حاصل کی اور حسب معمول اپنا مدّعا تلاش کرتا رہا۔ میں نے سنا کہ حضرت شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کے چوتھے فرزندِ ارجمند عبد الحلیم صاحب نے (جو کہ علومِ ظاہری و باطنی کا ایک بحرِ بے کراں تھے) شیخ صاحب کے مناقب میں ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے، مگر وہ کتاب ایک ایسے شخص کے پاس ہے کہ خود تو ان پڑھ ہے اور کسی دوسرے شخص کو بھی وہ کتاب نہیں دیتا کہ اُس کتاب کو شائع کرے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے پڑھنے کے لیے عنایت فرمائی۔ میں وہ کتاب لے کر اُس جگہ پڑھنے کے لیے لے جایا کرتا تھا جہاں شیخ صاحب چلہ اورخلوت فرمایا کرتے تھے، اور جس جگہ کو "میلہ" کہتے ہیں۔ اُس کتاب کا مطالعہ کرتا رہا۔ میں نے وہ کتاب تین دن میں مطالعہ کی۔ یہ ایسی کتاب تھی کہ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں اور اہل اللہ حضرات کو دنیا اور آخرت ہر دو سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے۔ مجھے انتہائی مسرت حاصل ہوئی اور میں نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ اس کتاب کا مالک جتنی رقم پر راضی ہو (بشرطیکہ اُس پر مجھے قدرت حاصل ہو کہ میں اسے ادا کر سکوں) مالک کتاب کو دے کر اس کتاب کو چھاپ کر اس کی اشاعت کروں گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور شیخ صاحب کی کرامت تھی کہ اس نے مجھ سے کچھ بھی نہ لیا، حالانکہ دنیا والوں کو دنیا بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس نے کچھ بھی نہ لے کر کتاب میرے حوالے کی اور کہا کہ جب کتاب کی نقل ہو جائے تو وہ کتاب واپس کی جائے۔ بلکہ ایک دوسری کتاب (کہ وہ بھی اسی شیخ عبد الحلیم صاحب نے تصنیف فرمائی تھی) میرے حوالے کر کے فرمائش کی کہ یہ بھی شائع کی جائے۔ میں دونوں کتابیں حاصل کر کے اپنے گھر واپس آیا۔ میں نے ان کا مسودہ شروع کیا اور ترجمہ کیا۔ شیخ عبد الحلیم صاحب پہلی کتاب کو مناقبِ شیخ صاحب کہتے تھے، اور دوسری کتاب کا کوئی اور نام رکھا تھا۔ اگرچہ عام اصطلاح میں مناقب خرق عادت اور کرامات کو کہتے ہیں، لیکن یہ دونوں کتابیں جُدا جُدا یا اکھٹے ہو کر مجموعۃً کتابیں یا ایک ہی کتاب ہے، لیکن ان کتابوں یا کتاب کو اگر علومِ طریقت کا خزانہ یا علمِ سلوک کا گنجِ گراں مایہ کہا جائے تو ان کتابوں کے شایان شان ہو گا۔ کیونکہ علمِ سلوک یا علمِ طریقت کا حاصل تین امور ہوتے ہیں: علم، عمل اور حال۔ علم سے مراد اللہ کریم کی معرفت، اپنے نفس کا علم، انسان کے رموز و اسرار کا علم، روح کا علم، جسد انسانی کا علم اور اسی قلب انسانی کا علم ہے، اور عمل سے مراد سیر و سلوک الی اللہ و فی اللہ اور باللہ کے طریقوں پر عمل کرنا۔ یعنی ریاضت اور مجاہدہ کرنا اور ایسا کرتے وقت شریعت کی راہ پر چلنا اور شریعتِ حقّہ سے سرِ مو تجاوز نہ کرنا مدِ نظر ہو۔ اور حال سے مراد دل کے حال کا گردش میں لانا اور تبدیل کرنا ہے۔ جب معرفت حاصل ہو جائے اور مجاہدہ اور ریاضت کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ دل کی حالت بدل گئی۔ یعنی اخلاقِ ذمیمہ اور بُری عادتیں مثلًا حرص اور خوراک کی لالچ اور کثرتِ کلام، غصّہ، دنیا، اموالِ دنیا اور عزتِ دنیا کی محبت، ریاکاری، نفاق، غرور، فخر اور غفلت دل سے نکل کر اُن کی جگہ زہد، پرہیز گاری، بھوک، خاموشی، غصے پر قابو پانا، دُنیا، اموالِ دنیا اور دنیا کی عز و جاہ سے نفرت کرنا، اخلاص، ایمانداری اور تواضع وغیرہ پیدا ہوتی ہیں۔ جن اصحاب کو یہ تین باتیں حاصل ہو جائیں تو ان کو قریب اور واصل کہتے ہیں۔ بیت:

؂ قرب نے بالا و پستی رفتن است

قرب حق از جنس هستی رستن است

’’یعنی قرب اونچے نیچے جانے کو نہیں کہتے، بلکہ تقرّبِ الٰہی ہست و بود کے نوع و جنس سے اپنے آپ کو آزاد کرنا ہے‘‘

ان اوصاف کو مقامات کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ سالک کے دل میں عبادت کا ذوق، خدا سے محبت اور وجدِ قبض اور بسط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جن کو حالات کہتے ہیں۔ اور یہ حالات کی کوئی حد نہیں اور یہ حالات اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز میں سے ہوتے ہیں، جو احاطۂ تحریر میں نہیں آ سکتے، بس صرف وہ شخص جانتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ سمجھاتا ہے، جس قدر کہ سمجھاتا ہے۔ اوراس علم کے بارے میں اس کتاب میں ہر قسم کے معانی معلوم ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ اس کتاب میں شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب بھی ہیں اور علمِ تصوف بھی ہے۔ شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جتنی باتیں لکھی گئی ہیں، ان کا نام مقاماتِ قطبیہ رکھا گیا۔ اور جو باتیں علمِ تصوف سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن کا نام مقالاتِ قدسیہ رکھا گیا ہے۔ کتاب تو ایک ہی ہے، مگر اس کے دو حصّے کر دیے۔ اور اس مجموعے کا نام مقاماتِ قطبیہ اور مقالاتِ قدسیہ ہے۔

انتباہِ اوّل یہ ہے کہ جو کوئی اس کتاب سے فائدہ اور نفع حاصل کرنا چاہتا ہے، اُسے چاہیے کہ سب سے پہلے مؤلف کی وصیت (جو کہ اس کتاب میں ہے) اچھی طرح مطالعہ کرے اور اُس میں فکر کرے۔ دوسری انتباہ یہ ہے کہ شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ قطب حقیقی کے رتبۂ اعلی پر فائز تھے۔ اور جس وقت تک اسی کتاب کا دوسرا باب مطالعہ نہ کیا جائے، اس بات کو سمجھنا مشکل ہے۔ تیسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ میں نے شیخ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں کوئی کمی بیشی نہیں کی، تاکہ کتاب کے یمن و برکات بحال رہیں۔

30 ربیع الثانی 1318 ہجری

العبد

ابو اسد اللہ مہتد اللہ

نبیرۂ شیخ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ