حصہ 3 مقالہ 19: گزشتہ زمانوں کے بعض حالات، موت کے ذکر اور آرزو کرنے اور قبروں کی زیارت کے بیان میں

انیسواں مقالہ

گزشتہ زمانوں کے بعض حالات، موت کے ذکر اور آرزو کرنے اور قبروں کی زیارت کے بیان میں

علمائے کرام نے ذوالقرنین اور لقمان کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں نبی تھے اور اکثر اہل علم فرماتے ہیں کہ لقمان ایک دانا اور حکیم شخص تھے اور نبی نہیں تھے۔ اور ذوالقرنین ایک نیک بادشاہ تھے اور نبی نہیں تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے روایت ہے کہ ان سے حضرت ذو القرنین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ ایک صالح اور نیک شخص تھے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے سر پر دو سینگوں کی طرح کوئی چیز تھی، بعض کہتے ہیں کہ آپ سورج کے دونوں سینگوں یا شاخوں یعنی غروب و طلوع کے مقام تک ہو آئے تھے، بعض کہتے ہیں کہ وہ دو قرنوں تک زندہ رہے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے جوانی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ انہوں نے سورج کے نزدیک تک رسائی حاصل کی اور اس کی دونوں شاخوں کو پکڑ لیا، انہوں نے اپنا یہ خواب قوم کو بتایا تو قوم نے ان کو ذو القرنین کے نام سے مشہور کر دیا، ان کا نام سکندر تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو ذو القرنین اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ بیک وقت فارس اور روم کے بادشاہ تھے۔ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام میں پانچ ایسے تھے جو عربی زبان بولتے تھے: (1) حضرت اسماعیل علیہ السلام، (2) حضرت ہود علیہ السلام، (3) حضرت صالح علیہ السلام، (4) حضرت شعیب علیہ السلام (5) اور سیدنا حضرت محمد ﷺ۔ اور کہتے ہیں کہ تمام دُنیا پر چار بادشاہوں کے علاوہ کسی اور نے حکومت نہیں کی، جن میں سے دو کافر بادشاہ تھے اور دو مسلمان تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک حضرت سلیمان علیہ السلام اور دوسرے ذو القرنین تھے۔ اور کافروں میں سے ایک نمرود بن کنعان اور دوسرا بخت نصر تھا جس نے بیت المقدس کو تخت و تاراج کر کے ستر ہزار بنی اسرائیل کو تہِ تیغ کیا اور ان کو بابل کے دروازے تک ہانک دیا۔ ان کے درمیان حضرت دانیال علیہ السلام نبی تھے لیکن رسول نہ تھے۔ اور کہتے ہیں کہ ایام طفولیت میں کسی نے بھی باتیں نہیں کیں مگر ان چار اشخاص نے: ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام، دوسرا صاحب الاخدود، تیسرا صاحبِ جریج راہب اور چوتھا حضرت یوسف علیہ السلام کا گواہ، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ أَھْلِھَا...﴾ (یوسف: 26) یعنی اس کے اہل میں سے ایک گواہ نے گواہی دی۔ اور اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ گواہ بڑا آدمی تھا، چھوٹا بچہ نہیں تھا۔

حضرت کعب الأحبار سے روایت ہے کہ میں نے پیغمبروں کی کتاب میں دیکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر 930 سال تھی، حضرت نوح علیہ السلام کی عمر 950 سال تھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر ایک سو 37 سال تھی، حضرت اسحاق علیہ السلام کی عمر 180 سال تھی، حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر 147 سال تھی، حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر 110 سال تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر 123 سال تھی، حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر 70 سال، یحییٰ علیہ السلام کی عمر 75 سال، حضرت شعیب علیہ السلام کی عمر 254 سال، حضرت صالح علیہ السلام کی عمر ایک سو اسی سال، حضرت ہود علیہ السلام کی عمر 265 سال، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر 33 سال اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی عمر مبارک 63 سال تھی۔

وہب بن منبہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام دس دفعہ تشریف لائے، حضرت نوح علیہ السلام پر 20 دفعہ نازل ہوئے، حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس 430 دفعہ آئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس 32 مرتبہ آئے اور حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کی خدمت میں ایک لاکھ 24 ہزار بار حاضر ہوئے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دُنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور میں اس میں آخری ہزار میں ہوں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ دُنیا چار قرن ہے، قرنِ اول میں ملتان کو ہنس پور کہتے تھے، اس قرن میں دیو جنات آباد تھے۔ دوسرے قرن میں ملتان کو بک پور کہتے تھے اور اس قرن میں فرشتوں کی اس پر آبادی تھی۔ یہ اٹھارہ لاکھ اور 25 ہزار سال اس پر آباد تھے۔ تیسرے قرن میں ملتان کو شام پور کہتے تھے اور اس قرن میں اس پر چالیس آدمی تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسی آدمی تھے، بعض کہتے ہیں کہ ایک ہزار پانچ سو لوگ تھے اور بعض کہتے ہیں کہ دس ہزار لوگ تھے اور ان کا توالد و تناسل کچھ بھی نہ تھا۔ بارہ لاکھ 25 ہزار سال یہ دُنیا میں رہے۔ اور چوتھے قرن میں ملتان کو ملتان کہتے ہیں، اس قرن میں گھوڑوں کی آبادی تھی۔ آٹھ لاکھ اٹھارہ ہزار سال تک یہ دُنیا میں رہے۔ باسٹھ لاکھ پچاسی ہزار سال گزرنے کے بعد حضرت آدم صفی اللہ پیدا ہوئے۔ (حقیقی علم اللہ کے پاس ہے)۔ (از نافع المسلمین)

شمس العلوم سے منقول ہے کہ عالم کی ابتدا سے رسول اللہ ﷺ کے عہد مقدس تک 43 کروڑ، 40 لاکھ 57 ہزار سات سو 63 سال گزرے ہیں۔ ابتدائی دور سے دنیا میں حضرت محمد مصطفیٰ عربی ﷺ کے عہد مبارک تک 32 کروڑ 99 لاکھ سال تھے۔ اس آیت مبارکہ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ دن رات میں 24 گھنٹے ہیں۔ ہر گھنٹے میں 19 ہزار آدمی دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور ہر سال 69 کروڑ اکیاسی لاکھ ساٹھ ہزار آدمی پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق 19 ہزار عاشق ہر سال پیدا ہوتے ہیں اور دُنیا کی یہ تمام مخلوق ان 19 ہزار عاشقوں کی برکت کے طفیل قائم ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام سات لاکھ زبانوں میں بات فرماتے تھے، ان سب میں عربی زبان بہترین اور افضل ہے۔ ایک روایت کی رو سے حضرت آدم علیہ السلام سے ایک ہزار فرزند پیدا ہوئے، آپ ہر فرزند سے جدا جدا زبان میں بات فرماتے تھے۔ اور وہ باتیں (زبان) ان کے بیٹوں کی دل اور ذہن میں بیٹھ جاتی تھیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے چالیس بچے بی بی حوا علیہ السلام سے پیدا ہوئے۔ اور یہ بیس حمل سے دو دو پیدا ہوئے تھے یہاں تک کہ زیادہ ہو گئے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جب تک ایک ہزار فرزند نہیں دیکھے فوت نہ ہوئے۔ اور ہمارے پیغمبر ﷺ تمام مخلوقات کے لیے مبعوث ہوئے تھے پس لازمًا ان کے لیے ساری زبانوں کا جاننا ضروری تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِنُبَیِّنَ لَھُمْ...﴾ (ابراہیم: 4) ”ہم نے ہر پیغمبر کو اس قوم کی زبان میں بیان و تبلیغ و تعلیم دینے کے لیے مبعوث کیا ہے“۔ لیکن باوجود سب زبانوں کے جاننے کے، آپ عربی میں کلام فرماتے تھے کیونکہ قرآن کریم اسی زبان میں نازل ہوا ہے۔

تفاسیر میں ایسا آیا ہے کہ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کی کہ اے میرے رب! آپ سے سوال کرتا ہوں لیکن آپ کی عظمت سے حیا اور شرم رکھتا ہوں۔ حکم ہوا، اے موسیٰ! جو کچھ تمہارے دل میں ہو پوچھ لو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی، اے میرے خدا! تم کس زمانے سے خدا ہو؟ حکم ہوا، اے موسیٰ! اگر تمہارے بارے میں میری رحمت نہ ہوتی تو تم کو دوزخ میں جلا ڈالتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی، اے میرے خدا! آپ کا کرم اور عنایت بہت زیادہ ہے۔ فرمایا: اے موسیٰ! میری ابتدا اور انتہا نہیں، اس سے قبل میں نے عرش و کرسی اور زمین و آسمان پیدا کیا، میں نے اسی 80 شہر بنائے اور ہر شہر کی بلندی دنیا سے پانچ گنا زیادہ تھی اور ہر دو شہروں کے درمیان فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ سے زیادہ تھا اور تمام شہروں کو غلے کے دانوں سے بھر دیا۔ اس کے بعد ایک مرغ پیدا کیا اور اس کو حکم دیا: اے مرغ! یہ دانے تمہارا رزق ہیں، ان کو کھاؤ اور جیتے رہو، جب تم ان سب کو کھا لو گے تو تمہاری روح قبض کروں گا۔ پس وہ مرغ اپنی موت کے ڈر کی وجہ سے ہر دن صرف ایک دانہ کھاتا رہا، یہاں تک کہ سارے دانے ختم ہوئے اور ایک دانہ باقی رہ گیا۔ اس نے وہ دانہ منہ میں ڈالا اور موت کے ڈر کی وجہ سے اس کو نہیں نگل سکتا تھا، جب اس دانے کو بہت عجز، محنت اور تکلیف سے نگل گیا تو وہ مرغ مر گیا۔ اس کے بعد میں نے 80 ہزار آدمی نور سے پیدا کیے۔ اس کے بعد ملائکہ پیدا کر دیے۔ اس کے 70 ہزار سال بعد جنت اور دوزخ کو پیدا کر لیا۔ اس کے بعد ایک مرد کو پیدا کیا اور اس کا نام آدم رکھا۔ اس کی عمر دس ہزار سال تھی۔ دس ہزار سال گزرنے کے بعد میں نے چالیس آدم پیدا کیے، ہر ایک کو دس دس ہزار سال عمر عطا کی مگر وہ ایمان نہ لائے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "یٰمُوْسٰی أَ تَدْرِيْ ھٰذَا بِأَنَّہٗ کَمْ کَانَ عَالَمًا وَ کَمْ کَانَ حِسَابَھَا؟ فَغُشِيَ مُوْسٰی، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: "سُبْحَانٰکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ" یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! کیا تم جانتے ہو کہ کتنے عالم ہیں اور اس کا کیا حساب بنتا ہے؟ یہ سن کر موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ پاکی ہے تیرے لیے، میں توبہ کرتا ہوں، اور پہلا ایمان لانے والا ہوں۔

رسول اللہ ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ "إِنَّ اللہَ تَعَالٰی خَلَقَ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ أَلْفَ عَالَمٍ وَّ الدُّنْیَا مِنْھَا عَالَمٌ وَّاحِدٌ" (لم أجدہ مرفوعًا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بل هو من أقوال وھب کما ذکر ابن کثیر فی البدایۃ و النھایۃ، رقم الصفحۃ: 276/9، دار الفکر، بیروت) کہ اللہ تعالیٰ نے 18 ہزار عالم تخلیق فرمائے ہیں، اور یہ دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے "عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ:"إِنَّ اللہَ تَعَالٰی خَلَقَ أَلْفَ أُمَّۃٍ مِّنْہَا سِتُّمِائَۃٍ فِي الْبَحْرِ وَ أَرْبَعُ مِائَۃٍ فِي الْبَرِّ" (الکامل في الضعفاء، رقم الصفحۃ: 487/7، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ”رسول اکرم ﷺ سے روایت کی گئی ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں (مخلوقات) پیدا فرمائیں جن میں سے چھے سو سمندر میں اور چار سو خشکی میں پیدا کیں۔ عبرانی میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو نور سے، گھوڑے کو ہوا سے، بیل گائے کو زعفران سے، بھیڑ کو جنت کے شہد سے اور بکری کو مشک سے اور گدھے کو پتھر سے اور جنات کو آگ سے پیدا کیا ہے۔ اور روضہ (ایک کتاب کا نام ہے) میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بھیڑ کو جنت کے شہد سے، بکری کو مشکِ جنت سے، گائے، بیل کو جنت کے زعفران سے، اونٹ کو جنت کے نور سے، گھوڑے کو جنت کی ہوا سے، خچر اور گدھے کو جنت کے پتھروں سے، جنات کو آگ سے اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ مٹی کو جھاگ سے، جھاگ کو پانی سے، پانی کو نور سے اور نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور یہی اس آیت کا معنیٰ ہے: ﴿وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِيْ آدَمَ مِنْ ظُھُورِھِمْ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلٰى أَنْفُسِهِمْ…﴾ (أعراف: 172) ”اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے، ان کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر“۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے بنی آدم سے وعدہ لیا ہے۔ اور یہ روح اور جسم ہوتے ہیں کیونکہ روح بغیر جسم کے بنی آدم نہیں کہلاتی، پس جو کچھ ہمارا دعویٰ ہے، وہ ثابت ہو گیا اور معتزلہ اور روافض کا قول باطل ہو گیا۔ جو کہتے ہیں کہ وعدہ روحوں سے لیا گیا ہے نہ کہ جسموں سے۔

سوال:

موسیٰ علیہ السلام کا عصا کس چیز کا تھا، اس کی اصل کہاں سے تھی؟ اور اس کے اوصاف کیا تھے اور اس پر کیا لکھا تھا؟

جواب:

جان لیجیے کہ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عصا زیتون کی لکڑی سے تھا، اور اس کی اصل جنت سے تھی، حضرت آدم علیہ السلام اس کو اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے، جس دن آپ جنت سے دنیا میں تشریف لائے تو آپ اپنے ساتھ چند چیزیں جنت سے لائے تھے۔ ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، دوسری چیز حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگھوٹھی اور انجیر کے پانچ پتے، ان میں سے ایک پتے کو ہرن نے کھایا۔ اس کا ناف مشک ہوا، دوسرا پتہ دریا سے دریائی گائے نکل آئی اور وہ پتہ کھا گئی، اس کے پیٹ میں عنبر ہوا۔ تیسرا پتہ شہد کی مکھی نے کھایا، اس کے پیٹ میں وہ شہد بن گیا۔ چوتھا پتہ کیڑے نے کھایا، اس کے پیٹ میں ریشم ہو گیا۔ پانچواں پتہ اس سے باقی رہ گیا، ہوا اور بارش میں وہ ریزہ ریزہ ہو گیا، اور مٹی میں وہ ریزے پڑ گئے۔ جس سے سبزی، میوے اور درختوں کی خوشبو اور پھول وغیرہ اس پتے کے اثرات ہیں۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جنت سے تھا، لمبا تھا اور اس کا سر دو شاخہ تھا۔ اور اس پر عربی زبان میں تین خط لکھے گئے تھے۔ ایک خط جو لکھا گیا تھا وہ یہ تھا: ”اَلْمُلْکُ لِلہِ“ دوسرا خط ”اَلْعَظَمَۃُ لِلہِ“ تیسرا خط جو تحریر تھا، وہ تھا ”مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ“۔ اور جب حضرت آدم علیہ السلام دُنیا سے رخصت ہو گئے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو میراث میں مل گیا اور اسی طرح ہاتھوں ہاتھ حضرت شعیب علیہ السلام کے ہاتھ آ گیا اور ان سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پانی کی ضرورت پیش آتی، اس عصا کو پتھر پر مارتے۔ اس سے پانی جاری ہو جاتا تھا۔ اور اگر رات کی تاریکی ہوتی۔ تو وہ عصا شمع کی طرح روشنی دیتا اور اندھیری رات میں جنگل اور صحرا میں اس سے روشنی نکلتی، جہاں تک نظر کام کرتی تمام بیابان روشن ہوتا۔ جب آپ کو بھوک لگتی تو عصا کو زمین پر مار کر جو طعام چاہتے اسی وقت زمین سے ظاہر ہو جاتا اور آپ اسے تناول فرماتے۔ اگر کسی کنویں پر ڈول اور رسی نہ ہوتی، تو عصا کو اس کنویں میں داخل کرتے۔ اگر کنواں پچاس گز گہرا ہوتا، تو یہ عصا بھی 50 گز ہو جاتا۔ اور اس کے سرے پر ڈول نظر آتا اور آپ پانی نوش فرماتے۔ اور اگر کسی دشمن سے عاجز اور مغلوب ہو جاتے تو وہ عصا دشمن سے لڑتا۔ اور اگر میوے کھانے کو جی چاہتا تو عصا زمین پر مارتے، زمین فورًا سر سبز ہو جاتی، برگ و بار پیدا ہو جاتے اور میوہ تیار ہو جاتا۔ اور اگر راستے میں درندے یا چور یا کسی قسم کا خطرہ ہوتا تو عصا آپ کو متنبہ کرتا کہ اس راستے پر نہ چلو۔ اور اگر عطر کی خواہش کرتے تو عصا اپنے آپ سے خوشبو بکھیرتا اور جو چیز چاہتے تو بہت سے امور سر انجام پاتے۔ اگر کوئی شیرینی چاہتے تو عصا کی ایک شاخ سے شہد اور دوسری سے گھی حاصل ہوتا۔ اور اگر کوئی مشکل راہ سامنے آ پڑتی کہ جس پر چڑھنا مشکل ہوتا تو عصا کو اس پہاڑی پر دے مارتے، جس سے پہاڑ دو ٹکڑے ہو جاتا، اور اس میں راہ بن جاتی۔ اور اگر دریا آتا اور کشتی موجود نہ ہوتی تو عصا کو دریا پر دے مارتے، دریا کے درمیان میں راہ بن جاتی اور پانی دو ٹکڑے ہو جاتا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر تشریف لائے۔ (قصہ کے آخر تک) (از جامع المتفرقات خلاصۃ الفقہہ و محمد صلاح و سراج القلوب)

"عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہٗ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: "لَا یَتَمَنّٰی أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ یَزْدَادُ، وَ إِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہٗ یَسْتَعْتِبُ" (رواہ البخاري، رقم الحدیث: 7235) ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر کوئی نیک ہو تو شاید کہ وہ اپنی نیکی زیادہ کرے۔ اور اگر گنہگار ہو، تو شاید خدا اس کو توبہ کی توفیق دے“۔

اور آپ ہی سے روایت ہے "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ: لَا یَتَمَنّٰی أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ وَلَا یَدْعُ بِہٖ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَّاْتِیَہٗ إِنَّہٗ إِذَا مَاتَ أَحَدُکُمُ انْقَطَعَ عَمَلُہٗ وَ إِنَّہٗ لَا یَزِیْدُ الْمُؤْمِنَ عُمُرُہٗ إِلَّا خَیْرًا" (رواہ مسلم، رقم الحدیث: 2682) ”اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی تم میں سے موت کی آرزو نہ کرے، اور نہ موت کی دعا کرے، پہلی بات تو یہ کہ اُس کو موت آئے گی اسی وقت پر جو مقرر ہے، جب موت آتی ہے تو اعمال قطع ہو جاتے ہیں۔ اور مؤمن کی عمر اور کوئی چیز بجز نیکی کے زیادہ نہیں کرتی“۔

"وَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِت قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: "مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ أَحَبَّ اللہُ لِقَاءَہٗ وَ مَنْ کَرِہَ لِقَاءَ اللہِ کَرِہَ اللہُ لِقَاءَہٗ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ: إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ، قَالَ: لَیْسَ ذَاکَ وَ لٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللہِ وَ کَرَامَتِہٖ فَلَیْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ وَ أَحَبَّ اللہُ لِقَاءَہٗ وَ أَنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللہِ وَ عُقُوْبَتِہٖ فَلَیْسَ شَيْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَکَرِہَ لِقَاءَ اللہِ وَ کَرِہَ اللہُ لِقَائَہٗ" (متفق علیہ، رقم الحدیث: 6507) و فِيْ رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ: "وَ الْمَوْتُ قَبْلَ لِقَاءِ اللہِ" (الصحیح لمسلم: رقم الحديث: 2684) ”حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو کوئی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا دوسری ازواجِ مطہرات میں سے کسی نے عرض کی کہ ہم تو موت کو پسند نہیں کرتے۔ فرمایا کہ بات ایسی نہیں، جب کسی کو موت آ جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور مہربانی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ پس اس کے سامنے جو چیز پیش کی جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز اسے عزیز نہیں ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے ملاقات سے خوش ہو جاتا ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کی ملاقات سے خوش ہوتا ہے۔ اور جب کافر کو موت کی خبر آتی ہے تو اس کو عذاب اور خدا کی سزا کی اطلاع دی جاتی ہے تو اس کو اس پیش ہونے اور پیشی کرنے سے زیادہ اور کوئی چیز بری نہیں لگتی۔ وہ خدا سبحانہ و تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔ اور خدا اس کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ موت ملاقات سے قبل ہے“۔

"وَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلٰی شَابٍّ وَّ ھُوَ فِي الْمَوْتِ فَقَالَ: کَیْفَ تَجِدُکَ؟ قَالَ: أَرْجُوا اللہَ یَا رَسُوْلَ اللہِ وَ أَخَافُ ذُنُوْبِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لَا یَجْتَمِعَانِ فِيْ قَلْبِ عَبْدٍ فِيْ مِثْلِ ھٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللہُ مَا یَرْجُوْا وَ آمَنَہٗ مِمَّا یَخَافُ" (رواہ ابن ماجة و الترمذي و قال الترمذي ھذا حدیث غریب، رقم الحدیث: 4261) ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک جوان کے پاس تشریف لائے جو حالتِ نزع میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! خداوند کریم سے اُمید کرتا ہوں مگر گناہوں کا بھی خوف رکھتا ہوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے دل میں اس وقت دونوں (خوف اور امید) جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کو وہی دیتا ہے جس کی وہ امید کرتا ہو۔ اور اس چیز سے امن دیتا ہے جس سے خوف کھاتا ہو“۔

"وَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ بَارَکَ وَ سَلَّمَ: "إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیْضَ أَوِ الْمَیِّتَ فَقَوْلُوْا خَیْرًا فَإِنَّ الْمَلٰئِکَۃَ یُؤَمِّنُوْنَ عَلٰی مَا تَقُوْلُوْنَ" (رواہ مسلم: رقم الحدیث: 909) ”حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ یا مردے کے پاس جاؤ تو کہو کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے۔ کیونکہ فرشتے تمہاری دعاؤں پر آمین کہتے ہیں“

اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے "قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: "مَا مِنْ مُّسْلِمٍ تُصِیْبُہٗ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ مَا أَمَرَہُ اللہُ: إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰھُمَّ آجِرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَ أَخْلِفْ لِيْ خَیْرًا مِّنْھَا إِلَّا أَخْلَفَ اللہُ لَہٗ خَیْرًا مِّنْھَا فَلَمَّا مَاتَ أَبُوْ سَلْمَۃَ قُلْتُ أَيُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ مِّنْ أَبِيْ سَلَمَةَ، أَوَّلُ بَیْتٍ ھَاجَرَ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ثُمَّ إِنِّيْ قُلْتُھَا فَأَخْلَفَ اللہُ لِيْ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ" (رواہ مسلم، رقم الحدیث: 918) ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ کہے کہ یہ خدا کا امر ہے، اور ہم خدا کے لیے ہیں، اور ہم نے خدا کی طرف ہی لوٹنا ہے۔ اے میرے اللہ مجھے بدلہ دے، مصیبت کے بدلے اس سے بہتر بدلہ۔ پس اللہ تعالیٰ اس کو اچھا بدلہ دیتا ہے۔ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو میں نے کہا کہ کون مسلمان ابو سلمہ سے بہتر ہوگا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف پہلی ہجرت کی۔ میں نے یہ کلمے کہے، پس اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ ﷺ عطا فرمائے“۔

"وَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْھَا قَالَتْ: أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ حِیْنَ تُوُفِّيَ سُجِّيَ بِبُرْدٍ حِبَرَۃٍ" (متفق علیہ: 5814) ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے تو آپ پر یمن کی چادر ڈالی گئی“۔

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے: "وَ عَنْ مُّعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: "مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہٖ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ" (رواہ أبو داوٗد، رقم الحدیث: 3116) ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کا آخری کلام "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" ہو وہ جنت میں داخل ہو جائے گا‘‘۔

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "وَ عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: اقْرَءُوْا یٰس عَلٰی مَوْتٰکُمْ" (رواہ أبو داوٗد و ابن ماجۃ و أحمد، رقم الحدیث: 3121) ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے مردوں پر سورۂ یٰس پڑھا کرو‘‘۔

"وَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ إِنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنٍ وَّ ھُوَ مَیِّتٌ وَ ھُوَ یَبْکِيْ حَتّٰی سَالَ دُمُوْعُ النَّبِيِّ ﷺ عَلٰی وَجْہِ عُثْمَانَ" (رواہ الترمذي و أبو داوٗد و ابن ماجۃ بمعناہ، رقم الحدیث: 989) ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ ایسی حالت میں کہ وہ فوت ہو چکے تھے اور آپ ﷺ رو رہے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے پر آنسو گر پڑے“۔

"وَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: "إِذَا کَفَّنَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ فَلْیُحْسِنْ کَفَنَہٗ" (رواہ مسلم، رقم الحدیث: 943) ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی تم میں سے اپنے بھائی کو کفن پہناتا ہے تو اچھی طرح کفن پہنائے“۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: "وَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلٰثَۃِ أَثْوَابٍ یَّمَانِیَّۃٍ بَیْضٍ سَحُوْلِیَّۃٍ مِّنْ کُرْسُفٍ لَّیْسَ فِیْھِنَّ قَمِیْصٌ وَّ لَا عِمَامَۃٌ" (متفق علیہ، رقم الحدیث: 1264) ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یمن کے سحولیہ کے تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جو کہ پنبے یعنی روئی کا تھا، نہ تو اس میں کرتہ تھا اور نہ پگڑی“۔

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے: "وَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: "لَا تُغَالُوْا فِي الْکَفَنِ فَإِنَّہٗ یَسْلُبُہٗ سَلْبًا سَرِیْعًا" (رواہ أبو داوٗد، رقم الحدیث: 3155) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کفن میں زیادتی نہ کرو، کیونکہ یہ جلدی لیا جاتا ہے، یعنی ضائع ہو جاتا ہے۔

"وَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ أَعَادَ الرُّوْحَ إِلٰی جَسَدِہٖ وَاخْتَلَفَتِ الرِّوَایَاتُ فِیْہٖ، قَالَ بَعْضُھُمْ: یَجْعَلُ الرُّوْحَ فِيْ جَسَدِہٖ کَمَا کَانَ فِي الدُّنْیَا وَ یُسْئَلُ وَ قَالَ بَعْضُھُمْ یَکُونُ السُّؤَالُ لِلرُّوْحِ دُوْنَ الْجَسَدِ وَ قَالَ یَجْعَلُ الرُّوْحَ فِيْ جَسَدِہٖ إِلٰی صَدْرِہٖ وَ قَالَ الْآخَرُوْنَ یَکَوْنُ الرُّوْحُ بَیْنَ الْجَسَدِ وَ الْکَفَنِ وَ فِيْ کُلِّ ذٰلِکَ جَاءَتِ الْآثَارُ، فَالصَّحِیْحُ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنْ یَّقُوْلَ الْعَبْدُ یُعَذَّبُ بَعَذَابِ الْقَبْرِ وَ لَا تَشْتَغِلُ بَکَیْفِیَّتِہٖ وَ نَقُوْلُ: اَللہُ أَعْلَمُ بِہٖ" ”اللہ تعالیٰ جو کہ عظیم و برتر ہے، مردے کی روح کو اس کے جسم کی طرف واپس کرتا ہے۔ اس بارے میں مختلف روایات ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس کی روح جسم میں اس طرح داخل ہوتی ہے جس طرح وہ دنیا میں تھا اور اسے بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ سوال روح سے کیا جاتا ہے نہ کہ جسم سے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ روح جسم میں اس کے سینے تک داخل ہوتی ہے۔ اور دوسرے کہتے ہیں کہ روح جسم اور کفن کے درمیان ہو جاتی ہے۔ اور ان سب کے پاس دلیلوں میں احادیث ہیں۔ لیکن علماء کرام کے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ بندے کو عذاب دیا جاتا ہے عذاب قبر سے۔ ہم اس کی کیفیت کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتے اور کہتے ہیں کہ خدا بہتر جانتا ہے“۔

وَ إِذَا مَاتَ الرَّضِیْعُ ھَلْ یُسْئَلُ فِی الْقَبْرِ؟ أَجْمَعُوْا عَلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا کُلُّ ذِيْ رُوْحٍ مِّنْ بَنِيْ آدَمَ فَإِنَّہٗ یَسْئَالُ فِي الْقَبْرِ وَ لٰکِنَّہٗ یُلَقِّنُہٗ الْمَلِکُ و یَقُوْلُ الْمَلِکُ لِلصَّبِيِّ قُلْ رَبِّيَ اللہُ أَحَدٌ إِلٰی آخَرِ السُّؤَالِ، وَ قَالَ بَعْضُھُمْ یُسْئَلُ الصَّبِيُّ الرَّضِیْعُ وَ لَا یُلَقِّنُہٗ بَلْ یُلْھِمُہٗ اللہُ تَعَالٰی أَيْ اَلْإِلْھَامَ مِنَ اللہِ تَعَالیٰ بِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ وَّ ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ أَمْرٍ مَّوْجُوْدٍ لَّمْ یُکُنْ فِیْہِ وَاسِطَۃٌ" جب کوئی شیر خوار بچہ مر جاتا ہے تو کیا اس سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے؟ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ بنی آدم کی ہر ذی روح سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے لیکن اس کو فرشتے بتاتے ہیں کہ کہو: ﴿قُلْ ھُوَ اللہُ أَحَدٌ﴾ (الإخلاص: 1) یعنی اللہ ایک ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ بچے سے پوچھا جاتا ہے، لیکن اس کو تلقین نہیں دی جاتی۔ یعنی فرشتے وغیرہ اس کو کچھ نہیں بتاتے، بلکہ اللہ تعالیٰ اُس کو الہام کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر کسی واسطے کے الہام ہوتا ہے، یعنی وہ ایک امر موجود ہوتا ہے جس میں کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

"وَ قَالَ الْفُقَھَاءُ: سَبْعَۃُ نَفَرٍ مَّاتُوْا بِلَا إِیْمَانٍ ثُمَّ یُسْلِمُوْنَ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حِیْنَ یَبْعَثُھُمُ اللہُ تَعَالٰی وَ یُحْیِیْھِمْ فَلَا یَمُوْتُوْنَ بَعْدَھَا فَیُدْخِلُهُمُ اللہُ تَعَالٰی فِی الْجَنَّۃِ امْرَأَةُ عَمِّ إِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ أَبُوْ إِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ حَاتِمٌ الطَّائِيُّ لِلسَّخَاوَۃِ وَ نَوْشِیْرَوَانُ بِسَبَبِ الْعَدْلِ وَ ظَاهِرُ الْغَازِيْ لِمُتَابَعَةِ إِبْرَاهِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِأَنَّهُ کَانَ جَارِیَ الطَّعَامِ بَعْدَ وَفَاةِ إِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسَاکِیْنِ وَ ھٰذِہِ الرِّوَایَۃُ مَعْمُوْلَۃٌ بِھَا اسْتِحْسَانًا وَّ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْہٗ قَالَ: زَارَ النَّبِيُّ ﷺ قَبْرَ أُمَّہٗ فَبَکٰی وَ بَکٰی مَنْ حَوْلَہٗ فَقَالَ: "اسْتَأْذَنْتُ رَبِّيْ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَھَا فَلَمْ یُؤْذَنْ لِّيْ وَ اسْتَأْذَنْتُہٗ فِيْ أَنْ أَزُوْرَ قَبْرَھَا فَأُذِنَ لِيْ فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَإِنَّھَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ" (رواہ مسلم، رقم الحدیث: 976) ”فقہاء رحمھم اللہ علیہم نے فرمایا ہے کہ سات آدمی ایسے ہیں، جن کی موت ایمان پر نہیں ہوئی، لیکن بعد میں ہمارے نبی ﷺ پر قیامت کے دن ایمان لائیں گے جب اللہ تعالیٰ ان کو اٹھائے گا اور ان کو زندہ کرے گا، اس کے بعد وہ نہیں مریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ ایک تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چچی ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد اور سخاوت کے طفیل حاتم طائی اور عدل کی وجہ سے نوشیروان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی متابعت کی وجہ سے ظاہری الغازی کو کیونکہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے بعد فقراء اور مساکین کو طعام دینا جاری رکھا، اور یہ روایت استحسانًا معمول ہے۔ اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت فرمائی۔ آپ ﷺ وہاں رو دئیے، اور ساتھ والے بھی رو دیے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ اپنی والدہ کے لیے استغفار کروں۔ لیکن مجھے اجازت نہ ملی۔ ہاں اس بات کی اجازت ملی کہ ان کی قبر کی زیارت کروں۔ پس قبور کی زیارت کرو کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہیں“۔ یہ حدیث شریف جو روایت کی گئی ہے، ظاہر ہے اور ان کے کفر پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کے اسلام اور دین کی تحقیق ہو گئی ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے تمام آباء اور امہات حضرت آدم علیہ السلام تک کا اسلام ثابت ہے۔ اور اس کے ثبوت میں تین طریقے ہیں: ایک یہ کہ سب حضرت ابراہیم کے دین پر تھے، یا یہ کہ ان کو زیادہ دعوت نہیں پہنچی تھی، کیونکہ یہ فترت کے زمانے میں تھے، اور نبوت کے زمانے سے قبل فوت ہوئے تیسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو زندہ کیا اور آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر ایمان لے آئے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے والدین اور چچا کے زندہ کرنے کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے، لیکن تعددِ طرق کی رو سے محدثین نے اس کی تحسین فرمائی ہے، یعنی اس کو حسن اور صحیح سمجھا ہے، گویا کہ متقدمین سے یہ بات مستور تھی، اور اللہ تعالیٰ نے متاخرین کو بتلا دی۔ ﴿وَ اللہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (البقرۃ: 105) ”اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص بناتا ہے“۔

شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے رسالے تصنیف فرمائے ہیں اور ان میں دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور مخالفین کا جواب دے چکے ہیں، اگر میں اس کو نقل کروں تو بات لمبی ہو جائے گی، وہاں دیکھنا چاہیے۔ اور متاخرین کا یہ قول مشکوٰۃ شریف کی شرح عبد الحق میں صحیح پایا ہے، اور نفس کتاب میں دیکھا ہے۔