حصہ 3 مقالہ 18: سماع اور رقص کے ذکر میں

اٹھارواں مقالہ

سماع اور رقص کے ذکر میں

رسالہ بوارق میں ذکر کیا گیا ہے کہ سماع کی اقسام ہیں: ایک حاجیوں کا سماع ہے کہ کعبہ شریف اور زمزم شریف کی صفت میں اور لوگوں کے ساتھ شوق میں بیت اللہ مبارک کی جانب ہو، یہ مباح ہے اور اس پر اتفاق ہے، پس جو سماع کعبہ مبارک اور بیت اللہ مبارک کے رب کے بارے میں ہو، اندازہ کرو کہ اُس کا کیا حال ہوگا۔ دوسرا نمازیوں اور مجاہدین کا سماع ہے، جو غزا اور جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں ہو، یہ بھی مباح اور مستحب ہے۔ تیسرا مجرد سماع ہے جو کہ طاعت و عبادت اور معاصی سے احتراز کی خاطر کیا جائے اور تھکاوٹ کو عبادت کی خاطر سے دور کر لے، یہ بھی محمود یعنی قابل تعریف اور مستحب ہے۔ چوتھا سماع طرب انگیز اور خوشی پیدا کرنے والا سماع ہے، جیسا کہ عیدین، شادی اور کسی کے سفر سے آمد یا ولادت وغیرہ پر ہوتا ہے، یہ بھی مباح ہے۔ فوائد الفواد سے نقل کیا گیا ہے کہ کل قیامت کے دن آدمی کو حکم دیا جائے گا کہ دنیا میں سماع کو سن چکے ہو؟ بندہ کہے گا کہ بار الٰہی! ہاں سنا تھا۔ حکم ہوگا کہ تم نے جو بیت اور شعر سن لیا تھا، اُس کو میرے اوصاف پر محمول کیا ہے۔ فرمان ہوگا کہ تیرا وہ خیال کرنا حادث تھا، اور میرے اوصاف قدیم ہیں۔

1؎ سماع سرور

حادث کو کس طرح قدیم پر حمل کرنا جائز ہوگا؟ وہ بندہ کہے گا: الٰہی! میں نے محبت کی زیادتی اور غلبہ کی وجہ سے ایسا حمل کیا اور ایسا خیال کر لیا فرمان آئے گا: "جب تم نے میری محبت کی وجہ سے ایسا کر لیا تو میں نے بھی تم پر رحم کیا۔" (از مترجم) بیت:

؎ فرشتو رحمت حق کو گناہ میرے بتا دینا

مگر یہ بھی بتا دینا یہ باتیں ہیں جوانی کی

نہایہ (ایک کتاب کا نام ہے) میں ہے کہ "اَلتَّغَنِّيْ وَ الْغِنَاءُ بِالتَّصْفِیْقِ وَ الْبُطُوْرِ وَ الْبَرْبَطِ وَ مَا یُشْبِہُ ذَالِکَ حَرَامٌ وَّ مَعْصِیَۃٌ" یعنی تالی بجانے، ستار بجانے، سارنگی، رباب اور ڈھول بجانے اور اس طرح کی جو چیزیں اس سے ملتی جلتی ہوں؛ یہ سب حرام اور گناہ کا کام ہے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلیل ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ (لقمان: 6) ”جو لوگ لہو باتوں کو لیتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے گمراہ کرے بے علمی سے اور اُس کو مذاق سمجھےان لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ یہ بات کتاب البررہ سے نقل کی گئی ہے۔

احیاء العلوم میں ہے کہ "اَلسَّمَاعُ قَدْ یَکُوْنُ حَرَامًا مَّحْضًا وَّ قَدْ یَکَوْنُ مُسْتَحَبًّا وَّ قَدْ یَکَوْنُ مَکْرُوْھًا" یعنی کبھی تو سرود مطلق حرام ہوتا ہے، کبھی مستحب اور کبھی مکروہ ہوتا ہے۔ "أَمَّا الْحَرَامُ فَھُوَ لِأَکْثَرِ النَّاسِ مِنَ الشَّبَابِ وَ مِمَّنْ غَلَبَتْ عَلَیْھِمُ الشَّھْوَۃُ فَلَا یُحَرِّکُ السَّمَاعُ مِنْھُمْ إِلَّا مَا ھُوَ الْغَالِبُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مِّنَ الصِّفَاتِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَ أَمَّا الْمَکْرُوْہُ فَھُوَ لِمَنْ لَّا یَنْزِلُ عَلٰی صُوْرَۃِ الْمَخْلُوْقِیْنَ وَ لٰکِنَّہٗ یَتَّخِذُہٗ عَادَۃً لَّہٗ فِيْ أَکْثَرِ الْأَوْقَاتِ عَلٰی سَبِیْلِ اللَّھْوِ وَ أَمَّا الْمُبَاحُ فَھُوَ لِمَنْ لَّا حَظَّ لَہٗ مِنْہُ إِلَّا التَّلَذُّذَ بِالصَّوْتِ وَ أَمَّا الْمَنْدُوْبُ فَھُوَ لِمَنْ غَلَبَ عَلَیْہِ حُبُّ اللہِ تَعَالٰی وَ لَا یُحَرِّکُ السَّمَاعُ مِنْہُ إِلَّا الصِّفَاتِ الْمَحْمُوْدَۃَ" (إحیاء العلوم، کتاب آداب السماع و الوجد، رقم الصفحۃ: 306/2، دار المعرفۃ، بیروت) ”اور جو حرام ہے، وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی جوانی کے لیے سنتے ہیں، یا ایسے لوگ ہوتے ہیں جن پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے تو سرود اُن کو بری صفات کے لیے اُن کے دل کو حرکت دیتا ہے۔ اور جو مکروہ ہے وہ وہی سرود ہے جو شہوت کی وجہ سے نہیں سنتے مگر اپنی بے ہودہ عادت کی وجہ سے سنا کرتے ہیں۔ اور مباح وہ ہے جس سے وہ مزہ تو نہیں لیتے، مگر صرف سرود کی آواز سے مزہ لیتے ہیں۔ اور مندوب سرود ان کے لیے ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے محبت کا غلبہ ہوا ہو، اور سرود اُن میں نیک صفت کے علاوہ کوئی دوسری چیز پیدا نہیں کرتا“۔ "قَالَ الشَّیْخُ أَبُوْ طَالِبٍ الْمَکِّيُّ: سَمِعْتُ الصَّحَابَۃَ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرَ وَ مُعَاوِیَۃَ وَ غَیْرَھُمَا: "مَنْ أَنْکَرَ السَّمَاعَ مُجْمَلاً فَقَدْ أَنْکَرَ سَبْعِیْنَ صِدِّیْقًا" ”شیخ ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن جعفر اور معاویہ اور دیگر اصحاب سے سنا ہے کہ جس نے سرود سے انکار کیا تو اُس نے ستر صدیقوں سے انکار کیا“۔

فتاویٰ عالیہ میں اس قول کے جواب میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک مجلس میں جمع ہو گئے اور اُن میں سے ایک مولانا روم صاحب کی مثنوی یا شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ کا دیوان پڑھتا ہو اور ان اہل مجلس میں سے کسی کو سرور آیا اور اپنے آپ کو زمین پر مارتا ہے، اور پاؤں زمین پر مار کر لوٹتا پوٹتا ہے تو شریعت میں یہ فعل حرام ہے یا کہ نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حرام نہیں ہے۔

اور اس میں آئمہ کرام کیا کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت صبح کی نماز کے بعد ان کلمات کو زبان سے ادا کرتے ہیں کہ "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" اور اس کو ورد یعنی وظیفہ بنا کر بلند آواز سے جہر کے طریقے پر کہتے چلیں تو یہ ورد شرعًا اسی وجہ سے ان پر جائز ہوگا یا کہ نہیں؟ جواب یہ ہے کہ جائز ہوگا۔ کتبہٗ مظفر

اور مسلمانوں کی ایک جماعت جمع ہو کر جہری طریقے پر ذکر کرنے لگے اور بعض لوگوں کی بغیر اختیار اور توقف کے چیخ نکل گئی یا اُن پر وجد طاری ہو گیا اور اُن کے تمام اعضاء مضطرب ہو کر پھڑکنے لگے تو شریعت میں کیا ان کی یہ چیخ اور وجد جو کہ بے اختیار ذکر کرنے کے وقت ان سے صادر ہوا ہے جائز ہے یا کہ نہیں؟ جواب یہ ہے کہ حرام نہیں ہے۔ اس کو علی العمادی اور علی بن محمد المدعو بہ سیف النسفی و احمد بن علم الشاہ البرہانی نے لکھا ہے۔

فائدہ:

شیخ الشیوخ نے فرمایا ہے کہ سماع کے منکرین کی تین حالتیں ہیں: یا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے جاہل ہیں یا اپنے علم پر غرور کرتے ہوں گے یا افسردہ طبع ہوں گے۔ بعض سماع سننے والے صاحبِ مطرب اور گویئے کی آواز سے لاکھوں رموز جو کہ پوشیدہ اسرار ہوتے ہیں، سمجھ پاتے ہیں۔ اور بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ سماع حرام ہے تو اس حرمت سے مراد عظمت ہے۔ چنانچہ کعبہ کو بیت الحرام کہتے ہیں، جس کا مفہوم ہے حُرمت اور عظمت کا گھر۔ (کذا فی شمائل اتقیاء)

دیگر:

ایک محقق نے فرمایا ہے کہ انسان کے ہر عضو کے لیے سماع سے ایک نصیب اور حظ ہوتا ہے۔ آنکھ اور زبان کا نصیب اور حصہ جوش و خروش ہے، ہاتھ کا نصیب گھڑے، دف وغیرہ کو مارنا اور پاؤں کا نصیب رقص کرنا ہے۔ (کذا فی شمائل اتقیاء)

سید جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ "إِنَّ الْحَبَشَۃَ کَانُوْا یَنْدِفُوْنَ بَیْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَ یَتَرَقَّصُوْنَ وَ النَّبِيُّ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ رَجَلٌ صَالِحٌ وَّ نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" یعنی حبش لوگوں کی جماعت رسول اللہ ﷺ کے سامنے بازی کرتے تھے، اور کھیلتے اور ناچتے تھے۔ اور حال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرد صالح اور رسول خدا تھے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ "أَنَّہٗ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ لِعَائِشَۃَ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا: "أَتُحِبِّیْنَ أَنْ تَنْظُرِيْ إِلَيْهِمْ؟" (السنن الكبرٰى للنسائي، کتاب عشرۃ النساء، باب: إباحۃ الرجل لزوجتہ النظر إلی اللعب، رقم الحدیث: 8902) ”رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرمایا کہ کیا تم چاہتی ہو کہ حبشیوں کو (کھیلتے ہوئے) دیکھ لو؟“ اور کیمائے سعادت میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ کی آڑ بنا کر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھایا۔ اگر کوئی کہہ ڈالے کہ حبشیوں کا یہ رقص نص کے خلاف ہے، فرمایا گیا ہے: ﴿أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ أَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (المؤمنون: 115) ”کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تم کو عبث اور بے فائدہ پیدا کر لیا ہے؟ اور کیا تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے؟“ تو ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ رقص عبث نہیں بلکہ ایک حرکت ہے جو کہ مسرت اور شادی کے وقت مباح ہے، تحریک اور خوشی میں رقص کرنا مباح ہے، پس یہ عبث نہیں۔ اور بعض احادیث جو کہ اس کی ضد میں ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ احادیث ضد نہیں ہیں، بلکہ وہ نسخ ہوئی ہیں۔ اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے بعد اصحاب کرام اور اولیائے عظام نے سماع سُن لیا ہے۔ (کذا نقل من شمائل اتقیاء)

غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے سے نقل ہے کہ "اَلْأَرْوَاحُ کُلُّهَا یَتَرَقَّصْنَ فِيْ قَوَالِبِھَا بَعْدَ قَوْلِہٖ: أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ" یعنی اللہ تعالیٰ نے ارواح سے جب سے یہ پوچھا کہ "أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ" تو تب سے تمام روحیں اپنے اپنے قالبوں میں رقص کرتی ہیں اور ایک حدیث میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آگے یہ شعر پڑھا گیا۔

؎ قَدْ لَسَعَتْ حَیَّۃُ الْهَوٰی کَبِدِيْ

فَلَا طَبِیْبَ لَهَا وَ لَا رَاقٖ

إِلَّا الْحَبِیْبُ الَّذِيْ شَفَقَتْ بِہٖ قَلْبِيْ

فَعِنْدَہٗ رُقِیَتِيْ وَ تِرْیَاقِيْ

”محبت کے سانپ نے میرے جگر کو ڈس لیا، پس اس کا نہ کوئی طبیب ہے اور نہ افسوں و منتر۔ سوائے اُس شخص کے جس پر میرا دل ریجھ گیا ہے، پس اُس کے پاس میرا دم اور تریاق ہے“۔

تو رسول اللہ ﷺ نے وجد کیا اور اصحاب نے بھی ویسا ہی وجد کیا، یہاں تک کہ آپ کے کندھے مبارک سے چادر گر پڑی، اور اُس چادر کو اصحاب کے حوالے کیا، انہوں نے اُس چادر کو چار سو ٹکڑے کر کے آپس میں بانٹ لیا، اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ نے کیا اچھا کام کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ "لَیْسَ بِکَرِیْمٍ مَّنْ لَّمْ یَتَهَزَّ عِنْدَ سَمَاعِ ذِکْرَ الْحَبِیْبِ" ”اے معاویہ! وہ شخص کریم نہیں جو دوست کا ذکر سننے کے وقت خوش نہ ہو“ اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب جبرئیل علیہ السلام تشریف لے آئے اور خوشخبری سنائی کہ اے رسول اللہ ﷺ! آپ کی اُمت کے درویش، اغنیاء اور دولت مندوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ پس رسول اللہ ﷺ اس بات سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو شعر کہے اور یہ شعر کہا گیا جو ذکر ہوا۔ (اتحاف السادۃ المتقین بشرح إحیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع و الوجد، الباب الثانی، رقم الصفحۃ: 774/7، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

حجۃ الاسلام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے سے نقل ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا کہ "أَنْتَ مِنِّيْ وَ أَنَا مِنْکَ" (سنن الترمذي، رقم الحدیث: 3716) ”میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو“ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ "أَنْتَ مَوْلَانَا وَ أَخُوْنَا" (الصحیح للبخاري، رقم الحدیث: 2699) ”تم ہمارے دوست اور بھائی ہو“ اور جعفر بن أبي طالب رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ "أَشْبَهْتَ خُلُقِيْ" (سنن الترمذي، رقم الحدیث: 3765) کہ تم عادت میں میری طرح ہو تو انہوں نے خوشی سے ”خجل“ کیا (جس کے معنی رقص ہے) اور چند دفعہ زمین پر پاؤں مارے جیسا کہ اہل عرب کی عادت تھی۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام نے تابوت سکینہ کا رقص کرتے ہوئے استقبال کیا۔ اور سیدی احمد رفاعی کے رسالہ میں ہے کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عوض ذبح کے لیے مینڈھا آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رقص کیا۔ (کذا نقل من شمائل الأتقیاء)

ابن عطار فرماتے ہیں کہ "اَلْحَرَکَۃُ فِي السَّمَاعِ عَلٰی ثَلَاثَۃِ مَعَانٍ: الضَّرْبُ وَ الوَجْدُ وَ الْخَوْفُ" ”سماع میں حرکت تین معانی کے لیے ہوتی ہے: طرب و وجد اور خوف“ طرب یعنی خوشی میں ہاتھ کو ہاتھ پر مارنا ہے اور وجد میں غایتِ اضطراب اور فریاد ہے اور خوف میں گریہ یعنی رونا اور منہ پر تھپڑ لگانا ہے۔ (کذا فی شمائل الأتقیاء)

رسالۂ کشف المحجوب سے نقل کیا گیا ہے کہ سماع میں کپڑوں کا پھاڑنا تین قسم پر ہوتا ہے: ایک بے خودی اور شوق کے غلبے کے وقت، دوسرا بزرگ شیخ اور مقتدا کی تقلید اور موافقت میں، تیسرا استغفار کی حالت میں کہ کوئی بڑا جرم اُس سے سرزد ہوا ہو۔ اگر کوئی بے خودی کی حالت میں کپڑوں کو پھاڑ دے اور اُس کے دوست اُس کی موافقت میں کپڑے پھاڑ ڈالیں تو یہ جائز ہے۔ جو کپڑا سرور اور سماع کے وقت گرایا گیا ہے، اُس کو دیکھا جائے کہ بالکل ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھاڑا گیا ہے یا تھوڑا سا پھٹا ہے، اگر مکمل ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھاڑا گیا ہے تو صاحب جمع اُس کو سی کر دے دے یا نیا کپڑا دے دے۔ اور اگر نیا کپڑا دے دے تو وہ صاحبِ جمع قوال کو دے دے۔ اور اگر شیخ یا مقتدا کا کپڑا ہو تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے سب لے لیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی چادر لی گئی تھی۔ اور ایک دوسرے قول کے مطابق اگر کسی نے اپنے کپڑے شوق اور بے خودی کی وجہ سے پارہ پارہ کیے تو وہ کپڑے قوال کا حق ہیں، کسی غیر کو نہ دیئے جائیں اس حدیث مبارک کی رو سے کہ "مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہٗ سَلَبُہٗ" (سنن الترمذي، رقم الحدیث: 1562) ”جس نے کسی کو قتل کیا (جہاد میں) تو اُس کا سامان اُس کے لیے ہے“۔

حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ سے نقل ہے کہ اگر ایک عام مرید شیخ کی مجلس میں موجود ہو تو اُس کے لیے بھی سماع جائز ہے، سماع سُن لے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "هٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الدعوات، باب: ما جاء إن لله ملائكة سياحين في الأرض، رقم الحدیث: 3600) ”یہ ایسی قوم ہے کہ ان کے ہمراہی جو ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، وہ بد بخت نہیں ہوتے“۔ یعنی اہل حق مشائخ ایسی قوم ہیں کہ ان کے ساتھی اور ہم مجلس کبھی بد بخت نہیں ہوتے، جیسا کہ شمائل اتقیاء میں ہے۔

شیخ نظام الحق و الدین قدس سرہ سے نقل کیا گیا ہے، فرماتے ہیں کہ سماع دو قسم پر ہے: ایک سماع ہاجم اور دوسرا سماع غیر ہاجم، ہاجم وہ سماع ہے کہ بیت یا حسن صوت کے مجرد سننے پر سامع جنبش اور حرکت میں آئے۔ اور غیر ھاجم وہ ہے کہ سامع جب سماع کو سُن پائے اور اُس سماع کو حق یا اپنے شیخ پر تحمیل کرے، اور سامع سوچ و فکر میں پڑے۔ حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ "اَلسَّمَاعُ وَارِدُ الْحَقِّ یُزْعِجُ الْقُلُوْبَ إِلَی الْحَقِّ" ”سماع واردِ حق ہے جو کہ دلوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف مائل کرتا ہے“۔ لوائح میں روایت ہے کہ ضعیف وارد اضطراب پیدا کرتا ہے اور قوی وارد درد کا باعث ہے۔ بیت

؎ اول تلوین دوم تمکین است

ایں ہر دو صفت دو جا تضمین است

’’پہلی تلوین ہے، اور دوسری تمکین ہے اور یہ دونوں صفتیں دو جگہوں اور مقامات کی متضمن ہیں‘‘۔


شیخ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ "اَلسَّمَاعُ رَسُوْلُ الْحَقِّ" ”سماع حق کا رسول ہے“ جو کوئی اس کو حق سے سُن لے وہ محقق ہو جاتا ہے، اور جو کوئی اس کو نفس کے لیے سن لیتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے۔


ایک محقق نے کہا ہے کہ "اَلسَّمَاعُ شَرَابُ الْحَقِّ" ”سماع حق کی جانب سے شراب ہے“، اور یہ سماع حقیقی ہے۔

دیگر:

سید احمد رفاعی فرماتے ہیں کہ جب صوفی سماع کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اُن کی گردنوں سے گناہ کا بوجھ اُتار دیتا ہے، سماع کے بعد ملائکہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ اس بار گناہ کو پھر سے ان کے گردنوں پر لاد دیں تو حکم ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ تو ہمارے عاشق ہیں، ہم اپنے دوستوں کی گردنوں پر کیسے بوجھ رکھ دیں۔ (کذا فی شمائل الاتقیاء)

سوال:

سماع میں تکلف جائز ہے یا ناجائز؟

جواب:

تکلف دو نوع پر ہے: ایک تکلف محمود ہے، اور دوسرا مذموم ہے۔ اگر شان و شوکت اور دُنیاوی نفع کے لیے ہو، تو یہ دھوکہ اور خیانت ہے اور جائز نہیں۔ اور اگر تکلف اس لیے ہو کہ حقیقت کے طلب کے لیے یہ بُکا (رونا) ہے تو یہ محمود یعنی اچھا ہے، کیونکہ یہ شرع میں محمود ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب اہل بلا (مصیبت زدہ) کو دیکھو، تو تم رو دو۔ اور اگر تم کو رونا نہیں آتا، تو خود رونے کی سی صورت بناؤ۔

اور جو سماع کی شرائط ہیں، وہ یہ تین چیزیں ہیں: مکان، زمان اور اخوان۔ شرح کافی المسمی بالحمیدی جس کو محمد بن علی نے تصنیف فرمایا ہے، میں لکھا ہے کہ یہ بات جان لو کہ ہمارے علماء کے نزدیک وہ سماع مکروہ ہے، جو تماشا اور گناہ کے ارادے کے لیے ہو۔ جس میں فاسق لوگ جمع ہو جائیں اور نماز چھوڑ دیں، اور قرآن پڑھنا ترک کریں۔ اور جب وہ لوگ نمازی اور قرآن خواں ہوں اور صالحین میں سے ہوں، تو پھر ان لوگوں کے لیے سماع حلال ہے اور اس کے حلال ہونے میں ہمارے علماء میں کوئی اختلاف نہیں، اور یہ کہ اس سماع سے ذکر اور اللہ تعالیٰ کی حضوری کے علاوہ کسی دوسری چیز کے حصول کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور ذکر الٰہی، خوفِ خدا اور فکر آخرت کا ارادہ رکھتا ہو، یہ سب اچھا ہے بُرا نہیں، اور اس طریقہ پر رقص کرنا اور وجد کرنا بھی اچھا ہے بُرا نہیں۔ پس یہ معلوم ہوا کہ اس کی حُرمت کی روایات جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہیں، وہ اسی (بد معاشوں اور فاسقوں کے) گروہ کے بارے میں ہیں، بس جھگڑا ختم ہو گیا، اب اگر کوئی نہ سمجھے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

حجۃ السالکین میں ہے، یہ بات جان لو کہ آدمی نفسی، روحی، قلبی اور عقلی ہوتے ہیں۔ پس جب تک وہ نفسی ہوتا ہے، تو وہ جانوروں کی طرح ہوتا ہے اور ایک جنس ہونے اور مشاکلت کی وجہ سے وہ تمام رذائل اور نقصانات جو اُن کی فطرت اور خصائص میں ہوتے ہیں، اس میں موجود رہتے ہیں۔ اور جب طالب نفسانیت کے دائرے سے پیر کامل کی تربیت سے نکل آتا ہے، تو وہ روحی اور قلبی ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر نفس روح کا تابع ہوتا ہے، حواس خمسہ معطل ہو جاتے ہیں اور اس کو سختی حاصل ہوتی ہے۔ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت اُس کے لیے سماع اور سرود درست ہے، کیونکہ وہ صاحبِ قلب ہو جاتا ہے، دل اور قلب اسرار و رموز کا خزانہ ہے اور جواہرِ معانی کی کان اور معدن ہے، اور سماع دلوں کے اسرار کو برانگیختہ کرنے والا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن پر اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہو اور اللہ تعالیٰ کے دیدار و ملاقات کا شوق رکھتے ہوں، سماع اُن کے شوق کو تحریک دیتا ہے اور اُن کی محبت کو افزوں تر کرتا ہے اور اُن کے احوال کو ظاہر کرتا ہے، اور اُن پر اتنے مکاشفے عیاں کرتا ہے جن کا کوئی شمار نہیں، اس مقام پر سماع حلال ہو جاتا ہے بلکہ مستحب ہو جاتا ہے۔ یہ طائفہ اپنی لیاقت کے مطابق الفاظ سے معانی تصور کرتا ہے جیسا کہ ان کی اصطلاحات معلوم ہیں۔ ان کی اصطلاحات کے خد و خال اور دوسری چیزوں کا ذکر کرنا باعثِ طوالت ہے۔ اہل ظاہر جو معانی سے بے خبر ہوتے ہیں، اگر اس کے منکر ہوں تو وہ معذور ہیں کیونکہ ایک اندھا شخص اگر حسین نظاروں و خوبصورت منظروں اور پانی کی روانی اور سبزے کی لذت سے انکار کرے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے، کیونکہ اُس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ اور اگر ایک بچہ بادشاہت کرنے کی لذت سے انکار کرے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے، کیونکہ اُس کو تو کھیل تماشے کا شوق ہے، حکمرانی کی لذت سے وہ کیا آشنائی و آگاہی رکھتا ہے۔ اگر کسی کے دل پر مخلوق کی محبت غالب ہو، اُن پر نظر کرنا حرام ہو تو سماع بھی اُس کے لیے حرام ہے۔ اور جس کے دل میں نہ تو خالق کی محبت غالب ہو اور نہ مخلوق کی تو اُس کے لیے سماع مباح ہے، جس طرح ذکر کے حالات میں کہا گیا۔ اور اگر کسی کے دل میں مخلوق کے محبت اکثر یعنی بہت زیادہ ہو اور حق کی محبت زیادہ یعنی اُس سے کم ہو تو اُس کے لیے سماع مکروہ ہے۔ پس سماع کی چار قسمیں ہیں: حلال، حرام، مباح و مکروہ، کَمَا قَالَ الشَّیْخُ مُحَمَّدٌ الْغَزَالِيُّ فِيْ إِحْیَاءِ الْعُلُوْمِ۔ لوگوں نے ابو رقاق سے سماع و سرود کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ "اَلسَّمَاعُ حَرَامٌ لِّلْعَوَامِّ لِبَقِیَّۃِ نُفُوْسِہِمْ" یعنی عوام کے لیے سماع و سرود حرام ہے کیونکہ اُن کے نفس اب تک باقی ہیں۔ "وَ مُبَاحٌ لِّلزُّهَّادِ لِحُصُوْلِ مُجَاھَدَتِھِمْ" ”اور زاہدوں کے لیے مباح ہے تاکہ وہ مجاہدہ کو حاصل کریں“ "وَ مُسْتَحَبٌّ لِّأَصْحَابِنَا لِحَیٰوۃِ قُلُوْبِھِمْ" ”اور ہمارے ساتھیوں کے لیے مباح ہے کیونکہ ان کے دل زندہ ہیں۔