حصہ 3 مقالہ 17: سہروردیہ اور قادریہ کے بزرگوں کے ذکر کے بیان میں

سترھواں مقالہ

سہروردیہ اور قادریہ کے بزرگوں کے ذکر کے بیان میں

ایک شخص نے سید الکونین ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! اسلام کی شریعت اور طریقے کثرت سے ہیں، مجھے ہدایت فرمائیے کہ میں کس چیز کو محکم پکڑ رکھوں؟ ارشاد فرمایا کہ اپنی زبان کو ذکر اللہ سے ترو تازہ رکھو۔ (سنن الترمذي، کتاب الدعوات، باب: ما جاء في فضل الذکر، رقم الحدیث: 3375) رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ ارشاد فرمایا: "دنیا سے جدائی اختیار کرو اور زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھو"۔ (شرح السنۃ للبغوي، کتاب الدعوات، باب: فضل ذکر اللہ عز و جل و مجالس الذکر، رقم الحدیث: 1245)

اور زبان سے کامل ذکر کرنا جہر کا ذکر ہے کیونکہ خفی ذکر میں عدم یعنی نہ ہونے کا شبہ ہوتا ہے، اور ذکر جہری اونگھنے والے کو بیدار کر دیتا ہے اور شیطان کو بھگا دیتا ہے۔ شیخ امین الدین گازرونی کے رسالہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سوال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "خَیْرُ الذِّکْرِ الذِّکْرُ الْخَفِيُّ" (مسند أحمد بمعناہ، مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ، مسند أبی إسحاق سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: 1477) کہ بہترین ذکر، ذکرِ خفی ہے۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پوشیدہ اور خفی انداز میں ذکر کرنا بہت بہتر ہے اُس ذکر سے جو کہ آشکارا اور جہر سے کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ذکر خفی وہ نہیں ہوتا جو کہ ذاکر کی زبان آہستہ سے کہے بلکہ یہ زبان کے ذکر سے الگ ہے، بلکہ دل کے ذکر سے بھی دور ہے اور سیر کے ذکر سے بھی بعید اور جان کے ذکر سے بھی ما وراء ہے، اس ذکر کی ماہیت اور کیفیت عقل اور علم مجاذی سے معلوم نہیں ہوتی۔ (کذا فی فوائد الخزانۃ الجلالیة، ترجمہ علامہ قشیری)

حضرت جبرئیل علیہ السلام جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں شرف حاضری کی سعادت حاصل کر کے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اُمت کو بھی وہ چیز مرحمت نہیں فرمائی جو آپ کی اُمت مرحومہ کو عنایت فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے استفسار فرمایا کہ وہ آخر کیا چیز ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اُمت کو فرمایا ہے کہ ﴿فَاذْکُرُوْنِيْ أَذْکُرْکُمْ…﴾ (البقرۃ: 152) ”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا“۔ شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "اَلذِّکْرُ مَنْشُوْرُ الْوِلَایَۃِ" ”ذکر ولایت کا منشور ہے“ یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نے ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائی وہ صاحبِ ولایت ہو گیا۔ (کذا فی شمائل أتقیاء)

اب ذکر کرنے کی تاثیر ملاحظہ فرمائیے۔

پہلی تاثیر:

جب ذاکر یعنی ذکر کرنے والا ذکر کرنے کی حقیقت سمجھ پائے تو ذکر کی حالت میں اُس کے دانتوں میں شہد سے زیادہ میٹھی مٹھاس اور حلاوت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ اُس مٹھاس کی وجہ سے اُس کے دانت ایک دوسرے کے ساتھ چپک جاتے ہیں، اور بہت مشکل سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ اُس کی خوراک وہی شیرینی اور مٹھاس ہوتی ہے، وہ موت کی حالت محسوس کرتا ہے، خلوت سے دور بھاگتا ہے اور لوگوں کے ساتھ ملنا چاہتا ہے، اس حلاوت کا ذوق دل جانتا ہے نہ کہ جسم، کیونکہ جسم کو اس کا علم نہیں ہوتا۔

دوسری تاثیر:

ذاکر اللہ کے ذکر سے جو کہ دل کا خاصہ ہے، روح کے ذکر تک رسائی حاصل کرتا ہے اور ''هُوْ'' کے مقام تک پہنچتا ہے، اُس کے دل میں ایک ہیبت پڑ جاتی ہے اور وہ اپنی ہستی سے نیست ہو جاتا ہے اور اس حالت کو عالم فنا کہتے ہیں۔ اس حالت میں انسان کی نفسانی یا جسمانی حرکت و سکون کا اختیار نہیں ہوتا، تمام حرکت و سکون ربانی ہو جاتے ہیں اور ربانی اس کا سِر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسی حالت پیش آتی ہے کہ اُس کے دل میں سِر پیدا ہو جاتا ہے، اس کو سِرِّ غیب کہتے ہیں، اس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی جانب سے خطاب سنتا ہے اور اُس سِر کا جواب کہتا ہے۔ اور جس وقت خطاب سن لیتا ہے تو وہ سر ہیبت سے مہر بلب اور خاموش ہو جاتا ہے، پس اُس کے تمام اعضاء و اندام سے ''هُوْ'' کا ذکر ہویدا ہو جاتا ہے۔ إِس مقام پر اگر کوئی "أَنَا الْحَقُّ"، "لَیْسَ فِيْ جَنْبِيْ سِوَی اللہِ وَ مَا سِوَی اللہِ" یا "مَا أَعْظَمُ شَأْنِيْ" کہہ ڈالے تو بجا ہے۔ (کذا فی شمائل أتقیاء)

ہر اُس شخص کو جس کو ذکر اللہ اور ذکرِ ''هُوْ'' ہاتھ آ جائے اور یہ اذکار اُس کے دل و جان پر غلبہ پا لیں تو دونوں جہانوں کی عزت اور دولت جاوید اور سعادت دوامی اور اللہ تعالیٰ کی مجالست کا شرف اُس کو نصیب ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "أَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ" (سیر أعلام النبلاء، ابن سمعون، رقم الصفحۃ: 452/12، دار الحدیث، القاہرۃ) یعنی جو میرا ذکر کرتا ہے، میں اُس کا جلیس اور ہمنشین ہوں۔

سہروردی طریقہ کے مرشدوں اور مشائخ کی سند سے "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کے کلمہ کا ذکر چار ضربوں سے اس طریقہ پر ہے: پہلا یہ کہ نماز میں بیٹھنے کی طرح بیٹھ جائے اور اپنی دونوں آنکھیں اپنے دونوں گھٹنوں کے اوپر جمائے رکھے اور دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں دونوں گھٹنوں تک پہنچ جائیں، پھر اُن کے منہ بند کر کے اپنا سر دونوں گھٹنوں کے درمیان تک لے جائے، اور وہاں سے "لَا إِلٰہَ" دل سے پوری قوت سے اور انتہائی زور سے ایک لمبے مَدّ (مدِّ دراز) کے ساتھ نکال کر آسمان کی جانب لے جائے یہاں تک کہ "إِلٰہَ" کی ''ھَا'' یہاں ختم ہو جائے، اور اس وقت منہ بھی آسمان کی جانب رکھے۔ اور اُس کے بعد "إِلَّا اللہُ" دائیں طرف سے شَدْ کے ساتھ کھینچتا ہوا لا کر دل پر مارے یہاں تک کہ "إِلَّا اللہُ" کی ''ھَا'' یہاں پر ختم ہو جائے۔ اور "لَا إِلٰہَ" کہتے وقت دل میں یہ مفہوم لائے کہ کوئی ''إِلٰہ'' جو میرے عقل فہم و اِدراک میں مشکل ہو سکے موجود نہیں۔ اور "إِلَّا اللہُ" کی ضرب کی حالت میں دل میں یہ لائے، مگر بجز اللہ تعالیٰ کے جو کہ معبود برحق ہے، چاہیے کہ جیسا کہا گیا ہے، ویسا ہی ذکر کیا جائے۔

اور سلطان ابو سعید مخزومی کا "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ"

اعتداز:

فقیر مترجم کو اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا کھلے دل سے اعتراف ہے۔ مزید براں کلمہ شریف کے ذکر کا طریقہ علم سے بڑھ کر عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ جب تک مرشد اور شیخ اس کے طریقے کی علمی ہدایت نہ فرمائے، صرف باتوں اور لکھنے پڑھنے سے اس کا سمجھنا مشکل بلکہ قریبًا ناممکن ہے۔ اس لیے میرے ترجمے کے اندازِ بیان میں کمی اور کجی کو نظر انداز فرما کر قارئین سے استدعا ہے کہ کسی شیخ کا دامن ہدایت تھام کر طریقۂ ذکر سیکھا جائے۔

کا طریقۂ ذکر یہ ہے: "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" دائیں طرف سے زمین تک اپنا سر لے جائے اور ''ھَا'' کو توڑ کر زمین تک لے آئے اور پھر اوپر لے جا کر ضرب کرے۔ "إِلَّا اللہُ" کو دو دفعہ الف کی طرح سیدھا ہو کر انجام دے دے۔ خواہ یہ ذکر جلی کرے یا خفی، یہ طریقہ ذکر خفی اور جلی دونوں طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

ایضًا ذکرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ:

"لَا إِلٰہَ" دل میں کہے اور "إِلَّا اللہُ" دل میں کہہ کر دل پر ضرب کرے، یعنی "لَا إِلٰہَ" کی مد کو کوتاہ اور مختصر سانس اور آہستہ سے چار انگشت کے مقدار سے کہہ کر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے زور سے سانس کو اندر بارہ انگشت (اُنگلیوں) کے برابر زور سے لے جائے یہاں تک کہ سانس دل پر ضرب کرے اور دل میں تھوڑی دیر روکے رکھے، اور یہ دل کی روشنی اور عمر زیادہ کرتا ہے اور اس ذکر میں بہت زیادہ اثر ہے، اور یہ طریقہ ذکر ہر حال میں حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کلام میں، خواب میں، طعام، قیام، قعود، سجود، رات، دن، خلوت اور جلوت وغیرہ میں یہ ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس ذکر میں فتح اور غیبی فتوحات ہوتے ہیں اور جو کچھ ہو سکتا ہے ہو جاتا ہے۔

لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے کلمہ کا دو حلقی ذکر اس طریقے پر ہوتا ہے:

یعنی "لَا" کا کلمہ مدِ دراز یعنی لمبے طور پر کھینچتے ہوئے ناف سے یا دل سے بلند آواز سے کھینچے اور دائیں ہاتھ کی جانب لے جائے، یعنی حلقہ کی طرح بنائے اور "لَا إِلٰہَ" کے کلمے کو بائیں طرف لے آئے، اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" کے کلمے کی دل پر ضرب کرے، یہ اونچی آواز سے کرے اور یہ مضبوطی سے دل پر ضرب کرے تاکہ دل میں حرکت آ جائے، اور دل کی دونوں سوراخ کھل جائیں، کیونکہ دل میں دو (2) سوراخ ہوتے ہیں، ایک اوپر کی جانب اور دوسرا سوراخ نیچے کی طرف، ذکر جلی سے اوپر کا سوراخ کھل جاتا ہے، اور ذکر خفی سے نیچے کا سوراخ کھل جاتا ہے، اور جب زبان سے "إِلَّا اللہُ" کہہ ڈالے تو دل میں بھی موجود خیال کرے، اس عمل کو ارادتِ ذکر، مراقبۂ ذکر اور ملاحظۂ ذکر کہتے ہیں۔

اور چاہیے کہ اس پیچش کو پہچان لے، پہلی قید و پیچش دنیا ہے اور دوسری غیر حق کی محبت ہے۔ اور ذکر کرنے کی حالت میں اپنے مذکور (جس کا ذکر کیا جائے) اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح جان لے کہ میں نے دونوں محبتوں کو اپنے دل سے دور کیا اور دونوں یعنی حبِ دنیا و حبِ غیرِ حق کو پس پشت ڈال دیا۔ اور ایسا نیست و نابود کر دیا کہ "إِلَّا اللہُ" کی ضرب کے وقت نورِ الٰہی کو حاضر کیا، اور "لَا إِلٰہَ" کے کھینچنے اور کہنے کے موقع پر غیر حق کی محبت کو دل سے باہر کھینچ پھینک دیا، اس کو بھی مراقبہ کہتے ہیں، اس ذکر کے بغیر کشادگی حاصل نہیں ہوتی۔ اور اس جگہ جاننا چاہیے کہ یہ مذکور (1) جلی، (2) خفی طریقے سے، (3) ادائے جلی و ضرب خفی، (4) اور ادائے خفی و ضرب جلی؛ الغرض چاروں طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، اور چاروں طریقوں کا بیان اجمالی طور پر فصل سابق میں بیان ہو چکا ہے، وہاں دیکھ کر ذکر کرے یا ذاکر کے خیال میں جس طرح ہو، یعنی "لَا إِلٰہَ" اپنے دل کے خیال کے مطابق کہے اور "إِلَّا اللہُ" کی بھی خیال سے ضرب کرے، اور خاص حبس کرے (سانس روکے رکھے) اور حالت ذکر میں پانی نہ پیا کرے، خواہ پیاسا کیوں نہ ہو۔

یہ بات رسالہ گنج ارشاد الطالبین میں اس طرح لکھی گئی ہے: "کلمہ "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کا ذکر جس کو یک حلقی اور ذکرِ سہروردی کہتے ہیں، یہ ذکر ایسا ہے کہ "لَا إِلٰہَ" کا کلمہ ناف سے لے جا کر سیدھا دائیں ہاتھ کو لے جا کر کلمۂ "إِلَّا اللہُ" کی دل پر بآواز بلند ضرب کرے، اور "لَا إِلٰہَ" کے ذیل میں دل میں "لَا مَوْجُوْدَ" اور "لَا مَقْصُوْدَ" گزارے، اور "إِلَّا اللہُ" کے ضرب مارتے ہوئے دل میں موجود خیال کرے۔

ذکر کلمۂ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ:

کلمہ "لَا إِلٰہَ" دل سے آسمان کی طرف مَد کے ساتھ کھینچ کر لے جائے، اور اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" کے کلمہ کی دل پر ضرب کرے، اور مذکورہ ذکر کا مراقبہ جس طرح ذکر کیا گیا ہے اپنے دل میں لائے۔

ابدالوں کے طریقے سے کلمۂ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا ذکر:

جو کوئی اس طرح ابدالوں کے طریقے پر ذکر کرے تو ابدال اُس کے پاس حاضر ہوں گے اور زور زور سے ذکر کریں گے۔ اور ابدال کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس طرح سے بیٹھے جیسا کہ نماز کے لیے بیٹھتے ہیں، پھر دونوں آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھوں کو باندھ کر منہ کے نزدیک لائے اور "لَا إِلٰہَ" کا کلمہ پڑھ لے، اُس کے بعد اُسی طرح بندھے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ساری اُنگلیوں سمیت منہ میں ڈالے، اس ذکر میں دو رمز ہیں: پہلا رمز یہ ہے کہ ہاتھ بندھی ہوئی حالت میں نفی کہتے ہوئے یہ جان لے کہ غیر حق کی محبت کو میں نے دل سے نکال کر پھینک دیا۔ دوسرا رمز یہ کہ "لَا إِلٰہَ" کہتے ہوئے دونوں ہاتھ انگلیوں سمیت کہتے ہوئے اور منہ میں اندر کرتے اور ڈالتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ میں نے نور الٰہی لے کر منہ میں ڈال دیا اور دل میں داخل کر دیا، اس ذکر میں بہت سے اسرار ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے طالبوں کو نصیب فرمائے، اور اس ذکر سے روزی میں فراخی ہو گی۔

اور کلمۂ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا سہ رکنی ذکر اس طریقے سے کرے:

"لَا إِلٰہَ" راستًا (دائیں طرف) "لَا إِلٰہَ" چپًا (بائیں ہاتھ کی طرف) اور "لَا إِلٰہَ" آگے کی طرف جائے اور "إِلَّا اللہُ" کو خوب دل پر جمائے۔

اور "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کا چہار رکنی ذکر اس طرح کرے:

"لَا إِلٰہَ" راستًا (دائیں جانب)، "لَا إِلٰہَ" چپًا (بائیں جانب)، "لَا إِلٰہَ" پیچھے، "لَا إِلٰہَ" آگے "لَا إِلٰہَ" کی ضرب دل پر کرے۔

لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا پانچ رکنی ذکر اس طرح کرے:

"لَا إِلٰہَ" راستًا (دائیں جانب)، "لَا إِلٰہَ" چپًا (بائیں جانب)، "لَا إِلٰہَ" پیچھے، "لَا إِلٰہَ" آگے، "لَا إِلٰہَ" اوپر اور "إِلَّا اللہُ" دل پر دے مارے۔

چھ رکنی ذکر اس طرح کرے:

"لَا إِلٰہَ" راستًا (دائیں جانب)، "لَا إِلٰہَ" چپًا (بائیں جانب)، "لَا إِلٰہَ" پیچھے، "لَا إِلٰہَ" آگے، "لَا إِلٰہَ" زمین کے نزدیک، "لَا إِلٰہَ" اوپر کی جانب اور "إِلَّا اللہُ" دل پر دے مارے، نفی کہنے سے إِلٰہ باطل ہوں گے اور اثبات سے حق تعالیٰ کو پہچان جائے گا۔ کہ وہ موجود اور ناظر یعنی دیکھنے والا ہے۔

إلّا اللہُ کا ذکر:

"إِلَّا اللہُ" کے کلمے کا ذکر چھ طریقے پر ہے: ایک طریقہ یک ضربی یعنی "إِلَّا اللہُ" کا کلمہ دل پر بائیں طرف محکم اور زوردار طریقے سے ضرب کرے تاکہ اُس کا معنیٰ اور مفہوم دل میں جاگزیں ہو جائے اور وہ یہ ہے "یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَوْجُوْدُ" دل میں خیال کرے تاکہ فائدہ دے دے۔ اور دو ضربی یہ ہے کہ "إِلَّا اللہُ" کا کلمہ دائیں جانب پڑھے اور "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" بائیں طرف دل پر ضرب کرے اور وہی ذکر کردہ معنے دل میں خیال کرے۔ چہار ضربی طریقہ یہ ہے کہ "إِلَّا اللہُ" راستًا (دائیں جانب)، "إِلَّا اللہُ" چپًا (بائیں جانب، "إِلَّا اللہُ" آگے اور "إِلَّا اللہُ" دل پر ضرب کرے۔ اور وہی مذکورہ معنیٰ دل میں جمائے رکھے۔ پانچ ضربی طریقہ یہ ہے کہ "إِلَّا اللہُ" کا کلمہ راستًا (دائیں)، "إِلَّا اللہُ" چپًا (بائیں)، "إِلَّا اللہُ" آگے، "إِلَّا اللہُ" آسمان کی طرف اور "إِلَّا اللہُ" کی دل پر ضرب کرے اور مذکورہ معنیٰ دل میں جمائے رکھے۔ شش ضربی طریقہ یہ ہے کہ کلمۂ "إِلَّا اللہُ" دائیں، "إِلَّا اللہُ" بائیں، "إِلَّا اللہُ" پیچھے، "إِلَّا اللہُ" آگے، "إِلَّا اللہُ" اوپر آسمان کی طرف اور "إِلَّا اللہُ" دل پر زور سے اور قوت سے دے مارے اور وہی مذکورہ معنیٰ میں لائے۔

اسمِ ذات کا ذکر:

اسمِ ذات کا ذکر بھی چھ قسم پر ہے۔

یک ضربی:

یعنی لفظ اللہ ناف کے نیچے دل سے نکالے اور مدہ اوپر لے جا کر دل میں "یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَوْجُوْدُ" کا خیال کرے۔

دو ضربی:

یعنی اللہ کا لفظ راستًا (دائیں جانب) کہے اور اللہ بائیں طرف دل سے کھینچ لائے اور پہلے طریقے سے مذکورہ معنیٰ دل میں رہے اور اسی طریقے سے جو کچھ دل میں ہو، اُسی طریقہ سے اللہ تعالیٰ کہہ ڈالے تاکہ مذکورہ معنی دل اور خیال میں رہے۔

سہ ضربی:

یعنی اللہ کا لفظ راستًا (دائیں جانب) کہے، اللہ کا لفظ بائیں یعنی چپًا کہے اور اللہ کا لفظ دل پر زور سے ضرب کرے۔

چار ضربی:

یعنی لفظ اللہ راستًا (دائیں جانب)، لفظ اللہ چپًا (بائیں جانب)، اللہ آگے اور اللہ کا لفظ دل پر مضبوطی سے ضرب کرے۔

پانچ ضربی:

لفظ اللہ راستًا (دائیں جانب)، لفظ اللہ چپًا (بائیں جانب)، اللہ کا لفظ آگے اور اللہ کا لفظ آسمان کی طرف اور پھر لفظِ اللہ کو دل پر مضبوطی سے مارے، تاکہ اس کا مفہوم بھی عمل میں آئے۔

شش ضربی:

یعنی اللہ کا لفظ راستًا (دائیں جانب)، اللہ کا لفظ چپًا (بائیں جانب)، اللہ کا لفظ پیچھے، اللہ کا لفظ آگے، اللہ کا لفظ آسمان کی طرف اور لفظِ اللہ کو دل پر ضرب کرے تاکہ مذکورہ معنیٰ عمل میں آ جائے یعنی لفظ وغیرہ کا ذکر۔ یہ ذکر گیارہ ضربوں سے پورا ہو جاتا ہے، اب ان شاء اللہ تمام مشہور و معروف ذکر لکھے جائیں گے۔

إِلَّا ھُوْ کے کلمے کا ذکر:

یک ضربی:

اس کی سند بھی ذکر اللہ کی طرح یعنی یک ضربی ہے۔ اور اس طرح ذکر کیا جائے: "إِلَّا ھُوْ" واؤ کے سکون و جزم کے ساتھ دل پر زور سے اور مضبوطی سے ضرب کرے، اور سانس روکے رکھے۔ تاکہ یہ معنیٰ مفہوم ہو جائے کہ "یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَوْجُوْدُ"۔

دو ضربی:

یعنی "إِلَّا ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ راستًا (دائیں جانب) کہے اور واؤ کے سکون کے ساتھ چپًا (بائیں جانب) کہے۔ دل پر مضبوطی سے ضرب کرے اور سانس کو روکے رکھے اور "یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَوْجُوْدُ" دل میں وہم کرے، اور اسی پر قیاس کرے۔ اور جو ضرب دل پر کرے واؤ کے سکون اور جزم کے ساتھ کرے، اور مذکورہ معنی دل میں مفہوم رکھے۔ اور جو ضرب جہت اور طرف سے ہو، واؤ کے زیر کے ساتھ کرے اور ضرب کے وقت دل پر واؤ کے زبر کے ساتھ ضرب کرے۔

سہ ضربی:

یعنی "إِلَّا ھُوْ" کا کلمہ راستًا (دائیں جانب)، "إِلَّا ھُوْ" چپًا (بائیں جانب) اور "إِلَّا ھُوْ" دل پر ضرب کرے۔

چار ضربی:

یعنی کلمہ "إِلَّا ھُوْ" راستًا (دائیں جانب)، "إِلَّا ھُوْ" چپًا (بائیں جانب)، "إِلَّا ھُوْ" پیش یعنی آگے کہے، "ہو ہو ہو" کہے، "إِلَّا ھُوْ" آسمان کی طرف اور "إِلَّا ھُوْ" دل پر ضرب کرے۔

شش ضربی:

یعنی کلمہ "إِلَّا ھُوْ" راستًا (دائیں جانب)، "إِلَّا ھُوْ" چپًا (بائیں جانب)، "إِلَّا ھُوْ" پیچھے، "إِلَّا ھُوْ" آگے، "إِلَّا ھُوْ" آسمان کی طرف اور "إِلَّا ھُوْ" دل پر ضرب کرے۔ "إِلَّا ھُوْ" کا ذکر "إِلَّا" کے بغیر اس سند سے کرے: "ھُوْ" واؤ کے جزم کے ساتھ دل پر محکم ضرب کرے اور آرے کی طرح اپنا سر آگے لایا کرے اور سانس روکے رکھے اور نہ چھوڑے، اور یہ معنیٰ دل میں جم جائے کہ "ھُوَ الْأَوَّلُ وَ الْآخَرُ وَ الظَّاهِرُ" یہ ضروری ہے کہ ہر ضرب دل پر "ھُوْ" واؤ کے جزم کے ساتھ ہو اور دل پر محکم طریقے سے ضرب ہو، اور آرے کی طرح سر کو آگے لایا کرے اور مذکورہ مفہوم دل میں قائم رکھے۔

دو ضربی:

کلمۂ "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ راستًا (دائیں جانب)، اور واؤ کے جزم کے ساتھ چپًا (بائیں جانب) دل پر ضرب کرے۔ اور آرے کی طرح سر کو آگے لایا کرے اور مذکورہ مفہوم کو دل میں رکھے۔

سہ ضربی:

کلمۂ "ھُوَ" واؤ کے فتح یعنی زبر کے ساتھ راستًا (دائیں جانب)، واؤ کے زبر کے ساتھ چپًا (بائیں جانب) اور واؤ کے جزم کے ساتھ چپًا (بائیں جانب) دل پر ضرب کرے، اور آرے کے طریقے پر سر کو آگے لائے اور مذکورہ مفہوم دل میں لائے۔

چار ضربی:

کلمہ "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ راستًا (دائیں جانب)، "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ چپًا (بائیں جانب)، واؤ کے زبر کے ساتھ آگے اور واؤ کے جزم کے ساتھ دل پر ضرب کرے اور مذکورہ مفہوم دل میں جمائے رکھے۔

پنج ضربی:

کلمہ "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ راستًا (دائیں جانب)، "ھُوَ" واؤ کے فتح (زبر) کےساتھ چپًا (بائیں جانب)، "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ آگے، "ھُوَ" واؤ کے فتح کے ساتھ آسمان کی طرف اور "ھُوْ" واؤ کے جزم کے ساتھ دل پر ضرب کرے اور آرے کی طرح اپنا سر آگے لاتا رہے اور مذکورہ مفہوم دل میں لائے۔

شش ضربی:

کلمہ "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ راستًا (دائیں جانب)، "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ چپًا (بائیں جانب)، "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ آگے، "ھُوَ" واؤ کے زبر کے ساتھ آسمان کی طرف اور "ھُوْ" واؤ کے جزم کے ساتھ دل پر ضرب کرے۔ اور آرہ کشی کے طریقے پر سر کو آگے لے جائے اور مذکورہ معنی دل میں لاتا رہے۔

ذکر معرفت:

یہ ذکر عارفوں کے لوازمات میں سے ہے اور ان کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ اس سند و طریقے سے دل میں خیال کرے اور اس وہم و خیال کے علاوہ دل میں کوئی دوسرا وہم نہ لائے: "ھَ ہُ ہِ ھَیْ أَہْ ھْوَ ھِیْ اُہْ" یہ ذکر ہر حال میں کہے۔ اگر مربع بیٹھے یا غیر مربع بیٹھے، بلکہ کھڑے، بیٹھے وغیرہ جس حال میں ہو، اور جس شکل پر ہو، اس ذکر سے غافل نہ ہو، خواہ سوتے وقت ہو یا جاگنے کے وقت ہر وقت یہ ذکر جاری رکھے، بلکہ اگر ممکن ہو تو ایک سانس میں سو دفعہ بلکہ دو سو دفعہ پڑھتا رہے۔

اس ذکر کے صرف اور اعراب کے بیان میں:

ذکر معرفت جو گزر گیا۔ سب سے پہلے اس کے تینوں ہؔا ''ہ'' کو جدا جدا رکھے، پہلے ہؔا کو زبر، دوسرے کو پیش، اور تیسرے کو زیر ''ہَ ہُ ہِ''۔ اس کے بعد ہؔا اور یؔا اِکھٹے اور متصل ہیں، ہؔا کا زبر اور یؔا کا جزم ہے۔ اس کے بعد الفؔ اور ہؔا متصل ہیں، الفؔ کا زبر اور ہؔا کا جزم ہے۔ اس کے بعد ہؔا اور واؤ متصل ہیں، ہؔا کا پیش اور واؤ کا جزم ہے۔ اس کے بعد ہؔا اور یؔا متصل ہیں، ہؔا کا زیر یعنی کسرہ اور یؔا کا جزم ہے۔ اس کے بعد الفؔ اور ہؔا متصل ہیں۔ الفؔ کا پیش اور ہؔا کا جزم ہے، اچھی طرح سمجھ لیں۔

آسمان اور زمین کے کشف کے لیے ذکر کرنے کا طریقہ:

اس طریقے سے ذکر کرے: "إِلَّا ھُوْ" آہستہ ظاہر کرے، "إِلَّا ھُوْ" نمایاں کر کے ظاہر کر کے دل پر ضرب کرے۔ آسمان و زمین کے کشف کی علامت یہ ہے کہ جب اپنے آپ کو گھوڑے پر سوار دیکھے تو یہ اعلیٰ مرتبہ ہے۔ اور اگر کسی دوسرے کے کندھے پر دیکھے تو یہ درمیانی مرتبہ ہے۔ اور اگر اپنے آپ کو چھت پر دیکھے تو یہ ادنیٰ مرتبہ ہے۔

ایضًا مذکورہ کشف کے بارے میں:

اسمِ ذات کے کلمے یعنی لفظ اللہ کا ذکر دوسرے طریقے سے یعنی محاربۂ کے طریقے سے یک ضربی سے ذکر کرے۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ اللہ اوپر سے کھینچ کر دل پر ضرب کرے، منہ کو بند کرے، اور آواز کو چھپائے، باہر نہ نکالے۔

ایضًا، حدادی طریقے سے اسم ذات کا ذکر:

اور وہ اس طرح ہے: یعنی لفظ اللہ کو آسمان پر لے جا کر الف کی طرح سیدھا کر کے دل پر ضرب کرے۔

ایضًا، آرہ کشی کے طریقے پر اسم ذات کا ذکر:

اور وہ یہ ہے کہ آرہ چلانے کے طریقے سے لفظ اللہ کو دل سے نکال کر اپنا سر آگے کر کے زمین کے قریب لے جا کر سر کو زمین کے قریب سے اُٹھا کر برابر کر کے الف کی طرح اللہ کو دِل پر ضرب کرے۔

اسمِ ذات کا ہفت ضربی ذکر یہ ہے:

اللہ راستًا (دائیں جانب)، اللہ چپًا (بائیں جانب)، اللہ پیش (آگے)، اللہ پس (پیچھے)، اللہ زمین کے قریب، اللہ آسمان کی طرف اور اللہ دل پر ضرب کرے۔

ہشت ضربی طریقہ یہ ہے:

اللہ راستًا (دائیں جانب)، اللہ چپًا (بائیں جانب)، اللہ آگے، اللہ پیچھے، اللہ زمین کے قریب، اللہ آسمان کی جانب، اللہ پھر راستًا (دائیں جانب) اور اللہ پھر بطرف قبلہ اللہ دل پر ضرب کرے۔

داہ ضربی یہ ہے:

اللہ راستًا (دائیں جانب)، اللہ چپًا (بائیں جانب)، اللہ آگے، اللہ پیچھے، اللہ زمین کے قریب، اللہ آسمان کی جانب، پھر اللہ راستًا (دائیں جانب)، پھر اللہ طرفِ چپًا (بائیں جانب) اور پھر اللہ آگے کی جانب اللہ دل پر ضرب کرے۔

یاز دہ ضربی یہ ہے:

اللہ راستًا (دائیں جانب)، اللہ چپًا (بائیں جانب)، اللہ آگے، اللہ پیچھے، اللہ قریب زمین، اللہ طرف آسمان، پھر راستًا (دائیں جانب)، پھر اللہ طرف چپًا (بائیں جانب)، پھر اللہ آگے کی طرف، پھر اللہ پیچھے کی طرف اور پھر اللہ دل پر ضرب کرے۔ اسی طریقے پر "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کے ذکر کو بھی قیاس کرو، یعنی کلمۂ نفی کو سات ضرب یا آٹھ ضرب یا نو ضرب یا دس ضرب یا گیارہ ضرب اور کلمۂ "إِلَّا اللہُ" کو دل پر ضرب کرے۔ اور اسی پر کلمۂ "إِلَّا اللہُ" کے ذکر کو بھی قیاس کی جائے۔ اور اسی پر کلمۂ "إِلَّا ھُوْ" کے ذکر کا قیاس کیا جائے۔ اور تمام کلمے کا ذکر یعنی "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کا ذکر (جو کہ دس ارکان پر مشتمل ہے) کے بارے میں بھی فرق نہیں کرنا چاہیے، یعنی "إِلَّا اللہُ" دو حلقی طریقہ پر کیا جائے، اس کے بعد آرہ کشی کے طریقہ پر سر کو آگے لے جائے اور اُس کے بعد "إِلَّا اللہُ" طریقِ حدادی پر دو ضربی کے طریقہ سے برابر کیا جائے، سیدھے الف کی طرح دل پر ضرب کرے اس کے بعد "إِلَا اللہُ" کو سہ رکنی طریقہ سے یعنی راستًا و چپًا (دائیں اور بائیں جانب) اور دل کی طرف کہے۔ اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" چار رکنی طریقہ سے یعنی راستًا و چپًا (دائیں اور بائیں جانب) اور آگے اور دل پر ضرب کرے۔ اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" پنج رکنی طریقے سے راستًا و چپًا، آگے، آسمان کی طرف اور دل کی طرف ضرب کرے۔ اس کے بعد شش رکنی طریقے یعنی راستًا و چپًا (دائیں اور بائیں جانب) و آگے و پیچھے اور آسمان کی جانب اور دل پر ضرب کرے۔ اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" ہفت رکنی طریقہ سے یعنی راستًا (دائیں جانب)، چپًا (بائیں جانب)، آگے، پیچھے، زمین کے قریب اور آسمان کی جانب اور دل کی طرف ضرب کرے۔ اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" ہشت رکنی یعنی راستًا (دائیں جانب)، چپًا (بائیں جانب)، پیش و پس اور زمین کے قریب اور آسمان کی طرف، پھر راستًا اور پھر دل کی طرف ضرب کرے۔ اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" نو رکنی یعنی راستًا (دائیں جانب)، چپًا (بائیں جانب)، پیش و پس (آگے اور پیچھے)، زمین کے قریب، آسمان کی طرف، پھر راستًا (دائیں جانب)، پھر چپًا (بائیں جانب) اور پھر دل کی جانب ضرب کرے۔ اس کے بعد "إِلَّا اللہُ" دس رکنی یعنی راستًا (دائیں جانب)، چپًا (بائیں جانب)، پیش و پس (آگے اور پیچھے)، آسمان کی طرف، زمین کی طرف، پھر راستًا (دائیں جانب)، پھر چپًا (بائیں جانب)، پھر آگے اور پھر دل کی جانب ضرب کرے۔

ذکرِ بیچون، جو کہ شیخ الاسلام کامل المسلمین شیخ فرید الحق و شرح الدین مسعود سلیمان اجودھینی قدس سرہ کا فارسی زبان میں چار رکنی طور پر معمول تھا:

اور وہ اس طرح ہے: بیچون راستًا (دائیں جانب)، بے چگون چپًا (بائیں جانب)، بے شبہ آسمان کی طرف اور بے نمون محکم طور پر دل پر ضرب کرے اور اسی طرح ہر سانس کے دوران ذاکر ہوگا۔ ہندی زبان میں ذکر سہ رکنی طریقے سے معمول ہوا ہے اور وہ یہ ہے۔ "اَدْھِیْ هَیْ" راستًا (دائیں جانب)، "پھَیْ هَیْ" چپًا (بائیں جانب) اور "اُیْھَیْ" کا دل پر ضرب کرے، اسی طریقے پر ہر سانس میں جتنا ہو سکے، اور جتنا ذوق ہو ذکر کرتا رہے۔ سہ 3 رکنی ہندی زبان کا ذکر دو طریقے سے معمول ہے: پہلا طریقہ یہ ہے کہ "ھَوْن" هَا کے زبر اور واؤ کے جزم کے ساتھ دل پر ضرب کرے اور ''تُوْن'' تؔا کے ضمے (پیش) اور واؤ کے جزم کے ساتھ آسمان کی طرف کہے۔ اور دل میں "ھَوْن اَنَا هُوْ هُوْ اَنَا" کہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ "هَوْن" ها کے زبر اور واؤ کے جزم کے ساتھ دل میں کہے اور "تُون" تا کی پیش اور واؤ کے جزم کے ساتھ آسمان کی طرف کہے۔ اور دل میں "هُوْن اَنَا اَنْت اَنْتَ اَنَا" کہے۔ سہ رکنی ہندی زبان کا ذکر بھی اس طریقے پر معمول ہوا ہے، "تُون" تا کے پیش اور واؤ کے جزم کے ساتھ راستًا (دائیں جانب) کہے، "ھَیْ تُون" ہا کے زبر اور یا کے جزم کے ساتھ اور تا کے پیش اور واؤ کے جزم کے ساتھ بائیں طرف کہے۔ "ہَ ہِ تُوْن" پہلے ہا کے زبر، دوسرے ہا کی زیر، تا کے پیش اور واؤ کے جزم دل پر ضرب کرے ۔

ہندی زبان کے ایک ذکر کا بیان جس سے کشفِ ملکوت، کشفِ روح اور علم طیر ہاتھ آتا ہے:

یہ مجرب یعنی تجربہ شدہ ہے اور اہل اللہ نے کشف کر کے اس کے معتقدوں پر تہمت لگائی ہے، جوگیوں کے بیٹھنے کی طرح بیٹھ جائے اور دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھے، پھر آنکھیں بند کر کے سر اُٹھا کر آسمان کی طرف کرے، اور خیال میں دیکھے کہ وہ بہت جسیم یعنی جسامت والا موٹا ہو گیا ہے، اور تمام خلوت خانہ اُس سے بھر گیا ہے، اس کے بعد اپنے آپ کو ترک کرے۔ وہ ذکر یہ ہے: "اُوْهِیْ"

1؎ حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ بقدم طے نہ شود راہ بیابان فراق۔ قطع ایں مرحلہ را بال و پرے مے باید۔ نہ تو ہماری مزاج کو ہندی کے ان الفاظ سے کچھ موانست ہے اور نہ ہم ان کا معنی و مفہوم سمجھتے ہیں۔ مرشدنا شیخ عبد الحلیم صاحب کی وسعتِ علم کو داد نہ دینا انتہائی کم ظرفی ہو گی، جنہوں نے اس سنگلاخ میدان کے ہر پیچ و خم اور نشیب و فراز کی نشان دہی فرمائی ہے۔ مترجم فقیر مفہوم نہ سمجھتے ہوئے بھی اُسی الفاظ کو بعینہٖ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کو مزید تسلی کی ضرورت ہو تو وہ اصل کتاب لے کر کسی مرد کامل کی آستان بوسی کا شرف حاصل کرے۔ فقیر مترجم اس ترجمے کو بھی اپنی زبان دانی کا نہیں بلکہ خالصتًا حضرت شیخ رحمکار صاحب اور اُن کے فرزند ارجمند کی توجہ کا ثمرہ سمجھتا ہے۔

"اُوْهِیْ اُوْهِیْ" الف کی پیش واؤ کے جزم اور ہا کی زیر اور یا کی جزم کے ساتھ۔ یہ ذکر اسی طریقے پر ہزار سے کم نہ کہے بلکہ اگر ہو سکے، تو ایک ہزار سے زیادہ کہہ ڈالے، علم طیر و سیر میسر ہوگا۔ یہ ذکر رسالہ گنج ارشاد الطالبین سے اخذ کیا گیا ہے۔ دوسرا ذکر جو کہ خواجہ خضر رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب ہے اور پانچ رکنی ہے، اس طریقے پر ہے: "یَا حَيُّ" راستًا (دائیں جانب)، "یَا قَیُّوْمُ" چپًا (بائیں جانب)، "یَا حَنَّانُ" بالا (اوپر کی جانب)، "یَا مَنَّانُ" زمین کی طرف اور "یَا دَیَّانُ" دل پر ضرب کرے۔ اگر کوئی چاہے کہ کسی مردے کی حالت معلوم کرے تو یہ مذکورہ ذکر کر کے چھ رکعت نماز کر کے سلام کہے، اور ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد معوذتین ''قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ'' اور ''قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ'' ایک ایک بار پڑھے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرے۔ اور ہر رکعت میں سور فاتحہ تین دفعہ اور معوذتین ایک ایک بار کہے، مردہ اپنا حال خواب میں اس آدمی کو بتائے گا۔ اور قبر میں عذاب، راحت اور زحمت کی جو حالت ہوگی، وہ بیان کرے گا۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مردہ عذاب میں ہو، تو یہ نماز بار بار پڑھا کرے، یہاں تک کہ مردہ نماز کنندہ کو کہہ ڈالے کہ "قَدْ نَجَوْتُ مِنَ الْعَذَابِ وَ قَدْ خَلَصْتُ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ بِسَبَبِ صَلٰوتِکَ غَفَرَ اللہُ لَکَ وَ سَلَفَکَ وَ خَلَفَکَ" ”میں عذاب سے اور قبر کی تنگی سے آپ کی نماز کی وجہ سے نجات پا گیا، اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے اسلاف و اخلاف کے گناہ معاف فرمائے‘‘۔

دیگر:

ذکر برائے کشف روح سہ رکنی اس طریقے پر ہے اگرچہ مردہ مغرب کی جانب ہو اور وہ ذکر یہ ہے: "یَا رَبُّ" راستًا (دائیں جانب)، "یَا رُوْحُ" چَپًا (بائیں جانب) اور "یَا رُوْحَ الرُّوْحِ" دل پر ضرب کرے۔ چاہیے کہ خوب توجہ اور حضور دل کے ساتھ اتنا ذکر کرے کہ روح کا مکاشفہ حاصل ہو جائے۔ دیگر ذکر کشف ارواح اس طریقے پر کرے کہ کھڑے ہو کر "یَا رَبُّ" اکیس بار پڑھے اور پھر جس طرح ذکر کے لیے بیٹھتے ہیں، اسی طرح بیٹھ جائے "یَا رُوْحَ الرُّوْحِ" کو دل پر ضرب کرے، پھر آسمان کی طرف "یَا رُوْحُ" اکیس بار پڑھے۔

دیگر:

کشف روح کے لیے اس طریقہ پر "یَا رَبُّ" آگے کی طرف اکیس دفعہ کہے، "یَا رُوْحُ" اوپر کی جانب اکیس بار کہے اور "یَا رُوْحَ الرُّوْحِ" اکیس دفعہ دل پر ضرب کرے۔ اور مراقبے میں روح اور اپنے دل میں ربط رکھے اور مطلوبہ روح کے جانب توجہ رکھے۔ شاید اُس روح کے ساتھ ملاقات ہو جائے گی، اور اُس سے اُس چیز کا سوال کرے جو کہ وہ چاہتا ہو۔

دیگر:

مردے کے حالات جاننے کے لیے اس طریقے پر ذکر کرے: "أَنْتَ" راستًا، "لِیْ" چَپًا، "أَنَا" اوپر اور "لَکَ" دل پر ضرب کرے

دیگر:

ذکر نور اس طریقے پر کرے۔ "اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِيْ نُوْرًا فِيْ قَلْبِيْ" کہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے۔ اُس کے بعد "یَا نُوْرُ" راستًا، "یَا نُوْرُ" چپًا، "یَا نُوْرَ النُّورِ" آسمان کی جانب کہہ کر دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

اللہ کے ساتھ محبت کرنے کا ذکر اس طریقے سے "یَا حَبِیْبُ" راستًا (دائیں جانب) اور آگے کہے "یَا وَدُوْدُ" چپًا (بائیں جانب) اور اوپر کہے "یَا اَللہُ" دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

اللہ کے ساتھ راز و نیاز اور دوستی کے لیے اس طریقے سے ذکر کرے: "أَنِیْسٌ" آگے کہے، "جَلِیْسٌ" راستًا کہے اور "اَللہُ" کی ضرب دل پر کرے۔

دیگر:

اجابت اور قبولیت کے لیے اس طریقے سے کرے: "یَا کَافِيْ" آگے، "یَا غَنِيُّ" راستًا (دائیں جانب)، "یَا غَنِيُّ" چپًا (بائیں جانب)، "یَا فَتَّاحُ" اوپر اور "یَا رَزَّاقُ" دل پر ضرب کرے اور "یَا مُحِبُّ" ہاتھ اُٹھا کر کہے۔

دیگر:

اجابت اور قبولیت دعا کے لیے "یَا رَبَّ" رَاستًا (دائیں جانب)، "یَا رَبِّيْ" چپًا (بائیں جانب)، "یَا رَبَّ" اوپر اور "یَا رَبِّيْ" دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

مستجاب الدعوات ذکر اس طرح چار رکنی کرے: "یَا قَرِیْبُ" راستًا (دائیں جانب)، "یَا رَقِیْبُ" چپًا (بائیں جانب)، "یَا مُجِیْبُ" آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اُٹھا کر اور "یَا مُحِیْطُ" دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھ کر دل پر ضرب کرے، یہاں تک کہ سر زانو کے قریب پہنچ جائے۔

دیگر:

سلطان العارفین با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر اس طریقہ سے کرے: "سُبْحَانِيْ" دائیں اور اوپر، "مَا أَعْظَمَ" اوپر یا دائیں اور "شَأْنِيْ" دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

فردوسی کا چار رکنی ذکر "فَادْخُلِيْ" راستًا (دائیں جانب)، "فِيْ عِبَادِيْ" چپًا (بائیں جانب)، "وَ ادْخُلِيْ" اوپر اور "جَنَّتِيْ" دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

وحدت کا دو رکنی ذکر "لَیْسَ" راستًا (دائیں جانب) ، "فِي الدَّارَیْنِ" چپًا (بائیں جانب) اور "غَیْرُ اللہِ" کی زور سے دل پر ضرب کرے۔ یہ ذکر حدادی طریقہ سے یعنی "لَیْسَ" دائیں طرف کہہ کر "غَیْرُ اللہِ" کی دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

دو رکنی ذکر اس طریقہ سے کرے۔ "مَا فِيْ قَلْبِيْ" راستًا (دائیں جانب)، "غَیْرُ اللہِ" دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

ابدالوں کا پانچ رکنی ذکر اس طریقے سے کرے: "یَا وَاحِدُ" راستًا (دائیں جانب)، "یَا أَحَدُ" چپًا (بائیں جانب)، "یَا صَمَدُ" آگے، "یَا فَرْدُ" اوپر اور "یَا وِتْرُ" دل پر ضرب کرے۔

دیگر:

بی بی مریم کا ذکر اس طریقے پر ہے: "مَا عِنْدَکُمْ" راستًا (بائیں جانب)، "یَنْفَدُ" چپًا (بائیں جانب)، "وَ مَا عِنْدَ اللہِ" سر اوپر اُٹھا کر اور "بَاقٍ" دل پر ضرب کرے۔ اس کو فنا و بقا کہتے ہیں۔

دیگر:

ذکر "حَسْبِيَ اللہُ" جو کہ گیارہ رکنی ہے۔ اس طریقے پر کیا جائے: "حَسْبِيَ اللہُ ہَادٍ لِّدِیْنِيْ" راستًا (دائیں جانب) کہے، "حَسْبِيَ اللہُ الْمُعِیْنُ لِدُنْیَايَ" بائیں طرف کہے، "حَسْبِيَ اللہُ الْکَافِيْ لِمَا أَہَمَّنَا" سر آگے کی طرف کر کے کہے، "حَسْبِيَ اللہُ الْقَوِيُّ لِمَنْ بَقِيَ عَلَيَّ" سر پیچھے کی طرف کر کے کہے، "حَسْبِيَ اللہُ الشَّدِیْدُ لِمَنْ کَادَنِيْ بِسُوْءٍ" سر نیچے کر کے زمین کے قریب کہے، "حَسْبِيَ اللہُ الرَّحِیْمُ عِنْدَ الْمَوْتِ" سر اٹھا کر کہے، "حَسْبِيَ اللہُ الرَّؤٗفُ عِنْدَ الْمَسْأَلَۃِ فِي الْقَبْرِ"، پھر راستًا (دائیں جانب) کہے: "حَسْبِيَ اللہُ الْکَرِیْمُ عِنْدَ الْحِسَابِ"، پھر چپًا (بائیں جانب) کہے: "حَسْبِيَ اللہُ اللَّطِیْفُ عِنْدَ الْمِیْزَانِ" قبلہ کی طرف کہے: "حَسْبِيَ اللہُ الْقَدِیْرُ عِنْدَ الصِّرَاطِ"، پھر آسمان کی طرف کہے: "حَسْبِيَ اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ" پھر راستًا کہے اور اسی طریقے سے ذکر کرے، اور اس ذکر کے لیے چار زانو یعنی آلتی پالتی مار کر بیٹھے۔

دیگر:

دوسرے طریقہ سے ذکر: پہلے آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور درود کہے، تین دفعہ کلمۂ شہادت پڑھے، پھر دل میں خیال کرے اور جان لے کہ دل و جان اور جسم میں وہ پیدا ہے اور سب کچھ اُس سے ہے اور روح اُس کا مسکن ہے، یعنی اُس کی نظر گاہ ہے، جو کچھ ہے، وہ ہے، ہوش اُس سے ہے، مال اُس کا ہے اور اُس کی قدرت ہے۔ جب یہ خیال دل میں محکم ہو جائے تو آہستہ آہستہ اس کو زبان سے شروع کرے اور کہتا جائے، اگر کہنے میں کچھ فرق پڑ جائے تو بھی کہتا جائے، پھر زبان کا ذکر چھوڑ دے اور اس کا خیال کرتا رہے، کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ ذکر کرنا زبان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ذکر کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی چیز کو یاد کیا جائے، اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا تعلق دل سے ہے۔ پس ذکر کرنے کے لیے پہلے دل میں اس کی بنیاد رکھنی چاہیے، پھر زبان پر اور پھر دل میں جیسا کہ اس کا طریقہ بتایا گیا۔ اور اسی طرح یہ خیال دل میں کرنا چاہیے۔ شیخ فرید الدین عطار نے کہا ہے۔ ؎ بیت

من ندانم ہیچ ہستم یا نیم

چوں ہمہ او ہست آخر من نیم

’’میں نہیں جانتا کہ میں کچھ نہیں ہوں یا ہوں، جب سب کچھ وہ ہے تو آخر میں تو کچھ نہیں‘‘۔

دیگر:

ذکر صفات اس طریقے سے کرے یعنی دو اسم صفت کو پہلے کہے اور اسم ذات کی ضرب دل پر کرے، اور اس طریقے پر ہر دفعہ سو اسم صفات ذکر کرے، اور اسی طریقے پر ایک ہزار ایک اسم صفات ذکر کرے، اس کو "ذکر تلوین" کہتے ہیں۔ یعنی اسم صفات کے ذکر کو تلوین اور اسم ذات کے ذکر کو تمکین و تکوین کہتے ہیں۔ ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں صفات کو حرفِ ندا یعنی یا کے ساتھ اپنے سامنے دائیں جانب کہے، اور اسم ذات یا اسم صفات دونوں کو اوپر اور دائیں جانب کہے۔ اور اسم ذات کو یا (حرفِ ندا) کے ساتھ دل پر ضرب کر کے اوپر لے جائے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے آپ پر حاضر و ناظر خیال کرے اور تصور رکھے اور اپنی روحانیت کو حاضر خیال کرے۔

یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا اَللہُ، یَا مَلِکُ یَا قُدُّوْسُ یَا اَللہُ، یَا سَلَامُ یَا مُؤْمِنُ یَا اَللہُ

یَا مُھَیْمِنُ یَا عَزِیْزُ یَا اَللہُ، یا جَبَّارُ یَا مُتَکَبِّرُ یَا اَللہُ، یَا خَالِقُ یَا بَارِئُ یَا اَللہُ

یَا مُصَوِّرُ یَا غَفَّارُ یَا اَللہُ، یَا بَاسِطُ یَا حَافِظُ یَا اَللہُ، یَا رَافِعُ یَا مُعِزُّ یَا اَللہُ

یَا مُذِلُّ یَا سَمِیْعُ یَا اَللہُ، یَا بَصِیْرُ یَا حَکَمُ یَا اَللہُ، یَا عَادِلُ یَا لَطِیْفُ یَا اَللہُ

یَا خَبِیْرُ یَا حَلِیْمُ یَا اَللہُ، یَا عَظِیْمُ یَا غَفُوْرُ یَا اَللہُ، یَا شَکُوْرُ یَا عَلِيُّ یَا اَللہُ

یَا کَبِیْرُ یَا حَفِیْظُ یَا اَللہُ، یَا مُغِیْثُ یَا حَسِیْبُ یَا اَللہُ، یَا جَلِیْلُ یَا کَرِیْمُ یَا اَللہُ

یَا رَقِیْبُ یَا مُجِیْبُ یَا اَللہُ، یَا وَاسِعُ یَا حَکِیْمُ یَا اَللہُ، یَا وَدُوْدُ یَا مَجِیْدُ یَا اَللہُ

یَا بَاعِثُ یَا شَہِیْدُ یَا اَللہُ، یَا حَقُّ یَا وَکِیْلُ یَا اَللہُ، یَا قَوِيُّ یَا مَتِیْنُ یَا اَللہُ

یَا وَلِیُّ یَا حَمِیْدُ یَا اَللہُ، یَا مُحْصِيْ یَا مُبْدِئُ یَا اَللہُ، یَا مُعِیْدُ یَا مُحْیِيْ یَا اَللہُ

یَا مُمِیْتُ یَا حَيُّ یَا اَللہُ، یَا قَیُّومُ یَا وَاحِدُ یَا اَللہُ، یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا اَللہُ

یَا قَادِرُ یَا مُقْتَدِرُ یَا اَللہُ، یَا مُقَدِّم یَا مُؤَخِّرُ یَا اَللہُ، یَا أَوَّلُ یَا آخَرُ یَا اَللہُ

یَا ظَاہِرُ یَا بَاطِنُ یَا اَللہُ، یَا وَالِيْ یَا مُتَعَالِيْ یَا اَللہُ، یَا بَرُّ یَا تَوَّابُ یَا اَللہُ

یَا مُنْعِمُ یَا مُنْتَقِمُ یَا اَللہُ، یَا غَفُوْرُ یَا رَؤُوْفُ یَا اَللہُ، یَا رَبُّ یَا مُقْسِطُ یَا اَللہُ

یَا جَامِعُ یَا غَنِيُّ یَا اَللہُ، یَا مُغْنِيْ یَا مُعْطِيْ یَا اَللہُ، یَا مَانِعُ یَا جَبَّارُ یَا اَللہُ

یَا نَافِعُ یَا نُوْرُ یَا اَللہُ، یَا ھَادِيْ یَا بَدِیْعُ یَا اَللہُ، یَا بَاقِيْ یَا وَارِثُ یَا اَللہُ

یَا صَبُوْرُ یَا رَشِیْدُ یَا اَللہُ

جیسا کہ ذکر کیا گیا، چاہیے کہ ہر صفت میں مذکورہ طریقے سے جب تک کہ ذوق و شوق باقی رہے، ذکر کرتا رہے۔ اسی طرح ایک صفت سے دوسری صفت کو ترقی کرتا رہے تاکہ تمام صفات کے آثار اور برکات ذکر میں سرایت کر کے جلوہ افروز ہوں، جیسا کہ ذاکر کو ابھی سو صفات بتائی گئیں اسی پر قیاس کر کے اللہ تعالیٰ کی ایک ہزار ایک صفات کو ذکر کرے تاکہ ذاکر مقامِ تمکین تک رسائی حاصل کرے۔ وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر دکھائی نہ دے گا۔ مصرع۔ ع

اللہ بس است عاشقان را

یعنی ’’عاشقوں کے لیے اللہ کافی ہے‘‘۔

یعنی اللہ کے نقش کے مشاہدے کے علاوہ اُس کو مزید کوئی حاجت نہیں رہے گی۔

مراقبہ اور مشاہدہ کے بیان میں:

مراقبہ کا لفظ رقیب سے ہے اور رقیب نگہبان اور محافظ کو کہتے ہیں، اور دل کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو عرش تک دیکھنا اور اُس کے بغیر کسی کو خاطر میں نہ لانا اور جب تک کہ اس عمل میں محو رہے، اللہ تعالیٰ اُس کا نگہبان ہوگا اور شیطان کے وسوسوں سے اور نفس امارہ کے فریب سے اس کی نگہبانی کرے گا، اسی وجہ سے مراقبہ کو مراقبہ کہتے ہیں۔ اگرچہ مرید اپنے پیر کی صورت یا اُس کے نام کا مراقبہ کرتے ہیں۔ اور اس مراقبہ کے علاوہ کوئی دوسری چیز دل میں نہیں لاتے اس لیے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا یہ بھی وہی فائدہ دیتا ہے۔

مراقبہ کی کئی اقسام ہیں: مُرشد کی ظاہری صورت یا اُس کے نام کا مراقبہ، یعنی دل اور تصور و خیال میں مرشد کا نام لائے۔ اور دوسرا مراقبہ تمام اسمائے حسنیٰ کا مراقبہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام یا اُس کے ایک ہزار ایک ناموں کا مراقبہ کرے، اور اس مراقبے کو "مراقبۂ تلوین" کہتے ہیں۔ اور ایک "مراقبہ تمکین" ہے جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نقش سفید یا سُرخ رنگ کی صورت میں اپنے دل میں دیکھے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کا نقش لکھے اور اپنے دل کی نگاہ اُس پر مرکوز رکھے، تصور کرے اور تصور و خیال میں زور اور ارتکاز پیدا کرے، اور دل میں کوئی دوسرا خیال نہ گزارے۔ اور تمام نظر اور نگاہ اُسی پر جمائے رکھے اور کسی دوسری جانب بالکل نہ دیکھے۔ جب اس پر کچھ عرصہ گزر جائے اور یہ عمل جاری رہے تو اللہ کے نقش سے الف غائب ہو جائے گا۔ پھر اسی طرح کرتا رہے تو لام بھی غائب ہو جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا وہی حلقہ رہ جائے گا اور وہ حلقہ آہستہ آہستہ سفید اور بڑا ہو جائے گا، پھر اُس حلقہ سے دائرہ پیدا ہو جائے گا، اور اُس دائرے سے نور پیدا ہو گا، تمام جہان کو اُس حلقے کے اندر دیکھے گا جو کچھ اٹھارہ ہزار عالم میں ہے، اس دائرے میں ظاہر ہوگا۔ اور اس وقت دل مضبوط رکھے، اور کسی قسم کا ڈر اور خوف دل میں نہ لائے تاکہ اس اسم میں بہت چیزیں ہاتھ آئیں، مگر یہ اس شرط پر ہوگا کہ اس عمل پر مداوت کرے اور لگاتار اس کو کرتا رہے۔ دوسرے مراقبے بھی اس طرح سے کیے جائیں، یعنی دل میں یہ بات یقینی رکھے کہ اللہ تعالیٰ ناظر ہے اور مجھے دیکھتا ہے، یا یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ میرے اور میرے ضمیر کی حالت جانتا ہے، یا یہ خیال کرے کہ "اَللہُ حَاضِرِيْ، اَللہ نَاظِرِيْ، اَللہُ شَاھِدِيْ، اَللہُ مَعِيْ"، یا یہ یقینی طور پر جانے کہ "ھُوَ اللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ" یعنی وہی اللہ ہے جو کہ آسمانوں اور زمینوں میں (اللہ) ہے۔ اس کو مراقبہ قلبی کہتے ہیں۔ کیونکہ آسمان سے مراد طالب کا جسم اور قالب ہے اور زمین سے مراد طالب کا دل یعنی قلب ہے، یا یہ یقینی طور پر سمجھ لے کہ ﴿أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللہَ یَرٰی﴾ (العلق: 14) ”کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے“ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت مُحمّد رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی کہ "أَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ" (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب: معرفۃ الإیمان و الإسلام و القدر و علامۃ الساعۃ، رقم الحدیث: 8) ”اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح سے کرو کہ گویا تم اُس کو دیکھتے ہو (اور اس کی عبادت کرتے ہو۔) اگر تم اُس کو دیکھ نہیں سکتے، تو پھر ایسا خیال کرو اور اس طرح سے عبادت کرو کہ گویا وہ تم کو دیکھ رہا ہے“۔ اور اس کو خواجہ حبیب کا مراقبہ کہتے ہیں۔ اور یا ایسا مراقبہ کرے کہ یہ یقین کر کے سمجھے کہ اللہ تعالیٰ میرا ناظر ہے، مجھے دیکھ رہا ہے، اور میں ہر حالت میں اس کا منظور یعنی زیرِ نظر ہوں، اس کو مراقبۂ منظور کہتے ہیں۔ اور یا یہ بات یقینی طور پر جانے کہ ﴿ھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ…﴾ (حدید: 4) ”وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم جہاں کہیں بھی ہو“۔ اس کو مراقبۂ معیت کہتے ہیں۔ اور یا یہ جانے کہ ﴿وَ اللہُ مِنْ وَّرَائِھِمْ مُّحِیْطٌ﴾ (البروج: 20) اس کو مراقبۂ احاطت کہتے ہیں۔ اور یا یہ سمجھے کہ ﴿وَ اللہُ خَلَقَکُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: 96) ”اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو“۔ اس کو مراقبۂ افعال کہتے ہیں۔ اور یا یہ سمجھے کہ ﴿إِنَّکَ مَیِّتٌ وَ إِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ﴾ (الزمر: 30-31) ”بے شک تم مرو گے اور وہ بھی مریں گے، پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے آگے ایک دوسرے سے جھگڑو گے“۔ اس کو مراقبۂ فنا کہتے ہیں۔ یا یہ جانے کہ ﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ…﴾ (البقرۃ: 115) اس کو مراقبۂ وجود یا مراقبۂ وجہ کہتے ہیں۔ اور یا یہ سمجھ لے کہ ﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ﴾ (غافر: 16) اسے مراقبۂ ہستی کہتے ہیں۔ یا یہ سمجھے کہ قرآن مجید میں توحید کی آیات کا مراقبہ جیسا کہ ﴿قُلْ ھُوَ اللہُ أَحَدٌ﴾ (اخلاص: 1) اور اسی طرح تمام قرآنی آیات کا مراقبہ کیا جائے، اس کو مراقبہ توحید کہتے ہیں۔ یا یہ سمجھے کہ "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ"، اس کو مراقبۂ حرف کہتے ہیں کہ اس حالت میں اپنے دل میں بغیر اللہ تعالیٰ کے وجود کے کوئی وجود بھی موجود نہیں۔ اور یہ صورت حرف کہلاتی ہے۔

ایضًا:

اس طریقہ ذکر پر ہر ذکر کو قیاس کرنا چاہیے۔ اس ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ کی مصنوعات کا تفکر کرے اور اُس تفکر کا مراقبہ کرے۔ اس کو "مراقبۂ تفکر" کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ أَلْفِ سَنَۃٍ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”اللہ تعالیٰ کی مصنوعات میں ایک ساعت فکر کرنا ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے“ کیونکہ اس تفکر یعنی فکر کرنے پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی علم نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ﴾ (الأعراف: 205) ”اپنے رب کو اپنے نفس میں عاجزی اور خفیہ طور پر یاد کرو، جہر اور اونچی آواز سے نہیں۔ صُبح اور شام کے وقت۔ اور غافلوں سے نہ ہو جاؤ“۔ یہ مردانِ خدا کا شغل اور کام ہے۔ اور ذکر کرنا غیر اللہ کو فراموش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿وَ اذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیْتَ…﴾ (الکھف: 24) یعنی جب اپنے نفس کو فراموش کرو، اور یہ محو کا مقام ہے۔ بیت ؎

؎ در شہر بگو یا کہ تو باشی یا من

کاشفتہ شود کار ولایت بدو تن

’’یہ کہہ لیجیئے، کہ شہر میں یا تم ہو گے اور یا میں ہوں گا۔ کیونکہ حکومت کا کام دو آدمیوں سے پریشان ہو جاتا ہے‘‘۔

لیکن یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مراقبے یا ذکر کے وقت جو خطرہ (خیال) دل میں گزرتا ہے خواہ وہ رحمانی ہو شیطانی، نفسانی، ملکی یا روحانی ہو؛ اس خطرہ کو پہچان لینا چاہیے کہ یہ کون سا خطرہ ہے جو میرے دل میں گزرتا ہے۔ اگر رحمانی، ملکی یا روحانی ہو تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے کام میں مزید کوشش کرنی چاہیے۔ اور بیدار و آگاہ رہنا چاہیے تاکہ شیطانی خطرہ اور نفس امارہ کو موقع نہ مل جائے۔ اور اگر شیطانی اور نفسانی خطرہ ہو تو اُس کو "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ" سے دفع کرے اور اپنے عمل میں اتنی محنت اور کوشش کرے کہ وہ خطرہ اُس سے بالکل دفع ہو جائے اور کوئی خطرہ باقی نہ رہے اور ذکر میں بھی حضور حاصل ہو جائے "رَزَقَنَا اللہُ وَ إِیَّاکُمْ"، یہ اُس کا احسان اور کرم ہے۔

یہاں یہ بات جاننی چاہیے کہ مراقبہ کرنے والے کو جب زیادہ تفرقہ پیش آئے اور اُس کا حضور قائم نہ ہوتا ہو تو اُس کو چاہیے کہ مراقبہ کرنے سے پہلے اپنے پیروں کا شجرہ پڑھا کرے، اور "یَا وَھَّابُ یَا جَبَّارُ" بہت زیادہ پڑھ ڈالے اور اپنے سینے پر دم پڑھا کرے، یہاں تک کہ نفس کی قوت ضعیف ہو جائے اور ختم ہو کر رہے۔ اُس کے بعد فورًا مراقبہ میں مشغول ہو جائے، اُمید ہے کہ تفرقے اور وسوسے سے دور ہو کر حضوری حاصل ہو جائے گی۔

لیکن مشاہدہ کی بھی چند اقسام ہیں، ایک یہ کہ جس حسن و جمال اور کاریگری پر نگاہ کرے تو یہ بات یقینی طور پر جانے کہ اس کا صانع اور پیدا کرنے والا بغیر اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں۔ اور اُس کے جمال و کمال کی کوئی انتہا نہیں۔ اور جو کاریگری، صفت اور کمال اور مخلوق کے ہاتھوں ظاہر اور موجود ہو جائے تو یہ یقین کرے کہ اس کا صانع حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ ﴿وَ اللہُ خَلَقَکُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: 96) ”اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ کہ تم کرتے ہو“۔ یہ اس پر شاہد ہے کہ اس قوت صنعت و عمل کا دینے والا بھی وہ ہے۔ اگر کوئی شخص اُس کے سر پر تلوار رکھ کر قتل کرنا چاہے تو بھی یقین کرنا چاہیے کہ قادر حقیقی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے، اُس نے یہ قدرت دی ہے۔ اس کی قدرت کے بغیر کوئی کسی کو نفع نقصان نہیں دے سکتا۔ اُس کو جو نفع، نقصان یا سود و زیان پہنچتا ہے، یہ سب اُس کی جانب سے ہوتا ہے۔ اور اس پر یقین کامل کرنا چاہیے۔ کیونکہ مقام توحید میں دوسرا کوئی ہے ہی نہیں۔ مصرع

در ہر چہ نگاہ مے کنم ترا مے نگرم

’’جس چیز پر نگاہ ڈالتا ہوں، تم ہی نظر آتے ہو‘‘۔

"رَزَقَنَا اللہُ وَ إِیَّاکُمْ بِمَنِّہٖ وَ کَرَمِہٖ" ”اللہ تعالیٰ اپنے احسان و کرم سے یہ مقام ہمیں اور آپ کو نصیب فرمائے“

دوسرا مشاہده، مشاہدۂ ذات ہے۔ ﴿وَ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللہِ…﴾ (آل عمران: 73) یہ مقام صرف اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے، یہ دولت عظیم کسی کی بس کی بات نہیں۔ "اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِيْ وَ إِیَّاکُمْ ھٰذِہِ الْمُشَاھَدَۃَ بِفَضْلِہٖ وَ إِنْعَامِہٖ" ”پروردگار ہمیں اور آپ لوگوں کو یہ مشاہدہ اپنے فضل احسان و انعام سے عطا فرمائے“۔

انوار کی رنگا رنگی اور تلون و تنوع اور پھر ہر نور کی کیفیت و ماہیت کے ذکر اور بیان میں:

طالبانِ نور کے عقول و ضمائر پر یہ بات واضح و روشن ہو کہ انوار انواع و اقسام پر ہیں۔ ہر ایک نور جدا جدا رنگ، شکل، صفت اور نگاہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اسلام، وضو، نماز، ذکر، عقل کا نور اور نفس لوامہ، ابلیس علیہ اللعنۃ وغیرہ کا نور جدا جدا قسم اور شکل کا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "خُلِقَ نُوْرُ إِبْلِیْسَ مِنْ نَّارٍ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”ابلیس لعین کا نور آگ سے بنایا گیا ہے‘‘۔ اور نورِ دل، سِر، روح، ولایت اولیاء و انبیاء علیہم السلام اور حضرت رسالت پناہ ﷺ کا نور کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دار الفکر، بیروت) اور نورِ جلال و جمال اور نور احدیت کہ "إِنَّ اللہَ مُنَوِّرُ أَنْوَارِ السِّفْلِیَّۃِ وَ الْعُلْوِیَّۃِ وَ الظَّوَاہِرِ وَ الْبَوَاطِنِ الْإِنْسَانِیَّۃِ" ”اللہ تعالیٰ انوار سفلی و علوی اور انسان کے ظاہر و باطن کے انوار کو پیدا کرنے والا اور منور کرنے والا ہے“۔ ان میں سے بعض انوار لوامع کی صفت میں، بعض انوار لوائح کی صفت میں اور بعض طوالع کی صفت میں اور بعض برق کی صفت پر ہوتے ہیں اور ہر ایک میں فرق ہوتا ہے۔ لوامع کی صفت رکھنے والا نور ذکر اور وضو کا نور ہوتا ہے اور اُس کی روشنی پے درپے ہوتی ہے اور تھوڑی دیر توقف کرتی ہے۔ اور لوائح نماز، تلاوت، اسلام اور ایمان کے نور میں ہوتے ہیں، وہ سورج کے عکس کی طرح ہیں، جو کہ پانی یا شیشے پر پڑتا ہے۔ اور عقل کا نور ستاروں جیسا ہوتا ہے، پس ان دونوں کا عکس دل پر پڑتا ہے اور اخلاص نیت اور دل کی صفائی کے مقدار پر دل کی نورانیت کو زیادہ کرتا ہے۔ اور یہ اس طریقے سے ہوتا ہے کہ بجلی کی چمک کی طرح کوندتا ہے، پھر قطع ہو جاتا ہے۔ اور حضرت رسالت پناہ ﷺ کا نور تیسری قسم میں ہے جو کہ ذاتی، صفاتی، معجزات، معراج اور عظمت و انوار محمدی میں ہے۔ مقامات قطبیہ میں یہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اور نفس لوامہ کا نور نیلگوں ہوتا ہے، کیونکہ یہ نفسانی ظلمت کے ساتھ خلط شدہ ہوتا ہے۔ اور جو صوفی حضرات ابھی مبتدی ہوتے ہیں، وہ اس مقام پر نیلا لباس پہنتے ہیں۔ جب نفس کی ظلمت اور تاریکی کم ہو جاتی ہے اور روح کا نور زیادہ ہو جاتا ہے تو وہ نور سُرخ دکھائی دیتا ہے۔ اور جب بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ نور سبز دکھائی دیتا ہے۔ اور جب دل اور روح کا آئینہ تمام صاف ہو جاتا ہے تو وہ طوالع ہو جاتا ہے اور سورج کی طرح طلوع کرتا ہے اور تمام باطن کو منور بناتا ہے جس طرح سورج دنیا کو منور کرتا ہے، اور روح عالم صوری کو روشن کرتا ہے۔ (ترجمہ قشیری)

لوائح اصحابِ بدایت (مبتدی لوگ) کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسی برق (بجلی کی چمک) ہوتی ہے جو کہ ظاہر ہوتی اور چھپ جاتی ہے۔ لوامع، لوائح سے زیادہ روشن اور نسبتًا دیرپا ہوتے ہیں، جب اُن کی حقیقیت ظاہر ہوتی ہے، تو روح میں چلی جاتی ہے۔ اور جب وہ نور پوشیدہ ہو جاتا ہے تو نوحہ کرتا ہے۔ اور طوالع وہ ہوتے ہیں جن کا دورانیہ اور وجود ان دونوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان دونوں سے زیادہ روشن ہوتے ہیں۔

انوار جمال و جلال کی صفات کے بیان میں:

انوارِ جمال جو کہ عالمِ حق سے ہیں، مقامِ مشہود اور تصرفاتِ فنا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور انوارِ جلال فناء الفناء اور فناء الفناء کا تقاضا کرتے ہیں۔ نور جمال روشنی دینے والا ہے نہ کہ جلانے والا یعنی نور جمال جلانے والا نہیں بلکہ روشن کرنے والا ہے، اور نور جلال جلانے والا ہے اور روشنی دینے والا نہیں۔ جب جلال مقام فناء الفنا میں اپنی الوہیت کی ہیبت اور دبدبہ ظاہر کرے تو سیارہ نور منفی، مبقی، ممیتی، اور محی مشاہدہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ "أَرِنِي الْأَشْیَاءَ کَمَا ھِيَ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی مجھے اشیاء ویسی دکھا دیجیے جیسی وہ ہیں۔ اس سوال سے لطف و قہر کے انوار کا ظہور طلب کرتے ہیں کیونکہ یہ لطف و قہر کی صفات ذاتی ہیں۔ اور جو کچھ عالم وجود میں ہے وہ یا تو لطف سے ہے اور یا قہر سے ورنہ کسی چیز کا وجود حقیقی بذاتہ قائم نہیں، یعنی کسی چیز کا بھی وجود حقیقی اپنی ذات سے نہیں، دلوں کی قوت ان کی صفات کی موجودگی ہے۔ انوار چار ہیں اور دل بھی چار کی جانب توجہ کرتا ہے، ملک و ملکوت و عزت و جبروت۔ پس دل مذکورہ چار انوار سے روشن اور منور ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نور کی صفت:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ، اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍؕ، اَلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ…﴾ (النور: 35) ”اللہ روشنی ہے آسمانوں کی اور زمین کی، مثال اُس کی روشنی کی جیسے ایک طاق، اُس میں ہو ایک چراغ، دھرا ہو ایک شیشہ میں، وہ شیشہ ہے جیسے ایک تارا چمکتا ہوا“ (ترجمہ شیخ الہند) اللہ تعالیٰ کے چہرے کا نور دیکھنے والوں کو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جب چراغ کی روشنی شیشے میں سے جو کہ طاق میں رکھا ہوا ہو، اور یہ طاق بندہ کی روح ہے، اور یہ شیشہ نورِ محمد ﷺ ہے۔ اور مصباح "ھُوَ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ" ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ "اَلْمِشْکٰوۃُ ھُوَ الصَّدْرُ وَ الزُّجَاجَۃُ ھُوَ الْقَلْبُ وَ الْمِصْبَاحُ ھُوَ الرُّوْحُ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی مشکوٰۃ (روشنی) یہ سینہ ہے، شیشہ دل ہے اور چراغ روح ہے۔ علامہ ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے۔ متکلمین اور علمائے ظاہر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو نور نہیں کہہ سکتے کیونکہ نور حادث ہوتا ہے۔ مگر علمِ حقائق کے محققین علماء فرماتے ہیں کہ "اَلنُّوْرُ عِبَارَۃٌ عَمَّا یَظْہَرُ بِہِ الْأَشْیَاءُ" ”نور عبارت ہے اس چیز سے، جس سے اشیاء ظاہر ہوتی ہیں“ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام بھی نور ہے۔ آگ کا نور، موتی کا نور، سونے کا نور، لعل کا نور، جواہر اور موتیوں کا نور؛ یہ تمام نور اُس نور کی وجہ سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پس حقیقت میں اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے کہ ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ…﴾ (النور: 35) ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے“ کیونکہ کشف ذات سورج کے طلوع ہونے کے بغیر نظر میں نہیں آتا اور وہ معدوم دکھائی دیتا ہے۔ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلمَةٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِنْ نُوْرِہٖ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الإیمان، باب: ما جاء في من يموت و هو يشهد أن لا إله إلا الله، رقم الحديث: 2642) ”یقینًا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت یعنی تاریکی میں پیدا کیا ہے، پھر اُس پر اپنے نور سے روشنی کی“۔ اور یہ بات اس وجہ سے کہی گئی کہ مخلوق کا وجود ظلمت کی صفت سے موصوف تھا، اُس کو نور الٰہیت سے منور کیا گیا، یہاں تک کہ ان کا وجود بھی نور ہوا۔ اگر میں یہ کہوں، کہ نور کیا ہوتا ہے کہ تمام دنیا پر حاوی ہے تو بطور اشارہ اور رمز کے میں یہ کہنے سے دریغ نہیں کروں گا کہ ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ…﴾ (النور: 35) "یَعْنِیْ نُوْرُ أَہْلِ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ" یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل سماوات اور اہل ارض کا نور ہے۔ آسمان اور زمین کا وجود حق کے نور سے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا مصدر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا وجود تمام موجودات کا مصدر ہے، یعنی "اَللہُ وَ نُوْرُہٗ مَصْدَرُ الْأَنْوَارِ" یعنی اللہ تعالیٰ اور اُس کا نور سب انوار کا مصدر ہے۔ عالم الٰہی میں نور کو مشرق اور نار کو مغرب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے معارف کے نور نے موج کی تو اُس کو عقلِ کل، عشق، قلم اور نور محمد نام دیا گیا۔ کشف اور مشاہدۂ انوار کی کیفیت کتاب مرصاد سے نقل کی گئی ہے۔

جس آدمی کا دل جس قدر صیقل اور صاف ہوگا حجاب اور پردے رفع ہو کر اُس کے دل کو اُس قدر انوار حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابتدائی حالت میں اُن کا دل ستارے کی مقدار پر صیقل تھا تو آپ نے ستارے کی مقدار میں مشاہدہ فرمایا۔ ﴿فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَاٰی کَوْکَبًا قَالَ ھٰذَا رَبِّيْ…﴾ (الأنعام: 76) ”پھر جب اندھیرا کر لیا اُس پر رات نے، دیکھا اُس نے ایک ستارہ، بولا یہ ہے رب میرا“۔ (ترجمہ شیخ الہند) پھر جب دل کا آئینہ طبیعت کی زنگ سے کلی طور پر صاف و شفاف ہوا تو چاند کی شکل میں دیکھا۔ ﴿فَلَمَّا رَأَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّيْ…﴾ (الأنعام: 77) ”پھر جب دیکھا چاند چمکتا ہوا، بولا یہ ہے میرا رب“۔ (ترجمہ شیخ الہند) جب دل کا آئینہ مکمل طور پر صاف ہوا تو سورج کی طرح مشاہدہ کیا۔ ﴿فَلَمَّا رَأَی الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّيْ ھٰذَا أَکْبَرُ...﴾ (الأنعام: 78) ”جب سورج کو دیکھا جھلکتا ہوا، تو بولا یہ میرا رب ہے۔ یہ سب سے بڑا ہے“ اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا کہ ﴿لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ﴾ (الأنعام: 76) ”جو غروب ہوتا ہے میں اُسے پسند نہیں کرتا ہوں“۔ اور یہ بات اُس وقت فرمائی جب ان کو کمال صفائی اور پوری صفات حاصل ہو چکی تھیں۔

کبھی کبھی اس قسم کے انوار عالمِ غیب سے حال کے واسطے اور ذریعے سے عالمِ دل میں مشاہدہ کیے جاتے ہیں، اور ابھی اسی عالمِ شہادت سے عالم سے حسن کے واسطے سے دیکھا جاتا ہے۔ اور حقیقت میں جو مشاہدہ خلیل اللہ علیہ السلام کی جان و روح کو ہوا تھا، وہ صفات ربوبیت کے انوار کا عکس تھا، جو دل کے آئینے میں مشاہدہ فرماتے تھے۔ اور دوسرا یہ کہ روح اور دل حجاب کے پس پردہ تھا کہ لازمی طور پر مقام تلوین میں غیاب و غروب کو دیکھ کر ﴿لَا أُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ﴾ (الأنعام: 76) فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابھی حجاب باقی تھا تو ستاروں کے واسطے سے دیکھتے تھے۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معرفت سمعی حاصل ہوئی تھی، اور حجاب اُٹھ چکا تھا اسی لیے ﴿إِنِّيْ أَنَا اللہُ…﴾ (القصص: 30) سن لیا۔ اور ان کو ﴿وَ کَلَّمَ اللہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا﴾ (النساء: 164) ”اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کرنے کے طور پر کلام کیا“ کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور جناب رسالت پناہ محمد رسول اللہ ﷺ سے سارے پردے اور حجاب اُٹھ چکے تھے، دل واسطے کے بغیر معروف کا عارف ہو گیا تھا۔ ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى أَ فَتُمَارُونَهٗ عَلٰى مَا يَرٰى (النجم: 11-12) ”دل نے جھوٹ نہ کہا جو کچھ اُس نے دیکھا۔ آیا تم اُس سے بحث اور جھگڑا کرتے جو کچھ اُس نے دیکھا“۔ لیکن حق تعالیٰ کے انوار کے کشف کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ﴿سَنُرِیْھِمْ آیَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِيْ أَنْفُسِھِمْ…﴾ (فصلت: 53) ”ہم اپنی نشانیاں زمانے میں اور خود تمہارے اپنے نفسوں میں دکھائیں گے“۔ ہر چیز میں معلوم کرو گے۔ اور اپنے نفسوں اور جانوں میں دیکھ پاؤ گے کہ ہر چیز حق ہے اور حق، حق ہے۔ اور کبھی نور تمام موجودات میں معائنہ ہو جاتا ہے لیکن جب حق کا نور روح کے نور پر عکس انداز ہوتا ہے تو شاید ذوق شہودی کے ساتھ بے رنگی، بے کیفیتی، بے حدی، بے مثلی، بے نہایتی اور بے ضدی ظاہر کرتا ہے۔ تمکین اور تمکن شہود کے لوازمات سے ہیں، یہاں نہ طلوع ہوتا ہے، اور نہ غروب، نہ دایاں ہوتا ہے اور نہ بایاں، نہ اوپر رہتا ہے اور نہ نیچے، نہ نزدیک نہ دور، نہ رات ہوتی ہے اور نہ دن۔ "لَیْسَ عِنْدَ اللہِ صَبَاحٌ وَّ لَا مَسَاءٌ" یعنی اللہ کے ہاں صبح و شام نہیں ہوتے، یہ اس حقیقت کے معنیٰ ہیں۔ یہاں نہ عرش ہے نہ فرش، نہ دنیا نہ آخرت، یہاں نہ یہ ہے نہ وہ۔ ذاتِ حق کے نور کے بغیر ان تمام انوار کا کشف حجاب کے رفع اور پردے کے اُٹھ جانے کے بغیر ممکن نہیں۔

دل کے انوار کی نشانی اور علامتیں چند اقسام پر ہیں: پہلے تو ایک چھوٹے سے ستارہ کی طرح ہوتا ہے، جب صفائی زیادہ ہوتی ہے تو بڑے ستارے کی طرح دکھائی دیتا ہے، جب دل کی صفائی کمال کو پہنچ جاتی ہے تو چاند کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ اور دل کے اطوار کی نشانی اور علامتیں بھی چند اقسام پر ہیں: پہلا سیاہ یعنی کالا، دوسرا زرد پیلا، تیسرا سُرخ، چوتھا آسمان کی طرح نیلا، پانچواں سبز رنگ کا، چھٹا مٹیالے رنگ کا اور ساتواں سفید، ان کو اطوار کہتے ہیں۔ جب روح کے نور کی صفائی کمال کو پہنچتی ہے تو سورج کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ یہ مقام اپنے اختیار اور ہاتھوں میں نہیں ہوتا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول طریقہ:

ذکر جہر کا طریقہ جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:

پہلا طریقہ نفی و اثبات یک ضربی:

جس وقت سالک چاہے کہ یک ضربی ذکر میں مشغول ہو جائے تو اُس کو چاہیے کہ آلتی پالتی مار کر چار زانو بیٹھ جائے اور بائیں طرف کے بند کی میانوں کو دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے مضبوطی سے پکڑے اور دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھے، اور ہاتھ کی انگلیاں کھلی رکھے تاکہ اللہ کا نقش بن جائے، اس کے بعد اپنے سر کو بائیں زانو کے قریب لے جائے، یہاں تک نیچے لے جائے کہ داڑھی زانو تک پہنچ جائے، وہاں سے "لَا إِلٰہَ" کو شروع کرے، اور سر کو دائیں زانو پر لا کر پورے طور دائیں کندھے تک پہنچائے تاکہ سر، کمر اور پیٹھ برابر ہو جائیں، اور سر کو تھوڑا سا دائیں کندھے سے پشت کی جانب ٹیڑھا کرے۔ جس جگہ سے "لَا إِلٰہَ" کو اونچا اُٹھایا تھا، اُس جگہ پر "إِلَّا اللہُ" کو نازل کرے، یہاں تک کہ "إِلَّا اللہُ" کی ہؔا اپنی اصل شکل پر واپس آ جائے۔ پھر اسی طرح نئے سرے سے شروع کرے اور اسی طرح کرتا رہے۔ نفی کی حالت میں آنکھ کو کھول کر رکھے اور اثبات کی حالت میں آنکھ بند رکھے۔ اور جس اندازے اور جس مقدار میں نفی ہے، اُسی مقدار میں اثبات بھی ہو۔ جس وقت "لَا إِلٰہَ" کہے تو تصور میں نفی اور بطلان کرے۔ اور جب "إِلَّا اللہُ" ضرب کرے تو حق کو ثابت تصور کر کے خیال کرے۔ جب ذکر اس فکر و انداز سے ہوتا رہے تو غیر کے وجود کی نفی اور عین اُس کی ذات و وجود کا اثبات قرار پائے گا۔ اور جب یہ فکر قرار پائے تو سالک خود بخود اپنے آپ سے بے خبر ہو جائے گا، اور یہ عبارت ثابت ہو جائے گی کہ "صَارَ الْعَبْدُ فَانِیًا وَّ الْحَقُّ بَاقِیًا" ”بندہ فانی ہو گیا اور حق باقی ہو گیا“

دوسرا دو ضربی ذکر جو دو ضرب اور مار سے ہوتا ہے:

مذکورہ طریقہ سے بیٹھے اور "لَا" کو دونوں زانوؤں (گھٹنوں) کے درمیان سے اٹھا کر "إِلٰہَ" کو دائیں کندھے پر ضرب کرے اور"إِلَّا اللہُ" کو بائیں جانب ضرب دے۔ اور اسی طریقے سے کرتا رہے۔ پھر نئے سِرے سے شروع کرے۔ جب سالک چاہے کہ دو ضربی ذکر دو ضرب (کوب یا مار) اختیار کرے تو اس کو چاہیے کہ بیٹھنے اور دور کا مذکورہ طریقہ اختیار کرے۔ اور ایک ضرب مذکورہ قاعدہ کے مطابق بائیں زانو کے سر پر مارے، اور دوسری ضرب ذرا ترچھا یا ٹیڑھا ہو کر بائیں کہنی پر مارے۔ ہر دو جگہ پر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے یہ ضرب کرے، پھر حملہ کرنے کے انداز میں سانس کو روکے ہوئے "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے دو ضرب خود کو کرے (مارے) سر اُٹھا کر تمام بدن پر مارے۔ اور پھر نئے سرے سے شروع کرے۔ اس میں بہت زیادہ فائدہ ہے جو کہ عمل اور کرنے سے واضح اور عیاں ہو جائے گا۔

انتباہ:

مرشد کامل کی ہدایت کے بغیر اس مراقبہ کے نزدیک بھی نہیں جانا چاہیے، ورنہ فائدہ کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔

تیسرا سہ ضربی ذکر جو کہ تین کوب سے ہوتا ہے:

مذکورہ طریقے کی طرح بیٹھک کا خیال رکھا جائے، ایک ضرب بائیں گھٹنے، ایک ضرب دائیں گھٹنے، ایک ضرب دونوں گھٹنوں کے درمیان، ایک ضرب ناف کے نیچے اور "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے پھر اس جگہ سے حملہ کے طریقہ پر تین کوب "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے اپنے آپ کو ضرب کرے، اور پھر نئے سرے سے آغاز کرے۔

چار ضربی ذکر کا طریقہ دوسری قسم کا:

مذکورہ طریقہ سے بیٹھنے کا خیال کرے، دونوں زانوں کے درمیان سے "لَا" کو اُٹھائے، "إِلَّا اللہُ" کو دائیں کندھے پر ضرب کرے، پھر ہؔا کو بائیں کندھے پر کرے، پھر "إِلَّا اللہُ" کو اپنے آپ پر ضرب کرے، پیچھے کی طرف خم کھا کر یا ٹیڑھا ہو کر ضرب کرے، پھر اس طریقہ سے "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کو چار جگہ پر ختم کرے۔

پانچ ضربی ذکر کا طریقہ:

مذکورہ طریقہ سے جلسہ کرے، یعنی بیٹھ جائے اور بائیں کندھے سے "لَا إِلٰہَ" کا آغاز کرے اور دائیں کندھے پر ختم کرے، سر کو داڑھی کے متصل دائیں ہڈی پر رکھ کر "إِلَّا اللہُ" کی ایک ضرب دے، پھر سر کو پشت کی جانب کر کے بائیں کندھے تک لے آئے اور اسی طریقے پر ایک ضرب دے دے، پھر سر کو آدھی پشت تک لا کر اور داڑھی کو کندھے کے آخری ہڈی پر لے جا کر ایک ضرب دے، پھر اپنے دونوں کندھے اپنے دونوں کانوں کے نزدیک لا کر خود کو ایک ضرب مارے، پھر دو زانوں ہو کر اپنے دونوں سرین (چوتڑ) زمین سے تھوڑے سے اٹھا کر ضرب دے کر ختم کرے، لیکن سانس روکنا اس میں شرط ہے، پھر نئے سرے سے شروع کرے۔ اس میں بہت فائدہ اور نفع ہے جو عمل کرنے سے روشن اور واضح ہو جائے گا۔

شش ضربی ذکر کا طریقہ:

شش ضربی کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ جلسہ خیال میں رکھے، یعنی اُسی طرح نشست اختیار کرے۔ "لَا إِلٰہَ" کو بائیں کہنی سے شروع اور دائیں کندھے پر ختم کرنا چاہیے۔ وہاں سے پیٹھ اور کمر پھیر کر سر کو بائیں بازو پر دراز کر کے آہستہ کے سانس سے "إِلَّا اللہُ" کہہ کر ضرب کرے، اور اس طرح کی ضرب دائیں بازو اور ایک ضرب دونوں زانوں کے درمیان کرے، پھر یہاں سے حملے کے طریق پر بڑھ کر تین ضرب اپنے اوپر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے مارے اور سانس آہستہ سے لیا جائے، اس ذکر میں سانس کا آہستہ لینا واجب ہے، پھر نئے سرے سے شروع کرے۔

ہفت ضربی ذکر کرنے کا طریقہ:

مذکورہ طریقہ پر نشست کرے، اور جسم کو زیادہ حرکت نہ دے، سر کو چھاتی پر پھرا کر "لَا إِلٰہَ" کہہ لے۔ ایک ضرب آسمان کی طرف اور ایک ضرب زمین کی طرف سر کو نیچا کر کے کرے، ایک ضرب دائیں طرف، ایک ضرب بائیں طرف، ایک ضرب آگے کی طرف اور ایک ضرب پس پشت "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے کرے، پھر ایک ضرب سر اٹھاتے ہوئے آہستہ سانس سے اپنے آپ پر کرے، پھر یہی عمل نئے سرے سے شروع کرے، اس کے عظیم اور بڑے فوائد ہیں، یہ فائدے عمل کرنے سے ظاہر ہو جائیں گے۔

ہشت ضربی ذکر کا طریقہ:

مذکورہ طرزِ نشست کا خیال رکھے، ایک ضرب بائیں زانو پر، ایک ضرب دائیں زانو پر، ایک ضرب دونوں زانوں کے درمیان، پھر ایک ضرب بائیں کہنی پر، پھر ایک ضرب دائیں کہنی پر، ایک ضرب ناف کے برابر، ایک ضرب دونوں سُرینوں (چوتڑوں) کو زمین سے تھوڑا سا اُٹھا کر اور ایک ضرب سانس کو بند کر کے اپنے آپ پر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے کرے، پھر اس کو نئے سرے سے شروع کرے، اس ذکر کے فائدے بہت ہیں جو عمل کرنے سے ظاہر ہو جائیں گے۔

بارہ ضربی ذکر کا طریقہ:

مذکورہ نشست اور جلسہ کو نگاہ میں رکھے، "لَا إِلٰہَ" کو بائیں بازو سے شروع کرے اور دائیں کندھے پر ختم کرے، وہاں سے ایک ضرب بائیں زانو پر، ایک ضرب دائیں زانو پر، اور ایک ضرب دونوں زانوں کے درمیان اپنے آپ پر، ایک ضرب بائیں کہنی پر، ایک ضرب دائیں کہنی پر، ایک ناف کے برابر، ایک ضرب اپنے آپ پر، پھر ایک ضرب بائیں بازو پر، ایک ضرب دائیں بازو پر، ایک ضرب سینے پر اور ایک ضرب دو زانو ہو کر دونوں سرینوں کو زمین سے اُٹھا کر اپنے آپ پر کرے، پھر اس کو نئے سِر سے شروع کرے، اس ذکر کے فائدے عمل کرنے سے ظاہر ہو جائیں گے۔

سولہ ضربی ذکر کا طریقہ:

دو زانو ہو کر بیٹھے اور دونوں ہاتھ دونوں زانوں (گھٹنوں) کے سروں پر رکھے، پہلے تین دور پھر جائے، اور ان تین دوروں میں "لَا إِلٰہَ" کو سانس بند کر کے تصور کرے۔ اس کے بعد تین دفعہ معدہ کو نیچے سے اوپر لائے اور اس میں "إِلَّا اللہُ" کا تصور کرے۔ اور اس کے بعد ایک ضرب خود کو، ایک ضرب بائیں زانو، ایک ضرب دائیں زانو، ایک ضرب دونوں زانوں کے درمیان میں، اور "إِلَّا اللہُ" ان مقامات پر کہتا رہے۔ اور اسی طریقہ پر باقی ضربوں کو انجام تک پہنچائے، ہر دفعہ اس میں تفسیر دینی چاہیے، لیکن جلسہ اور ضربوں کا یہ دور ان ذکروں میں اس وجہ سے ہے کہ دل کے پردے ہر اندام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، جب اس طریقے پر ذکر کیا جائے تو دل بہت جلد پردوں سے باہر نکل آتا ہے، اور صوفی کو مکاشفہ اور مشاہدہ دکھائی دیتا ہے۔

بیس ضربی ذکر کرنے کا طریقہ:

مذکورہ جلسہ کے طریقہ پر آلتی پالتی مار کر چار زانو بیٹھے لیکن دائیں پنڈلی کو بائیں پنڈلی پر رکھے، چنانچہ زانوں کے نیچے سے باہر ہو اور پاؤں کی پشتیں زمین پر ہوں، اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں پاؤں کے تلوے اور بائیں ہاتھ ہتھیلی دائیں پاؤں کے تلوے پر رکھے، اور انگشت شہادت اور انگوٹھے سے پاؤں کے انگوٹھے کو پکڑے۔ اس کے بعد سر کو دونوں زانوں کے درمیان لے جا کر وہاں سے حملہ کے طریقے پر "لَا إِلٰہَ" کہتے ہوئے "إِلَّا اللہُ" کو اپنے اوپر ضرب کرے، ایک ضرب دائیں پاؤں کے سِرے پر جو کہ بائیں طرف پڑی ہے اور ایک ضرب بائیں پاؤں کے سِرے پر جو کہ دائیں طرف پڑی ہے اور ایک ضرب دونوں زانوؤں کے درمیان ان تمام مقامات پر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے مارے، اور اسی طریقے پر باقی ضربیں بھی انجام تک پہنچائے، جب بیس ضربیں ہو جائیں تو پھر نئے سرے سے شروع کرے، اس کے بہت سے فائدے ہیں، عمل کرنے سے ظاہر ہو جائیں گے۔

چوبیس ضربی ذکر کا طریقہ:

مربع ہو کر بیٹھے (مربع چار زانو) لیکن دائیں پاؤں کے ٹخنے بائیں پاؤں کے ٹخنے پر رکھے اس طریقے سے کہ پاؤں کی اُنگلیاں زمین پر ہوں۔ اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں پاؤں کے تلووں پر رکھے، چنانچہ اُنگلیاں بھی زمین پر ہوں۔ اس کے بعد بائیں کندھے سے "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے سر کو گھما کر دائیں کندھے پر انجام دے، وہاں سے دونوں زانوؤں کے درمیان اور ایک ضرب بائیں زانو پر ایک ضرب دائیں زانو پر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے مارے، پھر ان مقامات پر اس طریقے سے باقی ضربیں انجام دے، جب آخری چار ضربیں ہو جائیں پھر نئے سرے سے آغاز کرے۔ اور اس کے متصل "لَا" کی ضرب اس مذکورہ جلسہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے "إِلَّا اللہُ" کو اپنے محل تک پہنچائے، وہاں سے سر کو اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے آپ میں ضرب لگائے، پھر ایک ضرب بائیں زانو کے سرے پر زمین کو دیکھتے ہوئے مارے۔ اکثر ضربیں اسی طرح متواتر دو انگلیوں کا فرق رکھتے ہوئے یا چار اُنگلیوں کا فرق رکھتے ہوئے بائیں زانو سے لیتے ہوئے دائیں زانو تک پہنچ جائے، دائیں زانو سے دائیں کہنی اور کندھے سے ہوتے ہوئے سینے پر ضرب لگاتے ہوئے بائیں کندھے اور کہنی پر آتے ہوئے بائیں زانو کے سر پر پہنچ کر وہاں متصلًا تین ضربیں لگائے۔ پھر وہاں سے جیسا کہ پہنچے تھے، اُسی طرح ضرب لگاتے ہوئے بائیں زانو تک پہنچ جائے، پھر یہاں متصلًا تین ضربیں لگائے۔ پھر بائیں زانو سے ضرب لگاتے ہوئے دونوں زانو کے درمیان ہو کر دونوں زانوں کے درمیان سے ضرب لگاتے ہوئے ناف سے گزر کر سینے تک پہنچ جائے، اس کے بعد آنکھ بند کر کے ننانوے ضربیں ننانوے اسمائے حسنیٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے خود کو لگائے، پھر از سر نو آغاز کرے۔ اس ذکر کے شغل و عمل سے علوی اور سفلی کشف ظاہر ہوتے ہیں اور لا متناہی اسرار ہاتھ آتے ہیں، اور زمین کی طرف دیکھنے کے تصور کرنے کا طریقہ اپنے شیخ اور پیر سے معلوم کرے تاکہ ذوق اور شوق حاصل ہو۔

1؎ علامۂ زمان شیخ المشائخ جناب عبد الحلیم صاحب مصنف مقالات قدسیہ کی دور بین نگاہ نے محسوس کیا کہ ذکر کے یہ طریقے لکھنے پڑھنے سے نہیں بلکہ مرشد سے عملی طور پر سیکھنے سے سیکھے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ شیخ صاحب مذکور خود علم و عمل کی دنیا میں اُستاد کل اور پیر کامل تھے۔ اس فقیر مترجم کا عذر و اعتذار اصحاب کرام کے سامنے قابل سماعت و فہم ہے کہ اس باب کے ترجمہ کرنے میں جو کمی اور کجی ہے، وہ مرشد کامل کی نگاہ کرم اور قدم بوسی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ایک تو فقیر مترجم اس فن میں طفل مکتب سے بھی کمتر درجہ رکھتا ہے اور دوسری طرف اذکار کے عملی طریقہ کو بیان کرنا اساتذہ کے لیے بھی مشکل ہے۔ اس لے عرض یہ ہے کہ یہ باب مقالۂ ہفدہم کو مرد کامل سے پڑھا جائے۔ ورنہ ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تا نہ چشی۔ عبد الرزاق کوثؔر

یک ضربی ذکر کا ایک کوب کے ساتھ طریقہ:

بائیں زانو پر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے ضرب کرے۔ اور وہاں سے سر اُٹھا کر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے اپنے آپ کو ضرب کرے۔ اس ذکر کو متواتر کرتا رہے۔ اس کے کرنے سے فائدہ ظاہر ہو جائے گا۔

ایک جلسہ میں ہزار ضربی ذکر:

ہزار ضربی کا ایک جلسہ میں ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ جلسہ کو نگاہ میں رکھے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو صفت احد سے موصوف کر کے بائیں زانو پر ضرب کرے، اور وہاں سے سر اٹھا کر اللہ کو صفت حمد سے موصوف کر کے خود کو ضرب کرے، اور اسی طرح پانچ سو ضرب کرے۔ پھر اللہ کو صفتِ احد سے موصوف کر کے دائیں زانو پر ضرب کرے۔ اور وہاں سے سر اُٹھا کر اللہ کو صفت احد سے موصوف کر کے خود کو ضرب لگائے یہاں تک کہ پانچ سو بار پورے ہوں۔ جب ایک ہزار بار پورے ہو جائیں تو پھر نئے سرے سے شروع کرے۔ اس ذکر کے بے شمار اور لا تعداد ثمرات ہیں جو کہ تھوڑے عرصے میں نمایاں اور عیاں ہو جاتے ہیں۔

دوسرے طریقے جو نامور مشائخ اور مرشدوں نے اپنے کامیاب اور خوش نصیب مریدوں کو بتائے ہیں

طریق ذکر لاہوتی:

مذکورہ جلسہ کو نگاہ میں رکھے، سر کو بائیں جانب ٹیڑھا کر کے تھوڑا سا پشت کی طرف مائل کر کے متصلًا "ھُوْ" کہے اور ایک ضرب خود کو مارے لیکن چہرہ اُسی جگہ ہو۔ پھر سر کو مذکورہ کندھے کے برابر لے جا کر متصلًا "ھُوْ" کہے اور ایک ضرب دائیں پہلو پر مارے، اس کے بعد دو ضربیں بائیں پہلو پر مارے، پھر ایک ضرب دائیں پہلو پر دونوں زانوؤں کے درمیان، ایک ضرب خود کو، ایک ضرب دائیں پہلو پر اور ایک بائیں پہلو پر، اور سر کو دائیں کندھے پر لے جا کر متصلًا "ھُوْ" کہے۔ ایک ضرب بائیں پہلو پر، اس کے بعد تین ضربیں اپنی سرین کو قدرے زمین سے اُٹھا کر دو زانو ہو کر تین کوب کرے۔ پھر بائیں زانو سے دائیں طرف مڑ کر تین دفعہ "ھُوْ" کہہ ڈالے۔ اس کے بعد بائیں زانو پر تین ضرب اور تین کوب اپنے آپ کو کر لے۔ اور تین ضرب دو زانو کے درمیان اور تین کوب اپنے آپ کو اور تین ضرب دائیں زانو اور تین کوب خود اپنے آپ کو کرے۔ اس کے بعد تین ضرب اپنے آپ کو کرے پھر دائیں زانو سے بائیں طرف مڑ جائے اور اسی طرح ضرب اور کوب کرتے ہوئے دائیں طرف کے دور میں انجام تک پہنچائے اور پھر نئے سرے سے آغاز کرے۔ اس ذکر کی فتوحات عمل سے آشکارا ہو جائیں گی۔

ذکر جبروتی:

جو جبروتی ذکر کا طریقہ سیکھنا چاہے، اسے سب سے پہلے مذکورہ طرز نشست کو نگاہ میں رکھنا چاہیے، سر کو دونوں زانوں کے درمیان زمین کے قریب لے جا کر "یَا أَحَدُ" کہتے ہوئے ضرب کرے۔ اور وہاں سے سر اٹھا کر "یَا وَاحِدُ" کہتے ہوئے خود اپنے آپ پر ضرب کرے، اس جلسہ میں "یَا وَاحِدُ یَا أَحَدُ" متواتر کہتا جائے اور یہ دس بار کہتا رہے۔ اس کے بعد سات ضربیں سیدھے طور پر "یَا اَللّٰہُ" کہتے ہوئے اپنے آپ پر کرے، اور پھر نئے سرے سے شروع کرے۔ اس کا فائدہ عمل کرنے سے ظاہر اور آشکارا ہو جائے گا۔

ذکر ناسوتی:

ذکر ناسوتی کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ جلسہ کو ذہن میں رکھے اور سر کو تین مرتبہ دونوں زانوں کے درمیان لے جا کر وہاں سے اللہ کہتے ہوئے سر اُٹھائے، اور "یَا اَللہُ مُعِزُّ" (کو ملا کر) اپنے آپ کو تین مرتبہ ضرب دے، پھر اسی طریقہ پر سر کو وہاں لے جا کر اُٹھا لائے اور "یَا اَللہُ مُذِلُّ" کو مرکب کر کے بائیں زانو پر ضرب کرے، پھر سر کو اُس مقام پر لے جائے اور سر کو اٹھا کر اُسی طریقہ پر "یَا اَللہُ رَزَّاقُ" کو باہم ملا کر دائیں زانو پر ضرب دے، پھر نئے سرے سے آغاز کرے۔ اس ذکر کے ثمرات کسب سے معلوم ہو جائیں گے۔

ذکر مکاشفہ کا طریقہ:

مذکورہ جلسہ یعنی نشست کو خیال میں رکھے، بائیں زانو سے "یَا ھُوْ" کہتے ہوئے دائیں جانب مڑ کر پھر جائے اور جس جگہ سے شروع کیا تھا پھر وہاں "یَا مَنْ ھُوْ" کہتے ہوئے اس طریقہ پر پھر جائے، جب مقررہ مقام پر پہنچ جائے "یَا مَنْ لَّا إِلٰہَ" کہتے ہوئے سر کو دائیں کندھے پر پہنچا کر "إِلَّا اللہُ" کی ضرب بائیں زانو کے سرے پر کرے، اور اللہ کو دراز کرے۔ پھر تین عدد کوب "ھُوْ ھُوْ ھُوْ" کہتے ہوئے اپنے آپ پر دم کرے، اور پھر نئے سِرے سے آغاز کرے۔

ذکر مشاہدہ:

مشاہدے کے ذکر کا طریقہ ملاحظہ کریں، آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائے اور نفی موجودات کا تصور اور واجب الوجود کے اثبات کا تصور نفی اثبات کرتے ہوئے خیال میں موجود رکھے، اور بائیں زانو سے "لَا مَطْلُوْبَ وَ لَا مَقْصُوْدَ وَ لَا مَحْبُوْبَ وَ لَا مَعْبُوْدَ وَ لَا مَوْجُوْدَ" کہتے ہوئے سر کو دائیں کندھے تک لے جائے، اور "لَا إِلٰہَ" کو اپنی ذات میں ضرب کرے۔ اور "ھُوْ إِلَّا اللہُ" کو ناف کے نیچے سے مد کے ساتھ یعنی کھینچ کر اُم دماغ تک پہنچائے اور ''هُوْ'' کہتے ہوئے سات کوب اپنے آپ پر مارے، پھر نئے سِرے سے شروع کرے۔

دوسرا طریقہ:

"لَا إِلٰہَ" کو کھینچتے ہوئے (مدہ کے ساتھ) بائیں زانو سے شروع کرے، اور یہ مذکورہ پانچ کلمات کا تصور کرتے ہوئے (1: لَا مَطْلُوْبَ 2: وَ لَا مَقْصُوْدَ 3: وَ لَا مَحْبُوْبَ 4: وَ لَا مَعْبُوْدَ 5: وَ لَا مَوْجُوْدَ) دائیں کندھے تک ختم کرے، "إِلَّا اللہُ" کو جیسا کہ ذکر کیا گیا، آخر تک تمام کرے، پھر سرے سے شروع کرے۔ تھوڑے عرصہ میں ﴿أَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ…﴾ (البقرۃ: 115) کا مشاہدہ نظر آئے گا۔ اور ﴿کُلُّ شَيْءٍ ھَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہٗ…﴾ (القصص: 88) کا معائنہ اس ذکر اور مشاہدے کی وجہ سے ظاہر ہو جائے گا۔

روح کا ذکر:

مذکورہ جلسہ دو زانو ہو کر نگاہ میں میں رکھے اور "ھُوَ الْأَوَّلُ" کہتے ہوئے دائیں پہلو پر ضرب کرے، "ھُوَ الْآخِرُ" بائیں پہلو پر "ھُوَ الظَّاھِرُ" دونوں زانوں کے درمیان "ھُوَ الْبَاطِنُ" اپنے آپ میں ضرب کرے، پھر سرے سے شروع کر کے کرتا رہے۔ تھوڑے عرصے میں اس کے بار بار کرنے کی وجہ سے غیب و شہادت اور ازل و ابد دکھائی دے گا۔

آوارہ برد کا ذکر:

آوارہ برد کے ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ جلسہ مذکورہ کو خیال میں رکھے اور دائیں کندھے کی جانب منہ کر کے ''یَا'' کہے اور بائیں کندھے کی طرف منہ کر کے ''هُوْ'' کہے۔ اور سر نیچے لے جا کر اپنے اوپر ''هِيْ'' کی ضرب کرے، اسی طریقے پر ذکر کرے۔ اس کا فائدہ بہت بڑا ہے، عمل سے روشن ہو جائے گا۔ یہ خصوصی طور پر حضرت قطب عالم غوث حمدانی سید میران محی الدین عبد القادر گیلانی قدس اللہ روحہ کا عمل ہے۔

ضرب راست کا ذکر:

اس کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ طریقہ پر جلسہ کا خیال رکھے، سر نیچے لے جا کر "حق توئی" کہتے ہوئے ناف کے نیچے سے سختی کے ساتھ سانس لے کر سیدھا ہو کر متصلًا یہاں سے "حق" کہتے ہوئے اپنے آپ پر ضرب کرے پھر سرے سے آغاز کرے۔ متواتر اس پر عمل کرے، تھوڑی مدت میں ذوق و شوق ظاہر ہو جائے گا۔

ذکر مقدس:

ذکر مقدس کا طریقہ یہ ہے کہ معہود و مذکور جلسہ نگاہ میں رکھے، بائیں کندھے سے "اللہ" کہتے ہوئے سر کو دائیں کندھے تک پہنچائے، وہاں سے "أَکْبَرُ" کہتے ہوئے بائیں پہلو پر ضرب کرے اور اس طریقے پر "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ" ہر ایک کو تینتیس (33) مرتبہ انجام دے، پس اس کو سرے سے شروع کرے، اور اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ اس ذکر کا فائدہ عمل سے شروع ہو گا۔ بعض لوگوں نے صبح کے بعد سے اس ذکر پر مواظبت کی اور کبریائی اور تقدسی کا مرتبہ حاصل کیا اور لوگوں میں قابل مدح و ستائش ہو کر صاحب اخلاق ہو گئے۔

ذکرِ تجلی:

اس کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ جلسہ نگاہ میں رکھے اور کبوتر کے طریقے پر دائیں طرف سے حلقہ شروع کرے، "یَا حَیُّ" کہتے ہوئے سر کو پیٹھ کی طرف لے جا کر دل پر "یَا قَیُّوْمُ" کی ضرب دے۔ اس ذکر کے فوائد و آثار بے شمار ہیں، جو کہ عمل سے ظاہر ہو جائیں گے۔