سولہواں مقالہ
تسبیح اور ماثور دعاؤں اور ذکر کے بیان میں
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ بَارَکَ وَ سَلَّمَ: "أَفْضَلُ الْکَلَامِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" (مجموع الفتاوی بتغییر قلیل، الرد علی من قالوا بالذکر بلفظ الجلالۃ المفرد، رقم الصفحۃ: 229/10، مجمع الملک فھد، المدینۃ المنورۃ) وَ فِيْ رِوَایَۃٍ: "أَحَبُّ الْکَلَامِ إِلَی اللہِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللهُ أَکْبَرُ لَآ یَضُرُّکَ بِأَیِّھِنَّ بَدَأْتَ" (الصحیح لمسلم، کتاب الآداب، باب: کراھۃ التسمیۃ بالأسماء القبیحۃ، رقم الحدیث: 2137) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہترین کلام یہ چار کلمے ہیں: "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ کو سب سے پیارا کلام یہ چار کلمے ہیں: "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ"۔ کوئی حرج نہیں جو الفاظ بھی شروع اور پہلے کہے جائیں، خواہ "سُبْحَانَ اللہِ" سے شروع کرو یا "اَلْحَمْدُ لِلہِ" وغیرہ سے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ بَارَكَ وَ سَلَّمَ: "مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ فِيْ یَوْمٍ مِّائَۃَ مَرَّۃٍ حَبِطَتَ خَطَایَاہُ وَ إِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبْدَۃِ الْبَحْرِ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الدعوات، باب بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 3466) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے "سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ" ایک دن میں سو بار پڑھ لیا تو اُس کے گناہ سب معاف کیے جائیں گے، اگرچہ اُس کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں“۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِي الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ" (الصحیح للبخاري بمعناہ، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ: "و نضع الموازین القسط لیوم القیامۃ"، رقم الحدیث: 7563) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ دو کلمے ہیں جو زبان سے ادا کرنے میں آسان اور ہلکے ہیں، اور میزان کی تول میں بھاری ہیں، اور دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہیں، اور وہ کلمے یہ ہیں: "سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ"۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "اَلْحَمْدُ رَأْسُ الشُّکْرِ، مَا شَکَرَ اللہُ عَبْدًا إِلَّا بِحَمْدِہٖ" (شعب الإیمان بمعناہ، رقم الحدیث: 4085) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "اَلْحَمْدُ" شکر کا سر ہے اور جس بندہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد نہ کہی اُس نے شکر ادا نہ کیا“۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "أَوَّلُ مَنْ یُّدْعٰی إِلَی الْجَنَّۃِ الَّذِیْنَ یَحْمَدُوْنَ اللہَ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ" رَوَاهُمَا البَیْھَقِيُّ فِيْ شُعَبِ الْإِیْمَانِ۔ (رقم الحدیث: 4166) ”جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جو لوگ جنت میں داخل ہونے کے لیے بلائے جائیں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد رنج اور خوشی میں ادا کرتے رہے ہوں“۔ ان دونوں حدیثوں کو بیہقی نے شعب الإیمان میں روایت کیا ہے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "مَا قَالَ عَبْدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُخْلِصًا قَطُّ إِلَّا فُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ السَّمَاءِ حَتّٰی تُفْضِيَ إِلَی الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ" رَوَاہُ التِرْمَذِيُّ وَ قَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔ (رقم الحدیث: 3590) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بندہ اخلاص سے جب "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کہتا ہے تو آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ عرش تک رسائی حاصل کرے، اگر وہ کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے“۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "لَقِیْتُ إِبْرَاھِیْمَ لَیْلَۃً اُسْرِيَ بِيْ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ! اقْرَأْ اُمَّتَکَ مِنِّيَ السَّلَامَ وَ أَخْبِرْھُمْ أَنَّ الْجَنَّۃَ طَیِّبَۃُ التُّرْبَۃِ عَذْبَۃُ الْمَاءِ وَ أَنَّھَا قِیْعَانٌ وَّ أَنَّ غِرَاسَھَا سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ إِسْنَادًا۔ (رقم الحدیث: 3462) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دیں اور اُن کو آگاہ کر دیں کہ جنت کی زمین پاکیزہ ہے، پانی شیریں ہے اور صاف میدان ہے، اور اُس کے درخت یہ کلمے ہیں کہ "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" اس حدیث شریف کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے حسن اور غریب ہے۔ ابیات:
؎ خداوند کہ ہر چیزیکہ خواہد
ز حکمِ او نیفزاید نہ کاہد
مفرح نامہ جانہاست نامش
سرفہرستِ دیوانہاست نامش
ز نامش پُر شکر شد کامِ جانہا
ز یادش پُر گہر تیغِ زبانہا
خداوندیکہ چندانی کہ ہست است
ہمہ در جنبِ ذاتش عین پستی است
اگر بے بادِ او بوئے ست رنگ است
اگر بے ذکرِ او نامے ست ننگ است
چو ذاتش برتر است از ہر چہ دانم
چگونہ شکر ادا کردن توانم
فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ابیات فرمائے ہیں کہ وہ خداوند کہ جو چیز بھی چاہتا ہے، تو اُس کے حکم سے نہ کوئی چیز زائد ہوتی ہے، اور نہ کم۔ اس کا نام روح کو فرحت اور سرور بخشتا ہے۔ اور زبان اُس کے ذکر سے صیقل ہو جاتی ہے۔ اور اُس کا نام تمام دیوانوں کا سر فہرست ہے، روح کا حلق اُس کے نام کے ذکر سے شیرین اور اُس کی یاد سے زبان کی آب و تاب زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہ خداوند اور مالک جس کی ہستی مسلم ہے۔ اور ساری کائنات اُس کی ذات کے مقابلے میں عین پستی میں ہیں۔ اگر اس کے بغیر کوئی خوشبو ہے تو وہ (محض) رنگ ہے۔ اگر اس کے ذکر کے بغیر کوئی نام ہے تو محض (باعثِ) عار ہے۔ جب اس کی ذات ہر اس چیز سے برتر ہے جس کا مجھے علم ہے۔ تو میں (اس کا) شکر کیسے ادا کر سکتا ہوں۔
اور شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ابیات؎
اے قادریکہ دارد کے بود تا نداشت
منشورِ امر و نہیِ تو توقیعِ لا یزال
مہرِ جلالِ ذات تو ہرگز فرد نہ رفت
در عالمِ ضمیر بدروازۂ خیال
حکمِ تو بے منازع و ملکِ تو بے شریک
وصفِ تو بے نہایت و ذاتِ تو بے زوال
وصفِ تو بلبلان نفس را بکَنَد پر
نعت تو طوطیان خرد را بسوخت بال
امر تو بے نفیر و حکم تو بے شریک
ذات تو بے فنا و بقائے تو بے زوال
در ہر دِلے کہ نیست ہوائے تو باد خون
در ہر زبان کہ نیست ثنائے تو باد لال
اے قادر و توانا خدا تمہارے امر و نہی کے منشور کی عزت و چاہ بے زوال ہے۔ تمہاری ذات کے جلال کی رفعت کا خیال بھی کسی شخص کے خیال کے دروازے سے اُس کے دل میں نہ آسکا۔ تمہارے حکم میں کسی چون و چرا کی گنجائش نہیں۔ اور تمہارا ملک بغیر کسی شریک کے ہے۔ تمہاری حمد و وصف کی کوئی انتہا نہیں اور تمہارے بقا کے لیے زوال نہیں۔ تیری توصیف جان کی بلبلوں کے پر اکھاڑ دیتی ہے۔ تیری تعریف عقل کے پرندوں کے بال جلا ڈالتی ہے۔ تیرا امر بے آواز اور تیرا حکم بلا شریک ہے۔ تیری ذات کو فنا نہیں اور تیری بقاء لا زوال ہے۔ جس دل میں تمہاری خواہش نہ ہو، وہ دل خون آلودہ ہو جائے اور جس زبان پر تمہاری یاد اور تمہارا ذکر نہ ہو، وہ گُنگ اور لال ہو جائے۔ دوسری نظم: ؎
سُبْحَانَ مَنْ یَّرٰی أَثَرَ النَّمْلِ فِی الصَّفَا
سُبْحَانَ مَنْ یَّسْبَحَہُ الطَّیْرُ فِی الْھَوَاءِ
رَبُّ البَرِیّۃِ وَ حَمْدٌ عَزَّ شَانُہٗ
ذُو الطَّوْلِ وَ الْمَعَارِجِ وَ الْمَجْدِ وَ الثَّنَاءِ
قیّوم و لا یزال و خداوندِ لم یزل
دارائے بندہ پرور و دادار رہنما
تنہائش دلیل بر آثار صنع اوست
کز خار گل برآید و از گل روید گیاہ
در ہیچ ذرہ نیست کہ آثار صنع نیست
فِیْ غَایَۃِ الْوَضَاحَةِ کَالشَّمْسِ فِی الضُّحٰی
کس را بقائے سرمد و ملک دوام نیست
ملک و بقا تراست لَکَ الْمُلْکُ وَ الْبَقَا
کس درخور ثنا و سزاوار حمد نیست
حمد و ثنا تراست لَکَ الْحَمْدُ وَ الثَّنَا
امر تو بے تفسیر و حکم تو بے شریک
ملک تو بے زوال و بقائے تو بے فنا
در حضرت قبول تو اُفتادگان بلند
بر آستان حشمت تو خسروان گدا
اُس ذات کے لیے پاکی اور برتری ہے، جو کہ چیونٹی کی رفتار کو کالے پتھر پر دیکھتی ہے۔ اور پرندے ہوا میں اُس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ تمام جہان کا پالنہار ہے۔ اُس کی شان بہت بلند ہے۔ اور بڑی شان و شوکت عزت بڑائی اور ثناء کا مالک ہے۔ وہ قیوم ہے۔ اُس کے لیے زوال نہیں۔ اور ایسا مالک اور خداوند ہے جو کہ زوال نا اشنا ہے۔ بندہ پرور مالک اور راستہ بتانے والا آقا ہے۔ اُس کی تنہائی اور ایک ہونا اُس صفت پر دلیل ہے، کہ کانٹوں سے پھول اُگاتا ہے، اور مٹی سے گھاس۔ کوئی ذرہ بھی ایسا نہیں جس میں اُس کی کاریگری کی شان نہ ہو۔ اور یہ شان ایسی واضح ہے، جیسا کہ سورج دن کے وقت نمایاں ہوتا ہے۔ کسی کے لیے دوام اور ہمیشہ کی بقا نہیں۔ ملک اور بقا صرف تمہارے لیے ہے۔ تیرے لیے ملک اور بقا مسلم ہے، کوئی بھی حمد و ثنا کے قابل نہیں۔ حمد اور ثناء تیرے لیے ہے، حمد اور ثنا بس تیرے ہی لیے ہے۔ تیرے حکم میں کسی تفسیر و تبدل کا امکان نہیں۔ اور تیرے احکام میں کسی کی شرکت کا شائبہ تک نہیں۔ تیری بادشاہی کو زوال نہیں اور تیری بقا کو فنا نہیں۔ جو لوگ کہ گرے پڑے ہوئے ہوں، وہ تیرے دربار میں قابل قبول ہیں، اور تیری حشمت و جلال کے دروازے پر بادشاہ بھی گدا ہوتے ہیں۔
فِي التَّوْحِیْدِ: "تَبَارَکَ رَبُّنَا عَنْ کُلِّ شِبْہٍ وَّ عَنْ مِّثْلٍ وَّ عَنْ کُفُوٍ وَّ کَیْفٍ" توحید کے بارے میں ہے: ”ہمارا رب ہر مشابہت سے برتر ہے اور ہر مثل مانند سے بالا ہے“ اوپر نیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے، بالا و تحت سے ماوراء ہے۔ نہ اُس کی کوئی حد ہے نہ تالیف و نظم یا تفریق۔
؎ لَہٗ ذَاتٌ یُّخَالِفُ کُلَّ ذَاتٍ
لَہُ وَصْفٌ یُّخَالِفُ کُلَّ وَصْفٍ
”اُس کی ایک ذات ہے جو کہ ہر ذات سے جدا ہے۔ اور اُس کی صفت ہے جو کہ ہر صفت سے جدا ہے
"وَ أَیْضًا فِیْہِ" یعنی توحید کے بارے میں:
خداوند جہاں و نور جان ست
پدید آرندۂ جان و جہان است
ز ملک او سر موئے است عقبیٰ
ز جود او سر کوئے است دنیا
ز وصفش عقل سرگردان بماند
ز ذاتش چشم جان حیران بماند
زہے صنع نہاں و آشکارا
کہ کس را جز خموشی نیست یارا
چو نتوانی بذات او رسیدن
قناعت بہ جمال صنع دیدن
ز خاکے معنی آدم برآرد
ز بادے عیسٰی مریم نگارد
ز تخمے باغ را پیرایہ سازد
ز برگ اطلسی را مایہ سازد
زہے فیض و حضور نور آں ذات
کہ بر ہر ذرہ مے تابد ز ذرات
توئی سر جملہ لکن بے اشارہ
توئی کلی و لکن بے عیارہ
اضافات است در راہ گرفتہ
گہے حضرت گہے درگہ گرفتہ
نکو گوئے نگو گفتہ ست در ذات
کہ اَلتَّوْحِیْدُ إِسْقَاطُ الْإِضَافَاتِ
خدا تعالیٰ جہاں کا بادشاہ اور روح کا نور ہے۔ اور جان و جہان کا پیدا کرنے والا ہے۔ عقبیٰ اُس کے ملک سے بال کا ایک سِر ہے۔ اور اُس کے جود و کرم سے دنیا ایک گلی کا سِرا ہے۔ اس کی صفت سے عقل سرگرداں ہو جاتی ہے، اور اُس کی ذات کو سمجھنے سے روح کی آنکھ حیران ہو جاتی ہے۔ اُس کی صفت اتنی پوشیدہ اور اشکارا و عیان نظر آتی ہے کہ خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جب اُس کی ذات تک نہیں پہنچا جا سکتا تو اُس کی صفت کی جمال و حسن کو دیکھنے پر قناعت کرنی چاہیے۔ مٹی سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ اور ہوا سے عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق فرمایا۔ تخم کے ایک دانے سے باغ کو آراستہ کیا۔ اور اطلسی رنگ کے پتوں سے باغ کا سرمایہ بنایا۔ اُس ذات کے فیوض سے ہر ذرہ تابندہ ہے۔ تم تمام اشیاء کا آغاز اور ابتدائیہ ہو، مگر تم کو اشارہ نہیں کیا جا سکتا اور تم کُل ہو مگر تمہارا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اِضافتیں نا مکمل ہیں کبھی حضوری حاصل ہوتی ہے اور کبھی دروازے پر پڑے رہتے ہیں۔ ایک اچھی بات کہنے والے شخص نے کیا اچھی بات کہی ہے۔ کہ اَلتَّوْحِیْدُ إِسْقَاطُ الْإِضَافَاتِ، توحید یہ ہے کہ تمام اضافی اشیاء اور اضافتوں کو ساقط کیا جائے۔ توحید کے بارے میں:
؎ چوں نسیم عنایتش بوزید
بر دِل سالکان راہ ہُدٰی
نار نمرود شد بہار خلیل
آب دریا وقایۂ موسیٰ
جب اُس کی عنایتوں کی خوشگوار ہوا چلتی ہے۔ تو سالکوں کو ہدایت کا راستہ دکھلایا جاتا ہے۔ اُس کے عنایت و کرم کی وجہ سے نمرود کی آگ خلیل اللہ علیہ السلام پر باغ و بہار بن گئی، اور دریا کا موجزن پانی موسٰی علیہ السلام کی حفاظت کا سبب اور پناہ گاہ ہوئی۔
محمد عطار نیشا پوری کہتے ہیں:
سبحان خالقے کہ صفاتش ز کبریا
بر خاک عجز می فگند عقل انبیاء
گر صد ہزار قرن ہمہ خلق کائنات
فکرت کند بہ معرفت ذات آں خدا
آخر بعجز معترف آیند کاے اِلہ
دانستہ شد کہ ہیچ ندانستہ ایم ما
سبحان قادرے کہ بر آیئنہ وجود
بنگاشت از دو صرف دو گیتی کما یشاء
چوں ہیچ جائے نیست کہ او نیست جملہ اوست
چوں جملہ اوست کیستی آخر تو بے نوا
اُس خالق کے لیے پاکی اور بڑائی ہے، جس کی عظمت اور کبریائی کے سامنے پیغمبروں کی عقل بھی خاک پر پڑی ہے۔ اگر تمام کائنات کی مخلوق کئی قرنوں تک سوچ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت ذات میں تفکر کریں تو آخر کار عاجز ہو کر یہ اعتراف کریں گے کہ اے خدا ہم تو اتنا سمجھے کہ ہم کچھ نہ سمجھ پائے۔ پاکی ہے اُس قادر و توانا ذات کے لیے کہ اس صفحۂ کائنات پر دو حرفوں (کُن) کے کہنے سے دونوں جہانوں کو ایسا پیدا فرمایا جیسا کہ اُس کی مرضی تھی۔ جب کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں وہ موجود نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ ”وہ“ ہے، جب سب کچھ ”وہ“ ہے تو آخر اے بے نوا تو کون ہے؟
"أَیْضًا فِیْہِ" توحید کے بارے میں:
با وجود سمات نقص جہات
کے تواں گفت نعت ذات و صفات
او ازاں برتر است و والا تر
کہ بوصفش نطق زنند بشر
اطراف و اجانب کی روشوں اور راستوں کو دیکھتے ہوئے ذات و صفات کی تعریف نہیں کی جا سکتی، انسان کی زبان جو کچھ کہ کہہ سکے، اللہ تعالیٰ کی صفات و ذات اُس سے بالا و برتر ہے۔ (اس لیے اُس کی کما حقہ تعریف حمد و ثناء اور نعت نہیں کہی جا سکتی)
دعواتِ ماثوره کی بیان میں:
جس کسی کو کوئی مشکل کام پیش آئے تو رسول اللہ پر ہزار بار درود کہے تو اُس کا کام انجام پائے گا۔ اور اگر ہزار بار نہ کہہ سکے تو سو دفعہ کہے، مشکل حل ہو جائے گی۔ اور دُرود شریف اس طور پر پڑھا جائے: "اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ نَبِیِّکَ وَ رَسُوْلِکَ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ وَ عَلٰی آلِہٖ" اور جو کوئی حاجتوں کے سر کرنے اور مشکلات کے حل ہونے کے لیے ان بارہ اِماموں رضی اللہ عنہم کو وسیلہ بنائے تو اُن کی مراد حاصل ہو جائے گی۔ "بِحَقِّ عَلِيّ الْمُرْتَضٰی وَ الْحَسَنِ الْمُجْتَبٰی وَ الْحُسَیْنِ شَھِیْدِ کَرْبَلَا وَ عَلِيٍّ زَیْنِ الْعَابِدِیْن وَ مُحَمَّدٍ الْبَاقِرِ وَ جَعْفَرٍ الصَّادِقِ وَ مُوْسٰی الْکَاظِمِ وَ عَلِيٍّ الرِّضٰی وَ مُحَمَّدٍ التَّقِيِّ وَ عَلَيٍّ النَّقِيِّ وَ حَسَنِ الْعَسْکَرِيِّ وَ الْإِمَامِ الْمَھْدِيِّ عَلَیْھِمُ الرِّضْوَانُ اقْضِ حَاجَتِيْ"
نماز غنیٰ:
اشراق کے وقت دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں "اَلْحَمْدُ لِلہِ" ایک بار اور سورۂ "إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ" سات بار پڑھے۔ ان شاء اللہ مال دار اور غنی ہو جائے گا۔
جس کسی کو سخت مشکل پیش آئے، تو اس کو چاہیے کہ ہر روز سو دفعہ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اُس کی مشکل آسان فرمائے گا۔
جب کسی ضرورت کے پورا ہونے کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھے تو چاہیے کہ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" کی ”میم“ کو "اَلْحَمْدُ" کے ساتھ متصل کرے اور "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" کو پست پڑھے، اور ”آمین“ کو بھی بہت پڑھے۔ تو بے شک اُس کی حاجت روا ہو جائے گی۔
جو کوئی جمعہ کے دن اُٹھ کر کسی کے ساتھ بات چیت نہ کرے، اور سو دفعہ یہ دعا پڑھ کر اُس کے بعد اپنی حاجت براری کی دعا کرے، اُس کی دعا قبول ہو جائے گی۔ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یَا قَدِیْمُ یَا دَائِمُ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ یَا فَرْدُ یَا وِتْرُ یَا وَاحِدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ لَّمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ۔ اَللّٰھُمَّ نَجِّنِيْ مِنْ کُلِّ غَمٍّ وَّ فَرِّجْ کُلَّ ھَمٍّ وَّ اقْضِ کُلَّ دَیْنٍ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ"
دیگر:
حاجت براری کے لیے جمعہ کی رات کو صبح طلوع ہونے سے قبل دو رکعت نماز ادا کرے، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سات دفعہ اور سورہ اخلاص ایک دفعہ پڑھے۔ سلام کے بعد اپنی حاجت طلب کرے اور دس دفعہ پڑھے: "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ" اور دس دفعہ یہ کہے: "مَا شَآءَ اللہُ کَانَ وَ مَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ وَّ أَشْھَدُ أَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ وَّ أَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا وَّ أَحْصٰی کُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا" اور دس دفعہ یہ پڑھے کہ "اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ وَ سَلَّمْتَ وَ بَارَکْتَ وَ رَحِمْتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ" اور دس دفعہ کہے: "أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَ أَتُوْبُ إِلَیْہِ" اور دس بار کہے: "یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ" پھر سجدہ میں سر رکھ کر دس بار کہے: "یَا غَیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ أَغِثْنِيْ" پھر کھڑا ہو جائے اور سر ننگا کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دس دفعہ کہے: "یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ"۔ بے شک اُس کی حاجت روائی ہو جائے گی۔ اور کہتے ہیں کہ آسمان میں ایک فرشتہ ہے جس کا نام اسماعیل ہے، وہ بھی اس کی موافقت میں اپنا سر برہنہ کر کے کھڑا ہو جاتا ہے اور نہیں بیٹھتا، جب تک کہ اُس کی حاحت پوری نہیں ہو جاتی۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مجھے یہ نماز حضرت خضر علیہ السلام نے سکھائی۔ اور اس نماز کا تجربہ اہل دل حضرات نے بھی فرمایا ہے۔
1؎: دوسری رکعت کا ذکر نہیں۔
أَیْضًا اسی طرح حاجت کے لیے:
جو کوئی جمعہ کی رات دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں فاتحہ ایک دفعہ اور سورہ اخلاص تین دفعہ۔ اور جب نماز سے فارغ ہو جائے تو سو بار یہ تسبیح پڑھے اور اس کو جو بھی حاجت ہو اللہ تعالیٰ سے طلب کرے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُس کو پورا کرے گا۔ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ یَا حَيُّ یَا قَیّوْمُ یَا فَرْدُ یَا وِتْرُ یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ إِلَیْہِ الْمُسْنَدُ یَا مَنْ لَّمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ یَّا غِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ أَغِثْنِيْ وَ خَلِّصْنِيْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ بَرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ"
دیگر:
جو کوئی یہ وظیفہ ایک ہفتہ پڑھے جو حاجت ہو وہ پوری ہو جائے گی۔ ان ناموں کی برکت سے وہ بے شک پوری ہو کر رہے گی۔ ہفتہ کے دن ایک ہزار دفعہ پڑھے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ"، اتوار کے دن ایک ہزار بار پڑھے: "یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ"، پیر کے دن ایک ہزار بار پڑھے: "اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَ سَلِّمْ"، منگل کے دن ایک ہزار پڑھے: "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بَاللہِ الْعَلِيِ الْعَظِیْمِ"، چہار شنبہ یعنی بدھ کے دن ایک ہزار بار پڑھے: "أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَ أَتُوْبُ إِلَیْہِ"، جمعرات کے دن ایک ہزار بار پڑھے: "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ"، جمعہ شریف کو ہزار بار پڑھے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ"۔
جو کوئی یہ دُعا صبح کی نماز کے بعد سو دفعہ پڑھے اور کسی کے ساتھ گفتگو نہ کرے، اللہ تعالیٰ سے اپنی جو حاجت بھی طلب کرے، اُس کی اجابت ہو جائے گی۔ وہ دُعا یہ ہے کہ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ العَظِیْمِ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ یَا فَرْدُ یَا وِتْرُ یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا إِلٰہِيْ إِلَیْکَ ھَوَسِيْ وَ یَا غَایَةَ أَمَلِيْ وَ یَا مُنْتَہٰی طَلَبِيْ یَا رَبِّ عَجِّلْ فَرْحِيْ لَآ شَرِیْکَ لَہٗ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ بَرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ"
اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے: ﴿وَ إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَّا إِلٰہَ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ (البقرۃ: 163) وَ فَاتِحَۃِ آلِ عِمْرَانَ: ﴿الٓمٓ اَللہُ لَآ إِلٰہِ إِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ (آل عمران: 1-2) اس کے بعد جو حاجت ہو وہ طلب کرے اور اُس حاجت کا نام لے اور اس کے اول و آخر میں درود شریف پڑھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی حاجت روا ہو جائے گی۔ (سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب: بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 3478)
اور ابو سلیمان الدارمی نے کہا ہے کہ جب تم میں سے کوئی حاجت اللہ تعالیٰ سے پورا کرنے کے لیے سوال کرنا چاہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود پڑھے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کی دعا کرے اور پھر کثرت سے درود کہے۔ اللہ تعالیٰ درود کو قبول کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت کریم ہے۔ ان درودوں کے درمیان میں کی ہوئی دُعا بھی قبول فرمائے گا۔ "اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ کُلَّمَا ذَکَرَہُ الذَّاکِرُوْنَ اَللّٰھُمّ صَلِّ عَلَیْہِ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا بِحَقِّہٖ عِنْدَکَ ادْفَعْ عَنِ الْخَلْقِ مَا نَزَلَ بِہِمْ وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْھِمْ مَّنْ لَّا یَرْحَمُھُمْ فَقَدْ حَلَّ بِہِمْ مَا لَا یَرْفَعُہٗ غَیْرُکَ وَلَا یَدْفَعُہٗ سِوَاکَ اَللّٰھُمَّ فَرِّجْ عَلَیْنَا یَا کَرِیْمُ یَا أَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ"۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ہر دُعا اُس وقت تک پسِ پردہ رہتی ہے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ کہا جائے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر دُعا آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اُس وقت تک کہ جس وقت تک رسول اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ بھیجا جائے۔ (مشکاة المصابیح، باب الصلاة علی النبي صلی الله علیه وسلم، الفصل الثالث، رقم الحدیث: 938)
ایک شخص کی خواہش تھی کہ اس کو عزت اور مال و دولت حاصل ہو، وہ سید السادات کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ عبارت لکھ کر اُسے دی گئی: "اَللّھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تُعَزِّرَنِيْ وَ تَقْضِيَ حَاجَتِيِ وَ تَصْلِحَ شَأْنِيْ کُلَّہٗ وَ تُغْنِيَنِيْ وَ تَکْفِيَنِيْ مُھِمِّيْ" اور اگر سفر پر جانا چاہے تو اس دعا کا اضافہ کرے: "وَ تُرْجِعَنِيْ مِنْ سَفَرِيْ إِلٰی وَطَنِيْ سَالِمًا وَّ غَانِمًا وَّ صَلَّى اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ"
دعا جو کہ اسمائے اعظم اور اعلی پر مشتمل ہے۔ از تالیف سید السادات منبع العلم و العبادات نفع اللہ المسلمین بطول بقائہٖ:
"اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکَ وَ سَلِّمْ وَ عَلٰی جَمِیْعِ الْأَنْبِیَاءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ یَّا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ اَللّٰھُمَّ أَسْئَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ اَللّٰھُمَّ إِنِّيّْ أَتَوَسَّلُ بِاسْمِکَ الْعَظِیْمِ الَّذِيْ فِيْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: ﴿وَ إِلٰھُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ إِلٰہِيْ أَطْلُبُ بِاسْمِکَ الَّذِيْ فِيْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: ﴿الٓمٓ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ﴾ یَا ھُوَ یَا مَنْ لَّا ھُوَ إِلَّا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ إِلَّا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ وَ بِہٖ کُلِّہٖ یَا اَللہُ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا الۤمۤ یَا الۤمۤصۤ یَا الۤمۤر یا الۤر یَا کھٰیٰعص یَا طٰہٰ یَا طۤسۤمۤ یَا طٰسۤ یَا یٰسٓ یَا صۤ یَا حٰمۤ یَا حٰمۤعۤسۤقۤ یَا قۤ بِأَنَّ اللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ اَللہُ اَللہُ اَللہُ الّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ یَا وَدُوْدُ یَا ذَا الْعَرْشِ الْمَجِیْدِ یَا مُبْدِئُ یَا مُعِیْدُ یَا فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ أَسْئَلُکَ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِيْ مَلَأَ أَرْکَانَ عَرْشِکَ وَ أَسْئَلُکَ بِقُدْرَتِکَ الَّتِيْ قَدَّرْتَ بِھَا عَلٰی جَمِیْعِ خَلْقِکَ وَ بِرَحْمَتِکَ إِلٰہِيْ وَسِعْتَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ یَا لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ یَا مُغِیْثُ أَغِثْنِيْ یَا مُغِیْثُ أَغِثْنِيْ وَ أَسْئَلُکَ بِدُعَاءِ ذَي النُّوْنِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ أَنْ تَکْفِيَنِيْ مُھِمِّيْ وَ تَقْضِيَ حَاجَتِيْ فِيْ دِیْنِيْ وَ دُنْیَايَ وَ اٰخِرَتِيْ وَ صَلَّى اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عِزَّتِہٖ وَ عَلٰی جَمِیْعِ الْأَنْبِیَاءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ" جو حاجت بھی ہو وہ روا ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بعض مشائخ سے فراخی رزق و معیشت کے بارے میں روایت ہے کہ سونے چاندی یا ریشم سے، اور اگر یہ نہ ہو تو زرد کاغذ پر لکھ لے اور اس کو بٹوے یا سامان میں رکھے، ایک ہفتہ نہیں گزرے گا کہ برکت ہوگی جو کہ نہایت محبوب ہے۔ "یَا اَللہُ الرَّقِیْبُ الرَّؤُوْفُ الرَّحِیْمُ الْحَافِظُ الْعَلِیْمُ یَا اَللہُ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ یَا اَللہُ الْقَائِمُ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا مُسَبِّبَ الْأَسْبَابِ یَا مُفَتِّحَ الْأَبْوَابِ افْتَحْ عَلَيَّ وَ عَلٰی صَاحِبِ کِتَابِيْ ھٰذَا فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ أَبْوَابَ فَضْلِکَ وَ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَ أَبْوَابَ رِزْقِکَ وَ أَبْوَابَ کَرَامَتِکَ وَ أَبْوَابَ نِعْمَتِکَ وَ أَبْوَابَ عَطِیَّتِکَ وَ أَبْوَابَ بَرْکَتِکَ وَ أَبْوَابَ مَرْضَاتِکَ وَ أَبْوَابَ الْعِنَایَۃِ وَ أَبْوَابَ الْقَنَاعَۃِ وَ أَبْوَابَ الْحَسَنَۃِ اللّٰھُمَّ إِنَّکَ قَدْ تَکَفَّلْتَ بِرِزْقِ کُلِّ دَابَّۃٍ أَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا وَ یَا خَیْرَ مَنْ سُئِلَ وَ یَا أَفْضَلَ مَنْ أَعْطٰی وَ یَا خَیْرَ مَنْ دُعِيَ اللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ لِنَفْسِيْ وَ لِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ لِصَاحِبِ کِتَابِيْ ھٰذَا فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ مِّنْ فَضْلِکَ الْوَاسِعِ رِزْقًا وَّاسِعًا حَلَالًا طَیِّبًا مُّبِارِکًا ھَنِیْئًا مَّرِیْئًا بِلَا کَدٍّ وَّ لَا مَنِّ أَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ فَإِنَّکَ قُلْتَ وَ اسْئَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَمِنْ فَضْلِکَ رَجَاءً مِّنْ عَطَیَّتِکَ أَرْجُوْا یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا عَلِيُّ یَا عَظِیْمُ یَا کَرِیْمُ یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا خَیْرَ الرَّازِقِیْنَ وَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ" برکت کے لیے کیسہ، بٹوہ یا تھیلے میں رکھے۔ واللہ اعلم۔
اگر کوئی بادشاہ حاکم یا ظالم سے ڈرے تو کہے: "اَللہُ أَکْبَرُ اَللہُ أَکْبَرُ أَعَزُّ مِنْ خَلْقِہٖ جَمِیْعًا اَللہُ أَعَزُّ مِمَّا أَخَافُ وَ أَحْذَرُ وَ أَعُوْذُ بِاللہِ الَّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ مُمْسِکُ السَّمَاءِ أَنْ تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِہٖ مِنْ شَرِّ عَبْدِکَ فُلَانٍ وَّ جُنُوْدِہٖ وَ أَتْبَاعِہٖ وَ أَشْیَاعِہٖ مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّيْ جَارًا مِّنْ شَرِّھِمْ جَلَّ ثَنَاءُکَ وَ عَزَّ جَارُکَ وَ لَآ إِلٰہَ غَیْرُکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِکَ أَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَا أَحَدٌ مِّنْھُمْ أَوْ أَنْ یَّطْغٰی اَللّٰھُمَّ إِلٰہَ جِبْرَائِیْلَ وَ مِیْکَائِیْلَ وَ إِسْرَافِیْلَ وَ إِلٰہَ إِبْرَاھِیْمَ وَ إِسْمَاعِیْلَ وَ إِسْحٰقَ عَافِنِيْ وَ لَا تُسَلِّطْ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ عَلَيَّ بِشَيْءٍ لَّا طَاقَۃَ لِيْ بِہٖ رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا وَّ بِالْإِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا وَّ بِالْقُرْاٰنِ حَکَمًا وَّ إِمَامًا"۔
اور اگر جنات یا شیطان سے ڈرے یا کسی دوسری چیز سے خوف کھائے تو کہے کہ "أَعُوْذُ بِوَجْہِ اللہِ الْکَرِیْمِ وَ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ لَا یُجَاوِزُھُنَّ بِرٌّ وَّ لَا فَاجِرٌ مِّنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ ذَرَأَ وَ بَرَأَ وَ مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَ مِنْ شَرِّ مَا یَعْرُجُ فِیْھَا وَ مِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَ مِنْ شَرِّ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَ مِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَ النَّہَارِ وَ مِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقٌ یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَّا رَحْمٰنُ"۔
اور اگر کوئی مصیبت پیش آئے یا مشکل آن پڑے تو کہے: "حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا"۔ جس نے استغفار پڑھنا اپنے آپ پر لازم کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کو ہر مصیبت اور تنگی سے نکال لائے گا اور ہر مشکل حل ہوگی اور جس جگہ سے اُس گمان تک نہ ہو، وہاں سے اُسے رزق نصیب ہو گا۔ اور جو "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ…" پڑھے تو یہ ننانوے امراض کی دوا ہے۔ اور مشکلات کو آسان بنائے گا۔
اور جس پر کوئی غم تکلیف یا مشکل کام پیش آئے تو یہ کہے: "لَآإِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبُّ الْأَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ لَآ إِلٰہِ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْعَظِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ" پھر اس کے بعد یہ کہے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَکِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ عِبَادِکَ" (صَحِیْحُ السَّنَدِ لِابْنِ عَاصِمٍ فِی کِتَابِ الدُّعَاءِ) دوسری یہ بھی حل مشکلات کے لیے پڑھا کرے: "حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ۔ وَ حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ اَللہُ رَبِّيْ لَآ اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا"۔ تین بار کہے: "تَوَکَّلْتُ عَلَی الحَيِّ الَّذِيْ لَا یَمُوْتُ وَ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِي الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا"۔
دیگر:
"اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْا فَلَا تَکَلْنِيْ إِلیٰ نَفْسِيْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّ أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ کُلَّہٗ"۔
دیگر:
"لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ"، یہ سجدہ میں بار بار پڑھے۔ "لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ لَمْ یَدْعُ بِھَا رَجُلٌ مُّسْلِمٌ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللہُ لَہٗ"۔
جس بندے کو غم و حزن گھیر رکھے تو وہ یہ دعا وظیفہ کرے اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ عَبْدُکَ وَ ابْنُ أَمَّتِکَ نَاصِیَتِيْ بِیَدِکَ مَاضٍ فِيْ حُکْمِکَ عَدْلٌ فِيْ قَضَاءِکَ أَسْئَلُکَ بِکُلِّ إِسْمٍ لَّکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ وَ أَنْزَلْتَہٗ فِيْ کِتَابِکَ أَوْ عَلَّمْتَہٗ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ أَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِيْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِيْ وَ نُوْرَ بَصَرِيْ وَ جَلَاءَ حُزْنِيْ وَ ذَھَابَ ھَمِّيْ" اور اللہ تعالیٰ اُس کی مصیبت دور کرے گا۔ اور غم کی بجائے خوشی دے گا۔
اور اگر اس پر مصیبت پڑ جائے تو کہا کرے، بلکہ یہ وظیفہ پڑھا کرے: "إِنَّا لِلہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیْبَتِيْ فَأَجِرْنِيْ فِیْھَا وَ أَبْدِلْنِيْ مِنْھَا خَیْرًا، إِنَّا لِلہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ أَجِرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَ اخْلُفْ لِيْ خَیْرًا مِّنْھَا"۔ اور اگر کوئی کام مشکل پڑ جائے تو یہ کہے: "اَللّٰھُمَّ اسْھَلْ مَا جَعَلْتَہٗ سَھْلًا وَ أَنْتَ تَجْعَلُ الْحُزْنَ سَھْلًا إِذَا شِئْتَ"۔
اور جس کسی کو کوئی حاجت پیش آئے خواہ وہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہو یا کسی انسان سے تو اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت نماز پڑھے اور پھر اللہ تعالیٰ کی ثنا و حمد کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجے اور پھر یہ پڑھے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ أَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَ عَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَ الْعِصْمَۃَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ السَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَہٗ وَ لَا ھَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَ لَا حَاجَۃً ھِيَ لَکَ إِلَّا قَضَیْتَھَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ"۔
اور جس کسی کو کوئی ضرورت ہو تو اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت پڑھ کر یہ کہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِيِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ إِنِّيْ أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّيْ فِيْ حَاجَتِيْ ھٰذِہٖ لِتَقْضِيَ لِيْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ"۔
اور جس پر کوئی امر غالب آ جائے تو وہ کہے: "حَسْبِيَ اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ"
آداب الدعا:
دعا کے ارکان، شرائط اور مامورات و منھیات ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ کھانے میں حرام نہ کھائے۔ اسی طرح پینے اور لباس میں بھی حرام سے بچا رہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اخلاص سے پیش آئے، جسم و لباس وغیرہ کو پاک و صاف رکھے۔ قبلہ کی طرح رخ کرے، نماز پڑھا کرے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا کرے اور پیغمبر پر درود پڑھے، اور ہاتھوں کو کھول کر اوپر کندھوں کے محاذ تک اُٹھانا اور اُن کو کھلے رکھنا، عاجزی کرنا اور عاجزی سے بیٹھنا، آسمان کی جانب نظر اُٹھا کر نہ دیکھنا، یعنی جب نماز میں دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کے اسماء حُسنیٰ سے سوال کرنا اور اُس کی اعلٰی صفتوں کے ساتھ۔ دعا کرتے وقت سجع اور تکلف نہ کرے اور نہ نغمہ سرائی کے ساتھ۔ انبیا اور اولیا کا وسیلہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے بنائے اور آواز کو پست رکھے، گناہوں کا اعتراف کرے اور صحیح ماثور دعائیں جو کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہوں پڑھا کرے کیونکہ ان میں غیر اللہ سے حاجت روائی کی طلب نہیں۔ اور جامع دعائیں مانگی جائیں، ابتدا اپنے آپ سے کرے والدین اور مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرے اور یہ کہ اپنے آپ کو دعاؤں میں مخصوص نہ کرے اگر وہ امام ہو۔ پورے یقین، رغبت اور اعتماد سے دعا مانگے۔ دل کی گہرائیوں سے نہایت اجتہاد کے ساتھ کہ دل و دماغ حاضر ہوں اور اپنی دعا پر یقین و امید رکھے۔ دعا کا بار بار تکرار کرے، کم از کم تین مرتبہ پڑھے۔ عاجزی اور الحاح سے دعا مانگے، کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے، اور نہ کسی ایسی بات کی دعا کرے جس سے فارغ ہوا ہو۔ محال و نا ممکن العمل باتوں کی دعا نہ کرے اور نہ وہ دُعائیں جن سے منع کیا گیا ہو۔ نہ دعا کرنے میں جھگڑا کرے اور نہ سب چیزوں کے لیے دعا کرے۔ دعا کرنے والا اور سننے والا آمین کہے اور دعا سے فارغ ہونے کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیر لے۔ حاجت براری میں عجلت نہ کرے اور نہ یہ شکوہ کر کے کہے کہ میں نے بہت دعائیں کیں مگر وہ قبول نہ ہوئیں۔
اجابت دعا کے اوقات:
یعنی وہ اوقات جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ایک لیلۃ القدر، عرفہ کے دن، رمضان کا مہینہ، جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن، آدھی رات، رات کا دوسرا اور تیسرا حصّہ، پہلا اور آخری حصہ، یا آدھی رات، صُبح کا وقت اور جمعہ کا وقت۔ ان اوقات میں قبولیت اور اجابت کی زیادہ اُمید کی جا سکتی ہے، وہ وقت جب امام خطبہ کے لیے بیٹھ جائے، جس وقت تک نماز ختم ہو جائے، نماز کی ابتداء سے سلام تک، اور دُعا کرنے والا کھڑا ہو کر درود شریف پڑھتا رہے۔ اور کہتے ہیں کہ عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک، اور کہتے ہیں کہ جمعہ کی آخری ساعتوں میں، اور کہتے ہیں فجر کی نماز کی بعد سورج نکلنے تک، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ سورج طلوع ہونے کے بعد تک۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج کے میلان ہونے کے وقت اور اشارہ کیا ایک گز کی طرف۔ اور اجابت کا وقت یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز میں امام فاتحہ پڑھے تو جمعے کی طور پر آمین کہی جائے تو اس وقت تک ساعت اجابت ہوتی ہے۔ یہ اُن احادیث کی رو سے ہیں جن کی صحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہو گئی ہے اور جن کو میں نے دوسری جگہ جمع کیا ہے۔
اجابت اور قبولیت کے حالات:
نماز کے لیے بلاوے (اذان) کے وقت، اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں، تکلیف اور سختی کے وقت اور میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں صف بندی کے وقت، اور عین لڑائی کے وقت رو برو جنگ کے وقت، اور فرض نمازوں کے بعد، اور سجدے کی حالت میں اور تلاوت قرآن کے بعد خصوصًا ختم القرآن کے بعد، زمزم شریف کے پانی پینے کے وقت، مردے کے سامنے حاضری کے وقت، مرغ کی اذان کے وقت، مسلمانوں کے اجتماع کے وقت، ذکر کی مجلس کے وقت اور امام کے ﴿وَ لَا الضَّالِّیْنَ﴾ کہنے کے بعد، اور مردے کی آنکھیں بند ہونے اور دفن کرنے کے وقت اور نماز کی اقامت کے وقت، بارش کی آمد کے وقت۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اپنی کتاب ''الاُم'' میں بیان فرمایا ہے۔ اور اُس کو مُرسلًا روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے اس کو بہت لوگوں سے سُن کر یاد کیا ہے۔ اور جس وقت خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھا جائے، اور سورۂ انعام میں جلالتین کے درمیان، یہ ہم نے بہت سے لوگوں سے یاد کیا ہے اور تجربہ شدہ ہے اور حافظ عبد الرزاق الاسعی نے اپنی تفسیر میں شیخ عماد القدسی سے نقل کیا ہے۔
وہ مقامات جہاں قبولیت دعا ہوتی ہے:
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوب میں جو کہ اہل مکہ کو بھیجا گیا تھا، فرمایا کہ ان پندرہ مقامات میں دعا قبول ہوتی ہے: (1) طواف میں، (2) ملتزم میں، (3) میزاب رحمت کے نیچے، (4) بیت کے اندر، (5) زمزم شریف کے پاس، (6) صفا پر، (7) مروہ پر، (8) سعی میں، (9) مقام ابراہیم کے پیچھے، (10) عرفات میں، (11) مزدلفہ میں، (12) منیٰ، (13-14-15) تینوں جمروں کے پاس۔ ملتزم کے بارے میں مسلسل احادیث وارد ہوئی ہیں۔
وہ اشخاص جن کی دعا قبول ہوتی ہیں:
جو شخص خطرے میں ہو، مظلوم کی دُعا قبول ہوتی ہے اگرچہ فاجر ہو یا کافر ہو۔ والد کی دعا، امام عادل کی دعا، صالح آدمی کی اور نیک والد کی دعا اپنے بیٹے کے لیے، روزہ دار کی دعا جب وہ افطار کرنے لگے، ایک مسلمان کی دعا جو ظلم اور قطع رحمی کے لیے نہ ہو اور جو یہ نہ کہا کرے کہ میں نے دُعا کی مگر قبول نہ ہوئی۔ دن رات میں ہر بندے کی ایک دعا قبول ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا وہ اسم جس کو کہہ کر اگر دعا مانگی جائے تو دعا قبول ہوتی ہے اور جب کوئی سوال اللہ تعالیٰ سے کیا جاتا ہے تو وہ اُس کو عطا کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَّ الظّٰلِمِیْنَ"۔ اور اللہ تعالیٰ کا وہ نام جس کے ذریعے اگر سوال کیا جائے تو عطا کیا جاتا ہے اور اگر دعا کی جائے تو قبول کی جاتی ہے یہ ہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ"۔ اور اللہ تعالیٰ کا وہ مقدس نام جس کے ذریعے دعا کی جائے تو قبول کی جاتی ہے اور جب سوال کیا جائے تو عنایت کی جاتی ہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَآ شَرِیْکَ لَکَ، الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ"۔ اور اسم اعظم قرآن کی تین سورتوں میں ہے، سورۂ بقرۃ، آل عمران اور سورہ طٰہٰ۔ حضرت قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میرے نزدیک اسم اعظم "أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ" یعنی دو حدیثوں میں جمع ہوا ہے۔ اور علامہ واحدی کی کتاب الدعا میں عبد الاعلیٰ سے بھی یہ روایت ہے۔ اور یہ قاسم، عبد الرحمٰن کے بیٹے اور تابعی ہیں۔ یہ حضرت ابو اُمامہ کے صاحب ہیں اور صدوق یعنی راست گو ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو سُنا جو کہہ رہا تھا: "یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 60، دار القلم بیروت)
اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو اُن لوگوں پر موکل ہیں جو کہتے ہیں کہ "یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ"، جو شخص یہ تین دفعہ پڑھ لے تو فرشتہ اُس کو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف متوجہ ہو گیا۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 79، دار القلم بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کے پاس سے گزر فرمایا، وہ کہہ رہا تھا: "یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس کو ارشاد فرمایا کہ سوال کرو اللہ تعالیٰ تمہاری جانب دیکھتا ہے اور متوجہ ہے۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 79، دار القلم بیروت)
جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین دفعہ جنت طلب کرے تو دوزخ پکار اٹھتی ہے کہ اے اللہ تعالیٰ! اس کو دوزخ سے بچائے رکھ۔ جو شخص یہ پانچ کلمے کہہ کر دُعا کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کو ضرور وہ عطا فرماتا ہے جس کا کہ وہ سوال کرتا ہے۔ "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَآ شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہٗ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ لَآ حَوْلَ وَ لَآ قَوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ" (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 78، دار القلم بیروت)
حضرت عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنی اہلیہ کے پاس ہم بستری کرنے کے لیے آنے کا ارادہ کرے تو یہ کہے: "بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا" تو اس کے نتیجے میں جو اولاد ہو جائے تو اُس کو شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچائے۔ گا۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 261، دار القلم بیروت)
خولۃ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سُنا ہے کہ کسی شخص نے آپ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے بچھو نے کاٹا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم یہ کہتے کہ "أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ" تو تم کو کچھ ضرر اور تکلیف نہ پہنچاتا۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین، رقم الصفحۃ: 96، دار القلم بیروت)
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہلال یعنی نیا چاند دیکھتے تھے تو فرماتے: "اَللّٰھُمَّ أَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَ الْإِیْمَانِ وَ الْإِسْلَامِ وَ السَّلَامَۃِ وَ رَبِّيْ وَ رَبُّکَ اللہُ" (سنن الترمذي، ابواب الدعوات، باب: ما یقول عند رؤیۃ الھلال، رقم الحديث: 3451)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس پر مصائب زیادہ ہو جائیں تو یہ کہے کہ "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَ ابْنُ أَمَتِکَ وَ فِيْ قَبْضَتِکَ نَاصِیَتِيْ بِیَدِکَ مَاضٍ فِيْ حُکْمِکَ عَدْلٌ فِيْ قَضَاءِکَ أَسْئَلُکَ بِکُلِّ إِسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ فِيْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِيْ وَ جِلَاءَ ھَمِّيْ وَ غَمِّيْ"۔ اور جب بندہ اس کو صرف کہہ ڈالے تو اللہ تعالیٰ اُس کا غم دور کرے گا اور اُس کو خوشی میں تبدیل کرے گا۔ اس کو رزین نے روایت کیا ہے۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین، رقم الصفحۃ: 87، دار القلم بیروت)
قتادہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہلال کو دیکھتے تھے تو فرماتے تھے: "ھِلَالُ خَیْرٍ وَّ رُشْدٍ ھِلَالُ خَیْرٍ وَّ رُشْدٍ ھِلَالُ خَیْرٍ وَّ رُشْدٍ اٰمَنْتُ بِالَّذِيْ خَلَقَکَ"۔ یہ تین بار پڑھتے پھر فرماتے کہ "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ ذَھَبَ بِشَہْرِ کَذَا" یعنی حمد ہے اُس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے جس نے یہ مہینہ (نام لیتے) خیر سے گزارا اور یہ مہینہ (نام لیتے) لے آیا۔ اس کو أبو داوٗد نے روایت کیا۔ (رقم الحدیث: 5092)
حضرت انس رضی اللہ عنہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ آپ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے: "اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ" متفق علیہ (رقم الحديث: 6389)
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم طعام تناول فرمانے سے فارغ ہو جاتے تو فرماتے: "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَ جَعَلْنَا مُسْلِمِیْنَ" رواہ الترمذي و أبو داوٗد و ابن ماجہ (رقم الحديث: 3457)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "أَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ" یعنی کھانا کھا کر شکر کرنے والا صبر کرنے والے روزہ دار کی مانند ہے۔ اس حدیث کو ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث: 2486)
حضرت ابی ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے, کہ جب رسول اللہ کھانا تناول فرماتے تھے یا کوئی مشروب نوش فرماتے تھے تو فرماتے: "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ أَطْعَمَ وَ سَقٰی وَ سَوَّغَهٗ وَ جَعَلَ لَہٗ مَخْرَجًا"۔ رواہ أبو داوٗد
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے تورات شریف میں پڑھا تھا کہ طعام میں برکت جب ہوتی ہے کہ اُس کے بعد وضو کیا جائے۔ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ذکر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "بَرَکَۃُ الطَّعَامِ اَلْوُضُوْءُ قَبْلَہٗ وَ الْوُضُوْءُ بَعْدَہٗ" کہ طعام کی برکت اس میں ہے کہ اس سے قبل بھی وضو کیا جائے اور بعد میں بھی کیا جائے۔ رواہ الترمذی (رقم الحديث: 1846)
حضرت نبیشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے کسی برتن میں کھانا کھایا تو چاہیے کہ اس کو صاف کرے۔ وہ برتن اس کی مغفرت کے لیے دعا طلب کرتا ہے۔ اس کو ترمذی، احمد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث: 1804)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے ایسی حالت میں رات گزاری کہ اس کا ہاتھ گندہ ہو اور اُس کو نہ دھوئے، اور پھر اُس کو کچھ ہو جائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرے۔ ترمذی و احمد و ابن ماجہ اور أبو داوٗد نے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث: 1859)
سورۂ واقعہ کے منافع اور فضائل:
جو شخص رات کو سورہ واقعہ پڑھے تو اُس فاقہ سے نجات ہو گی۔
سورہ واقعہ پڑھنے کے بعد گیارہ دفعہ یہ دُعا پڑھے: "اَللّٰھُمَّ اکْفِنِيْ بَحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَ أَغْنِنِيْ بفَضْلِکَ عَمَّا سِوَاکَ"۔
درد سر اور کنپٹی کے درد کے دفع کرنے کے لیے یہ دعا پڑھے: "إِلٰھِيْ بِثُبُوْتِ الرُّبُوْبِیَّۃِ وَ بِتَعْظِیْمِ الصَّمْدَانِیَّۃِ وَ بِسَطْوَۃِ الْإِلٰھِیَّۃِ وَ بِقُدْرَۃِ الْجَبَرُوْتِیَّۃِ وَ بِقُدْرَۃِ الْوَحْدَانِیَّۃِ وَ بِعِزَّۃِ الْفَرْدَانِیَّۃِ أَنْ تَشْفِیَنِيْ عَاجِلًا" یہ عمل مجرب اور صحیح ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام دردوں اور بخاروں کے بارے میں ہدایت فرمائی ہے: "بِسْمِ اللہِ الْکَبِیْرِ نَعُوْذُ بِاللہِ الْعَظِیْمِ مِنْ شَرِّ عِرْقٍ نَّعَّارٍ وَّ مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ"۔ (سنن الترمذی، أبواب الطب، باب: بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 2075)
اور ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو بخار ہو جائے تو چونکہ بخار آگ کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہوتا ہے تو اُس کو پانی سے بجھا دے، بہتی ہوئی نہر میں نہائے۔ اور اُس کی گرمی کو کم کر دے اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے نہا کر یہ کہے کہ "بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ وَ صَدِّقْ رَسُوْلَکَ"۔ اور پانی میں تین غوطے لگائے۔ یہ تین دن ایسا کرے۔ اگر تین دن میں اچھا نہ ہوا تو پانچ دن ایسا کرے۔ اگر پانچ نہیں تو سات اور پھر نو دن تک۔ کیونکہ نو دن سے زیادہ سے تک نہیں رہ سکتا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث غریب ہے۔ (رقم الحدیث: 2075)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کسی انسان کو کوئی شکایت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اُس کو دائیں ہاتھ سے مسح کرتے اور فرماتے کہ "اِذْھَبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَآ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُکَ شِفَاءً لَّا یُغَادِرُ سَقَمًا"۔ متفق علیہ (رقم الحدیث: 5743)
اور یہ روایت بھی آپ رضی اللہ عنہا ہی نے نقل کی ہے کہ جب کوئی انسان کسی شکایت میں مبتلا ہو جاتا اگر وہ کوئی زخم وغیرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی انگلی پر فرماتے۔ "بِسْمِ اللہِ تُرْبَۃُ أَرْضِنَا بِرِیْقَۃِ بَعْضِنَا یُشْفٰی سَقِیْمَنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا" متفق علیہ (رقم الحديث: 5745)
اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں تشریف لائے اور کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا کوئی شکایت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں، تو جبریل علیہ السلام نے کہا: کہہ لیجیئے: "بِسْمِ اللہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَيْءٍ یُّؤْذِیْکَ"۔ رواہ مسلم (رقم الحديث: 2186)
جب کوئی انسان یہ خوف رکھے کہ اُس کو یا کسی غیر کو قتل کیا جائے گا تو اُس کو چاہیے کہ وہ ایک مینڈھا جو کہ سب اعضا سے صحیح و سالم ہو، جس طرح قربانی کے لیے لیا جاتا ہے، حاصل کرے، پھر اُس کو ایک خالی جگہ میں جہاں اُسے کوئی نہ دیکھ پائے، جلدی سے قبلہ رُخ ہو کر ذبح کر ڈالے اور ذبح کرتے وقت کہے کہ "اَللّٰھُمَّ ھٰذَا لَکَ، اَللّٰھُمَّ إِنَّہُ فِدَائِيْ فَتَقَبَّلْہُ مِنِّيْ"۔ اور اُس کے خون کے لیے ایک گڑھا کھود کر اُس میں وہ خون گاڑ دے کہ کوئی شخص اُس خون پر پاؤں نہ رکھے۔ اور پھر اُس کو ساٹھ ٹکڑے کرے، خود بھی اُس سے کچھ نہ کھائے اور نہ کسی مالدار کو کھلائے۔ بلکہ فقیروں اور مسکینوں میں تقسیم کرے۔ کیونکہ یہ فدیہ ہے، اور اس کو اس کا کھانا مکروہ ہے۔ خدا اُس کو اُس مصیبت سے بچائے گا۔ یہ مجرب اور معمول عمل ہے۔
صلوۃ استخارہ کے حقیقت کے بارے میں:
شیخ ابو موسیٰ محمد بن سُکَّر المدنی جو کہ اصحاب کرام کی اولاد سے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے سابقہ کتابوں میں دیکھا ہے کہ آئمہ سلف سے روایت ہے کہ جو شخص چاہے کہ استخارہ کرے تو عشاء کی نماز کے بعد اور وتر کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔ سورۂ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں گیارہ مرتبہ پڑھ لے اور اپنے دائیں ہاتھ پر دم کر ڈالے۔ اور معوذتین یعنی سورۂ فلق اور سورہ ناس دس دفعہ پڑھ کر بائیں ہاتھ پر دم کرے۔ اور اپنے کام کی نیت کر کے با وضو سو جائے۔ اگر خواب میں دیکھے کہ کوئی مردہ یا زندہ اس کو کچھ چیز دیتا ہے تو وہ کام کر لے جس کے لیے اس نے استخارہ اور ارادہ کیا ہو۔ اور اگر یہ دیکھے کہ کوئی شخص اُس سے کوئی چیز لیتا ہے تو پھر اُس کو چھوڑ دے۔ اور اگر پہلی رات میں کچھ نہ دیکھے تو دوسری رات یہ عمل کرے۔ اور اگر پھر بھی نہ ہو تو تیسری رات کرے، یہ مجرب عمل ہے۔
جنات کے دفعہ کرنے کے لیے:
اِن آٹھ بادشاہوں کے نام کاغذ پر لے۔ اور آسیب زدہ یا مرگی والے مریض کی گردن میں باندھ لے وہ فورًا اچھا ہو جائے گا۔ "اَللّٰھُمَّ خَلِّصْہُ مِنْ جَمِیْعِ الْجِنِّ وَ الشَّیَاطِیْنِ وَ الْغَیْلَانِ بِحَقِّ جَانٍّ یَا شَاھِدُ یَا احَقُّ مَیْمُوْنُ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ أَیُّھَا الرَّکْبُ الْمُسَخَّرُ لِمَا أَحِبُھُمْ کَمَا جَاءَ الجَانِبَ النَّمْلِ سُلَیْمَانُ ابْنُ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَإِنِّيْ أَعْھَدُ إِلَیْکُمْ بِخَاتَمِ سُلَیْمَانَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَإِنَّکَ مِنَ الدَّسَنِ ھٰذَا الْکِتَابُ مِنَ اللہِ الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ۔
نوع دیگر جنات اور پری اور آسیب وغیرہ کا تعویز:
یہ تعویز لکھ کر آسیب زدہ کی گردن میں باندھا جائے تو فی الفور دفع ہو جائے گا، مجرب ہے۔ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رَاقَاشٌ قَاعِشٌ مِرْقَاشٌ أَسْطَتْ فَاسْطَتْ فاخطوف خطُوْفٌ خَطَافٌ فِرْدَاسُ اللہِ رَبُّ الْعِزَّۃِ یَا طَبُوْا یَا طَبُوْا یَا سَلُوْا اشلوخٌ رافح شنوح ارموا اخشوثا تقدیم لاذلی لا بدی ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُوْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَ لَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ﴾ أُنْشِدُکُمْ یَا مُغْتَرَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ بِاللہِ الْعَزِیْزِ الْقَھَّارِ الْوَافِيْ بِالدَّفْعِ وَ بِالْعَھْدِ الَّذِيْ أَخَذَ عَلَیْکُمْ سُلَیْمَانُ ابْنُ دَاوٗدَ عَلَیْھِمَا السَّلَامُ أَنْ تَفِرُّوْا مِنْ حَامِلِ ھٰذَا الْھَیْکَلِ وَ أَنْ تَتْرُکُوْہُ وَ أَنْ تَفْعَلُوْہُ فِيْ ضَرَرِ اللہِ وَ حِمَایَتُہ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ أَجْمَعِیْنَ یَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ"۔
ایک دوسری قسم:
اگر کسی وجہ سے بھی ٹھیک نہ ہو تو یہ تعویذ سبز کپڑے میں لپیٹ کر اور اگر سبز نہ ہو تو جیسا بھی ہو، اُس میں لپیٹ کر آسیب زدہ یا مرگی کے مریض کی ناک میں اُس کا دھواں دے دے۔ فورًا مرض دفعہ ہو جائے گا۔ یہ عمل انتہائی مجرب ہے۔ مگر بغیر ضرورت کے اس کا کرنا اچھا نہیں۔ "لَا یَجْمَعُ أَلَاحُ أَرْسَلَ حلو الدوی فَاطِرٌ۔ کُلَّمَا شَادِيْ وَکِیْلًا احلاوہ فَاطْرُفِیْہِ"۔
یہ مقالہ ختم ہوا۔ بحوالہ مشکوۃ، خزانہ جلالی، حصن حصین، نظم معتبر، جامع المتفرقات اور طب نبوی۔