حصہ 3 مقالہ 15: شرک خفی و شرک جلی کے بیان میں

پندرھواں مقالہ

شرک خفی و شرک جلی کے بیان میں

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ بَارَکَ وَ سَلَّمَ: "الشِّرْکُ فِيْ اُمَّتِيْ أَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النّمْلِ عَلَی الصَّفَا فِي اللَیْلَۃِ الظَّلْمَاءِ" (الجامع الصغیر للسیوطي، رقم الحدیث: 7175) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت میں شرک تاریک رات میں پتھر پر چیونٹی کی چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے“۔ پس یہ بات جان لیں کہ شرک اصل ایمان کو تو ختم نہیں کرتا مگر ایمان کے حقائق اور فوائد میں خلل اور نقصان پیدا کرتا ہے۔ خالص سونا بھی سونا ہے اور جس میں کچھ ملایا گیا ہو، وہ بھی سونا ہے، لیکن مارکیٹ میں خالص سونے کے برابر اس کی قیمت نہیں ہوتی۔ ایمان کی حقیقت توحید ہے اور توحید کی ضد شرک ہے، تم نہیں دیکھتے کہ جب تک کہ شرک کو اُٹھایا نہ جائے توحید حاصل نہیں ہوتی، جب اصل شرک اُٹھایا اور ہٹایا جائے تو توحید ظاہر ہو جاتی ہے۔ جب کسی کی خواہش ہو کہ اس کا ایمان اور توحید حقیقی اور خالص ہو جائے تو اُس کو چاہیے کہ جو میل اور آلائش ایمان کو غلیظ اور مکدر بنائے، وہ دور کرے، اور اُس کو اپنے آپ سے ساقط کرے۔ اور وہ میل اور آلائش جو ایمان کو گرد آلود بنا کر مکدر بناتی ہے، وہ شرک خفی ہے۔ شرک خفی کے معنیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے سے نفع اور ضرر کا پہنچنا خیال کرنا ہے اور اللہ کے سوا کسی دوسرے سے خوف کرنا اور اُمید رکھنا ہے۔ اور ریاء خفی اور کبر و غرور سے حلاوت حاصل کرنا اور لوگوں کی تعریف سے خوش ہونا اور ہجو و ذم سے دل گرفتہ ہونا یہ سب شرک خفی میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ ﴿وَاعْبُدُوا اللہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا...﴾ (النساء: 36) ”اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ بناؤ“۔ اور اس بات کا راز کہا گیا ہے۔ رباعی

؎ نکو گوئے نکو گفتہ است در ذات

کہ التوحید اسقاط الاضافات

چرا در وحدتش پیوند جویم

توئی مطلوب و طالب چند گویم

’’ایک اچھی باتیں کہنے والے شخص نے نہایت اچھی بات فرمائی ہے کہ توحید تمام اضافی چیزوں کو ساقط کرنا ہے۔ اُس کی توحید میں کیوں پیوند تلاش کریں، اور طالب و مطلوب کا ورد کیوں کریں‘‘۔

بزرگوں نے کہا ہے کہ شرک کی دو اقسام ہیں: ایک شرک جلی اور دوسرا شرک خفی، شرک جلی تو مشہور ہیں جیسے بت پرستی، آتش پرستی اور اسی طرح خدا جو کہ عبادت کے لائق ہے، کے علاوہ کسی دوسری چیز کی عبادت کرنا شرک جلی ہے۔ اور شرک خفی رسول اللہ ﷺ کی امت میں معمول ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں اُس کا ذکر ہوا۔ اور اس کے معنیٰ یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اُس کو چیونٹی کی رفتار سے مشابہ کہا گیا ہے اور چیونٹی کی رفتار کا نہ تو احساس کیا جاتا ہے اور نہ اُس کو سنا جاتا ہے، نہ تو اس کے پاؤں کی رفتار کی آواز سنی جا سکتی ہے، اور نہ تاریک رات میں کالے پتھر پر اُس کے چلنے کی حرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح شرک خفی انسان میں چلتا رہتا ہے اور انسان کو اس کا پتہ نہیں چلتا، لہٰذا اُس کی تشبیہ پتھر پر چلنے سے فرمائی نہ کہ مٹی پر چلنے سے، کیونکہ مٹی پر چلنے سے کچھ نشانی باقی رہ جاتی ہے مگر پتھر پر چلنے کا کوئی اثر اور نشان باقی نہیں رہتا، چونکہ پتھر پر چلنے سے کوئی نشان نہیں رہتا اور چلنے سے کوئی خبر بھی نہیں ہوتی، اسی طرح شرک خفی انسان میں چلتا رہتا ہے اور انسان کو اس سے کچھ آگاہی نہیں ہوتی۔ اس کے بعد تاریک رات کا ذکر فرمایا، یہ اس واسطے کہ ”صفا“ کالے سیاہ پتھر کو کہتے ہیں، اور چیونٹی بھی سیاہ رنگ کی ہوتی ہے، اور رات بھی سیاہ ہوتی ہے اور سیاہی، سیاہی پر سیاہی میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ جب شرک خفی پے در پے ہو جائے تو تاریکیاں جمع ہو جاتی ہیں، صغیرہ عمل ہوتے ہوتے کبیرہ ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ ایمان یہ ہے کہ سب کچھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانا جائے اور سب کچھ اُسے دیکھنا ہے، جو کوئی دونوں جہانوں میں کسی غیر کو دیکھے گا، یہی شرک ہے۔ اور اس بات کی دلیل جناب حارث رضی اللہ عنہ ہیں کہ جب اُنہوں نے ایمان کی حقیقت کا دعویٰ کیا تو سب سے اپنے دعویٰ کے سچائی کی خاطر ما سوی اللہ سے اور غیر سے نفع کی اُمید قطع کی۔ تم نہیں دیکھتے کہ فرما دیا: "اِسْتَویٰ عِنْدِيْ ذَھَبُھَا وَ فِضَّتُھَا وَ حَجَرُھَا وَ مَدَرُھَا" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْحَدِیْثَ) کہ میرے نزدیک اس کا سونا، چاندی، پتھر اور مٹی سب مساوی اور برابر ہیں۔ تمام چیزوں میں نفع کی چیز زر و سیم یعنی سونا چاندی ہے، دنیا کی تمام اشیاء اس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ یہ سب اُن کے نزدیک پتھر اور مٹی کے برابر ہیں، اور نفس کا نفع اور فائدہ و لطف کھانے میں ہے، اور سو جانے میں ہے، اور فرمایا کہ "أَسْہَرْتُ لِذَالِكَ لَیْلِيْ وَ اطْمَأَنَّ نَهَارِيْ" (المعجم الکبیر للطبراني، باب: الحاء، الحارث بن مالك الأنصاري، رقم الحديث: 3367) ”میں نے رات کو شب بیداری اور دن کو بھوک میں گزارہ“ اور ان سے مراد دنیا کا نفع ہے۔ اور جب دنیا کے نفع کے حصول کی تمنا چھوڑ دی، تو یہ حاضر چیز (نفع) اُن کے واسطے ایک غائب چیز ہو گئی۔ جب اُنہوں نے ایمان کے بارے میں یہ دلائل قائم کر کے دکھائے، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا کہ "عَرَفْتَ فَالْزَمْ" (المعجم الکبیر للطبراني، باب: الحاء، الحارث بن مالك الأنصاري، رقم الحديث: 3367) تم نے رسائی حاصل کی، اب اس کو مضبوطی سے پکڑے رہنا۔ یہ راز کی بات ہے، مثنوی۔

؎ خلق تا در جہان اسباب اند

ہمہ اندر شب اند و در خواب اند

ترک تردید رخش توحید است

نقص تردید محض تجرید است

’’لوگ جب اسباب کے جہان میں ہیں، تو یہ سب لوگ رات میں اور نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں، تردید کا ترک کرنا توحید کی سواری ہے، اور تردید میں نقصان اور کمی کرنا صرف تجرید ہے‘‘۔ (تجرید، ننگا کرنا)

رسول اللہ ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے، کہ "لَا رَاحَۃَ لِمُؤْمِنٍ دُوْنَ لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی" (سلسلۃ الأحاديث الضعيفۃ، رقم الحديث: 663) وَ الْمَوْتُ دُوْنَ لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی رَاحَۃُ الْمُؤْمِنِ" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْجُزْءَ مِنَ الْحَدِیْثِ) ”مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار کے علاوہ کوئی خوشی نہیں، اور دیدار کے بغیر موت مؤمن کے لیے راحت ہے“۔ یہ معاملہ اُس وقت ہوتا ہے کہ ایمان ایک حقیقت بن جائے اور ایمان حقیقت تب ہو جاتا ہے کہ جب دُنیا کے علائق سے قطع تعلق کیا جائے۔ اگر دنیا میں اُس کی صفت یہ ہو جائے تو دنیا اس کے لیے قیامت کی صفت کی ہو جائے، جیسا کہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے لیے ہو گئی تھی۔ جو کوئی تجرید کی تلاش کرتا ہو تو اُس کو شرک کے ساقط کرنے کے بغیر حاصل نہیں کر سکے گا، اور یہ ساقط کرنا علائق سے قطع تعلق کرنا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی سے خوف کھائے یا غیر اللہ سے اُمید رکھے، اگرچہ اُس کو حقیقی شرک تو لاحق نہیں مگر یہ خوف و امید کھانا اور رکھنا بھی شرک ہے۔ اور دیگر صفتوں میں بھی اس پر قیاس کر دینا۔

یہ بات اچھی جاننی چاہیے کہ جو کوئی اپنے آپ کو عبادت میں واصل سمجھے یا گناہوں میں اپنے آپ کو جدا اور علیحدہ سمجھے، اگر یہ وصل اور جدائی غیر حق کی جانب سے سمجھے تو یہ شرک ہے۔ حاصل یہ کہ جس وقت بندے کا ایمان متحقق نہ ہو جائے اور اُس کی صفات اس طرح کی نہ ہو جائیں کہ "کُلُّھَا مِنَ الْحَقِّ وَ بِالْحَقِّ وَ لِلْحَقِّ وَ إِلَی الْحَقِّ مِلْکًا" ”سب کچھ حق سے ہے، حق پر ہے، حق کے لیے ہے اور ملکیت کے لحاظ سے حق کی طرف ہے“۔ یعنی ہر صورت میں حق کی ملکیت ہے اور اُس کا رجوع بھی حق کی جانب ہے۔ جب اُس کی یہ صفات ہو جائیں، تو اُس کا ایمان ثابت اور متحقق ہو جاتا ہے۔