حصہ 3 مقالہ 14: ہمت اور صاحب ہمت لوگوں اور ہوائے نفس کو ترک کرنے کے بیان میں

چودھواں مقالہ

ہمت اور صاحب ہمت لوگوں اور ہوائے نفس کو ترک کرنے کے بیان میں

یہ بات جان لے کہ کم ہمت مرید کسی جگہ نہیں پہنچتا، جس مرید کی ہمت کا گھوڑا جنت سے آگے نہ جائے وہ مرید اس میدان کے شایانِ شان اور لائق نہیں۔ عارف لوگ کہتے ہیں ہر چیز اپنے حسبِ دل خواہ اور مرضی کے مطابق چاہنا مردوں کا کام نہیں بلکہ یہ عورتوں کا کام ہے۔ امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اُس شخص کے لیے ہماری مجلس میں آنا اور بیٹھنا حرام ہے جس کی ہمت اور خواہشات دونوں جہانوں سے بالاتر نہ ہوں۔

؎ عدل آں بود اے پسر کہ خود را

از حد حدوث برتر آری

وانگه کہ چوں حضرت او

در مقصد صدق اندر آئی

’’عدل و انصاف کی بات یہ ہے کہ اس عالَمِ حادث کے حدود سے باہر نکل جاؤ، اور اس وقت کہ جب اس کی جناب میں (یعنی اس کے بعد عالم حدوث کے حدود سے نکل جانے کے بعد تم اس قابل ہو جاؤ گے، کہ) مقصد صدق میں آ سکو‘‘۔

ہر ایک آدمی کی قیمت اس کی ہمت کے تحت ہے، ہر کوئی بس وہی ہے جتنی اُس کی ہمت ہے، ہر شخص کی قیمت اُس کی ہمت ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ہر کوئی آج اپنی قیمت اور مول کو نہیں پہچانتا۔ پس جس کسی کی ہمت وہ ہو "مَا یُدْخِلُ" ”جو وہ داخل کرے“ پس اُس کی قیمت وہ ہو گی جو کہ "مَا یُخْرِجُ" ”وہ خارج کرتا ہے“ پس جس کسی کی ہمت ہو کہ وہ پیٹ میں لے آئے، تو وہ اُس کی قیمت وہی ہوگی "مَا یَخْرُجُ" ”جو نکل آئے“۔ اور وہ میں اور تم ہیں یہی چیز۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری قیمت وہ ہو جائے؟ اے بھائی! اگر کل میں اور تم برابر سرابر ہوں اور ہمارے ساتھ صلح ہو جائے "لَا عَلَیْنَا وَ لَا لَنَا" ”نہ کچھ ہم پر ہو اور نہ ہمارا کچھ ہو“ تو ہم میدان میں فاتح اور کامیاب ہوں گے۔

نفس کی خواہشات کو ترک کرنے کے بیان میں:

یہ بات جان لو کہ ہوا (خواہش) سے مراد نفس کے اوصاف، واصلین کا حجاب، مریدوں کی جائے وقعت اور طالبین کا اِعراض (منہ موڑنے، نہ ماننے) کا مقام ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اصل تو وہ ہے اور ان کو اُس کے خلاف حکم دیا گیا ہے، اور اس کے کرنے ارتکاب کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ "مَنْ رَّکِبَھَا هَلَکَ وَ مَنْ خَالَفَھَا مَلَکَ" ”جس نے ہوائے نفس کی تابعداری کی تو وہ ہلاک ہوا اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ اپنی مراد اور منزل مقصود کو پہنچ گیا“ مثنوی

؎ سر ز ہوا تافتن از سروری است

ترک ہوا قوت پیغمبری ست

توسن طبع تو چو راست شود

سکۂ اخلاص بنامت شود

’’ہوائے نفس سے منہ موڑنا سرداری کا کام ہے، اور ترک ہوا کرنا پیغمبری قوت کا کام ہے، اگر طبیعت اور خواہشات کا گھوڑا (تمہارا متبع ہو کر) قابو میں آ جائے، تو تمہارے اخلاص کا سکہ جاری ہو جائے گا‘‘۔

ہوا دو قسم کی ہوتی ہے: ایک ہوا (خواہش) لذت اور شہوت کی ہوا ہوتی ہے اور دوسری جاہ، ریاست اور حکومت کی، جس کسی کو لذت اور شہوت کی ہوا ہو وہ خرابات میں پڑا رہے گا اور لوگ اُس کے شر اور فتنوں سے امن میں ہوں گے۔ اور جس کو جاہ و ریاست کی ہوا و خواہش ہو تو وہ صومعوں اور خانقاہوں میں ہوں گے، اور لوگوں کے لیے فتنہ ہوں گے، خود بھی گم کردہ راہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی بد راہ کرتے رہیں گے۔ پس جس شخص کو ہوا کی رضا جوئی مطلوب ہو، اور اُس کی متابعت کرنا چاہتا ہو، تو وہ حق سے دور ہوگا، اگرچہ آسمان پر کیوں نہ ہو۔ مثنوی

؎ چوں ترا صد بت بود در زیر دلق

چوں نمائی خویشتن صوفی بد خلق

’’جب تمہاری خرقہ و قبا کے نیچے سو بُت پوشیدہ ہوں، تو تم لوگوں کو اپنے آپ کو کس طرح صوفی دکھاو گے‘‘۔

اور جو لوگ ہوا و خواہش سے دور ہوں اور اس سے پہلو تہی کرتے رہیں، تو وہ حق کے نزدیک ہوں گے۔ خواجہ ابراہیم خواص نے کہا ہے کہ میں نے سنا تھا کہ روم کے ملک میں ایک راہب اپنی رہبانیت کے امور میں ستر سال عمر بسر کر چکا تھا، میں نے کہا کہ عجیب بات ہے، رہبانیت کے لیے عمر تو ستر سال نہیں صرف چالیس سال ہے، وہ کس وجہ سے اتنی دیر تک رہ سکا ہے؟ میں نے اُس کے دیکھنے کا ارادہ کیا، جب میں وہاں پہنچ گیا تو اُس نے کھڑکی کھول کر مجھے کہا کہ اے ابراہیم! مجھے معلوم ہے کہ تو کس کام کے لیے یہاں آیا ہے، میں یہاں رہبانیت کرنے نہیں بیٹھا ہوں، بلکہ میرے ساتھ ایک کتا ہے جو کہ خواہشات میں مبتلا اور مست ہے۔ میں نے اس کو قید کیا ہے اور اُس کی نگہبانی اور چوکیداری کی خاطر بیٹھا ہوں تاکہ لوگوں کو اُس سے ضرر اور نقصان نہ پہنچے، ورنہ میں وہ نہیں جو کچھ مجھے تُو سمجھتا ہے۔ بیت

کافر است ایں نفس بے فرماں چنیں

کشتن او کے بود آسان چنیں

’’یہ نا فرمان نفس بڑا سخت کافر ہے، اس کا مارنا اتنا آسان کام نہیں‘‘۔

جب میں نے اُس کی یہ بات سُن لی تو میں نے کہا کہ اے میرے خدا! تو قادر ہے کہ عین گمراہی کی حالت میں بندے کو سیدھا راستہ دکھائے اور اُسے اتنی عزت و کرامت عطا فرمائے۔ اُس نے مجھے کہا کہ اے ابراہیم! تو کب تک لوگوں کو تلاش کرتا رہے گا؟ جا… اور خود اپنے آپ کی تلاش میں نکل جا، جب اپنے آپ کو پہچان جائے تو خود اپنے آپ کی نگہابی کر کیونکہ یہ ہر دن تین سو ساٹھ قسم کی الوہیت کا لباس پہن کر انسان کو گمراہی اور ضلالت میں دھکیل دیتا ہے ﴿أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ…﴾ (الجاثیۃ: 23) ”تم دیکھتے ہو جس نے اپنی ہوا اور خواہشات کو اپنا خدا بنا چھوڑا ہے؟“ یہ اس ملنے کا اسرار ہے، اور عزیزوں کا دل اس سلسلہ میں خون ہو کر رہ گیا ہے۔ بیت

؎ صد ہزاراں دل بمرد از غم ہمے

ایں سگ کافر نمے مرد ہمے

’’اس غم میں ہزاروں دل (تڑپ تڑپ کر) مر گئے، مگر یہ کافر کتا (نفس) نہیں مر پاتا‘‘۔

حاصل کلام یہ کہ ہَوا اور خواہشات کا ترک کرنا انسان کو امیر کرتا ہے اور خواہش و ہوا کی تابعداری کرنا انسان کو قیدی اور اسیر کراتا ہے۔ چنانچہ حضرت زلیخا نے خواہش کی پیروی کی تو امیر تھیں، اسیر ہو گئیں اور حضرت یوسف علیہ السلام نے ہوا کو ترک کیا تو اسیر تھے، امیر ہو گئے۔ بیت

؎ ہر کہ ایں سگ را بہ مردی کرد بند

در دو عالم شیر آرد در کمند

’’جس نے جوانمردی دکھا کر اِس کُتے کو بند کر دیا، اُس نے دونوں جہانوں میں شیر کو کمند میں قید کر دیا‘‘۔

خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ "مَا الْوُصُوْلُ؟" قَالَ: "تَرْکُ ارْتِکَابِ الْہَوٰی" ”وصول (واصل ہونا) کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ خواہشات نفسانی کو بالکل ترک کر دینا“۔ جو کوئی چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کا وصال حاصل کرے تو اُس کو کہہ دیجیے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی مخالفت کر، کیونکہ ہوائے نفس کے ترک کرنے سے بڑی عبادت اور کوئی نہیں، کیونکہ پہاڑ کو ناحق سے کھودنا ہوائے نفسانی کی مخالفت کرنے سے بہت آسان اور سہل ہے۔ خواجہ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا، جو ہوا میں اُڑتا تھا، میں نے اُس سے کہا کہ یہ درجہ کس وجہ سے پا لیا؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں نے ہوا پر قدم رکھا تو ہوا میں اُڑنے لگا، یعنی خواہشات نفسانی کو قدموں کے نیچے رکھ کر اُس کو پامال کر دیا اور ترکِ ہوا کی وجہ سے ہوا میں اُڑنے کی اہلیت حاصل ہوئی۔ خواجہ محمد بن بلخی سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے تعجب ہے کہ لوگ ہوا کو ترک کیوں نہیں کرتے، تاکہ وہ یعنی محبوب اُن کے پاس جائے اور اُن سے مل جائے اور اُس کا دیدار حاصل ہو۔ "دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالْ" ”اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آ جا“۔

اب یہ بات جان لیجیے کہ شیطان کو انسان کے دل اور باطن میں تب تک داخل ہونے کی مجال نہیں جب تک کہ اُس میں گناہ اور شہوت کی خواہش پیدا نہ ہو جائے، جب خواہش پیدا ہو جائے تو شیطان اُس خواہش کو ہاتھ میں لے کر اُس کو خوبصورت بنا لیتا ہے اور اُس کے دل پر اُس کو آراستہ و پیراستہ کر کے اُس کی جلوہ آرائی کرتا ہے، اور اس مفہوم کو وسواس کہتے ہیں۔ پس ابتدا وسواس سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول کا بھی یہی مفہوم ہے کہ شیطان کو فرمایا جس وقت شیطان نے یہ بڑی ہانکی کہ میں سب انسانوں کو راستہ سے بھٹکا دوں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ﴿إِنَّ عِبَادِيْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ...﴾ (الإسراء: 65) کہ تمہیں میرے بندوں پر کوئی غلبہ نہیں، پس شیطان کا غلبہ خواہشات کے بندے اور غلام پر ہوتا ہے، خدا کے بندے پر نہیں، یہ معنیٰ بالکل درست ہے۔ بیت

گر تو حق را بندۂ بت گر مباش

ور تو مرد ایں رہ آزر مباش

’’اگر تو حق کا بندہ ہے، تو بت ساز نہ ہو، اور اگر تو راستے کا آدمی ہے تو آزر نہ بن‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ مشائخ کرام رحمھم اللہ علیہم میں سے کسی سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ "فَقَالَ: ذَبْحُ النَّفْسِ بِسَیْفِ الْمُخَالَفَۃِ" کہ مخالفت کی تلوار سے نفس کو ذبح کرنا ہے۔ خواجہ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ "مِفْتَاحُ الْعِبَادَۃِ التَّفَکُّرُ وَ عَلَامَۃُ الْإِصَابَۃِ مُخَالَفَۃُ النَّفْسِ وَ الْھَوٰی" ”عبادت کی کلید تفکر ہے اور رسائی کی علامت نفس اور ہوا کی مخالفت کرنا ہے“۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ "مُخَالَفَۃُ النَّفْسِ رَاْسُ الْعِبَادَۃِ" کہ نفس کی مخالفت کرنا عبادتوں کا سر ہے۔ خواجہ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: "أَسَاسُ الْکُفْرِ قِیَامُکَ عَلٰی مُرَادِ نَفْسِکَ" ”کفر کی بنیاد تمہارا نفس پر قائم رہنا ہے“۔ پس چاہیے کہ مرید اور طالب دن رات اپنا یہ عمل مقرر کرے کہ ہوا کی خواہشات جو حواس میں پیدا ہوتی ہیں، اپنے آپ سے قطع کرے اور اللہ تعالیٰ سے تضرع اور عجز و نیاز سے درخواست کرے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کی فریاد سُنے، اور سوز دل سے عجز و زاری کرتا رہے، کہ اے خدا مجھے متابعت نفس سے بچائے رکھ اور نہایت بے چارگی اور عاجزی سے کہے۔ مثنوی

؎ بندہ را زیں بحر نا معلوم بدار

تو بر افگندی مرا ہم تو بدار

نفس من بگرفت سر تا بائے من

گر نگیری دست من اے وائے من

گم شدم در بحر حیرت ناگہان

زیں ہمہ سر گشتگی یا زم رہان

پردہ بر گیر آخر و جانم مسوز

بیش اندر پردہ پنہانم سوز

یا ازیں آلودگی پاکم بکن

یا بہ در خونم کش و خاکم بکن

رہبرم شو زانکہ گمراہ آمدم

دولتم وہ زانکہ بیگاہ آمدم

’’اس بندہ کو اس بحر نا پیدا کنار سے محفوظ رکھ، تو نے ہی مجھے اس میں ڈال رکھا ہے تو ہی میری حفاظت کر، میرے نفس نے سر سے لے کر پاؤں تک میرے سارے جسم پر قبضہ کیا، اگر تم میری دست گیری نہ کرو گے تو میری حالت پر افسوس ہے۔ میں حیرت کے سمندر میں گم ہو گیا ہوں۔ اس سراسمیگی اور پریشانی کی حالت سے مجھے نجات دے، مجھ سے یہ ظلمت کا پردہ اُٹھا، اور میری روح کو نہ جلا۔ (اور اس سے) آگے (یعنی مزید) مجھے پردے کے اندر پوشیدہ طور پر نہ جلا، یا تو اس آلودگی سے مجھے صاف و پاک کر اور یا میرا خون گرا کر مجھے مٹی کر، چونکہ میں گمراہ اور گم کردہ راہ ہو گیا ہوں، اس لیے تم میرا رہبر بن جا، اور مجھ پر اپنی عنایت فرما، کیونکہ میں محتاج ہوں‘‘۔

خواجہ علی مروزی سے نقل کیا گیا ہے، کہ سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں ایک قیمتی موتی تھا، اُس نے وہ موتی وزیر کو دے کر کہا کہ اس کو توڑ ڈال۔ وزیر نے کہا کہ اس کی قیمت بادشاہی خزانے جتنی ہے، اس کو کیوں توڑا جائے؟ سلطان نے وہ موتی ایاز کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ اس کو توڑ ڈال۔ اُس نے پتھر کے نیچے رکھ کر اس کو فورًا توڑ ڈالا۔ سلطان نے ایاز سے پوچھا کہ اس کو کیوں توڑ ڈالا؟ ایاز نے کہا: میں نے برا کیا، اور اچھا کیا۔ سلطان محمود نے وزیر کی جانب مڑ کر کہا کہ ادب کو ایاز سے سیکھو، کہ نہ حکم ماننے میں کوتاہی کی، اور نہ جواب دینے میں کوئی اعتراض کیا۔ اس کا اسرار یہ ہے کہ بیت:

؎ عذر بہ آنرا کہ خطائے رسید

کاں دم ازاں توبہ بہ جائے رسید

’’اُن کے لیے معذرت کرنی چاہیے، جن سے کوئی خطا ہو جائے، کیونکہ اُس توبہ اور معذرت سے وہ اپنے مقام تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔

ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود لعین کے درمیان جو معاملہ گزر چکا ہے جو اکثر لوگوں کو معلوم ہے۔ وہ اصل میں کیا ہے؟ "لِیَعْلَمُوْا أَنَّ کُلَّ مَنْ أَحَبَّہٗ لَا یَضُرُّہٗ شَيْءٌ فِي الدَّارَیْنِ وَ لِیَعْلَمُوْا أَنَّ أَھْلَ الْمَعْرِفَۃِ فِي النَّارِ أَطْیَبُ عَیْشًا وَّ أَحْسَنُ حَالًا وَّ أَشَدُّ سُرُوْرًا مَّعَ اللہِ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فِي الْجَنَّۃِ" کہ یہ بات جان لیں کہ جو کوئی اس کے ساتھ محبت کرے، اُس کو دونوں جہانوں میں کوئی چیز ضرر اور تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔ اور نیز یہ بھی جان لے کہ اہل معرفت آگ کے درمیان بھی اپنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت عیش، خوشحالی اور مسرت و سرور میں ہوا کرتے ہیں اور اہل جنت سے بڑھ کر خوش و خرم اور مسرور و خوشحال ہوتے ہیں“۔ بایزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اگر کل جنت میں وہ بے کیف مشاہدہ منع کیا جائے تو جنت والے بھی ایسی ہی فریاد اور چیخ و پکار کریں گے جیسا کہ اہل دوزخ کرتے ہیں۔

یہ بات جاننی چاہیے کہ منصور حلاج تحقیق کے صحرا کے شیر اور تصدیق کے میدان کے ایک بہادر سپوت تھے۔ اُن کو حلاج (دھنیا، روئی دھونکنے والا) اس لیے کہتے ہیں کہ ایک دن پنبے کے ایک انبار کی جانب اُنگلی سے اِشارہ کیا، اُسی وقت روئی اور پنبہ اور دانہ (بنولہ) جدا جدا ہو گئے۔ شبلی نے کہا کہ میں اور منصور حلاج ایک تھے، مجھے دیوانہ کہا گیا، تو میں چھوٹ گیا اور اُن کو عقل و خرد و دانش نے مار دیا۔ ایک دفعہ جنید رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے کہا کہ قریب ہے کہ تم قلعہ کی چوب (تختۂ دار) کو سُرخ اور خون آلود کرو گے۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ جس دن میں تختہ دار کو خون آلود کروں تم تصوف کا لباس نہیں پہنو گے۔ کہتے ہیں کہ جس دن آئمہ کرام نے منصور حلاج کے قتل کا فتویٰ دیا، جنید رحمۃ اللہ علیہ تصوف کے لباس میں تھے، مدرسے چلے گئے، وہاں جبہ و دستار در بر کر کے فتوی پر دستخط کر دیئے۔ ایک دفعہ اُن سے پوچھا گیا کہ صبر کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ صبر یہ ہے کہ کسی کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور اُس کو سولی پر چڑھائیں، اور وہ خاطر جمع رکھے اور یہ واقعہ خود اُن کو پیش آیا۔ وہ اپنے حلقہ میں سب سے جداگانہ کام کرتے رہتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ ابراہیم خواص سے پوچھا گیا کہ تو کیا کرتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ توکل کی راہ پیمائی کرتا ہوں۔ تو اُن کو کہا کہ تم ہمیشہ پیٹ کی عمارت کی تعمیر کرتے ہو۔ کہتے ہیں کہ جب ان کا یہ واقعہ واقع ہونے کا وقت قریب ہوا تو ایک دن شبلی کو کہا کہ میری جانب خیال اور توجہ کیا کرو، کیونکہ مجھے ایک بہت بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ جس دن حسین منصور کو قید کر دیا گیا تو اُن کو پہلی رات جیل خانے سے بلایا گیا تو وہ موجود نہ تھے، دوسری رات بُلا چھوڑا مگر نہ تو اُن کو موجود پایا اور نہ اہل زندان کو، تیسری رات جب اُن کو طلب کیا تو جیل خانے والوں اور اُن کو موجود پایا۔ لوگوں نے اُن کو کہا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ پہلی رات میں دوست کے پاس گیا تھا، اسی وجہ سے مجھے تم نے نہیں دیکھا، دوسری رات دوست یہاں تھا، اس وجہ سے قیدیوں کو نہ دیکھا، آج رات میں یہاں ہوں، جو کچھ شریعت کا حکم ہے کر ڈالو۔

کہتے ہیں کہ اُس قید خانے میں تین سو قیدی تھے اُن سے انہوں نے کہا کہ میں نے تم کو آزاد کر دیا، چلے جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم کر سکتے ہو تو اپنے آپ کو قید سے آزاد کیوں نہیں کرتے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں خدا کی قید میں ہوں اور شریعت کا لحاظ رکھتا ہوں۔ پس اُنہوں نے دیوار کی جانب اشارہ کر دیا، دیوار میں ایک شگاف پڑ گیا، تمام قیدی باہر چلے گئے۔ صُبح ان سے پوچھا گیا کہ تمام قیدی کیا ہوئے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ سب کو میں نے آزاد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تم خود کیوں نہیں گئے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر عتاب ہے اس لیے میں ٹھہر گیا ہوں اور اس لیے میں نہ چل پڑا تاکہ اس کو سرانجام دوں۔ یہ بات خلیفہ تک پہنچائی گئی، خلیفہ نے حکم دیا کہ ایک بڑا فتنہ پیدا ہو جائے گا، ان کا کام جلدی سے ختم کرو۔ اُن کو جیل خانے سے باہر نکالا گیا اور تین سو ضربیں لکڑی سے لگائی گئیں تاکہ "أَنَا الحَقُّ" کہنے سے باز آئیں۔ جب چوب مارتے تھے تو ہر ضرب سے صاف آواز نکل آتی تھی: "یَا ابْنَ مَنْصُوْرٍ! أَنَا الْحَقُّ" شیخ عبد الجلیل سفار فرماتے ہیں کہ میں اُس چوب مارنے والے شخص پر حیران ہوں اور تعجب کرتا ہوں کہ وہ شخص امر شریعت بجا لانے میں کتنی طاقت کا مالک تھا، کہ اس قسم کی آواز وہ چوب مارنے کے وقت صاف طور پر سنتا تھا، اور وہ اس کے باوجود چوب مارتا تھا۔

جس دن اُن کو قتل کرنے والے تھے، ایک درویش نے اُن سے پوچھا کہ عشق کیا ہے؟ اُس کو جواب دیا کہ عشق کے اسرار تجھے آج کل اور پرسوں نظر آئیں گے۔ اُس دن اُن کو قتل کیا گیا، دوسرے دن جلا ڈالا گیا اور تیسرے دن ان کی راکھ ہوا میں اُڑا دی گئی۔ جس وقت اُنہیں سولی کے قریب لے جایا گیا، تو اُنہوں نے دار کے تختے کو بوسہ دیا اور کہا کہ جوان مردوں کے لیے یہ مقام معراج ہے۔ جب اُن کے ہاتھ کاٹے گئے تو کہا باندھے ہوئے آدمی کے ہاتھ کاٹنا آسان کام ہے لیکن میں مرد اُس کو مانتا ہوں جو اُس ہاتھ کو قطع کر لے جو عرش کے بلندیوں سے ٹوپی اُٹھا لائے۔ پھر جب اُن کے پاؤں کاٹ ڈالے گئے تو تبسم کر کے فرمایا کہ اس پاؤں کا کاٹنا آسان ہے، میرے وہ پاؤں ہیں جن سے میں دونوں جہانوں کا سفر کرتا ہوں۔ پھر خون آلود بازووں کو چہرے پر ملتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ تو اُنہوں نے کہا کہ وضو بناتا ہوں کیونکہ "لِأَنَّ فِي الْعِشْقِ رَکْعَتَیْنِ لَا یَصِحُّ وَضُوْءُھُمَا إِلَّا بِدَمِ صَاحِبِہٖ" ”عشق کی دو رکعت نماز ہے جن کا وضو بغیر ان کے ادا کرنے والے کے خون سے نہیں ہو سکتا“۔

کہتے ہیں کہ ان کے تمام اعضاء کاٹے گئے تھے، اُن کی گردن اور پشت دار کے اوپر رہ گئے تھے۔ اُس پشت اور گردن سے "أَنَا الْحَقُّ" کی آواز آ رہی تھی، خلیفہ نے فرمایا کہ اس شخص نے موت کے بعد اپنی زندگی سے زیادہ فتنہ کھڑا کیا۔ دوسرے دن اُن کے تمام اعضاء کو اکھٹا کر کے اُن کو جلا ڈالا گیا۔ اُس جلی ہوئی راکھ میں سے "أَنَا الْحَقُّ" کی آواز نکل رہی تھی۔ تیسرے دن اس راکھ کو پانی میں بہا دیا گیا، پانی کے اوپر سے اس راکھ میں سے بھی "أَنَا الْحَقُّ" کی آواز سنائی دیتی تھی۔ قطعہ:

؎ نخشبی مرد پاک مردے دان

کہ بر موئے خود ثنا گوید

خاک او را گر بآب دہند

بر سر آب مرحبا گوید

’’اے نخشبی! اُس شخص کو پاک مرد تصور کرو جو اپنے ہر بال سے ثنا کہے، اگر اُس کی مٹی کو پانی میں ڈال دیا جائے تو پانی کے اوپر مرحبا کہتا رہے گا‘‘۔