تیرھواں مقالہ
اس بیان میں کہ عالم کی چند اقسام ہیں
عالم کی تفصیل یہ ہے: (1) عالم ناسوت، (2) عالم ملکوت، (3) عالم جبروت، (4) عالم لاہوت، (5) عالم اسرار اور (6) عالم رموز۔ یہ بات گرہ میں باندھ کے رکھو کہ کامل محققوں نے مقامِ ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت کے حقائق کو مختلف اوصاف اور مفاہیم سے بیان کیا ہے۔
رسالۂ غریب میں آیا ہے کہ عالمِ ناسوت کو عالمِ ملک و خلق، عالمِ محسوس، عالمِ شہادت، عالمِ صورت، عالمِ جوارح اور عالم ظاہر کہتے ہیں۔ اور عالمِ ملکوت کو عالمِ امر، عالمِ معقول، عالمِ قلبی، عالمِ غیب، عالمِ معنیٰ اور عالمِ باطن کہتے ہیں۔ اور مقامِ جبروت کو عالمِ روح، عالمِ موجود بالقوۃ، عالمِ ممکنات، عالم ماہیات، عالم کلیات، عالمِ باطن اور عالم غیب و معنیٰ کہتے ہیں۔ اور مقام لاہوت و مکاں کا مکان ذات الٰہی ہے۔ اور اُس کی شرح و بیان نہیں کی جا سکتی۔ الا ما شاء اللہ۔
شمائل اتقیاء میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہیں: ایک ملک، دوسرا ملکوت۔ جو کچھ اِس جہان اور اُس جہان میں ہے، ملک اور ملکوت کہلایا جاتا ہے اور جو کچھ کہ اِس جہان اور اُس جہان میں نہیں ہوتا، اُس کو جبروت کہتے ہیں۔ جب تو ملک کو نہ پہچانے تو ملکوت کو نہیں پہنچ سکتا، اور جب ملکوت کو پہچان کر اُس کو پس پشت نہ چھوڑے تو جبروت تک نہیں پہنچ سکتا۔
اور اللہ تعالیٰ کے اس عالم میں تین خزانے ہیں۔ ﴿وَ لِلهِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ…﴾ (المنافقون: 7) ”اور اللہ کے لیے آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں“ لیکن اُن کو منافق نہیں جانتا۔ راہ سلوک میں اتنی سعی و جد وجہد کرنی چاہیے کہ ملک سے ملکوت کو پہنچ سکے اور پھر ملکوت اسفل میں اتنا سلوک کرنا چاہیے کہ ملکوت اعلٰی کو پہنچ جائے، اُس کے بعد اتنا سلوک کرنا چاہیے کہ اس صورت کا جمال نظر آئے کہ ﴿سُبْحَانَ الَّذِيْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَيْءٍ وَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (یس: 83) ”پاکی ہے اُس ذات کے لیے کہ اس کے دست قدرت میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور اُسی کی جانب سب کو لوٹنا ہے“۔ بیت
ہر آں ملکے کہ از واپس گذاری
دو صد ملک دگر در پیش آری
’’جس کسی ملک کو تم چھوڑ جاؤ گے، تو دو صد دوسرے ملک سامنے پاؤ گے‘‘۔
تفسیر کاشف رفیقی میں آیا ہے کہ جو کچھ نظر آئے وہ ملک ہے۔ جس گھڑی حق کی عدالت کا وقت اور نوبت آ جائے تو (خوف کے مارے) انبیاء علیہم السلام بھاگنے اور فرار کی تلاش میں ہوں گے۔ اور فضل و کرم کی نوبت آ جائے تو شراب خانے والے اور اہل مئے کدہ بھی سر اُٹھائیں گے۔ بعض محرمان راز اور رموزِ صمدیت و احدیت کے بعض شناسا اصحاب نے اشاروں کی کتابوں میں مقام لاہوت کے بارے میں کچھ بیان کیا ہے، لیکن مصنف کہتا ہے کہ ہر کسی کی عقل و فہم اور ادراک و فکر اُس مقام تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے الہام اور مدد نہ ہو اس مقام کا سمجھ میں آنا ناممکن ہے۔ طوالع میں حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عالم لاہوت ایک عالم ہے، عرش اُس کی عزت، کرسی اُس کی کبریائی، لوح اُس کی قدر، قلم اُس کی قضا اور فلک اُس کی عظمت ہے۔ اُس کا کیوان اور آسمان اُس کا قہر، اُس کا مشتری سیارہ لطف اور جلال، اُس کا سورج اُس کا جمال ہے، غضب اُس کی آگ، رحمت اُس کا پانی، حکمت اُس کی خاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کی بصیرت کی آنکھیں اپنے فضل سے کھول رکھی ہوں، اور وہ صفات جن کی اضافت ”تجھ“ سے ہے، تجھ سے جڑ کر ختم ہو جائیں، تو اسی نسبت سے تمام ممکنات کو معدوم دیکھو گے۔
سوال:
مجھے جواب دو کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سات زمینیں پیدا کر دیں تو یہ زمینیں کس چیز سے بنی ہیں اور ان زمینوں میں کونسی مخلوق ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ نے یہ سات طبق زمینیں بنائیں اور ان سب کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر جناب رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سات طبق زمینوں کی تخلیق فرمائی اور ایک دوسرے کے اوپر رکھ دینے پر زمین میں ہوا پیدا فرمائی۔ اور ہر زمین سے دوسری زمین تک کے درمیان میں پانچ سو سال کا راستہ ہے۔ پہلی زمین کو آدمیوں، جنات اور جانوروں کا مسکن (جائے سکونت) بنایا، دوسری زمین میں مخالف قسم کی ہواؤں کے مقامات ہیں اور اُن کو اُس میں رکھا ہے۔ جس اندازے کے بارے میں فرمان صادر ہوتا ہے اُس مقدار میں انہیں دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ اور دنیا میں کسی قوم کی تباہی کے لیے ان ہواؤں میں سے کوئی ہوا بھیجی جاتی ہے اور اس قوم کو اُس ہوا سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ تیسری زمین میں ایک مخلوق ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو آدمیوں کی طرح پیدا کیا ہے، ان کے منہ کتوں کے منہ کی طرح، ان کے کان بھیڑوں اور دنبوں کی کانوں کی مانند، ان کے پاؤں بیل گائے کے پاؤں کی شکل میں اور ان کے بال بھیڑیوں کے بالوں جیسے پیدا کیے گئے ہے۔ انہوں نے لمحہ بھر کے لیے بھی خدا کی نافرمانی نہیں کی اور قیامت تک نافرمانی اور گناہ نہیں کریں گے اور قیامت کے دن یہ جنت میں ہوں گے۔ جس وقت ہم پر رات ہو جاتی ہے تو ان پر دن کا وقت ہوتا ہے، کیونکہ آسمان چکر لگاتا ہے اور سورج پر بھی چکر لگواتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلک نہیں پھرتا بلکہ جو کچھ آسمان یعنی فلک میں ہے، وہ پھرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ﴾ (یٰسین: 40) ”جو چیز فلک میں ہے پھرتی ہے“ یا ہر چیز آسمان میں پھرتی ہے۔ چوتھی زمین میں سنگِ کبریت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دوزخیوں کو عذاب دینے کے لیے پیدا کیا ہے۔ قیامت کے دن دوزخ کو اُن پتھروں سے گرم کیا جائے گا، ہر پتھر پہاڑ کے برابر ہے، چنانچہ قرآن کریم فرمایا گیا ہے کہ ﴿فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ…﴾ (البقرۃ: 24) ”اُس دوزخ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں“ رسُول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے، دوزخ میں سنگ کبریت کی وادیاں ہیں اور اُس پتھر کی آگ اتنی تیز ہوتی ہے کہ اگر دنیا کے پہاڑ اُٹھا کر اس میں ڈال دیے جائیں تو اُس کی گرمی سے موم کی طرح پگھل جائیں گے۔ حدیث میں منصور بن عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان پتھروں کی گرمی ایسی ہے کہ اگر اس کا ایک قطرہ بھی اس دنیا میں آ کر گرے تو اس کی گرمی اور بدبو سے دنیا کے تمام جاندار مر کر ہلاک ہو جائیں گے۔ پانچویں زمین میں بچھو ہیں، اور یہ دوزخ کے بچھو ہیں جو اونٹوں کی مانند ہوتے ہیں، ان کے دانت بڑے نیزوں کی طرح ہیں اور ہر بچھو کے ڈنک میں تین سو ساٹھ "فوق" زہر رکھا ہوا ہے۔ اور ہر "فوق" میں تین سو ساتھ "کلہ" ہیں۔ اگر اُن سے ایک "کلہ" بھی دنیا میں رکھ دیا جائے تو دنیا کے جانور مر جائیں گے، اُس کی بو اور زہر سے تمام میوے اور کھانے پینے کی اشیاء، دریاؤں اور نہروں کا پانی تلخ اور کڑوا ہو جائے گا اور اُن کو کوئی نہیں کھا سکے گا۔ چھٹی زمین میں دوزخ کے دیو و پری اور سانپ پیدا کیے ہیں۔ اگر ان سانپوں میں سے ایک سانپ دنیا میں آ جائے تو تمام دُنیا کو ایک دانت سے نگل جائے گا، اگر پہاڑ کو ڈسے تو وہ ریت کی مانند ہو جائے گا، اُن سانپوں کی بو سے دوزخیوں کے تمام اندام جھڑ جائیں گے اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ساتویں زمین میں ابلیس لعین کی جگہ ہے اور اُس کا تخت اُس جگہ رکھا ہوا ہے اور وہ اس تخت پر بیٹھا ہے اور تمام شیطان اُس کے تخت کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اور جو کوئی دنیا میں فساد اور معصیت کرے اسی کو بہت عزیز اور دوست رکھتے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ ہر زمین کا کیا نام ہے۔ حدیث شریف میں وہب ابن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پہلی زمین کو دنیا کہتے ہیں، دوسری زمین کو بساط، تیسری زمین کو شقیان کہتے ہیں، چوتھی زمین کو بضی کہتے ہیں، زمینِ پنجم کو شانہ، چھٹی کو ماسکہ اور ساتویں کو تری کہتے ہیں۔ (سراج القلوب)
سوال:
آسمان کے سات طبق کو کس چیز سے بنایا ہے؟
جواب:
تفسیر چرخی میں کعب الأحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دنیا کا آسمان پانی کی موج سے ہے، دوسرا آسمان سفید موتی سے ہے، تیسرا آسمان لوہے سے، چوتھا مس یعنی جست سے، پانچواں چاندی سے، چھٹا سونے سے اور ساتواں آسمان یاقوتِ سُرخ سے بنایا گیا ہے۔ رباعی۔
؎ ہر آں نقشی کہ در دنیا نہادیم
تو زیبا بین کہ ما زیبا نہادیم
زلف خود سر موئے نہادیم
جہانے درپئے غوغا نہادیم
ترجمہ:۔ ہم نے دنیا میں جو نقش بنا دیا، تو اُس کو اچھی طرح دیکھ کہ ہم نے اس کو خوبصورت بنایا ہے، ہم نے اپنی زلف سے ایک تار زلف دُنیا میں دکھایا، تو ایک دنیا کو غوغا اور شور و فغاں میں مبتلا کر دیا‘‘۔