بارھواں مقالہ
مجذوب اور سالک طریقت کے بارے میں
انہی شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں آیا ہے کہ اس راہ پر چلنے والے مسافر دو قسم کے ہیں: ایک مجذوب، دوسرا سالک۔ مجذوب وہ لوگ ہیں کہ ان کو جذبہ کی کمند سے ہاتھ میں لا کر اُس مرتبہ تک پہنچاتے ہیں، اور غلبہ شوق میں تمام مقامات اُس سے عبور کراتے ہیں، لیکن ان کو زیادہ آگاہی نہیں ہوتی کہ راستے کی حالت اور مقامات کی شناخت اور آفاق کا کشف اور جو کچھ راہ میں ہوتے ہیں، اُس سے یہ آگاہ نہیں ہوتے اور نہ خیر و شر اور نفع و نقصان کی ان کو خبر ہوتی ہے، یہ لوگ شیخی اور مسند ارشاد کے لیے موزوں نہیں ہوتے، کیونکہ شیخی اور مسند ارشاد کے لیے وہ شخص موزوں ہوتا ہے کہ اگرچہ اُس کو جذبہ کی کمند میں اسیر کر کے مقام ترقی پر لے جاتے ہیں مگر آہستگی، سکون اور آرام کے ساتھ لے جاتے ہیں، تاکہ ہر مقام میں اس مقام کی پہچان اور اُس مقام کی شناخت کے ساتھ انصاف کر سکے، اور خیر و شر اور صلاح و فساد کی تمام کیفیتیں اور احوال اُس کو دکھائے جاتے ہیں، کبھی راہ پر لے جاتے ہیں، کبھی بے راہ تاکہ راہ اور بے راہی سے واقفیت حاصل کرے اور دوسری جماعت کے لیے راہ کا تعین کر سکے۔ لیکن اس راستے پر چلنے والے لوگوں نے اس راہ کے نشانات یوں بیان کئے ہیں کہ اگر سالکین کو صفاتِ خاکی کے ساتھ گذر کرنا پڑے تو واقعہ میں ایسا دیکھتے ہیں کہ جنگلوں، کوچوں اور کنوؤں، پہاڑوں اور تاریک تاریک جگہوں سے نکل کر اُجاڑ اور ویران مقامات، ویرانوں، پانیوں اور پہاڑوں سے گذرتے ہیں، اور گرانی اور ظلمت و تیرگی سے نجات حاصل کر کے لطافت اور ہلکا پن محسوس کرتے ہیں اور یہ لطافت اور طبیعت کا ہلکا پن اُن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسرے مرتبے جب صفتِ آبی یعنی پانی کے ساتھ متعلق صفت میں جب اُن کا گذر ہو جائے تو سبزہ زاروں، مرغزاروں، درختوں، لہلہاتے ہوئے کھیتوں، بہتے ہوئے پانی اور چشموں اور دریاؤں اور اسی طرح کی اشیاء دیکھتے ہیں۔ تیسرے مرتبے میں جب یہ صفتِ بادی سے گزر کرتے ہیں تو ہوا پر چلنا، اُڑنا، بلندیوں پر جانا، وادیوں اور صحراؤں پر اُڑنا، اور اسی طرح کی چیزیں دیکھتے ہیں۔ اور چوتھے مرتبے میں جب آگ کی صفات پر گذر کرتے ہیں تو چراغ، شعلے اور آگ وغیرہ کو دیکھتے ہیں۔ پانچویں مرتبے میں جب افلاک اور اجرامِ آسمانی میں سے گذرنا پڑے تو اپنے آپ کو آسمانوں پر چلتا اور اُڑتا اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان کو اُڑتا ہوا اور آسمانوں کی گردش اور فرشتوں کا چلنا پھرنا دیکھتا ہے۔ چھٹے مرتبے میں جب ستاروں کے ملکوت پر گذرنے لگیں تو ستارے، چاند، سورج، انوار اور دیگر اس جنس کی اشیاء دیکھتے ہیں۔ ساتویں مرتبے میں جب صفات حیوانی پر گذرنا پڑے تو جس صفت حیوانی مثلًا درندے، چرندے وغیرہ پر گزر کریں، اُسی قسم کے حیوانات دیکھتے ہیں۔ اور اگر اپنے آپ کو اُس حیوان پر غالب دیکھیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اُس صفت حیوانی سے وہ آگے نکل گئے ہیں۔ اور اگر اپنے آپ کو اُس حیوان کا اسیر محکوم یا کمتر دیکھیں یا اُس حیوان سے ڈر محسوس کریں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اُس قسم کی صفت حیوانی کا ان پر غلبہ اور استیلاء ہے اور اُس صفت کا غلبہ اور وہ صفت ان میں باقی ہے۔ اور اسی طرح کئی ہزار دوسرے عالم ہیں، سالک کو اُن سے گذرنا پڑتا ہے۔ اور ہر عالم میں اُس کی مناسبت سے مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اُس کے حالات اور دقائق اُس پر ظاہر ہوتے ہیں۔
اور اسی کتاب میں مذکور ہے کہ جو کوئی اس راستے کا طالب ہو تو اُس کو چاہیے کہ شریعت کا سرمایہ حاصل کرے تاکہ شریعت سے طریقت کا راستہ حاصل کر سکے۔ اور طریقت سے جب بہرہ ور ہو جائے تو طریقت سے حقیقت کی جانب قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور جس نے ابھی تک شریعت کو نہیں پہچانا ہے تو وہ طریقت سے کیسے ملاقات کر سکتا ہے؟ اور جس نے ابھی طریقت کو نہیں دیکھا تو اُُس بیچارے کا حقیقت سے کیا واسطہ اور کیا کام؟ یہی وجہ ہے کہ کسی کو بھی اجازت نہیں دی گئی کہ کوئی نا سمجھی اور دین و شریعت کے علم و معرفت کے بغیر اس راستے میں قدم رکھے، کہ ہلاک ہونے کا سخت خطرہ ہے اور کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اگر مجاہدہ و ریاضت کورانہ طریقے پر کرے اور اندھوں کی طرح راستے کے نشیب و فراز سے بے خبر رہے اور اُس میں کوئی انوکھی چیز اُس کو ظاہر ہو جائے تو اس سے اُس میں اتنا غرور، جہالت، خود نمائی، خود پسندی اور حماقت پیدا ہوتی ہے کہ اپنے ایمان کو بھی برباد کرتا ہے اور شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔ یہ بات یقین اور وثوق سے جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ولی جاہل نہیں ہوا ہے، اور نہ ہو گا۔ "مَا اتَّخَذَ اللہُ وَلِیًّا جَاھِلًا" ”اللہ تعالیٰ نے کوئی جاہل ولی نہیں رکھا ہے“۔ یہ تو مشائخ کا فرمودہ ہے، اور قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَ لَمْ یَکُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ…﴾ (الإسراء: 111) ”خدا نے کسی جاہل کو اپنی دوستی کے لیے پسند نہیں فرمایا ہے“ جہل تمام ذلتوں کی جڑ اور اصل ہے۔
اور کہتے ہیں کہ سالکانِ حق کے راستے کا دار و مدار بارہ علموں کے جاننے پر ہے: علمِ توحید، علمِ معاملات، علمِ معرفت، علمِ حالت، علمِ مکاشفہ، علمِ مشاہدہ، علمِ خطاب، علمِ سماع، علمِ وجد، علمِ معرفتِ روح، علمِ معرفتِ نفس اور علمِ معرفتِ شیطان۔ ان علوم کے سیکھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ پس جاننا چاہیے کہ یہ طائفہ اور یہ جماعت صاحبِ شریعت، صاحبِ طریقت اور صاحب حقیقت ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہے، اور آئندہ بھی ہوگی۔ پس اس راستے کے مسافر کو چاہیے کہ اپنے نفس کا مجاہدہ اور ریاضت کی کٹھالی میں ڈال کر فنا کرے اور جو کچھ حق کے علاوہ ہے، اُس کو کبھی یاد نہ کرے بلکہ یاد میں نہ لائے۔ اگر دائیں طرف دیکھتا ہو تو حق کو دیکھے، بائیں جانب دیکھتا ہو تو حق کو دیکھے۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اللہ کو دیکھے اور دنیا اور آخر کی حکومت اور جاہ و حشمت اُس کی نظر میں ذرہ کی مقدار میں نہ آئے۔ اُس کا وجود شوق میں پگھلتا رہے اور اُس کا دل حضرت قدس پر ناز کرے اور زن و فرزند کے تفکرات اور دنیا اور آخر کی فکر و غم اُس کے دل کے پاس بھی پھٹکنے نہ پائے۔ اگرچہ اس کا جسم دُنیا میں ہو لیکن اُس کا دل اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہو، وہاں پر حاضر ہو اور اُس منزل پر پہنچ کر دل کی آنکھوں سے اپنے دوست کا نظارۂ جمال کرتا رہے۔ یہ مقام کامل پیر و مرشد کے سائے میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور پیرِ کامل کی پناہ میں اس راستے کی آفتوں سے سلامت گزرا جا سکتا ہے کیونکہ تمام طبقوں کے مشائخ بزرگان دین اور علمائے سلف اس بات پر متفق ہیں کہ پیرِ کامل کے بغیر کوئی بھی حق تک نہیں پہنچ سکتا مگر شاید شاذ و نادر کہیں ایسا ہوا ہو۔ بیت
؎ گر تو نشیبی بہ تنہائی بسے
راہ نتوانی بدیدن بے کسی
پیر باید راہ را تنہا مرو
از سر عمیا دریں دریا مرو
’’اگر تو تنہائی میں بہت زیادہ بھی بیٹھے، تو بغیر کسی (کی مدد اور راہنمائی) کے تو راستہ نہ دیکھ سکے گا، اس راستے کے لیے پیر چاہیے تنہا نہ جائیؤ، اور اندھوں کی طرح اس دریا میں مت اُترو‘‘۔
ایک دفعہ خواجہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں سے ایک مرید وضو کر کے اپنے خلوت خانے چلا گئے، وہاں اس نے ایک نور دیکھا اور نعرہ لگایا کہ میں نے خدا کو دیکھا۔ شیخ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اُس کو کہا کہ اے نا تجربہ کار! یہ تیرے وضو کا نور ہے جو تو نے دیکھا ہے، تو کہاں اور وہ کہاں۔ راہِ سلوک کے بہت سے مسافر اس مقام پر مغرور ہو جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے حق کا نور پا لیا، اگر کوئی پیرِ کامل میسر نہ ہو تو اس گرداب سے نکلنا بہت مشکل ہے بلکہ جاہل شخص شیطان کے مکر اور نفس کے فریب کی وجہ سے مغرور ہو جاتا ہے اور قسم قسم کے دعوے کرتا ہے۔ کسی سے دو چار حرف سیکھ لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ منزل مقصود اور مقام کمال کو پہنچ گیا۔ اور اپنے آپ کو مملکت خداوندی میں جائز التصرف سمجھ لیتا ہے۔ اور اس وجہ سے اباحت اور زندقہ میں پڑ کر ہلاک ہو جاتا ہے چنانچہ کسی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے۔ کہ بیت ؎
؎ پوشیدہ مرقع اندریں خامے چند
بر گفتہ بہ طامات الف لامے چند
نا رفتہ رہ صدق و صفا گامے چند
بد نام کنندۂ نیکو نامے چند
’’ان خام اور نا پختہ اشخاص میں چند مرقع یعنی رنگ رنگ کے صفات ہیں، اور لا یعنی اور بے ہودہ باتیں الف لام سے شروع کر کے کہہ ڈالتے ہیں یہ لوگ صدق و صفا کے راستے پر چند قدم بھی نہیں چلے ہوتے ہیں، (حقیقت میں) یہ چند نیک نام لوگوں کے بد نام کرنے والے ہوتے ہیں‘‘۔
پس جو لوگ اس راستے پر چلنا چاہیں اور یہ کام کرنا چاہیں، اُن کے لیے ضروری ہے کہ پیروں اور مشائخ کے درمیان جو شخص بھی مشہور ہوا اور لوگ اُس کی اقتدا پر اتفاق کر چکے ہوں اور مملکت خداوندی میں جائز التصرف نافذ المشیت اور صاحب کرامت ہو، اُس کی خدمت میں حاضر ہو کر خدمت گزاری کریں۔ مثنوی
پیر بالا بذرہ آمد ترا
در ہمہ کاری بسا آمد ترا
چوں تو ہر گز راہ نشناسی ز چاہ
بے عصا کش کے توانی برد راہ
کوہ ہائے آتشی در راہ بسے است
ایں چنیں نہ ہر کار کسے است
’’تم کو پیر اور شیخ ضرور حاصل کرنا چاہیے، جو کہ تمہارے سب کاموں میں تمہارے کام آئے، جب تم راستہ نہیں جانتے ہو اور راستے اور کنویں میں تمیز نہیں کر سکتے، تو عصا کے بغیر راستہ پر کیسے جاؤ گے، اس راستے میں بہت سارے آگ کے پہاڑ آتے ہیں، اور یہ کام یعنی اس راہ پر چلنا ہر آدمی کا کام نہیں‘‘۔
مرید کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ پیر کامل کی ارادت اُس کے کہنے مرضی اور حکم پر بلا چوں و چراں عمل کرے۔ ارادت کے معنیٰ لغت میں چاہنا، ارادہ کرنا ہیں اور مرید اُس کو کہتے ہیں جس کو چاہت ہو، اور اس راہِ سلوک و طریقت کے لوگوں کے درمیان مرید اُس شخص کو کہتے ہیں جس کی اپنی کوئی خواست (خواہش) چاہت اور مراد نہ ہو۔ مشائخ کہتے ہیں کہ مرید کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے پیر کے تصرف کے تحت ایسا بے حرکت رہے جیسا کہ مردہ تختے پر غاسل (غسل دینے والے) کے تحت پڑا ہو، جس کو وہ جس طرف بھی چاہے اُلٹ دیتا ہے۔ اور مرید کو چاہیے کہ پیر کے حکم کا ایسا مطیع ہو کہ اگر پیر حکم اور اشارہ کرے کہ دُنیاوی مال جان وغیرہ ترک کر دے اور اگر مرنے کا بھی حکم دے تو اُس کی تعمیل کرے اور اُس میں کچھ انکار نہ کرے، اور بغیر کسی تاخیر کے اُس کے حکم کی تعمیل کرے، اور اس کے حکم میں اپنی مرضی اور علم کے مطابق کچھ تصرف اور تغیر و تبدل نہ کرے۔
صوفیوں کے بارے میں:
یہ صوفی صاحبان تین قسم کے ہیں: ایک صوفی، دوسرا متصوف اور تیسرا متشابہ صوفی۔ صوفی وہ ہوتا ہے جو کہ اپنے آپ سے فانی ہو، اور حق کے ساتھ باقی ہو اور طبیعت و خواہشات کے قبضہ سے آزاد ہو گیا ہو اور حقائق کی حقیقت سے آگاہ و ہمنوا ہو گیا ہو۔ اور متصوف وہ ہوتا ہے جو اپنی ریاضت اور مجاہدہ سے یہ درجہ طلب کرتا ہو اور اپنی طلب ان کے معاملات کی روشنی میں درست کرتا ہو۔ اور متشابہ صوفی وہ ہوتا ہے جو جاہ طلبی اور مزے لوٹنے کی خاطر اپنے آپ کو اُن صوفیائے کرام جیسا بناتا ہو۔ اور حقیقت میں دونوں معنوں یعنی صوفی اور متصوف کی خاصیتوں سے تہی دامن خالی اور بے خبر ہو، لیکن اُمید ہے کہ ان سے تشبہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی ان سے ہو جائے، اور ان کی برکت کے سائے میں دونوں جہانوں سے گزر جائے۔ کیونکہ لشکر میں بہادر، جنگ جو اور جنگ آزما تو ایک ہوتا ہے مگر دوسرے اُس کے طفیلی ہوتے ہیں۔ شہر میں خلیفہ اور بادشاہ ایک ہوتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ تمام جماعت میں محقق تو تھوڑے ہوتے ہیں لیکن سب کو محققین کی جماعت کہا جاتا ہے۔ اور شریعت کا فتویٰ ہے کہ "مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ" (سنن أبي داوٗد، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة، رقم الحدیث: 4031) ”پس جو قوم کہ گفتار و کردار میں آپ کو کسی کا مشابہ کرے، تو وہ شخص اُس قوم سے شمار ہوتا ہے“۔
دوسری بات یہ ہے کہ صوفی کی مثال زمین کی مانند ہے کہ ہر نیک و بد اُس پر قدم رکھتا ہے، یا یہ بادل ہے جو ہر جگہ سایہ کرتا ہے، یا یہ بارش ہے جو ہر جگہ ہر کسی کو پانی دیتی ہے۔ صوفی کیا ہے؟ گوندھی ہوئی مٹی ہے جس میں پانی شامل کیا گیا ہو، نہ تو پاؤں کے اوپر کے حصّہ پر اُس کی گرد پڑتی ہے، اور نہ پاؤں کے تلوے کو اُس سے درد ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس ناسوتی پنجرے میں قید لاہوتی پرندے کو آزاد کرنا بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ اُس جذبے کی تاثیر پیدا کی جائے جو کہ مُصطفیٰ ﷺ کی متابعت کرتے ہوئے ہو۔
دوسری بات یہ کہ سالک وہ ہوتا ہے جس نے حق کی جانب رُخ کیا ہو، دائیں ہاتھ میں کتاب اللہ اور بائیں میں سنت رسول اللہ ﷺ کو مضبوط پکڑا ہو اور ان دونوں کی روشنی میں راستہ طے کرتا رہے۔
دوسری بات یہ کہ سالک کے لیے چار چیزوں کے بغیر کوئی چارہ نہیں: اول علم جو اُس کی تربیت دے اور اُس کے اخلاق کو نرم کرے۔ دوم ذکر جو اُس کا مونس و ہمدم رہے تاکہ وہ تنہا نہ ہو۔ سوم وہ ورع اور تقویٰ جو اُس کو ناموزوں اور ناجائز کاموں سے منع کرتا رہے اور چہارم یقین جو اُس کی سواری ہو تاکہ ہمراہیوں اور ساتھیوں سے نہ رہ جائے۔
دوسری بات یہ کہ سالک کو چاہیے کہ چار قسم کی موتوں کو یاد کرتا رہے تاکہ فقر کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔ (1) الموت الأبیض (سفید موت) جو کہ بھوک ہے، (2) الموت الأسود (سیاہ موت) لوگوں کی ایذاء رسانی پر صبر کرنا، (3) الموت الأحمر (سُرخ موت) جو کہ اپنی نفس کی مخالفت ہے، (4) اور الموت الأخضر (سبز موت) نئے لباس پہننے کی بجائے پرانے لباس پر قناعت کرنا۔
دوسری بات یہ کہ جس حد تک سالک کو تجلی کے وقت کسی صورت میں بھی حق نظر آئے تو اُس کو اُسی صورت میں جاننا چاہیے، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سُنا کہ ﴿إِنِّيْ أَنَا اللہُ…﴾ (القصص: 30) ”تحقیق میں اللہ ہوں“ پس وہ درخت خدا نہ تھا لیکن اُس کی تجلی تھی جو درخت کی شکل میں نمودار ہوئی۔
مصابیح القلوب میں یہ بات اسی طرح آئی ہے کہ نفحات الانس میں آیا ہے کہ ولایت مخصوصہ ارباب سلوک میں سے واصلان کے ساتھ مخصوص ہے اور واصلین سے مراد ہے۔ "ھِيَ عِبَارَۃٌ عَنْ فَنَاءِ الْعَبْدِ فِي الْحَقِّ وَ بَقَائِہٖ بِہٖ فَالْوَلِيُّ ھُوَ الْفَانِيْ فِیْہِ وَ الْبَاقِيْ بِہٖ" ”جب بندہ حق میں فنا ہو جائے اور اُس پر اسے بقا ہو، پسم ولی اُس میں فانی اور اُس پر باقی کو کہتے ہیں“۔ اور فنا سے مراد ہے کہ سیر الی اللہ کی انتہا اور بقا سے مراد سیر فی اللہ کی ہدایت، کیونکہ سیر الی اللہ اُس وقت ختم ہو جاتی ہے کہ وجود کے قدم کو صدق کے قدم سے یک دم قطع کیا جائے۔ اور سیر فی اللہ اُس وقت حقیقت بن جاتی ہے اور بندے کو فنا کے بعد ایسا وجود اور ایسی ذات حدوث کی غلاظت اور گندگی سے پاک و صاف بخشتی جاتی ہے جس وجود کے ساتھ عالمِ انصاف میں اوصاف ربانی اور اخلاق الٰہی کی متابعت اور عمل میں ترقی ہو۔
دوسری عبارت میں سلوک کا بیان:
یہ بات جان لیجیے کہ سلک سلوک میں آیا ہے کہ علمِ طریقت کی اصطلاحات میں سے ایک توبہ ہے۔ "اَلتَّوْبَۃُ أَصْلُ کُلِّ مَقَامٍ وَّ مِفْتَاحُ کُلِّ حَالٍ وَّ ھِيَ مَقَامَاتٌ وَّ ھِيَ مُشَابَهَةُ الْأَرْضِ بِبِنَاءٍ فَمَنْ لَّا أَرْضَ لَہٗ لَا بِنَاءَ لَہٗ وَ مَنْ لَّا تَوْبَۃَ لَہٗ لَا حَالَ وَ لَا مَقَامَ لَہٗ" ”توبہ ہر مقام کی اصل ہے اور ہر حال کی کلید اور کنجی ہے اور یہ سب مقامات میں سے پہلا مقام ہے۔ اور یہ بنیاد رکھنے اور عمارت بنانے کے لیے زمین کی مانند ہے، پس جس کی زمین نہ ہو اُس کی بنیاد نہیں ہوتی اور جس کی توبہ نہ ہو تو اُس کو کوئی مقام اور حال نصیب نہیں ہوتا“۔ جب توبہ کل مقامات کی اصل ہوئی تو جو کوئی چاہے کہ وہ صاحبِ مقامات ہو جائے پس اُس کو چاہیے کہ سب سے پہلے توبہ کرے اور توبہ کرنے والے پر واجب ہے کہ گناہ کو توبہ کرنے کے بعد ایسا دشمن جانے جیسا کہ توبہ کرنے سے قبل اس کو پسند کرتا تھا۔ "قَالَ یَحْیَی بْنُ مُعَاذٍ رَّحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ: زَلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ لِّلتَّائِبِ بَعْدِ التَّوْبَۃِ أَقَبْحُ مِنْ سَبْعِیْنَ زَلَّۃً قَبْلَھَا" ”یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ توبہ کرنے والے کے لیے توبہ کرنے کے بعد ایک لغزش توبہ کرنے سے قبل کی ستر 70 لغزشوں سے زیادہ بری اور قبیح ہے“۔ اور توبہ ہر وقت میں اچھی بات ہے خواہ بڑھاپے میں ہو خواہ جوانی میں۔
اور یہ بات بھی جاننی چاہیے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے ایک مقام ہے، جو کہ میم پر زبر کے ساتھ ہے۔ "وَ مَقَامُ کُلِّ وَاحِدٍ مَّوْضِعُ إِقَامِتِہٖ عِنْدَ ذَالِکَ وَ الْمَقَامُ سُمِّيَ مَقَامًا لِّثُبُوْتِہٖ وَ اسْتِقْرَارِہٖ وَ قَدْ یَکُوْنُ الشَّيْءُ بِعَیْنِہٖ حَالًا ثُمَّ یَصِیْرُ مَقَامًا" ”مقام ہر ایک کی جائے قرار و اقامت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس جگہ پر ثبات اور قرار حاصل کرتا ہے۔ اور اکثر ایک چیز حال ہوتی ہے پھر وہ مقام بن جاتی ہے“۔ ارباب احوال اور مقام کہتے ہیں کہ سالک کو جو چیز پہلے ہی آتی ہے وہ حال ہوتی ہے پھر وہ مقام بن جاتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی باطن میں اپنے نفس کے محاسبے کی خواہش کرتا ہے تو اس خواہش اور داعیہ کو حال کہتے ہیں اور جب وہ بتدریج نفس پر غالب ہو اور مالکِ محاسبہ ہو جائے تو محاسبۂ نفس کے اس داعیے کو مقام کہتے ہیں۔ اور حالِ مراقبۂ حال اور مشاہدہ وغیرہ اور اُن کا مقام ہونا یہی عمل ہوتا ہے۔
اب یہ بات جان لیجیے کہ مقامات محدود ہیں کیونکہ مقامات کسبی ہوتے ہیں، اور کسبی اشیاء کی حد ہوتی ہے اور یہ متناہی ہوتے ہیں۔ سن لیجیے کہ مشائخِ طریقت، صاحبانِ مقامات ہوتے ہیں اور طریقت کے سو مرتبے مقرر ہیں، اور کشف و کرامت اُس کا سترہواں مرتبہ ہے۔ پس اگر سالک بغیر پروں کے ہوا میں اُڑ جائے یا بغیر قدموں کے آسمان پر چلا جائے تو یہ ہو سکتا ہے مگر اس پر مغرور نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ سترہواں مرتبہ ہے کوئی زیادہ چیز نہیں۔ اگر اس سترہویں مرتبے پر راضی ہو کر رہے اور تِراسی مرتبے قطع کر کے کچھ حاصل نہیں کرے گا۔ اور سالک ایک مقام سے دوسرے مقام کو ترقی نہیں کرتا جب تک کہ پہلے مقام کا حق ادا نہ کرے۔ "فَإِنَّ مَنْ لَّا قَنَاعَۃَ لَہٗ لَا یَصِحُّ لَہُ التَّوَکُّلُ وَ مَنْ لَّا تَوَکُّلَ لَہٗ لَا یَصِحُّ لَہُ التَّسْلِیْمُ" ”جس کو قناعت حاصل نہ ہو اُس کو توکل حاصل نہیں، اور جس کو توکل نہ ہو تو مقامِ تسلیم اُس کے ہاتھ نہیں آتا“۔ ایک مقام سے جب نہیں نکلتا تو دوسرے مقام کو کیسے پہنچے گا؟
سلکِ سلوک نامی کتاب میں آیا ہے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے ایک حال ہے۔ "اَلْحَالُ مَا یُرِدُ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ طَرْبٍ أَوْ حُزْنٍ أَوْ بَسْطٍ أَوْ قَبْضٍ وَّ الْحَالُ سُمِّيَ حَالًا لِّتَحَوُّلِہٖ" ”حال ایک حالت ہوتی ہے جو کہ دل پر خوشی، غم، فراخی اور تنگی کی صورت میں کبھی کبھی طاری ہوتی ہے، اس کو حال اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تحول کرتی ہے یعنی بدل جاتی ہے“۔ اور اہل ریاضت کہتے ہیں کہ اُس پر ایمان، توبہ، زہد اور دوامِ عبودیت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور پھر تمام احوال و مقامات حاصل کرتا ہے، اور یہ تھوڑا کھانا، تھوڑا کلام کرنا، تھوڑی نیند کرنا اور لوگوں سے جُدا رہنا ہے۔
اب یہ بات جان لو کہ سلوک میں ایک کو صاحبِ وقت کہتے ہیں، دوسرے کو صاحبِ احوال اور تیسرے کو صاحب انفاس۔ صاحبِ وقت ابھی مبتدی ہوتا ہے اور صاحب انفاس منتہی ہوتا ہے، صاحب احوال ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے۔ احوال کی کوئی حد نہیں اور یہ متناہی نہیں ہوتے کیونکہ احوال مواہب ہیں اور مواہبِ خداوندی کی کوئی انتہا نہیں۔
اے عزیز! احوال مواہب غیبی ہوتے ہیں، اور اُن کے ذوق کا اظہار اور بیان کرنا اور قلم سے تحریر کرنا ناممکن ہے۔ "وَ قِیْلَ الْمَقَامَاتُ مِنَ الْمَکَاسِبِ وَ الْأَحْوَالُ مِنَ الْمَوَاھِبِ" ”کہتے ہیں کہ مقامات (مثل توبہ، صبر، رضا، شکر، توکّل، زہد اور قناعت) کسبی ہیں اور احوال (مثال کے طور پر خوشی، رنج، شوق و ذوق، فراخی، تنگی، حیا اور ہیبت) عطائے الٰہی ہیں“۔ حال کسب سے حاصل نہیں ہوتا، حال مواہبِ غیبی ہے اور یہ لطفِ الٰہی ہے، جس نے اس کا ذائقہ چکھا تو وہ خوش نصیب رہا، تم اس کا ذوق جب تک کہ اُس کو چکھ نہ لو، حاصل نہیں کر سکتے۔ (ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں)۔