حصہ 3 مقالہ 11: تجلیات کے بارے میں

گیارھواں مقالہ

تجلیات کے بارے میں

شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں درج ہے کہ تجلی سے مراد ظہورِ ذات اور صفات الٰہیت ہے، اور روح کی بھی تجلی ہوتی ہے۔ راہ سلوک کے بہت سے مسافر اس جگہ پر ناچار ہو گئے ہیں، اُن کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے حق کی تجلی حاصل کی، اگر شیخ کامل اور صاحب تصرف نہ ہو تو اس بھنور سے چٹکارا مشکل ہوتا ہے۔ پس جس کسی کو سچی طلب ہو تو اُس کو چاہیے کہ کسی اہل اور صاحب مقام شیخ کا دامن تھام لے تاکہ اُس کی برکت و طفیل سے منزلِ مقصود اور مقامِ مراد کو پہنچ جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَ أْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِھَا...﴾ (البقرۃ: 189) ”گھروں کو دروازوں کے راستے سے آؤ“۔ رباعی

؎ بے واسطۂ واسطہ گر راہ روی

از راہ بیفتی و سوے چاہ روی

درپے او روشے کنی زمن قدمش

در یک دو زمان بعالم شاہ روی

’’اگر واسطے کے بغیر راستے پر سفر کرو گے، تو راہ سے بے راہ ہو کر کنوئیں میں گر پڑو گے۔ اُس کی پیروی میں قدم آگے بڑھاتے رہو، تا کہ تم تھوڑی دیر میں بادشاہ کے دربار میں پہنچ جاؤ‘‘۔

یہ بات اب گرہ میں باندھ لیجیے کہ تجلی ربانی اور تجلی روحانی میں فرق ہے۔ جب دل کا آئینہ ما سوی اللہ کے وجود کی کدورت سے صاف ہو جائے اور یہ صفائی کمال کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کے جمال کے سورج کا مطلع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کی ذات کا آئینہ بن جاتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر اُس شخص کو جس کو یہ صفائی نصیب ہو جائے، مشاہدۂ جمال کی سعادت بھی حاصل ہو جائے، کیونکہ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (المائدۃ: 54) ”یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے جس کو وہ چاہتا ہے، بخش دیتا ہے“۔ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی زیادہ دوڑتا ہے تو افزونی اور زیادہ فائدہ وہ اٹھائے گا، لیکن بہرحال افزونی اور فائدہ وہ حاصل کرتا ہے جو دوڑتا ہے۔ اور ان دوڑنے والوں میں کوئی صاحب کمال ہو کہ جب وہ دل کے آئینے کو بشریت کی صفات اور طبیعت کے زنگ سے صاف کرتا ہے تو بعض روحانی صفات اُس کے دل پر تجلی افروز ہوتی ہیں۔ اور یہ روحانیت کے انوار کے غلبہ سے ہوتا ہے کہ روح مکمل طور پر صفاتِ بشری سے باہر ہوتی ہے۔ پس کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ روح کی ذات جو حق کا خلیفہ ہے، تجلی کر کے خود "أَنَا الْحَقُّ" کا دعویٰ کر لے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تمام موجودات کو ایسی حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ روح کی خلافت کے تخت کے سامنے سجدہ ریز ہیں تو اس وقت وہ غلطی میں پڑ جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ خود حضرتِ حق ہے۔ اس حدیث پر قیاس کیا جاتا ہے، فرمایا گیا ہے"إِذَا تَجَلَّی اللہُ لِشَيْءٍ خَضَعَ لَہٗ" (سنن ابن ماجۃ بمعناہ، کتاب إقامۃ الصلوۃ و السنة فیھا، باب: ما جاء فی صلوۃ الکسوف، رقم الحدیث: 1262) ”جس وقت اللہ تعالیٰ کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو اُس کو عاجز کرتا ہے“ اور اس کی بہت غلطیاں ہوتی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حمایت اور مدد کے بغیر نہیں نکلا جاتا۔

اب دونوں تجلیوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ روحانی تجلی حدوث یعنی حادث ہونے کی کثافت رکھتی ہے اور اُس میں فنا کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ اگرچہ اپنے ظہور کے وقت صفاتِ بشری کو زائل کرتی ہے مگر فنا نہیں کر سکتی۔ جس وقت وہ تجلی پردے میں ہو جائے اُسی وقت صفات بشری لوٹ کر پیدا ہوتی ہیں، لیکن حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی تجلی میں یہ آفات نہیں ہوتیں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات نفس کی ہر قسم کی اطوار کی ضد ہوتی ہیں اور باطل کے زہوق (ختم ہونے اور زائل ہونے) کی خاصیت رکھتی ہیں۔ ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا﴾ (الإسراء: 81) ”حق آیا اور باطل چلا گیا کیونکہ باطل زائل ہونے اور ختم ہونے کی چیز ہے“۔

دوسری بات یہ ہے کہ روحانی تجلی سے دل میں طمانیت اور سکون و آرام پیدا ہوتا ہے اور انسان کو شکوک اور فریب سے نجات حاصل ہوتی ہے اور معرفت کا ذوق بھی پوری طرح ہاتھ نہیں آتا اور تجلئ حق اس کے خلاف ہوتی ہے۔ اور یہ بات جان لو کہ روحانی تجلی سے غرور اور بڑائی پیدا ہوتی ہے، ہستی کا غرور بڑھ جاتا ہے اور طلب میں کمی پیدا ہوتی ہے اور اللہ کے ڈر اور عاجزی میں کمی آ جاتی ہے اور حق کی تجلی سے یہ تمام چیزیں بڑھ جاتی ہیں اور ترقی کرتے ہوئے ہستی کو نیستی میں بدل لیتی ہے، طلب و جستجو میں زیادتی اور تشنگی پیاس اور تڑپ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہ بات جان لیجیے کہ انسان ذات و صفات الٰہی کا آئینہ ہے۔ جب آئینہ صاف ہو تو جس صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ چاہے تجلی فرماتا ہے۔ اگر حیات کی صفت سے تجلی فرمائے تو پھر ایسا ہوتا ہے کہ خضر و الیاس علیھما السلام زندہ ہیں۔ اور اگر کلام کی صفت سے تجلی فرمائے تو ایسا ہوگا جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا کہ ﴿وَ كَلَّمَ اللهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا﴾ (النساء: 164) ”اور باتیں کیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بول کر“ اور اگر رزاقیت کی صفت کے ساتھ جلوہ آرائی اور تجلی فرمائے تو وہ ایسا ہوگا جیسا کہ مریم علیھا السلام کے ساتھ معاملہ تھا ﴿وَ هُزِّيْ إِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ…﴾ (مریم: 25) ”اور کھجور کے درخت کی جڑ کو اپنی طرف ہلا“۔ اور جب خلاقیت کی صفت کے ساتھ تجلی فرمائے تو وہ ایسا ہوتا ہے جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا ﴿وَ إِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْــئَـةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِيْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِإِذْنِيْ وَ تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنِيْ وَ إِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِإِذْنِيْ…﴾ (المائدہ: 110) ”جب مٹی سے پرندے کی شکل کو بنایا اور اُس میں پھونک ماری پس وہ میرے اِذن سے پرندہ بن گیا۔ اور تم اچھا کر دیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے، اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے“۔ اگر امانت کی صفت سے تجلی فرمائے تو وہ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ ابو تراب نخشبی، کہ اُس حالت میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اُن پر پڑی تو اُنہوں نے ایک نعرہ لگایا اور جان دے دی۔ ایسا شخص جس پر توجہ کرے تو اُس کو ہلاک کر ڈالتا ہے اور دوسری صفتیں بھی اس طرح ہیں، ان میں فرق کرنا بہت باریک اور مشکل ہے۔ یہ فرق و تمیز مشاہدے، مکاشفے اور تجلی میں مکمل بصیرت اور بہت فکر کے بعد آتی ہے، لکھنے سے بات بڑھ جاتی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتا ہے لیکن تجلی کا معنیٰ اور مفہوم پہچاننا چاہیے۔ تجلی اور استتار دو لفظ ہیں، اور عارفوں کی جماعت میں تجلی کا مفہوم ظاہر کرنا اور کھول دینا ہے، اور استتار کا مفہوم پوشیدہ رکھنا ہے۔ اور اس جماعت کی تجلی سے مراد اللہ تعالیٰ کا ظہور اور کھل کر دکھائی دینا ہے اور استتار سے مراد حق کا پوشیدہ ہونا ہے۔ اور حق سے مراد یہاں حق کی ذات نہیں کیونکہ اس کی ذات کے لیے تلون اور تفسیر جائز نہیں۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ مسئلہ یا معمہ کھل گیا تو مسئلہ اور معمہ بعینہٖ اپنی حالت پر ہوتے ہیں، وہ کھلتے یا بند نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کا سینہ کھل جاتا ہے۔ اور اُس مسئلے یا معمے کو بوجھ لیتا ہے۔ اُس مسئلے کے علم اور جاننے کو مسئلے کا کھلنا کہتے ہیں۔ اور اُس مسئلے کی لاعلمی اور جہل کو مسئلے کا پوشیدہ ہونا کہتے ہیں۔ جب کوئی اپنے آپ پر توجہ کرے تو غیب کی حالت چھپ جاتی ہے، اس کو استتار کہتے ہیں۔ پھر جب ہر چیز حق سے جانے اور حق کی جانب سے دیکھے اور خود اپنے آپ سے نہیں اور نہ اپنی جانب سے تو درمیان سے بشریت اُٹھ جاتی ہے اور غیب پر نگاہ پڑتی ہے، اس کو تجلی کہتے ہیں۔ اس بارے میں حکیم ثنائی فرماتے ہیں۔ رباعی

؎ تا بہ جاروب لا نہ روبی راہ

کے رسی در سرائے الا اللہ

بر نگیرد جہان عشق دوئی

چہ حدیث است ایں حدیث قوی

’’جب تک تو ''لَا'' کی جھاڑو سے راستے کو صاف نہ کرے، ''إِلَّا اللہُ'' کی محل سرائے کو کب پہنچ سکو گے۔ عشق کی دُنیا میں دوئی سے کام نہیں چلتا، یہ مضبوط بات کیسی اچھی بات ہے‘‘۔

کہتے ہیں کہ جو جانور نمک کی کان میں گر پڑے تو وہ بھی نمک بن جاتا ہے۔ جب مخلوقات میں سے ایک مخلوق میں اتنا اور ایسا اثر ہوتا ہے کہ اُس (گرے ہوئے) کی صفت اُس سے سلب کی جاتی ہے، اور اپنا اثر اُس میں نافذ کرتی ہے تو توحید کے بادشاہ کا ایسا اثر کیوں اور کیسے نہ ہوگا کہ بندے کو استغراق کی حالت میں اپنے مشاہدہ سے بشریت کی صفت سے ہٹا کر عالم ملکوت کو پہنچائے اور پھر اُس کو عالم ملکوت سے بھی آگے لے جا کر اپنے آپ میں نیست کرے، تاکہ وہ خود ہو جائے، خود کہے، خود سنے اور وہ درمیان میں ایک نشانہ ہو۔ کسی عزیز نے کہا ہے کہ بیت ؎

در شہر بگو یا کہ تو باشی یا من

شوریدہ شود کار ولایت بہ ذو تن

’’شہر میں یہ اعلان کرو کہ یا تو شہر میں تم (حاکم) ہو گے، یا میں۔ سلطنت کا کام دو آدمیوں کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے‘‘۔