مقالۂ دہم
علم سلوک کی متفرق باتوں کے بیان میں
شیخ شرف منیری کے مکتوب میں آیا ہے کہ جب دل کا آئینہ صاف ہو جاتا ہے اور طبیعت کا زنگ اور بشریت کی ظلمت اور صفت اُس سے محو ہو جاتی ہے اور دل انوار غیبی کے قابل ہو جاتا ہے، ابتدائی دور میں اُن انوار کا حال بجلی کے کوندنے کی طرح لوامع اور لوائح کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ دل کا آئینہ جتنا زیادہ صاف و پاک ہو، یہ انوار اُتنی زیادہ قوت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد وہ بجلی کی کوند چراغ، شمع، مشعل اور آگ کی مانند روشن ہوتی ہے، اُس وقت علوی انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ ابتدا میں چھوٹے بڑے ستاروں کی صورت میں پھر چاند کی طرح دکھائی دیتے ہیں، اور اُس کے بعد سورج کی طرح ہویدا ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بات جان لو کہ جو انوار، برق، لوامع اور لوائح کی صفت اور صورت میں دکھائی دیتے ہیں، وہ اکثر وضو اور نماز کی برکت سے ہوتے ہیں۔ اور جو چراغ، مشعل، شمع اور اسی طرح نظر آئیں وہ اپنے شیخ کا ایک نور ہوتا ہے یا رسول اللہ ﷺ کے انوار میں سے ہوتے ہیں۔ اور وہ چراغ یا شمع دل ہوتا ہے کہ اُس مقدار میں روشن اور منور ہوتا ہے۔ اور اگر فانوس یا تیز روشنی کے چراغ کی شکل میں دیکھ لے تو اُس کے بھی یہی معنیٰ ہیں۔ اور جو عالم بالا اور علوی شکل میں یعنی سورج چاند ستاروں کی شکل میں نظر آئے، وہ روحانیت کے انوار ہوتے ہیں جو دل کے آسمان پر اُس کی صفائی کے اندازے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جب دل کا آئینہ ستارے کے انداز میں صاف ہوتا ہے، تو روح کا نور ستارے کے اندازے پر ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب چاند دیکھے، اگر چاند پورا اور مکمل ہو، تو سمجھ لیجیے کہ تمام دل صاف ہو چکا ہے۔ اور اگر کچھ کمی ہو تو اُس کمی کے اندازے پر ابھی کدورت باقی ہے۔ اور جب دل کا آئینہ صفائی میں کمال کو پہنچ جائے تو پھر دل روح کے نور کا قابل ہو جاتا ہے اور پھر سورج کی طرح دکھتا ہے، جتنی صفائی زیادہ ہو تو چمکتے ہوئے سورج کی روشنی بھی اُتنی تیز ہو گی، یہاں تک کہ روشنی میں سورج سے ہزار بار زیادہ روشنی نظر آتی ہے۔ اگر چاند اور سورج؛ دونوں کو ایک دفعہ اکھٹے دیکھے تو چاند دل ہے، جو کہ روح کے نور کے عکس سے منور اور روشن ہوا ہے اور سورج روح ہوتا ہے، جو کہ دیکھا جاتا ہے، جو ابھی تک حجاب کے پیچھے سے دکھائی دیتا ہے کہ اُس کے خیال کو سورج کی شکل میں دیکھ لیتے ہیں ورنہ روح کا نور بغیر کسی شکل اور صورت کے ہوتا ہے۔
اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صفاتِ خداوندی کے انوار اس طریقہ پر استقبال کرتے ہیں جیسا فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا" (الصحیح لمسلم، کتاب التوبة، باب: في الحض على التوبة، رقم الحدیث: 2675) ”جو کوئی میری جانب ایک بالشت بھی نزدیک ہو جائے تو میں اُس کی جانب گز بھر نزدیک ہو جاتا ہوں“۔ اور اس دلی اور روحانی حجاب سے دل کے آئینہ پر عکس پڑتا ہے اور اُس کی صفائی کے اندازے پر ہوتا ہے۔
سوال:
اگر کوئی سوال کر کے پوچھے کہ یہ کس طرح معلوم کیا جائے گا کہ یہ عکس اور پرتو نورِ صفات کے ہیں، یعنی صفات خداوندی کے نور کے پرتو ہیں؟
جواب:
یوں کہا گیا ہے کہ جو کچھ صفاتِ حق کے انوار سے دل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، تو وہ نور خود اپنا تعارف کراتا ہے۔ اور روح میں ایک ایسا ذوق پیدا ہو جاتا ہے کہ اس ذوق سے یہ جان لیتا ہے کہ میں یہ جو دیکھتا ہوں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ہے، نہ کہ اغیار کی جانب سے۔ یہ ایک ذوقی مفہوم اور حال ہے جو عبارت میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اور کہا گیا ہے کہ صفاتِ جمال کے انوار مُشرِق (روشن، روشن کنندہ) ہوتے ہیں، مُحرِق (جلانے والے) نہیں ہوتے اور صفات جلال کے انوار مُحرِق ہوتے ہیں، نہ کہ مُشرِق۔ عقل و فہم اس مقام پر پگھل جاتے ہیں، اور از کار رفتہ ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی ہوتا ہے کہ دل کی صفائی کمال کو پہنچ جاتی ہے اور ﴿سَنُرِیْھِمْ آیَاتُنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِيْ أَنْفُسِھِمْ...﴾ (فصلت: 53) ”ہم ان کو آفاق میں اور ان کے اپنے نفسوں کے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے“ کے اسرار رونما ہوتے ہیں۔ اگر ایسی حالت میں اپنے آپ کو دیکھے تو حق دکھتا ہے اور اگر موجودات کو دیکھے تو سب حق دکھتے ہیں۔ چنانچہ ایک بزرگ نے فرمایا ہے: "مَا نَظَرْتُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا وَ رَاَیْتُ اللہَ فِیْہِ" ”میں جس چیز کو بھی دیکھوں مجھے اس میں اللہ تعالیٰ دکھائی دیتا ہے“ جب حق تعالیٰ کا نور اپنا عکس نور روح پر ڈالتا ہے تو ذوقِ شہود کے ساتھ مشاہدہ کی آمیزش ہوتی ہے۔ اور جب حق تعالیٰ کا نور بغیر کسی روح یا دلی حجاب کے ہویدا ہوتا ہے تو وہ بغیر کسی رنگ، کیفیت، حد، مثل اور ضد کے ظاہر ہوتا ہے، تمسُّک اور تمکُّن یعنی قبضہ جمانا اور قائم رہنا اُس کے لوازم ہوتے ہیں، یہاں نہ طلوع ہوتا ہے نہ غروب، نہ دایاں نہ بایاں، نہ اوپر نہ نیچے، نہ مکان نہ زمان، نہ قرب نہ بعد اور نہ رات نہ دن ہوتا ہے۔ یہاں نہ تو عرش ہے نہ فرش، نہ دنیا نہ آخرت، یہاں قلم ٹوٹ جاتا ہے اور زبان کی حرکت ختم ہو جاتی ہے، عقل عدم کے اتھاہ کنویں میں گر جاتی ہے اور علم و فہم حیرت کے بیابان میں گم ہو جاتے ہیں۔ اب تُم اس حسرت میں جلتے اور پگھلتے رہو کہ "قُمْ مُقَامَ بُعْدٍ" میں ہو، اور اُس چیز کی حسرت کرتے رہو جو ابھی تمہیں نہیں ملی، اور یہ حسرت اُس سے بہتر ہے کہ تم مقام قرب میں رہو۔ تم یافت اور ملنے کی گھمنڈ میں ہو گے اور یہ گھمنڈ زوال کی وجہ ہے، اور یہ حسرت عطا و کرم کا وسیلہ ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اپنا راستہ صاف رکھنا چاہیے اور بشریت کا جامہ چاک کرنا چاہیے اور آنکھوں میں مٹی اور دھول ڈالنی چاہیے کہ اس خود بینی اور گھمنڈ میں ہونا ہیجڑوں اور مخنثوں کے زمرے میں آنا ہے۔
آدم علیہ السلام کے زمانے میں کوئی تھا جو کہ خود نمائی کرتا تھا، اگرچہ وہ فرشتوں کا اُستاد تھا اور ان کا مقدم (پیشرو) تھا، مگر جب خود نمائی کا مرتکب ہوا تو اُس کو مخنث اور مؤنث بنا کے رکھ دیا اور دنیا کی خانہ آرائی اور آرائش اُس کے حوالے کی، تاکہ کم ہمت لوگوں کی نگاہ میں اس کو باوقعت بنائے، اور ابلیس پر اپنا قہر و غضب مسلط کیا اور اس مشت خاک (انسان) پر لطف کیا اور ایک کو تاجدار بنا کے رکھ دیا۔ یہ بات جان لے کہ ابلیس کو رد کیا، اُس کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا اور آدم علیہ السلام کو قبول کیا، اُن کو کبھی بھی رد نہیں کیا جائے گا۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ سب کچھ کس لیے ہے؟ جہاں کہیں بھی کوئی صاحب جمال اور خوبصورت ہو تو اُس کے مقابلے میں کوئی بد نما ہوگا، جہاں کوئی محل ہوگا، اُس کے مقابلے میں کوڑا کرکٹ کا ڈھیر اگر نہ ہو گا تو وہ محل ناقص ہوگا۔ اسی طرح جہاں کوئی دل نورِ طہارت سے روشن ہوا، وہاں اُس کے مقابلے مں نفس خبیث کے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بھی ہوگا۔ جب دل کو طہارت کا لباس پہنا کر سجایا جاتا ہے تو وہاں اُس کو ظلوم و جہول کا مقام دکھلا کر متنبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو فراموش نہ کرو کہ تم کون ہو۔ مور جب اپنے پر پھیلاتا ہے تو پروں پر خوش ہوتا ہے، جب اپنے پاؤں کو دیکھتا ہے، تو وہ سب خوشی بھلا بیٹھتا ہے۔ بیت ؎
طاؤس را بہ نقش و نگارے کہ ہست خلق
تحسین کنند و او خجل از پائے زشت خویش
’’مور کے خوبصورت اور نقش و نگار والے جسم و پروں کو جب لوگ دیکھتے ہیں، تو اُس کی تعریف کرتے ہیں، مگر مور بے چارہ اپنے کالے کلوٹے بد نما پاؤں کی وجہ سے شرمندہ ہے‘‘۔