مکتوب 76
قلیج خان1 کی طرف صادر ہوا۔ اس بیان میں کہ ترقی ورع و تقویٰ (پرہیز گاری) سے وابستہ ہے اور فضول مباحات کے ترک کرنے کی ترغیب میں اور اگر یہ میسر نہ ہو تو محرمات سے بچتے ہوئے فضول مباحات کے دائرے کو تنگ تر رکھنا چاہیے اور اس بیان میں کہ محرمات سے بچنا بھی دو قسم پر ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم وَ بِہٖ نَسْتَعِیْنُ (اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے اور اسی کے ساتھ مدد مانگتا ہوں) اللہ تعالیٰ سبحانہ اپنے حبیب سید البشر صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل جو کہ کجئ چشم سے پاک ہیں آپ کو ہر اس چیز سے بچائے جو آپ کے لئے موجب عار ہو اور ہر اس چیز سے محفوظ رکھے جو آپ کو عیب لگائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا آتکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا﴾ (الحشر: 7) ترجمہ: ” اور رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ “۔ (لہذا) نجات کا مدار دو چیزوں پر ہوا، (یعنی) اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے رک جانا۔ اور ان دونوں جزوں میں سے جزوِ آخر زیادہ عظمت والا ہے جس کو ورع و تقوٰی (پرہیز گاری) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ذُکِرَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ سَلَّمَ بِعِبَادَۃٍ وَ اجْتِھَادٍ وَ ذُکِرَ آخَرُ بِرِعَۃٍ فَقَالَ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ عَلَٰی آلِہٖ وَسَلَّمَ لَا تَعْدِلُ بِالرِّعَۃِ شَیْئًا یَعْنِی الْوَرَعَ2۔ وَ قَالَ أَیْضًا عَلَیْہِ مِنَ الصَّلوت أَتَمُّھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا: "مِلَاکُ دِیْنِکُمُ الْوَرَعُ".3 ترجمہ: ”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص کا ذکر عبادت و اجتہاد کے ساتھ کیا گیا (یعنی وہ بڑا عبادت و ریاضت میں مشغول رہتا ہے) اور دوسرے شخص کا ذکر ورع (تقوٰی) کے ساتھ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ورع یعنی پرہیزگاری کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ اور نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمھارے دین کا مقصود ورع یعنی پرہیز گاری ہے)۔
اور انسان کی فرشتوں پر فضیلت اسی جزو (آخر) سے ثابت ہے اور قرب الہی کے درجوں پر ترقی بھی اسی جزو سے ثابت ہے کیونکہ فرشتے پہلے جزو میں شریک ہیں اور ترقی ان میں مفقود ہے پس جزو ورع و تقوٰی کا مدِ نظر رکھنا اسلام کے اعلیٰ ترین مقاصد اور دین کی نہایت اہم ضروریات میں سے ہے اور یہ جزو جس کا مدار حرام چیزوں سے بچنے پر ہے، کامل طور پر اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کہ فضول (غیر ضروری) مباحات سے پرہیز کیا جائے اور بقدرِ ضرورت مباحات پر کفایت کی جائے کیونکہ مباحات کے اختیار کرنے میں باگ ڈور کا ڈھیلا چھوڑ دینا مشتبہ چیزوں (کے اختیار کرنے) تک پہنچا دیتا ہے اور مشتبہ حرام کے نزدیک ہے، "مَنْ حَامَ حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّقَعَ فِیْہِ"4 ترجمہ: ”جو شخص چراگاہ کے گرد پھرا قریب ہے کہ اس میں جا پڑے“۔
پس ورع و تقوٰی کامل طور پر حاصل کرنے کے لئے بقدر ضرورت مباحات پر کفایت کرنا لازمی ہے اور یہ بھی اس شرط پر کہ اس میں عبادت و اعمال کرنے کی نیت ہو ورنہ اس قدر (مباحات اختیار کرنا) بھی وبال ہے اور اس کا قلیل بھی کثیر کا حکم رکھتا ہے۔ چونکہ فضول مباحات سے کلی طور پر بچنا ہر زمانے میں اور خاص طور پر اس زمانے میں بہت دشوار ہے (اس لئے) حرام چیزوں سے بچتے ہوئے حتی الامکان فضول مباحات اختیار کرنے کا دائرہ بہت تنگ کرنا چاہیے اور اس اختیار کرنے میں ہمیشہ شرمندہ و پشیمان ہونا اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور اس (فضول مباحات) کو محرمات میں داخل ہونے کی کھڑکی جانتے ہوئے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا و گریہ و زاری کرتے رہنا چاہیے، شاید کہ یہ ندامت (پشیمانی) و استغفار اور التجا و تضرع اُس فضول مباحات سے بچنے کا کام کر جائے اور اس کی آفت سے محفوظ و مامون کر دے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں: "اِنْکِسَارُ الْعَاصِیْنَ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ صَوْلَۃِ الْمُطِیْعِیْنَ" (گنہگاروں کی انکساری و عاجزی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرماں برداروں کے دبدبے (جد و جہد) سے زیادہ محبوب ہے) اور حرام چیزوں سے بچنا بھی دو قسم پر ہے ایک قسم وہ ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حقوق سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے حقوق سے تعلق ہے اور دوسری قسم کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے (کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی مطلق اور ارحم الراحمین (سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے) اور بندے فقرا و محتاج اور بالذات بخیل و کنجوس ہیں (اس لئے ان کے حقوق کی ادائیگی زیادہ ضروری ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: "مَنْ کَانَتْ لَہُ مَظْلِمَۃٌ لِّاَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ أَوْ شَيْءٍ فَلْیَتَخَلَّلْہُ مِنْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَّا یَکُوْنَ دِیْنَارٌ وَّ لَا دِرْھَمٌ إِنْ کَانَ لَہٗ عَمَلٌ صَالِحٌ اُخِذَ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِہٖ وَ إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ حَسَنَاتٌ اُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ"5 ترجمہ: ”اگر کسی شخص پر اس کے بھائی کی عزت و آبرو یا اور کسی قسم کا کوئی حق ہے تو اس کو چاہیے کہ آج ہی اس سے معاف کرا لے قبل اس کے کہ اس کے پاس نہ کوئی دینار رہے اور نہ درہم (کیونکہ قیامت کے دن) اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو بقدرِ ظلم اس سے بدلے میں لے لیا جائے گا (اور صاحب حق کو دے دیا جائے گا) اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحبِ حق کی برائیاں لے کر اس پر ڈالی جائیں گی“۔
وَ قَالَ أَیْضًا صَلّٰی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ: "أَ تَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَّا دِرْھَمَ لَہٗ وَ لَا مَتَاعَ" فَقَالَ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِيْ مَنْ یَّاْتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَوٰۃٍ وَّ صِیَامٍ وَّ زَکوٰۃٍ وَّ یَاْتِيْ قَدْ شَتَمَ ھذَا وَ قَذَفَ ھذَا وَ أَکَلَ مَالَ ھذَا وَ سَفَکَ دَمَ ھذَا وَ ضَرَبَ ھذَا فَیُعْطٰی ھذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ وَ ھذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہٗ قَبْلَ أَنْ یُّقْضٰی مَا عَلَیْہِ أُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ".6 صَدَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَ سَلَّمَ ترجمہ: ”اور نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ حاضرین صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم و اسباب کچھ نہ ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ سب کچھ لے کر آئے (لیکن ساتھ ہی) اس نے کسی کو گالی بھی دی ہو اور کسی کو تہمت بھی لگائی ہو اور کسی کا مال بھی کھایا ہو اور کسی کا خون بہایا ہو اور کسی کو مارا ہو پس ہر ایک حق دار کو اس کی نیکیوں میں سے اس کے حق کی برابر نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر حقداروں کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان حق داروں کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اس کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا“۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ (یہ فقیر) آپ کی تعریف اور شکر گزاری کا اظہار کرتا ہے کہ شہرِ عظیم لاہور میں آپ کے وجود کی وجہ سے اس گئے گزرے زمانہ میں بہت سے شرعی احکام رائج ہو گئے ہیں اور وہاں دین کو تقویت اور مذہب کو ترویج حاصل ہو گئی ہے اور وہ شہر (لاہور) فقیر کے نزدیک ہندوستان کے تمام شہروں کی نسبت "قطب ارشاد" کی مانند ہے اس شہر کی خیر و برکت ہندوستان کے تمام شہروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگر وہاں رواج پذیر ہے تو سب جگہ ایک درجہ رواج متحقق ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کا معاون و مدد گار ہو۔ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ: "لَا یَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِيْ ظَاھِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ أَمْرُ اللہِ وَ ھُمْ عَلٰی ذَالِکَ".7 ترجمہ: ”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق کا مدد گار رہے گا اور جو اس گروہ کی ذلت و خواری کا ارادہ کرے گا وہ اس کو کچھ ضرر نہ دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے گا اور وہ اپنے حال پر قائم ہوں گے“۔
چونکہ معرفت کی پناہ والے ہمارے قبلہ گاہ حضرت خواجہ (باقی باللہ قدس سرہٗ) کے ساتھ آپ کی محبت کے تعلق کا رشتہ محکم تھا اس بنا پر یہ چند کلمات لکھ کر اس حبّی نسبت کو حرکت میں لایا ہے اس لئے زیادہ لکھنا طول کلامی ہے۔
حامل مکتوبِ دعا نیک و صالح آدمی اور شریف زادہ ہے ایک حاجت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے امید ہے کہ اس کے بارے میں توجہ شریف فرما کر اس کی حاجت روائی فرمائیں گے۔ حضور نبی کریم اور آپ کی بزرگ اولاد علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل حقیقی دولت اور ابدی سعادت آپ کو حاصل ہو۔ میرے سیادت مآب میر سید جمال الدین کو غریبانہ دعائیں پہنچائیں۔
1 قلیج خان کا مختصر تذکرہ اور ان کے نام مکتوبات کی تفصیل کے لئے دفتر اول مکتوب نمبر 24 کا حاشیہ ملاحظہ ہو۔
2 اس حدیث کو ترمذی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہیں۔
3 اس روایت کو بیہقی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: "وَ فَضْلٌ فِيْ عِلْمٍ خَيْرٌ مِّنْ فَضْلٍ فِيْ عِبَادَةٍ، وَ مِلَاكُ الدِّينِ الْوَرَعُ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 255)
4 اس میں اس طویل حدیث کے ایک حصے کی طرف اشارہ ہے جس کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
5 اس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
6 اس کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
7 اس کو حاکم نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے نیز حاکم و ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، نیز ابن ماجہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اور ابو داؤد نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ان تینوں روایت کے الفاظ مختلف ہیں مگر معنی سب کے ایک ہی ہیں۔