دفتر 1 مکتوب 67: حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو ظاہر و باطن میں سید المرسلین علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی متابعت پر ثابت قدم رکھے اور اس بندے پر رحم فرمائے جس نے آمین کہی

مکتوب 67

خانِ خاناں؂1 کی طرف ایک محتاج کی سفارش میں صادر فرمایا۔

ثَبَّتَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَلٰی مُتَابَعَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ ظَاھِرًا وَّ بَاطِنًا وَ یَرْحَمُ اللہُ عَبْدًا قَالَ آمِیْنًا (حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ظاہر و باطن میں سید المرسلین علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی متابعت پر ثابت قدم رکھے اور اس بندے پر رحم فرمائے جس نے آمین کہی)

دو ضروری کاموں نے بے اختیار اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ کو تکلیف دی جائے۔ امرِ اول: تکلیف کے گمان کو دُور کرنے بلکہ محبت و اخلاص کے حاصل ہونے کا اظہار ہے۔ اور دوسرا امر ایک محتاج کی حاجت کی طرف اشارہ ہے جو کہ بزرگی اور نیکی سے آراستہ اور معرفت و شہود سے پیراستہ ہے، نسب (پدری رشتے) کے لحاظ سے کریم اور حسب (مادری رشتہ) کی رُو سے شریف ہے۔

میرے مخدوم! حق بات کے ظاہر کرنے میں ایک قسم کی تلخی ہے اگرچہ وہ شدت و ضعف کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ کوئی نہایت سعادت مند ہونا چاہیے جو اس تلخی کو شہد کی طرح پی جائے اور "ھَلْ مِّنْ مَّزِیْدٍ" (کیا اور بھی ہے) کہے۔ احوال کا تغیر و تبدل امکان کی صفت؂2 کے لوازمات سے ہے، جو لوگ مرتبۂ تمکین تک پہنچ چکے ہیں وہ بھی تلوین کی سرشت رکھتے ہیں، بے چارہ ممکن کبھی صفاتِ جلالیہ کے غلبے سے مغلوب ہے اور کبھی صفات جمالیہ کا محکوم، کبھی قبض؂3 کے مقام میں ہے اور کبھی بسط کے اور ہر موسم کے احکام جدا ہیں۔ گزشتہ کل جو حالت تھی وہ آج نہیں ہے: "قَلْبُ الْمُوْمِنِ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ"؂4 ترجمہ: ”مؤمن کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، جس طرح چاہتا ہے اس کو پلٹ دیتا ہے“۔ و السلام

؂1 خانِ خاناں (عبد الرحیم) کا مختصر تذکرہ اور ان کے نام مکتوبات کی تفصیل کے لیے دفتر اول مکتوب نمبر 23 کا حاشیہ ملاحظہ ہو۔

؂2 یعنی ممکن کے احوال کا مختلف ہونا لازمی ہمیشہ حالت و کیفیت پرھنا واجب الوجود لا یزال کی شان ہے پس اللہ تعالیٰ اَلْآنَ کَمَا کَانَ ہے۔

؂3 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡسُطُ﴾ (البقرۃ: 245) ترجمہ: ”اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے“۔

؂4 اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مرضی ہے جس کو مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اس حدیث کے الفاظ مشکوٰۃ شریف میں اس طرح ہیں: "إِنَّ قُلُوبَ بَنِيْ آدَمَ كُلِّهَا بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ كَقَلْبٍ وَّاحِدٍ، يُصَرِّفُهٗ كَيْفَ يَشَآءُ". (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 89) ترجمہ: ”بے شک تمام بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی مانند ہیں جس کو اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے پھرا دیتا ہے“۔ یعنی اللہ تعالی تمام اشیاء میں تصرف کرنے پر قادر ہے۔ حدیث میں اصابع کا ذکر متشابہات میں سے ہے، جس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔