مکتوب 66
یہ مکتوب بھی خان اعظم کی طرف صادر ہوا۔ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی تعریف اور اس طریقے کی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طریقہ کے ساتھ مناسبت کے بیان میں اور اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کی دوسروں پر افضلیت کے بیان میں اگرچہ وہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا عمر مروانی (یعنی حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ) ہوں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے بر گزیدہ بندوں پر سلام)
حضراتِ خواجگان (نقشبندیہ) قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے طریقے کی بِنا اندراج نہایت در بدایت (ابتدا میں انتہا درج ہونا) پر مبنی ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ نے فرمایا کہ ہم انتہاء کو ابتدا میں درج کرتے ہیں، اور یہ طریقہ بعینہٖ اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا طریقہ ہے کیونکہ ان بزرگوں کو آنسرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پہلی ہی صحبت میں وہ کمال حاصل ہو جاتا تھا کہ اُمت کے اولیاء کو نہایت النہایت (نہایت انتہائی مقام) میں اس کمال میں سے بہت تھوڑا سا حصہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ جو اپنے اسلام لانے کے شروع زمانہ میں صرف ایک ہی مرتبہ سید اولین و آخرین علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی صحبت کے شرف سے مشرف ہوئے تھے، حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے جو کہ تابعین میں سب سے بہتر ہیں، افضل ہو گئے جو کچھ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو حضرت خیر البشر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی پہلی ہی صحبت میں حاصل ہوا حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو اس خصوصیت (یعنی خیر التابعین ہونے کے با وجود) انتہا میں بھی حاصل نہیں ہوا۔ پس لازمی طور پر سب سے بہتر زمانہ اصحاب کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کا زمانہ ہوا، اور لفظ ثُمَّ1 نے دوسروں کا معاملہ پیچھے ڈال دیا اور درجے کی دوری کی طرف اشارہ کیا۔
ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن مبارک قدس سرہٗ سے پوچھا کہ (امیر المؤمنین) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا (امیر المؤمنین) حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ؟ آپ نے فرمایا وہ غبار جو (جہاد کے سفر میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوا وہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے کئی درجے بہتر ہے۔ پس اسی لئے ان حضرات کا سلسلہ سلسلۃ الذہب ہوا اور دوسرے طریقوں پر اس طریقۂ عالیہ کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کی فضیلت دوسرے زمانوں پر واضح ہو چکی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نہایت فضل و کرم سے ابتدا ہی میں اس پیالے سے ایک گھونٹ پی چکے ہوں ان کے کمالات کی حقیقت پر اطلاع پانا ان کے سوا دوسروں کے لئے مشکل ہے، ان کی نہایت دوسروں کی نہایت سے بلند تر ہو گی۔ مصرع
قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا
ترجمہ:
میری بہار کا اندازہ میرے باغ سے کر
مصرع:
سالے کہ نکوست از بہارش پیداست
ترجمہ:
سال اچھا ہے وہی جس کی بہار اچھی ہے
﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعۃ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے: "ما فضلیا نیم" (ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے وابستہ ہیں) اللہ تعالیٰ اپنے نبی قریشی صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل ہم کو اور آپ کو ان بزرگوں کے محبوں اور متابعت کرنے والوں میں سے بنائے۔
1 عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: "خَيْرُ أُمَّتِيْ قَرْنِيْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ" (متفق علیہ)