مکتوب 61
یہ مکتوب بھی سیادت مآب سید محمود کی طرف صادر ہوا۔ شیخِ کامل و مکمل کی صحبت کی ترغیب اور ناقص شیخ کی صحبت سے بچنے اور اس کے مناسب بیان میں۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے حبیب سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل جو کہ کجئ چشم سے پاک ہیں، اپنی طلب میں زیادتی مرحمت فرما کر ہر اُس چیز سے بچائے جو مطلوب تک پہنچنے سے مانع ہے۔
آپ کا عنایت نامہ شرفِ صدور لایا، چونکہ طلب و شوق کی خبر اور درد و تشنگی کا پتہ دینے والا تھا نظر میں بہت ہی پسند آیا کیونکہ طلب مطلوب کے حاصل ہونے کی بشارت دیتی ہے اور درد مقصود تک پہنچنے کی تمہید ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ''اگر نخواستے داد نداد خواست'' (یعنی اگر اللہ تعالیٰ دینا نہ چاہتا تو طلبِ عطا نہ فرماتا)۔ (پس یہ طلب و درد اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دینا چاہتا ہے)۔ پس طلب دولت حاصل ہونے کو بہت بڑی نعمت جان کر ہر اس چیز سے بچنا چاہیے جو اس کے مخالف ہے ایسا نہ ہو کہ اس میں کوئی فتور واقع ہو جائے اور اس حرارت میں کوئی ٹھنڈک (سستی) اثر کر جائے۔ اور اس کی محافظت کا سب سے بڑا ذریعہ اس دولت کے حاصل ہو نے کا شکر ادا کرنا ہے: ﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ﴾ (ابراہیم: 7) ترجمہ: ”اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا“۔ اور (دوسرا ذریعہ) حضرت قدس جل سلطانہٗ کی جناب میں عاجزی و زاری کرنا ہے تاکہ حق تعالیٰ اس کی طلب و درد کے چہرے کو اپنے لا زوال جمال کے کعبے سے نہ ہٹائے۔ اگر التجا و تضرع کی حقیقت حاصل نہ ہو تو ظاہری تضرع و نیاز مندی کی صورت کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔"وَ اِنْ لَّمْ تَبْکُوا فَتَبَاکُوا"1 ترجمہ: ”یعنی اگر رونا نہ آئے تو رونے والوں کی سی صورت بنا لو“۔ میں اسی معنی کی طرف اشارہ ہے۔
(طلب و درد کی) یہ محافظت کامل و مکمل (خود کامل و مکمل کرنے والے) شیخ کے ملنے تک ہے اس کے بعد اپنی تمام مرادیں اس بزرگ کے سپرد کر دینی چاہئیں اور (اس کی خدمت میں) مردہ بدستِ غسّال (غسل دینے والا) کی طرح ہو جانا چاہیے۔ فنائے اول فنا فی الشیخ ہے اور یہی فنا پھر فنا فی اللہ کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ ؎
زاں روئے کہ چشمِ تست احول
معبودِ تو پیرِ تُست اوّل
ترجمہ:
ابھی جب تک ہے تیری آنکھ احول
ہے مرشد ہی تیرا معبود اول
کیونکہ فائدہ پہنچانا اور فائدہ حاصل کرنا دونوں طرف کی مناسبت پر موقوف ہے اور ابتدا میں طالبِ طریقت کو اپنی نہایت پستی و کمینگی کے باعث حق تعالیٰ عز سلطانہٗ کی پاک بار گاہ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہوتی اس لئے دونوں طرف2 (یعنی خالق و مخلوق کے درمیان) تعلق والا ایک واسطہ (برزخ) ہونا ضروری ہے، اور وہ شیخِ کامل و مکمل ہے۔ طلب میں فتور و سستی واقع ہونے کا سب سے بڑا قوی سبب شیخِ ناقص کی طرف رجوع کرنا ہے، جس نے ابھی اپنا جذبہ و سلوک کا کام پورا نہیں کیا اور شیخی و پیری کی مسند پر بیٹھ گیا۔ اس کی صحبت طالب کے لئے زہرِ قاتل ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا مہلک مرض ہے۔ اس قسم کے شیخ کی صحبت طالب کی بلند استعداد کو پستی میں لے آتی ہے اور بلندی سے پستی کے غار میں گرا دیتی ہے۔ مثلاً جو مریض ناقص طبیب سے علاج کرائے وہ اپنی بیماری کے زیادہ کرنے میں کوشش کرتا ہے اور اپنے مرض کے زائل کرنے کی قابلیت کو ضائع کر دیتا ہے۔ اگرچہ ابتدا میں وہ دوائی مرض میں کچھ تخفیف کر دے لیکن حقیقت میں وہ عین مضر ہے۔ یہ مریض اگر بالفرض کسی حاذق (تجربہ کار) طبیب کے پاس جائے تو وہ طبیب پہلے تو اس دوا کی تاثیر کو زائل کرنے کی فکر کرے گا اور مسہلات کے ساتھ اس کا علاج کرے گا۔ اس تاثیر کے زائل ہو جانے کے بعد (اصلی) مرض کے دور کرنے کی طرف توجہ کرے گا۔
ان بزرگواروں قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے طریق کا دار و مدار (پیر کی) صحبت پر ہے اور (صرف) کہنے سننے سے کوئی کام نہیں بنتا بلکہ طلب میں سُستی پیدا ہو جاتی ہے۔ امید ہے کہ کچھ دنوں کے بعد دہلی و آگرہ کی طرف ہمارا سفر واقع ہو جائے اگر آپ (وہاں) تنہا تشریف لائیں اور آمنے سامنے کچھ حاصل کر کے جلدی واپس چلے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اس سے زیادہ لکھنا آپ کو تکلیف دینا ہے۔
بقیہ سوالوں کا جواب یہ ہے کہ جناب بزرگی کی پناہ والے اور معارف کے جاننے والے میاں شیخ تاج اس صوبے (علاقے) میں غنیمت ہیں اور بزرگ ہیں لیکن آپ کی استعداد کو ان کے طریقے سے بہت کم مناسبت ہے اور مناسبت کے تعلق کے بغیر مطلوب کا حاصل ہونا دشوار ہے۔ (آئندہ) آپ کو اختیار ہے، اگر کھبی کھبی اپنے کچھ حالات تحریر فرماتے رہیں تاکہ اس طرف سے کچھ لکھا جاتا رہے تو بہت ہی مناسب ہے، کیونکہ اخلاص کا سلسلہ اس طرح پر ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے۔ و السلام
1 اس قول میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو شرح السنۃ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اے لوگو! رویا کرو پس اگر نہ رو سکو تو تکلف و بناوٹ سے رونے والوں کی سی صورت بنا لیا کرو… الحدیث" (المشکوٰۃ)
2 کیونکہ مرید گرفتارِ عالمِ سفلی ہے اس لئے وہ عالمِ علوی سے مناسبت نہیں رکھتا تاکہ ذاتِ حق سے بلا واسطہ فیوض و برکات اخذ کر سکے، اس لئے اس کو ایک ایسے واسطے کی ضرورت ہے جو ذو جہتین ہو یعنی عالمِ علوی سے کافی حصہ حاصل کر کے مخلوق کی دعوت و ارشاد کے لیے عالمِ سفلی کی طرف رجوع کر چکا ہو تاکہ وہ عالمِ علوی کی مناسبت کی وجہ سے عالمِ غیب سے فیوض اخذ کر کے عالمِ سفلی کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے طالبوں کو وہ فیوض پہنچائے۔