مکتوب نمبر 313
خواجہ محمد ہاشم کی طرف صادر فرمایا، ان کے سوالات کے جواب میں جو انہوں نے لکھے تھے۔
سوال اول:
یہ کہ اصحاب کرام کے کمالات فنا و بقا اور سلوک و جذبے کے ساتھ وابستہ تھے یا نہیں؟
سوال دوم:
یہ کہ طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں اور ان کو مضر جانتے ہیں حالانکہ آں سرور علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ والسلام نے سخت ریاضتیں برداشت کی ہیں؟
سوال سوم:
یہ کہ یہ طریقہ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی طرف کیوں منسوب ہوا؟
سوال چہارم:
آپ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا ہے کہ طالب کو ولایتِ موسوی سے ولایتِ محمدی میں تصرف کے ساتھ نہیں لایا جاسکتا، اور دوسرے مکتوب میں تحریر فرمایا ہے کہ تم کو ولایتِ موسوی سے ولایتِ محمدی میں لایا گیا۔ ان دونوں باتوں میں کس طرح موافقت کی جائے؟
سوال پنجم:
یہ کہ کرتا پیش چاک پہننا چاہئے یا وہ جس کا گریبان چاک ہو۔
سوال ششم:
نفی و اثبات کی توجہ احدیت کی توجہ کے ساتھ کس طرح جمع ہوسکتی ہے؟
سوال ہفتم:
یہ کہ نفی و اثبات کے ذکر کے وقت جو دل سے کیا جاتا ہے تو "لَا" کو اوپر کی طرف کیوں لے جاتے ہیں اور "اِلٰہَ" کو دائیں طرف کیوں لاتے ہیں، اور اس کے آخر میں پیر کے آداب کی رعایتوں کا بیان ہے۔
اور نیز آپ نے فرمایا کہ مکتوبات کے اس دفتر کو اسی مکتوب پر ختم کریں اور تین سو تیرہ عدد کی رعایت کریں کیونکہ یہ عدد پیغمبران مرسل علیہم الصلوات والتسلیمات اور اہلِ بدر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تعداد کے موافق ہے۔ نیز آپ نے فرمایا کہ اس مکتوب کے خاتمہ پر وہ عرض داشتیں جو حضرت مخدوم زادہ کلاں (خواجہ محمد صادق) علیہم الرحمہ والغفران نے آپ کو لکھی تھیں شامل کردیںیں تاکہ پڑھنے والے دعا و فاتحہ سے ان کو یاد کریں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحَیْمِ
بَعْدَ الْحَمْدِ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃِ وَتَبْلِیْغِ الدَّعَوَاتِ
میرے بھائی جناب محمد ہاشم پر واضح ہو کہ وہ سوالات جن کا حل میر سید محب اللّٰہ کے مکتوب میں دریافت کیا جو کچھ معلوم تھا ان کے جواب میں لکھ کر بھیج دیا تھا۔
سوال اول:
کا حاصل یہ ہے کہ قربِ الہیٰ جل سلطانہٗ کا حصول فنا فی اللّٰہ و بقا باللّٰہ اور تمام مقامات جذبہ و سلوک کے طے کرنے پر موقوف ہے۔ لیکن اصحاب کرام حضرت خیر الانام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام کی ایک ہی صحبت کی وجہ سے تمام اولیائے امت سے افضل ہو گئے۔ آیا یہ تمام سیر و سلوک اور ان کی فنا و بقا اسی ایک صحبت میں میسر ہو گئی، یا وہ ایک ہی صحبت تمام سیر و سلوک سے افضل تھی۔ دوسرے یہ کہ اصحاب کرامؓ کی فنا و بقا آنحضرت علیہ وعلیہم الصلوۃ والتحیۃ کی توجہ و تصرف کی (برکت سے تھی) یا محض اسلام لانے (کی وجہ سے) یا ان کو سلوک و جذبہ کا علم حالاً و مقاماً حاصل تھا یا نہیں۔ اور اگر تھا تو اس کو کس نام سے تعبیر کرتے تھے، اور اگر سلوک و تصرف کا طریقہ نہ تھا تو اس کو بدعتِ حسنہ کہہ سکتے ہیں (یا نہیں)؟
(جواب):
جاننا چاہئے کہ اس مشکل کا حل صحبت کے ساتھ وابستہ اور خدمت پر موقوف ہے کیونکہ جو بات اس عرصے میں کسی نے نہیں کہی وہ صرف ایک مرتبہ کے لکھنے میں آپ کی سمجھ میں کیسے آجائے گی۔ لیکن چونکہ آپ نے سوال کیا ہے اس لئے جواب دینے کے بغیر چارہ نہیں لہذا ضرورۃً اجمال کے طور پر اس کا حل لکھا جاتا ہے، غور سے سنیں:
وہ قرب جو فنا و بقا اور سلوک و جذبے سے وابستہ ہے وہ قربِ ولایت ہے جس سے اولیائے امت مشرف ہوتے ہیں اور جو قرب اصحاب کرام کو صحبت خیر الانام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام میں میسر ہوا وہ قربِ نبوت ہے جو ان کو تبعیت و وراثت کے طور پر حاصل ہوا تھا، اس قرب میں نہ فنا ہے نہ بقا، نہ جذبہ ہے نہ سلوک۔ اور یہ قربِ مراتب کے لحاظ سے قربِ ولایت سے بہت اعلیٰ و افضل ہے کیونکہ یہ قرب، قربِ اصالت ہے اور وہ قربِ ظلیت۔ شَتَّانَ مَا بَیْنَھُمَا (ان دونوں میں بڑا فرق ہے) لیکن ہر شخص کی عقل اس معرفت کی مذاق (ادراک) تک نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ خواص بھی اس معرفت کی فہم میں عوام کے ساتھ شریک ہوں۔
گر بو علی نوائے قلندر نواختے
صوفی بدے ہر آنکہ بعالم قلندر است
(گر بو علی لگاتے صدائے قلندری
پھر سب قلندران جہاں ہوتے صوفیہ)
ہاں اگر قربِ ولایت کی راہ سے کمالاتِ قربِ نبوت کی طرف عروج واقع ہو تو فنا و بقا اور جذبہ و سلوک کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ یہ سب اس قرب کے مبادی (مقدمات) اور معدات (اسباب) ہیں۔ اور اگر یہ راستہ نہ اختیار کیا گیا ہو اور قربِ نبوت کی شاہراہ اختیار کی گئی ہو تو فنا و بقا اور جذبہ و سلوک کچھ درکار نہیں۔ چونکہ اصحاب کرامؓ قربِ نبوت کی شاہراہ سے گئے ہیں جہاں جذبہ و سلوک، فنا و بقا کا کوئی کام نہیں۔ اس معرفت کا بیان ایک مکتوب (نمبر 301) میں جو بنام مولانا امان اللّٰہ لکھا گیا ہے وہاں سے طلب کریں۔ اس فقیر نے ہر جگہ اپنے مکتوبات اور رسائل میں لکھا ہے کہ میرا معاملہ سلوک و جذبہ سے ماوراء ہے اور تجلیات و ظہورات سے بھی ماورا ہے اس سے مراد یہی قرب (قربِ نبوت) ہے۔ میں اپنے حضرت خواجہ (باقی باللّٰہ) قدس سرہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ اس دولت کا ظہور پیش آیا۔ اور میں نے اس عبارت کو حضرت خواجہؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ پر یہ امر ظاہر ہوا ہے کہ "سیرِ انفسی کو اس امر کے ساتھ وہ نسبت ہے جو سیرِ آفاقی کو سیرِ انفسی کے ساتھ ہے" اور میں (اس وقت) اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت و قدرت نہ پاتا تھا کہ اس عبارت کے علاوہ کوئی اور اس دولت کی تعبیر کرسکوں۔ سالہا سال کے بعد جب یہ عجیب و غریب معاملہ صاف طور پر واضح ہوا تو مجمل عبارات کے ساتھ تحریر میں لایا گیا۔ ﴿اَلْحَـمْدُ لِلّٰهِ الَّـذِىْ هَدَانَا لِـهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَـهْتَدِىَ لَوْلَآ اَنْ هَدَانَا اللّٰهُ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾ (الاعراف: 43) (اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو ہدایت دی اگر وہ ہدایت نہ دیتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے بیشک ہمارے رب کے رسول حق بات لے کر آئے)۔ لہذا عبارتِ فنا و بقا اور جذبہ و سلوک یہ محدث (نئی پیدا شدہ) اور مشائخ کے مخترعات (ایجادات) میں سے ہیں۔ مولوی جامی علیہ الرحمہ نفحات میں تحریر کرتے ہیں کہ "پہلا شخص جس نے فنا و بقا کا نام لیا وہ ابو سعید خراز قدس سرہ ہیں"۔
سوال دوم
کا حاصل یہ ہے کہ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ میں سنت کی پیروی لازم ہے۔ حالانکہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے عجیب و غریب ریاضتیں اور شدید بھوک و پیاس کی تکلیفیں برداشت کی ہیں (لیکن) اس طریق میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں بلکہ صورتوں کے کشف کی وجہ سے ریاضتوں کو مضر جانتے ہیں۔ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سنت کی متابعت میں نقصان کا احتمال کیسے متصور ہو سکتا ہے۔
جواب:
اے محبت کے نشان والے! کس نے کہہ دیا کہ اس طریقہ میں ریاضات منع ہیں۔ اور کہاں سے سن لیا ہے کہ (یہ حضرات) ریاضتوں کو مضر جانتے ہیں اس لئے کہ اس طریقے میں نسبت کی دائمی حفاظت اور متابعت سنت علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام والتحیۃ کو لازم جاننا، اور اپنے احوال کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرنا، میانہ روی اختیار کرنا اور کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں حدِ اعتدال کی رعایت کرنا (یہ سب) ریاضاتِ شاقہ اور مجاہداتِ شدیدہ میں سے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عوام کالانعام (وہ عوام جو چوپاؤں کے مانند ہیں) ان امور کو ریاضات میں شمار نہیں کرتے اور مجاہدات میں سے نہیں جانتے، ان کے نزدیک ریاضات و مجاہدات کا انحصار بھوک (پیاس) میں منحصر ہے اور بھوکا پیاسا رہنا ان کی نظر میں بہت بڑی بات ہے کیونکہ درندہ صفت لوگوں کے نزدیک کھانا پینا ہی سب سے زیادہ ضروری اور بڑے مقاصد میں سے ہے لہذا اس کا ترک کرنا ان کے نزدیک لازمی طور پر ریاضتِ شاقہ اور مجاہداتِ شدیدہ ہیں بخلاف نسبت کی دائمی حفاظت اور متابعتِ سنت علی صاحبہا الصلوۃ و التحیۃ کو لازم رکھنے کے، یہ امور عوام کی نظر میں قابلِ قدر اور شمار کے قابل نہیں تاکہ ان کے ترک کو منکرات سمجھیں اور ان امور (پیرویٔ سنت) کے حصول کو ریاضتیں شمار کریں۔ لہذا اس طریقے کے اکابرین پر لازم ہے کہ احوال کے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کریں اور ایسی ریاضتوں کو ترک کردیںیں جو عوام کی نظر میں عظیم القدر اور مخلوق میں مقبولیت کا باعث اور شہرت کے لئے لازم ہیں کہ ان میں آفت اور شرارت پوشیدہ ہے۔ آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: "بِحَسْبِ امْرِءِِ مِّنَ الشَّرِ اَنْ یُّشَارَ اِلَیْہِ بِالْاَصَابِعِ فِیْ دِیْنٍ اَوْ دُنْیَا اِلَّا مَنْ عَصَمَہُ اللّٰہُ" (مشکوٰۃ) (آدمی کے لئے یہی شر کافی ہے کہ دین و دنیا میں لوگ اس کی طرف انگشت نمائی کریں مگر جس کو اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھے)۔ فقیر کے نزدیک ماکولات (کھانے پینے) کی چیزوں میں حدِ اعتدال کی رعایت کو مدنظر رکھنے کی نسبت گرسنگیہائے دور دراز (عرصے تک بھوکا پیاسا رہنا) زیادہ سہل ہے اور اس میں آسانی ہی آسانی ہے۔ (یہ فقیر) اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ میانہ روی کی رعایت کی ریاضت کثرتِ جوع کی ریاضت سے زیادہ مفید ہے۔ حضرت والد بزرگوار قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے علمِ سلوک میں ایک رسالہ دیکھا ہے جس میں لکھا ہوا تھا کہ "کھانے پینے میں اعتدال کی رعایت رکھنا اور میانہ روی کی حد پر نگاہ رکھنا وصولِ مطلب کے لئے کافی ہے اس رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذکر و فکر کی زیادہ حاجت نہیں"۔ اور سچی بات یہ ہے کہ کھانے پینے اور پہننے بلکہ تمام امور میں توسطِ حال اور میانہ روی پر قائم رہنا بہت اچھی بات ہے۔
نہ چنداں بخور کز دہانت برآید
نہ چنداں کہ از ضعف جانت برآید
(نہ کھا اتنا کہ منھ سے باہر آجائے
نہ کم اتنا کہ کمزوری سے مر جائے)
حضرت حق سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمارے حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کو چالیس مردوں کی قوت عطا فرمائی تھی جس قوت کے سبب آپ شدید بھوک پیاس کو برداشت کر لیتے تھے اور نیز اصحابِ کرام بھی حضرت خیر البشر علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام والتحیۃ کی صحبت کی برکت سے اس بوجھ کو اٹھا لیتے تھے اور ان کے اعمال و افعال میں کسی قسم کی سستی اور خلل واقع نہیں ہوتا تھا، بلکہ بھوک کی شدت کے با وجود دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کی ایسی طاقت و قدرت رکھتے تھے کہ سیر شکموں کو اس کا دسواں حصہ بھی میسر نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صابروں میں سے بیس آدمی دو سو کفار پر غالب آجاتے تھے اور سو آدمیوں کو ہزار کافروں پر غلبہ حاصل ہوجاتا تھا۔ اور صحابہؓ کے علاوہ دوسرے بھوک پیاس برداشت کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ سنتوں کے آداب بجا لانے میں عاجز آجاتے ہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں کہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مشکل سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ طاقت کے بغیر اس امر میں اصحابِ کرام کی تقلید کرنا اپنے آپ کو فرائض و سنت کے بجا لانے میں عاجز بنانا ہے۔ منقول ہے کہ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کی تقلید میں صومِ وصال (یعنی بغیر افطار کئے مسلسل کئی دن روزے رکھنا) اختیار کیا، اور ضعف و ناتوانی کی وجہ سے زمین پر گر پڑے تو آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے اعتراض کے طور پر فرمایا کہ "تم میں سے کون ہے جو میری مانند ہو، میں تو رات کو اپنے پروردگار کے پاس ہوتا ہوں اور وہی مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے"۔ لہذا آپ ﷺ بغیر طاقت کے تقلید اختیار کرنے کو مستحسن نہیں سمجھتے تھے۔ اور نیز اصحابِ کرام حضرت خیر الانام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام کی صحبت کی برکت کی وجہ سے زیادہ بھوک پیاس کے خفیہ نقصانات سے محفوظ و مامون تھے اور دوسروں کو یہ حفظ و امن میسر نہیں۔ اس کا بیان یہ ہے کہ کثرتِ جوع (زیادہ بھوک) اگرچہ صفائی بخش ہے اور ایک جماعت کو صفائے قلب بخشتی ہے اور دوسری جماعت کو صفائی نفس حاصل ہوتی ہے، صفائی قلب ہدایت افزا اور نور بخش ہے اور صفائی نفس ضلالت نما اور ظلمت افزا ہے۔ فلاسفہ یونان اور ہندوستان کے جوگیوں اور برہمن بھوک پیاس کی ریاضت سے صفائی نفس حاصل کر کے ضلالت اور نقصان کی راہ میں پڑ گئے۔ بے عقل افلاطون نے اپنے نفس کی صفائی پر بھروسہ کر کے اور اپنی خیالی کشفی صورتوں کو اپنا مقتدا بنا کر عجب و نخوت اختیار کی اور حضرت عیسیٰ روح اللّٰہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام جو اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے تھے اس نے ان کی فرمانبردادی اختیار نہیں کی اور کہنے لگا: "ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں ہم کو کسی ہدایت دینے والے کی ضرورت نہیں"۔ اگر اس میں یہ ظلمت بڑھانے والی صفائی نہ ہوتی تو یہ خیالی کشفی صورتیں اس کے راستے میں حائل نہ ہوتیں اور وصولِ مطلب کے لئے اس کی مانع نہ ہوتیں۔ اس (افلاطون) نے اپنی صفائی کے گمان پر اپنے آپ کو نورانی خیال کیا اور یہ نہ جانا کہ یہ صفائی نفسِ امارہ کی باریک کھال سے آگے نہیں بڑھی، اور اس کا (نفس) امارہ اسی اپنی پہلی خباثت اور نجاست پر قائم ہے (اس کی حقیقت ایسی ہے جیسے) نجاستِ مغلظہ پر شکر کا باریک غلاف چڑھا دیا گیا ہو۔ قلب جو اپنی ذات کی حد میں پاکیزہ اور نورانی ہے اس کے چہرے پر نفس ظلمانی کی ہمسائیگی کی وجہ سے اگر زنگ آجائے تو وہ تھوڑے سے تصفیہ کے بعد اپنی اصلی حالت پر رجوع کر لیتا ہے اور نورانی ہوجاتا ہے بخلاف نفس کے کہ وہ اپنی ذات کی حد میں خبیث ہے اور ظلمت اس کی صفت ہے جب تک قلب کی سیاست بلکہ سنت کی متابعت اور اتباع شریعت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیۃ بلکہ محض فضلِ خداوندی جل سلطانہٗ سے مزکی اور مطہر نہ ہو اس وقت تک اس کا ذاتی خبث زائل نہیں ہو سکتا اور اس سے فلاح و بہبود متصور نہیں ہوسکتی۔
افلاطون نے کمالِ نادانی کی وجہ سے اپنی صفائی کو جس کا تعلق اس کے (نفس) امارہ سے تھا (قلب عیسویؑ کی صفات کے مانند خیال کر لیا اور لازمی طور پر اس نے اپنے آپ کو ان کی طرح مہذب اور مطہر خیال کر کے ان (حضرت عیسیٰ) علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی دولتِ متابعت سے محروم رہا اور ابدی خسارہ کے داغ سے داغدار ہوگیا۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ مِنْ ھٰذَا الْبَلَاءِ (اللّٰہ سبحانہٗ ہم کو اس بلا سے اپنی پناہ میں رکھے)۔
اور چونکہ یہ ضرر بھوک کی تہ میں پوشیدہ ہے اس لئے طریقۂ نقشبندیہ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم کے اکابرین نے بھوک پیاس کی ریاضت کو ترک کر کے کھانے پینے میں اعتدال کی ریاضت اور میانہ روی کے مجاہدے کی راہ اختیار کی اور بھوک پیاس کے نفع کو اس عظیم خطرے کے نقصان کے احتمال کی وجہ سے ترک کردیا اور دوسرے لوگوں نے بھوک کے فائدوں کو ملاحظہ کر کے اس کے نقصانات سے آنکھیں بند کر لیں اور بھوک کی طرف ترغیب دینے لگے۔ عقلمندوں کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ نقصان کے احتمال کی وجہ سے بہت زیادہ منافع کو چھوڑ سکتے ہیں۔ اسی مقولہ کے قریب قریب وہ امر ہے جو علماء شَکَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی سَعْیَھُمْ نے فرمایا ہے کہ "اگر کوئی امر سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو اس سنت کے بجا لانے کی نسبت ترکِ بدعت بہتر ہے" یعنی بدعت میں نقصان کا احتمال اور سنت میں منافع کی توقع ہے تو ضرر کے احتمال کو منافع کی توقع پر ترجیح دے کر بدعت کو ترک کردیںینا چاہئے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ سنت کے بجا لانے میں دوسری راہ سے نقصان پیدا ہوجائے۔ اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سنت گویا کہ اس (آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے) زمانے کے ساتھ ملی ہوئی ہے چونکہ ایک جماعت اس کی باریکی اور پوشیدگی کی وجہ معلوم نہ کر سکی اس لئے اس کی تقلید کرنے میں سبقت کی، اور دوسری جماعت نے اس کو موقت (آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ مخصوص) جان کر اس کی تقلید اختیار نہیں کی۔ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ۔
سوال سوم:
کا حاصل یہ ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے اکابرین کی کتابوں میں درج ہے کہ ہماری نسبت حضرت صدیق (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) سے منسوب ہے بخلاف باقی تمام طریقوں کے۔ اگر کوئی مدعی یہ کہے کہ اکثر طریقے حضرت امام جعفرؓ تک پہنچتے ہیں اور (خود امام جعفرؓ) حضرت صدیقؓ سے منسوب ہیں لہذا دوسرے سلاسل کیوں حضرت صدیقؓ کی طرف منسوب نہیں؟
(جواب):
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام (جعفر صادقؓ) حضرت صدیق سے بھی نسبت رکھتے ہیں اور حضرت امیر (علی) رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے بھی۔ اور ان دونوں نسبتوں کے اجتماع کے باوجود حضرت امام جعفرؓ میں ہر نسبت کے کمالات جدا ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ ایک جماعت نے صدیقی نسبت کے واسطے سے حضرت امام (جعفرؓ) سے "نسبتِ صدیقیہ" اخذ کی اور وہ حضرت صدیقؓ کی طرف منسوب ہو گئے اور دوسری جماعت نے مناسبتِ امیری کے باعث "نسبتِ امیریہ" اخذ کی اور وہ حضرت امیر (علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کی طرف منسوب ہو گئی۔ یہ فقیر ایک تقریب کے سلسلے میں پرگنہ بنارس گیا ہوا تھا جہاں دریائے گنگا و دریائے جمنا کے پانی باہم ملتے ہیں اور اس اجتماع کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ گنگا کا پانی علیہحدہ ہے اور جمنا کا علیحدہ۔ اور ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ گویا دونوں کے درمیان کوئی ایسا برزخ حائل ہے کہ ایک کا پانی دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہیں ہوتا۔ ایک گروہ جو دریائے گنگا کے پانی کی طرف واقع ہے وہ اس مجتمع پانی کو پیتا ہے اور دوسری جماعت جو دریائے جمنا کی طرف رہتی ہے وہ دریائے جمنا کا پانی پیتی ہے۔
(سوال):
اگر یہ کہیں کہ حضرت خواجہ محمد پارسا قدس سرہ نے رسالہ قدسیہ میں تحقیق کی ہے کہ حضرت امیر علی (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) نے جس طرح حضرت رسالت خاتمیت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام والتحیۃ سے تربیت حاصل کی ہے اسی طرح حضرت صدیقؓ نے بھی تربیت حاصل کی ہے لہذا حضرت امیر کی نسبت عین حضرت صدیق کی نسبت ہے۔ پھر ان دونوں میں کیوں فرق ہوا؟
(جواب):
ہم کہتے ہیں اتحاد نسبت کے باوجود محل و مقام کے تعدد کی خصوصیات اپنے حال پر ہیں، کیونکہ ایک ہی پانی متعدد مقامات (سے گزرنے کے) باعث مختلف امتیازی کیفیت پیدا کر لیتا ہے اسی طرح یہ بات بھی جائز ہے کہ خصوصیت کی نظر سے ہر ایک طریقہ اس کی طرف منسوب ہو۔
سوال چہارم:
کا حاصل یہ ہے کہ "آپ نے ملا محمد صدیق کے مکتوب میں لکھا ہے کہ جو شخص ولایتِ موسوی کی استعداد رکھتا ہے معلوم نہیں کہ صاحبِ تصرف اس کو ولایتِ محمدی کی استعداد پر لا سکتا ہو"۔ اور درویش زادۂ کلاں (خواجہ محمد صادق) قدس سرہ کی طرف تحریر کردہ مکتوب میں لکھا ہے کہ "تم کو ولایتِ موسوی سے ولایتِ محمدی میں لایا گیا۔" ان دونوں باتوں میں موافقت کس طرح ہوسکتی ہے؟
جواب:
یہ ہے کہ ملا محمد صدیق کے مکتوب میں جو درج ہے کہ "ولایتِ موسوی سے ولایتِ محمدی میں لے جانا معلوم الوقوع نہیں"۔ اس وقت اس امر کے واقع ہونے کا علم نہیں تھا اس کے بعد جب اس امر کو معلوم کرا دیا گیا اور تغیر و تبدیلی کی قدرت عطا کی گئی تو تحریر کیا گیا کہ "تم کو اس ولایت سے اس ولایت میں لے جایا گیا"۔ ان دونوں باتوں میں زمانے کا اتحاد نہیں ہے، جس کی وجہ سے تناقض متصور ہو۔
سوال پنجم:
کا حاصل یہ ہے کہ پیراہن (کرتہ) کو اس مقام کے صوفیہ آگے کے چاک کے ساتھ پہنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے اور حضرت میر (نعمان) کے خدام کرتے کا چاک بطریقِ حلقہ بناتے ہیں اس کی تحقیق کیا ہے؟
جواب:
جاننا چاہئے کہ ہم بھی اس بارے میں متردد ہیں، کیونکہ اہلِ عرب آگے کے چاک والا کرتہ پہنتے ہیں اور اس کو سنت جانتے ہیں۔ اور حنفیہ کی بعض کتبِ معتبرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سامنے کے چاک والا کرتہ مردوں کو نہیں پہننا چاہئے کہ یہ عورتوں کا لباس ہے۔ امام احمدؒ و ابوداؤدؒ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے: "لُعِنَ الرَّجُلُ یَلْبَسُ لُبْسَ الْمَرْاَۃِ وَالْمَرْاَۃُ تَلْبَسُ لُبْسَ الرَّجُلِ" (لعنت ہے اس مرد پر جو عورتوں جیسا لباس پہنے اور اس عورت پر بھی (لعنت ہے) جو مردوں جیسا لباس پہنے)۔ اور مطالب المومنین میں ہے کہ "عورت مرد کی مشابہت نہ کرے اور نہ مرد عورت کی مشابہت کرے کیونکہ دونوں فریقوں پر لعنت کی گئی ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ پیش چاک والا کرتہ اہلِ دین اور اہلِ علم کا لباس نہیں ہے اسی لئے فقہا نے اہلِ ذمہ (وہ کافر جو اسلامی حکومت کے تحت ہوں) کے لئے اس لباس کو تجویز کیا ہے۔ اور جامع الرموز میں محیط سے نقل کیا ہے کہ وہ لباس جو اہلِ دین اور اہلِ علم کے ساتھ مخصوص ہے جیسے چادر، عمامہ، اہلِ ذمہ نہ پہنیں بلکہ موٹے کپڑے کی قمیص پہنیں جس کے سینے پر عورتوں کی قمیص کی طرح چاک ہو۔ اور بعض علماء کے قول کے مطابق پیش چاک قمیص نہیں ہے بلکہ ورع ہے اور ان کے نزدیک قمیص وہ ہے جو دونوں طرف (کندھوں کی طرف) سے کھلی ہو۔ اور جامع الرموز اور ہدایہ میں عورت کے کفن کے بیان میں لکھا ہے کہ قمیص کا بدل ورع ہے اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ورع کا چاک سینے کی طرف ہوتا ہے اور قمیص کا چاک دونوں شانوں کی طرف۔ اور بعض نے دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے (کہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے)۔
فقیر کے نزدیک یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مردوں کو عورتوں کے مشابہ لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے لہذا چاہئے کہ جہاں عورتیں پیش چاک والا کرتہ پہنتی ہیں وہاں مردوں کو عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے (پیش چاک والا کرتہ) ترک کر کے حلقۂ گریبان والا کرتہ پہنیں، اور جس علاقہ کی عورتیں حلقہ گریبان والا کرتہ پہنتی ہوں وہاں مردوں کو ضرورۃً پیش چاک والا کرتہ پہننا چاہئے۔ اور عرب کی عورتیں حلقہ گریبان والا کرتہ پہنتی ہیں اس لئے مرد ضرورۃً پیش چاک والا کرتہ پہنتے ہیں۔ اسی طرح ماوراء النہر اور ہندوستان میں عورتوں کا لباس پیش چاک والا کرتہ ہے لہذا مردوں کو حلقۂ گریبان والا کرتہ پہننا چاہیے۔ میاں شیخ عبد الحق (محدث) دہلوی کہتے تھے کہ میں مکہ معظمہ میں تھا، میں نے دیکھا کی شیخ نظام نارنولی کا ایک مرید حلقہ (گول) گریبان والا کرتہ پہنے ہوئے کعبہ کا طواف کر رہا ہے اور اہلِ عرب کی ایک جماعت اس کے کرتہ پر تعجب کر رہی تھی کہ وہ عورتوں جیسا کرتہ پہنے ہوئے ہے، لہذا اعتبار عرفِ عام اور عادت کا ہے اس لئے اہلِ عرب کا عمل بھی صحیح ہے اور ہندوستان اور ماوراء النہر والوں کا عمل بھی درست ہے۔ ﴿لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا﴾ (البقرۃ: 148) (ہر ایک کے لئے ایک سمت ہے، جس کی طرف وہ اپنا منھ کرتا ہے)۔ اگر پیش چاک کُرتہ کا سنت ہونا ثابت ہوتا تو علمائے حنفیہ اس لباس کو اہلِ ذمہ کے لئے جائز قرار نہ دیتے اور اس کو اہلِ دین اور اہلِ علم کے ساتھ مخصوص رکھتے۔ اور چونکہ عورتیں اس لباس میں پیش پیش ہیں، لہذا یہاں مردوں کا لباس عورتوں کے لباس کے تابع کردیا گیا۔
سوالِ ششم:
کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ ابتدا ہی سے اس طریقے کے طالبوں کی توجہ احدیتِ صرف کی طرف ہے تو چاہئے کہ نفی و اثبات اس توجہ کے ساتھ جمع نہ کریں، کیونکہ نفی کے وقت توجہ غیر کی طرف ہوتی ہے۔
(جواب):
جواب یہ ہے کہ غیر کی طرف توجہ کرنا احدیت کی طرف توجہ کی تقویت اور تربیت کے لئے ہے اور غیر کی نفی سے مقصود اغیار کی مزاحمت کے بغیر اس توجہ کا دائمی طور پر حاصل ہونا ہے، لہذا غیر کی نفی کی طرف توجہ، احدیت کی طرف توجہ کے منافی نہیں ہے اور احدیت کی طرف توجہ کے منافی غیر کی توجہ ہے نہ کہ غیر کی نفی کی توجہ۔ ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔
سوال ہفتم:
کا حاصل یہ ہے کہ اس طریقے کا مبتدی جو ذکر کام (تالو) و زبان سے کرتا ہے، اسی ذکر کو قلب بھی ادا کرتا ہے تو آیا نفی و اثبات میں قلب بھی پورے طور پر ایسا کرتا ہے یا نہیں؟ اگر پورے طور پر کہتا ہے تو "لَا" کو اوپر کی طرف اور "اِلٰہَ" کو دائیں طرف کیوں پھیرتے ہیں؟
(جواب):
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قلب پورے طور پر ذکر کرے تو اس میں کیا نقصان ہے کہ "لَا" کو اوپر کی طرف لے جائے اور "اِلٰہَ" کو دائیں جانب پھیر دے اور "اِلَّا اللّٰہ" کو اپنی طرف کھینچے، کیونکہ اس طریقے میں نفی و اثبات کو تخیل کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور زبان و کام کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ تاکہ جو کچھ کہیں دل بھی اس کی موافقت کرے اور اس قول کو شرط قرار دیں۔ یہ آپ کے آخر کے دو سوال (امام) فخر رازی کی تشکیکات کی قسم سے ہیں اگر آپ خود ان سوالوں کی طرف پوری توجہ کرتے، یہ اشکال خود بخود دور ہوجاتے۔
باقی مقصود یہ ہے کہ وہاں کے بعض دوستوں نے کئی بار مجھ کو لکھا ہے کہ میر (نعمان) ان دنوں طالبوں کے احوال کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور عمارت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور فتوحات کی رقم عمارت پر خرچ ہوتی ہے جس کی وجہ سے فقراء محروم رہ جاتے ہیں۔ ان مقدمات کو انہوں نے ایسے انداز میں تحریر کیا ہے کہ اس سے اعتراض کے شائبہ کی گنجائش اور انکار کی بو آتی ہے۔ جاننا چاہئے کہ اس جماعت کا انکار زہرِ قاتل ہے اور ان بزرگوں کے اقوال و افعال پر اعتراض کرنا افعی سانپ کا زہر ہے جو ابدی موت کو پہنچا دیتا ہے اور دائمی طور پر ہلاک کردیںیتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ یہ انکار اور اعتراض اپنے پیر پر کیا جائے اور پیر کی ایذا کا سبب بنتا ہو، اس جماعت کا منکر ان کی دولت سے محروم ہے اور ان پر اعتراض کرنے والا ہمیشہ بے بہرہ اور نقصان میں رہنے والا ہے۔ جب تک پیر کی تمام حرکات و سکنات مرید کی نظر میں مستحسن اور زیبا نظر نہ آئیں پیر کے کمالات سے بے بہرہ رہتا ہے۔ اگر کچھ کمال حاصل بھی کر لے تو وہ استدراج ہے کہ اس کا انجام خرابی و رسوائی ہے۔ مرید اپنے پیر کی کمال محبت و اخلاص کے باوجود اگر اپنے آپ میں بال برابر بھی پیر پر اعتراض کی گنجائش پائے تو اس کو اپنی خرابی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھنا چاہئے، لہذا (ایسا مرید اپنے) پیر کے کمالات سے بے نصیب رہتا ہے۔ اگر بالفرض مرید کو پیر کے افعال میں سے کسی فعل پر شبہ پیدا ہوجائے اور کسی طرح دفع نہ ہو تو چاہئے کہ اس طرح اس کو دریافت کرے کہ اعتراض کی آمیزش سے پاک اور انکار کے گمان سے مبرا ہو۔ کیونکہ اس دنیا میں حق باطل کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اگر اتفاقاً پیر سے کوئی امر خلافِ شریعت صادر ہوجائے تو مرید کو چاہئے کہ اس امر کی تقلید نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہوسکے اس کو حسنِ ظن کے ساتھ نیک وجہ پر محمول کرے اور اس امر کی صحت و درستی کی وجہ تلاش کرتا رہے۔ اور اگر صحت کی وجہ ظاہر نہ ہو تو چاہئے کہ اس امتحان کے دور کرنے میں حق سبحانہٗ وتعالیٰ سے ملتجی ہو اور گریہ و زاری کے ساتھ پیر کی سلامتی کی درخواست کرے۔ اور اگر مرید کو پیر کے حق میں کسی امر مباح کے ارتکاب میں شبہ پیدا ہوجائے تو اس شبہ کا کچھ اعتبار نہ کرے کیونکہ مالک الامور جل سلطانہٗ نے مباح کام کے بجا لانے میں منع نہیں فرمایا اور اعتراض نہیں کیا تو دوسرے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنی طرف سے اعتراض شروع کردیںے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض جگہ اولیٰ کام کے بجا لانے سے اس کا ترک کرنا بہتر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام میں وارد ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ کَمَا یُحِبُّ اَنْ یُّؤْتٰی بِالْعَزِیْمَۃِ یُحِبُّ اَنْ یُّؤْتٰی بِالرُّخْصَۃِ (بیشک اللّٰہ تعالیٰ جس طرح عزیمت کا بجا لانا پسند کرتا ہے اسی طرح رخصت پر عمل کرنا بھی پسند کرتا ہے)۔ حضرت میر (نعمان) جبکہ بہت زیادہ قبض کی حالت میں ہیں اگر ایامِ قبض میں مریدوں کے احوال میں مشغول نہ ہوں اور بعض مباح امور سے اپنی تسلی کریں تو اعتراض کی کیا گنجائش ہے۔ اسی طرح (قبض کی حالت میں) عبد اللّٰہ اصطخری اپنی تسلی کے لئے کتے پالنے والوں کے ہمراہ جنگل میں شکار کے لئے جاتے تھے۔ بعض مشائخ (حالتِ قبض میں) اپنے آپ کو سرود و نغمہ سے تسلی دیتے تھے۔
وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وعَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِیْمَاتُ اَتَمُّھَا واَکْمَلُھَا
خاتمہ
وہ عرض داشتیں جو حضرت مغفرت پناہ مخدوم زادۂ کلاں (خواجہ محمد صادق) قدس سرہ نے حضرت مجدد کی خدمت میں لکھیں۔
عرض داشت اول:
کمترین بندہ محمد صادق خدمت عالی میں عرض کرتا ہے کہ اس علاقہ کے احوال و اوضاع حضور کی عالی توجہ کی برکت سے ظاہری و باطنی سکون کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ عرصے سے حضرت کے خادموں کی طرف سے دل متفکر اور پریشان رہتا تھا کہ اس عریضہ کے تحریر کے دن میاں بدر الدین پہنچے اور تمام حضرات کی خیر و عافیت معلوم ہوکر بے حد فرحت اور بہت زیادہ خوشی حاصل ہوئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَہٗ عَلٰی ذَالِکَ حَمْدًا کَثِیْراً کَثِیْراً (اللّٰہ سبحانہ کی حمد ہے اس پر اور بہت زیادہ حمد ہے)۔
میرے قبلہ! حافظ بہاء الدین نے تیرہویں شب کو قرآن مجید ختم کیا اور چودہویں شب سے حافظ موسیٰ نے شروع کیا ہے پانچ پانچ پارے پڑھتے ہیں، آئندہ شب کو جو انیسویں شب ہے ختم ہوجائے گا۔ اور آخری عشرہ کے لئے حافظ بہاء الدین نے ذمہ لیا ہے، وہ ختم کریں گے۔ حضرت سلامت! ایک رات تراویح میں حافظ قرآن پڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک نہایت وسیع اور بہت نورانی مقام ظاہر ہوا گویا کہ وہ "حقیقتِ قرآنی" کا مقام تھا۔ اگرچہ میں اس کی جرأت نہیں کر سکتا لیکن ایسا معلوم ہوا کہ "حقیقتِ محمدی" علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام اس مقام کی اجمال ہے، گویا کہ دریائے عظیم کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور یہ مقام "حقیقتِ محمدی" کی تفصیل ہے اور اکثر انبیا اور اولیائے کاملین اپنی اپنی قدر کے مطابق اس مقام سے بہرہ مند ہو رہے ہیں اور اس مقام کا کامل اور تمام حصہ ہمارے پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ کسی اور کے لئے معلوم نہیں ہوتا۔ اور یہ حقیر بھی اس سے بہرہ مند ہوا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت عالی کی توجہ کی برکت سے کامل حصہ عطا فرمائے، ابھی تک وہ مقام اچھی طرح واضح نہیں ہوا ہے۔ باقی احوال جمعیت و سکون سے گزر رہے ہیں۔ اور اس ماہِ معظم (رمضان المبارک) میں بہت زیادہ برکت معلوم ہوتی ہے۔
برادرم محمد سعید کے احوال بہت اچھے ہیں۔ اور ان کے اوقات دل کی جمعیت اور ذکر کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ شہر کے یارانِ طریقت بھی کامل ذوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ حقیر نے چار پاروں سے کچھ زیادہ حفظ کر لیا ہے، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عید تک پانچ پارے حفظ ہوجائیں گے۔ زیادہ آداب و سلام۔
عرض داشت دوم:
کمترین بندہ محمد صادق بارگاہِ اشرف میں عرض کرتا ہے کہ علاقہ کے احوال و اطوار شکر کے لائق ہیں اور اس ذات کعبۂ مرادات کی خیریت مع جملہ خادمان اور مخلص دوستوں کے مطلوب و مسئول ہے۔ سرفراز نامۂ نامی و صحیفۂ گرامی جو اسماعیل کے ہمراہ آپ نے ارسال فرمایا تھا اس کے مطالع سے مشرف ہوکر مسرور و محظوظ ہوا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ قبلۂ عالمیان کی مہربانی کا سایہ تمام اہلِ اسلام پر باقی اور پائندہ رکھے بحرمۃِ نبی امی وآلہِ الامجاد علیہ من الصلوات اتمھا ومن التسلیمات اکملھا۔ قبلہ گاہا! بندہ اپنے خرابیٔ احوال کے بارے میں کیا عرض کرے، اپنے ماضی و حال کو برے اعمال میں ضائع کرنے پر حسرت و ندامت کے سوا کوئی سرمایہ نہیں رکھتا۔ اور آرزو یہ ہے کہ کوئی لحظہ اور کوئی گھڑی بھی اس بزرگ و برتر کی رضا کے خلاف نہ گزرے لیکن یہ چیز اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک کہ اس درگاہ کے خادموں کی توجہ مدد اور دستگیری نہ فرمائے۔
از کریماں کارہا دشوار نیست
الحمد للّٰہ والمنۃ کہ اب تک حضور کی توجہ کی برکت سے جس طرح کہ حضور نے حکم فرمایا تھا استقامت حاصل ہے اور فتور کم ہی ہوتا ہے بلکہ روز بروز زیادتی اور ترقی کا امید وار ہے۔ فجر، ظہر اور عصر کے بعد حلقہ میں بیٹھتا ہے۔ اور حافظ بہاء الدین جب اپنی مشغولیات سے فرصت پاتے ہیں تو تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور یہ فقیر بعض اوقات حالتِ قبض اور بعض اوقات حالتِ بسط میں ہوتا ہے۔ اور قبض و بسط، توجہ و ذوق اور آرام اور اس کے سوا سب کا تعلق بدن کے ساتھ ہے اس سے آگے تجاوز نہیں کرتا اور لطائفِ ستہ نہ تو متوجہ ہیں اور نہ غافل۔ اگر متوجہ ہوتے ہیں تو ان کی توجہ علمِ حضوری کے مانند ہے بلکہ اس کا عین ہے لہذا توجہ اور ذوق اور اس کی مثل سب کو ظلال میں داخل سمجھتا ہے اور ظل سے زیادہ متجاوز نہیں پاتا۔ اور لطائف شروع میں تو بدن کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور نظرِ بصیرت میں بدن کے علاوہ کوئی اور امر معلوم نہیں ہوتا تھا جیسا کہ حضور موفور السرور کی خدمت میں عرض کیا گیا تھا لیکن اب بدن سے ممتاز نظر آتے ہیں، اور (یہ فقیر) اس مقام کو مقام بقا جانتا ہے اور اس بقا کے بعد پھر ایک قسم کی فنا لطائف پر ظاہر ہوئی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس فنا کے بغیر جو بقا کے بعد ہے کام کا تمام ہونا میسر نہیں ہوتا۔ فی الحال چند روز سے حالتِ قبض طاری ہے اور خوشی کا معاملہ کم ہے دیکھئے آگے کیا ظاہر ہوتا ہے لیکن ابھی تک عالم کی طرف توجہ واپس نہیں آئی چونکہ احوال عرض کرنا ضروری تھا اس لئے چند کلمات لکھنے کی جرأت کی۔ قبلہ گاہا! یہ فقیر ہر شب آپ کو خواب میں دیکھتا ہے، الا ما شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ زیادہ کیا عرض کرے کہ رسمی تکلفات میں داخل ہے۔ والعبودیۃ زیادہ آداب و سلام۔
عرض داشت سوم:
کمترین بندہ محمد صادق عرض کرتا ہے کہ یہ حقیر مدت سے قبض و غم کی حالت میں تھا آخر کار محض حضور کی توجہ سے حضرت خداوند جل سلطانہٗ کی عنایت شاملِ حال ہوئی اور ایک ایسا عظیم بسط رونما ہوا اور اس بسط میں ایسا معلوم ہوا جیسا کہ پہلی یاد اور توجہ مثال کے طور اس شخص کی جانب سے ہوئی تھی اب جو کچھ ہوتا ہے اسی تعالیٰ و تقدس کی جانب سے ہے اور اپنے اندر قبول کرنے کی قابلیت سے زیادہ کچھ نہیں پاتا، اس آیئنے کی طرح جس پر سورج طلوع ہوا تو اس طلوع کے باعث بدن اور لطائف سے ہر طرح کی ظلمت و کدورت دور ہوکر ان میں کما حقہ نور و برکت حاصل ہوجائے۔ لہذا اس بسط سے سینہ کشادہ اور قلب وسیع ہوگیا اور بدن نورانی بن گیا۔ اور روح و سر جو پہلے سے روشن تھے اب اور زیادہ روشن اور لطیف ہو گئے اور میں نے لطائف کے درمیان قلب پر تجلی اکمل پائی۔ پھر جب میں نے قلب کی طرف نظر کی تو اس میں ایک اور قلب ظاہر ہوا اور اس پر بھی تجلی پڑ رہی تھی۔ پھر میں نے دل کے اندر والے دل کو دیکھا تو ظاہر ہوا کہ اس میں ایک اور دل ہے اور اس پر بھی تجلی پڑ رہی ہے اور اس طرح بے انتہا قلب ظاہر ہوئے (اور ہر قلب پر تجلی بھی ظاہر ہوئی) اور کوئی قلب بسیط ایسا ظاہر نہ ہوا جس میں ایک دوسرا قلب ظاہر نہ ہوا ہو۔ اب وہم ہوتا ہے کہ معاملہ قلبِ بسیط کی انتہا تک پہنچ گیا ہے لیکن یقین نہیں ہے اور معلوم ہوا کہ اس حالت سے پہلے کے تمام حالات اس حالت کی نسبت محض تکلفات تھے۔ اس مقام کا نام بھی دل پر گزرا تھا لیکن بے ادبی کے باعث عرض نہیں کیا۔ قبلہ گاہا! (کمترین کے یہ تمام حالات) حضور کی پاک توجہ کے اثر کا نتیجہ ہیں۔
گر برتنِ من زباں شود ہر موئے یک شکر تو از ہزار نتوانم کرد
حضرت سلامت! حضور کے خادموں کی خدمت میں حاضر ہونے کے شوق و آرزو کی نسبت کیا شرح کرے اور کیا لکھے۔ رات دن بلکہ ہر گھڑی اس کا تصور رہتا ہے کہ کونسی نیک ساعت اور اچھی گھڑی ہو گی کہ یہ اعلیٰ مطلب اور بلند مقصد حاصل ہوگا۔ اس آرزو اور تمنا کے علاوہ کچھ تصور میں نہیں آتا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ بحسن و خوبی اور اچھے طریقے کے موافقت کے ساتھ اس دولتِ عظمیٰ سے مشرف فرمائے۔ بِحُرْمَۃِ النَّبِیِّ وَآلِہِ الْاَمْجَادِ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ اَتَمُّھَا وَمِنَ التَّسْلِیْمَاتِ اَکْلمَلُھَا۔ والعبودیۃ، زیادہ آداب و سلام
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَوَّلًا وَآخِرًا
تَمَّتْ بِالْخَیْرِ