مکتوب نمبر 312
میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا۔
ان سوالات کے جواب میں جو اشارۂ سبابہ کی تحقیق میں دریافت کئے تھے اور اس بارے میں علمائے حنفیہ کا مختار مذہب کیا ہے؟
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وعَلٰی اِخْوَاِنِہٖ مِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالْمَلائِکَۃِ الْمُقَرَّبِیْنَ وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَجْمَعِیْنَ۔
(تمام تعریفیں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے۔ اور حضرت سید المرسلین اور آپ کے تمام بھائیوں انبیاء و المرسلین اور ملائکۂ مقربین اور اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر صلوٰۃ و سلام ہو)
مکتوب شریف جو آپ نے ملا محمود کے ہمراہ ارسال کیا تھا موصول ہوکر بہت خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے دریافت کیا تھا کہ علما کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں روضۂ متبرکہ علیٰ صاحبہا الصلواۃ والسلام والتحیہ کی زمین مکہ معظمہ سے بزرگ تر ہے۔ حالانکہ صورت و حقیقت کعبۂ معظمہ، صورت و حقیقت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ السلام و التحیۃ کی مسجود الیہ ہے تو پھر روضۂ متبرکہ کی زمین کس لحاظ سے بزرگ تر ہوگی؟ میرے مخدوم! جو کچھ اس فقیر کے نزدیک ثابت ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کعبۂ معظمہ بہترین جگھوں میں سے ہے، اس کے بعد روضہ مقدسہ مدینہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و التحیۃ ہے، اس کے بعد زمینِ حرمِ مکہ حَرَسَھَا اللّٰہُ تَعَالٰی عَنِ الْاٰفَاتِ (اللّٰہ تعالیٰ اس کو آفات سے محفوظ رکھے)۔ اگر علماء نے روضۂ متبرکہ (کی زمین) کو مکہ معظمہ (کی زمین) سے بہتر کہا ہے تو اس سے مراد مکہ معظمہ کی زمین کعبہ مقدسہ کے علاوہ ہوگی۔
اسی طرح آپ نے اشارۂ سبابہ کے جائز ہونے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اور مولانا علم اللّٰہ مرحوم کا لکھا ہوا رسالہ بھیجا ہے کہ اس باب میں آپ کا کیا حکم ہے؟ میرے مخدوم! حدیثِ نبوی علیٰ مصدرہا الصلوٰۃ والسلام اشارۂ سبابہ کے جائز ہونے کے بارے میں بہت زیادہ وارد ہوئی ہیں۔ اور فقہ حنفیہ کی بعض روایات بھی اس بارے میں آئی ہیں جیسا کہ مولانا (علم اللّٰہ) نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے لیکن جب فقہ حنفیہ کی کتابوں کو بغور ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اشارہ کے جائز ہونے کی روایاتِ اصولِ روایات کے خلاف اور ظاہر مذہب کے بھی خلاف ہیں۔ اور یہ جو امام محمد شیبانیؒ نے کہا ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم اشارہ کرتے تھے اور اسی طرح ہم بھی اشارہ کرتے ہیں جس طرح نبی علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کرتے تھے" پھر انہوں (امام محمدؒ) نے کہا کہ "یہی میرا قول ہے۔ اور یہی ابی حنیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے" یہ نادر روایات میں سے ہے نہ روایاتِ اصول میں ہے۔ جیسا کہ فتاوی غرائب میں ہے کہ محیط میں لکھا ہے "کیا نمازی اپنے دائیں ہاتھ کی انگشتِ سبابہ سے اشارہ کرے؟" (لیکن) امام محمدؒ نے اصل (مبسوط) میں اس مسئلہ کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ مشائخ نے اس میں اختلاف کیا ہے، ان میں سے بعض نے کہا اشارہ نہ کرے اور بعض نے کہا اشارہ کرے۔ پھر امام محمدؒ نے روایت اصول کے علاوہ ایک حدیث نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ اشارہ کرتے تھے۔ پھر (امام محمدؒ نے کہا کہ "یہی میرا اور ابی حنیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے"۔ اور بعض نے کہا کہ یہ سنت ہے اور بعض نے کہا کہ مستحب ہے۔ پھر کہا کہ یہ وہ ہے جو (فتاوی غرائب میں) علماء نے لکھا ہے اور صحیح یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے۔ اور سراجیہ میں ہے کہ نماز میں اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتے وقت سبابہ کا اشارہ مکروہ ہے کیونکہ یہی مختار مذہب ہے۔ اور کبریٰ میں بھی یہی ہے، اور اسی پر فتوی ہے۔ کیونکہ نماز کی بنا سکون و وقار پر ہے۔ اور فتاویٰ غیاثیہ میں ہے کہ تشہد کے وقت انگشتِ سبابہ سے اشارہ نہ کریں، یہی مختار ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور جامع الرموز میں ہے کہ "نہ اشارہ کریں اور نہ عقد کریں" اور ہمارے اصحاب کا یہی ظاہر اصول ہے، جیسا کہ زاہدی میں ہے اور اسی پر فتوی ہے جیسا کہ مضمرات اور دلوالجی اور خلاصہ وغیرہ میں ہے۔ اور ہمارے اصحاب سے منقول ہے کہ یہ سنت ہے جیسا کہ خزائن الروایات میں تاتارخانیہ سے مذکور ہے کہ جب تشہد پر پہنچے اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہے تو کیا دائیں ہاتھ کی انگشتِ سبابہ سے اشارہ کرے؟ لیکن امام محمد نے اصل (مبسوط) میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ البتہ مشائخ کا اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ اشارہ نہ کریں اور اسی طرح کبریٰ میں ہے اور اسی پر فتوی ہے اور بعض نے اس بارے میں کہا کہ اشارہ کریں۔ اور غیاثیہ میں ہے کہ تشہد کے وقت انگشتِ سبابہ سے اشارہ نہ کریں، یہی مختار ہے۔ جب معتبرر وایات میں اشارہ کی حرمت واقع ہوئی ہے۔ اور اس کی کراہت پر فتوی دے دیا گیا ہے۔ اور اشارہ و عقد کو منع کیا ہے اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہیں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے تقاضوں کے مطابق عمل کر کے اشارۂ (سبابہ) کرنے کی جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتووں کے باوجود ایک امرِ حرام، مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔ حنفیہ میں سے اس امر (اشارۂ سبابہ) کا ارتکاب کرنے والا دو حال سے خالی نہیں، یا تو وہ ان علمائے مجتہدین (کے متعلق خیال کرتا ہے کہ ان) کو اشارہ کے اثبات کے جواز میں ان معروف احادیث کا علم نہیں تھا، یا یہ کہ ان کو ان احادیث کا عالم تو جانتا ہے لیکن ان بزرگوں کے حق میں ان احادیث پر عمل کرنا جائز تسلیم نہیں کرتا، اور یہ خیال کرتا ہے کہ انہوں نے احادیث کے خلاف اپنی آراء کے موافق حرمت، کراہت کا حکم کیا ہے، اور یہ دونوں شقیں فاسد ہیں ان کو سوائے بیوقوف اور دشمن کے اور کوئی جائز نہیں سمجھتا اور جیسا کہ ترغیب الصلوٰۃ میں ہے کہ تشہد میں انگشتِ شہادت کا اٹھانا علمائے متقدمین کی سنت ہے لیکن علمائے متاخرین نے اس کا انکار کیا ہے جیسا کہ رافضیوں نے اس میں مبالغہ سے کام لیا ہے اس لئے سنیوں نے ترک کردیا ہے۔ سنی سے رافضی کی تہمت کا دور کرنا روایاتِ کتب معتبرہ کے مخالف ہے کیونکہ ہمارے اصحاب کا ظاہر اصول عدمِ اشارہ اور عدمِ عقد پر ہے۔ لہذا عدم اشارہ علمائے متقدمین کی سنت ہے اور ترک کی وجہ تہمت کی نفی کا باعث نہیں ہے۔ ان اکابرین کے ساتھ ہمارا حسنِ ظن یہ ہے کہ جب تک اس بارے میں حرمت یا کراہت کی دلیل ان پر ظاہر نہیں ہوئی انہوں نے حرمت یا کراہت کا حکم نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اشارہ کی سنت و استحباب کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ فقہا نے ذکر کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک اشارہ کے سنت و استحباب کے دلائل صحت کو نہیں پہنچے بلکہ ان کی صحت کے خلاف پہنچے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہم کو اس دلیل کا علم نہیں ہے اور یہ معنی اکابرین کے حق میں کسی عیب کو مستلزم نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس اس دلیل کے خلاف علم ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مقلد کا علم اس کے حلال و حرام ہونے کے ثبوت میں معتبر نہیں بلکہ اس بارے میں مجتہد کا گمان معتبر ہے۔ سب سے پہلے مجتہدین کے دلائل کو مکڑی کے گھر (جالے) سے بھی زیادہ کمزور کہنا بڑی جرأت کی بات ہے، اپنے علم کا ان اکابرین کے علم پر ترجیح دینا اور اصحابِ حنفیہ کے ظاہر اصول کو باطل بنانا اور مفتیٰ بہا معتبر روایات کو درہم برہم کرنا اور شاذ و نادر کہنا ہے۔ یہ اکابر احادیث کو عہد (نبوی) کے قرب اور علم کی زیادتی اور ورع و تقوی حاصل ہونے کی وجہ سے ہم دور افتادوں سے بہتر جانتے تھے اور اس کی صحت و سقم اور نسخ و عدم نسخ کو ہم سے زیادہ جانتے تھے اور ان احادیث علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے موافق عمل کو ترک کرنے میں کوئی نہ کوئی وجہ موجہ (معتبر دلیل) ضرور رکھتے ہوں گے۔ ہم ناقص فہم والے صرف اس قدر جانتے ہیں کہ احادیث کے راوی اشارہ و عقد کی کیفیت میں بہت زیادہ اختلاف رکھتے ہیں، اور ان کے کثرتِ اختلاف نے نفسِ اشارہ میں بھی اضطراب پیدا کردیا ہے، چنانچہ بعض روایات سے مفہوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بغیر عقد کے اشارہ فرمایا ہے، اور جو حضرات عقد کے ساتھ کہتے ہیں انہوں نے ترپن کے عدد جیسا عقد روایت کیا ہے، اور بعض دوسری روایات میں تیس کا عدد جیسا عقد ہے، اور بعض نے خنصر (چھنگلیا) اور بنصر (اس کے ساتھ والی انگلی) کے ساتھ قبضہ (بند) کرنے اور حلقۂ ابہام باوسطی (انگوٹھے کا درمیانی انگلی کے ساتھ حلقہ بنا کر) اشارۂ سبابہ کی روایت کی ہے۔ اور ایک روایت میں صرف انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھ دینے کو ہی اشارہ قرار دیا ہے، اور ایک روایت میں اس طرح بھی آیا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھ کر اور بائیں ہاتھ کو دائیں پاؤں پر رکھ کر اشارہ کرتے تھے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت پر اور پہنچے کو پہنچے پر اور کہنی کو کہنی پر رکھ کر اشارہ کرتے تھے۔ اور بعض روایات میں آیا ہے کہ تمام انگلیوں کو بند کر کے اشارہ فرماتے تھے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبابہ کی تحریک کے بغیر اشارہ کرتے تھے اور بعض حرکت کا ثبوت ظاہر کرتے ہیں۔ اور اسی طرح بعض روایات میں واقع ہے کہ تشہد کے پڑھتے وقت کسی کلمے کے تعین کے بغیر اشارہ فرماتے تھے۔ اور بعض دوسری احادیث میں آیا ہے کہ کلمۂ شہادت کے الفاظ پڑھتے وقت اشارہ فرماتے تھے۔ اور بعض راویوں نے اس کو دعا کے وقت میں مقید کردیا ہے کہ آپ فرماتے تھے: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکِ (اے دلوں کو پھیرنے والے میرے قلب کو اپنے دین پر ثابت رکھ)۔ اور جب علمائے حنفیہ نے اشارہ کرنے میں راویوں کے عمل کا اضطراب دیکھا تو ایک فعلِ زائد کو نماز میں قیاس کے بر خلاف ثابت نہیں کیا کیونکہ نماز کی بنا سکون و وقار پر ہے۔ اور اسی طرح جہاں تک ہو سکے تمام انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھنا سنت ہے، جیسا کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: فَلْیُوَجِّہْ مِنْ اَعْضَائِہِ الْقِبْلَۃَ مَا اسْتَطَاعَ (نمازی کو چاہئے جہاں تک ہوسکے اپنے تمام اعضا کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھے)۔
(سوال)
اگر یہ کہیں کہ اختلاف کی کثرت اس وقت مضطرب کر دیتی ہے جبکہ روایات کے درمیان موافقت ممکن نہ ہو، حالانکہ اس بارے میں موافقت ممکن ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تمام روایات کو (آنحضرت ﷺ نے) مختلف اوقات میں کیا ہو؟
(جواب)
تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اکثر روایات میں لفظ "کَانَ" واقع ہوا ہے جو غیر منطقیوں کے نزدیک ادواتِ کلیہ (آلاتِ کلیہ) میں سے ہے۔ اس صورت میں موافقت ممکن نہیں۔ اور جو کچھ کہ امام اعظمؒ سے منقول ہے کہ "اگر میرے قول کے خلاف کوئی حدیث مل جائے تو میرے قول کو ترک کر کے حدیث پر عمل کرو" ۔اس سے مراد وہ حدیث ہے جو حضرت امام تک نہیں پہنچی ہے اور اس حدیث کا علم نہ ہونے کی بِنا پر اس کے خلاف حکم فرمایا ہے۔ اور اشارہ کی احادیث اس قسم سے نہیں ہیں بلکہ معروف احادیث ہیں جو عدم علم کا احتمال نہیں رکھتیں۔
(سوال)
اور اگر یہ کہیں کہ علمائے حنفیہ نے اشارہ کے جواز کا بھی فتوی دیا ہے لہذا متعارض فتووں میں سے جس کے مطابق بھی عمل کیا جائے جائز ہوگا؟
(جواب)
ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر جواز اور عدم جواز، اور حلت و حرمت میں تعارض (ٹکراؤ) واقع ہوجائے تو عدم جواز اور حرمت کی جانب کو ترجیح ہوگی۔ نیز شیخ ابنِ ہمامؒ نے رفع یدین کے بارے میں کہا ہے کہ رفع اور عدم رفع کی احادیث متعارض ہیں۔ ہم قیاس کی بنا پر عدم رفع کی احادیث کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ صلوٰۃ کی بنا سکون و خشوع پر ہے جو اجماع کے نزدیک مطلوب و مرغوب ہے۔ اور شیخ ابنِ ہمامؒ پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے کس طرح کہہ دیا کہ بہت سے مشائخ سے عدم اشارہ مروی ہے جو روایت و درایت کے خلاف ہے۔ اس طرح انہوں نے علمائے مجتہدین پر جہالت کی نسبت قائم کر دی، حالانکہ وہ قیاس سے دلیل لا رہے ہیں جو شرع کا چوتھا اصل ہے اور وہ حنفیہ کے نزدیک ظاہر مذہب اور ظاہر روایت ہے۔ اور اسی شیخ نے راویوں کے کثرتِ اختلاف اور اضطراب کی وجہ سے حدیثِ قلتین کو ضعیف قرار دیا ہے۔ فرزند ارشد محمد سعید اس بارے میں ایک رسالہ لکھ رہے ہیں، تیار ہونے پر ان شاء اللّٰہ روانہ کیا جائے گا۔ اور نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ آپ کے طالبان طریقہ ہر طرف جمع ہیں اور کسی جگہ بھی دلیری نہیں کی اور نہ ہی کسی سے کہا کہ تم سرِ حلقہ ہو۔ جو اشارہ ہو اور جس کو اس کا اہل سمجھیں حکم فرمائیں تاکہ اس کو جماعت کا سرِ حلقہ بنا دیا جائے۔
(جواب)
یہ حکم آپ کی صوابدید پر موقوف ہے استخارہ اور توجہ کے بعد (جس کو مناسب سمجھیں) حکم کر دیں۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلٰی مَنْ لَدَیْکُمْ