مکتوب نمبر 310
مولانا محمد ہاشم کی طرف صادر فرمایا۔
انسان کی جامعیت اور بعض ان پوشیدہ اسرار کے بارے میں جو اس مقام سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے مناسب بیان میں۔
حمد و صلوٰۃ کے بعد واضح ہوکہ انسان میں جو کچھ کمالات ہیں وہ سب مرتبۂ وجوب تعالت و تقدست سے مستفاد ہیں، اگر علم ہے تو وہ بھی اس مرتبہ کے علم سے مستفاد ہے اور اگر قدرت ہے تو وہ بھی اسی مرتبہ کی قدرت سے ماخوذ ہے، علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن ہر مرتبہ کا کمال اس مرتبہ کے اندازے کے موافق ہے۔ انسان کے علم کو واجب تعالیٰ کے علم کے سامنے وہ نسبت ہے جو مردے کا حکم رکھتا ہے اور لا شئ محض ہے اس کو اس زندہ کے ساتھ نسبت ہے جس نے حیاتِ ابدی سے زندگی پائی ہو۔ اسی طرح انسان کی قدرت کو واجب تعالیٰ کی قدرت کے سامنے وہ نسبت ہے جو عنکبوت (مکڑی) کو جو (اپنے لعاب سے) اپنا گھر بناتی ہے اس شخص کے ساتھ نسبت ہے جس کی ایک پھونک سے زمین و آسمان اور پہاڑ و دریا ریزہ ریزہ ہوکر گردوغبار کی طرح اڑ جائیں، دوسرے کمالات کی نسبت کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہئے۔ یہ فرق بھی میدانِ عبارت کی تنگی کے باعث بیان کیا گیا ہے ورنہ
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
(کہاں خاک اور کہاں ہے عالم پاک)
پس انسان کے کمالات مرتبۂ وجوبِ تعالیٰ و تقدس کے کمالات کی صورت کی طرح ہوئے لیکن ان کمالات نے اس مرتبہ کے کمالات سے مشارکتِ اسمی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کیا، اسی لئے فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ (بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی (صفاتی) صورت پر پیدا کیا) اور مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ (جس نے اپنی (حقیقتِ) نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا) کے معنی اس بیان سے بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ نفسِ (انسانی) میں ہے وہ اس کی (ظاہری) صورت ہے۔ اور اس کی اصل و حقیقت وہ ہے جو مرتبۂ وجوب تعالیٰ و تقدس کے مرتبہ میں حاصل ہے۔ اس بیان سے انسان کی خلافت کے راز کو سمجھنا چاہئے، کیونکہ شئ کی صورت ہی شئے کا خلیفہ ہوتی ہے۔ اس مقام میں زندیقوں اور فرقہ مجسمہ نے (وہ لوگ جو حق تعالیٰ کے لئے جسم کے قائل ہیں) گمان کیا ہے کہ حق تعالیٰ عزوجل سلطانہٗ انسان کی صورت پر ہے، اور اپنی بے وقوفی کی وجہ سے انسانی قویٰ اور اعضا کو حضرت جل سلطانہٗ کے لئے اثبات کیا ہے۔ ضَلُّوْا فَأَضَلُّوْا (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا) اور یہ نہ جانا کہ اس کی صورت اور مثل کا اطلاق حق جل و علا میں تشبیہ و تمثیل کی قسم سے ہے (یعنی استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے) نہ کہ تحقیق اور ثبوت کے طور پر۔ کیونکہ اس صورت کی حقیقت ترکیب چاہتی ہے اور تبعض و تجزی (ٹکرے ٹکرے اور اجزا) کی خواہاں ہے جو وجوب کے منافی اور قِدَم کے مانع ہے۔ متشابہاتِ قرآنی بھی ظاہری معنوں پر نہیں بلکہ تاویل پر محمول ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرمایا ہے: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهٗ إِلَّا اللهُ﴾ (آل عمران: 7) (اس کی تاویل اللّٰہ تعالےٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا) یعنی اس متشابہ کی تاویل (اصل مراد) کو اللّٰہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لہذا معلوم ہوا کہ حق جل و علا کے نزدیک متشابہ بھی تاویل پر محمول اور ظاہر سے مصروف ہیں۔ (یعنی ظاہری معنی پر محمول نہیں)۔ اور علمائے راسخین کو بھی اس تاویل کے علم سے ایک حصہ عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ علم غیب جو اس سبحانہٗ ہی کے لئے مخصوص ہے اپنے خاص رسولوں کو اس سے اطلاع بخشتا ہے۔ اس تاویل کے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ جس طرح "ید" کی تاویل قدرت سے اور "وجہ" کی تاویل ذات سے کرتے ہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تاویل ان اسرار میں سے ہے جس کا علم اخصِ خواص کو عطا فرماتا ہے۔ جاننا چاہئے کہ صاحب فتوحاتِ مکیہ (شیخ ابنِ عربیؒ) اور ان کے متبعین کہتے ہیں کہ جس طرح واجب تعالیٰ و تقدس کی صفات اس کی ذات کا عین ہیں اسی طرح یہ صفات بھی ایک دوسرے کے عین ہیں، مثلاً علم جس طرح اس کی ذات کا عین ہے، اس کی قدرت کا بھی عین ہے اور اسی طرح عینِ ارادہ، عینِ سمع اور عینِ بصر بھی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اسی طرح تمام صفات۔ یہ بات فقیر کے نزدیک صواب سے دور ہے کیونکہ یہ بات صفاتِ زائدہ کے وجود کی نفی پر مبنی ہے جو اہلِ سنت و جماعت کے مذہب کے خلاف ہے کیونکہ صفاتِ ثمانیہ (آٹھ صفات) یا سبع (سات) ان بزرگوں کی آراء کے موافق خارج میں موجود ہیں۔ شاید کہ ذات و صفاتِ واجبی تعالیٰ و تقدس کی عینیت (اتحاد) کا وہم ان (شیخ ابنِ عربیؒ وغیرہ) کو اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے (ذات و صفاتِ واجبی) کے تغایر و تباین (غیر اور جدا ہونے) کو اس مقام (یعنی ذات و صفاتِ ممکنات) کے تغایر و تباین کے رنگ میں خیال کیا ہے، اور جب ان کو اس مقام میں جو کہ ہمارے ذات و صفات کے تغایر و تباین کے رنگ میں ہے نہ پایا اور ان کے تمایز (ممتاز کرنے والی کیفیت) کو ان تمایز کے مشابہ نہ دیکھا تو لازمی طور پر انہوں نے تغایر و تمایز کی نفی کا حکم کردیا اور ایک دوسرے کی عینّیت کے قائل ہوگئے۔ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اس مقام کے تمایز و تباین ذات و صفات واجبی تعالیٰ کے مانند بیچون و بے چگونہ (بے مثل و بے کیف) ہیں اور ان تمایز کو ان تمایز کے ساتھ سوائے ظاہری صورت اور نام کے کوئی نسبت نہیں۔ لہذا اس مقام میں تباین و تمایز متحقق ہیں لیکن ہم اس کے ادراک سے عاجز ہیں، نہ یہ کہ جس چیز کا ہم ادراک نہیں کرسکتے اس کی نفی کردیں اور اہلِ حق کے مخالف ہوجائیں۔
وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ لِلصَّوَابِ
(اور اللّٰہ تعالیٰ سبحانہ ہی صحیح بات کا الہام کرنے والا ہے)۔