مکتوب نمبر 309
مولانا حاجی محمد فرکتی کی طرف صادر فرمایا۔
دن رات کے محاسبہ کے بارے میں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے: حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا (اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ ہو)۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد واضح ہو کہ مشائخِ کرام قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم کی ایک جماعت نے محاسبہ کا طریقہ (اس طرح) اختیار کیا ہے کہ وہ رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے اقوال و افعال اور حرکات و سکنات کے دفتر کو ملاحظہ کرتے ہیں اور ہر ایک عمل کی حقیقت کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور اپنے قصوروں اور گناہوں کا توبہ و استغفار اور التجا و تضرع کے ذریعہ تدارک کرتے ہیں، اپنے نیک اعمال و افعال کو حق تعالیٰ کی توفیق کی طرف منسوب کر کے حق جل و علا کی حمد اور اس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ صاحبِ فتوحات مکیہ (شیخ ابنِ عربی) قدس سرہ جو کہ محاسبہ کرنے والوں میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ "میں اپنے محاسبہ میں دوسرے مشائخ سے بڑھ گیا ہوں اور میں اپنے (قلبی) خطروں اور نیتوں کا بھی محاسبہ کرتا ہوں۔ اور اس فقیر کے نزدیک سونے سے پہلے سو مرتبہ تسبیح، تحمید اور تکبیر (سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ) کا پڑھنا جس طرح کہ مخبر صادق علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات سے ثابت ہے محاسبہ کا حکم رکھتا ہے اور محاسبہ کا کام دیتا ہے۔ گویا ان کلمات کا پڑھنے والا کلمہ تسبیح کے تکرار سے جو کہ توبہ کی کنجی ہے اپنی تقصیرات اور برائیوں سے عذر خواہی کرتا ہے۔ اور حق تعالیٰ کی مقدس بارگاہ کو ان امور سے جن کے باعث وہ ان برائیوں کا مرتکب ہوا ہے منزہ اور مبرا ظاہر کرتا ہے کیونکہ برائیوں کے مرتکب کو اگر امر و نہی کے احکام صادر کرنے والی ذات تعالیٰ و تقدس کی عظمت و کبریائی ملحوظ و منظور ہوتی تو وہ حق تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے میں ہرگز سبقت و دلیری نہ کرتا، اور جب اس نے حکم نہ ماننے پر دلیری کی تو معلوم ہوا کہ اس مرتکب کے نزدیک حق تعالیٰ کے امر و نہی کا کچھ اعتبار و شمار نہیں تھا۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ مِنْ ذٰلِکَ (اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے) پس وہ اس کلمۂ تنزیہ کے تکرار سے اس کوتاہی کی تلافی کرتا ہے۔
نیز جاننا چاہئے کہ استغفار کرنے میں گناہوں کے ڈھانپنے کی طلب ہے اور کلمۂ تنزیہ کے تکرار میں گناہ کے بیخ کنی کی طلب ہے۔ یہ (دونوں کلمے "سُبْحَانَ اللّٰہ" اور استغفار) کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔ "سُبْحَانَ اللّٰہ" ایک ایسا عجیب کلمہ ہے کہ اس کے الفاظ بہت کم ہیں لیکن اس کے معانی و منافع بہت زیادہ ہیں اور کلمۂ تحمید (اَلْحَمْدُ لِلّٰہ) کی تکرار سے حق تعالیٰ کی توفیق اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے، اور کلمۂ تکبیر (اَللّٰہُ اَکْبَرُ) کی تکرار میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی پاک بارگاہ اس سے بہت ہی بلند ہے کہ یہ عذر خواہی اور شکر گزاری اس ذات جل شانہٗ کے لائق ہو، کیونکہ اس کی عذر خواہی اور استغفار بہت سی عذر خواہیوں اور استغفارات کی محتاج ہے اور اس (بندہ) کا حمد کرنا اس کے اپنے نفس کی طرف راجع ہے (نہ کہ حق تعالیٰ کی طرف) ۔ ﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ (الصٰفٰت: 180 تا 182) (پاک ہے تمہارا رب عزت والا ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں اور سلام ہو تمام رسولوں پر اور تمام تعریف اللّٰہ رب العالمین کے لئے ہے)۔
محاسبہ کرنے والے شکر اور استغفار پر اکتفا کرتے ہیں لیکن ان کلماتِ قدسیہ کے ساتھ استغفار کا کام بھی ہوجاتا ہے۔ اور شکر بھی ادا ہوجاتا ہے، اور نیز استغفار اور شکر کے نقص کا اظہار کرنے کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے۔ ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّآ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (البقرۃ: 127) (اے رب! ہماری یہ دعا قبول فرما) وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہِ الطَّاھِرِیْنَ وَسَلَّمَ وَبَارَکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ۔