دفتر1 مکتوب نمبر 308: حدیثِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ "سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَاَنَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ" کے معنی کے بیان میں۔

مکتوب نمبر 308

مولانا فیض اللّٰہ پانی پتی کی طرف صادر فرمایا۔

حدیثِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ "سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَاَنَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ" کے معنی کے بیان میں۔

اللّٰہ تعالیٰ آپ کو ہدایت فرمائے۔ جاننا چاہئے کہ آنحضرت علیہ وعلٰی آلہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے اور میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کے نزدیک بہت پسندیدہ ہیں (وہ یہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ) (اللّٰہ تعالیٰ پاک و منزہ ہے اور اسی کے لئے تمام حمد اور شکر ہے، اللّٰہ تعالیٰ پاک ہے اور بہت عظیم ہے) ان دونوں کلموں کا زبان پر ہلکا ہونا قلتِ حروف کی وجہ سے تو ظاہر ہی ہے لیکن میزان میں ان کا بھاری ہونا اور رحمٰن کے نزدیک پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کلمہ کا جزوِ اول (سُبْحَانَ اللّٰہِ) ظاہر کرتا ہے کہ حق تعالیٰ ان تمام باتوں سے جو اس کی جنابِ قدس عزوجل کے لائق نہیں ہیں منزہ اور پاک ہے، نیز اس کی بارگاہ کبریا کا تمام نقائص اور حدوث و زوال کے نشانات سے پاک و منزہ ہونا ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کلمہ کا دوسرا جزو (وَبِحَمْدِہٖ) اللّٰہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال اور شیوناتِ جمال کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے، خواہ وہ صفات و شیونات فضائل میں سے ہوں یا فواضل میں سے، دونوں چیزوں میں اضافت استغراق کے لئے ہے تاکہ تمام تنزیہات و تقدیسات اور کمال و جمال کے تمام صفات حق تعالیٰ ہی کے اثبات کا فائدہ دیں پس کلمۂ اولیٰ (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ) کے دونوں اجزا کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ تمام تنزیہات و تقدیسات حق تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہیں اور تمام صفات کمال و جمال بھی اسی ذات عزوجل کے لئے ثابت ہیں۔

اور کلمۂ ثانیہ (سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ) کا حاصل یہ ہے کہ تمام تنزیہات و تقدیسات اسی ذات عزوجلّ کے لئے ہیں اور عظمت و کبریائی کا اثبات بھی اسی کے لئے ہے، اور ان کلمات میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تمام نقائص حق تعالیٰ سے اس کی عظمت و کبریائی کے باعث مسلوب ہیں۔ اسی وجہ سے یہ دونوں کلمے میزان میں بھاری اور خدائے رحمٰن کے نزدیک محبوب ہیں۔ اور نیز "تسبیح" توبہ کی کنجی بلکہ توبہ کا خلاصہ ہے جیسا کہ بعض مکاتیب میں اس کی تحقیق کر چکا ہوں لہذا "تسبیح" گناہوں کے محو کرنے اور خطاؤں کے معاف ہونے کا وسیلہ ہے، اس وجہ سے بھی یہ کلمے میزان میں بھاری اور نیکیوں کے پلّے کو جھکانے والے اور رحمٰن کو پیارے ہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ عفو کو پسند فرماتا ہے۔ اور اسی طرح تسبیح اور حمد کرنے والا جب حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کو اس کی شان کے خلاف چیزوں سے پاک اور منزہ ظاہر کرتا ہے اور اس بلند و برتر ذات کے لئے صفاتِ کمال و جمال کا اثبات کرتا ہے تو حق جل شانہٗ کریم و وہاب سے بھی امید ہے کہ وہ تسبیح کرنے والے کو غیر مناسب باتوں سے پاک کردے گا اور حمد کرنے والے میں صفاتِ کمال پیدا کردے گا جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمٰن: 60) (نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے)۔ لہذا لازمی طور پر یہ دونوں کلمے میزان میں بھاری ہیں کیونکہ ان کے تکرار کی وجہ سے گناہ محو ہوجاتے ہیں۔ اور چونکہ خدائے رحمٰن کو پسندیدہ ہیں اس لئے ان کے واسطے سے اچھے اخلاق پیدا ہوجاتے ہیں۔ والسّلام