مکتوب نمبر 307
مولانا عبدالواحد لاہوری کی طرف صادر فرمایا۔
کلمۂ طیبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ کے معنی اور اس کے مناسب بیان میں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حمد و صلوۃ کے بعد واضح ہو کہ (حق تعالیٰ کی عبادت کرنے والا عبادت کی ادائیگی کے دوران جو کچھ حسن و کمال کی قسم سے اپنی عبادت میں پاتا ہے وہ سب توفیقِ خداوند جل سلطانہٗ کی طرف راجع ہے، اور اس تعالیٰ ہی کی حُسنِ تربیت اور احسان سے ہے۔ اور جو کچھ کوتاہی و ناتمامی کی قسم سے اپنی عبادت میں پاتا ہے وہ سب اس کے اپنے نفس کی طرف راجع ہے اور اس کی جبلی شرارت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ورنہ اس بزرگ و برتر کی بارگاہ میں نقص و قصور کی قسم سے کوئی چیز راجع نہیں ہے وہاں تو سب خیر و کمال ہی ہے۔ اور اسی طرح جو کچھ اس جہان میں واقع ہوتا ہے، اس کا حسن و کمال بھی حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف راجع ہے (لیکن) اس عالم کا شر و نقص ممکنات کے دائرے کی طرف عَود کرتا ہے جو نیستی میں قدم راسخ رکھتا ہے اور عدم ہر شر و نقص کے پیدا ہونے کی جگہ ہے۔ کلمۂ طیبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ (اللّٰہ تعالیٰ پاک ہے اور اسی کے لئے حمد و شکر ہے) پوری بلاغت کے ساتھ ان دو چیزوں کو بیان فرماتا ہے۔ (اس کلمہ کا جزو اول سُبْحَانِ اللّٰہِ) حق تعالیٰ کی کمال درجہ تنزیہ و تقدیس ظاہر کرتا ہے۔ اور ان تمام شرور و نقائص سے جو اس تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے شایاں نہیں ہیں پاکی بیان کرتا ہے۔ اور (جزو ثانی وَبحَِمْدِہٖ) حمد کے ساتھ ساتھ شکر کی ادائیگی سے عبارت ہے اور ہر شکر کی اصل ہے، حق تعالیٰ کی صفات و افعالِ جمیلہ اور انعامات و احساناتِ جرنلیہ پر شکر ادا کرنا ہے، جیسا کہ حدیث نبوی علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات میں آیا ہے کہ جو شخص اس کلمہ (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ) کو دن یا رات میں سو بار پڑھے تو کوئی شخص بھی اس دن رات میں اس کی برابری نہیں کرسکتا مگر وہ شخص جو اس کلمۂ طیبہ کو پڑھے۔ اور کیسے برابری کرسکتا ہے جبکہ اس کا ہر عمل اور اس کی ہر عبارت خداوند جل سلطانہٗ کے شکروں میں سے ایک شکر کی ادائیگی ہے جو اس کلمۂ طیبہ کے دوسرے جزو (بِحَمْدِہٖ) سے ادا ہوتا ہے۔ اور اس کا دوسرا جزو (سُبْحَانَ اللّٰہِ) جس میں حق تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس کا بیان ہے علیحدہ ہے لہذا آپ اس کلمۂ طیبہ کو رات دن میں سو مرتبہ پڑھنا اپنے اوپر لازم کر لیں۔ اللّٰہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔
سوال:
حدیثِ نبوی علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلمیات میں وارد ہے: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضٰی نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ (اللّٰہ تعالیٰ پاک ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اس کی مخلوق کی مقدار میں، اور ایسی عمدہ تسبیح جو اس کی رضا کے مطابق ہو اور عرش کے وزن کے جتنی برابر ہو اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر ہو)۔ اور (حدیث شریف میں) یہ بھی آیا ہے: سُبْحانَ اللهِ مِلْأُ الْمِيْزَانِ (اللّٰہ تعالیٰ کی ایسی تسبیح جو میزان کو بھر دے)۔ اور یہ بھی آیا ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَضْعَافَ مَا حَمِدَہٗ جَمِیْعُ خَلْقِہٖ (اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمام تعریفیں ہیں اس سے کئی گنا زیادہ جو اس کی تمام مخلوق نے کی ہیں)۔ حالانکہ کہنے والے نے (ان کلمات کو) ایک مرتبہ سے زیادہ نہیں کہا اور ایک دفعہ سے زیادہ واقع نہیں ہوا پھر اس کو عَدَدَ خَلْقِہٖ کس اعتبار سے کہتے ہیں اور رِضَا نَفْسِہٖ کس معنی کے لحاظ سے کہیں اور زِنَۃَ عَرْشِہٖ کس طرح ہو گا۔ اور مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ کیسے درست ہو گا اور میزان کو کیسے بھر دے گا اور اَضْعَافَ مَا حَمِدَہٗ جَمِیْعُ خَلْقِہٖ کس معنی کے لحاظ سے کہا جائے گا؟
(جواب میں)
ہم کہتے ہیں کہ "انسان" عالمِ خلق اور عالمِ امر کا جامع ہے اور جو کچھ خلق اور امر میں ہے وہ انسان میں زائد شے کے ساتھ موجود ہے اور وہ اس کی ہیئتِ وحدانی ہے جو خلق و امر کی ترکیب سے پیدا ہوئی ہے اور یہ ہیئتِ وحدانی انسان کے علاوہ کسی اور کو میسر نہیں ہوئی، اور یہ ہیئت ایک غریب عجوبہ اور عجیب نمونہ ہے۔ لہذا وہ حمد جو انسان سے وقوع میں آتی ہے وہ تمام خلائق کی حمد سے کئی گنا زیادہ ہے اسی قیاس پر تمام سوالات کا حل سمجھ لیں۔ پس تمام مخلوق سے انسان کے علاوہ مراد لینی چاہئے۔ اور اگر انسان کو بھی اس میں شامل کر لیں تو ہم کہتے ہیں کہ جس طرح انسانِ کامل تمام افرادِ عالم کو اپنے اجزا پاتا ہے اسی طرح افرادِ انسان کو بھی اپنے اجزا پاتا ہے اور اپنے آپ کو سب کا کل جانتا ہے۔ اس صورت میں اپنی حمد کو تمام عالم کی حمد سے کئی گنا زیادہ معلوم کرتا ہے اور تمام افرادِ انسانی کی حمد سے بھی اپنی حمد کو کئی گنا زیادہ پائے گا۔
وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ مِنَ الصَّلوَاتِ اَتَمُّھَا ومِنَ التَّحِیَّاتِ اَکْمَلُھَا
(اور سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پروی کرے اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کرے)۔