دفتر اول مکتوب 287
حقائق آگاہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے برادر حقیقی میاں غلام محمد1 کی طرف صادر فرمایا۔ جذبہ و سلوک اور ان معارف کے بیان میں جو ان دونوں مقاموں کے مناسب ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَ قَالُوْا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ هَدَانَا لِهـٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَآ أَنْ هَدَانَا اللهُ ۖلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَ خَتَمَھُمْ بِأَفْضَلِھِمْ وَ أَکْمَلِھِمْ مُحَمَّدِنِ الَّذِيْ جَاءَ بِِالصِّدْقِ صَلَوَاتُ اللهِ سُبْحَانَہٗ وَ بَرکَاتُہٗ وَ تَحِیَّاتُہٗ عَلَیہِ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ عَلَیْھِِمْ وَ عَلٰی مَنْ تَابَعَھُمْ أَجْمَعِینَ إِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اٰمِیْن (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت دی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بے شک ہمارے رب کے رسول حق بات لے کر آئے اور ان میں افضل و اکمل حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم پر جو صدق کے ساتھ تشریف لائے اور ان پر سلسلۂ رسالت کو ختم کیا، اللہ سبحانہٗ کی صلوات و برکات اور تحیات ہوں قیامت تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم پر اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم کی آل اور انبیاء پر اور ان سب پر جو ان کی اتباع کریں۔ آمین!)
جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ طالبانِ طریقت اپنی کم ہمتی، پست فطرتی اور شیخِ کامل و مکمل کی نا یابی کی وجہ سے (راہِ سلوک کے) طویل راستے اور بلند مطلب کو مختصر راستے اور پست مقصد میں پڑ کر نیچے لے آئے ہیں اور ان کو اس راہ میں جو کچھ بھی حقیر اور معمولی چیز میسر آئی اسی پر اکتفا کر لیا اور اسی کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھے اور اس کے حاصل ہو جانے پر خود کو کامل اور منتہی خیال کر لیا اور وہ احوال جو منتہیانِ راہ اور واصلانِ درگاہ نے اپنے انجام کار اور نہایت روز گار کی وجہ سے بیان فرمائے ہیں، یہ پست فطرت جماعت اپنی قوتِ متخیلہ کے غلبے کی وجہ سے ان کے کامل احوال کو اپنے ناقص احوال پر ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تو ایسا قصہ ہے جیسے:
بخواب اندر مگر موشے شتر شد
ترجمہ:
خواب میں چوہا بنا ہے اونٹ کیا
انہوں نے بحرِ عمیق سے ایک قطرہ بلکہ قطرے کی مانند، اور دریائے عمان سے ایک بوند یا اس بوند کی صورت پر قناعت کر لی ہے، اور چون کو بے چون تصور کر کے بے چون سے ہٹ کر چون پر آرام و اکتفا کر بیٹھے ہیں، اور مانند کو بے مانند (یعنی مثل کو بے مثل) خیال کر کے بے مانند سے ہٹ کر مانند پر فریفتہ ہو گئے ہیں، (بخلاف) اس جماعت کے جس کا حال یہ ہے کہ تقلید کی وجہ سے بے مانند (بے چون) ذات پر ایمان لائے ہیں، اور بے مانند (بے مثل) ذات کے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ وہ ان تمام طالبانِ سلوک کے احوال سے اور سراب کے ساتھ آرام حاصل کرنے والوں کے حالات سے مرتبہ میں کئی درجے بہتر ہیں۔ مُحق اور مُبطل (حق اور باطل) اور مُصیب اور مُخطی (صحیح اور خطا کار) کے درمیان بڑا فرق ہے، اور ان طالبوں پر جو ابھی مطلب اور مقصد تک نہیں پہنچے اور جو حادث کو قدیم جانتے ہیں اور چون کو بے چون خیال کرتے ہیں اگر ان کو کشف غیر صحیح (غلط) پر معذور نہ رکھا گیا، اور ان کی اس خطا و غلطی پر مؤاخذہ کیا گیا تو ان کے حال پر بہت افسوس ہے۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ إِنْ نَّسِیْنَاۤ أَوْ أَخْطَاْنَاۚ﴾ (البقرة: 286) ترجمہ: ”اے ہمارے پروردگار اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہوجائے تو ہماری گرفت نہ فرمایئے“۔
مثلًا ایک شخص (طالبِ نا رسیدہ) کعبۂ (معظمہ) کا طالب ہوا اور شوق کے ساتھ اس تک پہنچنے کے لیے روانہ ہوا۔ اتفاقًا سفر کے دوران خانۂ کعبہ جیسا ایک مکان اس کو نظر آیا۔ چونکہ وہ (مکان) صرف صورت میں (خانۂ کعبہ کے) مشابہ تھا اس لیے اس شخص نے خیال کیا کہ یہی کعبہ ہے لہٰذا اسی جگہ معتکف ہو گیا۔ ایک اور شخص نے کعبہ کی خصوصیات کو واصلانِ کعبہ (کعبۂ معظمہ کی زیارت سے مشرف شدہ حضرات) سے دریافت کر کے کعبہ کی تحقیق و تصدیق کی، اس شخص نے اگرچہ کعبہ کے راستے کی طلب میں ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا، لیکن اس نے غیرِ کعبہ کو کعبہ نہیں سمجھا، یہ شخص اپنی تصدیق میں سچا ہے، اس کا حال اس خطا کار مذکورہ طالب سے بہتر ہے۔ ہاں اس طالب کا حال جو ابھی مطلب تک نہیں پہنچا لیکن غیر مطلب کو مطلب نہیں سمجھا (یعنی اصل مقصد کو نہیں چھوڑا) اس مقلدِ محق کے حال سے جس نے مطلب کے راستے میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا بہتر ہے، کیونکہ اس نے مطلوب کی صحیح تصدیق کے با وجود مطلوب کی طرف کچھ نہ کچھ حصہ بھی قطع کر لیا ہے، لہٰذا زیادتی (فضیلت) اس کے لیے متحقق و ثابت ہو گئی۔
ان میں سے ایک گروہ نے اس خیالی کمال اور وہمی وصال کی بنیاد پر اپنے آپ کو پیری کی مسند اور مخلوق کی پیشوائی کے لیے منتخب کیا ہے، اور اپنے نقصان کی وجہ سے بہت سے کمالات کی استعداد رکھنے والے لوگوں کی استعداد کو ضائع کر دیا ہے، اور اپنی صحبت کی ٹھنڈک کی بد قسمتی کی وجہ سے طالبوں کی طلب کی گرمی ضائع کر رہے ہیں: "ضَلُّوْا فَأَضَلُّوْا، ضَاعُوْا فَأَضَاعُوْا" (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، خود بھی ضائع ہوئے اور دوسروں کو بھی ضائع کیا) کمال کا یہ تخیل اور وصال کا یہ وہم سالکانِ جذبِ نا رسیدہ کی نسبت مجذوبانِ سلوکِ نا کردہ میں زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ مبتدی اور منتہی جذب کی صورت میں ایک دوسرے کے شریک ہیں اور بظاہر عشق و محبت میں مساوی ہیں، اگرچہ حقیقت میں وہ ایک دوسرے سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتے اور ان کے احوال بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک
ترجمہ:
کہاں خاک اور کہاں ہے عالمِ پاک
ابتدا میں جو کچھ ہے وہ معلول ہے (یعنی علت اور نقص سے خالی نہیں) اور غرض پر محمول ہے اور انتہا میں وہ چونکہ حق کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے سب کچھ حق کے لیے ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس بیان کی تفصیل عن قریب ذکر کی جائے گی۔ یہ صوری مشابہت اور یہ ظاہری مناسبت اسی خیال کی وجہ سے ہوتی ہے۔
چونکہ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ میں جذبہ، سلوک پر مقدم ہے اس لیے اس طریقے کے مجذوبوں کو جو سلوک کی دولت سے مشرف نہیں ہوئے (ان کو) اس قسم کا خیال اور اس طرح کا وہم بہت زیادہ لاحق ہوتا ہے، اور ان میں سے ایک جماعت جس کو مقامِ جذبہ میں منقلب احوال حاصل ہو جاتے ہیں اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف چلے جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سلوک کی منازل قطع ہو گئیں، اور سیر الی اللہ کے راستے طے ہو چکے ہیں، اور ان تبدیلیوں سے وہ اپنے آپ کو مجذوب سالک خیال کر بیٹھے ہیں، اس لیے خاطرِ فاتر (فتور والے دل) میں آیا کہ جذبہ و سلوک کی حقیقت کے بیان میں اور ان دونوں مقاموں کے فرق کے بیان میں چند فقرے لکھے جائیں۔ نیز وہ خاصیتیں بھی لکھی جائیں جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں، اور جذبِ مبتدی اور جذبِ منتہی کے درمیان فرق اور مقامِ تکمیل و ارشاد کی حقیقت اور دوسرے علوم جو اس مقام کے مناسب ہیں، بیان کیے جائیں، ﴿لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَ يُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (الأنفال: 8) ترجمہ: ”تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کر دے، چاہے مجرم لوگوں کو یہ بات کتنی نا گوار ہو“۔
اب میں حق سبحانہٗ کی حسنِ توفیق سے اس بیان کو شروع کرتا ہوں اور وہی سبحانہٗ سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے اور وہی سب سے اچھا کار ساز ہے اور سب سے اچھا وکیل ہے۔
یہ مکتوب 2 مقاصد اور 1 خاتمے پر مشتمل ہے: مقصدِ اول میں اُن معارف کا بیان ہے جو مقامِ جذبہ سے متعلق ہیں، اور مقصدِ ثانی میں اُن معارف کا بیان ہے جن کا مقامِ سلوک سے تعلق ہے۔ خاتمہ میں ان بعض متفرق علوم و معارف کا ذکر ہے جن کا جاننا طالبوں کے لیے کثیر المنفعت ہے۔
مقصدِ اول:
جاننا چاہیے کہ وہ مجذوب جنہوں نے سلوک کو مکمل طور پر طے نہیں کیا اگرچہ جذبِ قوی رکھتے ہوں اور خواہ کسی راہ سے بھی منجذب (جذب حاصل کیے ہوئے) ہوں، وہ اربابِ قلوب کے گروہ میں داخل ہیں، کیونکہ بغیر سلوک اور تزکیۂ نفس کے وہ مقامِ قلب سے آگے نہیں گزر سکتے اور مقلبِ قلب (یعنی حق تعالیٰ) تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان کا جذب انجذابِ قلبی ہے اور ان کی محبت عرضی ہے ذاتی نہیں، غرضی ہے اصلی نہیں۔ کیونکہ نفس اس مقام میں روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، اور ظلمت اور نور اس معاملہ میں مخلوط ہیں، اور جب تک روح مطلوب کی طرف توجہ کرنے کے لیے نفس سے مجرد اور آزاد نہ ہو جائے اور نفس روح سے جدا ہو کر بندگی کے مقام میں نیچے نہ آ جائے، اس وقت تک مقامِ قلب کی تنگی سے مکمل طور پر نہیں نکل سکتے اور مقلبِ قلب تک نہیں پہنچ سکتے، اور مطلوب کی طرف روحی انجذاب حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جب تک یہ دونوں (نفس و روح) حقیقت میں جمع ہیں، حقیقتِ جامعۂ قلبیہ محکم اور غالب ہے، خالص روح کا انجذاب متصور نہیں۔ روح کا نفس سے خلاصی پانا سلوک کی منازل کو طے کرنے اور سیر الی اللہ کے راستے طے کرنے اور سیر فی اللہ کے متحقق ہونے کے بعد بلکہ فرق بعد الجمع کا مقام حاصل ہونے کے بعد (جس کا تعلق سیر عنِ اللہ باللہ سے ہے) صورت پذیر نہیں ہوتا (یعنی روح نفس سے آزادی حاصل نہیں کر سکتی)۔
ہر گدائے مرد میداں کے شود
پشۂ آخر سلیماں کے شود
ترجمہ:
ہر گدا کب مردِ میداں ہو سکے
کوئی مچھر کب سلیماں علیہ السلام ہو سکے؟
پس اس بیان سے جذبِ منتہی اور جذبِ مبتدی کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔
ان اربابِ قلوب مجذوبوں کا شہود کثرت کے پردے میں ہے، خواہ وہ اس معنیٰ (باطنی کیفیت) کو معلوم کریں یا نہ کریں، اور ان کا مشہود اس عالمِ کثرت میں نہیں، مگر عالمِ ارواح میں ہے، جو لطافت احاطہ اور سَرَیان میں اپنے موجد (یعنی حق جل و علا) کے ساتھ صورتًا مشابہت رکھتا ہے: "إِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2612) ترجمہ: ” بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا“۔ اور اس مناسبت کے ساتھ روح کے شہود کو حق تعالیٰ و تقدس کا شہود جانتے ہیں اور احاطہ و سریان اور قرب و معیت بھی اسی قیاس پر ہیں، کیونکہ سالک کی نظر صرف مقامِ فوق تک عبور کر سکتی ہے، مقامِ فوقِ فوق تک نہیں جا سکتی، اور ان کا مقامِ فوق، مقامِ روح ہے، لہٰذا ان کی نظر مقامِ روح سے بالا نہیں جا سکتی اور ان کا مشہود سوائے روح کے کوئی اور امر نہیں ہوتا، نظر کا فوقِ روح تک جانا مقامِ روح تک پہنچنے پر موقوف ہے۔ محبت اور انجذاب بھی اسی شہود کی طرح ہیں۔ حق سبحانہٗ کا شہود بلکہ جناب قدسِ خداوندی کی محبت و انجذاب کا پیدا ہونا فنا کے حصول کے ساتھ وابستہ ہے، جس کو سیر الی اللہ کی نہایت سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہیچ کس را تا نہ گردد او فنا
نیست رہ در بارگاہِ کبريا
ترجمہ:
جب تک انسان کر نہ لے خود کو فنا
کیسے پائے بارگاہِ کبریا؟
اس مقام میں شہود کا اطلاق میدانِ عبارت کی تنگی کا باعث ہے، ورنہ ان بزرگوں کا کار خانہ شہود کے وراء الوراء سے متعارف و مشہور ہے۔ جیسا کہ ان کا مقصد بے چون و بے چگونہ ہے اور ان کا اتصال بھی اس پاک سبحانہٗ کے ساتھ بے چون و بے چگونہ ہے، کیونکہ چون کو بے چون کی طرف کوئی راہ نہیں۔ "لَا يَحْمِلُ عَطَايَا المَلِکِ إِلَّا مَطَایَاہُ" (بادشاہوں کے عطيات کو بادشاہوں کی سواریاں ہی اُٹھا سکتی ہیں)
اتصالے بے تکیف بے قیاس
ہست ربّ الناس را با جانِ ناس
ترجمہ:
ربِّ انسان سے اتّصالِ بشر
کیفیت اس کی کیا ہے؟ کس کو خبر؟
محققین اربابِ سلوک کے نزدیک جو نہایتِ کار تک پہنچ چکے ہیں، حق سبحانہٗ کا احاطہ و سریان اور قرب و معیت ایک علمی مقام ہے جیسا کہ علمائے اہلِ حق شَکَرَ اللہُ تَعَالٰی سَعْیَہُمْ کا مسلک ہے۔ قربِ ذاتی اور اس طرح کی دوسری باتوں کا حکم کرنا ان کے نزدیک بے حاصلی اور دوری کے مترادف ہے، نزدیک والے حضرات قربِ ذاتی کا حکم نہیں کرتے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں: ”جو یہ کہتا ہے کہ میں (حق تعالیٰ) کے نزدیک ہوں حقیقت میں وہ دُور ہے اور جو اپنے آپ کو دور سمجھتا ہے وہ نزدیک ہے، تصوف یہی ہے“۔ وہ علم جو توحیدِ وجودی کے ساتھ متعلق ہے، اس کا مقصد انجذاب اور محبتِ قلبی پیدا کرنا ہے۔ اربابِ قلوب جنہوں نے جذبہ پیدا نہیں کیا اور سلوک کے راستے سے منازل قطع کر رہے ہوں، ان کے لیے یہ علم مناسبت نہیں رکھتا۔ اسی طرح وہ مجذوب جو سلوک کے ساتھ اپنے قلب کی تمام توجہ مقلبِ قلب (حق تعالیٰ) کی طرف کئے ہوئے ہیں، وہ بھی ان علوم سے براءت کا اظہار کرتے اور استغفار کرتے ہیں۔ بعض مجذوب ایسے بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ سلوک کے راستے سے آتے ہیں اور منازل طے کرتے ہیں، لیکن ان کی نظر مقامِ مالوف (مانوس مقام) سے جدا نہیں ہوتی اور وہ فوق کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس قسم کے علوم ان کے دامن کو نہیں چھوڑتے اور وہ اس گرداب (بھنور) سے باہر نہیں آ سکتے، لہٰذا مدارجِ قرب پر عروج کرنے اور معارجِ قدس میں صعود کرنے میں قاصر اور لنگڑے رہتے ہیں۔ ﴿رَبَّنَاۤ أَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَاۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ﴾ (النساء: 75) ترجمہ: ”اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کر دیجیے، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے“۔
(سالک کا) ان علوم سے تبرّی (بیزار ہونا) مطلب کی نہایت کے وصول ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جس قدر تنزیہ و تزکیہ کے ساتھ زیادہ مناسبت پیدا ہو گی، عالم کی اپنے صانع کے ساتھ بے مناسبتی زیادہ ہوتی جائے گی۔ اس حالت میں عالَم کو صانع کا عین جاننا یا صانع کو عالم کا محیط بالذات خیال کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ الْأَرْبَابِ (چہ نسبت خاک را با عالم پاک)
معرفت:
حضرت خواجہ نقشبند قدّس اللہ تعالیٰ سرہ الأقدس فرماتے ہیں ”ما نہایت را در بدایت درج می کنیم“ (ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں) اس عبارت کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ انجذاب و محبت جو منتہی کو انتہا میں میسر ہوتی ہے، وہ انجذاب و محبت اس طریقۂ عالیہ میں ابتدا ہی سے پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ منتہی کا انجذاب روح کا انجذاب ہے اور مبتدی کا جذب جذبِ قلبی ہے، اور چونکہ قلب، روح اور نفس کے درمیان برزخ ہے اس لیے جذبِ قلبی کے ضمن میں جذِبِ روحی بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس اندراج کی یہ تخصیص اس طریقۂ عالیہ کے ساتھ کرنا (اگرچہ یہ بات تمام جذبات میں حاصل ہے) اس وجہ سے ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے بزرگوں نے اس مطلب کے حاصل کرنے کے لیے ایک خاص طریقہ وضع کر لیا ہے اور اس مطلب کے حصول کے لیے ایک راہ متعین کر لی ہے، اور دوسرے (طریقوں کے) حضرات کو یہ مطلب (وصول الی اللہ) اتفاقًا حاصل ہو جاتا ہے، ان کے ہاں کوئی خاص ضابطہ مقرر نہیں ہے۔ اس طریقۂ عالیہ کے بزرگوں کو جذبہ کے مقام میں ایک خاص شان حاصل ہے جو دوسروں کو میسر نہیں، اور اگر ہے تو شاذ و نادر ہے۔ اسی بنا پر ان میں سے بعض حضرات کو اس مقام میں بغیر منازلِ سلوک طے کرنے کے اربابِ سلوک کی فنا و بقا کے مشابہ ایک طرح کی فنا و بقا حاصل ہو جاتی ہے، اور مقامِ تکمیل کا کچھ حصہ بھی جو مقامِ سیر عن اللہ باللہ کے مشابہ ہے، حاصل ہو جاتا ہے کہ جس کے ساتھ یہ لوگ مستعد لوگوں کی تربیت کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس بحث کی تحقیق عن قریب تحریر کی جائے گی۔
اس جگہ ایک نکتہ ہے جس کا جاننا ضروری ہے، وہ یہ کہ روح کو بدن کے ساتھ تعلق ہونے سے پہلے اپنے اپنے مقصود کی طرف ایک قسم کی توجہ حاصل تھی، اور جب (روح) بدن کے ساتھ متعلق ہو گئی تو وہ توجہ بھی زائل ہو گئی۔ اس سلسلۂ عالیہ کے اکابرين نے اس سابقہ توجہ کے ظہور کے لیے ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ لیکن چونکہ روح کا تعلق بدن سے ہے، اس لیے توجۂ قلبی موجود رہتی ہے جو نفس و روح دونوں کی توجہ کی جامع ہے، اور اس میں شک نہیں کہ توجۂ روحی، توجۂ قلبی میں مندرج ہے، لیکن وہ توجۂ روحی جو منتہیوں کو روح کی فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے اور اس کی بقا حقانی وجود کے ساتھ ہے، جس کو ہم بقا باللہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور توجۂ روحی جو قلبی توجہ کے ضمن میں ہے بلکہ روح کی توجہ جو بدن کے ساتھ متعلق ہونے سے پہلے تھی، وہ ایسی توجہ ہے کہ با وجود ہستئ روح ہونے کے، فنا نے اس کی طرف راہ نہیں پائی، اور روح کی ہستی کے وجود کے ساتھ روح کی توجہ کے درمیان، اور روح کی فنا کے ساتھ روح کی توجہ کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ لہٰذا اس توجۂ روحی مندرجہ کو نہایت کہنا اس اعتبار سے ہے کہ وہ روح ہی کی توجہ ہے۔ کیونکہ نہایت میں صرف یہی توجہ باقی رہ جاتی ہے اور بس۔ لہٰذا بدایت میں نہایت کے اندراج سے مراد یہ ہے کہ نہایت کی صورت بدایت میں مندرج ہے نہ کہ نہایت کی حقیقت، کیونکہ اس کا بدایت میں اندراج محال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لفظِ ”صورت“ اس لیے نہ لائے ہوں کہ اس راہ کے طالبوں میں ترغیب اور شوق پیدا ہو۔ حقیقت یہی ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تحقیق کی۔
اور وہ سابقین (سبقت کرنے والے) جن کا انجذاب بے تعمل و بے کسب (یعنی بغیر عملی تکلیف اور بغیر ظاہری کسب کے) ہے، بلکہ وہ توجہ و حضور کے ذریعے آئے ہیں، ان کا انجذاب بھی قلبی ہے، اور روح کی توجہ اس سابقہ توجہ کا اثر ہے جس کا تعلق بدن سے بالکلیہ زائل نہیں ہوا ہے (بلکہ باقی ہے) لہٰذا سابقہ توجہ (روحی) کے ظہور کے لیے کسب و عمل کی ضرورت اس جماعت کے لیے ہے جس نے (بدنی تعلق کی وجہ سے) اس سابقہ توجہ کو فراموش کر دیا ہے۔ گویا کہ کسب، توجہِ سابق کے لیے ایک تنبیہ ہے، اور اس گم شدہ دولت کے لیے یاد دہانی ہے۔ لیکن سابقہ توجہ کے فراموش کرنے والے، سابقانِ مذکورہ سے زیادہ لطیف استعداد رکھنے والے ہیں۔ کیونکہ توجۂ سابق کو بالکلیہ فراموش کر دینا متوجہ الیہ کی طرف بالفعل توجہ کے ساتھ گم ہونے کی خبر دیتا ہے اور توجہ کا عدم نسیان ایسا نہیں ہے۔ غایۃ ما فی الباب (خلاصۂ کلام یہ ہے) کہ سابقین میں وہ توجہ کلی طور پر شمول (عموم) اور سَرَیان (سرایت کر جانا) پیدا کر لیتی ہے اور ان کا بدن بھی روح کی شان کا حکم پیدا کر لیتا ہے جیسا کہ محبوبین اور مرادین کی شان ہے، لیکن شمولِ محبوبان (محبوبوں کی سرايت) اور شمولِ سابقان کے درمیان ایسا ہی فرق ہے جیسا کہ حقیقتِ شئ اور صورتِ شئ میں ہوتا ہے، جس طرح کہ اس کے جاننے والوں پر ظاہر ہے۔ ہاں، محبانِ واصل اور مریدانِ کامل کو بھی اس قسم کے شمول کا تحقق حاصل ہو جاتا ہے، لیکن وہ کالبرق (بجلی کی مانند) ہے، دائمی نہیں ہے، شمولِ دائمی محبوبوں کا خاصہ ہے۔
معرفت:
مجذوبانِ اربابِ قلوب جب مقامِ قلب میں متمکن ہو کر رسوخ (ثبات) پیدا کر لیتے ہیں اور ایک قسم کی معرفت و صحو (عقل و ہوش) جو اس مقام کے مناسب ہے ان کو میسر ہو جاتا ہے، تو وہ بھی طالبوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور ان کی صحبت میں طالبوں کو انجذاب و محبت قلبی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن کمال تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ خود بھی حدِ کمال تک نہیں پہنچ سکے ہیں اس لیے دوسروں کے لیے کمال حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ مشہور ہے کہ ناقص کے ذریعے کوئی بھی کامل نہیں بن سکتا۔ البتہ ان کی فیض رسانی جس قدر بھی ہو ان اربابِ سلوک کے افادے سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کتنا ہی سلوک کی انتہا کو پہنچ جائیں اور منتہیوں والا جذب پیدا کر لیں لیکن وہ مقامِ قلب میں سیر عن اللہ باللہ کے طریق سے نیچے نہیں آئیں گے، کیونکہ وہ منتہی جس نے ابھی عالَم (مخلوق) کی طرف رجوع نہیں کیا وہ تکمیل و افادے کا مرتبہ نہیں رکھتا، کیونکہ عالم کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت اور توجہ نہیں ہوئی جس کے ذریعے وہ فائدہ پہنچا سکے۔
شیخِ مقتدا کو برزخ کہنا اس اعتبار سے ہے کہ وہ مقامِ برزخیت میں (جس کو مقامِ قلب کہتے ہیں) نیچے اُتر آیا ہے اور روح اور نفس، دونوں کی جہت سے اس نے حصۂ وافر حاصل کر لیا ہے۔ روح کی جہت سے وہ اپنے فوق سے فائدہ حاصل کرتا ہے، اور نفس کی جہت سے وہ اپنے ما تحت کو فائدہ پہنچاتا ہے، کیونکہ اس کے لیے حق سبحانہٗ کی توجہ مخلوق کی توجہ کے ساتھ جمع ہو گئی ہے پس (ان دونوں توجہوں میں) کسی قسم کا کوئی حجاب نہیں ہے، لہٰذا ایک ہی وقت میں اس کو افادہ اور استفادہ (دونوں) حاصل ہوتے ہیں۔ بعض مشائخ اس برزخیت کو "بَرزَخِیَّّۃٌ بَیْنَ الخَلْقِ وَ الْحَقِّ" (مخلوق اور حق کے درمیان برزخیت) کہتے ہیں اور شیخ برزخ کو جامع بین التشبیہ و التنزیہ قرار دیتے ہیں۔
پوشیدہ نہ رہے کہ اس قسم کی برزخیت جس کی بنیاد سکر پر ہو شیخی کے مقام کے لائق نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد صحو پر ہے۔ اس لیے کہ ان کا نفس اس مقام میں روح کے انوار کے غلبوں میں مندرج ہوتا ہے اور یہی اندراج سکر کا پیدا کرنے والا ہے، اور قلب کی برزخیت کے مقام میں نفس اور روح ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں لہٰذا لازمی طور پر وہاں سکر کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ وہاں سب صحو ہی صحو ہے جو مقامِ دعوت کے مناسب ہے، یہ بات ذہن نشین رہے۔ جب شیخِ کامل کو مقامِ قلب میں نیچے لاتے ہیں تو اس کو برزخیت کی وجہ سے عالَم (دنیا) کے ساتھ مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مستعد طالبوں کے لیے حصولِ کمالات کا ذریعہ بن جاتا ہے، اور مجذوبِ متمکن چونکہ مقامِ قلب میں ہوتا ہے اس لیے وہ بھی عالَم (مخلوق) کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور اپنی توجہ کو ان سے باز نہیں رکھتا اور انجذاب و محبت سے اگرچہ قلبی ہی ہو، اس میں اس کو حصہ حاصل ہوتا ہے، لہٰذا لازمی طور پر فیض پہنچانے کا دروازہ اس کے لیے کشادہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ مجذوبِ متمکن (مقام ِقلب میں قرار پذیر مجذوب) کی نسبت فائدہ و فیض، مقدار کے لحاظ سے منتہی مرجوع سے زیادہ ہوتا ہے۔ منتہی کے فائدے کی کیفیت اور حالت، مجذوب کے افادے کی کیفیت سے زیادہ ہے، کیونکہ منتہی مرجوع کو بھی اگرچہ عالَم کے ساتھ مناسبت پیدا ہو گئی ہے لیکن وہ ظاہری صورت ہے۔ ورنہ حقیقت میں (وہ منتہی) عالَم سے جدا ہے اور اصل رنگ میں رنگا ہوا ہے اور اس کے ساتھ بقا حاصل کر چکا ہے، اور اس مجذوب کو حقیقتًا اس عالَم کے ساتھ مناسبت ہے اور وہ جملہ افرادِ عالَم میں سے ایک ہے اور اس بقا کے ساتھ وہ باقی ہے جس کے ساتھ عالم باقی ہے۔ پس نا چار طالبین مناسبتِ حقیقی کے باعث مجذوب سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے ہیں اور منتہی مرجوع سے فائدہ کم ہوتا ہے، لیکن کمالاتِ ولایت کے مراتب کا فائدہ منتہی کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا فائدہ پہنچانے کی کیفیت میں منتہی کا پہلو راجح اور غالب ہے۔ اسی طرح منتہی کو حقیقت میں ہمت اور توجہ نہیں ہوتی لیکن مجذوب صاحبِ ہمت و توجہ ہوتا ہے اور اپنی ہمت اور توجہ سے طالب کے کام کو ترقی دے کر آگے بڑھاتا ہے، اگرچہ وہ حدِ کمال تک نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح طالبوں کو مجذوبوں سے جو نہایت توجہ حاصل ہوتی ہے وہ روح کی وہی سابقہ توجہ ہے جو انھوں نے فراموش کر دی تھی، اور ان مجذوبوں کی صحبت میں پھر ان کو یاد آ گئی، اور اندراج کے طریقے پر توجہ قلبی حاصل ہو گئی۔ بخلاف اس توجہ کے جو منتہیوں کی صحبت میں حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ توجہ حادث (نئی) ہے جو اس سے پہلے ان میں ہرگز موجود نہ تھی اور وہ روح کی فنا، بلکہ اس کے وجودِ حقانی کے ساتھ بقا پر موقوف تھی، لہٰذا لازمی طور پر پہلی توجہ اسہل الحصول (یعنی حاصل ہونے میں زیادہ آسان) ہے اور توجہ ثانی متعسر الوجود (یعنی جس کا وجود دشوار) ہے۔ جو چیز آسان ہوتی ہے وہ زیادہ ہوتی ہے اور جو چیز دشوار ہوتی ہے وہ کم سے کم ہوتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جہتِ جذبہ حاصل کرنے میں شیخِ مقتدا کا واسطہ نہیں ہے، کیونکہ وہ نسبت طالب کو پہلے حاصل ہو چکی تھی، وہ صرف نسیان کے باعث تنبیہ اور تعلیم کا محتاج ہو گیا ہے لہٰذا ایسے شیخ کو ”شیخِ تعلیم“ کہتے ہیں نہ کہ ”شیخِ تربیت“۔ جہتِ سلوک میں سلوک کی منازل طے کرنے کے لیے ”شیخِ مقتدا“ درکار ہے، اور اس کی تربیت ضروری ہے۔ شیخِ مقتدا کو چاہیے کہ اس قسم کے مجذوبِ متمکن کو افادۂ عام کی اجازت نہ دے اور اس کو تکمیل و پیری کے مقام پر نہ بٹھائے، کیونکہ طالبوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی استعداد بلند ہوتی ہے اور وہ کمال و تکمیل کی قابلیت اپنے اندر بدرجۂ اتم رکھتے ہیں۔ اس مجذوب کی صحبت میں اگر آ جائیں تو احتمال ہے کہ ان کی استعداد ضائع ہو جائے اور قابلیت بھی ختم ہو جائے۔ مثلًا وہ زمین جس میں گندم کی کاشت کی عمدہ قابلیت ہے اگر اس میں گندم کا اچھا بیج ڈالا جائے تو بیج کی استعداد کے اندازے کے مطابق پیداوار اچھی ہو گی اور اگر اس زمین میں خراب گندم یا چنے کا بیج ڈال دیا جائے تو اچھی کاشت تو کجا، اس کی پیداوار کی استعداد بھی مسلوب و ضائع ہو جائے گی۔
اور اگر بالفرض شیخِ مقتدا اس کو اجازت دینے میں کوئی بہتری و مصلحت دیکھے اور اس میں فائدہ پہنچانے کی کوئی معنویت پائے تو اس کے افادے کو بعض شرائط و قیود کے ساتھ مقید کر دے، مثلًا افادے کے طریق پر طالب کی مناسبت کا ظاہر ہونا، اور اس کی صحبت میں طالب کی استعداد کا ضائع نہ ہونا، اور اس اقتدا و ریاست میں اس کے نفس کا سرکش نہ ہونا، کیونکہ تزکیۂ نفس نہ ہونے کی وجہ سے اس سے ہوائے نفسانی زائل نہیں ہوئی ہے۔ جب اس (مجذوبِ متمکن کو) معلوم ہو جائے کہ طالب اس سے انتہائی فائدہ حاصل کر چکا ہے اور اس طالب کی استعداد میں ابھی ترقی کی قابلیت موجود ہے تو اس کو چاہیے کہ اس پر اس معنیٰ کو ظاہر کر کے رخصت کر دے تاکہ وہ اپنا کام کسی دوسرے شیخ سے مکمل اور پورا کر لے، اور اپنے آپ کو منتہی نہ جانے اور اس حیلہ و بہانہ سے لوگوں کی رہ زنی نہ کرے۔ اسی طرح کی اور شرائط جو اس کے وقت اور حال کے مناسب ہوں، اس کے سامنے بیان کر دے اور ان باتوں کی وصیت کر کے اس کو اجازت دے دے۔ لیکن منتہی مرجوع (الی الخلق) فائدہ اور تکمیل میں ان قیود و شرائط کا محتاج نہیں ہے، کیونکہ اس کو جامعیت کی وجہ سے تمام طریقوں کی استعداد اور مناسبت حاصل ہے لہٰذا ہر شخص اس سے اپنی استعداد اور مناسبت کے لحاظ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگرچہ شیوخ اور مقتداؤں کی صحبت میں مناسبت کے قوی یا ضعیف ہونے کے اعتبار سے جلدی یا دیر میں (فیض یاب ہونے میں) فرق ہے، لیکن اصل فائدہ پہنچانے میں جملہ مشائخ مساوی الاقدام (برابر) ہیں۔
شیخِ مقتدا کے لیے لازم ہے کہ طالب کو فائدہ پہنچانے کے وقت میں حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتا رہے اور اس کی حبلِ متین (مضبوط رسی) کو پکڑے رہے، اور اس شہرت کے ضمن میں (جس میں مکر و استدراج پوشیدہ ہو) حضرتِ حق سبحانہٗ کے خوف سے پناہ مانگے، اور یہ التجا نہ صرف اس معاملہ میں بلکہ تمام معاملات میں اور تمام اوقات میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس کو عطا فرما دی ہے جو اوقات میں سے کسی وقت میں اور افعال میں سے کسی فعل میں اس سے جدا نہیں ہوتی: ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ﴾ (الجمعة: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
مقصدِ ثانی:
ان معارف کے بیان میں جو سلوک سے تعلق رکھتے ہیں۔
جاننا چاہیے کہ جب کوئی طالب طریقۂ سلوک میں فوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اگر وہ اس اسم تک جو اس کا رب ہے پہنچ جائے، اور اس میں فانی و مستہلک ہو جائے تو اس پر فنا کا اطلاق درست ہو جاتا ہے۔ پھر اس اسم کے ساتھ بقا حاصل ہونے کے بعد بقا کا اطلاق اس پر مسلّم ہو جاتا ہے۔ اور اس فنا و بقا کے حصول کے بعد ولایت کے مرتبۂ اولیٰ (پہلے مرتبہ) کے ساتھ مشرف ہو جاتا ہے، لیکن یہاں تفصیل ہے جس کو بسط کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔
تمھید:
وہ فیض جو ذاتِ تعالیٰ و تقدس کی طرف سے پہنچتا ہے دو قسم کا ہے: ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق ایجاد، ابقاء، تخلیق، ترزیق، احیاء اور اماتت (یعنی موجود کرنا، باقی رکھنا، پیدا کرنا، رزق دینا، زندہ کرنا اور مارنا) سے ہے، اسی طرح کی اور بہت مثالیں ہیں، اور دوسری قسم وہ ہے جو ایمان، معرفت اور مراتبِ ولایت و نبوت کے جملہ کمالات سے متعلق ہے۔
پہلی قسم:
صفات کے ذریعے فیض رسانی ہے اور بس۔
دوسری قسم:
بعض کو (فیض) صفات کے ذریعے سے اور بعض کو شیونات کے توسط سے پہنچتا ہے۔ صفات و شیونات کے درمیان بہت باریک فرق ہے جو محمدی المشرب اولیاء کے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں ہوا اور نہ ہی کسی اور نے اس کی نسبت کلام کیا۔ مختصر یہ کہ ”صفات“ ذاتِ تعالیٰ و تقدس پر زائد وجود کے ساتھ خارج میں موجود ہیں اور ”شیونات“ عزّ سلطانہٗ کی ذات میں صرف اعتبارات کے درجے میں ہیں۔
یہ بحث ایک مثال سے واضح و روشن ہو جاتی ہے، مثلًا پانی طبعی طور پر اوپر سے نیچے کو آتا ہے اس کا یہ فعلِ طبعی ہے جو اس کے اندر حیات، علم، قدرت اور ارادہ کا اعتبار پیدا کرتا ہے، کیونکہ اربابِ علم اپنے ثقل کے واسطے سے اور اپنے علم کے تقاضے کے مطابق اوپر سے نیچے آتے ہیں اور فوق کی طرف توجہ نہیں کرتے اور علم حیات کا تابع ہے اور ارادہ علم کا تابع، اس طرح قدرت بھی ثابت ہو گئی کیونکہ ارادے کا استعمال احد المقدورین (دو مقدوروں میں سے ایک کو اختیار کرنا) کی خصوصیت ہے۔
یہ اعتبارات پانی کی ذات میں بمنزلۂ شیونات ہیں، اگر ان اعتبارات کے با وجود پانی کی ذات میں زائد صفات ثابت ہو جائیں تو وہ وجودِ زائد کے ساتھ صفاتِ موجودہ کی طرح ہوں گی، پانی کو اعتباراتِ اولیٰ کی بنیاد پر حیّ، عالم، قادر اور مرید نہیں کہہ سکتے، ان ناموں کے ثابت کرنے کے لیے صفاتِ زائدہ کا ثابت ہونا درکار ہے لہٰذا جو کچھ بعض مشائخ کی عبارت میں پانی کے متعلق مندرجہ بالا اسموں کے ثبوت میں واقع ہوا ہے ان کی بنیاد شیون و صفات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح صفات کے وجود کی نفی کا حکم بھی اس فرق کے معلوم نہ ہونے پر محمول ہے۔ شیون و صفات کے درمیان دوسرا فرق یہ ہے کہ مقامِ شیون صاحبِ شان کے رو برو ہے اور مقامِ صفات ایسا نہیں ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم اور وہ اولیاء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جو آپ کے مبارک نقشِ قدم پر ہیں، ان کو فیضِ ثانی کا وصول شیونات کے توسط سے ہے اور باقی تمام انبیاء صلوات اللہ تعالیٰ و برکاتہٗ علی نبینا و علیہم و علی جمیع اتباعہم اور وہ جماعت جو ان کے نقشِ قدم پر ہے، ان کے لیے اس فیض کا حاصل کرنا بلکہ فیضِ اول کا ان کو پہنچنا بھی صفات کے توسط سے ہے۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ وہ اسم جو آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کا رب ہے اور فیضِ دوم کے وصول کا واسطہ ہے، وہ شانُ العلم کا ظل ہے۔ اور یہ شان تمام اجمالی و تفصیلی شیون کی جامع ہے اور وہ ظل شانِ علم کے لیے ذات تعالیٰ و تقدس کی قابلیت، بلکہ تمام اجمالی و تفصیلی شیون کی قابلیت کے لیے ہے، لیکن شانِ علم کے شمول کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔
جاننا چاہیے کہ یہ قابلیت اگرچہ ذاتِ عزّ شانہٗ اور شانُ العلم کے درمیان برزخ کا درجہ رکھتی ہے لیکن چونکہ اس کی ایک جہت بے رنگ ہے اور وہ ذات تعالیٰ شانہٗ کی جہت ہے، برزخ میں بھی اس کا کوئی رنگ پیدا نہیں ہوتا لہٰذا وہ برزخ بھی دوسری جہت کے رنگ میں ہے جو شان العلم کے رنگ سے رنگین ہے۔ پس لازمی طور پر اِس کو اُس شان کا ظل کہا گیا ہے۔ اسی طرح ظلِ شئ مرتبۂ دوم میں ظہور شئ سے عبارت ہے، اگرچہ وہ شبہ و مثال ہی کی صورت میں ہو، اور چونکہ برزخ کا حصول طرفین کے حصول کے بعد ہے، یقیناً یہ برزخ مکاشفہ کے وقت میں اس شان کے تحت منکشف ہوتا ہے، لہٰذا اس ظہور کے اعتبار سے آخر تک ظلیت کا اطلاق مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اولیاء اللہ کا ایک وہ گروہ جو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ و علیہم و بارک و سلم کے مبارک قدم پر ہے، اور وہ اسماء جو ان کے فیضِ ثانی کے وصول میں ان کے ارباب ہیں، اس جامع قابلیت کے ظلال ہیں اور اس ظلِّ مجمل کے لیے تفصیل کی مانند ہیں اور باقی تمام انبیاء صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علی نبینا و علیہم کے ارباب اور ان کے لیے فیضِ اول و ثانی کے وصول کا واسطہ اتصافِ ذات عزّ سلطانہٗ کی وہ قابلیتیں ہیں جو صفاتِ زائدہ کے ساتھ موجود ہیں، اور وہ گروہ جو ان کے نقش قدم پر ہے ان کے ارباب وہ صفات ہیں جو ان کے لیے فیضِ اول و ثانی کے وصول کے حق میں ہیں۔ اور آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کے لیے فیضِ اول کے وصول کا واسطہ اور ذریعہ تمام صفات کے ساتھ اتصافِ ذاتِ تعالیٰ و تقدس کی قابلیت ہے۔ گویا کہ وہ تمام قابلیتیں جو انبیاء صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہم کے لیے فیوض کے وسائل ہیں، وہ اس قابلیتِ جامع کے ظلال ہیں اور اس جامعِ مجمل کے لیے تفصیلات کی مانند ہیں۔
اور وہ گروہ جو آں سرور علیہ و علیہم الصلوۃ و التحیۃ کے مبارک قدم پر ہے، ان کے لیے بھی فیضِ اول کے پہنچنے کے لیے ذرائع علیحدہ ہیں، کیونکہ وہ صفات ہیں۔ لہٰذا محمدیوں (محمدی المشرب حضرات) کے لیے فیضِ اول کے وسائل و ذرائع فیضِ ثانی کے وصول کے ذرائع سے جدا ہیں‘ بخلاف دوسروں کے، کہ ان کے لیے ایک ہی ذریعہ (یعنی صفات) ہے۔
بعض مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم نے آنحضرت علیہ الصلوۃ و التحیۃ کے رب کو قابلیتِ اتصاف میں منحصر کیا ہے، اس کی وجہ شیون اور صفات کے درمیان فرق نہ ہونا ہے بلکہ مقامِ شیون کا عدمِ علم ہے۔﴿وَ اللهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ ھُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ﴾ (الاحزاب: 4) ترجمہ: ”اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو، اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے“ لہٰذا (یہ بات) تحقیق ہو گئی کہ آں سرور علیہ الصلوۃ و التحیۃ کا رب مقامِ شیون میں اور خانۂ صفات میں بھی رب الارباب ہے، اور ہر دو فیض کے وصول کا واسطہ ہے، اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام کے مراتبِ ولایت کے کمالات کا فیض پہنچنا (حق تعالیٰ کی) ذات سے امرِ زائد (اضافی حکم) کے توسط کے بغیر ہے، کیونکہ شیون عینِ ذاتِ (حق تعالیٰ) ہیں اور ان میں زیادتی کا اعتبار کرنا عقل کے منتزعات (اعتبارات) سے ہے۔ لہٰذا تجلئ ذاتی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم کے لیے مخصوص ہو گئی۔ آپ کے کامل تابع دار چونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم کی راہ سے فیض حاصل کرتے ہیں اس لیے وہ بھی اس مقام سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ دوسروں کے لیے چونکہ صفاتی واسطے درمیان میں ہیں اور صفات وجودِ زائد کے ساتھ موجود ہیں لہٰذا ایک بڑا مضبوط حجاب درمیان میں آ گیا اور تجلئ صفاتی ان کے نامزد ہو گئی۔
جاننا چاہیے کہ ”قابلیتِ اتصاف“ (صفت سے متصف ہونے کی قابلیت) اگرچہ ایک اعتبار ہے لیکن اس کا کوئی وجود زائد نہیں، اور چونکہ صفات موجود ہیں نہ کہ ان کی قابلیت، لیکن چونکہ قابلیتیں ذات و صفات بلکہ شیون و صفات کے درمیان برزخ ہیں اور برزخ اپنی دونوں طرف کا رنگ رکھتا ہے، اس لیے قابلیتوں نے بھی صفات کا رنگ حاصل کر کے حائلیت (حائل یا مانع ہونا) کی حیثیت اختیار کر لی ہے:
فراقِ دوست اگر اندک است اندک نیست
درونِ دیدہ اگر نیم مُوست، بسیار است
ترجمہ:
فراقِ یار اگر کم ہے کم نہیں سمجھو
اگر ہے آنکھ میں کچھ بال، کم نہیں جانو
اس بیان سے واضح ہو گیا کہ ذاتِ تعالیٰ و تقدس کا بے پردہ ظہور، تجلئ شہودی کے منافی نہیں ہے لیکن تجلئ وجودی کے منافی ہے۔ لہٰذا آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے لیے کمالاتِ ولایت کے فیضِ ثانی (یعنی شہودی فیض) پہنچنے کی جانب میں کوئی حجاب حائل نہیں ہوا اور فیضِ اول (وجودی) کے حاصل کرنے کی جانب میں حجاب درمیان میں آ گیا، جو ”قابلیتِ اتصاف“ سے ظاہر ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ ایسا نہ کہا جائے کہ جب شیون اور ان کی قابلیتیں عقل کے اعتبار سے ہوں تو ان کا وجود ذہنی ثابت ہوا اور اسی وجہ سے ”حجابِ علمی“ لازم ہو گیا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ صفاتی حجابات خارجی ہیں اور شیون کے حجابات علمی۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ موجودِ ذہنی دو (2) موجودِ خارجی کے درمیان پردہ نہیں ہو سکتا بلکہ موجودِ خارجی کے لیے صرف موجودِ خارجی ہی پردہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس کو تسلیم بھی کر لیں تو بعض معارف کے حاصل ہونے سے علمی حجابات کا درمیان سے اٹھ جانا ممکن ہے۔ بخلاف خارجی کے، کہ اس کا زائل ہونا ممکن نہیں۔
جب یہ مقدمات معلوم ہو گئے تو جاننا چاہیے کہ (سالک) اگر محمدی (المشرب) ہے تو اس کے سیر کی انتہا جو سیر الی اللہ سے موسوم ہے، اس شان کے ظل تک ہے جو اس کا اسم ہے۔ اس اسم میں فنا ہونے کے بعد فنا فی اللہ سے مشرف ہو جاتا ہے۔ اگر اس کو اس اسم کے ساتھ بقا حاصل ہو گئی تو اس کو بقا باللہ بھی میسر ہو جاتی ہے اور وہ اس فنا و بقا کے ساتھ ولایتِ خاصۂ محمدیہ علی صاحبها الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے مرتبۂ اولیٰ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اگر محمدی مشرب نہیں ہے تو صرف صفت کی قابلیت کے ساتھ یا نفسِ صفت تک پہنچتا ہے جو اس کا رب ہے۔ اور اگر وہ اس اسم میں فانی ہو جائے تو اس پر فانی فی اللہ کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے، اور اسی طرح اس اسم کے ساتھ بقا کی صورت میں وہ باقی باللہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اسمِ ”اللہ“ اس مرتبہ سے مراد ہے جو تمام شیون و صفات کا جامع ہے، اور چونکہ شیون کی جہت میں زیادتی صرف اعتباری ہے اس لیے وہ عینِ ذات ہیں اور ایک دوسرے کا بھی عین ہیں (یعنی وہ امرِ اعتباری عقلی ہے نہ کہ موجود وجودِ خارجی)، لہٰذا ایک اعتبار میں فنا ہونا تمام اعتبارات میں بلکہ ذات تعالیٰ و تقدس میں فنا ہونا ہے، اسی طرح ایک اعتبار میں بقا ہونا تمام اعتبارات میں بقا ہونا ہے۔ پس اس صورت میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کہنا درست ہو جاتا ہے۔ بخلاف صفات کی جانب کے جو ذات (تعالیٰ) پر وجود زائدہ کے ساتھ موجود ہیں، ان کی مغائرت ذات عزّ سلطانہٗ کے ساتھ اور (آپس میں) ایک دوسرے کے ساتھ تحقیقی ہے نہ کہ اعتباری، لہٰذا ایک صفت میں فانی ہونا تمام صفات میں فانی ہونے کو مستلزم نہیں ہے اور اسی طرح بقا کا حال ہے، لہٰذا مجبورًا اس فانی کو فانی فی اللہ اور باقی کو باقی باللہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ مطلق فانی اور باقی کہہ سکتے ہیں، یا کسی ایک صفت کے ساتھ مقید کر کے کہہ سکتے ہیں (جیسے) علم کی صفت میں فانی ہے یا صفتِ علم کے ساتھ باقی ہے۔ لہٰذا نا چار محمدیوں (محمدی مشرب) کی فنا سب سے اتم اور ان کی بقا سب سے اکمل ہے۔
اسی طرح محمدی (مشرب) کا عروج چونکہ شیون کی جانب ہے اور شیون کو عالم کے ساتھ کچھ بھی مناسبت نہیں ہے کیونکہ عالم صفات کا ظل ہے نہ کہ شیون کا ظل، لہٰذا سالک کا ایک شان میں فنا ہونا اس کی فنائے مطلق کو مستلزم ہو گیا اس طرح پر کہ سالک کے وجود کی بقا اور اس کا کچھ اثر باقی نہ رہے گا، اور اسی طرح بقا کی صورت میں کامل طور پر اس شان کے ساتھ باقی ہو جاتا ہے۔ بخلاف فانی فی الصفات کے، کہ جو مکمل طور پر اپنے سے باہر نہیں آتا اور اس کا اثر زائل نہیں ہوتا کیونکہ سالک کا وجود اسی صفت کا اثر ہے اور اسی کا ظل ہے، لہٰذا اصل کا ظہور ظل کے وجود کو مکمل طور پر محو کرنے والا (نیست و نا بود کرنے والا) نہیں ہوتا، اور بقا بھی فنا کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ لہٰذا محمدی (مشرب) بشری صفات کی طرف لَوٹ آنے سے مامون و محفوظ ہوتا ہے اور ردّ کے خوف سے محفوظ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ کُلّی طور پر اپنے آپ سے نکل کر حق سبحانہٗ کے ساتھ بقا حاصل کر چکا ہے۔ اس مقام میں عَود (رجوع کرنا) محال ہے، بخلاف فنائے صفاتی کی صورت کے، کیونکہ اس جگہ وجودِ سالک کا اثر باقی رہنے کی وجہ سے عَود کرنا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے درمیان (صفاتِ بشری کی طرف) واصل کے رجوع کرنے کے جواز یا عدم جواز میں جو اختلاف ہے وہ اسی سبب سے ہو، لیکن حق یہ ہے کہ اگر وہ محمدی (مشرب) ہے تو عَود سے محفوظ ہے ورنہ معاملہ خطرے میں ہے۔ اسی طرح وہ اختلاف جو (مشائخ کے درمیان) سالک کی فنا کے بعد وجودِ سالک کے اثر کے زوال پزیر ہونے میں ہے، بعض (مشائخ) زوالِ عین و اثر کے قائل ہیں (یعنی وہ ذات و صفات کے زوال کے قائل ہیں) اور بعض نے اثر کے زوال کو جائز قرار نہیں دیا، اس معاملے میں بھی (حق بات جاننے کے لیے) تفصیل کی ضرورت ہے۔ اگر (وہ شخص) محمدی (مشرب) ہے تو عین اور اثر دونوں کو گُم کر دیتا ہے اور اگر وہ غیر (محمدی مشرب) ہے تو اس (کے وجود) کا اثر زائل نہیں ہوتا، کیونکہ وہ صفت جو اس کی اصل ہے وہ باقی ہے لہٰذا اس کے ظل کا بالکلیہ زوال ممکن نہیں۔
یہاں ایک نازک نکتہ ہے، جاننا چاہیے کہ عین و اثر کے زوال سے مراد زوالِ شہودی ہے نہ کہ وجودی۔ کیونکہ زوالِ وجودی کا قول الحاد و زندقہ (بے دینی) کو لازم آتا ہے، اور اس گروہ کی ایک جماعت نے زوالِ وجودی تصور کیا ہے اور ممکن کے اثر کے زوال سے اعراض کیا ہے اور اس کو الحاد و زندقہ سمجھ لیا ہے، لیکن حق بات وہی ہے جس کو میں نے حق سبحانہٗ کے اطلاع دینے پر تحقیق کیا ہے۔
تعجب ہے کہ (یہ لوگ) زوالِ وجودی کے قائل ہونے کے با وجود زوالِ عین کے بھی قائل ہو گئے ہیں، کیونکہ عینِ وجود کے زوال کا حکم کرنا اثر کے زوال کے رنگ میں مستلزمِ الحاد و زندقہ ہے۔ مختصر یہ کہ زوالِ وجودی عین و اثر میں محال ہے اور زوالِ شہودی ہر دو میں ممکن، بلکہ واقع ہے لیکن (یہ زوال) محمدی مشرب والوں کے لیے مخصوص ہے، کیونکہ محمدی (مشرب والے) کُلّی طور پر قلب سے نکل کر مقلبِ قلب (حق تعالیٰ) تک پہنچ جاتے ہیں اور احوال کے بدلنے سے محفوظ ہیں اور غیرِ حق کی غلامی سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ دوسروں کو چونکہ وجودِ آثار دامن گیر ہے، نيز احوال کی تبدیلی ان کا نقدِ وقت ہے، اس لیے مقامِ قلب سے خلاصی نہیں پا سکتے، کیونکہ ان کا وجود آثار اور تبدیلئ احوال حقیقتِ جامعہ قلبیہ کے نور کی شاخوں میں سے ہے۔ لہٰذا دوسروں کا شہود ہمیشہ پردے میں ہو گا کیونکہ جس قدر بھی سالک کے وجود کا بقیہ حصہ ثابت ہے، مطلوب کا پردہ بھی اسی قدر ہے، اور جب اثر باقی ہے تو وہی اثر پردہ ہے۔
معرفت:
اگر سالک غیر متعارف سلوک کے راستے سے مراتبِ فوق کے اسم میں سے کسی مرتبہ میں پہنچے جو اس کا رب ہے، اور بغیر اس کے کہ اس اسم میں پہنچے، اس مرتبہ میں (پہنچنے سے پہلے ہی) فانی اور مستہلک ہو جائے تو ایسی حالت میں بھی فنا فی اللہ کہنا درست ہے۔ یہی حال اس مرتبے میں بقا کا ہے، لہٰذا اس اسم کے ساتھ فنا فی اللہ کی تحقیق اس اعتبار سے ہے کہ تمام فناؤں کے مراتب میں سے یہ پہلا مرتبہ ہے۔
معرفت:
سلوک کی کئی قسمیں ہیں: (1) بعض کا سلوک جذبے پر مقدم ہے، (2) اور بعض کا جذبہ سلوک پر مقدم ہے، (3) اور ایک جماعت کو سلوک کی منزلیں طے کرنے کے دوران جذبہ حاصل ہو جاتا ہے، (4) اور ایک جماعت کو سلوک کی منازل کا طے کرنا تو میسر ہو جاتا ہے لیکن جب تک وہ جذبے کی حد تک نہیں پہنچتے۔ جذبے کا (سلوک پر) مقدم ہونا صرف محبوبوں کے لیے ہے اور باقی قسمیں محبّین سے تعلق رکھتی ہیں۔ محبّوں کے راہِ سلوک طے کرنے سے مراد دس مشہور مقامات کو ترتیب و تفصیل کے ساتھ طے کرنا ہے، اور محبوبوں کے سلوک میں دس مقامات کا خلاصہ حاصل ہو جاتا ہے، ان کو ترتیب و تفصیل سے کوئی سروکار نہیں۔ وحدتِ وجود اور اس کی مانند احاطہ و سَرَیان اور معیتِ ذاتیہ کا علم جذبۂ مقدم یا متوسط کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن سلوکِ خالص اور منتہی حضرات کے جذبے کو اس قسم کے علوم سے کوئی مناسبت نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، اور منتہی حضرات کے حق الیقین کو بھی توحیدِ وجودی کے ساتھ مناسبت رکھنے والے علوم سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ جس جگہ بھی اربابِ توحیدِ وجودی کے مقام کے مناسب حق الیقین کا بیان کیا گیا ہے، وہ مجذوبانِ مبتدی یا متوسط کا حق الیقین ہے (نہ کہ منتہی حضرات کا حق الیقین)
معرفت:
بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ جب طالب کا کام جذبے تک پہنچ جاتا ہے تو پھر جذبہ ہی اس کا رہبر بن جاتا ہے اور بس۔ یعنی اس کو کسی دوسرے رہبر کے توسط کی ضرورت نہیں بلکہ وہی جذبہ اس کے لیے کافی ہے۔ اگر اس جذبے سے سیر فی اللہ کا جذبہ مراد ہے تو بس یہ کافی ہے لیکن لفظِ ”رہبر“ اس ارادہ کے منافی ہے۔ کیونکہ سیر فی اللہ کے بعد کوئی مسافت (سیر) نہیں ہے کہ جس کو طے کرنے کے لیے وہ رہبر کا محتاج ہو۔ اسی طرح جذبۂ متقدم بھی مراد نہیں ہے جیسا کہ عبارت سے متبادر (بظاہر) مفہوم ہوتا ہے (یعنی جذبۂ متقدم مطلقًا انجامِ کار سلوک کی طرف لے جائے یا نہ لے جائے، وہ جذبہ ہے)۔ لہٰذا ناچار جذبۂ متوسط ہی مراد ہو گا لیکن وہ مطلوب کے وصول کی پوری کفالت کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ بہت سے متوسط اس جذبہ کے حصول کے وقت فوق کی طرف عروج کرنے سے رہ جاتے ہیں اور اسی جذبے کو جذبۂ نہایت سمجھ لیتے ہیں۔ اگر یہ (جذبہ) کافی ہوتا تو (ان کو) راستے میں نہ چھوڑ دیتا۔ ہاں، چونکہ جذبۂ مقدم کا تعلق محبوبوں سے ہے، اگر کافی حاصل ہو جائے تو بھی گنجائش رکھتا ہے۔ کیونکہ محبوبوں کو محض عنایتِ قلابہ (حلقہ) سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور راستے میں نہیں چھوڑتے، لیکن یہ کفایت تمام متقدم جذبات کے حق میں بھی ممنوع ہے۔ صرف وہ جذبہ جو انجام کار سلوک کی طرف کھینچ لے وہی کافی ہے۔ اگر وہ سلوک تک نہیں آیا تو یہ مجذوب ابتر (بے نصیب) ہے اور محبوبوں میں سے نہیں ہے۔
خاتمہ:
مشائخِ کرام قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ تجلئ ذاتی شعور کو زائل کرنے والی اور حواسِ ظاہرہ کو معطل کرنے والی ہے۔ ان میں سے بعض نے اپنے حال کی نسبت ایسا کہا ہے کہ اس تجلئ ذاتی کے ظہور کے وقت ایک عرصے تک وہ بے حس و حرکت پڑے رہے اور لوگوں نے ان کو مردہ خیال کر لیا۔ بعض دوسروں نے تجلئ ذات میں کلام کرنے اور اس کے سوا سے منع کیا ہے۔ اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ تجلئ ذات اسماء میں سے ایک قسم کے پردے میں ہے، اور پردے کا باقی رہنا صاحبِ تجلی کے وجود کے اثر کی بقا کے باعث ہے، اور وہ بے شعوری اس بقیہ (اثر کے) واسطے سے ہے۔ اگر وہ کُلی طور پر فانی ہو جاتا اور بقا باللہ سے مشرف ہو جاتا تو وہ تجلی اس کو ہر گز بے شعور نہ کرتی:
یُحْرَقُ بِالنَّارِ مَنْ یَّمُسُّ بِھَا
وَ مَنْ ھُوَ النَّارُ کَیْفَ یُحَرَّقُ
ترجمہ:
جو چھوئے آگ وہ جلا دے گی
جو ہو خود آگ اُسے جلائے کون؟
(اس شعر میں) پہلا شخص جو آگ کو چُھونے والا ہے، اس لیے آگ اس کو چھوتے ہی جلا دے گی اور لا شئ (نیست و نا بود) کر دے گی، اور دوسرا وہ شخص ہے جو عین آگ ہے، اس لیے آگ آگ کو کیسے جلائے گی؟ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جو تجلی کسی پردے میں ہوتی ہے وہ تجلئ ذات نہیں ہے بلکہ تجلئ صفات میں داخل ہے، کیونکہ تجلئ ذات جو آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے لیے مخصوص ہے وہ تجلی بے پردہ ہے، اور پردے کی علامت بے شعوری ہے اور بے شعوری، دوری کی وجہ سے ہے اور بے پردگی کی دلیل شعور ہے اور شعور کمالِ حضور کی شان ہے۔ ایک بزرگ علیہ الغفران (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) نے اس تجلی بالاصالت و الاستقلال (جو اصالت واستقلال کے ساتھ ہے) کے بارے میں اس طرح خبر دی ہے اور کہا ہے:
موسیٰ زہوش رفت بیک پرتوِ صفات
تو عینِ ذات می نگری در تبسّمی
اک پرتوِ صفات سے موسیٰ نے کھوئے ہوش
اور آپ ﷺ عینِ ذات بھی دیکھیں تو مسکرائیں
اور یہی تجلئ ذاتی جو بے پردہ ہے وہ محبوبوں کو دائمی طور پر حاصل ہے اور محبّوں کے لیے برقی (کیفیت رکھتی) ہے، کیونکہ محبوبوں کے ابدان (اجسام) نے ان کی ارواح کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور وہ نسبت کُلی طور پر ان میں سرایت کر گئی ہے، اور محبّوں میں یہ سرایت کہیں کہیں ہے (ہر کسی کو میسر نہیں) اور جو کچھ کہ حدیث نبوی علیہ من الصلوات أتمہا و من التحیات أکملہا میں واقع ہوا ہے: "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ'' ترجمہ: ’’مجھ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص وقت حاصل ہے‘‘۔ اس (حدیث) میں وقت سے مراد یہ برقی تجلی نہیں ہے، کیونکہ تجلی آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کے حق میں (جو تمام مرادوں اور محبوبوں کے بادشاہ ہیں) دائمی ہے، بلکہ ”وقت“ سے اس دائمی تجلی کی ایک خاص قسم کی خصوصیت مراد ہے جو بر سبیلِ قلّت (بہت کم) حاصل ہوتی تھی جیسا کہ اربابِ (طریقت) پر پوشیدہ نہیں ہے۔
معرفت:
مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے اس حدیث "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِيْ فِیْہِ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ"2 ترجمہ: ’’مجھ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت حاصل ہے جس میں کسی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل کی گنجائش نہیں‘‘۔ کی وضاحت میں دو گروہ ہیں، ایک گروہ نے ”وقت“ سے دائمی وقت مراد لیا ہے اور دوسرا گروہ ندرتِ وقت (شاذ و نادر) کا قائل ہے، لیکن صحیح بات ہے کہ استمرارِ وقت (دائمی حضور) کے با وجود شاذ و نادر وقت بھی متحقق ہے، جیسا کہ (پیشتر) اس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ اور اس حقیر کے نزدیک اس نادر ”وقت“ کی تحقیق نماز ادا کرنے کے وقت میں ہے۔ شاید کہ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام نے حدیث شریف "قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِي الصَّلٰوۃِ"3 ترجمہ: ’’میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ نیز اسی طرح آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ نے فرمایا: "أَقْرَبُ مَا يَكونُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِي الصَّلٰوۃِ"4 ترجمہ: ’’سب سے زیادہ قرب بندہ کو اپنے رب سے نماز میں ہوتا ہے‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَا سْجُدْ وَ اقْتَرِبْ﴾ (العلق: 19) ترجمہ: ”اور سجدہ کرو، اور قریب آ جاؤ“۔ لہٰذا ہر اس وقت میں جب قرب الہٰی جلّ شانہٗ زیادہ حاصل ہوتا ہے، اس وقت میں غیر کی گنجائش ہرگز نہیں ہو گی، اور جو کچھ بعض مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے فرمایا ہے اور اپنے حال کی قوت اور اس کے دائمی ہونے کی اس طرح خبر دی ہے: ”میرا حال نماز میں بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ نماز سے قبل ہوتا ہے“ پس احادیث مذکورہ، بلکہ نص مذکورہ مساوات اور استمرار کی نفی کرتی ہیں۔
جاننا چاہیے کہ استمرارِ وقت تحقیق شدہ ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ استمرار کے با وجود حالتِ نادرہ بھی واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ ایک جماعت جس کو ندرتِ وقت کی اطلاع نہیں دی گئی وہ اس کی نفی کے قائل ہو گئے، اور دوسری جماعت جس کو اس مقام سے بہرہ ور کیا گیا اُنہوں نے اس نادر وقت کا اقرار کر لیا۔ سچی بات یہ ہے کہ جس شخص کو آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے طفیل نماز میں جمعیت عطا کی گئی ہو اور اس قرب کی دولت میں سے تھوڑا سا حصہ عطا کیا گیا ہو وہ بہت ہی کم ہیں۔ رَزَقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ بِکَمَالِ کَرَمِہٖ نَصِیْبًا مِّنْ ھٰذَا الْمَقَامِ بِحُرْمَۃِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلٰوۃُ وَ التَّحِیَّۃُ وَ السَّلَامُ (اللہ سبحانہٗ اپنے کمالِ کرم سے حضرت محمد رسول اللہ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و التحیۃ و السلام کے طفیل ہم کو بھی اس مقام سے حصہ عطا فرمائے۔ آمین!)
معرفت:
صفات کے منتہی حضرات، علوم و معارف میں مجذوبوں سے نزدیک ہیں اور شہود کی دولت میں بھی دونوں کی شان یک رنگ ہے، کیونکہ دونوں اربابِ قلوب میں سے ہیں۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ اربابِ صفات تفاصیل سے مطلع ہیں بخلاف مجذوبوں کے (کہ وہ تفاصیل سے مطلع نہیں) اور اسی طرح اربابِ صفات سلوک اور فوق کی طرف عروج کرنے کی وجہ سے ان مجذوبوں کی نسبت (جنہوں نے عروج نہیں کیا) زیادہ قرب رکھتے ہیں، لیکن اصل کی محبت ان (مجذوبوں) کی دامن گیر ہے، اگرچہ حجاب درمیان میں ہے۔ کیا عجب ہے اگر "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2640) ترجمہ: ’’آدمی اسی کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے‘‘۔ کے تحت مجذوبوں میں بھی اصلی قرب و معیت کا اعتبار کیا جائے، کیونکہ مجذوب بھی محبت میں محمدیوں کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں، اگرچہ محبتِ ذاتی میں حجابات حائل ہیں لیکن مجذوبوں میں بھی محبت پائی جاتی ہے۔
معرفت:
اس گروہِ (صوفیا) کے بعض لوگوں کی عبارت میں واقع ہے کہ اقطاب کے لیے تجلئ صفات ہے اور افراد کے لیے تجلئ ذات۔ یہ بات غور طلب ہے کیونکہ قطب محمدی مشرب ہوتا ہے اور محمدیوں کے لیے تجلئ ذات ہے، ہاں اس تجلئ (ذات) میں بھی بہت فرق ہے۔ وہ قرب جو افراد کو حاصل ہے اقطاب کو نہیں ہے، لیکن دونوں کو تجلیٔ ذات سے حصہ حاصل ہے، ہاں اگر ہم یہ کہیں کہ قطب سے مراد قطبِ ابدال ہے جو کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، نہ کہ حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم کے قدمِ مبارک پر (تو پھر یہ بات درست ہے)۔
معرفت:
"إِنَّ اللهَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِهٖ" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2612) ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا‘‘۔ اللہ تعالیٰ بے چون و بے چگونہ (بے مثل و بے کیف) ہے۔ اس نے آدم علیہ السلام کی روح کو بھی جو آدم کا خلاصہ ہے، بے چون و بے چگون کی صورت پر پیدا کیا۔ لہٰذا جس طرح کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ لا مکانی ہے، روح بھی لا مکانی ہوئی، اور روح کو بدن کے ساتھ وہی نسبت ہے جو حق تعالیٰ و تقدس کو عالَم کے ساتھ ہے، کہ نہ عالم میں داخل ہے نہ خارج میں، نہ متصل ہے نہ منفضل، اور قیومیت (یعنی تدبیر و تصرف کی نسبت) سے زیادہ کوئی نسبت مفہوم نہیں ہوتی۔ روح بدن کے ذرات میں سے ہر ذرے کی منتظم اور درست رکھنے والی ہے، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ ”قیومِ عالم“ (یعنی مدبر و متصرف) ہے، بدن کے لیے اللہ تعالیٰ کی قیومیت، روح کی قیومیت کے واسطے سے ہے، جو فیض بھی (حق تعالیٰ کی طرف سے) وارد ہوتا ہے اس فیض کا محلِ ورود اولًا اور ابتداءً روح ہے، پھر روح کے واسطے سے وہ فیض بدن کو پہنچتا ہے، اور جب کہ روح بے چونی و بے چگونگی کی صورت پر پیدا کی گئی ہے تو لازمی طور پر بے چون و بے چگونِ حقیقی کی اس میں گنجائش ہو گئی، جیسا کہ اس حدیث شریف سے ثابت ہے "مَا وَسِعَنِيْ أَرْضِيْ وَ لَا سَمَآئِيْ وَ وَسِعَنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنْ" ترجمہ: ”میری گنجائش نہ میری زمین رکھتی ہے اور نہ میرا آسمان، البتہ میری گنجائش میرے مؤمن بندہ کا قلب ہے“۔ کیونکہ آسمان و زمین اس قدر وسعت و فراخی کے با وجود دائرۂ مکان میں داخل ہیں اور چونی و چگونی کے داغ سے داغ دار ہیں، اس لیے لا مکانی کی جو چندی و چونی (کمیت و کیفیت اور مقدار) سے مقدس اور پاک ہے، گنجائش نہیں رکھتے۔ کیونکہ لا مکانی مکان میں سمانے کی گنجائش نہیں رکھتی، اور بے چون، چون میں آرام حاصل نہیں کر سکتا، تو لا محالہ عبدِ مؤمن کے قلب میں (جو لا مکانی اور چندی و چونی سے پاک و مبرا ہے) گنجائش متحقق ہو گئی۔ مؤمن بندے کے قلب کی خصوصیت اسی بِنا پر ہے کہ غیر مؤمن کامل کا قلب لا مکانی کی بلندی سے نیچے آ چکا ہے اور چندی و چونی میں گرفتار ہو کر اس کا حکم اختیار کر چکا ہے، لہٰذا اس نزول اور گرفتاری کی وجہ سے دائرۂ مکانی میں داخل ہو گیا ہے اور چونی پیدا کر کے اس قابلیت کو ضائع کر دیا ہے۔ ﴿أُولٰٓئِکَ کَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179) ترجمہ: ”وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں“۔ جن مشائخ نے اپنے وسعتِ قلب کی نسبت خبر دی ہے تو ان کی مراد قلب کی لا مکانیت ہو گی۔ کیونکہ مکان خواہ کتنا ہی فراخ اور وسیع ہو پھر بھی تنگ ہی ہے۔ عرش اپنی عظمت اور فراخی کے با وجود چونکہ مکانی ہے اس لیے لا مکانی (روح) کے مقابلے میں رائی کے دانے کا حکم رکھتا ہے، بلکہ اس سے بھی کم تر۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قلب چونکہ انوارِ قِدم (ازل) کی تجلی کا محل بن چکا ہے اور قدیم (یعنی اللہ تعالیٰ) کے ساتھ بقا حاصل کر چکا ہے، اس لیے عرش اور جو کچھ اس میں ہے اگر اس میں ڈال دیئے جائیں تو محو اور لا شے ہو جائیں اور ان کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔ جیسا کہ سید الطائفہ (جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس مقام پر فرمایا ہے کہ ”جب مُحْدَثْ (فانی) قدیم کے ساتھ مل جائے تو اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا“۔
یہ ایک ایسا یکتا لباس ہے جو خاص روح کے قد پر سیا گیا ہے، ملائکہ کو بھی یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ بھی دائرہ مکان میں داخل ہیں اور چون سے متصف ہیں۔ اسی لئے انسان خلیفۂ رحمٰن جلّ سلطانہٗ قرار پایا۔ ہاں صورتِ شئے ہی خلیفۂ شئے ہوتی ہے، جب تک شئے (اصل) کی صورت پر مخلوق (پیدا) نہ کی گئی ہو (اس وقت تک) اصل شئے کی خلافت کے شایاں نہیں ہو سکتی، اور جب تک خلافت کے لائق نہ ہو اصل کی امانت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی "لَا یَحْمِلُ عَطاَیَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَایَاہُ" (بادشاہوں کے عطیات ان کی سواریاں ہی اٹُھا سکتی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُؕ إِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ﴾ (الاحزاب: 72) ترجمہ: ”ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کا بوجھ اٹھا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم، بڑا نادان ہے“۔ (یعنی انسان) اپنے نفس پر اس حیثیت سے بہت ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے وجود اور توابعِ وجود کا کوئی اثر اور حکم باقی نہیں چھوڑتا، اور زیادہ نا دان اور جاہل اس اعتبار سے ہے کہ اس کو اپنے مقصود سے متعلق کچھ ادراک نہیں اور نہ ہی اس کو اتنا علم ہے کہ اپنے مطلوب کی نسبت معلوم کر سکے، بلکہ اس مقام میں ادراک سے عاجز ہونا ہی ادراک ہے، اور جہالت کا اعتراف ہی معرفت ہے، البتہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہو گی وہ سب سے زیادہ حیرت میں ہو گا۔
تنبیہ:
اگر بعض عبارات میں کوئی ایسا لفظ واقع ہو جائے جس سے حق تعالیٰ و تقدس کی شان میں ظرفیت و مظروفیت ہونے کا وہم ہوتا ہو تو اس کو میدانِ عبارت کی تنگی پر محمول کرنا چاہیے اور کلام کی مراد کو علماءِ اہلِ سنت کی آراء کے مطابق سمجھنا چاہیے۔
معرفت:
عالَم خواہ صغیر (انسان) ہو یا کبیر (مجموعۂ کائنات)، سب اسماء اور صفاتِ الہٰیہ تعالیٰ شانہٗ کے مظاہر ہیں اور اس سبحانہٗ و تعالیٰ کے شیون و کمالاتِ ذاتیہ کے آئینے ہیں۔ وہ سبحانہٗ و تعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا اور ایک پوشیدہ راز تھا، اس نے چاہا کہ پوشیدگی سے ظہور میں جلوہ گر ہو اور اپنے آپ کو اجمال سے تفصیل میں لائے، (چنانچہ اس نے) عالَم کو پیدا کیا تاکہ اپنی اصل پر دلالت کرے اور اپنی حقیقت پر علامت ہو۔ لہٰذا عالَم کو اپنے صانعِ بے چون کے ساتھ اس کے سوا کوئی نسبت نہیں کہ عالَم (دنیا) اس کی مخلوق ہے اور اس تعالیٰ و تقدس کے پوشیدہ کمالات پر دلیل ہے۔ اس نسبت کے علاوہ ہر حکمِ اتحاد و عینیت اور احاطہ و معیت وغیرہ یہ سب سُکرِ وقت اور غلبۂ حال کی قسم سے ہیں۔ مستقیم الاحوال اکابر جنھوں نے ان کے صحو (ہوش) کے جام سے گھونٹ پی لیا ہے وہ بھی ان علوم سے بے زار اور استغفار کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض کو راہِ سلوک کے دوران یہ علوم بھی حاصل ہو جاتے ہیں، لیکن آخر کار ان علوم سے گزار دیتے ہیں اور علومِ شریعت کے مطابق ان پر علومِ لَدُنّی وارد فرماتے ہیں۔
اس بحث کی تحقیق کے لیے ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں، ایک نہایت ہوشیار عالِم صاحبِ فنون جب چاہتا ہے کہ اپنے پوشیدہ کمالات کے خزانے کو ظہور کے میدان میں لائے اور اپنے پوشیدہ فنون کو برملا ظاہر کرے تو وہ حروف و اصوات (آواز) کو ایجاد کرتا ہے تاکہ ان حروف و آواز کے پردوں میں ان کمالات کے جلوؤں کو ظاہر کر کے اپنے فنون کا اظہار کرے، لہٰذا ایسی صورت میں یہ حروف و اصوات اس کے پوشیدہ معنوں پر دلالت کرنے والے ہوں گے، لیکن اس عالِم موجد کے ساتھ ان کو اس کے علاوہ کوئی نسبت نہیں کہ وہ عالِم ان کا موجد ہے اور یہ سب اس کے پوشیدہ کمالات پر دلالت کرنے والے ہیں۔ حروف و اصوات کو اس عالِم موجد کا عین یا ان معانی کا عین کہنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، اور اسی طرح احاطہ و معیت کا حکم کرنا بھی اس واقعہ میں غیر متحقق ہے۔ معانی اپنی اسی پوشیدہ سادگی میں ہیں۔ ہاں جس طرح معانی اور صاحبِ معانی اور حروف و اصوات کے درمیان دال اور مدلول ہونے کی نسبت موجود اور متحقق ہے، اسی لیے بعض معانی زائدہ غیر واقع تخیل میں آ جاتے ہیں۔ حقیقت میں وہ عالِم اور اس کے پوشیدہ معانی اس نسبتِ زائدہ سے منزہ و مبرا ہیں اور یہ حروف و اصوات خارج میں موجود ہیں نہ یہ کہ وہ عالِم اور معانی موجود ہیں، اور وہ حروف و اصوات محض اوہام و خیالات ہیں۔ پس عالَم (جو ما سوا اللہ سے مراد ہے) وجودِ ظِلّی اور کونِ تبعی کے ساتھ خارج میں موجود ہے، نہ کہ عالَم اوہام و خیالات ہے۔ یہ مذہب بعینہٖ سوفسطائی مذہب کے مطابق ہے جو عالَم کو اوہام و خیالات جانتا ہے اور کہتا ہے کہ عالم میں حقیقت کو ثابت کرنا عالم کو اوہام و خیالات سے نہیں نکالتا، اور اس صورت میں حقیقت موجود ہو گی نہ کہ عالَم۔ کیونکہ عالَم اس حقیقتِ مفروضہ کے علاوہ ہے۔
تنبیہ:
عالَم کا اس تعالیٰ کے اسماء و صفات کا مظہریت اور مرآتیت (ظاہر ہونا اور آئینہ ہونے) سے مراد یہ ہے کہ وہ اسماء و صفات کی صورتوں کا مظہر اور آئینہ ہے، نہ کہ اسماء و صفات کے آئینے۔ کیونکہ اسم بھی مسمیٰ کی مانند کسی آئینے میں محدود نہیں ہو سکتا، اور صفت بھی (اپنے بے مثل) موصوف کی طرح کسی مظہر میں مقید نہیں ہو سکتی:
در تنگنائے صورت معنی چگونہ گنجد
در کلبۂ گدایاں سلطان چہ کار دارد
ترجمہ:
صورت کے تنگ گھر میں معنی کہاں سے آئے
منگتے کی جھونپڑی کیوں بادشاہ جائے
معرفت:
آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی کامل تابع داری کرنے والے اگرچہ آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی اتباع کی برکت سے اس تجلئ ذات سے، جو بالاصالت آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام کا خاصہ ہے، بہرہ مند ہیں، اور باقی تمام انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوات و التحیات و التسلیمات کے لیے تجلیاتِ صفات ہیں، اور تجلئ ذات، تجلئ صفات سے اشرف ہے، لیکن جاننا چاہیے کہ انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوات و التحیات و التسلیمات کو تجلیاتِ صفات میں قُرب کے وہ مراتب حاصل ہیں جو اس امت کے کامل تابع داروں کو بطریقِ تبعیت تجلیٔ ذاتی حاصل ہونے کے با وجود حاصل نہیں ہیں۔ مثلًا کوئی شخص ”جمالِ آفتاب“ کی محبت میں عروج کے مدارج طے کرتا ہوا سورج تک پہنچ جائے اور سورج اور اس کے درمیان سوائے ایک باریک پردے کے کچھ بھی حائل نہ رہے اور ایک دوسرا شخص جو ”ذاتِ آفتاب“ کی محبت کے با وجود ان مراتب تک عروج کرنے سے عاجز ہے اگرچہ اس شخص کے اور آفتاب کے درمیان کوئی پردہ حاصل نہ ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا شخص آفتاب سے زیادہ نزدیک ہے اور اس کے کمالاتِ دقیقہ کو زیادہ جاننے والا ہے۔ پس جس کو قرب زیادہ حاصل ہے وہ معرفت میں بھی زیادہ فاضل تر ہے۔ لہٰذا اس امت کے اولیاء میں سے جو کہ ”خیر الامم“ ہے، کوئی ولی اپنے پیغمبر کی افضلیت کے با وجود انبیاء میں سے کسی نبی کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا، اگرچہ وہ (ولی) اپنے پیغمبر کی متابعت کی وجہ سے اس مقام سے جس کے ساتھ اس کو افضلیت حاصل ہے، بہرہ مند ہو چکا ہو۔ کیونکہ کُلی فضیلت صرف انبیاء کرام علیہم السلام کو حاصل ہے اور اولیاء ان کے طفیلی ہیں۔ ہم اسی مضمون پر اپنے کلام کو ختم کرتے ہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ سُبْحَانَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ وَ عَلٰی جَمِیْعِ نَعْمَائِہٖ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی أَفْضَلِ أَنْبِیَائِہٖ وَ عَلٰی جَمِیعِ الْأَنْبِیَاءِ وَ الْمُرْسَلِینَ وَ الْمَلَائِکَۃِ الْمُقَرَّبِینَ وَ عَلَی الصِّدِّیقِینَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصَّالِحِینَ (اس نعمت پر اور تمام نعمتوں پر اللہ سبحانہٗ کی حمد ہے، اور انبیاء میں سے افضل نبی اور تمام انبیاء و مرسلین و ملائکۃ المقربین، صدیقین، شہدا اور صالحین پر صلوٰۃ و سلام ہو)
ختم شُد
1 آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کے نام دو مکتوبات ہیں، ایک تو یہی اور دوسرا دفتر دوم مکتوب 12۔ آپ کے حالات تو معلوم نہ ہو سکے البتہ مکتوبات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء یا مریدوں میں سے تھے۔
2 اس حدیث کی تخریج سے متعلق تحقیق دفتر اول مکتوب نمبر 99 میں گزر چکی ہے۔
3 رواہ النسائی و الحاکم۔
4 رواہ مسلم عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔