دفتر اول مکتوب 286
مولانا امان اللّٰہ فقیہ1 کی طرف صادر فرمایا۔ صحیح اعتقاد کے بارے میں جو اہلِ سنت و جماعت کی صائب رائے کے موافق کتاب و سنت سے ماخوذ ہے، اور اس جماعت کے رد میں جس نے اہلِ سنت و جماعت کے معتقدات کے خلاف سمجھا ہے یا اہلِ حق کے خلاف کشف سے معلوم کیا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
أَرْشَدَکَ اللّٰہُ تَعَالٰى وَ أَلْھَمَکَ سَوَآءَ الصِّرَاطِ (اللّٰہ تعالیٰ آپ کو سیدھا راستہ دکھائے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق بخشے)۔ جاننا چاہیے کہ طریقِ سالک کی جملہ ضروریات میں سے ایک (چیز) "اعتقادِ صحیح" ہے، جس کو علمائے اہلِ سنت و جماعت نے کتاب و سنت اور آثارِ سلف (اقوال) سے استنباط فرمایا ہے، اور کتاب و سنت کو ان معانی پر محمول رکھنا بھی ضروری ہے جن معانی کو تمام علمائے اہلِ حق یعنی اہلِ سنت و جماعت نے اس کو کتاب و سنت سے سمجھا ہے۔ اگر بالفرض کشف و الہام کے ساتھ ان معانیٔ مفہومہ کے بر خلاف کوئی امر ظاہر ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اور اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ مثلًا وہ آیات و احادیث جن کے ظاہر (الفاظ) سے توحیدِ وجودی کا مفہوم سمجھا جاتا ہے اسی طرح (جن آیات و احادیث سے) احاطہ و سریان اور قرب معیتِ ذاتیہ معلوم ہوتے ہیں جب کہ علماءِ اہلِ حق نے ان آیات و احادیث سے یہ معنیٰ نہیں سمجھے، تو اگر اثناءِ راہ میں سالک پر یہ معانی منکشف ہو جائیں اور وہ سوائے ایک کے کسی کو موجود نہ پائے اور اس کو محیط بالذات جانے اور از روئے ذات کے قریب جانے، اگرچہ وہ اس وقت غلبۂ حال اور سکرِ وقت کے باعث معذور ہے لیکن اس کو چاہيے کہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا و زاری کرتا رہے تاکہ وہ اس کو اس بھنور سے نکال کر جو امور کہ علمائے اہلِ حق کی آرائے صائبہ کے مطابق ہیں، اس پر منکشف کرے اور ان کے معتقداتِ حقہ کے بر خلاف سرِمو ظاہر نہ کرے۔ غرض علمائے اہلِ حق کے معانی مفہومہ کو اپنے کشف کا مصداق اور اپنے الہام کی کسوٹی بنانا چاہيے کیونکہ وہ معانی جو ان کے مفہومہ معانی کے خلاف ہیں محلِ اعتبار سے ساقط ہیں اس لئے ہر مبتدع (بدعتی) اور ضال (گمراہ) اپنے معتقدات کا مقتدا کتاب و سنت ہی کو جانتا ہے اور اپنی ناقص فہم کے موافق اسی (کتاب و سنت) سے معانی غیر مطابقہ سمجھ لیتا ہے۔﴿يُضِلُّ بِهٖ ڪَثِيۡرًا وَّ يَهۡدِىۡ بِهٖ كَثِيۡرًا﴾(البقرہ: 26) ترجمہ: ”(اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے“۔
اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ علمائے اہلِ حق کے معانئ مفہومہ معتبر ہیں اور ان کے بر خلاف معتبر نہیں ہیں، وہ اس سبب سے کہا ہے کہ انہوں نے (یعنی علمائے حق نے) ان معانی کو آثارِ صحابہ و سلف صالحین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے تتبع اور اتباع سے اخذ کیا ہے اور ان کے نجومِ ہدایت کے انوار سے اقتباس فرمایا ہے، اسی لئے نجاتِ ابدی (اُخروی) انہی کے لئے مخصوص ہو گئی ہے اور فلاحِ سرمدی انہی کو نصیب ہوئی ہے۔ ﴿أُوْلٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰہِ أَلَاۤ إِنَّ حِزۡبَ اللهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴾ (المجادلہ: 22) ترجمہ: ”یہ اللہ کا گروہ ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے“۔ اور اگر بعض علماء اپنے صحیح اعتقاد کے با وجود فرعیات (اعمال) میں سستی برتیں اور اعمال میں تقصیرات کے مرتکب ہوں تو اس بات سے مطلق علماء کا انکار کرنا اور سب (علماء) کو مطعون کرنا محض بے انصافی اور صرف مکابرہ (ہٹ دھرمی) ہے، بلکہ اس میں دین کی اکثر ضروریات کا انکار ہے کیونکہ ان ضروریات کے ناقل اور ان کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے والے یہی لوگ ہیں۔ اگر ان لوگوں کا نورِ ہدایت ہم تک نہ پہنچتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے اور اگر یہ لوگ صواب کو خطا سے الگ نہ کر دیتے تو ہم گمراہ رہتے، یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ساری کوشش دینِ قویم کا کلمہ بلند کرنے میں صرف کر دی اور بکثرت لوگوں کو صراطِ مستقیم پر چلایا۔ جس نے ان کی متابعت کی وہ بچ گیا اور نجات پا گیا اور جس نے ان کی مخالفت کی وہ خود بھی گمراہ ہوا اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
جاننا چاہیے کہ صوفیہ کے اعتقادات آخر کار تمام سلوک کے منازل طے کرنے اور ولایت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے کے بعد وہی اعتقادات ہوتے ہیں جو علمائے اہلِ حق کے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ علماء کو ان (معتقدات) کا حصول نقل یا استدلال سے ہے اور صوفیہ کو کشف و الہام کے ذریعے۔ اگرچہ بعض صوفیہ کو اثناءِ راہِ سلوک میں وقتی سکر اور غلبۂ حال کی وجہ سے ان اعتقادات کے خلاف بعض امور ظاہر ہوتے ہیں، اگر ان کو ان مقامات سے گزار کر منزلِ مقصود تک پہنچا دیا جائے تو ان کی مخالفت ھَبَاءً مَّنْثُوراً (غبار کی طرح منتشر) ہو جاتی ہے۔ اگر اس کے با وجود کچھ مخالفت باقی رہ جائے تو بھی امید ہے کہ اس مخالفت پر گرفت نہیں کریں گے بلکہ اس کے لئے ”مجتہدِ مخطی“ کا حکم ہو گا، کیونکہ مجتہد نے استنباط میں غلطی کی اور صوفی نے کشف میں۔ اس گروہ کی بعض مخالفتوں میں سے ایک وحدتِ وجود اور احاطۂ قرب و معیتِ ذاتی کا حکم ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
اور اسی طرح صفاتِ سبعہ2 یا ثمانیہ کے وجود سے ان کا انکار ہے جو خارج میں ذاتِ عز سلطانہٗ کے وجود پر زائد جانتے ہیں، حالانکہ علمائے اہلِ سنت (و جماعت) صفات کو موجود جانتے ہیں اور خارج میں وجود ذاتِ تعالیٰ پر ان کا زائد وجود تسلیم کرتے ہیں۔ یہ انکار اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس وقت ان کو صفات کے آئینے میں ذات تعالیٰ و تقدس مشہود ہوتی ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آئینہ دیکھنے والے کی نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے لہذا اس پوشیدگی کے باعث خارج میں ان (صفات) کے عدمِ وجود کا حکم دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر (صفات) موجود ہوتیں تو مشہود بھی ہوتیں، فَحَیْثُ لَا شُھُوْدَ لَا وُجُوْدَ (چونکہ شہود نہیں اس لئے وجود بھی نہیں) اور علماء پر اس وجہ سے کہ انہوں نے صفات کے وجود کا حکم کیا ہے، طعن کرتے ہیں بلکہ کفر اور دوئی (ثنویت) کا حکم کرتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَنِ الْجُرْأَۃِ فِی الطَّعْنِ (اللّٰہ سبحانہٗ کی پناہ ان کی اس جرأتِ طعن پر)۔
اور اگر ان (بعض صوفیہ) کو اس مقام سے ترقی ہو جاتی اور ان کا شہود اس پردے سے باہر آ جاتا اور مرآتیت (آئینہ داری) کا حکم زائل ہو جاتا تو وہ صفات کو جدا دیکھتے اور ان کے انکار کا حکم نہ کرتے اور ان کو اکابر علماء کی طعن و تشنیع تک نوبت نہ پہنچتی۔ ان کی جملہ مخالفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ بعض ایسے امور کا حکم کرتے ہیں جو واجب تعالیٰ و تقدس کے ایجاب کو مستلزم ہیں، اگرچہ یہ لوگ (حق تعالیٰ پر) لفظِ ایجاب کا اطلاق نہیں کرتے اور ارادے کا اثبات ظاہر کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت ارادے کی نفی کرنے والے ہیں اور اس حکم میں تمام اہلِ ملل کے مخالف ہیں۔ ان کے جملہ امور میں سے ایک حکم یہ ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی قدرت کے ساتھ قادر ہے اس معنی میں کہ إِنْ شَآءَ فَعَلَ وَ إِنْ لَّمْ یَشَأْ لَمْ یَفْعَلْ (اگر چاہے تو کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے)۔ لیکن پہلی شرط کو وہ واجب الصدق (ضرور ایسا کرے گا) جانتے ہیں دوسری شرط کو ممتنع الصدق (یعنی ہرگز ایسا نہیں کرے گا) اور یہ قول ایجاب سے متعلق ہے، بلکہ یہ قدرت کے اس معنی کا انکار ہے جو اہلِ ملل کے نزدیک مقرر و ثابت ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک قدرت کے معنی صحتِ فعل اور ترکِ (فعل) کے ہیں، اور ان کے قول کے مطابق وجوبِ فعل اور امتناعِ ترک (ترک کا منع کرنا) لازم آتا ہے، لہذا اس میں بہت فرق ہے، کہاں یہ اور کہاں وہ۔
اس مسئلے میں بعض صوفیہ کا مذہب حکما کے مذہب کے عین مطابق ہے اور قضیۂ اولیٰ کو واجب الصدق یعنی (اللّٰہ تعالی ضرور کرے گا) اور دوسرے کو ممتنع الصدق (ہرگز ایسا نہیں کرے گا) تسلیم کرتے ہوئے ارادے کا اثبات کرنا اور اس اثبات کے ساتھ خود کو حکما و فلاسفہ سے جدا کرنا کچھ مفید نہیں، کیونکہ ارادہ دو متساوی چیزوں میں سے ایک کی تخصیص کرنے کا نام ہے، پس جہاں تساوی اور مساوات نہیں ہے وہاں ارادہ بھی نہیں ہے، اور اس جگہ وجوب و امتناع کے درمیان تساوی و مساوات معدوم ہے۔ فَافْھَمْ (پس جان لو)۔
اور ان جملہ امور (یعنی بعض صوفیہ کی مخالف باتوں) میں سے یہ ہے کہ یہ مسئلہ قضا و قدر کی تحقیق میں ایسی روش اختیار کرتے ہیں جو بظاہر ایجاب ہے اور اس مبحث میں ان کی جملہ عبارتوں میں سے ایک عبارت یہ ہے کہ: "اَلْحَاکِمُ مَحْکُوْمٌ وَ الْمَحکُوْمُ حَاکِمٌ" (یعنی حاکم، محکوم ہے اور محکوم، حاکم ہے) ایجاب سے قطع نظر کر کے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو کسی کا محکوم بنانا اور کسی کو اس پر حاکم مقرر کرنا بہت بڑی برائی ہے۔ ﴿وَ إِنَّهُمۡ لَيَقُوۡلُوۡنَ مُنۡكَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا﴾ (المجادلہ: 2) ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو بہت بری ہے، اور جھوٹ ہے“۔
ان (صوفیہ) کی اس طرح کی مخالف باتوں کی اور بھی بہت مثالیں موجود ہیں۔ جیسا کہ "بِعَدَمِ إِمْکَانِ رُؤْیَۃِ الْحَقِّ سُبحَانَہٗ إِلَّا بِتَجَلِّیٍ صُوْرِیٍّ" (حق سبحانہٗ کی رویت کا امکان نہیں مگر تجلی صوری کی صورت میں)۔ اس قول سے بھی حق سبحانہٗ کی رویت کا انکار لازم آتا ہے کیونکہ وہ رویت جو تجلیٔ صوری کی صورت میں انہوں نے تجویز کی ہے وہ حقیقت میں حق سبحانہٗ کی رویت نہیں ہے بلکہ شبہ و مثال کی قسم سے ہے۔
یَرَاہُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِغَیْرِ کَیْفٍ
وَ إِدرَاکٍ وَّ ضَرْبٍ مِّنْ مِثَالٍ
ترجمہ:
جنتی کو دیدِ حق کی ہو گی سیر
کیف و ادراک اور مثالوں کے بغیر
اور ان کا یہ قول کہ "کاملین کی ارواح ازلی اور قدیم ہیں"۔ یہ قول بھی اہلِ اسلام کے مخالف ہے کیونکہ اہلِ اسلام کے نزدیک تمام عالم مع اپنے تمام اجزا کے حادث ہے اور ارواح بھی جملہ عالم میں سے ہیں کیونکہ "عالم" تمام ما سوی اللّٰہ کا نام ہے فَافْہَمْ۔ لہذا سالک کو چاہیے کہ حقیقتِ کار حاصل ہونے سے پہلے اپنے تمام کشف و الہام کی مخالفت کے با وجود علمائے اہل حق کی تقلید کو اپنے اوپر لازم جانے اور علماء کو محق (حق بجانب) اور خود کو مخطی (خطا کرنے والا) جانے۔ کیونکہ علماء کی مستند دلیل انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تقلید ہے جو وحی قطعی کے ساتھ مؤیّد ہے اور خطا و غلطی سے معصوم ہے اور (سالک کا) کشف و الہام وحی سے ثابت شدہ احکام الہٰی کی مخالفت کی وجہ سے سرا سر خطا و غلط ہے۔ لہذا اپنے کشف کو علماء کے قول پر مقدم جاننا در حقیقت احکامِ قطعیہ منزلہ پر اپنے کشف و الہام کو مقدم جاننا ہے اور یہ عین گمراہی اور سرا سر خسارہ ہے۔
اور جس طرح کتاب و سنت کے مطابق اعتقاد رکھنا ضروری ہے اسی طرح عمل بھی انہی تقاضوں کے مطابق کرنا چاہیے جو کہ آئمۂ مجتہدین نے کتاب و سنت سے استنباط کر کے احکامِ شرعیہ حلال و حرام، فرض و واجب، سنت و مستحب اور مکروہ و مشتبہ کے احکام کا استخراج کیا ہے، ان احکام کا علم بھی ضروری ہے۔ مقلد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مجتہد کی رائے کے خلاف کتاب و سنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے۔ (اس کو چاہیے کہ) عمل میں اس مجتہد کے مذہب سے جس کی وہ اتباع کرتا ہے، قولِ مختار کو اختیار کرے اور رخصت سے پرہیز کر کے عزیمت پر عمل کرے اور جہاں تک ممکن ہو سکے مجتہدین کے اقوال کے جمع کرنے میں سعی ٔبلیغ کرے تاکہ متفق علیہ کے قول پر عمل واقع ہو۔ مثلا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وضو میں نیت کرنا فرض قرار دیتے ہیں تو چاہیے کہ بے نیت وضو نہ کرے اور اسی طرح (امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وضو میں) اعضا کے دھونے میں ترتیب اور پے در پے (بغیر وقفے کے) دھونے کو لازم جانتے ہیں، لہذا ترتیب و تواتر کی رعایت کرنی چاہیے3۔(اسی طرح) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اعضا کو دھونے میں مَلنے کو فرض قرار دیتے ہیں لہذا اعضاء کو مَلنا بھی چاہیے۔ اسی طرح وہ لمسِ نساء (عورتوں کو چھونا) اور مسِّ ذکر کو وضو کو توڑنے والا کہتے ہیں لہذا لمسِ نسا اور مسِّ ذکر کے واقع ہونے کی صورت میں وضو کی تجدید (نئے سرے سے وضو) کرے علیٰ ہذا القیاس۔
ان اعتقادی (اعتقادِ صحیح) اور عملی (عملِ صالح) کے دو بازو حاصل ہونے کے بعد قربِ ایزدی جل شانہ ٗکے درجات کے عروج کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، اور ظلمانی منازل کے قطع کرنے کا طالب اور مسالکِ نورانی کا سالک ہونا چاہیے۔ لیکن جاننا چاہیے کہ یہ منازل طے کرنا اور درجات کا عروج ایسے شیخ کامل کی توجہ سے وابستہ ہیں جو مکمل طور پر راہ دان (راستے کا جاننے والا) اور راہ بیں (راہ کا دیکھنے والا) اور راہ نما ہو۔ اس کی نظر قلبی امراض کے لئے شافی اور اس کی توجہ خراب و نا پسندیدہ اخلاق دفع کرنے والی ہے، لہذا (طالب) سب سے پہلے شیخِ (کامل) تلاش کرے۔ اگر محض فضلِ خداوندی جل شانہٗ سے شیخ تک پہنچ جائے تو شیخ کی معرفت و حصول کو نعمتِ عظمیٰ تصور کر کے اپنے آپ کو اس کا ملازم و خدمت گار بنا لے اور مکمل طور پر اس کا مطیع ہو جائے۔ شیخ الاسلام ہروی4 فرماتے ہیں: "الہٰی یہ کیا عجیب ماجرا ہے جو تو نے اپنے دوستوں کے ساتھ کیا ہوا ہے کہ جس نے ان کو پہچان لیا تجھ کو پا لیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کو نہ پہچانا"۔ اور اپنے اختیارات کو کلی طور پر شیخ کے اختیار میں گم کر دے اور اپنے آپ کو تمام مرادوں سے خالی کر کے اپنی ہمت کو اس کی خدمت میں صرف کرے اور شیخ جو کچھ اس کو حکم فرمائے اس کو اپنی سعادت کا سرمایہ جان کر اس کی بجا آوری میں پوری کوشش کرے۔ شیخِ مقتدا اگر اس کی قابلیت کے مطابق کوئی ذکر مناسب سمجھے گا تو اس کا حکم دے گا اور اگر توجہ و مراقبہ اس کے حال کے مناسب دیکھے گا تو اس کا اشارہ کرے گا، اور اگر صرف صحبت ہی میں رہنا کافی سمجھے گا تو اس کا حکم کرے گا۔ مختصر یہ کہ شیخ کی صحبت حاصل ہونے کی صورت میں اس راہ کی شرائط میں سے کسی شرط کے تحت ذکر کرنے کی حاجت نہیں، شیخ جو کچھ بھی طالب کے حال کے مناسب سمجھے گا اس کا حکم کرے گا۔ اگر راہِ سلوک کی بعض شرائط میں سے کسی امر میں کوئی تقصیر یا کوتاہی واقع ہو جائے تو شیخ کی صحبت اس کمی کو پورا کر دے گی اور اس کی توجہ اس نقصان کی تلافی کر دے گی۔ اگر کوئی ایسے شیخِ مقتدا کی شرف صحبت سے مشرف نہ ہو تو پھر اگر وہ حق تعالیٰ کی مرادوں میں سے ہے تو (کار کنانِ قضا و قدر) اس کو جذب کر لیں گے اور محض عنایتِ بے غایت سے اس کے کام کو پورا کر دیں گے اور ہر وہ شرط و ادب جو اس کام میں در کار ہو گا اس کو خبر دار کر دیں گے اور منازلِ سلوک کے قطع کرنے میں بعض اکابرین کی روحانیت کو اس کی راہ کا وسیلہ بنا دیں گے۔ کیونکہ عادت اللّٰہ سبحانہ اسی طرح جاری و ساری ہے کہ راہِ سلوک کے طے کرنے میں مشائخ کی روحانیت کا واسطہ در کار ہوتا ہے، اور اگر وہ مریدوں میں سے ہے تو اس کا کام شیخِ مقتدا کے وسیلے کے بغیر خطرہ میں ہے، جب تک کہ شیخِ کامل نہ مل جائے اس کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ حق سبحانہٗ کی بارگاہ میں التجا و تضرع اور زاری کرتا رہے تاکہ اس کو شیخِ مقتدا تک پہنچا دیں۔ نیز اس کو چاہیے کہ راہِ سلوک کی شرائط کی رعایت کو اپنے اوپر لازم جانے۔ ان شرائط کا ذکر مشائخ کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے، وہاں ملاحظہ کر کے اس کی پوری پوری رعایت کریں۔ اس راہ کی سب سے عظیم ترین شرط نفس کی مخالفت ہے اور وہ مقامِ ورع و تقویٰ کی رعایت پر موقوف ہے جس سے مراد حرام چیزوں سے بچنا ہے، اور حرام چیزوں سے اس وقت تک نہیں بچ سکتے جب تک کہ ضرورت سے زیادہ مباحات سے پرہیز نہ کرے، کیونکہ مباحات کے ارتکاب میں نفس کی لگام ڈھیلی رکھنا مشکوک اشیاء تک پہنچا دیتا ہے، اور مشتبہ حرام کے نزدیک ہے اس لئے حرام میں مبتلا ہونے کا قوی احتمال ہے (حدیث شریف میں ہے) "وَ مَنْ حَامَ حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّقَعَ فِیْہِ"5 ترجمہ: ”جو شخص چراگاہ کے ارد گرد پھرتا ہے اس کا اس میں داخل ہونے کا احتمال ہے“۔ لہٰذا محرمات (حرام چیزوں)6 سے اجتناب کرنا فضول مباحات سے بچنے پر موقوف ہوا۔ پس ورع و تقویٰ کے (حصول کے) لئے فضول مباحات سے بچنا بھی لازم ہوا، اور ترقی و عروج ورع (تقویٰ) پر وابستہ ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ ہر اعمال کے دو جزو ہیں ایک امتثالِ امر (احکام کا بجا لانا) اور دوسرے انتہا از مناہی (منع کی ہوئی چیزوں سے پرہیز)۔ اوامر کی بجا آوری میں تو قدسیاں (فرشتے) بھی (انسان کے ساتھ) شریک ہیں، اگر صرف اوامر کی بجا آوری ہی سے ترقی واقع ہوتی تو قدسیوں (فرشتوں کے درجات میں) بھی ترقی واقع ہوتی (لیکن ان کے درجات میں ترقی نہیں ہوتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو بھی صرف اوامر کی بجا آوری سے ترقی نہ ہو گی جب تک کہ وہ مناہی سے باز نہ رہے) اور فرشتوں کے لئے مناہی سے بچنے کا سوال ہی نہیں کیونکہ وہ فطرتًا (گناہوں سے) معصوم ہیں، مخالفت کی مجال نہیں رکھتے کہ جس سے انہیں روکنے کی ضرورت پیش آئے۔ لہذا اس بات سے لازم آیا کہ ترقی اسی جزوِ (دوم) پر وابستہ ہے اور یہ اجتناب سرا سر نفس کی مخالفت ہے کیونکہ شریعت خواہشِ نفس کو دور کرنے اور ظلمانی رسومات کو دفع کرنے کے لئے وارد ہوئی ہے، کیونکہ نفس کی طبیعت کا تقاضا یا تو حرام کا ارتکاب ہے یا ایسے فضول کاموں کا اختیار کرنا جو حرام تک پہنچا دیتا ہے لہذا حرام اور فضول سے اجتناب عین مخالفتِ نفس ہے۔
اگر سوال کریں کہ اوامر کی بجا آوری میں بھی نفس کی مخالفت ہے کیونکہ نفس نہیں چاہتا کہ عبادات میں مشغول ہو، لہذا اوامر کی بجا آوری پر بھی ترقی ہونا لازم ہوا، اور چونکہ فرشتوں میں امتثالِ اوامر (احکام کی بجا آوری) کی مخالفت مفقود ہے اس لئے وہ ان کی ترقی کا سبب بھی نہیں۔ فالقیاس مع الفارق (لہذا یہ غلط بات پر قیاس کرنا ہے)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں نفس کا راضی نہ ہونا اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی فراغت و آرام کا خواہاں ہے، وہ نہیں چاہتا کہ اپنے آپ کو کسی چیز سے مقید کرے اور یہ فراغت اور عدم تقید (پابندی قبول نہ کرنا) بھی حرام یا فضول کاموں میں داخل ہے۔ لہذا اوامر کے بجا لانے میں بھی نفسِ امارہ کی مخالفت اس حرام یا فضول سے اجتناب کی وجہ سے ہے نہ کہ صرف اوامر کی ادائیگی کی بنا پر، کیونکہ یہ چیز ملائکہ کو بھی حاصل ہے، پس یہ قیاس صحیح ہے۔ لہذا ہر وہ طریقہ جس میں نفس کی مخالفت زیادہ ہو وہ (حق تعالیٰ تک پہنچانے میں) سب طریقوں سے اقرب (زیادہ قریب) ہے، اور اس میں کچھ شک نہیں کہ نفس کی مخالفت کی رعایت تمام طریقوں سے زیادہ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں ہے کہ کیونکہ ان (نقشبندیہ) بزرگوں نے عزیمت پر عمل کیا ہے اور رخصت سے اجتناب کرتے ہیں، اور یہ بات معلوم ہے کہ عزیمت میں ہر دو جزو یعنی حرام اور فضول کے پرہیز کی رعایت کی گئی ہے بخلاف رخصت کے جس میں صرف حرام سے اجتناب کیا گیا ہے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ ہو سکتا ہے کہ باقی دوسرے طریقوں نے بھی عزیمت کو اختیار کیا ہو۔ تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اکثر طریقوں میں سماع و رقص (جائز) ہے جس میں بڑے حیلے اور تکلف کے بعد صرف رخصت تک نوبت پہنچتی ہے اس میں عزیمت کی کیا مجال ہے۔
اور اسی طرح ذکرِ جہر ہے کہ اس میں بھی رخصت سے زیادہ کوئی چیز تصور نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح دوسرے مشائخ کے سلاسل نے بھی اپنے اپنے طریقوں میں نیک نیتی کے ساتھ امورِ محدثہ (نئے نئے کام) پیدا کئے ہیں کہ جن کی درستگی کی انتہا صرف رخصت تک ہے، بخلاف اس سلسلۂ عالیہ کے اکابرین کے کہ انہوں نے بال برابر بھی سنت کی مخالفت تجویز نہیں کی، اور ابداع و احداث (اپنی طرف سے نئی چیز لانا اور پیدا کرنا) روا نہیں رکھا۔ لہذا اس طریقے میں نفس کی مخالفت بدرجۂ اتم موجود ہے اور یہ طریقہ سب طریقوں سے قریب ترین ہے، اس لئے طالب کو اس طریقے کا اختیار کرنا اولیٰ و انسب ہے کیونکہ یہ راستہ نہایت ہی قریب کا ہے۔ ان بزرگوں کا مطلب کمالِ رفعت میں ہے اور ان کے خلفائے متاخرین کی ایک جماعت نے ان بزرگوں کے اوضاع و اطوار کو ترک کر کے بعض ایسے نئے نئے امور جیسے سماع و رقص اور (ذکرِ) جہر اختیار کر لئے ہیں، اس کی وجہ عدم وصول ہے، یہ لوگ اس بزرگ خاندان کے اکابرین کی نیتوں کی حقیقت تک نہیں پہنچے اور خیال کر بیٹھے ہیں کہ ان محدثات و مبتدعات (نت نئی باتوں اور بدعتوں) سے اس طریقے کی تکمیل و تتمیم کر رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح سے وہ (طریقے کو) خراب اور ضائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وَ اللّٰہُ یُحِقُّ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیلَ (اللّٰہ تعالیٰ ہی حق کو ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے)۔
1 آپ کے نام تین مکتوبات ہیں دفتر اول مکتوب 286، 301 دفتر سوم مکتوب 20۔ آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء اجل میں سے ہیں۔ سنہ 1031ھ میں حج کا شوق ہوا تو پا پیادہ بغیر توشہ و زادِ راہ کے روانہ ہو گئے اور اسی بے سر و سامانی کے ساتھ حجاز پہنچ گئے۔ حج کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے، پھر مصر و شام گئے اور وہیں آپ کا انتقال ہو گیا۔
2 وہ صفات یہ ہیں: علم، قدرت، سمع، بصر، ارادہ، حیات، کلام اور تکوین البتہ تکوین میں اختلاف ہے، اس وجہ سے صفات سبعہ یا ثمانیہ کہا ہے۔
3 اس سلسلے میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا مکتوب 312 دفتر اول ملاحظہ فرمائیں۔
4 آپ کے تذکرہ دفتر اول مطلوب 106 کے حاشیہ پر گزر چکا ہے۔
5 بخاری و مسلم میں بروایت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، وَ الْحَدِیْثُ طَوِیْلٌ وَّ ہٰذِہٖ قِطْعَۃٌ مِّنْہٗ