دفتر اول مکتوب 248
یہ مکتوب بھی عالی جناب مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ انبیاء علیہم و التسلیمات کی مکمل تابع داری کرنے والوں کو ان کے تمام کمالات سے بطریقِ تابع داری کچھ نہ کچھ حصہ ملتا ہے، اور اس بیان میں کہ کوئی ولی کسی نبی کے مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا، اور اس بات کی تحقیق میں کہ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے جو تجلئ ذاتی مخصوص ہے اس کے کیا معنی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں۔
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پرور دگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔ صَلَوَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ تَسْلِیْمَاتُہٗ سُبْحَانَہٗ عَلَیْھَمْ وَ عَلٰی أَتْبَاعِھِمْ وَ أَنْصَارِھِمْ وَ أَعْوَانِھِمْ وَ خَزَنَۃِ أَسْرَارِھِمْ (ان پر اور ان کے تابع داروں پر اور ان کے انصار اور ان کے مدد گاروں اور ان کے اسرار کے محافظوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام ہو)
انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل متبعین کمالِ متابعت و فرطِ محبت کے باعث بلکہ محض (اللہ تعالیٰ کی) عنایت و بخشش کی وجہ سے اپنے متبوعہ (اتباع کردہ) انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں بلکہ ان کے رنگ میں پورے طور پر رنگے جاتے ہیں، یہاں تک کہ مَتْبُوعَانِ (جن انبیاء کی پیروی کی گئی) اور مُتَابِعَانِ (اتباع کرنے والے اولیا) کے درمیان اصالت و تبعیت اور اولیت و آخریت کے علاوہ کچھ فرق نہیں رہتا۔ با وجود اس امر کے کوئی تابع (اتباع کرنے والا) خواہ وہ افضل الرسل (صلی اللہ علیہ و سلم) کے تابع داروں ہی میں سے ہو، کسی نبی کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا اگرچہ وہ نبیوں میں سب سے کم درجہ کا نبی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ جو کہ انبیاء کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں، اُن کا سر ہمیشہ اس پیغمبر کے زیر قدم ہو گا جو تمام پیغمبروں سے کم درجہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء اور ان کے ارباب کے تعینات کے مبادی مقامِ اصل سے ہیں اور تمام اعلیٰ و اسفل امتوں اور ان کے ارباب کے مبادئ تعینات اس اصل کے ظلال کے مقامات سے اپنے اپنے درجے کے موافق ہیں۔ پس اصل اور ظل کے درمیان مساوات کس طرح ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡنَ 0 اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ 0 وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴾ (الصافات: 171-173) ترجمہ: ”اور ہم پہلے ہی اپنے پیغمبر بندوں کے بارے میں یہ بات طے کر چکے ہیں کہ یقینی طور پر ان کی مدد کی جائے گی اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لشکر کے لوگ ہی غالب رہتے ہیں“ اور یہ جو کہتے ہیں کہ تجلیٔ ذات تعالیٰ و تقدس انبیاء کے درمیان حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التحیات کے لئے مخصوص ہے اور آں سرور صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل تابع داروں کو بھی اس تجلی سے حصہ حاصل ہے، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دوسرے انبیاء کو تجلّئ ذات کا حصہ حاصل نہیں ہے اور تابع داری کی وجہ سے ان کے کاملوں کو نصیب ہے، حاشا و کلا (ہرگز ایسا نہیں ہے) کہ کوئی اس سے یہ مطلب تصور کرے کیونکہ اس میں اولیاء کی انبیاء پر فوقیت ہوتی ہے۔ بلکہ آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات پر اس تجلی کے مخصوص ہونے کے یہ معنی ہیں کہ دوسروں کو اس تجلی کا حاصل ہونا آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے طفیل اور تبعیت (اتباع) کی وجہ سے ہے، اور انبیا علیہم الصلوٰۃ و السلام کو بھی اس تجلی کا حصول آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے طفیل سے ہے، اور اس امت کے کامل اولیاء کو بھی آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیروی کی وجہ سے حاصل ہے۔ انبیاء اس نعمتِ عظمیٰ کے دستر خوان پر آپ علیہ الصلوات و التحیات کے طفیلی و ہم نشین ہیں اور اولیاء (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے) خادم، پس خوردہ کھانے والے، اور ہم نشین و طفیلی اور خادم پس خوردہ کھانے والے کے درمیان بہت فرق ہے۔ اس مقام میں قدم کو لغزش ہو جاتی ہے۔
اس تحقیق میں اور اس شبہ کے دُور کرنے کے سلسلہ میں اس فقیر نے اپنے مکتوبات و رسائل میں متعدد توجیہات کا ذکر کیا ہے اور حق وہی ہے جو میں نے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان مسودوں (مکتوبات) میں تحقیق کی ہے۔
آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اگرچہ تمام انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کو آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل اس تجلی سے حصۂ وافر نصیب ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ولایتِ خاصہ نے ان کی امتوں کے اولیاء میں سرایت نہیں کی اور نہ اس تجلی سے ان کو کوئی حصہ ملا کیونکہ جب ان کے اصول میں یہ دولت طفیلی اور عکسی طور پر ہو تو فروع میں عکس کے عکس کو کیا حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس معنی کا مصداق کشفِ صریح ہے، استدلالِ عقلی پر مبنی نہیں۔
اور جو کچھ اس سے پیش تر ذکر کیا گیا کہ کامل پیروی کرنے والے کمالِ متابعت کے سبب اپنے متبوعوں کے پورے پورے کمالات جذب کر لیتے ہیں۔ ان کمالات سے مراد متبوعوں کے اصلی کمالات ہیں نہ کہ مطلقًا، تاکہ تعارض پیدا نہ ہو۔ بلکہ یہ لوگ اپنے انبیا میں سے ہر ایک نبی کی ولایتِ مخصوصہ سے بہرہ ور ہوئے ہیں، اور چونکہ سب امتوں کے درمیان یہی امت پیروی کے باعث اس تجلئ (ذاتی) سے مخصوص ہے اور اس دولتِ عظمیٰ سے مشرف ہے لہٰذا (یہ امت) خیر الامم ہو گئی، اور اس امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے رنگ میں ہو گئے۔ ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهِ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
(یہ فقیر) چاہتا تھا کہ اس ولایتِ خاصہ کی خصوصیات اور فضائل میں سے کچھ تحریر کرے لیکن وقت کی تنگی نے موافقت نہ کی اور کاغذ بھی کوتاہ ہو گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عنایت سے علوم و معارف ’’ بارانِ نیساں‘‘ کی طرح برس رہے ہیں اور عجیب و غریب اسرار پر اطلاع بخش رہے ہیں۔ اس راز کے محرم اپنی اپنی استعداد کے موافق میرے فرزندانِ گرامی ہیں، کیونکہ دوسرے دوست چند روز حضور میں ہیں اور چند روز غیبت میں۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ہر چند ولی، ولیِ کامل ہو لیکن صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔
آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق حد سے بڑھ گیا ہے۔ جو صحیفہ گرامی اس فقیر کے نام تحریر فرمایا تھا اس کے پہنچنے سے مشرف ہوا۔ دیدِ قصور (اعمال کی کوتاہی کو نظر میں رکھنا) بہت بڑی نعمت ہے، لیکن تمام احوال میں میانہ روی بہت بہتر ہے۔ افراط و تفریط کی طرح حدِ اعتدال سے باہر ہے۔ وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (اور سلام ہو آپ پر اور ان سب پر جو ہدایت کی پیروی کریں اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت اپنے اوپر لازم کر لے)