دفتر اول مکتوب 243
ملا ایوب محتسب1 کی طرف طریقۂ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی ترغیب میں صادر فرمایا۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ چند بار آپ نے اپنے خطوط نصیحتوں کی طلب میں تحریر کئے، لیکن یہ حقیر اپنی خرابیوں پر نظر کر کے آپ کے سوالات کے جوابات میں پیش قدمی نہیں کرتا تھا، اب جب کہ آپ کی طرف سے بار بار طلب ہوئی تو چند بے ربط و نا مربوط فقرے تحریر میں آ گئے، غور سے سنیں اور جان لیں کہ ہر شخص کے لئے جو چیز ضروری ہے اور وہ اس کا مکلف ہے وہ اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے پرہیز کرنا ہے۔ آیۂ کریمہ ﴿مَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر: 7) ترجمہ: ”اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ“۔ اس معنی کی شاہد ہے۔ اور چونکہ (طالب کو) اخلاص کا حکم ہے: ﴿أَ لَا لِلّٰهِ الدِّينُ الْخَالِص﴾ (الزمر: 3) ترجمہ: ”یاد رکھو کہ خالص بندگی اللہ ہی کا حق ہے“ اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبتِ ذاتیہ کے بغیر متصور نہیں ہوتا۔ لہٰذا طریقِ صوفیہ کا سلوک جس میں فنا اور محبتِ ذاتیہ کا حصول ہے، ضروری ہوا تاکہ اخلاص کی حقیقت شکل پذیر ہو، اور چونکہ صوفیہ کے طریقے کمال اور تکمیل کے مرتبوں ميں تفاوت ہیں؛ اس لئے ایسے طریقے کو، جو روشن سنت کی پیروی کو لازم جانے اور احکامِ شرعیہ کی بجا آوری کے (بالکل) مطابق ہو اختیار کرنا اولیٰ اور بہت بہتر ہے، اور وہ طریقہ اکابر نقشبند قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم العلیا کا طریق ہے کیونکہ اس طریق کے بزرگوں نے سنت کو لازم قرار دیا ہے اور بدعت سے پرہیز فرمایا ہے۔ جہاں تک ہو سکے رخصت پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں نافع پائیں اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے اگرچہ بظاہر اس کو باطن میں مضر جانیں۔ انہوں نے احوال و مواجید کو احکامِ شریعہ کے تابع کیا ہے اور اذواق و معارف (کیفیات و کشفیات) کو علوم دینیہ کا خادم جانتے ہیں، اور احکامِ شرعیہ کے نفیس جواہرات کو بچوں کی طرح جوز و مویز (اخروٹ و منقی) اور وجد و حال کے بدلے نہیں دیتے، اور صوفیہ کی (حالتِ سکر والی) بے کار باتوں پر مغرور و مفتون نہیں ہوتے، اور نص (قرآن) کو چھوڑ کر فص (فصوص الحکم) کی طرف سے مائل نہیں ہوتے، اور فتوحاتِ مدنیہ (احادیث ونصوصِ شرعیہ) کو چھوڑ کر فتوحاتِ مکیہ (شیخ اکبر کی تصنیف) کی طرف سے التفات نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حال دائمی ہے اور ان کا وقت استمراری (مستقل) ہے اور ان کے باطن سے ما سویٰ کے نقوش اس طرح محو و زائل ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ (ما سوی اللہ کو دل میں) حاضر کرنے کے لئے ہزار سال تک کوشش کریں تب بھی میسر نہ ہو، اور وہ تجلی ذاتی جو دوسروں کے لئے برق کی مانند ہے ان بزرگوں کے لئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان عزیزوں کے نزدیک دائرۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ (آیت کریمہ) ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللہِ﴾ (النور: 37) ترجمہ: ”جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے“۔ ان کے حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح ان کا طریق سب طریقوں سے زیادہ قریب اور یقینًا موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے، اور ان کی نسبت جو کہ حضرتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے، مشائخ کی تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے لیکن ہر شخص کی سمجھ ان اکابر کے مذاق کو نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس طریقۂ عالیہ کے قاصر (کم ہمت و کوتاہ نظر) ان کے بعض کمالات سے انکار کر دیں۔
قاصرے گر کند ایں طائفہ را طعن قصور
حاش لِلّٰہ کہ بر آرم بزباں ایں گلہ را
ترجمہ:
گر کوئی طعن ان پہ کرتا ہے
توبہ توبہ، نہ کروں اس کا گِلہ
شاعرِ عرب (فرزدق) فرماتا ہے
أُوْلَآئِكَ آبَائِيْ فَجِئْنِيْ بِمِثْلِہِمْ
إِذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیْرُ الْمَجَامِعُ
ترجمہ:
ایسے ایسے باپ دادا تھے جریر
ذکر ان کا کیوں نہ ہو جب تھے کبیر
حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اس سلسلۂ عالیہ کے خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم ہر زراّق اور رقّاص (مکار اور رقص کرنے والے) کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے، ان کا کار خانہ بلند ہے
حیف باشد شرح او اندر جہاں
ہم چو رازِ عشق باید در نہاں
لیک گفتم وصفِ او تارہ برند
پیش ازاں کز فوتِ آں حسرت خورند
ترجمہ:
شرح ان کی خوبیوں کی کیا کروں
مثلِ رازِ عشق انہیں پنہاں رکھوں
لیکن ان کا وصف کم کم ہے بیاں
ہو نہ محرومی پہ حسرت بے گماں
اگر ان برگزیدہ حضرات کے خصائص و کمالات کے بیان میں دفتروں کے دفتر لکھے جائیں تب بھی وہ دریائے بے کراں کے مقابلے میں قطرے کے مانند ہیں ۔
دادیم ترا ز گنجِ مقصود نشاں
ترجمہ:
گنجِ مقصود کا پتا یہ ہے
وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا)
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے اور آپ کے حالات معلوم نہ ہو سکے۔