مکتوب 217
ملا طاہر بدخشی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ نسبتِ باطن جس قدر جہالت اور حیرت کی طرف لے جائے اسی قدر بہتر ہے، اور اس بیان میں کہ اس کا کیا سبب ہے کہ اولیاء اللہ کے بعض کشف غلط ہوتے ہیں، اور ان کے خلاف ظاہر ہوتا ہے، اور قضائے معلق (مشروط) و قضائے مبرم (غیر مشروط) کے درمیان فرق اور ان میں سے ہر ایک کے حکم میں، اور اس بیان میں کہ جو کچھ قطعی طور پر اور اعتماد کے لائق ہے وہ صرف کتاب و سنت ہے، اور اس بیان میں کہ بعض مخلصوں کو طریقہ سکھانے کی اجازت دینا (ان کے) کمال و تکمیل کی علامت نہیں ہے، اور ان سے متعلق امور میں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ وَ عَلَیْھِمْ أَجْمَعِیْنَ (تمام تعریفیں اللہ رب العلمین کے لئے ہیں اور حضرت سید المرسلین اور آپ کی تمام آل و اولاد پر صلوٰۃ وسلام ہو)۔ ایک عرصے سے آپ نے اپنے حال و احوال سے مطلع نہیں کیا، بہر حال استقامت مطلوب ہے۔ کوشش کریں کہ عمل اور اعتقاد کے اعتبار سے بال برابر بھی خلافِ شریعت (کوئی کام) واقع نہ ہو اور باطنی نسبت کی حفاظت کو اہم ترین مقاصد میں سے سمجھیں اور (باطنی نسبت) جس قدر جہالت کی طرف لے جائے بہتر ہے اور جس قدر حیرت تک پہنچے اسی قدر بہتر ہے کیونکہ کشوفِ الہی اور ظہورات اسمائی جو بھی اس راہ میں واقع ہوں وہ سب وصول (الہی) کے حاصل ہونے کے بعد کم ہو جاتے ہیں اور جہالت (نا دانی) اور مطلوب کے نہ پانے کے علاوہ دوسرا امر باقی نہیں رہتا۔ اور کشوفِ کونی کے بارے میں کیا تحریر کیا جائے کیونکہ وہاں خطا کی گنجائش بہت زیادہ ہے اور غلطی کا گمان غالب ہے اور اس کے وجود و عدم کو یکساں جاننا چاہیے۔
اگر سوال کریں کہ کیا سبب ہے کہ بعض کشوفِ کونی جو اولیاء اللہ سے صادر ہوتے ہیں ان میں غلطی واقع ہو جاتی ہے اور ان کے خلاف ظہور میں آتا ہے۔ مثلًا خبر دی گئی کہ فلاں شخص ایک ماہ بعد مر جائے گا، یا سفر سے وطن واپس آئے گا۔ (لیکن) اتفاقًا ایک ماہ بعد ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی وقوع میں نہ آئی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس چیز کے متعلق کشف ہوا ہے اور جس بات کی خبر دی گئی ہے اس کا حاصل ہونا چند شرائط پر مشروط تھا۔ صاحبِ کشف نے اس وقت ان شرائط کی تفصیل پر اطلاع نہیں پائی اور اس چیز کے مطلق طور پر حاصل ہونے کا حکم کر دیا۔ یا یہ وجہ ہے کہ لوحِ محفوظ کے احکام میں سے کوئی ایسا حکم عارف پر ظاہر ہوا کہ وہ حکم فی نفسہٖ محو و اثبات کے قابل ہے اور قضائے معلق کی قسم سے ہے لیکن اس عارف کو اس حکم کے معلق ہونے اور اس کے محو ہونے کے قابل ہونے کے متعلق کچھ خبر نہیں ہے۔ اس صورت میں اگر وہ (عارف) اپنے علم کے مطابق حکم کرے گا تو اس میں ضرور ہی خلاف ہونے کا احتمال ہو گا۔
منقول ہے کہ ایک دن حضرت جبرائیل2 علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے ہمارے حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص کے بارے میں اطلاع دی کہ یہ نو جوان کل صبح ہوتے ہی مر جائے گا۔ حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کو اس نو جوان کے حال پر رحم آیا اور آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھ کو دنیا میں کس چیز کی آرزو ہے؟ اس نے عرض کیا کہ دو چیزوں کی آرزو رکھتا ہوں: ایک کنواری بیوی، دوسرے حلوہ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ دونوں چیزیں مہیا کی جائیں، وہ جوان رات کو اپنی اہلیہ کے ساتھ خلوت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حلوے کا طباق اس کے سامنے تھا۔ اتفاقًا اسی اثنا میں ایک ضرورت مند سائل دروازے پر آیا اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا۔ اس جوان نے حلوے کا طباق اٹھا کر اس فقیر کو دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو حضرت پیغمبر علیہ و علی الصلوۃ و السلام اس نو جوان کے انتقال کی خبر کے منتظر تھے، جب دیر ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس جوان کا حال معلوم کر کے آؤ۔ معلوم ہوا کہ وہ خوش و خرم ہے تو آپ حیران ہو گئے۔ اسی اثنا میں حضرت جبرئیل علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حلوے کے صدقے کی وجہ سے اس جوان کی بلا دفع ہو گئی۔ دیکھا تو اس کے بستر کے نیچے ایک بڑا سانپ مردہ پایا گیا کہ جس کے پیٹ کے اندر اس قدر حلوہ بھرا ہوا تھا کہ اس حلوے کی زیادتی کی وجہ سے وہ سانپ مر گیا۔
یہ فقیر اس حکایت کو پسند نہیں کرتا اور جبرائیل امین علیہ السلام پر خطا کو تجویز نہیں کرتا کیونکہ وہ وحی قطعی کے حامل ہیں اور حاملِ وحی پر خطا کا احتمال کرنا برا سمجھتا ہوں، مگر اس قدر کہتا ہوں کہ عصمت و امانت اور خطا کا عدمِ احتمال صرف وحی تک مخصوص ہے کہ جو حق تعالیٰ سبحانہٗ کی طرف سے صرف تبلیغ پر موقوف ہے اور یہ خبر وحی کی قسم سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے علم کی خبر دینا مقصود تھا جو لوحِ محفوظ سے حاصل ہوا تھا اور جو محو و اثبات کا محل ہے لہذا اس خبر میں خطا کی گنجائش ہو سکتی ہے، بخلاف وحی کے کہ وہ مجرد تبلیغ ہے، پس دونوں میں فرق ظاہر ہو گیا۔ جس طرح کہ شہادت اور اِخبار کے درمیان فرق ہے کیونکہ اول شروع کے اعتبار سے معتبر ہے اور دوسرا غیر معتبر۔
اللہ تعالیٰ سبحانہ آپ کو رشد و ہدایت نصیب فرمائے۔ جاننا چاہیے کہ قضا دو قسم پر ہے: (1) قضائے معلق (2) قضائے مبرم۔ قضائے معلق میں تغیر و تبدل کا احتمال ہے اور قضائے مبرم میں تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتاہے: ﴿مَا یُبَدَّلُ الۡقَوۡلُ لَدَیَّ﴾ (قٓ: 29) ترجمہ: ”میرے سامنے وہ بات بدلی نہیں جا سکتی“۔ یہ آیت مبارکہ قضائے مبرم کے بارے میں ہے اور قضائے معلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ﴾ (الرعد: 39) ترجمہ: ”اللہ جس (حکم) کو چاہتا ہے، منسوخ کر دیتا ہے، اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے۔ اور تمام کتابوں کی جو اصل ہے، وہ اسی کے پاس ہے“۔
میرے حضرت قبلی گاہی (پیر و مرشد) قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت سید محیی الدین جیلانی قدس سرہٗ نے اپنے بعض رسالوں میں لکھا ہے کہ "قضائے مبرم میں کسی شخص کو تبدیلی کی مجال نہیں ہے مگر مجھے ہے، اگر میں چاہوں تو اس میں بھی تصرف کر سکتا ہوں"۔ اور وہ اس بات پر بہت تعجب کرتے تھے اور بعید از فہم جانتے تھے۔ یہ بات مدت تک فقیر کے ذہن میں رہی یہاں تک کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس دولتِ عظمیٰ سے اس طرح مشرف فرمایا کہ ایک دن ایک بلیہ کے دفع کرنے کے درپے ہوا جو بعض دوستوں میں سے ایک دوست کے حق میں مقرر ہو چکی تھی۔ اس وقت بڑی التجا و عاجزی اور نیاز و خشوع کی تو (کشف و الہام سے) معلوم ہوا کہ لوحِ محفوظ میں اس امر کی قضا کسی امر کے ساتھ معلق اور کسی شرط پر مشروط نہیں ہے۔ اس بات سے ایک طرح کی یاس و نا امیدی ہو گئی اس وقت حضرت سید محیی الدین قدس سرہٗ کی بات یاد آئی تو دوبارہ پھر ملتجی اور متضرع ہوا اور بڑے عجز و نیاز سے متوجہ ہوا تب محض حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے کہ قضائے معلق (بھی) دو طرح پر ہے، ایک وہ کہ جس کا معلق ہونا لوحِ محفوظ پر ظاہر کر دیا گیا ہے اور فرشتوں کو (بھی) اس کی اطلاع دے دی گئی ہے، اور دوسری وہ قضا کہ جس کا معلق ہونا صرف حق تعالیٰ جل شانہ ہی کے علم میں ہے اور بس، اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے۔ قضائے معلق کی اس دوسری قسم میں پہلی قسم کی طرح تبدیلی کا احتمال ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت سید (محیی الدین) قدس سرہٗ کی بات بھی اسی اخیر قسم سے ہے جو قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے نہ کہ اس قضا پر جو حقیقت میں مبرم ہے کیونکہ اس میں تصرف و تبدل عقلی اور شرعی طور پر محال ہے جیسا کہ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ جب کسی کو اس قضا کی حقیقت پر اطلاع ہی بہت کم ہے تو پھر اس میں کوئی تصرف کیسے کر سکتا ہے اور اس آفت و مصیبت کو جو اس دوست پر پڑی تھی اس قسم اخیر میں پایا اور معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ نے اس بلیہ کو (اس فقیر کی التجا سے) رفع فرما دیا۔ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ وَ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَ یَرْضٰی وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَ التَحِیَّۃُ عَلٰی سِیِّدِ الْاَوَّلِیْنَ و الْآخِرِیْنَ خَاتَمِ الْأَنْبِیاءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ الَّذِيْ أَرْسَلَہٗ لِلْعٰلَمِیْنَ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عَلٰی جَمَیْعِ إِخْوَانَہٖ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَ الصِّدِّیِقِیْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَ الصَّالِحِیْنَ وَ الْمَلٰئِکَۃِ الْمُقَرَّبِیْنَ أَجْمَعِیْنَ۔ اَلَّلھُمَّ اجْعَلنَا مِنْ مُّحِبِّیْھِمْ وَ مُتَابِعِیْ اٰثَارِھِمْ بَرَکَۃَ ھَؤُلَآءِ الْکُبَرَآءِ وَ یَرْحَمُ اللہُ عَبْدًا قَالَ اٰمِیْنَا (اس بات پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد ہے، ایسی حمدِ کثیرَ طیب اور مبارک جیسی کہ ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے اور اولین و آخرین کے سردار انبیاء و مرسلین کے خاتم جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور آپ کی آل و اصحاب اور آپؐ کے تمام بھائیوں جو انبیا صدیقین شہدا اور صالحین ہیں اور تمام مقرب فرشتوں پر صلوٰۃ و سلام اور تحیۃ ہو۔ یا اللہ تو ہم کو ان بزرگوں کی برکت سے ان سب سے محبت کرنے والا ان کے آثار و افعال کا تابع دار بنا۔ اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو آمین کہے)۔
اب ہم اصل بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بعض اوقات بعض علومِ الہامی میں جو خطا ہو جاتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ بعض مسلمہ مقدمات جو صاحبِ الہام کے نزدیک ثابت ہیں اور نفس امر میں کاذب ہیں وہ علومِ الہامی سے ایسے خلط ملط ہو جاتے ہیں کہ صاحبِ الہام ان میں تمیز نہیں کر سکتا بلکہ تمام کے تمام علوم کو الہامی خیال کر لیتا ہے۔ لہذا ان علوم کے بعض اجزا میں غلطی ہونے کی وجہ سے لازمی طور پر مجموع علوم میں غلطی واقع ہو گی۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ (عارف) کشوف و واقعات میں امور غیبی کو دیکھتا اور خیال کرتا ہے کہ یہ ظاہر پر محمول ہیں اور صورت پر منحصر ہیں تو اس خیال کے مطابق حکم کرتا ہے اور غلطی واقع ہو جاتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ امور ظاہر سے پھرے ہوئے ہیں اور تاویل و تعبیر پر محمول ہیں۔ اس مقام پر بھی کشف سراسر غلط ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ جو کچھ قطعی اور اعتماد کے لائق ہے وہ صرف کتاب و سنت ہے جو کہ وحی قطعی سے ثابت ہیں اور فرشتے کے نازل ہونے سے مقرر ہوئے ہیں اور علماء کا اجماع اور مجتہدین کا اجتہاد بھی انہی دو اصلوں (کتاب و سنت) کی طرف راجع ہے۔ ان چار شرعی اصولوں کے علاوہ جو کچھ بھی ہو اگر ان اصول کے مطابق ہے تو مقبول ہے ورنہ نہیں اگرچہ وہ صوفیوں کے علوم و معارف سے ہوں یا ان کے الہام و کشوف سے ہوں۔ لہذا ان کے وجد و حال کو جب تک شرع شریف کے ترازو میں نہ تول لیں اس وقت تک ان کو نیم جَو سے بھی نہیں خریدتے اور ان کے کشوف و الہام کو جب تک کتاب و سنت کی کسوٹی پر نہ پرکھ لیں ان کو نیم جیتل کے برابر بھی پسند نہیں کرتے (یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں)
طریقِ صوفیہ کے سلوک سے مقصود یہ ہے کہ شرعی اعتقادات کی حقیقت پر جو حقیقتِ ایمان ہیں یقین زیادہ ہو جائے اور احکام شرعیہ کی ادائیگی میں آسانی (اور لطف) حاصل ہونے لگے اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے۔ رویت (دیدارِ الہی) کا وعدہ جو آخرت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ دنیا میں ثابت نہیں ہے، اور مشاہدات و تجلیات جن پر صوفیہ خوشی منا رہے ہیں وہ صرف ظلال سے آرام اور شبہ و مثال سے تسلی حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے وراء الوارء ہے۔
میں ڈرتا ہوں کہ اگر ان مشاہدات و تجلیات کی حقیقت کو جیسا کہ وہ ہیں بیان کروں تو اس راہ کے مبتدیوں کی طلب میں فتور پیدا ہو جائے اور ان کے شوق میں کمی آ جائے۔ میں اس سے بھی ڈرتا ہوں کہ اگر علم کے با وجود اس کو بیان نہ کروں تو حق کو باطل سے ملانے والا نہ ہو جاؤں۔ البتہ اس قدر اظہار کر دینا ضروری ہے کہ اس راہ کے مشاہدات و تجلیات کو حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے پہاڑ (کوہ طور) کی تجلی و شہود کی کسوٹی پر پرکھ لیں، اگر درست نہ نکلے تو مجبورًا اس کو ظلال اور شبہ و مثال پر محمول کرنا چاہیے تو پھر شاید درست ہوں کیونکہ تجلی سے مقصود دک و فک یعنی پارہ پارہ ہونا ہے اور دنیا میں اس سے چارہ نہیں ہے خواہ باطن پر متجلی ہو خواہ ظاہر پر، دک و فک ضروری ہے۔ البتہ خاتم الانبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات اس وصمہ (داغ) سے مستثنیٰ ہیں، آپ کو دنیا میں رویت (شب معراج میں) میسر ہوئی اور سرِ مو (بال برابر) بھی ہوش میں فرق نہ آیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کامل متبعین کو جو اس مقام سے بہرہ ور ہیں، ان کو بھی ظلال میں سے کسی ظل کے پردے کے بغیر رویت نہ ہو گی، صاحبِ تجلی سمجھے یا نہ سمجھے۔ جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ اس مشاہدے کے حال کی تجلی سے بے ہوش ہو گئے تو پھر دوسروں کی کیا حیثیت ہے۔
دوسرے یہ بھی جان لیں کہ بعض مخلصوں کو اجازت دینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح پر ایک جماعت کو گمراہی کے بھنور سے نکال کر حق جل و علا کے راستے میں رہنمائی کریں اور خود بھی ان طالبوں کے ساتھ (ذکر میں) مشغول رہیں اور ترقیات حاصل کریں اور اس تعلق پر خوب غور کر کے کوشش کریں تا کہ ان کی اپنی بقایا بری عادتیں دور ہو جائیں اور مرید و مسترشد دونوں اس دولت سے مشرف ہو سکیں نہ کہ یہ اجازت کمال و تکمیل کے وہم میں ڈال کر مقصود سے باز رکھے۔ وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ إِلَّا الْبَلَاغُ (قاصد کا کام پیغام پہنچا (دینا ہے)۔ و السلام۔
1 آپ کے نام گیارہ مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 122 پر ملاحظہ ہو۔
2 احادیث کا ماخذ بیان کرنے والوں کے نزدیک یہ روایت باطل ہے بلکہ جاہلوں کی من گھڑت ہے، اس لئے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے اس کو رد کرتے ہوئے فرمایا: "و ایں فقیر ایں نقل را نمی پسندد و تجویزِ خطا بر جبرئیلِ امین علیہ السلام نمی ماند...الخ"