دفتر 1 مکتوب 212: سوالات کے جواب میں اور واقعہ کے حل میں

مکتوب 212

مولانا محمد صدیق بدخشی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ ان سوالات کے جواب میں جو انہوں نے دریافت کئے تھے اور اس واقعہ کے حل میں جو انہوں نے دیکھا اور لکھا تھا۔

آپ کے دو مکتوب مرغوب پے در پے موصول ہو کر خوشی پر خوشی کا باعث ہوئے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ سید المرسلین علیہ و علی آلہ و علیہم الصلوات و التسلیمات أتمہا و أکملہا کے طفیل بے انتہا ترقیات عطا فرمائے۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ صاحبِ تصرف پیر (شیخ) کسی مستعد مرید کو اپنے تصرف سے اس کی قابلیت سے زیادہ بلند مرتبے پر پہنچا سکتا ہے یا نہیں؟

ہاں پہنچا سکتا ہے لیکن صرف ان بلند مراتب پر پہنچا سکتا ہے جو اس کی استعداد کے مناسب ہوں نہ کہ ان مراتب پر جو اس کی استعداد کے مناسب نہ ہوں۔ مثلًا کسی مرید کی استعداد ولایتِ موسوی ہے اور اس کی استعداد کی قوت کی انتہا اس ولایت (موسوی) کی آدھی منزل تک ہے تو پیر صاحبِ تصرف اس کو اپنے تصرف سے اس ولایت کے درجات کی آخری منزل تک پہنچا سکتا ہے، لیکن اس کو ولایتِ موسوی سے ولایتِ محمدی میں لائے اور عروج و ترقی دے، ایسا واقعہ ہمارے علم میں نہیں ہے۔

اور آپ نے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ وہ کون سا مرتبہ ہے جس میں (لطیفہ) اخفیٰ جو انسان کے لطیف ترین لطیفوں میں سے ہے، نفسِ امارہ کا حکم رکھتا ہے اور دنائیت و خساست (ذلالت و کمینگی) میں اس کے ساتھ مناسبت پیدا کر لیتا ہے۔ میرے بھائی کو معلوم ہو کہ (لطیفہ) اخفیٰ اگرچہ لطیف ترین لطائف میں سے ہے لیکن دائرۂ امکان میں داخل ہے اور حدوث کے داغ سے داغ دار ہے، جب سالک دائرہ امکان سے باہر قدم رکھتا ہے اور وجوب کے مراتب میں سیر کرتا ہے اور ظلالِ وجوبی سے ان کے اصلوں میں پہنچتا ہے اور صفت و شان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے تو لازمًا "ممکن" اس (سالک) کی نظر میں خوار و بے اعتبار نظر آتا ہے، اور اس کے احسان و لطف کو کمینگی اور ذلالت میں برابر دیکھتا ہے اور نفس و اخفیٰ کو اس مقام میں "تَوْأَمَیْنِ" (جڑواں بچوں کی طرح) یکساں خیال کرتا ہے۔

اور آپ نے لکھا تھا کہ (آپ کے) واسطے سے یا بلا واسطہ ہم نے یہ بات سنی ہے کہ عبادت کے وقت حق سبحانہٗ کو حاضر (و ناظر) دیکھ کر عبادت کرنا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے تنزل کا باعث ہے، بندے کی طرح عبادت کرنی چاہیے یعنی اس ذات پاک کو حاضر جان کر عبادت کرنا بے ادبی میں داخل ہے۔ اے محبت کے نشان والے! مجھے معلوم نہیں کہ اس قسم کی بات اس فقیر سے سر زد ہوئی ہو، کسی دوسری جگہ دیکھا ہو گا۔

اور وہ واقعہ جو آپ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کو واقعہ میں دیکھا ہے، بہت نیک ہے اور اصلیت رکھتا ہے۔ پانی سے مراد علم ہے اور اس کے اندر ہاتھ ڈالنا علم میں قدرت (مہارت) کا حاصل کرنا ہے اور حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی شرکت اس حصول کے معنی میں تاکید کا حکم رکھتی ہے، کیونکہ آپ (حضرت آدم علیہ السلام) حضرتِ رحمٰن جل شانہٗ کے شاگرد ہیں۔ (جیسا کہ ارشاد باری ہے) ﴿وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّھَا﴾ (البقرۃ: 31) ترجمہ: ”اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیئے“۔

خلاصہ یہ کہ اس (واقعہ میں) علم سے مراد علمِ باطن ہے بلکہ علمِ باطن کی بھی وہ ایک قسم جس کی مناسبت حضرات اہل بیت علیہم الرضوان سے مناسبت رکھتی ہے۔ وَ الْبَاقِيْ عِنْدَ التَّلَاقِيْ (باقی بوقت ملاقات)۔ و السلام

؂1 آپ کے نام 12 مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 132 کے فٹ نوٹ میں ہو چکا ہے۔