دفتر 1 مکتوب 144: سیر و سلوک کے معنی اور سیر الی اللہ و سیر فی اللہ اور دیگر دو سیروں کے بیان میں جو ان دو سیروں کے علاوہ بعد میں ہیں

مکتوب 144

حافظ محمود لاہوری؂1 کی طرف صادر فرمایا، سیر و سلوک کے معنی اور سیر الی اللہ و سیر فی اللہ اور دیگر دو سیروں کے بیان میں جو ان دو سیروں کے علاوہ بعد میں ہیں۔

حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ بطفیل حضرت سید البشر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و التسلیمات جو کجیٔ نظر سے پاک ہیں، آپ کے درجات کمالات میں بے حد ترقیات عطا فرمائے۔

از ہر چہ می رود سخنِ دوست خوش تر است

ترجمہ:

دوست کی بات کہیں سے ہو بہت اچھی ہے

سیر و سلوک حرکت در علم (یعنی انتقالِ علمی) سے مراد ہے جو کہ مقولۂ کیف؂2 سے ہے حرکتِ أَیْنَی (یعنی انتقالِ مکانی) کی یہاں گنجائش نہیں ہے، پس سیر الی اللہ حرکتِ علمیہ سے مراد ہے جو کہ علمِ اسفل سے علمِ اعلیٰ تک ہوتی ہے اور اس اعلیٰ سے دوسرے اعلیٰ تک حتیٰ کہ ممکنات کے علوم پورے طور پر طے کرنے اور کلی طور پر ان کے زائل ہو جانے کے بعد واجب تعالیٰ کے علم تک منتہی ہو جاتی ہے اور یہ وہ حالت ہے جو فنا سے تعبیر کی جاتی ہے۔ سیر فی اللہ سے وہ حرکتِ علمیہ مراد ہے جو مراتبِ وجوب یعنی اسماء و صفات، شیون و اعتبارات اور تقدیسات و تنزیہات میں ہوتی ہے یہاں تک کہ اس مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے جس کو کسی عبارت سے تعبیر نہیں کر سکتے اور نہ اس کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے، اور نہ کسی نام سے اس کو موسوم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کنایہ سے اس کا اظہار ہو سکتا ہے، اور نہ کوئی عالم اس کو جان سکتا ہے اور نہ کوئی مدرک اس کا ادراک کر سکتا ہے، اس سیر کا نام بقا رکھا گیا ہے۔

اور سیر عن اللہ باللہ جو تیسری سیر ہے، اس سے بھی وہ حرکتِ علمیہ مراد ہے جو کہ علمِ اعلیٰ سے علمِ اسفل کی طرف نیچے آتی ہے اور اسفل سے اسفل کی طرف یہاں تک کہ ممکنات کی طرف پسِ پا (پیچھے کی طرف) رجوع کرتی ہے اور تمام مراتبِ وجوب کے علوم سے نزول کرتی ہے۔ یہ وہ عارف ہے جو اللہ تعالٰی کے ساتھ وابستہ ہو جانے کی وجہ سے سب کچھ بھلانے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے۔ وہ واجد فاقد (پانے والا گم کرنے والا) اور واصل مہجور (ملنے والا فراق زدہ) اور قریب بعید (نزدیک دور) ہوتا ہے۔

چوتھی سیر جو کہ اشیاء میں سیر (سیر فی الاشیاء باللہ) ہے اس سے مراد یکے بعد دیگرے اشیاء کے علوم کا حاصل ہونا ہے، جب کہ تمام اشیاء کے علوم سیرِ اول میں ضائع ہو چکے تھے۔

پس سیرِ اول، سیرِ چہارم کے بالمقابل ہے اور سیرِ سوم، سیرِ دوم کے بالمقابل جیسا کہ بیان ہوا، اور سیر الی اللہ اور سیرِ فی اللہ نفسِ ولایت کے حاصل کرنے کے لئے جس کو فنا و بقا سے تعبیر کیا جاتا ہے اور تیسری اور چوتھی سیر مقامِ دعوت کے حصول کے لئے ہے جو کہ انبیائے کرام و رسلِ عظام صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہٗ علیٰ جمیعہم عموماً و علیٰ افضلہم خصوصًا کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کے کامل متبعین کو بھی ان بزرگواروں علیہم الصلوات و التسلیمات کے مقام سے حصہ حاصل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ ھذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْآ إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (يوسف: 108) ترجمہ: ”(اے پیغمبر) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی“۔ یہ بیان ابتدا اور انتہا سے متعلق ہے جس کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ اس (اللہ تعالیٰ) کا ذکر بلند کرنا اور طالبانِ حق کے اندر شوق پیدا کرنا ہے۔

بر شکر غلطید اے صفرائیاں

از برائے کوریٔ سودائیاں

ترجمہ:

خوب لوٹو قند پر صفرائیو

جب تلک دیکھے نہ سودائی تمہیں

اور ان لوگوں پر سلامتی ہو جو ہدایت کی اتباع کریں اور آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کو لازم کر لیں۔

؂1 آپ کے نام تین مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب 144، 175 اور 280۔ آپ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے مخلص احباب میں سے تھے، حضرت نے آپ کو مقام ولایت کے اعلی درجے کی خوش خبری دی۔

؂2 کیف در اصل اس عرض کا نام ہے جس کا تصور و تعقل غیر کے تصور و تعقل پر منحصر نہ ہو۔ جو اقتضاءِ اولی کے لحاظ سے تقسیم یا عدمِ تقسیم کے متقاضی نہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی اقسام ہیں جیسے کیفیت راسخہ اور غیر راسخہ اور کیفیات نفسانیہ۔ علم صحیح مذہب کے مطابق مقولۂ کیف سے ہے جیسا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا۔