مکتوب 140
ملا محمد معصوم کابلی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ رنج و محنت محبت کے لوازمات میں سے ہے۔
اے محبت کے نشان والے! رنج و محنت، محبت کے لوازمات میں سے ہے، فقر کے اختیار کرنے میں درد و غم کا ہونا ضروری ہے۔ بیت:
غرض از عشق تو ام، چاشنئ درد و غم است
ورنہ زیرِ فلک اسباب تنعم چہ کم است
ترجمہ:
چاشنی غم کی ترے عشق سے حاصل ہے مجھے
ورنہ دنیا میں تعیش کی کمی کوئی نہیں
دوست (حقیقی) رنج و پراگندگی چاہتا ہے تا کہ اس کے غیر سے پورے طور پر انقطاع حاصل ہو جائے اس مقام میں آرام بے آرامی میں ہے، اور ساز سوز میں اور قرار بے قراری میں، اور راحت جراحت میں یعنی زخمی ہونے میں ہے۔ اس مقام میں فراغت طلب کرنا اپنے آپ کو رنج میں ڈالنا ہے۔ (لہذا) اپنے آپ کو پورے طور پر محبوبِ (حقیقی) کے سپرد کر دینا چاہیے اور جو کچھ اس کی طرف سے آئے اس کو نہایت خوشی سے قبول کرنا چاہیے اور اپنے ابرو نہیں پھیرنے چاہئیں (یعنی منھ نہیں بنانا چاہیے) زندگی گزارنے کا طریقہ اسی روش میں ہے، جہان تک ہو سکے استقامت اختیار کریں ورنہ سستی (بڑھاپا) آپ کا تعاقب کر رہی ہے۔ آپ (کے ذکر و اذکار) کی مشغولیت بہت اچھی ہو گئی تھی لیکن قوی ہونے (کمال کو پہنچنے) سے پہلے ہی کمزور ہو گئی، مگر کچھ غم نہیں۔ اگر اپنے آپ کو ان ترددات سے تھوڑا سا بھی جمع کر لیں تو پہلے سے بھی بہتر ہو جائے گی۔ تفرقے کے ان اسباب کو عین جمعیت کے اسباب جانیں تاکہ اپنا کام کر سکیں۔ و السلام
1 آپ کے نام دو مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب 140 اور 183۔ آپ علومِ حکمیہ کے بہت بڑے عالم تھے، مخدوم زادہ کلاں خواجہ محمد صادق نے علومِ حکمیہ آپ ہی سے پڑھے تھے۔ سنہ 1026ھ میں انتقال ہوا۔