مکتوب 127
ملا صفر احمد رومی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ والدین کی خدمت ہر چند حسنات میں سے ہے لیکن مطلوب حقیقی تک پہنچنے کے مقابلے میں محض بے کاری اور خالص معطلی بلکہ برائی میں داخل ہے، حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ اور اس کے مناسب بیان میں۔
(آپ کا) پسندیدہ مکتوب موصول ہوا، (یہاں آنے کے بارے میں) توقف کا جو عذر (والدین کی خدمت) آپ نے بیان کیا ہے وہ صحیح و درست ہے (اور اس سلسلے میں) اس سے بھی زیادہ جس قدر ہو سکے کرنا چاہیے (اور اس سب کے با وجود) اپنے آپ کو قصور وار اور کوتاہِ عمل سمجھنا چاہیے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْھًا﴾ (الأحقاف: 15) ترجمہ: ”اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے بڑی مشقت سے اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا، اور بڑی مشقت سے اس کو جنا“۔ پھر دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿أَنِ اشْکُرْ لِيْ وَ لِوَالِدَیْکَ﴾ (لقمان: 14) ترجمہ: ”کہ تم میرا شکر ادا کرو، اور اپنے ماں باپ کا“۔ اس کے با وجود اعتقاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب کچھ مطلوب حقیقی تک پہنچنے کے مقابلے میں محض بے کار ہے بلکہ منازل سلوک کے طے کرنے میں ایک طرح کا تعطّل ہے۔ حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (ابرار کی نیکیاں مقربین کی برایئاں ہیں) آپ نے سُنا ہو گا۔ بیت
ہر چہ جزِ عشق خدائے احسن است
گر شکر خوردن بود جان کندن است
ترجمہ:
جو بھی ہے عشق الہٰی کے سوا
اُس میں ہے زہرِ ہلا ہل کا مزہ
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا حق تمام مخلوقات کے حقوق پر مقدم ہے، اور ان (والدین) کے حقوق کی ادائیگی بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے حکم کی فرماں برداری کی وجہ سے ہے ورنہ کس کی مجال ہے کہ اس کی خدمت کو چھوڑ کر دوسرے کے خدمت میں مشغول ہو، لہذا ان کی خدمت حق تعالیٰ ہی کی خدمت میں سے ہے، اگرچہ خدمت، خدمت میں بڑا فرق ہے۔ کاشت کار اور ہل چلانے والے بھی بادشاہوں کے خادم شمار ہوتے ہیں لیکن مقربین کی خدمت کچھ اور ہی چیز ہے۔ ان کے نزدیک کھیتی باڑی اور ہل چلانے کا نام لینا بھی معصیت میں داخل ہے۔ ہر کام کی اجرت اس کام کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ ہل چلانے والے کو سخت محنت کے بعد ایک ٹکا مزدوری کا ملتا ہے لیکن مقرب حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی حضوری حاصل ہونے کی ایک ساعت میں لاکھوں کا مستحق بن جاتا ہے اگرچہ اس کو لاکھوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو صرف بادشاہ (حق تعالیٰ) کے قرب میں گرفتار ہے اور بس شَتَّانَ بَیْنَھُمَا (ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے) فرخ حسین کافی ترقی حاصل کر چکا ہے اس کی طرف سے مطمئن رہیں، زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام
1 آپ کے نام دو مکتوب ہیں ایک تو یہی، اور دوسرا دفتر سوم کا 65 واں مکتوب۔ میر صفر احمد رومی رحمۃ اللہ علیہ صحیح النسب سید اور روم کے اکابر مشائخ میں سے تھے، زیارت حرمین شریفین کے شوق میں جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت و بشارت پر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کے شوق میں چل دیئے۔ سنہ 1012ھ میں لاہور پہنچے تو حسنِ اتفاق کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ بھی لاہور میں تشریف فرما تھے، آپ شرفِ بیعت حاصل کر کے تکمیلِ سلوک کے بعد خلافت و اجازت سے سر فراز ہوئے، بعد ازاں 27 ذی الحجہ سنہ 1021ھ کو آپ کی دختر نیک اختر سے حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہٗ کی شادی ہوئی اور سنہ 1040ھ میں سر ہند شریف میں آپ کا انتقال ہوا۔