دفتر 1 مکتوب 125: اس بیان میں کہ خواہ عالمِ صغیر ہو یا عالمِ کبیر سب حق تعالیٰ شانہٗ کے اسماء اور اس کی صفات کے مظاہر ہیں اور عالم کی اپنے صانع کے ساتھ سوائے مخلوقیت اور مظہریت کی نسبت کے اور کوئی مناسبت نہیں ہے اور اس کے مناسب احوال کے بیان میں

دفتر اول مکتوب 125

میر صالح نیشا پوری؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ خواہ عالمِ صغیر ہو یا عالمِ کبیر سب حق تعالیٰ شانہٗ کے اسماء اور اس کی صفات کے مظاہر ہیں اور عالم کی اپنے صانع کے ساتھ سوائے مخلوقیت اور مظہریت کی نسبت کے اور کوئی مناسبت نہیں ہے اور اس کے مناسب احوال کے بیان میں۔

اَللَّھُمَ أَرِنَا حَقَائِقَ الْأَشْیَاءِ کَمَا ھِيَ (یا اللہ! اشیاء کی حقیقتیں جیسی کہ وہ ہیں ہم پر ظاہر فرما۔ (آمین)، خواہ عالمِ صغیر (انسان) ہو یا عالمِ کبیر (پوری کائنات) سب حق تعالیٰ شانہٗ کے اسماء و صفات کے مظاہر ہیں اور اس کے شیون وکمالات کے آئینے ہیں۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ عز سلطانہٗ ایک مخفی خزانہ اور پوشیدہ راز تھا، اس نے چاہا کہ اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر فرمائے اور اجمال کو تفصیل کے رنگ میں لائے چنانچہ اس نے عالم کو ایسی نہج پر پیدا فرمایا کہ عالم کی ذوات و صفات حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی ذات و صفات پر دلالت کرنے والی بن جائیں۔ پس عالم کو اپنے صانع کے ساتھ سوائے مخلوق ہونے کے اور کوئی نسبت نہیں، اور (یہ کائنات) اُس (حق تعالیٰ) کے اسماء و شیونات پر دلالت کرنے والے (امور کا مجموعہ) ہے۔ (خالق اور مخلوق کے درمیان) اتحاد و عینیت؂2 و نسبت احاطہ و سریان و معیتِ ذاتیہ (وغیرہ تمام احوال) غلبۂ حال اور سکرِ وقت کی بنا پر ہیں (جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں)۔ مستقیم الاحوال اکابرین جنہوں نے صحو کے پیالے سے ایک گھونٹ پی لیا ہے وہ عالم کی اپنے صانع کے ساتھ سوائے مخلوقیت اور مظہریت کی نسبت کے اور کوئی نسبت ثابت نہیں کرتے اور احاطہ و سریان اور معیت کو علمی جانتے ہیں، جیسا کہ علمائے حق کا مسلک ہے شَکَرَ اللّٰہُ تَعَالیٰ سَعْیَھُمْ۔ تعجب ہے کہ صوفیاء کی ایک جماعت ایک طرف تو بعض ذاتی نسبتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے احاطہ (گھیر لینا) اور معیت (ساتھ ہونا) اور دوسری طرف اس بات کے قائل ہیں کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی ذات سے تمام نسبتیں مسلوب ہیں حتٰی کہ صفاتِ ذاتیہ بھی اس سے سلب کر لی جاتی ہیں۔ پس یہ تناقض کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اور اس تناقض کو دُور کرنے کے لئے ذاتِ (حق) میں مراتب کا اثبات ظاہر کرنا فلسفی تحقیقات کی مانند بے جا تکلف ہے۔ صحیح کشف والے حضرات حق تعالیٰ کی ذات کو بسیطِ حقیقی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے اور اس (بسیط ذات) کے علاوہ جو کچھ ہے اُسے اسماء (صفات) میں شمار کرتے ہیں۔ فرد

فراق دوست اگر اندک است اندک نیست

درونِ دیدہ اگر نیم موست بسیار است

ترجمہ:

ہجر اُس کا نہیں تھوڑا، وہ بہت ہے مجھ کو

آنکھ میں بال ہو آدھا تو وہ ہو گا شہتیر

اس بحث کی تحقیق کے لئے ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ ایک عالمِ بے بدل بہت سے فنون والا اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو حروف و آواز کو ایجاد کرتا ہے تاکہ ان حروف و آواز کے ذریعے اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کرے۔ لہذا اس صورت میں یہ حروف اور دلالت کرنے والی آوازوں کو ان پوشیدہ معانی کے ساتھ کوئی نسبت نہیں، سوائے اس کے کہ یہ حروف اور آوازیں پوشیدہ معانی کے مظاہر اور چھپے ہوئے کمالات کے آئینے ہیں۔ حروف اور آوازوں کو ان خفیہ معانی کا عین قرار دینا، بے معنی بات ہے، اور اس صورت میں احاطہ اور معیت کا حکم لگانا واقع کے خلاف ہے۔ معانی اپنی ذات و صفات کے ساتھ پوشیدہ اور قائم ہیں، ان کی ذات و صفات میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔ لیکن چونکہ ان حروف و آوازوں کے معانی کے درمیان ایک قسم کی دالیت اور مدلولیت کی نسبت ثابت ہے اس بنا پر بعض زائد معانی جو ہمارے تخیل ہیں آتے ہیں فی الحقیقت وہ پوشیدہ معانی سے منزہ اور مبرا ہیں۔

اور جو کچھ اس مسئلے میں ہمارا اعتقاد ہے (وہ مذکور ہو چکا۔ پس مخلوق میں) مظہریّت و مراتیّت کے علاوہ کسی اور امرِ زائد مثل اتحاد، عینیت، احاطہ اور معیت کا ثابت کرنا سکر کی وجہ سے ہے ورنہ ذات حق سبحانہٗ و تعالیٰ در حقیقت اس سے پاک ہے اور نسبت سے مبرا ہے۔ مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ الْأَرْبَابِ (چہ نسبت خاک را با عالم پاک، خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)۔

ظاہریت (حق تعالیٰ کا ظاہر ہونا) اور مظہریت (مخلوق کا مظہر ہونے) کی اس قدر مناسبت کے با وجود وحدتِ وجود کہیں یا نہ کہیں، حقیقتًا متعدد وجود ہیں، لیکن اصالت اور ظلّیت، ظاہریت و مظہریت کے طریق سے نہیں بلکہ ایک وجود ہے اور اُس کے علاوہ اوہام و خیالات ہیں۔ یہ بعینہ سوفسطائیہ؂3 کا مذہب ہے، عالم کی حقیقت کا اثبات عالم کے اندر تلاش کرنا اوہام و خیالات سے خارج نہیں ہے جو سوفسطائیت کا مقصود ہے۔ مثنوی

چوں بدانستی تو او را از نخست

سوئے آنحضرت نسب کردی درست

وانگہ دانستی کہ ظلّ کیستی

فارغی گر مردی وگر زیستی

ترجمہ:

گر تجھے پہلے سے ہوتی کچھ شناخت

اُس سے نسبت اپنی کر لیتا درست

جان لے اب بھی کہ کس کا ظل ہے تُو

پھر تو فارغ، کام پھر تیرا ہے چُست

؂1 میر صالح نیشا پوری کے نام صرف دو مکتوب ہیں یعنی 125 اور 126، دیگر حالات معلوم نہ ہو سکے۔

؂2 یعنی حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ساتھ مل کر مخلوق کو عین حق کر لیا ہے اور مخلوق کا احاطہ کر کے اس میں سرایت ہو کر ذاتِ حق بنا لیا ہے۔

؂3 سوفسطائیہ کے مذہب کی بنیاد وہم پرستی پر مبنی ہے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے سوفسطائیہ اور صوفیاء کے مذہب کے تحت مزید تحقیق دفتر دوم کے مکتوب اول اور چوالیس میں کی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔