مکتوب 117
ملا یار محمد قدیم بدخشی1 کی جانب صادر فرمایا۔اس بیان میں کہ ابتدا میں قلبِ حسّ (ادراک) کی تابع داری کرتا ہے اور انتہا میں یہ تابع دای نہیں رہتی۔
مولانا یار محمد بھولے نہیں ہوں گے کہ ایک مدت تک قلبِ حس (ادراک) کے تابع رہتا ہے پس لا محالہ جو کچھ حس سے دور ہے وہ قلب سے بھی دور ہے۔ حدیث شریف: "مَنْ لّْم یَمْلِکْ عَیْنَہٗ فَلَیْسَ الْقَلْبُ عِنْدَہٗ" ترجمہ: ”جس شخص کی آنکھ اس کے اپنے قبضے میں نہیں ہے اس کا دل بھی اس کے قابو میں نہیں ہے“۔
اس حدیث میں اس مرتبے کی طرف اشارہ ہے۔ اور نہایتِ کار (سلوک کی انتہا) میں جب قلب حس کی تابع داری میں نہیں رہتا تو حس کی دوری قلب کی نزدیکی میں اثر انداز نہیں ہوتی لہذا مشائخ طریقت مبتدی اور متوسط کو شیخِ کامل کی صحبت سے مکمل طور پر مفارقت (جدا رہنے کو) تجویز نہیں فرماتے۔ غرض کہ بحکم مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ (یعنی جو چیز پوری حاصل نہ ہو سکےاس کو بالکل ترک نہیں کر دینا چاہیے) کے مطابق اسی طریقہ پر کار بند رہیں اور نا جنس (یعنی غیر مشرب لوگوں) کی صحبت سے پوری طرح پرہیز کریں۔
میاں شیخ مزمل کی تشریف آوری کو سعادت کا پیش خیمہ سمجھ کر ان کی صحبت کو غنیمت جانیں اور اکثر اوقات ان کی صحبت میں رہیں کیونکہ شیخ موصوف بہت عزیز الوجود شخصیت ہیں، و السلام۔
1 ملا یار محمد قدیم بدخشی کے نام دو مکتوب ہیں: دفتر اول مکتوب 117 اور 211۔ آپ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے قدیم مرید اور ممتاز خلفاء میں سے تھے اور قائم اللیل، صائم النہار، کثیر السکوت و المراقبۃ تھے۔ حضرات نقشبندیہ کی بعض خصوصیات آپ کی پیشانی سے ظاہر ہوتی تھیں۔ خوش سیرتی کے ساتھ خوب صورت بھی تھے۔ سنہ 1046ھ میں حج کی سعادت سے مشرف ہوئے پھر اکبر آباد (آگرہ) میں سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا ۔